میں نے گزشتہ کالم میں دینی مدارس کے حوالے سے جو کچھ لکھاہے،اسی سلسلہ میں پاکستان کے دکھوں اور مصائب کے خاتمہ کے لئے دو متبادل تجاویز حکومت پاکستان کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ حکومت بخوبی جانتی ہے کہ بیشتر دینی مدارس امریکی اور اسرائیلی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ”مجاہدین“تیار کرنے پر لگائے گئے تھے اور انہیں ساری تربیت اور اسلحہ اور بھاری رقوم بھی در اصل انہیں کی طرف سے فراہم کرائی جا رہی تھیں،اس لئے ان کی خدمات کے ثمرات کو ۱۹۸۰ء سے لے کر اب تک افغانستان و پاکستان میں کئی زاویوں اور کئی حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔اسلام کے نام پر اس مذہبی انتہا پسندی کے کار خانوں کو ٹھیک کرنے کی دو صورتیں ہیں۔چونکہ یہ عناصر فکری طور پر سعودی عرب کے حکمرانوں کے مسلک سے قریب ہیں۔وہاں سے انہیں بھاری فنڈز ملتے رہے ہیں،اس لئے اس مسئلے کا ایک سعودی برانڈ حل موجود ہے۔سعودی عرب کی حکومت نے اپنے ملک میں دینی مدارس کے لئے جو طریق کار رکھا ہوا ہے،وہی طریق کار ان پاکستانی دینی مدارس کے ساتھ اختیار کر لیا جائے۔یعنی اگر وہ سب مدارس سرکاری تحویل میں ہیں تو سب کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے۔وہ خود مختاریا نیم خود مختار مدارس ہیں تو ان کی خود مختاری کا بھی ویسے ہی احترام کیا جائے جیسے سعودی عرب میں کیا جاتا ہے۔
مذہبی عناصرکواور خاص طور پر ان مذہبی عناصر کوجو پاکستان کے شدید مخالف رہے تھے، اگرچہ جنرل ضیاع الحق نے پروان چڑھایا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سے پہلے پاک فوج نے مذکورہ مذہبی عناصر کو ۱۹۶۹ء سے سر پر چڑھانا شروع کردیاتھا۔جنرل یحییٰ خان کے دور میں ان کے وزیر اطلاعات شیر علی خاں نے بطور خاص ان مذہبی عناصر کی سرپرستی شروع کی۔اسی کا نتیجہ تھاکہ جب جسٹس کارنیلیس اسلامی قوانین بنانے لگے تو ان مذہبی عناصر نے کچھ سامنے آنے سے پہلے ہی اس پر اعتماد اور اطمینان کا اظہار کر دیاتھا۔فوجی حکومت کی سرپرستی میں مذہبی جماعتوں نے سیاست میں اثرو رسوخ بڑھانا شروع کیا۔یحییٰ خان کے بعد جنرل ضیاع الحق کے دور میں تو مذہبی عناصر کی چاندی ہو گئی اور تب سے اب تک نہ صرف فوج کی سرپرستی میں مذہبی عناصر نے بہت زیادہ قوت حاصل کر لی بلکہ خود پاک فوج کے اندر بھی ان کے افراد داخل ہو گئے۔اور اب جو کچھ ہو رہا ہے اس میں پاک فوج کے اندر موجود ان عناصرکا بہت بڑاہاتھ شامل ہے ۔ اس سب کا اب پر امن حل ڈھونڈنا ہے تو سعودی عرب والا فارمولا مناسب رہے گا۔لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر دینی مدارس کو کم از کم ۱۹۶۹ء سے پہلے کی سطح پر لایا جائے۔یہ نہ ہوا تو پھر پاکستان میں اندرونی طور پر یا اندرونی و بیرونی دونوں طور پر بہت بڑے خون خرابے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ اگر مذہبی عناصر کو ۱۹۶۹ء سے پہلے کی سطح پر نہ لایاجا سکا تو اس میں کسی کو شک نہ ہونا چاہئے کہ پاکستان دوسرا افغانستان بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے ڈنڈا بردار طالبان و لیڈی طالبان کے طرزِ عمل اور اس پر حکومت کی مصلحت آمیز مذاکراتی پالیسی بلکہ طالبان کی حوصلہ افزائی کرنے والی مذاکراتی پالیسی کے خلاف ایم کیو ایم کے کراچی میں ہونے والے بڑے مظاہرے کے بعد اب لاہور،پشاور اور خود اسلام آباد میں خواتین نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ان مظاہروں میں زیادہ زور اس نعرے پر رہا”ملا ملٹری الائنس ۔مردہ باد!“۔۔۔جنرل پرویز مشرف جس قماش کے سیاستدانوں کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنے کا تماشہ دکھا رہے ہیں۔یعنی چوہدری شجاعت حسین اور اعجاز الحق جیسے لوگوں کے ذریعے مولویوں کو منانے اور ان کے ناز اٹھانے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے،اس کا مطلب یہی دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اس مسئلہ کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے طول دینا چاہ رہی ہے۔میرا ابھی تک یہی خیال تھا کہ حکومت واقعتا ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے لیکن اب جو ”ٹوپی ڈرامہ“سامنے آرہا ہے اس سے ”ملا ملٹری الائنس“کی ملی بھگت واضح ہوتی جا رہی ہے۔فوجی حکمران عوام کو تو بے وقوف بنا لیں گے لیکن کیا ان قوتوں کو بھی بے وقوف بنا لیں گے جن کے بل پر فوج کا اقتدار ابھی تک سلامت ہے؟
قبائلی علاقوں خاص طور پر جنوبی وزیرستان میں غیر ملکی جنگجوؤں کے خلاف مقامی قبائل کی مہم کافی کامیاب رہی ہے۔حکومت اسے اپنی پالیسی کی کامیابی قرار دیتی رہی ہے ۔قطع نظر اس سے کہ اس سارے ہنگامے سے قبائلی علاقوں میں چھپے ہوئے غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی کا الزام ثابت ہو گیا،جو بجائے خود پاکستانی حکومت کے سابقہ بیانات اور تردیدوں کے بر عکس ہے۔اس وقت مولوی نذیر اس مہم کی قیادت کر رہے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان کو غیر ملکیوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔کچھ غیر ملکی شمالی وزیرستان چلے گئے ہیں،ہم ان سے بھی نمٹ لیں گے۔اس کے ساتھ ہی مولوی نذیر نے کہا ہے کہ اگر اسامہ بن لادن نے ان سے رابطہ کیاتو ہم انہیں قبائلی روایات کے مطابق پناہ دیں گے کیو نکہ وہ مظلوم ہیں۔جنگ اخبار نے اس خبر کی سرخی یوں لگائی ہے:اسامہ قبائلی قوانین کی پابندی کرے توپناہ دینے کے لئے تیار ہیں۔ یہ تو پوری دنیا کو کوئی پیغام جا رہا ہے۔کیا حکومت کو اس کا ادراک ہے؟
چیف جسٹس کیس میں حکومت تاخیری حربے اختیار کر رہی ہے۔ لیکن یہ تاخیری حربے خود حکومت کے خلاف جا رہے ہیں۔پنجاب میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بار سے خطاب کیا تو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا کوئی جج وہاں نہیں گیا۔ایک خاتون سول جج نے شرکت کی تو ان کے خلاف محکمانہ کاروائی کر دی گئی۔پنجاب کے بر عکس سندھ میں سکھر اور حیدرآباد کی ہائی کورٹ بار سے چیف جسٹس نے خطاب کیا تو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت ۱۷ججوں نے شرکت کی۔اب پشاور ہائی کورٹ بار سے چیف جسٹس نے خطاب کیا ہے تو وہاں بھی صوبہ سر حد کی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور گیارہ ججوں نے شرکت کی ہے۔ان تمام تقریبات میں وکلاءکا جوش و خروش مسلسل بڑھ رہا ہے اور حکومت کا یہ خیال غلط ثابت ہو رہا ہے کہ معاملہ کو طول دینے سے تحریک کمزور ہو جائے گی۔اسی دوران یہ انکشاف باخبر حلقوں میں کھل کر سامنے آگیا ہے کہ ریفرینس کا بنیادی سبب وزیر اعظم شوکت عزیز اور ان کے مشیر اعظم سلمان شاہ بنے ہیں۔پاکستان اسٹیل مل کو جس طرح یہ لوگ اونے پونے بیچ رہے تھے چیف جسٹس کے فیصلہ نے ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔اس میں متعدد دوسرے اسباب بھی شامل ہیں جن میں زیادہ تر وہی عوامی مفاد کے دلیرانہ فیصلے ہیں جو چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے کر صادر کئے تھے۔ان فیصلوں کی زد میں آنے والے طاقتور عناصر اور وزیر اعظم شوکت عزیز اور ان کے مشیر اعظم ڈاکٹر سلمان شاہ کے سارے غم یکجا ہوئے تو چیف جسٹس کے خلاف ریفرینس تیار ہو گیا۔اگر پاکستان میں انارکی نہ پھیلی اور قومی ادارے قائم اور طاقتور رہے توشوکت عزیز اور سلمان شاہ کے خلاف معاشی اصلاحات کے نام پر کئے جانے والے ہر فراڈ کا حساب لیا جائے گا۔حالیہ دنوں میں پاکستان میں ایک پیر ڈبل شاہ کو گرفتار کیا گیا ہے جو لوگوں کو رقم ڈبل کرکے دینے کے بہانے اربوں روپے کا فراڈ کر رہا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم شوکت عزیز اور ان کے مشیر اعظم دونوں قومی سطح پر ڈبل شاہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔یہ قوم کو جن معاشی اصلاحات کے چکر میں ڈال رہے ہیں،وہ مذکورہ ڈبل شاہ سے کافی حد تک ملتا جلتا ہے۔
ایک بہت ہی اندر کی آف دی ریکارڈ خبر ہاتھ لگی ہے۔ حکومت کے اندر کسی اچانک تبدیلی کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔اس ڈر کی وجہ سے چوہدری شجاعت حسین نے اپنے اثرو رسوخ اور پہنچ کی حد تک اپنے خلاف خفیہ والوں کی فائلوں میں ردو بدل کی کوشش کی ہے۔تاہم بعض نہایت اہم حلقوں نے ان فائلز کی مکمل کاپیاں کہیں اور بھی محفوظ کر دی ہیں۔اب موجودہ آن ریکارڈ(لیکن خفیہ) فائلوں میں کسی نے ردو بدل کیا تو وہ متعلقہ حکام چوہدری شجاعت حسین کا احتساب ہونے کا وقت آنے پر اعانت جرم میں پوری سزا پائیں گے۔اس کا پکا انتظام ہو گیا ہے۔مشتری ہوشیار باش!
قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان بھگوان داس نے کہا ہے کہ میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔اس پر میرے چند دوستوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ایم اے اسلامیات کرنے والے ایک عالم فاضل ہندو نے بھگوان کی بجائے اللہ سے ڈرنے کی بات کی ہے۔میرا خیال ہے کہ اللہ کا نام عرب دنیا میں اسلام سے پہلے رائج تھا۔ رسولِ اکرم حضرت محمد ﷺکے والد محترم کا نام حضرت عبداللہ تھا۔یعنی اللہ کا بندہ۔اس لئے یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ عرب روایت کے مطابق مشرکین عرب بھی اللہ کو اپنا معبود مانتے تھے اور اسی سے ڈرتے تھے۔بھگوان داس تو قانون کے ساتھ دینیات کے بھی اسکالر ہیں اس لئے جب وہ بسم اللہ پڑھتے ہیں یا اللہ سے ڈرتے ہیں تو ان کے سامنے اس نام کا پورا سیاق سباق ہوتا ہے۔ہندوستان کے انتہا پسند ہندو خوامخواہ کے لئے اس نام سے الرجک ہیں وگرنہ یہ نام تو مسلمانوں اور ہندو ؤں کو قریب لانے کا باعث بن سکتا ہے۔
نانا میموریل ہسپتال بمبئی کینسر کے علاج کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔وہاں کی ایک افسوسناک خبر یہ ہے ہسپتال میں داخل ۱۵،۱۶برس کی ایک لڑکی کے ساتھ کسی نے جنسی زیادتی کر دی اور وہ حاملہ ہو گئی۔اس پر وہاں کے عوامی حلقوں میں اضطراب اور غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ہسپتال انتظامیہ کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔اس گھناؤنی حرکت میں دو وارڈ بوائز کے ملوث ہونے کا شک کیا جا رہا ہے۔
شلپا شیٹی کے بارے میں ایک بار پھر ہنگامہ خیز خبر آئی ہے۔ہالی ووڈ کے اداکار رچرڈگئیرے ہندوستان گئے ہوئے تھے۔وہاں ایک تقریب کے دوران انہوں نے نہایت نازیبا انداز کے ساتھ شلپا شیٹی کو گلے لگا کر،ان کی مزاحمت کے باوجود ان کے بوسے لئے۔اسٹیج پر اس طرح کی حرکت اور مزاحمت کے باوجود ایسی حرکت تو ہالی وڈ کے کسی فنکشن میں بھی نہیں ہوئی ہو گی۔ہندوستان کے بعض شہروں میں رچرڈ کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔
چند دنوں سے پاکستان میں یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ چند مخصوص نمبرز سے کوئی کال اٹینڈ نہیں کرنی چاہئے کیونکہ جن لوگوں نے اس نمبر کی کال اٹینڈ کی وہ ہارٹ اٹیک،برین ہیمبرج یا کسی بھی اچانک نوعیت کی موت کا شکار ہوجاتا ہے ۔یہ افواہ پاکستان میں اس حد تک خوف پھیلانے کا باعث بنی کہ لگ بھگ ایک کروڑ صارفین نے اپنے موبائلز ہی بند کر دئیے۔اب یہی افواہ افغانستان میں پہنچ گئی ہے تو افغان حکومت نے الزام لگایا ہے کہ یہ افواہ طالبان نے پھیلائی ہے۔مجھے طالبان کی اسلام کی جاہلانہ اور قبائلی طرز کی تعبیر سے شدید اختلاف ہے لیکن ایسی افواہ کا الزام طالبان پر لگانا بھی خود ایک جہالت ہے۔ایک واہیات سا لطیفہ یاد آگیا۔کسی میراثی نے تھانے دار پر کوئی جگت کردی۔تھانے دار اسے پکڑ کر تھانے لے آیا۔وہاں محرر سے پوچھنے لگا فلاں چوری والے کیس کا کچھ پتہ چلا؟ محرر نے بتایا کہ ابھی تک کچھ نہیں بنا۔تھانے دار نے کہا وہ چوری اس میراثی پر ڈال دو۔پھر اسی طرح کے دو تین اور کیسز کے بارے میں پوچھا اور کہا یہ الزام بھی اس میراثی پر ڈال دو۔اسی دوران کسی پولیس والے کی آواز کے ساتھ ہوا خارج ہو گئی۔اس پر میراثی نے اپنے مخصوص انداز کے ساتھ کہا:ہاں ہاں۔۔۔ اب یہ الزام بھی مجھ پر ہی ڈال دو۔
امریکہ میں ورجینیا کی ایک یونیورسٹی میں ایک نوجوان نے فائرنگ کرکے ۳۳طالب علموں کو ہلاک کر دیا ہے۔حملہ آور نے خود کو بھی ہلاک کر لیا ۔خدا کا شکر ہے کہ یہ حملہ آور جنوبی کوریانژادتھا، کوئی مسلمان نوجوان نہیں تھا۔اسی لئے اسے ”گن مین“ کہا جا رہا ہے۔کوئی مسلمان طالب علم اس حرکت کا ارتکاب کرتا تو پھریہ سیدھا سادہ دہشت گردی کا کیس قرارپاتا جس میں القاعدہ یا طالبان کو ملوث پایا جاتا۔چونکہ یہ کوئی مسلمان نوجوان نہیں تھا اس لئے باوجود اس کے کہ اس نے خود کو بھی ہلاک کر لیا،اسے خود کش حملہ جیسی کاروائی یا دہشت گردی نہیں کہا جا رہا۔بعد کی اطلاعات کے مطابق کوریائی ”گن مین“ نے ایک ویڈیو بھی چھوڑی ہے جس میں اس نے امریکہ کے دولت مندوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا ہے۔اس پر بھی شکر کیا جانا چاہئے کہ یہ ”گن مین“جنوبی کوریا کا تھا،شمالی کوریا کا نہیں تھا۔شمالی کوریا کا ہوتا تو مسلمانوں پر نہ سہی،بچے کھچے سوشلسٹ ممالک کے خلاف پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی جاتی۔اس کیس کے سلسلے میں مزید حقائق تو امریکی حکام ہی بتاسکیں گے،تاہم مجھے اس سانحہ سے ایک اور امکان ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔
سوویت یونین کی شکست و ریخت سے پہلے مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی پروردہ حکومتوں نے بڑی کاری گری کر رکھی تھی۔جو کچھ کمیونزم ایک عام آدمی کے لئے مانگتا تھا ،اور جو عوام کے لئے پر کشش تھا،سرمایہ دارانہ مغربی حکومتوں نے اس سے بھی کچھ زیادہ اپنے عوام کو فلاحی ریاست کے قوانین کے تحت فراہم کر دیا تھا۔ملازمتوں میں تحفظ اور تنخواہوں میں ایک اعتدال والا فرق پایا جاتا تھا ۔لیکن جیسے ہی سوویت یونین ٹوٹ گیا۔کمیونزم کا خوف ختم ہوا ویسے ہی مغربی ممالک میں سرمایہ داری کے عفریت نے اپنی اصلیت ظاہر کرنا شروع کر دی۔فلاحی ریاست کے قوانین میں ترامیم کی جانے لگیںاور تدریجاً عوامی فلاحی مراعات کم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جو تاحال جاری ہے۔ ملازمتوں میں پہلے جو تحفظ ہوتا تھا وہ اب بہت کم رہ گیا ہے۔کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ تنخواہ کا جو فرق پہلے ہوتا تھا،اس میں اور موجودہ بڑھتے ہوئے فرق میں زمین آسمان جیسا فرق پیدا ہو چکا ہے۔جنوبی کوریائی طالب علم کی اندھا دھند فائرنگ کے پس منظر میں امریکی دولت مندوں کی پیدا کردہ نئی سماجی تفریق بھی ایک سبب ہے تو پھر امریکہ کو ہی نہیں سارے سرمایہ دارانہ نظام کو کمیونزم کے ایک نئے جنم کا سامنا کرنے کی تیاری کر لینا چاہئے۔ اس بار کمیونزم کسی شکل اور صورت میں آئے خود سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ ملکوں میں ہی اس کا جنم ہو سکتا ہے۔ایسا کوئی ”یومِ حساب“ نہ بھی ہواتو سرمایہ داروں کو کچھ نہ کچھ حساب کتاب تو پیش کرنا ہی پڑے گاکہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اپنے ہی ملک کے عوام کو جن مراعات سے محروم کیا گیا،اس ظلم کی وجوہات کیا تھیں؟
بمبئی میں اسٹار ٹی وی چینل کے دفتر پر انتہا پسند ہندوؤں نے حملہ کر دیا۔اطلاعات کے مطابق اسٹار ٹی وی نے دو شادیوں کی خبر نشر کی تھی۔ایک خبر کے مطابق بھوپال سے بھاگ کر آنے والا لڑکا (عبدالقادر) مسلمان تھا اور لڑکی ہندو تھی۔دوسری خبر کے مطابق لڑکا (محمد عمر)ویسے تو مسلمان تھا لیکن لڑکی(پرینکا وادھوانی) کی محبت میں اس نے ہندو دھرم کو قبول کر لیا تھا۔اس کے باوجود دونوں رشتوں کی ان کے گھر والے مخالفت کر رہے تھے۔خاص طور پر لڑکیوں کے گھر والے۔ جہاں تک اس مسئلہ کے سماجی پہلو کا تعلق ہے،یقینا تشویشناک اور تکلیف دہ ہے۔یہ صرف ہندوؤں کا نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے سماج اور تہذیب کا مسئلہ ہے۔تاہم اس کو فرقہ وارانہ رنگ میں لے کر اشتعال انگیزی کرنا اور ٹی وی چینل کے دفتر پر حملہ کرنا انتہا پسند ہندوؤں کی دہشت گردی ہے۔معاشرے کی اصلاح یا سماج کے سدھار کے نام پرانڈیا کے انتہا پسند ہندو ہوں یا پاکستان کے انتہا پسند مسلمان ہوں،دونوں کے طور طریقے بڑی حد تک ملتے جلتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں حکومت کی ملی بھگت کے ساتھ اپوزیشن لیڈر بننے والے اور ایک صوبہ میں قاف لیگ کے اشتراک سے حکومت میں شریک پارٹی کے رہنما مولانافضل الرحمن نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو ملک دوبارہ ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔ملک کو پہلے بھی فوجی جرنیلوں اور الیکشن میں ناکام رہنے والی بعض مذہبی جماعتوں کی ملی بھگت نے توڑنے کی راہ پر ڈالا تھا ۔اور جب ملک ٹوٹ گیا تھا تو انہیں مولانا فضل الرحمن کے والدِ گرامی مولانا مفتی محمود نے فرمایا تھا اور بالکل بجا فرمایا تھا کہ خدا کا شکر ہے ہمارے بزرگ پاکستان کو بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔سو جو مولوی پاکستان بنانے کے شدید مخالف رہے،مسلم لیگ سے لے کر قائدِ اعظم تک ہر ایک کے لئے انتہائی نازیبا اور اشتعال انگیز زبان بولتے رہے،پاکستان ٹوٹنے پر خدا کا شکر بجا لاتے رہے،ان مولویوں کی اولاد کو زیب نہیں دیتا کہ وہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں ایسی نامناسب زبان استعمال کریں۔آج آئین میںسترھویں ترمیم کی منظوری کا عذاب ہو یا بے نظیر کا راستہ روکنے کے لئے تیسری بار وزیر اعظم بننے پر روک لگانے کی شق ہو،ان سارے گناہوں کا بوجھ بھی انہیں مولانا کے سر پر ہے جوپیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے سے اتنے خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ انہیں ملک ٹوٹتا دکھائی دینے لگا ہے۔
ابھی پاکستان کے دو جلا وطن سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی ہوئی نہیں اور بنگلہ دیش میں دو سابقہ وزرائے اعظم خواتین کو بھی جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی حسینہ شیخ امریکہ کے دورہ پر تھیں اور اسی دوران ان کے خلاف بنگلہ دیش میں قتل کا مقدمہ درج کرکے ان کی واپسی روک دی گئی ہے۔ بیگم خالدہ ضیا کے بیٹوں کو گرفتار کرکے ان کے ساتھ سودے بازی یہ کی گئی کہ وہ جلاوطن ہو جائیں تو ان کے بیٹے رہا کر دئیے جائیں گے۔چنانچہ ڈیل کے مطابق بیٹوں کی رہائی کی قیمت پر بیگم خالدہ ضیا اب بنگلہ دیش سے جا رہی ہیں۔یہ شاید سعودی عرب جائیں۔ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو جلاوطنی کی حالت میں موت آئی اور وہ حسرت کے ساتھ یہ شعر کہہ گئے۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
یہ جلاوطن ہونے والے بھی اصلاً جب کچھ بادشاہ بننے لگتے ہیں تو ان کے ساتھ ایسا رونما ہونے لگتا ہے۔پاکستان کے ہی نہیں بنگلہ دیش کے جلاوطنوں کے لئے بھی دعا ہے کہ خدا انہیں امن و سکون کے ساتھ وطن واپس لائے اور دوبارہ بادشاہ بننے کی خواہش بھی دل میں نہ آنے دے۔صحیح معنوں میںعوام کی خدمت کرسکیں۔۔۔۔۔یہ کالم مکمل ہونے تک آنے والی خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ بیگم خالدہ ضیا کی جلاوطنی کے فیصلہ پر عملدرآمد رک گیا ہے۔اس سے پہلے حسینہ واجد کے وارنٹ گرفتاری معطل ہونے کی خبر آئی تھی۔خدا کرے بنگلہ دیش کا سیاسی جمہوری عمل کسی سازش اور شرارت کے بغیر چلتا رہے۔
سال ۲۰۰۶ءمیں پاکستان سے چار لاکھ بتیس ہزار افراد عمرہ کے لئے سعودی عرب گئے تھے۔خبر ہے کہ ان میں سے ۵۸ہزار پاکستانی سعودی عرب میں چھپ گئے ہیں اور واپس نہیں گئے۔لگتا ہے یہ ۵۸ہزار پاکستانی ان نعتوں کے اشعار سن سن کر سر ور حاصل کرتے رہے ہیں جن میں مدینے میں جانے اور پھر وہاں سے واپس نہ آنے کا ایمان افروز اور عقیدت مندانہ اظہار ملتا ہے اور اب اسی سرور میں وہ وہاں کھو گئے ہیں۔
پہنچ جائیں بہزاد جب ہم مدینے
تو واپس نہ آئیں ،یہ جی چاہتا ہے
ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے
ابھی تک کی آن ریکارڈ خبروں کے مطابق امریکہ میں دو کیس ایسے ہوئے ہیں کہ کسی عورت نے بیک وقت سات بچوں کو جنم دیا ۔سعودی عرب میں بھی ایک کیس ایسا ہو چکا ہے۔اب اس نوعیت کا چوتھا کیس الجزائر میں ہوا ہے۔قوبہ کے پبلک ہسپتال میں ایک خاتون نے بیک وقت سات بچوں کو جنم دیا ہے۔ایک بیٹا اور چھ بیٹیاں ہیں۔ خبر کے مطابق بچوں کی ماں کی حالت اچھی ہے۔حالانکہ یہ بتایا جانا چاہئے تھا کہ باپ کی حالت کیسی ہے؟جس کے سامنے بیک وقت جنت کے چھ دروازے کھل جائیں وہ غریب تو پریشان ہوجائے گا کہ کس دروازے سے جنت میں داخل ہو؟