اس بار کالم لکھنے میں لگ بھگ اڑھائی مہینے کا وقفہ آگیا ہے۔حالانکہ اس عرصہ میں اتنی اہم ترین خبریں سامنے آتی رہی ہیں کہ ہر ہفتہ میں ایک کالم لکھنا ممکن تھا۔بے نظیر بھٹو کی واپسی،پھر اسٹیبلشمنٹ کی اسکیم کے عین مطابق میاں نواز شریف کے سارے خاندان کی واپسی،سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے ججوں کی برطرفی،نیا پی سی،او ، ایمر جنسی ،نجی الیکٹرانک میڈیاپر پابندی، انتخابی مہم کا آغاز،بائیکاٹ کے پروگرام،عمران خان کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبا کی طے شدہ بد سلوکی،جماعت اسلامی کی قیادت کی وضاحتی آئیں،بائیں،شائیں۔ جنرل پرویز مشرف کادُکھے ہوئے دل کے ساتھ اُس وردی کو اتارناجسے وہ اپنی کھال قرار دیا کرتے تھے۔لیکن یہ خبریں اور ان سے ملتی جلتی متعدد گرما گرم خبروں نے بھی ٹھنڈا کیے رکھا۔اس سارے عرصہ میں مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر ہی یاد آتا رہا۔
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
اب بھی کالم لکھنے کا موڈ ایک خاص خبر کی وجہ سے بنا ہے۔یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔بلکہ اس کا ذکر کرنے سے ہمارے سابق جنرل،جناب پرویز مشرف صاحب کی شکایت ہمیں شرمندہ کرتی رہے گی۔انہیں گلہ ہے کہ ہمارے زیادہ ترلوگ پاکستان کا امیج اچھا بنا کر پیش کرنے کی بجائے بیرون ملک میں اپنے ملک کی بدنامی کرتے ہیں۔لیکن خبر ایسی ہے کہ اس کے ذکر سے باہر مزید بدنامی نہیں ہو گی ۔کیونکہ یہ خبر باہر ہی سے آئی ہے۔خبر یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے گلوبل کرپشن بیرومیٹر ۲۰۰۷ءکے نام سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔اس میں دنیا بھر میں کرپشن کا کچھ حساب کتاب پیش کیا گیا ہے۔پاکستان میں کرپشن کی شرح سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک نے اور کسی شعبہ میں ترقی کی ہو یا نہ کی ہو لیکن کرپشن کے میدان میں واقعی بڑی ترقی کی ہے۔کرپشن کے سارے اعدادو شمار بعد میں ،مجھے یہاں چار اہم ترین شعبوں کے بارے میں خاص بات کرنی ہے۔اس رپورٹ میں کرپشن کے کل پانچ نمبر مقرر کرکے پھر پانچ میں سے حاصل کردہ نمبر دئیے گئے ہیں۔اس کے مطابق فوج نے پانچ میں سے3.2 نمبر حاصل کیے ہیں۔میڈیا نے3.3 نمبر حاصل کیے ہیں۔لیگل سسٹم یعنی عدلیہ نے 3.5 نمبر حاصل کیے ہیں۔اور سیاسی جماعتوں نے 3.9 نمبر حاصل کیے ہیں۔
مجھے حیرت بھی ہے اور افسوس بھی ہے کہ ابھی تک قومی پریس یا آزاد میڈیا نے اس خبر کو اس کے شایانِ شان کوریج نہیں دی۔شاید اس لیے کہ اس رپورٹ کے مطابق خود میڈیا کے اندر کرپشن کی شرح فوج کے اندر کرپشن سے زیادہ ہے۔تو پھر یہ ہمارے میڈیا سٹارز کیا ڈرامہ کر رہے ہیں۔میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اس وقت کے بحال شدہ چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ ان کی پہلی ترجیح عدلیہ کو کرپشن سے پاک کرنے کی ہونی چاہئے۔اب یہی درخواست میڈیا کے اسٹارز سے کی جانی چاہئے کہ صاحبو! حکومت کے خلاف آپ کی حق گوئی و بے باکی اپنی جگہ برحق، لیکن پہلے اپنی منجی کے نیچے بھی ڈانگ پھیر لیں اور اپنے اندر کے کرپٹ عناصر کو بھی سامنے لائیں۔وہ کرپٹ اسٹارز جن کے بارے میں عوام کو کچھ بھی خبر نہیں اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل انہیں فوج سے زیادہ کرپٹ قرار دے رہا ہے۔ان بے باک کرپٹ اسٹارز کا حساب کون بے باق کرے گا؟میڈیا اور پریس سے توقع کی جانی چاہئے کہ وہ اپنے اندر کی کرپشن کو بھی بے نقاب کریں گے اور قوم کے سامنے پورا سچ لے آئیں گے۔ وگرنہ پھر موجودہ ساری جدو جہد کا ایک ہی مطلب ہے کہ 3.3 سے لے کر3.9 تک کرپشن کرنے والے شعبوں نے مل کر 3.2 تک کی کرپشن کرنے والے ادارہ کے خلاف محاذ بنا رکھا ہے۔
سیاسی جماعتوں،عدلیہ،میڈیا اور فوج کے نمبر اوپر بیان ہو چکے،اب دوسرے شعبوں کی کرپشن میں اعلیٰ کارکردگی کو بھی ایک نظر دیکھ لیں:پولیس4.3 ،ٹیکس،ریونیواتھارٹی 4.1 ،رجسٹری اینڈپرمٹ سروسز 3.9 ، یوٹی لیٹیز 3.9 ، پارلیمنٹ3.8 ،غیر سرکاری تنظیمیں 3.6،میڈیکل 3.4 ،پرائیویٹ سیکٹر3.4 ، تعلیمی نظام 3.0،مذہبی تنظیمیں2.7،۔
بے نظیر بھٹو کی پاکستان میں آمد کے موقعہ پر ان کا جو فقیدالمثال استقبال ہوا،اس سے طاقت کے مراکز میں کھلبلی مچ گئی۔چنانچہ عجلت میں اس ریلی کو درہم برہم کرنے کے لیے خودکش حملہ کی کاروائی کی گئی۔مجھے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بے نظیر بھٹو نے جن افراد کے بارے میں پرویزمشرف کو وقت سے پہلے آگاہ کیا تھا،وہی اس حملہ کے ذمہ دار ہیں۔بے نظیر نے ۱۲اکتوبر کو ایک برطانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے خفیہ اداروں میں انتہا پسندی کی حمایت کرنے والے موجود ہیں۔اس الزام کی توثیق اب میاں نواز شریف کے ایک تازہ بیان سے ہوئی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں کے خلاف کاروائی کرنا چاہتے تھے(اسامہ بن لادن کو کلنٹن کے حوالے کرنا چاہتے تھے) تب فوج کے چیف جنرل پرویز مشرف نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ یہ تو ہماری فرنٹ لائن دفاعی قوت ہے۔بہر حال ہمارے خفیہ اداروں کی بعض سرگرمیاں اتنی افسوسناک ہیں کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ایک ایجنسی کے(ریٹائرڈ) اعلیٰ افسر جنہوں نے پلے بوائے جیسی جوانی بسر کی، اب تبلیغی جماعت کے رکن بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ بعض افسران کی گھریلو زندگی پر بھی نگاہ رکھا کرتے تھے اور بعض کو کچھ آگاہ بھی کر دیا کرتے تھے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے کیس کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے چند قابلِ اعتراض تصویریں پیش کی گئیں۔جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا تو اٹارنی جنرل عبدالقیوم کو غیر مشروط معافی مانگنا پڑی۔اب پی سی او کے نفاذ کے بعد پھر بعض جج صاحبان کی گھریلو زندگیوں کی تصویروں کا ذکر سننے میں آیا۔اور تو اور خود شوکت عزیز کے بارے میں بھی پرائم منسٹر ہاؤس کے اندر کی تصویروں کا تھوڑا سا چرچا کیا گیا۔ یہ سب کیا ہے؟
جس ملک کی خفیہ ایجنسیاں ملک کے مفاد کی عالمی نوعیت کی سرگرمیوں کو چھوڑ کر اپنے ہی افراد کی خانگی زندگیوں میں گھٹیا بلیک میلروں جیسی تانک جھانک شروع کر دیں،ان سے کسی عالمی نوعیت کی اعلیٰ کارکردگی کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔ایجنسیوں کا اتنا ذکر اس لیے آگیا کہ بے نظیر کے عائد کردہ الزام کو کئی دوسرے زاویوں سے بھی بہتر طور پر دیکھا جا سکے۔ایم کیو ایم نے بے نظیر کی ریلی کے دوران اپنے طرزِ عمل سے اپنے ۱۲مئی ۲۰۰۷ءکے کردار کی کچھ تلافی کرنے کی کوشش کی ۔اچھا کیا۔
اسی دوران پرویز الہٰی نے کئی جلسوں سے خطاب کیا،دعوت اسلامی والوں کا اجتماع ہو گیا،تبلیغی جماعت والوں کا لاکھوں کا اجتماع ہو گیا،میاں نواز شریف کا بھی رات بھر کا ایک جلوس داتا دربار تک جا پہنچا۔۔۔سارے جلسے جلوس خیر و عافیت سے انجام پذیر ہوئے۔لیکن بے نظیر بھٹو کی عظیم الشان ریلی خود کش حملہ آوروں کا نشانہ بنا دی گئی۔اس کے ذمہ دار بہر حال حکومت کے اندر ہی موجود ہیں۔بے نظیر اگر اپنے پہلے بیانات پر خاموشی اختیار نہ کر لیں تو حقیقت وہی ہے جو وہ پہلے کہہ چکی ہیں۔
جی ڈی پی کی شرح میں گرانقدراضافہ کی نویداور قومی خزانہ میں اربوں ڈالر کے ریزروز کی بشارتیں سنانے والے شوکت عزیز کی وزراتِ عظمیٰ اپنی مدت پوری کرکے ختم ہو چکی۔ موصوف کی سبکدوشی سے تھوڑا عرصہ پہلے گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے یہ ہولناک انکشاف سامنے آیا کہ اس حکومت کی برکت سے ملک پانچ ہزار ارب سے زیادہ کا مقروض ہو چکا ہے۔کہاں کی جی ڈی پی کی شرح اور کہاں کے اربوں ڈالرز کے ریزروز۔۔۔یہاں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔شوکت عزیز اور ان کے مشیر خزانہ(جو اَب خیر سے وزیر خزانہ ہو چکے ہیں) نے وائٹ کالر کرائم کی ایسی ایسی کاروائیاں کی ہیں کہ اپنے لٹنے کا کھوج لگانے کے لیے قوم کو ایک عمر لگ جائے گی ۔میرے نزدیک گجرات کے چوہدری برادران ملک کو لوٹنے والے سیاستدانوں میںسب سے پہلے نمبر پر تھے ۔کیونکہ یہ لوگ جنرل ضیاع الحق کے زمانے سے اب تک قوم کو لوٹ رہے ہیں،اسٹیبلشمنٹ میں ان کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں۔خفیہ ایجنسیوں میں بھی ان کی رسائی ہو چکی ہے۔لیکن ہمارے بنکار وزیر اعظم شوکت عزیز صاحب سٹاک مارکیٹ کریش اور پرائیویٹائزیشن کے ایسے ایسے کرتب دکھا گئے کہ ان کے سامنے گجرات کے چوہدریوں کی ساری کرپشن بھی بے معنی ہو جاتی ہے اور وہ محض جوتی چور یا بھینس چور دکھائی دینے لگتے ہیں۔اسٹیل مل کو اگرچہ لٹنے سے بچا لیا گیا ہے لیکن اسے جس طرح پرائیویٹائز کرنے کے چکر میں لوٹا جا رہا تھا،وہ اسکینڈل آج بھی سپریم کورٹ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔بلکہ اسی چکر میں سابق جنرل ،صدرپرویز مشرف کو اکسا کر خراب کیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ۹مارچ ۲۰۰۷ءکااقدام شوکت عزیز کے اسٹیل مل والے غم و غصہ کا نتیجہ تھا۔جس کے لیے قوم کی زد میں شوکت عزیز کی بجائے پرویز مشرف آگئے۔پرویزمشرف آج جس صورتحال سے دوچار ہیں یہ کافی حد تک شوکت عزیز کا کیا دھرا ہے۔
جنرل پرویز مشرف اب سابق جنرل ہو چکے ہیں۔انہوں نے بڑے درد بھرے دل کے ساتھ اپنی وردی اتاری ہے۔اب وہ پاکستان کے سویلین صدر کہلاتے ہیں۔ پاکستان جمہوریت کی بحالی کی طرف جارہا ہے۔قومی خود مختاری کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری قومی خود مختاری کی حالت ”بی بی مختاراں“ جیسی ہے اور ہماری جمہوریت ”بچہ جمہورا“ہے۔اب جو کچھ ہونے جا رہا ہے وہ فوج کی سرپرستی میں ہوئے ماضی کے میوزیکل چیئر گیم ہی کا ایک حصہ ہے۔جس میں مختلف طبقات اپنے اپنے مفادات سمیٹیں گے۔اور عوام کے حصہ میں مزید مسائل،مزید مہنگائی اور مزید دکھ اور مصیبتیں ہی آئیں گی ۔ایجنسیوں کے ساختہ انتخابی نتائج کی بجائے جب تک عوام کے ووٹ کا دل سے احترام نہیں کیا جائے گا،پاکستان کے اچھے دن نہیں آئیں گے۔لیکن اس کے باوجود اچھے دنوں کی امید تو رکھنی چاہئے۔سو پاکستان کے عوام اچھے دنوں کی امید قائم رکھیں!
پاکستانی قوم کے ساتھ ایک بڑا فراڈ جو گزشتہ ساٹھ سال سے ہو رہا ہے وہ عوام کے دلوں میں امریکہ مخالفت کے جذبات ابھارنا ہے۔پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں کا قبلہ امریکہ کی طرف ہے۔حکومت ہو یا اپوزیشن ہو سب کا کافی سارا انحصارامریکی آشیرواد پر ہے۔ہم سوویت یونین کے ٹوٹنے سے پہلے بھی امریکہ ہی کے زیرِ اثر تھے،سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تو امریکی اثرات مزیدگہرے ہو گئے۔نائن الیون کے سانحہ کے بعد تو ہمارے سامنے کوئی اور رستہ بھی نہیں ہے۔اس وقت جو مذہبی جماعتیں امریکہ کے خلاف سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہی ہیں وہ بھی قوم کو دھوکہ دے رہی ہیں ۔ اگر ان کا ماضی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو امریکہ کے ساتھ سب سے زیادہ طویل دورانیے کا رومانس انہیں مذہبی جماعتوں کا رہا ہے۔یہ مذہبی رہنما امریکی چینلز پر اہلِ مغرب کو اپنے ”اہلِ کتاب بھائی“کہتے تھے اور امریکی میڈیا انہیں مجاہدین قرار دیا کرتا تھا۔ان مذہبی رہنماؤں نے امریکی،اسرائیلی امداد کے ساتھ سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی جنگ افغانستان میں لڑی۔اس کے لیے دنیا بھر کے اسلامی ملکوں سے کرائے کے فوجی فراہم کیے گئے۔آج بھی مذہبی جماعتوں کی امریکہ سے اصل ناراضی صرف اتنی ہے کہ افغانستان کے معاملات میں ہمیں ثالث بناؤ،ہم تمہارے معاملات ٹھیک کرا دیں گے۔بعض علماءنے پہلے درپردہ اور بعد میںکھلے عام امریکہ کو یہ پیش کش کی تھی۔دوسری سیاسی جماعتوں کا جھکاؤ بھی امریکہ ہی کی طرف ہے۔
یہ بات تو بہت پہلے سامنے آچکی ہے کہ امریکہ نے مسلمانوں میں کئی انتہاپسندوں کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں۔ان میں انتہا پسندی کی بالواسطہ حمایت کرنے والے میڈیا اسٹارز بھی شامل ہیں اور خود کش حملہ آوروں کو تربیت دینے والے بھی۔کیونکہ انہیں اقدامات کی وجہ سے ایک طرف دنیا بھر میںمسلمانوں کا امیج بد سے بدتر کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف اس ساری صورتحال کا فائدہ براہِ راست امریکہ کو حاصل ہو رہا ہے۔ایسے خود کش حملہ آوروں،ان کے حامی جرنلسٹوں اور خوش عقیدہ اسلام کے نادان دوستوں کے بارے میں اب کیا کہا جائے؟
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
مسئلہ یہ ہے کہ اپنے داخلی و خارجی حالات کے باعث پاکستان کی ہر حکومت امریکہ پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔اگر یہ مجبوری موجودہے تو قوم کو بھی اصل حقائق سے آگاہ کیجئے ۔انہیں بتائیے کہ آپ کی اقتصادیات کس حد تک امریکی یا مغربی اقتصادیات پر انحصار کیے ہوئے ہے۔آپ کے اسٹریٹیجک مفادات کس حد تک امریکہ سے وابستہ ہیں۔ خود میڈیا کو بھی بتانا چاہئے کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی میں سب سے بڑا کردار امریکہ کا ہے۔محض سیاست چمکانے کے لیے قوم کے دلوں میں امریکہ مخالف جذبات بھڑکائے رکھنا اور اقتدار میں حصہ ملنے پر امریکہ کے احکامات کی بجا آوری کیے جانا منافقت ہے۔وہ تمام سیاسی جماعتیں جو بظاہر امریکہ مخالف تقریریں کر رہی ہیں وہ صرف قوم کو دھوکہ دے رہی ہیں اور منافقت سے کام لے رہی ہیں۔بات صرف پاکستان کی نہیں ،مشرق، وسطیٰ کے بیشتر ممالک بالخصوص سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،مصر،کویت وغیرہا سب کا انحصار امریکی اور دوسری مغربی قوتوں پر ہے۔البتہ ان عرب ممالک نے پاکستانی سیاست کی طرح کبھی اپنی قوم کو امریکہ مخالف بنانے کی کوشش نہیں کی۔
مغرب سے تعلقات کے حوالے سے ایک خبر یہ ہے کہ ۵نومبر۲۰۰۷ءکو سعودی عرب کے بادشاہ شاہ عبداللہ نے ویٹی کن میں پوپ سے ملاقات کی ہے۔مختلف مذاہب کے درمیان پھیلی ہو ئی اور پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے ہر سطح پر مختلف مذاہب کے درمیان مکالمہ بے حد ضروری ہے۔یہ مکالمہ عمومی طور پر تمام مذاہب کے ساتھ ہونا چاہیے اور خصوصی طور پر ان مذاہب اور مسالک کے درمیان ہونا چاہیے جن کے درمیان مخاصمت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔اگر مسیحی رہنماؤں سے محض اس لیے ملاقات ہورہی ہے کہ وہ قوم ایک بڑی طاقت بن چکی ہے تو پھر یہ مجبوری کی ملاقات ہے۔لیکن اگر دل میں واقعی اخلاص ہے اور یہ نیت ہے کہ تمام مذاہب اور مسالک کے درمیان پُر امن بقائے باہمی کا رویہ فروغ دیا جائے تو پھر ان مذاہب اور مسالک کے ساتھ بھی مکالمہ ناگزیر ہے جو کوئی بڑی عالمی سیاسی قوت یا اثر نہیں رکھتیں۔جب مکالمہ اس سطح تک پہنچے گا تب ہی یہ کہا جا سکے گا کہ یہ نیک نیتی کا مکالمہ ہے،مجبوری کا نہیں۔
حال ہی میں پاکستان سے انسانی حقوق تنظیم کے دو امریکی کارکنوں کو نکال دیا گیا ہے۔ان کارکنوں کا قصور یہ تھا کہ یہ اعتزاز احسن کی گرفتاری کے خلاف اور ان کی حمایت میں سرگرم ِ عمل تھے۔ان میں ایک مسٹر بیری ہیں اور ایک مسز بنجمن۔مسز بنجمن کا نام سامنے آیاتو یاد آیا کہ اکتوبر کے مہینے میں اس خاتون نے امریکہ ہی میں امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے ان کے چہرے پر لال رنگ ملنے کی کوشش کی تھی۔اس ہنگامہ میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔اس واقعہ سے تھوڑا عرصہ قبل احمد رضا خان قصوری کے پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں نازیبا ریمارکس دینے پر پاکستان میں ایک ہنگامہ ہوا تھا۔پشاور کے ایک وکیل اور ذوالفقار علی بھٹو کے عاشق خورشید احمد نے احمد رضاقصوری کا منہ کالا کر دیا تھا۔یہ خبر عالمی سطح پر بھی دلچسپی کے ساتھ دیکھی گئی تھی۔لگتا ہے اس خبر سے متاثر ہو کر مسز بنجمن نے کنڈولیزا رائس کے چہرے پر لال رنگ ملنے کی کوشش کی تھی۔ظاہر ہے کونڈی کے چہرے پر کالا رنگ ملنے سے تو کوئی فائدہ نہ ہونا تھا۔لیکن مسز بنجمن تھوڑا سا مزید غور کرکے کاروائی کرتیں تو کنڈولیزا رائس کے چہرے پر سفید یا پیلا رنگ پھینکنے کی کوشش کرتیں ،جو لال رنگ یا کالے رنگ کے مقابلہ میں بہتر نتائج کا حامل ہوتا۔امریکہ میں مسز بنجمن کو گرفتار کیا گیا تھا تو پاکستان میں انہیں ملک سے نکال دیا گیا ہے۔ اس طرح پاکستان کے حکمران کہہ سکتے ہیں کہ ہم امریکہ کے مقابلہ میں زیادہ لبرل ہو گئے ہیں۔آخر کہہ دینے میں کیا حرج ہے۔
کنڈولیزا رائس کے بارے میں یہ ہلکا پھلکا سا قصہ بیان کیا ہے تو اپنے سابق جنرل ،صدر پرویز مشرف کا ایک حالیہ دلچسپ بیان بھی سن لیجئے۔کالا باغ ڈیم کے بارے میں انہوں نے پھر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ وقت آنے پر یہ ڈیم لازماً بنے گا۔پانچ سال پہلے جب جنرل پرویز مشرف وردی نہیں اتار رہے تھے تو انہوں نے جوازدیتے ہوئے کہاتھا کہ وردی میں رہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں کالا باغ ڈیم بنانا چاہتا ہوں اور اس کے لیے میرا باوردی رہنا مناسب ہوگا۔پانچ سال گزر گئے بلکہ جنرل پرویز مشرف کے کل اقتدار کو آٹھ سال گزر گئے۔کالا باغ ڈیم کی باتیں بہت سنائی جاتی رہیں لیکن عملاً اس پر دھیلے کا کام بھی نہیں ہوا۔کالا باغ ڈیم کے مسئلہ پر ان کے سارے رنگ ڈھنگ دیکھتے ہوئے انہیں اب بلاشبہ نواب آف کالا باغ ڈیم کہا جا سکتا ہے۔ان کی اس نوابی میں پہلے بھی عوام ہی ڈیم فول بنتے رہے ہیں اور آئندہ بھی عوام ہی ڈیم فول بنتے رہیں گے۔