سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر ہونے اور انہیں ان کے عہدہ سے ہٹانے کے بعد پاکستان بھر میں کھلبلی مچ گئی۔آئین اور قانون کے ماہرین اس ا قدام پر اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں۔اکثریت کا خیال ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے کچھ پرانے فیصلوں پر اپنے اور اپنے وزیر اعظم کے غم و غصہ کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ مستقبل میں ایک آئینی بحران سے نمٹنے کے لئے یہ پیش بندی کی ہے۔لیکن قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ پیش بندی خود جنرل مشرف کے لئے ایک نئے آئینی بحران کا پیش خیمہ بن جائے گی۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے کردار کی تاریخ نہ صرف یہ کہ روشن نہیں رہی بلکہ ملک میں فوجی تسلط کی تاریکی کو بڑھانے میں اول روز سے مدد گار رہی ہے۔اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج صاحبان کا کردار جسٹس منیر کے” نظریۂ ضرورت“سے لے کر جمہوری اور عوامی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل تک اور پھربعد میں بھی فوجی حکمرانوں کے اقتدار کو قانونی جواز فراہم کرنے تک اتنا شرمناک رہا ہے کہ عدلیہ کا تقدس بھی اسی طرح پامال ہو کر رہ گیا ہے جیسا کہ خود پاک فوج کا تقدس چند جرنیلوں کی سیاست میں بار بار کی دخل اندازی اور اقتدار کی ہوس کی وجہ سے پامال ہوتا جا رہا ہے۔
آزاد ججوں کا حال بھی اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب پاکستان میں سرِ عام یہ باتیں ہوتی ہیں کہ کوئی مشکل کیس ہے تو بجائے کوئی اچھا سا وکیل کرنے کے براہِ راست کوئی اچھا سا جج کر لو۔پھرپی سی او کے تحت حلف اُٹھا نے والے سارے جج صاحبان تو ویسے بھی کوئی ایسا اخلاقی جواز نہیں رکھتے کہ ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے لیکن اتنے جکڑے ہوئے حلف کے باوجود جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلا شبہ بعض ایسے دلیرانہ اور عوامی نوعیت کے فیصلے کئے کہ ہر کسی کو انصاف ہوتا دکھائی دیا۔چیف جسٹس کے اہم ترین فیصلوں میں پاکستان سٹیل مل کی نجکاری کے خلاف فیصلے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔یہ نجکاری وزیر اعظم شوکت عزیز کے ایما پرہوئی تھی۔ ان کے دوست عارف حبیب اس مل کے خریدار تھے جسے کوڑیوں کے بھاو
¿ بیچا جا رہا تھا۔اسٹاک ایکسچینج کے بحران میں جن بارہ کمپنیوں کے نام سامنے آئے تھے ان میں بھی وزیر اعظم شوکت عزیز کے دوست عارف حبیب کی کمپنی سرفہرست تھی۔
سو ملک کو بد معاشی کی بجائے”معاشی اصلاحات“کے ذریعے لوٹنے والوں کے نام کھل کر سامنے آگئے۔اس فیصلہ کے علاوہ انہوں نے انسانی حقوق کے حوالے سے بعض اہم فیصلے کئے،اخبارات میں خبریں آنے پر از خود نوٹس لے کر کئی اہم کیس شروع کرائے اور انصاف کی فراہمی کو کسی حد تک ممکن بنایا ۔ سینکڑوں کی تعداد میں شہریوں کے لاپتہ ہونے پر ایجنسیوں کی طرف انگلیاں اٹھائی جانے لگیں توچیف جسٹس نے اس سلسلہ میں بھی حکومت پر عدالتی دباو
¿ ڈالا،سخت ریمارکس دئیے اور ان کی بازیابی کو کافی حد تک ممکن بنا دیا۔بسنت پر چیف جسٹس کی سخت پابندی، جنرل پرویز مشرف کو پچاس سال تک وردی میں صدر منتخب کروانے کے دعویدار”جمہوری“ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو ناگوار گزری تھی اور انہوں نے اسی فروری میں اس کے خلاف انتظامی حکم جاری کروا کے اپنی طاقت کا تماشہ دکھادیا تھا۔اس سرکاری تماشہ میں بارہ بچوں اور بڑوں کی دھاتی ڈور پھرنے سے یا ہوائی فائرنگ سے اموات ہوئیں۔تاہم سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ تھوڑا عرصہ قبل ڈیفنس سٹاف کالج کا ایک وفدمطالعاتی دورے پر آیا تو ان کی چیف جسٹس سے ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں ان سے سوال کیا گیا کہ کیا موجودہ اسمبلیاں(جن کی مدت اسی سال ختم ہورہی ہے)اگلے پانچ سال کے لئے صدر کا انتخاب کر سکتی ہیں؟اس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مسئلہ بحث طلب ہے۔ پارلیمنٹ اور میڈیا میں اس پر بحث ہو رہی ہے،اس لئے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔جنرل پرویز مشرف اپنی حمایت میں غیر قانونی اور غیر آئینی جواب چاہتے تھے،وہ انہیں نہیں ملا تو پچھلے سارے حسابات جوڑ کر انہیں ہٹانے کے لئے ”فوجی کاروائی“کر دی گئی۔ چیف جسٹس چوہدری محمد افتخار کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے یہ”فوجی کاروائی“ہے۔
مجھے ذاتی طور پر جنرل پرویز کے اس اقدام سے سخت ذہنی صدمہ پہنچا ہے کہ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو صدارتی محل میں بلانے کی بجائے (صدارتی کیمپ)آرمی ہاو
¿س میں طلب کیا اور وہاں باوردی بیٹھ کر عدالتِ عظمیٰ کی توہین کی ۔اس ملاقات کی فلم کسی نجی ٹی وی نے تیار نہیں کی تھی ۔ اسے جنرل پرویز مشرف نے بڑے اہتمام کے ساتھ ریلیز کروایا۔اور اسی فلم کی وجہ سے عوام میں سب سے زیادہ غم وغصہ پیدا ہوا۔جنرل پرویز مشرف جس فلم کو ”رعب“جمانے کا موجب سمجھ رہے تھے ،وہ اب ان کے لئے ”روگ “ بن چکی ہے۔مجھے ان لوگوں سے اتفاق ہے،جو یہ کہتے ہیں کہ یہ اقدام سپریم کورٹ پر ”صدارتی حملہ“ ہے،بس مجھے یہ ترمیم کرنی ہے کہ یہ صدر کا نہیں آرمی چیف کا عدالتِ عظمیٰ پر حملہ ہے۔باقی جہاں تک چیف جسٹس پر لگائے جانے والے الزامات کا تعلق ہے،جنرل مشرف کے ارد گرد کے مگرمچھوں کے کردار کو دیکھتے ہوئے وہ اتنے فضول الزام لگتے ہیں کہ ان پر بات کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جنرل پرویز مشرف اپنی طرف کی کالی سیاہ بھینسوں کو تو نہیں دیکھ رہے لیکن ایک گائے کو ”کالی دُم والی“ ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خصوصی اضافہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج تیرہ مارچ کی تاریخ تک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف ریفرینس دائر کرنے کا بحران مزید سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔یہ کالم بھیجنے سے پہلے یہ اضافہ کر رہا ہوں۔اس دوران جو چند اہم واقعات ہوئے انہیں اختصار کے ساتھ ریکارڈ پر لا رہا ہوں۔
۱۔چیف جسٹس کو غیر فعال کرنے کے بعد انہیں ان کے گھر پر غیر اعلانیہ طور پر نظر بند کر دیا گیا۔تین دن کے بعد جب میڈیا نے صورتحال کو کافی حد تک بے نقاب کر دیا تو انہیں چند گنے چنے افراد سے ملنے کی اجازت دی گئی۔اور اب میڈیا کو دبانے کے لئے بعض ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کی جانے لگی ہے۔
۲۔عدالتِ عظمیٰ کی ویب سائٹ پر سے ان کا نام ہٹا دیا گیا۔لیکن جب یہ نکتہ ابھارا گیا کہ جب تک جوڈیشل کونسل ان کے خلاف فیصلہ نہیں دیتی تب تک وہ چیف جسٹس رہیں گے تو یہ کہہ کر ان کا نام اور تعارف بحال کر دیا گیا کہ کسی ٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے نام ڈیلیٹ ہو گیا تھا۔
۳۔چیف جسٹس کے گھر پر سے پاکستان کا اور سپریم کورٹ کا پرچم اتار دیا گیا،ان کی گاڑیاں واپس لے لی گئیں۔ان کے ٹیلی فون رابطے بند کر دئیے گئے۔پہلے تین روز تک انہیں اخبارات اور ٹی وی کی نشریات سے بھی محروم رکھاگیا۔اور اب انہیں ان کی فیملی سمیت اصل رہائش گاہ سے بلوچستان ہاو
¿س میں منتقل کردیاگیا ہے۔
۴۔ آج ۳۱مارچ کو جب چیف جسٹس نے جوڈیشل کونسل میں جوابدہی کے لئے پیدل جانا چاہا تو انہیں جبراً ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔پھر انہیں بلوچستان ہاو
¿س میں منتقل کر دیا گیا۔وہاں سے زبردستی پولیس نے ایک گاڑی میں بٹھا یا۔اس زبردستی میں چیف جسٹس کے ساتھ رینجرز والوں نے ہاتھا پائی بھی کی۔
۵۔جب بارہ گاڑیوں کے قافلہ میں چھپا کر چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کی عمارت کی طرف لے جایا گیا تو وہاں پہلے سے جمع ہوجانے والے وکلاءاور سیاسی جماعتوں کے رہنماو
¿ں اور کارکنوں نے انہیں پہچان لیا اور انہیں گاڑی سے نکال لیا۔گاڑی کے شیشے اور دروازے توڑ دئیے،رینجرز والوں کو ایک حد تک بے بس کر کے رکھ دیا۔اور اسی ہجوم کے گھیرے میں چیف جسٹس پیدل چلتے ہوئے عدالت کے دروازے تک ۰۱منٹ کا سفر آدھے گھنٹے میں طے کرکے پہنچے۔
۶۔چیف جسٹس کے حق میں حکومت کے اقدام کے خلاف پاکستان بھر کے وکلاءنے اتنا شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں وکلاءاس حد تک کبھی بھی یکجا نہیں ہوئے۔عدالتوں کا بائیکاٹ جاری ہے ۔ حکومت پاکستان نے اپنے ریفرینس کی پیروی کے لئے ریٹائرڈ جسٹس،سابق گورنر صوبہ سندھ اور ممتاز قانون دان فخرالدین جی ابراہیم کو مقرر کیا تھا لیکن فخرالدین جی ابراہیم نے اس صدارتی ریفرینس کی پیروی کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ان کا انکار حکومتی ریفرینس کے لئے اور خود حکومت کے لیے سخت دھچکا ہے۔
۷۔جوڈیشل کونسل نے آج کی پیشی پر نہ تو چیف جسٹس کو صدارتی ریفرینس کی مکمل کاپی دی ،نہ ہی دوسری دستاویزات کی مکمل کاپیاں دیں۔چیف جسٹس نے وہاں جوڈیشل کونسل میں شامل دو ججوں جسٹس افتخار حسین چوہدری اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی شمولیت پر اعتراض کیا۔دوسرے جج کا تو مجھے علم نہیں ہے لیکن پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس افتخار حسین چوہدری کے بارے میں یہاں اتنا بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ستمبر ۳۰۰۲ءمیں جب پوری قوم جنرل مشرف کے فوجی احکامات کے مجموعہ”ایل ایف او“ کو آئین کا حصہ ماننے سے انکار کر رہی تھی اور ان پر دباو
¿ تھا کہ کم از کم پارلیمنٹ سے اس کی رسمی منظوری لے لیں۔ تب ہائی کورٹ پنجاب کے انہیں چیف جسٹس صاحب نے کسی کے استفسار کے بغیر از خود یہ بیان دیا تھا ”ایل ایف او آئین کا حصہ بن چکا ہے،آئین کا تحفظ اور اس کی پاسداری عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔عدلیہ یہ ذمہ داری پوری کرتی رہے گی“۔۔۔میں نے تب اپنے ۸ستمبر ۳۰۰۲ءکے کالم میں اس خبر کا نوٹس لیا تھا اور طنزاً لکھا تھا یہ افتخار حسین چوہدری ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بجائے چوہدری شجاعت حسین کے قریبی عزیز لگتے ہیں۔اس سلسلے میں مزید دلچسپی والی بات یہ ہے کہ ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنانے کے لئے بالآخر جنرل مشرف کو پارلیمنٹ سے منظوری لینا پڑی۔انہوں نے علمائے کرام کے ووٹوں کے تعاون سے اسے منظور کرا لیا۔سو یہ وہ جسٹس افتخار حسین چوہدری ہیں جو جرنیلی احکامات کو کسی رسمی پارلیمانی کاروائی کے بغیر بھی آئین کا حصہ مان لیتے ہیں اور اس کے تحفظ کو اپنی اور عدلیہ کی ذمہ داری قرار دے لیتے ہیں۔
۸۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس چوہدری محمدافتخارکے وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے آج ٹی وی پر بتایا کہ جوڈیشل کونسل سے میں نے خصوصی طور پر کہا تھا اور جوڈیشل کونسل نے بڑی وضاحت کے ساتھ مجھے کہا تھا کہ وکیل کی حیثیت سے میں جب چاہوں چیف جسٹس سے مل سکتا ہوں۔لیکن جب میں انہیں ملنے کے لئے ان کے گھر پر گیا تو مجھے ان سے ملنے سے روک دیا گیا۔انہوں نے سرکاری وزراءکی موجودگی میں چیلنج کیا کہ چیف جسٹس کے گھر کے ٹیلی فون ابھی تک غیر منقطع ہیں۔وزیر کے تردید کرنے پر اعتزاز احسن نے کہا کہ آپ مجھے ان کا ٹیلی فون نمبر دیں جو بند نہ ہو،ابھی انہیں فون کرکے اس کی تصدیق یا تردید کر لیتے ہیں لیکن حکومت کے ترجمان وزیر اس کی جرات نہ کر سکے اور بحث کو دوسرے امور کی طرف موڑ کر لے گئے۔یوں ایک آئینی بحران آئینی کے ساتھ سیاسی بحران بھی بنتا جا رہا ہے۔
جنرل پرویز مشرف ایک ایسے آئینی اور اخلاقی سیاسی بحران میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کے لئے اسٹیل مل میگا کرپشن کے مرکزی کردار اور چیف جسٹس کے خلاف ریفرینس صدر کو بھیجنے والے وزیر اعظم شوکت عزیز کی حکومت کی برطرفی ضروری ہو گئی ہے۔ابھی تک مجھے تو ایسے لگ رہا ہے کہ شوکت عزیز کی چھٹی سے شاید کچھ بیچ بچاو
¿ ہو جائے۔لیکن گارنٹی پھر بھی نہیں دی جا سکتی۔
اگر مارشل لا لگا تو پھر شاید سارے نئے چہرے سامنے آئیں جو کرپٹ تو نہیں ہوں گے لیکن بے رحم ضرور ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل پرویز مشرف کے ایسے بیانات ہمیں ہمیشہ بہت اچھے لگتے ہیں جب وہ دبنگ انداز میں کہا کرتے ہیں کہ حکومت کی رٹ ہر حال میں قائم رکھی جائے گی۔اس رٹ کے مظاہر متعدد صورتوں میں دکھائی دیتے رہتے ہیں اور ان صورتوں کی چند جھلکیاں میرے گزشتہ کالموں میں بھی موجود ہیں۔اب حکومتی رٹ قائم رکھنے کے دعوے کے دوش بدوش راولپنڈی اور اسلام آباد کی خبریں یہ ہیں کہ وہاں بھی قبائلی علاقوں کی طرز پر ہینڈ بل تقسیم ہو گئے ہیں۔خواتین کے سلسلے میں متعدد احکامات صادر کئے گئے ہیں۔ایک حکم یہ ہے کہ گرلز اسکولوں اور کالجوں کی بچیاں اپنے اداروں میں جانا بند کر دیں اور گھروں میں بیٹھ جائیں ورنہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ فی الحال راولپنڈی کے پُر رونق بازاروں میں یہ کام شروع کر دیا گیا ہے کہ کسی طرف سے اچانک کوئی مولوی نما چیز آتی ہے۔جس خاتون نے دوپٹہ سر پر نہ لیا ہوا ہو اسے سرِ عام چھڑی مار کر تنبیہ کی جاتی ہے۔لیکن بات یہیں تک کی نہیں ہے،ان انتہا پسند عناصر کی جانب سے یہ انتباہ جاری کیا جا چکا ہے کہ مارچ کے بعد اسلام آباد میں جو عورت کار چلاتے ہوئے دکھائی دی اُسے اُڑا دیا جائے گا۔یہ حکومت پاکستان کے مرکزی شہر کی صورتحال ہے۔ ایسے میں جنرل پرویز مشرف کے حکومتی رٹ قائم رکھنے والے تحدی آمیز بیان کتنا مزہ دیتے ہیں،اسے صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جو خود اذیتی کی لذت سے آشنا ہوں۔
اسلام آباد میں بچوں کی ایک سرکاری لائبریری پر جامعہ حفصہ کی برقعہ پوش اور مسلح طالبات نے قبضہ کر رکھا ہے اور اتنی مدت گزرنے کے باوجود حکومت لائبریری کو طالبات کے قبضہ سے چھڑا نہیں سکی۔اس قبضہ کے بعد حکومت نے متنازعہ مسجد حمزہ کی دوبارہ تعمیر کا معاہدہ کیا،مذہبی امور کے وزیر نے جا کر اس کا سنگِ بنیاد رکھا۔علماءکی ایک قابلِ ذکر تعداد نے تقریب میں شرکت کی۔اتنے ناز نخرے اُٹھانے کے باوجود حکومت ابھی تک مسلح خواتین سے لائبریری کو خالی نہیں کرا سکی۔ اس پر کبھی کبھار اپوزیشن والے کچھ تنقید کر دیتے ہیں اور حکومت یہ بیان دے کر مطمئن ہو جاتی ہے کہ یہ خواتین کا معاملہ ہے اس لئے حکومت کسی سخت کاروائی سے گریز کرکے معاملہ مفاہمت کے ساتھ نمٹانا چاہ رہی ہے۔فوج ،پولیس اور ایجنسیاں ایک سے بڑھ کر ایک جینئس سے بھری پڑی ہیں۔اس کے باوجود حیرت ہے کہ ان میں سے کسی کو اتنا خیال بھی نہیں آرہا کہ نیند کے بھاری لمحوں میں بے ہوشی والی گیس خارج کرکے،یا پھر کسی مستری، مکینک کی آڑ میں کسی کمانڈو کو بھیج کر خواتین کو آسانی سے بے ہوش کرکے لیڈی پولیس کے ذریعے قابو کیا جا سکتا ہے اور پھر کسی تشدد کے بغیر حکومت خود ماسٹر آف سچوئیشن ہو گی۔
کیا واقعی جنرل پرویز مشرف کے سارے متعلقہ معتبر اداروں میں کسی کو بھی اس قسم کا آئیڈیا نہیں سوجھا؟یقین نہیں آتا کہ ان کے ارد گرد اتنے کودن لوگ جمع ہوں گے۔تو پھر اس کا مطلب ہوا کہ حکومت کے اندر ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو یہ ڈرامہ چلتے رہنا دینا چاہتے ہیں۔لیکن وہ ذہین لوگ پھر اندازہ نہیں کر پا رہے کہ اس ڈرامہ کے مضمرات کیا ہوں گے۔
برطانیہ سے دہشت گردی کے ایک ملزم کی برقعہ میں فرارہونے کی ویڈیو جاری ہونے کے باوجود بعض کرم فرما اسے مغربی پروپیگنڈہ کہہ کر چپ ہو گئے۔اب افغانستان سے خبر آئی ہے کہ قندھار سے ۵۳کلومیٹر دور پنجوائی کی چیک پوسٹ پر ایک سینئیر طالبان کمانڈر ملا محمود کوبرقعہ پہنے ہوئے گرفتار کر لیا گیا ہے۔موصوف نے نہ صرف برقعہ پہنا ہوا تھا بلکہ لباس بھی زنانہ پہن رکھا تھا۔اس کے باوجود شک کی بنیاد پر پکڑے گئے۔اس قسم کی” برقعہ پوش مجاہدانہ“ حرکتوں کے نتیجہ میں تو ان خواتین کے لئے بھی برقعہ پہننا مشکل ہو جائے گا جو کسی ذہنی کشمکش کے بغیر صدق دل سے پردہ کرنا چاہتی ہیں۔
بہاول پور سے امریکی سفیر ریان سی کروکرکا بیان آیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ مفید ثابت ہوگا،اس کے مطابق ۰۱۰۲ءتک امریکہ پاکستان سے آم برآمد کرنا شروع کر دے گا۔ اس خبر کو دیہاتی انداز میں کہا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ ریان سی کروکر بہاول پور میں آم لینے گئے تھے(اصلاً اس جملے کا مزہ پنجابی زبان میں ہی آئے گا جس سے اس کے معنی میں بھی توسیع ہوجاتی ہے)۔تاہم یہ کوئی نیک شگون نہیں ہے۔جنرل ضیاع الحق کی ہلاکت کا منظر یاد کیا جائے تو اس میں یہ چند چیزیں بڑی اہم تھیں۔ بہاولپور کا سفر، امریکی سفیر کی موجودگی،جہاز میں آم کی پیٹیوں کی لوڈنگ اور اُس وقت کا فوجی حکمران۔یہاں بس فوجی حکمران کی کمی ہے باقی ساری اہم چیزیں موجود ہیں۔آموں کی برآمد اپنی جگہ لیکن علامتی طور پراس کے مفہوم کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔اگرچہ جنرل پرویز مشرف کچھ بھی ہو جائے جنرل ضیاع الحق کی طرح بہاولپور سے کبھی آم لینے نہیں جائیں گے،تاہم خطرے کا احساس دلانا ہمارا فرض ہے۔
انگلینڈ کے شہر برمنگھم اور فلسطین کے شہر رام اللہ کو جڑواں شہر قرار دینے کے لئے دونوں شہروں کے لارڈ میئرز اور اس مہم کو چلانے والوں کی ایک ملاقات برمنگھم میں ہوئی ہے۔رام اللہ کا نام کبھی رملّہ لکھا جاتا تھا اب اسے زیادہ صراحت کے ساتھ رام اللہ لکھا جاتا ہے۔اس سے مجھے ایک تو یہ خیال آتا ہے کہ رام چندر جی کے دور کے بعد جب ہندوستان کی سرحدوں میں وسعت آئی تو شاید وہ سرحدیں ان عرب علاقوں تک پہنچیں۔یا پھر ویسے ہی ان کی داستان سفر کرتے ہوئے ان علاقوں تک پہنچی تو بھگوان رام کی جگہ عربی مزاج کے مطابق اسے رام اللہ کہہ دیا گیا۔عرب کے بت پرستوں میں اللہ کا نام مروج تھا اور ہندوستان میں تو تب سے اب تک رام چندر جی کا نام زندہ و تابندہ ہے۔بہر حال اس شہر کے نام میں رام چندر جی کے نام کا آنا دلچسپی کا باعث ہے۔فلسطینی دوست اگر اس نام کے اصل ماخذات کی کچھ نشاندہی کر سکیں تو کنفیوژن دور ہو سکتا ہے۔
چین سے خبر آئی ہے کہ ژینگ ژاؤ شہرمیں ایک ۸۵سالہ بزرگ ژاؤ ژنگ ژی پانچویں منزل پر واقع اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔کھڑکی نہیں کھل سکی تو انہوں نے زور لگا کر جھٹکے کے ساتھ کھولنا چاہی،جھٹکا لگنے سے کھڑکی تو کھل گئی لیکن بزرگ ژاؤ ژنگ ژی اپنا توازن قائم نہ رکھ سکے اور پانچویں منزل سے نیچے گر گئے۔لیکن وہ جو کہتے ہیں ”جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے“،عین اس کہاوت کے مطابق گرتے ہوئے بزرگ کے کپڑے چوتھی منزل کی بالکونی کے کسی بڑے کیل میں اٹک گئے اور ژاؤ ژنگ ژی فضا میں معلق ہو گئے۔اس دوران ان کو بچانے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی گئی۔آدھے گھنٹے تک جدوجہد کرنے کے بعد فائر فائٹرز نے انہیں زندہ سلامت اتار لیا۔ میڈیکل چیک اپ میں انہیں صحت مند قرار دیا گیا ہے تاہم ڈاکٹروں نے ہدایت کی ہے کہ آئندہ کھڑکی کھولتے وقت احتیاط کیا کریں ۔میرا خیال ہے انہیں کھڑکی کھولنے سے مکمل پرہیز کی ڈاکٹری تلقین کی جانی چاہئے تھی۔ بہر حال ۸۵سالہ بزرگوار ژاؤ ژنگ ژی کو نئی زندگی مبارک ہو!
گزشتہ کالم میں انڈیا کے صدر جمہوریہ کے اچانک گرنے کی خبر کا ذکر ہوا تھا۔ضمناً امریکی صدوربل کلنٹن اور بش جونیئر کے گرنے کا ذکر بھی ہوا۔اب اس بار خبر آئی ہے کہ امریکہ کے سابق صدربل کلنٹن کی اہلیہ ہیلری کلنٹن ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گر گئیں۔ریاست نیویارک کے شہر بفلو میں یہ واقعہ پیش آیا۔گرنے کے بعد انہوں نے کچھ دیر آرام کیا اور دوبارہ تقریب میں بیٹھ کر شرکت کی، بلکہ اس تقریب کے بعد ایک اورپروگرام میں بھی گئیں جہاں انہیں سوالوں کے جواب دینا تھے۔جسمانی طور پر گر جانا تو قسمت کی بات ہے تاہم جو لوگ تہذیبی طور ،اخلاقی طور پرگرتے ہیں۔ظلم،زیادتی،کذب و افترا اور دہشت گردی سے کام لیتے ہیں وہ سب کے سب لوگ بلا امتیاز مذہب و ملت انتہائی گرے ہوئے لوگ ہیں۔
رہتی ہے پرواز کی خوش فہمی ان کو
جو اپنے اندر کے خلا میں گرتے ہیں
گرتے ہیں تو گرتے ہی جاتے ہیں پھر
اہلِ ستم جب مکرو ریا میں گرتے ہیں
خبر آئی ہے کہ ہریانہ پولیس کی خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم اندور گئی ہے۔کیونکہ پلاسٹک کی ایک بوتل ملی ہے جس کے لیبل پر لکھا ہے کہ اسے بمبئی کی ایک کمپنی نے بنایا اور اندورکے لئے سپلائی کیا گیا۔توقع کی جا رہی ہے کہ اس سے تفتیش میں اہم پیش رفت ہو گی۔یہ کمال کی تفتیش ہے۔جن ڈبوں میں اتنے انسان زندہ جلا دئیے گئے وہاں سے پلاسٹک کی کوئی بوتل لیبل سمیت محفوظ ملی ہے تواس تفتیش کے قربان جائیے۔(یہ وہی امریکی اسٹائل ہے کہ ٹریڈ ٹاور کی عمارتوں سے جہاز ٹکرانے والے خود تو جہازوں میں موجود تھے لیکن اپنے پاسپورٹ وغیرہ امریکہ سرکار کی سہولت کے لئے اپنے ہوٹلوں میں چھوڑ گئے تھے ) اگر کسی اور کمپارٹمنٹ سے ایسا کوئی ساز و سامان ملا ہے تو اس کے لئے اتنی تگ و دو کرنا بے معنی سی بات ہے۔تاہم تفتیشی ٹیم کی اس پھرتی کا نتیجہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔سانحہ کے فوراً بعد جس بے رحمی کے ساتھ پاکستان کی بعض جہادی تنظیموں اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے نام لئے گئے تھے،اس پر ابھی تک بھارتی میڈیا نے کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔اس کے بر عکس تاحال کسی ہندو انتہا پسند تنظیم کو اس دہشت گردی کے واقعہ میں شک کی حد تک بھی شامل نہیں کیا گیا۔اس سے تو الٹا شک ہوتا ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں کی بجائے بعض بھارتی ایجنسیوں کی شہ پر یہ سانحہ کسی انتہا پسند ہندو تنظیم نے برپا کیا ہے۔
ہندوستان نے پاکستان کی مشترکہ تفتیش کی پیش کش کو قانونی بہانہ بنا کر ٹال دیا۔پاکستانی مسافروں کی لسٹ ابھی تک فراہم نہیں کی گئی۔اور اب تفتیش میں اہم پیش رفت ایک پلاسٹک کی بوتل سے ہونے لگی ہے جسے بمبئی کی کمپنی نے تیار کیا اور اندور کے لئے سپلائی کیا گیا۔چلیں اسی تفتیش میں یہ بھی دیکھ لیں کہ اگر بمبئی کی کمپنی کا مال تھا تو اس میں بمبئی کی شیو سینا اور وبال ٹھاکرے کا بھی کوئی کردار ہو سکتا ہے یا نہیں؟
دہلی کے علاقہ دریا گنج میں دینا بینک پر ڈیوٹی دینے والے ایک پولیس اہلکارلیپچا نے اپنے پانچ پولیس اہلکار ساتھیوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔رپورٹ کے مطابق یہ سارے اہلکار سکم سے تعلق رکھتے تھے۔ پانچوں ہلاک شدگان نے شراب چڑھا رکھی تھی اور وہ لیپچا کے ساتھ غیر اخلاقی حرکت کرنا چاہتے تھے جس سے مشتعل ہو کر لیپچا نے ان پانچوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔اس خبر کو پڑھ کر افسوس ہوا لیکن کیا کیا جائے،ایسی خبریں اور اس سے ملتے جلتے واقعات تو اب عموماً رونما ہوتے رہتے ہیں ۔
مظفر نگر(یوپی) کے ایک گداگر اسماعیل خان نے اپنی وفات پر ایسی وصیت چھوڑی ہے جس سے ان کی شانِ گدائی قابلِ تقلید بن گئی ہے۔انہوں نے ایک لاکھ روپے کے جمع شدہ سکے ایک فلاحی ٹرسٹ کے نام کر دئیے۔یہ بلاشبہ ایک اچھی اور قابلِ تقلید مثال ہے۔اللہ تعالیٰ اسماعیل خان کی مغفرت فرمائے اور انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا کرے۔آمین۔