اسرائیل اندرونی طور پر ایک اخلاقی بحران سے گزر رہا ہے۔اس کے صدر موشے کیٹساف پر جنسی زیادتی کے الزام کی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔چیف آف آرمی اسٹاف لبنان میں ہزیمت کے بعد کرپشن کے الزام میں ہٹائے جا چکے ہیں۔اور وزیر انصاف نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم کو بھی مستعفی ہو جانا چاہئے۔اس ساری صورتحال پر اسرائیل کے نائب وزیر اعظم شمعون پیریزنے تشویش کا ظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ:اسرائیلی قیادت کی بدعنوانیوں اور ذاتی کمزوریوں نے ملک کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔صدر کے خلاف بدکاری کا جرم ثابت ہو چکا ہے،چیف آف آرمی اسٹاف کرپشن کی وجہ سے فارغ ہو چکے ہیں۔وزیر اعظم کے خلاف بھی کرپشن کے کیس سامنے آرہے ہیں۔موجودہ قیادت کرپشن میں ملوث ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ملک کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
ایک یہودی صدر ہے جو ایک جنسی اسکینڈل میں ملوث ہوا تو قانون کی لپیٹ میں آرہا ہے،ایک پاکستان کا مسلمان صدر تھا جنرل یحییٰ خان جس کے جنسی اسکینڈل ملک کے بچے بچے کی زبان پر تھے،جس نے ملک کو دو لخت کرادیا لیکن اس کے اقتدار پر رہتے ہوئے کسی عدالت کو جرأت نہ تھی کہ اس کے خلاف بدکاری کے کسی کیس کی سماعت بھی کر سکے۔تب سے اب تک اقتدار کے ایوانوں میں کیا کچھ نہیں ہو رہا؟لیکن مجال ہے کوئی بڑے سے بڑا حق گو صحافی بھی کبھی اس کا کوئی ہلکا سا اشارہ کرسکے۔عدالتوں میں جانے اور سماعت کرنے اور فردِ جرم عائد کرنے کی باتیں تو خواب و خیال کی باتیں ہیں۔جس دن مسلمان ممالک کے حکمرانوں کا ان کے مضبوط اقتدار کے دوران عدالتی انصاف شروع ہو گیا سمجھ لیں مسلمان ممالک کے حالات میں بہتری کے امکانات پیدا ہو گئے،وگرنہ علامہ اقبال نے یونہی تو نہیں کہہ دیا تھا
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
سعودی عرب کے حکمران شاہ عبداللہ نے کویت کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب ایران کے خلاف کوئی متحدہ محاذ نہیں بنا رہا ہے۔اور یہ بات انہوں نے ایرانی مذاکرات کار علی لارے جانی کی سعودی عرب میں آمد پر بھی انہیں کہی تھی۔اس بیان کو عام نظر سے دیکھا جائے تو ایک خوشکن اور اطمینان بخش قسم کا بیان ہے جس سے دو برادر اسلامی ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کی امید کی جا سکتی ہے۔تاہم ڈپلو میٹک زبان میں دیکھا جائے تو یہ بیان کئی شبہات کو راہ دیتا ہے۔عراق اور ایران کے درمیان جو بے معنی اور مسلمانوں کو ہی کمزور کرنے والی طویل جنگ ہوئی تھی،اس جنگ میں سعودی عرب اور اس کے حلیف عرب ممالک نے کھل کر صدام حسین کی مدد کی تھی۔ ان سب کی پشت پر امریکہ موجود تھا ۔ تب سے ہی افغانستان اور پاکستان تک شیعہ ،وہابی فساد کی جو مختلف صورتیں سامنے آئیں،ان میں عرب ممالک کا محاذ ایک طرف اور ایران دوسری طرف موجود رہا ہے۔اب امریکہ اور اسرائیل کسی نہ کسی بہانے سے ایران کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور حالیہ دنوں میں ایسے اشارے مل رہے تھے کہ جیسے عرب ممالک بھی امریکہ کا ساتھ دینے پر تیار ہیں۔اسی وجہ سے شاہ عبداللہ کو علی لارے جانی کو بھی یہ پیغام دینا پڑا اور کویتی اخبار میں بھی اس وضاحت کو انٹرویو کی صورت میں جاری کرایا گیا ہے۔ ڈپلومیٹک زبان میں ایسی وضاحت کا مطلب کئی زاویے رکھتا ہے۔اللہ ایران پر بھی اور سارے اسلامی ملکوں پر بھی رحم فرمائے۔
کبھی کبھی ایسی عجیب سی خبریں سننے میں آتی ہیں جو ہمارے ذہنی سانچوں میں فِٹ نہیں بیٹھتیں۔
قدرتی آفات اور حادثات کا شکار ہونے والوں سے ہمدردی کی جانی چاہئے لیکن ہمارے ذہنی سانچے ایسے ہیں کہ کسی مخالف فرد یا گروہ کی ہلاکت کو خدا کی طرف سے سزا قرار دے دیتے ہیں۔دو مختلف قسم کی لیکن ایک ہی مفہوم کی خبریں آئی ہیں۔انڈونیشیا کے علاقہ سلاوسی میں زیر سمندر آنے والے زلزلہ کے نتیجہ میں ایک شخص ہلاک اور دو زخمی ہو گئے ہیں۔ اب سوچنے والی بات ہے کہ کیا یہ زلزلہ صرف اسی ایک گنہگار کو سزا دینے کے لئے آیا تھا؟ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کا مذہب کیا ہے۔مذہب معلوم ہونے کے بعد اس کے مخالف مذہب والے آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمارا مخالف تھا اس لئے خدا نے زلزلہ بھیجا اور چُن کر صرف اسی کو ہلاک کیا۔ دوسری خبرامریکہ کے شہر مینی پولس میں ۲۹سالہ جوان بنیسن کی ہے جو نشے میں دھت تھا۔ ایک ہوٹل کی ۱۸ویں منزل سے نیچے گرالیکن زندہ بچ گیا۔اسے کچھ چوٹیں آئی ہیں تاہم اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔اس خبر سے خانپور میں ۱۹۷۳ء میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی یاد آگئی۔اس سیلاب میں کئی پختہ مسجدیں گر گئی تھیں لیکن بازارِ حسن کے چند کوٹھے گرنے کے ساتھ کئی کچے کوٹھے بھی گرنے سے بچ گئے تھے۔سو حادثات اور قدرتی آفات کو کسی مخصوص ذہنی سانچے کے ساتھ دیکھنے کی بجائے انسانی ہمدردی کے ساتھ دیکھنا چاہئے۔
لندن سے خبر آئی ہے کہ وہاںایک مسلم لیڈی پولیس افسر نے تربیت مکمل ہونے کے بعد پاسنگ آؤٹ کی تقریب میں ادارہ کے سربراہ سے مصافحہ کرنے سے انکار کر دیاتھا۔اصلاً مذکورہ پولیس افسر نے تقریب سے پہلے اس کی اجازت لے لی تھی اس لئے کوئی ظاہری بدمزگی نہیں ہوئی۔تاہم اب یہ سوال اُٹھائے جارہے ہیں کہ تربیت کے دوران جسموں سے جسم ٹکراتے تھے،اگر وہ سب کچھ روا تھا تو صرف مصافحہ کرنے میں کیا حرج تھا؟اگر خاتون نے کسی مرد کو چھونا نہیں ہے تو وہ مجرموں کو گرفتار کیسے کریں گی؟سیدھی سی بات ہے آپ جن ملازمتوں میں جانا چاہتے ہیں اپنے ملک کے قوانین کے مطابق اسکی ساری صورتحال کا پہلے ہی جائزہ لے لیں۔اگر آپ کی ثقافت سے ان کا ٹکراؤ ہو رہا ہے تو کوئی اور بہتر ملازمت دیکھ لیں جہاں آپ کے لئے آپ کے معتقدات کے مطابق قباحت نہ ہو۔اس سے پہلے ویسٹ یارکشائر کے ایک پرائمری اسکول ہیڈ فیلڈ چرچ کی اسسٹنٹ ٹیچرعائشہ نے پہلے کلاس روم میں نقاب کے ساتھ پڑھانا شروع کیا۔اس پر اعتراض ہوا تو عائشہ نے کہا کہ بچوں کے سامنے نقاب اتار کر پڑھاؤں گی لیکن مرد ٹیچرز سے پردہ کروں گی۔تب معاملہ عدالت تک گیا،جہاں عائشہ کو نشانہ بنانے پر انہیں گیارہ سو پاؤنڈ کی ادائیگی کی گئی تاہم عائشہ کو بطور جرمانہ گیارہ سو پاؤنڈ کی رقم ادا کرنے کے باوجود ملازمت سے نکال دیا گیا۔وہ ابھی تک اپنے حق کے لئے عدالتی تگ و دو کر رہی ہیں۔ایسی خبریں متضاد جذبات و خیالات میں ڈال دیتی ہیں۔پاکستان کے اسکولز جہاں مرد اور لیڈی ٹیچرز ایک ساتھ پڑھاتے ہیں،وہاں کی صورتحال کیا ہے؟وہاں تو کسی لیڈی ٹیچر کو نقاب کا مسئلہ نہیں ہے پھر لندن میں رہ کر اس طرح کا مطالبہ کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔شاید یہ سب امریکہ کے نائن الیون اورانگلینڈ کے سیون سیون کے بعد ہونے والے سخت اقدامات کے ردِ عمل کی کوئی نفسیاتی صورت ہے۔وگرنہ اسی لندن میں اور اسی یورپ میں کتنی ہی مسلم خواتین ملازمتیں بھی کرتی ہیں اور انہیں ایسے مسائل سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔
جیو ٹی وی اردو کا سب سا بڑا نیٹ ورک رکھنے والا چینل بن گیا ہے۔اے آر وائی ٹی وی چینل کو اصل مقبولیت ڈاکٹر شاہد مسعود کی وجہ سے ملی تھی،ان کے پروگرام ویوز آن نیوز نے نائن الیون کے بعد بڑی حد تک پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی کی تھی۔ابھی تک اے آر وائی چینل سے نادیہ خان ، مسعود رضا،براہِ راست اے آر وائی چینل سے جیو چینل میں جا چکے ہیں۔عامر غوری نے اے آر وائی سے پرائم ٹی وی ہوتے ہوئے جیو چینل کو جائن کیا تھا۔اب ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی جیو چینل کو جائن کر لیا ہے۔ اے آر وائی چینل پر اس وقت ڈاکٹر شاہد مسعود کا پروگرام غیر اعلانیہ طور پر بند کر دیا گیا تھا جب انہوں نے جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہ کرنے والے کو سزا سنائے جانے پر ایک ”کاری گر“قسم کا پروگرام پیش کیا تھا۔اس پر جنرل پرویز مشرف نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا اور ڈاکٹر صاحب مطلعٔ اسکرین سے غائب ہو گئے ۔ کچھ عرصہ کے بعد جب اندرون خانہ معافی تلافی ہو گئی تو ڈاکٹر صاحب کا پروگرام نہ صرف پھر سے بحال ہو گیا،بلکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ جب چاہیں جنرل مشرف سے اسی وقت براہِ راست رابطہ کر سکتے ہیں۔ سو تب سے اگرچہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام میں پہلے جیسا دَم خم نہیں رہا،تاہم ان کے تجزیہ کی صلاحیت اور دوسرے تجزیہ کاروں کے تجزیوں پر مزید تجزیاتی نظرکے باعث وہ ابھی تک فعال ہیں۔ ہر چند اس فعالیت پر آفتاب اقبال نے اپنے فکاہی کالم”حسبِ حال“ میں ایک ایسا جملہ لکھا تھا جو واقعی ڈاکٹر شاہد مسعود کی تازہ ترین صورتحال کے بالکل حسبِ حال تھا۔تاہم توقع ہے کہ زندگی کے مزید تجربات سے گزرنے کے بعد اور جیو جیسے نسبتاً لبرل چینل میں آنے کے بعد ان کے تجزیاتی انداز میںمزید بہتری آئے گی۔مذکورہ سارے فنکاروں اور تجزیہ کاروں کے اے آر وائی کو چھوڑ کر جیو چینل کو جائن کرنے کے عمل کو سیاسی جماعتوں کی فلور کراسنگ کی طرح نہیں لیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ تو میڈیا کی ملازمتوں کا معاملہ ہے اور جسے جہاں سے بہتر پیش کش ہو اُسے وہاں جانے کا حق حاصل ہے۔ اے آر وائی چینل بھی ایک اچھا چینل ہے لیکن ایک تو جیو کے مقابلہ میں ان کا نیٹ ورک کافی کمزور ہے،دوسرے اس چینل کا بڑا انحصار ڈاکٹر شاہد مسعود پر تھا۔جب ادارے افراد پر منحصر ہوجائیں تو پھر اس طرح کسی کے چلے جانے سے یقیناً اداروں کو دھچکا پہنچتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو ہم جیسے روشن خیال مولویوں کے ساتھ بیٹھیں،امریکہ ناراض نہیں ہو گا۔مولانا فضل الرحمن سرکاری اپوزیشن لیڈر ہیں۔پاکستانی فوج اور امریکہ سے ان کے گہرے مراسم رہے ہیں۔سوویت یونین کے خلاف” امریکی جہاد“ کے لئے پاکستان سے مولانا فضل الرحمن کے مکتبِ فکر نے ہی افغانی، پاکستانی،عربی اور افریقی ”مجاہدین “تیار کئے تھے۔تب ایسے سارے علماءبڑے فخر کے ساتھ امریکیوں کو اپنے ”اہلِ کتاب بھائی“کہا کرتے تھے۔اس بھائی چارے میں ٹانگوں کی سواری کرنے والے علماءپجارو گاڑیوں اور پٹرول پمپوں اور بے شمار دوسری جائیدادوں کے مالک بن گئے۔سو امریکہ پہلے بھی ایسے علماءسے خوش تھا اور اب بھی اسے افغانستان اور قبائلی علاقوں میں آنے والے دنوں میں جو سخت کاروائی کرنی ہے وہ ”اہلِ کتاب“علماءبھائیوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔امریکہ کی ایک طرح سے مجبوری ہے۔ اس لئے مولانا فضل الرحمن کا یہ فرمان بالکل درست ہے کہ بے نظیر اگر مولانا سے مل بیٹھیں گی تو امریکہ ناراض نہیں ہو گا۔