تصوف کے حوالے سے ابھی تک یہ سننے اور پڑھنے میں آتا رہا ہے کہ کسی راجہ،مہاراجہ،بادشاہ وغیرہ پر جب تصوف کا اثر ہوتا تھا تو وہ تاج تخت چھوڑ کر جنگل کی راہ لیتا تھا اور پھر دنیاوی باشاہت کی بجائے آسمانی باشاہت کا تاج پہن کر سامنے آتا،یہی وجہ ہے کہ ایسے صوفی،سادھو صدیاں گزرنے کے بعدآج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی انہیں احترام کے ساتھ یاد کرتے ہیں ۔ کسی روحانی شخصیت کی نگاہ کا فیض ایسا ہوتا تھا کہ بڑے بڑے چور، ڈاکو بھی اپنے پیشوں سے تائب ہو کر قطب کے مقام کے حامل بن جاتے تھے۔تصوف کی ایک اور صورت اپنے وقت کے جابر حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے والوں کی ہوا کرتی تھی۔
آج کے جدید بلکہ ”مابعد جدید“ عہد میں تصوف کو بھی تماشا بنایا جانے لگا ہے۔پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں ایک صوفی کونسل کے قیام کا اعلا ن کیا گیا ہے۔اس کے سرپرست پرویز مشرف اور صدر چوہدری شجاعت حسین ہیں۔کہاں دنیا داری کی آلودگی سے پاک اور بے نیازصوفی ، سادھوجو اقتدار کو لات مار کر نکل جاتے ہیں اور کہاں پاکستان میں اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے والاگروہ جوذاتی اقتدار کے استحکام کی خاطر تصوف کو بھی آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنے لگا ہے۔جنرل پرویز کی بہت ساری غلطیوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے میں اب ان کا پہلے جیسا مداح تو نہیں رہا پھر بھی میں ان کا بھلا ضرور چاہتا ہوں۔تصوف کی دنیا میں بھی عوام کو دھوکہ دینے کے لئے کئی ٹھگ قسم کے لوگ سادھو اور صوفی پن کا ڈھونگ رچا لیتے ہیں۔یہاں شجاعت حسین جیسے لوگوں نے صوفی کونسل کا ڈھونگ رچایا ہے۔چودھری شجاعت کے مقابلہ میں تو اپنے الطاف بھائی کی پیری میں پھر بھی کچھ دَم ہے کہ غریب عوام کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔چودھری شجاعت کی صوفی کونسل کا سرپرست بن کرجنرل پرویز مشرف اپنی پوزیشن مزید خراب کر رہے ہیں۔انہیں چاہئے کہ اپنے ارد گرد کے سیاسی ٹھگوں کے پورے کردار کو سمجھیں(ان کے پاس تو ان کی ساری فائلیں موجود ہیں)اور صوفی کونسل کے ڈھونگ کو با عزت طریقے سے ختم کر دیں۔مثبت سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے روشن خیالی کا نعرہ اور روشن خیال اقدامات ہی کافی رہیں گے۔آپ روشن خیالی کے تقاضوں کے مطابق سارے اہم ،بنیادی اچھے کام مکمل کر لیں اور معاف کرائے گئے قرضے قومی خزانے میں واپس کرا دیں تو قوم ویسے بھی آپ کو دعائیں دے گی۔اس میدان میں ابھی آپ کو بہت سارے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔میری دلی خواہش ہے کہ اس معاملہ میں پرویز مشرف تضحیک کا نشانہ نہیں بنیں،سو ان سے گزارش ہے کہ اپنی سرپرستی میں بنائی گئی صوفی کونسل کو فوراً ختم کردیں۔
اہلِ ظاہر نہ کریں کوچۂ باطن کی تلاش
کچھ نہ پائیں گے یہاں رنج و مصیبت کے سوا
دسمبر۲۰۰۶ء کے آخرمیں ہونے والااس سال کاحج اس لحاظ سے با برکت تھا کہ جمعہ کے دن کی وجہ سے حجِ اکبر تھا۔اس کی ایک اور بے حد اہم خصوصیت یہ رہی کہ اس بار شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران رش اور بد انتظامی کی وجہ سے ہونے والی اموات نہیں ہوئیں اور رمی جمرات کے سارے مرحلے خیرو عافیت سے مکمل ہو گئے،وگرنہ ہر سال متعدد حجاج کرام رمی جمرات کے دوران کچلے جاتے تھے اور یہ سلسلہ کئی برسوں سے نہایت بے حسی کے ساتھ دیکھا جا رہا تھا۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ میری تجویز سعودی حکام تک پہنچ گئی اور انہوں نے اس پر عمل کر کے اس مسئلے کا حل نکال لیا،تاہم یہاں یہ بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ میں نے فروری ۲۰۰۳ء میں حج کی سعادت حاصل کی تھی۔اس کا کچھ احوال اپنے سفر نامہ”سوئے حجاز“ کے دوسرے ایڈیشن مطبوعہ ۳۰ستمبر۲۰۰۴ءمیں شامل کر دیا تھا۔اس میں نہ صرف ہلاکتوں کی وجہ کو بیان کیا تھا بلکہ آسان پیرائے میںاس مسئلے کا حل بھی تجویز کر دیا تھا۔سال ۲۰۰۵ءکے حج پر جب پھر اموات ہوئیں تو میرے سفر نامہ کے ان اقتباسات کو روزنامہ انقلاب بمبئی میں ندیم صدیقی صاحب نے شائع کیا تھا۔وہ اقتباسات حوالوں کے ساتھ یہاں بھی پیش کئے دیتا ہوں:
” ہجوم کے باعث جو ہلاکتیں ہوتی ہیں اس میں ہجوم کی زیادتی سے زیادہ بد انتظامی کا دخل ہے۔جہاںسے لوگ پتھر مارنے کے لئے جا رہے ہیں وہیں سے واپس آ رہے ہیں۔کوئی لائن یا ترتیب نہیں ہے۔بس جب ایک طرف کا چھوٹا سا ہجوم اور مخالف سمت کا چھوٹا سا ہجوم برابر کی زور آزمائی شروع کردیتا ہے توپھر کچلے جانے سے یا دَم گھٹنے سے اموات ہو جاتی ہیں۔۔۔۔جتنی اموات بھی ہوتی ہیں محض بد انتظامی کی وجہ سے۔۔وہ بد انتظامی جو سارے اسلامی ملکوں کی شناخت بن چکی ہے۔ “
(سوئے حجاز ایڈیشن دوم صفحہ نمبر۱۲۲، ۱۲۳ )
”منیٰ میں رمی جمرات کے موقعہ پر ہر سال اموات ہوتی ہیں۔یہ اموات صرف اور صرف بد انتظامی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔اس سلسلے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جہاں سے لوگ پتھر مارنے کے لئے آرہے ہوتے ہیں ان کی واپسی بھی وہیں سے ہوتی ہے۔اسی لئے آتے ہوئے ہجوم اور جاتے ہوئے ہجوم کے ٹکراؤ سے بھگدڑ مچتی ہے اور کمزور لوگ مارے جاتے ہیں۔اسی حج کے موقعہ پراور اسی رش کے عالم میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے وقت جو جگہ ہوتی ہے وہ منیٰ کے مقابلہ میں خاصی محدود جگہ ہوتی ہے لیکن چونکہ وہاں آنے اور جانے کے رستے بالکل الگ الگ بنے ہوئے ہیں ۔اسی لئے نہ وہاں کوئی بھگدڑ مچتی ہے نہ وہاں لوگوں کی اموات ہوتی ہیں ۔ ان دو مثالوں سے ہی مسئلے کا حل واضح ہوجاتا ہے۔یعنی رمی جمرات کے لئے آنے اور جانے کے بالکل الگ الگ رستے بنائے جانے چاہئیں۔یہ کوئی اتنابڑا مسئلہ نہیں ہو گا صرف نیت کرنے کی بات ہے اور کام شروع کردیا جائے تو اگلے حج سے پہلے سارا نظام سیٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔“(سوئے حجاز ایڈیشن دوم صفحہ نمبر۱۳۳)
خوشی کی بات ہے کہ اس بار میری بیان کردہ تجویز کے مطابق نہ صرف آنے اور جانے کے رستے الگ الگ بنائے گئے بلکہ دو منزلہ رستوں کو تین منزلہ بھی کر دیا گیاہے۔اگر میری تجویز سعودی حکام کی نظر تک پہنچی ہے تو مجھے خوشی ہے لیکن اگر سعودی حکام کو کئی سال تک حجاج کی اموات پر بے حسی کے بعد یکایک از خود احساس ہوا ہے اور ان کا ذہن اتناکام کر گیا ہے کہ انہوں نے خود ہی مسئلہ کا حل ڈھونڈ نکالا ہے تو تب بھی خوشی کی بات ہے۔
ویسے مجھے اپنی خوش فہمی میں رہنے کا زیادہ مزہ آرہا ہے۔
اقوام متحدہ کے نئے سیکریٹری جنرل’ بین کی مون‘ نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ان کا تعلق جنوبی کوریا سے ہے۔انہوں نے ہندوستان کے نمائندہ وجے نمبیار کو اپنا چیف آف سٹاف مقرر کیا ہے۔بظاہر تو سارا سیٹ اپ امریکی خواہشات کے مطابق ترتیب پایا ہے،دیکھیں اب یہ لوگ عالمی امن کے قیام و استحکام کے لئے کیا کچھ کر پاتے ہیں اور اقوام متحدہ کو کس حد تک خود مختار اور موثربنا پاتے ہیں۔فی الوقت تواقوام متحدہ امریکہ سرکار کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایک ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔امریکی مطلق العنانی کا سلسلہ تب سے زور پکڑ گیا ہے جب سے سابق سوویت یونین کی شکست و ریخت ہوئی ہے۔ سوویت یونین کو توڑنے میں امریکہ نے سب سے زیادہ مسلمان ممالک کو استعمال کیا۔مسلمان حکومتوں کے حکمرانوں،جرنیلوں اور مذہبی گروہوں نے مل کر امریکی جہاد میں بھر پور حصہ لیا۔لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد وہی مسلمان ممالک،حکمران،جرنیل اور مذہبی گروہ اب امریکہ کی زد پر ہیں۔پہلے جنہیں مجاہدین کہا جاتا تھا،وہ اب دہشت گرد کہلائے ہیں۔اب مسلمانوں کو اس کا ادراک کرلینا چاہئے کہ انہوں نے سوویت یونین کے خلاف قطعاً کوئی جہاد نہیں کیا تھا۔جہاد کے نام پر بے وقوف بنائے گئے تھے اور استعمال کئے گئے تھے ۔ سوویت یونین کو توڑنے میں امریکی سازش کا حصہ بننے والے سارے مسلمان طبقات نے بیسویں صدی کا سب سے بڑا گناہ کیا تھا اور اب اسی گناہ کی سزا مل رہی ہے۔ افغانستان کے جن جہادی گروپوں کو مجاہدین قرار دیا گیا ،سوویت یونین کے ٹوٹنے اور امریکہ کے وہاں سے چلے جانے کے بعد انہوں نے افغانستان میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کئے رکھا۔سعودی عرب نے مجاہدین میں صلح کرانے کے لئے کوشش کی۔تمام بڑے لیڈروں کو خانہ کعبہ میں بٹھا کر صلح کرائی گئی،کعبہ شریف میں بیٹھ کرحلف اُٹھائے گئے اور پھرکابل پہنچنے تک کعبہ میں بیٹھ کر کھائی گئی ساری قسمیں توڑدی گئیں اور ان مخصوص مسالک کے علماءمیں سے کسی کو اس حلف کو توڑنے پر مجاہدین کی مذمت کرنے کی بھی توفیق نہیں ملی۔کیا پتہ افغانستان کاموجودہ بُرے حال تک پہنچنا در حقیقت کعبہ شریف میں بیٹھ کر قسمیں کھا کر مکر جانے والوں کے لئے ربِ کعبہ کی طرف سے سزا ہو۔لیڈروں کے گناہوں کی سزائیں تو پوری قوم کو بھگتنا ہوتی ہیں۔
سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا آلۂ کار بننے والوں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں روس کے داخلے کے بعد اگر پاکستان ”امریکی جہاد“ نہ کرتا تو افغانستان کے بعد پاکستان کی باری آنے والی تھی۔ معاملہ روس اور افغانستان کا تھا،پاکستان پرائی آگ میں کود پڑا۔یہ وہ جواز ہے جسے اب امریکہ نے اپنی پالیسی لائن بنا لیا ہے۔اس کا بھی یہی کہنا ہوتا ہے کہ جس ملک سے امریکہ اور دنیا کی سلامتی کو خطرہ محسوس ہوگا (یہ محسوس ہونا،اپنے اپنے احساس کی بات ہے)، اپنے اور دنیا کے امن کے تحفظ کی خاطر امریکہ اس کے خلاف ہر طرح کی کاروائی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ ایسی کاروائیوں کی توثیق کر دیتا ہے۔بین کی مون بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔
مہاراشٹر کے شہراورنگ آباد میں ۵جنوری کو ایک مسلمان نوجوان سہیل احمد عبدالقیوم گلمنڈی علاقہ میں سپاری ہنومان مندرمیں گھس گیا۔وہاں اس نے پوجا میں مشغول پنڈت کی پٹائی کر دی اور ساتھ ہی اللہ اکبر کے نعرے لگانے لگ گیا۔جب یہ خبر مندر سے باہر نکلی تو ہزاروں شیو سینک وہاں جمع ہو گئے۔سہیل احمد عبدالقیوم کو پہلے تو وہاں موجود لوگوں نے اچھی طرح مارا پیٹا،پھر اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔شہر میں شیو سینکوں نے اپنے اشتعال کا مظاہرہ کیا لیکن مسلمانوں کے تحمل نے مزید کوئی خرابی پیدا نہیں ہونے دی۔اخبار کی اطلاع کے مطابق سہیل احمد عبدالقیوم کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے۔میرے خیال میں یہ جو کچھ بھی ہوا ہے بہت برا ہوا ہے۔اگر مسلمان نوجوان کا ذہنی توازن واقعتاً ٹھیک نہیں ہے تب بھی اس کے گھر والوں کو ایسے نوجوان کوسنبھال کر رکھنا چاہئے تھا۔خبر سے لگتا ہے کہ ذہنی عدم توازن والی بات شاید بنائی جا رہی ہے۔ سیدھے سادہ مسلمان نوجوان کو کہیں سے تو یہ تحریک ملی ہو گی کہ وہ اس طرح مندر میں جائے،اور اس طرح پنڈت کو مارنے کے ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند کرے۔جنونی مسلمان اپنی انتہا پسندی کے باعث اسلام کے نادان دوست بن چکے ہیں۔سہیل احمد عبدالقیوم کی حرکت سے مہاراشٹر میں بڑی سطح پر فرقہ وارانہ آگ لگ سکتی تھی۔بچ بچا ہو گیا ہے تو خدا کا شکر ادا کیا جانا چاہئے۔ایسے پاگلوں کو بھی کچھ تو عقل سے کام لینا چاہئے۔
۶جنوری کے اخبار میں اورنگ آباد کی تکلیف دہ خبر پڑھی اور ۷جنوری کوروزنامہ جنگ نے خبر دی ہے کہ برمنگھم کے ایک نوجوان عمران جاوید کو قتل پر اکسانے کے الزام میں جرم ثابت ہوجانے پر سزا کا سامنا ہے۔ گزشتہ برس ڈنمارک کے ایک اخبار میں نازیبا کارٹونز کی اشاعت پر احتجاجی مظاہروں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا،تب انگلینڈ میں ہوئے مظاہرہ میں عمران جاوید نے”امریکہ پر بم گراؤ، ڈنمارک پر بمباری کرو۔امریکی اور ڈینش لوگوں کو قتل کرو“کے نعرے لگائے تھے۔اس نوجوان پر قتل پر اکسانے کا الزام ثابت ہو گیا ہے،چنانچہ اسے پولیس کی حراست میں دے دیا گیا ہے۔اپریل میں سزا کا فیصلہ سنایا جائے گا۔یہ سزا چند برسوں سے لے کر عمر قیدتک ہو سکتی ہے۔جب عمران جاوید کا جرم ثابت ہوجانے کا فیصلہ سنایا گیا تو کمرۂ عدالت میں موجود ایک شخص نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور پھربلند آواز کے ساتھ کہا ”میں جج،جیوری،عدالت اور تم سب پر لعنت بھیجتا ہوں“۔پولیس اسی وقت اسے پکڑ کر باہر لے گئی۔چند اور افراد نے بھی عدالت کے خلاف توہین آمیز نعرے لگائے۔اگر ایسے نعروں سے اسلام کا اور مسلمانوں کا کچھ بھلا ہونے والا ہے،تو ایسی نعرہ بازی کرتے رہئے۔لیکن اگر اس کے مقابلہ میں یورپ میں دستیاب علمی سہولتوں سے فائدہ اُٹھا کر جدید علوم میں ہمارے نوجوان دلجمعی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیں تو شاید مسلمانوں کے لئے زیادہ تقویت کا موجب بن سکیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی،معاشی اور تعلیمی صورتحال کا مطالعہ کرنے والی سچر کمیٹی کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش میں مسلمان آبادی والے دو ہزار دیہات ایسے ہیں جہاں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔بہار اور مغربی بنگال میں بھی ایک ہزار کی تعداد میں مسلم آبادی والے ایسے دیہات ہیں جہاں کوئی اسکول نہیں ہے،کوئی تعلیمی سہولت نہیں ہے۔ اسلام میں علم حاصل کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے، مذکورہ رپورٹ کے مطابق مسلمان آبادی والے دیہاتوں میں اسکول کھولنے کے معاملہ میں سرکاری طور پر تساہل ہوا،وسائل کی کمی کی مجبوری تھی یامسلمانوں کے ساتھ جان بوجھ کر نا انصافی ہوئی ہے، تاہم مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ حکومت سے اپنے حق کے مطالبہ کے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت بھی اپنے بچوں کے لئے تعلیم کا کچھ انتظام شروع کر لیں ۔
پاکستان میں موبائل فون چھیننے کی وارداتیں اتنی عام ہو گئی ہیں کہ اس کے لئے کوئی انوکھی سے انوکھی مثال بھی انوکھی نہیں رہی۔ایک وزیر صاحبہ سے اس کے باڈی گارڈز کی موجودگی میں پرس اور موبائل چھین لیا گیاتھا۔ اس سے عام شہری کی حالتِ زار کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ موبائل چھیننے والے معمولی سی مزاحمت پر گولی مار دیتے ہیں۔انسانی زندگی کی اس ارزانی پر کیا کہا جائے۔اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ لاہور میں ڈی آئی جی پولیس تصدق حسین کو سات اور آٹھ جنوری کی درمیانی شب پستول کی نوک پر لوٹ لیا گیا،ان کی نقدی اور موبائل فون چھین لینے کے بعد ان کی طرف سے مزاحمت کرنے پر ڈاکوؤں نے فائر کر دیا۔جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔اگرچہ ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے،لیکن پولیس تھانوں کی سرپرستی میں ہونے والے جرائم اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اعلیٰ پولیس افسران بھی ان کی زد میں آنے لگے ہیں۔