۰۳جنوری کو باقی دنیا کے ساتھ یورپ بھر میں جوش و جذبہ کے ساتھ یوم عاشور منایا گیا اور نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد کو تازہ کیا گیا۔اس موقعہ پر تمام پاکستانی ٹی وی چینلز نے اپنے اپنے طور پر اور مناسب طورپر دکھ اور کرب کا اظہار کیا،سوائے ایک چینل کے۔پرائم ٹی وی بنیادی طور پر حکومت پاکستان کا چینل ہے جسے آگے کسی اور پارٹی کو چلانے کے لئے دیا گیا ہے۔مجھے قطعاً علم نہیں ہے کہ یورپ میں پرائم ٹی وی کے اربابِ اختیار کون لوگ ہیں؟لیکن ۳۰جنوری کو جب سارے پاکستانی چینل اس دن کی مناسبت سے پروگرام پیش کر رہے تھے،پرائم ٹی وی نے بے ہودہ موسیقی کے پروگرام شروع کئے ہوئے تھے۔جرمنی میں دوپہر کے بارہ بجنے سے پہلے پہلے،یعنی اپنی جاب پر جانے سے پہلے میں نے جتنی بار بھی پرائم ٹی وی کو چیک کیا وہاں محرم کی مناسبت سے کچھ دینے کی بجائے بالکل برعکس پروگرام دیکھنے میں آیا۔یومِ عاشور پر پرائم ٹی وی کی بے حسی افسوسناک ہے۔
اردو دنیا میں آجکل گیان چند جین کی کتاب”ایک بھاشا دو لکھاوٹ“پر خاصی گرما گرم بحث چل رہی ہے۔مجھے ۲جنوری ۲۰۰۷ء تک اس بحث سے متعلق جتنا مواد مل سکا تھا اُس کی بنیاد پر میں نے دو ماہی’ گلبن‘لکھنﺅ کے (زیرِ اشاعت) شمارہ جنوری تا اپریل ۲۰۰۷ء کے لئے ایک خط بھیجاہوا ہے۔اس خط کا یہ اقتباس ۲جنوری تک کی میری معلومات کا احاطہ کرتا تھا:
”گیان چند جین صاحب کی کتاب کے حوالے سے فاروقی صاحب نے جو لکھ دیا ہے وہ حرفِ آخر ہے،بعد میں زیادہ تر لکھنے والے صرف جوشیلے قسم کے مضمون یا تاثرات لکھ کر انہیں بنیادی باتوں کو دہرا رہے ہیں،جنہیں فاروقی صاحب متانت کے ساتھ احسن طور پر بیان کر چکے ہیں۔ہاں اس دوران پروفیسر مرزا خلیل بیگ کا ایک مضمون نظر سے گزر رہا ہے،تادمِ تحریر (آج ۲جنوری ۲۰۰۷ء تک)روزنامہ منصف حیدرآباد میں اس کی تین اقساط چھپ چکی ہیں۔پہلی قسط میںان کے نام لکھے گئے جین صاحب کے ایک مکتوب سے معلوم ہوا کہ گیان چند جین صاحب ساہتیہ اکیڈمی کے لئے ایک کتاب لکھ رہے تھے۔(یہ مضمون کتابی سلسلہ الانصار حیدرآباد،شمارہ ۴،سال ۲۰۰۶ء میں چھپنے کی تصدیق بھی ہوئی ہے)میں نے گلبن،اردو بک ریویو اور ایک دو اور جرائد میں چھپنے والے مضامین اور خطوط میں نوٹ کیا کہ جین صاحب کی مذمت کرنے والے ادباءکسی نہ کسی طرح گوپی چند نارنگ صاحب کو کوئی ظاہری الزام نہ ہونے کے باوجودsafe sideدینے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ ہندوستان میں رہنے والے اور اردو سے وابستگی کا سنجیدہ تعلق رکھنے والے ادباءکو گیان چند جین صاحب کے مذکورہ مکتوب بنام مرزا خلیل بیگ پر غور کرکے تحقیقِ مزید کرنی چاہئے۔کتاب کے انتساب میں گوپی چند نارنگ صاحب حصہ دار ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ کتاب نارنگ صاحب کی ڈیمانڈ پر ساہتیہ اکیڈمی کے لئے لکھی گئی،لیکن جب توقع سے زیادہ سخت ہو گئی تو انہوں نے ساہتیہ اکادمی کی بجائے پرائیویٹ ادارے کے ذریعے کتاب کی اشاعت کا اہتمام کردیا ؟ضروری نہیں کہ ایسا ہو،لیکن اس پر سنجیدگی کے ساتھ تحقیق ضرور کر لی جائے تاکہ اس پردۂ زنگاری کے پیچھے جو کوئی بھی ہے پوری طرح سامنے آسکے۔“
اس خط کی اشاعت سے پہلے ہی اب مجھے پندرہ روزہ ’صدائے اردو‘بھوپال کا شمارہ یکم جنوری ۲۰۰۷ء ایک دوست نے بھیجا ہے۔اس میں مرزا خلیل بیگ کے نام گیان چند جین کے مذکورہ بالا خط کے متن کے ساتھ اس کا عکس بھی شائع کیا گیا ہے اور ڈاکٹر حنیف نقوی کے خط بنام شمس الرحمن فاروقی کو بھی شائع کیا گیا ہے۔دونوں خطوط سے حقیقت بالکل کھل کر سامنے آگئی ہے ۔میرے نزدیک باوجود اس کے کہ گیان چند جین صاحب نے ہندی اردو مسئلہ کو کفر و اسلام کا مسئلہ بنا کر پیش کیا ہے،اس معاملہ کو اس سے ہٹ کر دیکھنا چاہئے۔میں نے اپنے خط میں جن امکانات کی بات کی تھی وہ اب زیادہ تحقیق چاہتے ہیں۔کیونکہ ان خطوط کے ذریعے بڑی حد تک یہ واضح ہو گیا ہے کہ:
۱۔گیان چند جین صاحب نے یہ کتاب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی تحریک پر لکھی اور ان کی دی ہوئی بعض بنیادی گائیڈ لائنز کو پوری طرح ملحوظ رکھا۔
۲۔جب کتاب مکمل کر لی گئی،تب یا تو اس وجہ سے ساہتیہ اکیڈمی کی طرف سے اس کی اشاعت مشکل ہو گئی کہ بی جے پی کی بجائے کانگریس کی حکومت آگئی تھی۔یا پھر خو دگوپی چند نارنگ صاحب کو احساس ہوا کہ کتاب ان کی خواہش سے زیادہ سخت ہو گئی ہے اور ساہتیہ جیسے سرکاری ادارہ کے ذریعے اس کی اشاعت بہت سے مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔
۳۔چونکہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اس کتاب کی اشاعت کی ذمہ داری لے چکے تھے،اس لئے پھر انہوں نے اپنے سرکاری وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پرائیویٹ طور پر اس کی اشاعت کا انتظام کر دیا ۔ پرائیویٹ انتظام کرنے کے حوالے سے ایک اور پبلشر کی کہانی بھی سامنے آئی ہے ،تاہم یہاں یہ بات غیر متعلق ہے۔
یوں گیان چند اور گوپی چند کے اشتراک سے یہ کتاب اپنی مخصوص معنویت میں دو چند ہو گئی ۔اگر یہ باتیں اسی طرح یا اس سے کچھ ملتے جلتے انداز میں درست ثابت ہوتی ہیں تو پھر باقی ساری بحثیں فروعی ہیں۔کسی موازنۂ فاروقی و نارنگ کی ضرورت نہیں۔یوں بھی بنیادی تنازعہ کے بارے میںفاروقی صاحب اور مرزا خلیل بیگ نے جو لکھ دیا ہے، اس کتاب کے حوالے سے ابھی تک حرفِ آخر ہی ہے۔گیان چند اور گوپی چند جیسے ”محبانِ اردو“ کی پہچان ہوجانا کافی ہے۔افسوس یہ ہے کہ یہ دونوں لوگ اردو ہندی تنازعہ کو کم کرنے میں اور دونوں زبانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بے حد مفید ثابت ہو سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایک مثبت کام کرنے کی بجائے ایک پرانے تنازعہ کو نئے رنگ میں ہوا دی اور گھات اردو کے اندر سے لگائی۔
دوسری طرف ردِ عمل میں” ہندو اردو رائٹرز“ کا مسئلہ اُٹھانے والوں سے کہوں گا کہ یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ہندوؤں اور سکھوں میں اردو کے خدمتگاروں کی ماضی میں بھی ایک قابلِ ذکر تعداد رہی ہے اور اس وقت بھی متعدد ہندو یا سکھ اردو میں عمدہ تخلیقی کام کر رہے ہیں۔متعدد ناموں میں سے ایک نام جوگندر پال جی کا ہی دیکھ لیں ۔ ہندوستان کے کسی مسلمان اردو ادیب نے بھی مسلمانوں کے مسائل کو اتنی ہمدردی اور اپنائیت کے ساتھ تخلیقی سطح پر پیش نہیں کیا ہو گا جس اعلیٰ سطح پر جوگندر پال جی پیش کر چکے ہیں۔اس لئے گیان چند یا گوپی چند جیسے ادیبوں کے کئے دھرے کے نتیجہ میں سارے ہندو اردو رائٹرز پر طعنہ زنی کرنا کسی کو زیب نہیں دیتا۔بلکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس جھگڑے کے نتیجہ میں آمنے سامنے آنے والے دونوں بڑوں نے ہندو اور مسلمان کی تخصیص کے بغیر جوگندر پال جیسے بڑے فکشن رائٹر کو نظر انداز کرنے کا گناہ کیا ہے۔ ہو سکے تو دونوں اپنے گناہ کا کفارہ ادا کریں۔
برطانیہ میں ”اکیڈمک ٹیکنالوجی اپروول اسکیم“کے تحت جدید سائنس کے اہم اور حساس شعبوں میں دوسرے ممالک سے داخلہ لینے والوں کو اب سخت جانچ پڑتال سے گزرنا ہو گا۔نیو کلیئر فزکس اور بایو کیمسٹری سمیت کئی دوسرے شعبوں میں داخلہ لینے والوں کے سلسلے میں اب نہ صرف ان کے ممالک میں ان طلبہ کے بارے میں پتہ کیا جائے گا بلکہ ان کے ذہنی و فکری پس منظر کا بھی پتہ چلایا جائے گا۔خیال ہے کہ اس اسکیم کا مقصد مسلمان ممالک کے نوجوانوں کو ان سائنسی شعبوں میں آگے نہ آنے دینا ہے۔ خبر تشویشناک ہے لیکن مسلمانوں کی جذباتیت کے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آرہا ہے۔پہلے ہی مسلمانوں میں جدید سائنسی علوم سے تعلق واجبی سا تھا،اوپر سے ایسی اسکیمیں باقی یورپ کی طرف سے بھی آنے لگیں تو یقینا مسلمان سائنسی میدان میں اور بھی پیچھے رہ جائیں گے۔
ایک طرف ایسی خبریں آرہی ہیں دوسری طرف مسلمان ڈاکٹروں کی طرف سے” اسلامی سائنس “قسم کے فتویٰ آرہے ہیں۔یہ خبر بھی لندن سے ہی آئی ہے کہ اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے سربراہ ڈاکٹر عبدالماجد نے خسرہ اور گلسوئے کی بیماری کے حفاظتی ٹیکوں کو حرام قرار دیتے ہوئے والدین کو تاکید کی ہے کہ وہ بچوں کو یہ ٹیکے نہ لگوائیں۔ان کے بقول ان ٹیکوں میں ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں جو انسانی اورحیوانی ٹشو سے اخذ کی جاتی ہیں۔ڈاکٹر ماجد کے بیان پر برطانیہ کے محکمہ صحت اور برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن نے تنقید کی ہے۔ یہ اس رویے کی ایک صورت ہے جو یورپ میں اسلامی زندگی گزارنے کی خواہش کے ساتھ مطالبوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔بعض مسلمان اب یہ کہنے لگے ہیں کہ یورپ میں ہمیں اسلامی قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔اس پر پارلیمنٹ کے ایک مسلمان اور پاکستانی نژاد ممبر پارلیمنٹ نے کہاکہ ایسے مسلمانوں کو چاہئے کہ پہلے اسلامی ممالک میں اسلامی قوانین نافذ کرائیں تاکہ وہاں بسنے والے مسلمان اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ویسے ایک بات ہے کہ اگر ہمارے یورپ میں مقیم پاکستانی مسلمان صرف سچ بولنے کا عہد کر لیں اور پھر خود ہی بتائیں کہ وہ یورپ میں اس گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں۔جس کی سزا سنگسار کرنا ہے؟اگر یہ لوگ اسلام اور اسلامی قوانین کا نفاذ سچے دل سے چاہ رہے ہیں اور اس سوال کا جواب سچ سچ دے دیں تو صرف اسی کی سزا کے نتیجہ میں شاید ایک بڑی تعداد، بہت بڑی تعداد خود ہی سنگسار ی کے لائق ٹھہرے۔ایسے مطالبات امریکہ اور برطانیہ کے عالمی کردار کا ردِ عمل ہے تو تب بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔آپ لوگ اپنی ذاتی زندگیاں اسلامی تعلیم کے مطابق گزاریں۔سچ بولیں،(منافقانہ سچ نہیں،حقیقی سچ) ،کسی کی حق تلفی نہ کریں ،نماز ،روزہ کی پابندی کریں،پاکیزہ زندگی بسر کریں،رزقِ حلال کھائیں،فریب کاری،ہیرا پھیری نہ کریں،غیبت اور بہتان طرازیوں سے بچیں،آپ کو ان اعمال سے کون روکتا ہے؟
امریکہ سے دو اہم خبریں آئی ہیں۔ایک خبر کے مطابق صدر بش کی جنگجویانہ پالیسی کے خلاف مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے۔لوگوں کا غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور مظاہروں کی تعداد میں اور پلے کارڈز پر درج نعروں کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ویسے یہ وہی امریکی عوام ہیں جنہوں نے بے سرو سامان افغانستان اور ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے عراق پر حملہ کے وقت جنگ کی ایسی مخالفت نہیں کی تھی۔اب چونکہ امریکہ کو وہاں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور میڈیا رپورٹس سے کہیں زیادہ امریکی فوجی جوانوں کے تابوت امریکہ پہنچ رہے ہیں اسی لئے امریکی عوام اب سڑکوں پر نکل کر اس جنگ کی مخالفت کرنے لگے ہیں۔چلیں اسی بہانے سے سہی،عراقی اور افغانی عوام کی امریکی بربریت سے نجات کی کوئی صورت تو نکلے۔
دوسری خبر کے مطابق فرٹیلیٹی ٹریٹ منٹ کے تحت بوسادا نامی ایک ۶۷سالہ ہسپانوی خاتون نے دو جڑواں بچوں کو پیدا کیا ہے۔یہ خاتون لاس اینجلس کے ایک کلینک میں داخل ہوئیں ۔ اس خاتون نے اولاد کی خاطر اسپین میں اپنا گھر بیچ کر یہ علاج کرایا۔کلینک کے کٹیلاگ میں سے خوبصورت بھورے بالوں والے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کے ڈونرایگز منتخب کئے اور نیلی آنکھوں والے اطالوی،امریکی کے سپرم منظور کئے،اس کے بقول یہ سب ایسا تھا جیسے آپ بروشر دیکھ کر کوئی مکان پسند کر رہے ہوں۔طریق علاج کے مطابق پہلے بوساداکی ہارمون تھراپی کی گئی،جس کے نتیجہ میں اٹھارہ سال کے بعد دوبارہ ماہواری کا عمل شروع کیا گیا۔پھر پہلی ہی کوشش میں اسے حمل ٹھہر گیا۔اس نے ۲۹ دسمبر ۲۰۰۶ءکو دو بچوںکرسٹائن اور پاؤ کو جنم دیا ہے۔اگرچہ سائنس تو اب کلوننگ تک پہنچ چکی ہے جہاں کسی مرد یا عورت کی ضرورت نہیں رہتی اور پیدائش کا عمل جاری رہ سکتا ہے۔تاہم مرد کے بغیر صرف عورت کا بچے کو پیدا کرنااور پھر وہ بھی ۶۷سال کی عمرمیں۔۔۔یقینا یہ مزے کی خبر ہے۔
انڈیا میں شیو سینا کے رہنما بال ٹھاکرے نے ہندوستان کے صدر عبدالکلام پر اس وجہ سے تنقید کی ہے کہ وہ کشمیری نوجوان افضل گرو کی فائل کو فائنل کیوں نہیں کر رہے۔مقصد یہ ہے کہ افضل گرو کی سزائے موت پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا جا رہا۔قطع نظر اس سے کہ افضل گرو کی سزائے موت کے فیصلہ پر صدر کی طرف سے معافی کا آپشن موجود ہے،یقینأ صدر جمہوریۂ ہند ملک کے وسیع تر مفاد میں اور سارے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر ہی فیصلہ کریں گے،بال ٹھاکرے کی تنقید کا یہ رُخ اس لحاظ سے بے حد افسوسناک ہے کہ انہوں نہ صرف وفاق کی علامت صدر پر تنقید کی بلکہ نہایت نا مناسب بلکہ نازیبا الفاظ استعمال کئے۔بال ٹھاکرے ابھی تک ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے وبال ٹھاکرے بنے ہوئے تھے لگتا ہے اب وہ ہندوستان کی مرکزیت کے لئے بھی وبال ٹھاکرے بن رہے ہیں۔
پاکستان میں یکے بعد دیگرے خودکش بم دھماکوں،اور راکٹ فائرز کی خبریں آرہی ہیں۔پہلے اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل کے پارکنگ میں حملہ ہوا،پھر پشاور میں دھماکہ ہوا،ڈیرہ اسماعیل خان میں حملہ ہوا،بنوں میں راکٹ فائر ہوئے۔ ایک ہفتہ میں مجموعی طور پر آٹھ حملے ہوئے ہیں۔اس سلسلہ میں ابھی بنوں سے ایک مولوی صاحب کی گرفتاری کی خبر آئی ہے۔جنرل پرویز مشرف جو پالیسی چل رہے ہیں وہ ایک حد تک امریکہ کی بھی خواہش ہے۔امریکہ بھی چاہتا ہے کہ قبائلی علاقوں اور افغانستان میں اثر رکھنے والے علماءکے تعاون کے ساتھ وہاں امن قائم کیا جائے اور پھر پائپ لائنیں بچھانے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔لیکن اب یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ امریکہ پاک فوج کے ذریعے علماءکے ساتھ جس حد تک رو رعائت کر سکتا تھا،کر چکا ہے۔اگر علماءکی طرف سے دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری رہا تو خطرہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے براہ راست امریکی یا نیٹو افواج کے شدید حملوں کی زد میں نہ آجائیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والی دو اہم سیاسی شخصیات آگے پیچھے دل کے عارضہ میں مبتلا ہوئی ہیں اور امریکہ سے آئے ہوئے ڈاکٹر مبشر احمد چوہدری سے علاج کرا رہی ہیں۔
برطانیہ میں رقم ”برائے اعزاز“ کیس میں ایک بار پھر وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے پولیس نے پوچھ تاچھ کی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ یہ اسکینڈل ٹونی بلئیر کے لئے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔دوسری طرف سے سویڈن سے خبر آئی ہے کہ وہاں کے وزیر اعظم فریڈرک رینفیلڈ کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کرلیا ہے۔سربیا کی ایک ۲۶سالہ خاتون نے سویڈن میں اسائلم کی درخواست دی تھی،جو پہلے مرحلہ میں مسترد کر دی گئی تھی،اس پر اپیل کی گئی۔اپیل کا مرحلہ ابھی جاری ہے۔اس دوران خاتون کو سویڈن میں ملازمت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔یورپ میں ورک پرمٹ کے بغیر کام کرنا قانوناً جرم ہے۔سویڈن کے وزیر اعظم نے اس خاتون کو ورک پرمٹ نہ ہونے کے باوجود اپنی گھریلو ملازمہ کے طور پر رکھاہوا تھا اور لوکل کونسل کے سوشل شعبہ میں جس کے وہ خود سربراہ تھے ،وہاں بھی اس خاتون کو ملازمت دے رکھی تھی۔ان دونوں غیر قانونی اقدامات کے باعث ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔اس کیس سے وزیر اعظم کو ذاتی طور پر بھی اور ان کی حکومت کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔لیکن ان خبروں میں ہمارے بلند بانگ دعووں والے مشرقی معاشروں کے لئے بہت بڑا سبق ہے۔ہمارے پاس یا تو ماضی کی کہانیاں ہیں یا پھر صرف خالی خولی دعوے ہیں۔ جبکہ قانون کی حکمرانی اور اس پر عملدرآمد کی ایسی روشن مثالیں مغربی معاشرے کا معمول ہیں۔اور تو اور دنیا بھر کی نا پسندیدہ ترین شخصیت صدر بش بھی دنیا بھر میں جو مرضی کرتے پھریں،اپنے ملک میں ان کی بیٹیوں نے ٹریفک کے قوانین کی معمولی سی خلاف ورزی کی تو انہیں بھی حوالا ت میں بند کر دیا گیا تھا۔ مسلمان ملکوں میں کیا کوئی حکمران قانون کی خلاف ورزی پر اس طرح قانون کی لپیٹ میں لایا جا سکتا ہے؟ ۔اسی لئے تو۔۔۔۔۔
فلسطین میں حماس اور الفتح کے اختلافات لڑائی جھگڑے سے آگے بڑھ چکے تھے۔مشکل سے دونوں فلسطینی گروپوں میں جنگ بندی کرائی گئی تھی اور پھر دونوں گروپوں میں خونریز لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ایک دن کی لڑائی میں دونوں طرف کے ۱۸افراد ہلاک اور ۱۷۰زخمی ہوئے ہیں۔فلسطین کی خفیہ پولیس کے سربراہ بھی اس لڑائی میں مارے گئے ۔ہلاکتوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف اسرائیل فلسطینیوں کو مار رہا ہے دوسری طرف فلسطینی اب ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر لگے ہوئے ہیں۔
سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ اورامریکہ میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی متوقع نئی صدارتی امیدوارسینیٹر ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ ایران امریکہ اور اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ امریکی، اسرائیل عوامی امور کی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے دشمنوں کے عزائم جان کر انہیں شکست دینے کے لئے بہترین طریقہ تلاش کرنا چاہتی ہوں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی،ایران کو اس کے ایٹمی پروگرام سے روکنے اور حماس و حزب اللہ کا اثر کم کرنے کے لئے ہمیں نئی تیکنیک کی ضرورت ہے۔ایران کے خلاف جنگ کا آپشن کھلا رکھنے کے ساتھ انہوں نے پوری دنیا کو اپنے ساتھ ملا کر دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کا عندیہ دیا۔
میں ہیلری کلنٹن کے ذکر پر بل کلنٹن کی بیوی ہونے کی وجہ سے انہیں پیار سے بلی کلنٹن کہا کرتاہوں ،لیکن یہ تو بڑی ٹیکنیکل قسم کی بلی لگتی ہے۔ڈیمو کریٹس کا صدر آگیا تو تب بھی دنیا کے حالات بہتر ہونے کی امید کم ہے۔
مورخہ ۳فروری کو ایک ہی دن دو دلچسپ خبریں سامنے آئیں۔پاکستان میں اوکاڑہ شہر میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ پاکستان اب قرضے لینے والا ملک نہیں رہا بلکہ قرضے دینے والا ملک بن گیا ہے۔اور اسی دن کی خبر ہے کہ کہ امریکی سینٹ میں ایک بل پیش کیا گیا ہے جس میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی امداد کے لئے تین ارب ڈالر کی امداد ادا کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔دونوں خبریں ہی اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ویسے جی چاہتا ہے کے جنرل مشرف سے دوتین سو روپے کا قرض مانگ کر دیکھ لیا جائے کہ واقعی پاکستان قرض دینے والا ملک بن گیا ہے یا نہیں۔
بمبئی ایریا کے بلدیاتی انتخاب میں شیو سینا اور بی جے پی نے اکثریت حاصل کر لی ہے۔مذہبی انتہا پسندہر طرف کامیاب ہو رہے ہیں تو اس کی ایک وجہ لبرل اور معتدل جماعتوں کا باہمی انتشاربھی ہے۔ممبئی میونسپل کارپوریشن کے ان انتخابات کے نتائج پر مسلمان مذہبی رہنماؤں نے یہ کہتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ ہم نے کانگریس اور این سی پی کو جو پیغام پہنچانا تھا،اس الیکشن کے نتائج کے ذریعے ان تک پہنچ گیا ہے۔مسلم مذہبی جماعتوں نے کانگریس اور این سی پی کے خلاف ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔اس وجہ سے بھی مذہبی انتہا پسندشیو سینا اور ان کے اتحادی اس انتخاب میں کامیابی حاصل کر سکے ہیں۔
اٹلی میں فٹ بال میچ کے دوران ہنگامہ ہونے پرایک پولیس افسر ہلاک کر دیا گیا۔اطالوی فٹ بال فیڈریشن نے اس ہفتہ ہونے والے باقی سارے لیگ میچ ملتوی کر دئیے ہیں۔یورپ میں فٹ بال کے بڑے مقابلوں میں عام طور پر اسی طرح کا دنگا،فساد دیکھنے میں آتا ہے۔یورپی تہذیب کا یہ رُخ کافی افسوسناک ہے۔ان کے مقابلہ میں تو اپنے سارے سپورٹس سٹار کے ناز نخرے،اسکینڈلز اور اپنے ہاں کے میچ کے دوران کے ہنگامے بھی مہذب لگتے ہیں۔