حالیہ دنوں میں پاکستان میں سیاست نے کئی انوکھے رنگ بدلے ہیں۔جنرل پرویز مشرف کسی نہ کسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ڈیل کرنا چاہتے ہیں لیکن دونوں طرف بعض معاملات میں ایسی رکاوٹیں ہیں جو دور نہیں ہو پا رہیں۔قیاس غالب ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی کمزور ہوتی ہوئی سیاسی حالت دیکھ کر بے نظیر بھٹو نے اپنی شرائط کچھ سخت کر دی ہیں۔حکومت کی طرف سے اس دوران کئی دانشمندانہ اقدامات کے ساتھ غیر دانشمندانہ رویے بھی سامنے آتے رہے۔نیب کا خصوصی سیل جو بے نظیر کو دباؤ میں لانے کے لئے قائم کیا گیا تھا،اسے یکلخت بند کر دیا گیا۔اس کے انچارج کو کسی اور شعبہ میں بھیج دیا گیا۔یوں سات برسوں کے دوران موجودہ حکومت نے بینظیر کے خلاف جو کروڑوں روپے بلکہ شاید اربوں روپے کا خرچہ کیا ہے،وہ سب تمام ہوا۔کوئی ان حکومتی مقتدر شخصیات کا بھی احتساب کرے کہ آپ لوگوں نے گزشتہ سات برسوں میں اتنے پروپیگنڈہ کے باوجود اور اتنی قومی دولت خرچ کرنے کے باوجود کچھ ثابت نہیں کیا اور اب ان مقدمات کے ڈراموں کو بندکر رہے ہیں تو پہلے ہی اس پنگے میں نہ پڑتے کم از کم بچی کھچی قومی دولت تو احتساب کے نام پرمزید برباد نہ ہوتی۔
اسی اثنا میں بے نظیر بھٹو نے اپنی خود نوشت سونح میں کچھ نئے اضافے کئے ہیں۔ان اضافوں میں جنرل پرویز مشرف کا ایسا ذکر موجود ہے جس سے ان کی شخصیت کے ایسے منفی پہلو سامنے آتے ہیں جن کی طرف ابھی تک کسی کا دھیان نہیں گیا تھا۔اس سے ایک تاثر تو یہی لیا جا سکتا ہے کہ دونوں طرف سیاسی معاملات طے نہ پانے کے بعد کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔تاہم اس سارے دورانیہ میں حکومتی حلقوں کی طرف سے عجیب مضحکہ خیز قسم کا رویہ اختیار کیا گیا۔پہلے شیخ رشید کی طرف سے بیان آیا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ڈیل کا معاملہ سیمی فائنل میں پہنچ گیا ہے۔اگلے دو تین روز میں نتیجہ سامنے آجائے گا۔اگلے دو تین روز تک فیصلہ یہ سامنے آیا کہ حکومتی ترجمان محمد علی درانی نے ایک غلط بیانی داغ دی۔ خیال رہے کہ چیف جسٹس کیس میں اوٹ پٹانگ بیانات دینے کی وجہ سے وزیر اطلاعات کو اب وزیر غلط بیانی بھی کہا جاتا ہے انہوں نے شیخ رشید کے بیان کی تردید کرنے کی بجائے کہا کہ پیپلز پارٹی اپنی ساکھ بچانے کے لئے ڈیل کا پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔کوئی وزیر غلط بیانی سے پوچھے کہ بیان تو سرکاری وزیر ریلوے اور ان کے پیش رو سابق وزیر اطلاعات شیخ رشید نے دیا تھا،اس میں پیپلز پارٹی کی طرف سے پروپیگنڈہ کہاں سے آگیا؟
اس کے بعد صدارتی ترجمان کو بھی ڈیل کی خبروں کی تردید کرنی پڑی کیونکہ تین دن گزرنے کے بعد بھی بے نظیر بھٹو نے حکومت کو مطلوبہ ریلیف نہیں دیا۔ایک بات طے ہے کہ بے نظیر بھٹو صدرکی وردی پر سمجھوتہ نہیں کریں گی۔وردی تو اب اتر جانی چاہئے۔لیکن اگر بے نظیر نے خدا نخواستہ وردی پر سمجھوتہ کر لیا تو شاید اس سے ان کی پارٹی اپنی عوامی مقبولیت کھو بیٹھے۔ابھی تک شدید ترین مشکلات کے باوجود بے نظیر نے اپنے سیاسی پتے بڑی مہارت کے ساتھ کھیلے ہیں۔صدارتی ترجمان کے بیان کے بعدچند دن کے اندربے نظیر بھٹو نے خود ایک انٹرویو میں یہ بتادیا کہ حکومت کے ساتھ بات چیت ہوتی رہتی ہے لیکن جمہوریت اور وردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔اس کھیل میں نواز شریف کا زیادہ موثر کردار دکھائی نہیں دیتا۔اسی لئے وہ کسی حد تک جھلاہٹ کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا زیادہ انحصار امریکی اور یورپی تائید و حمایت پر ہے اور فی الوقت ایسا لگتا ہے کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔امریکہ اور یورپ کی طرف سے مسلسل دباو
ہے کہ اب دھاندلی سے پاک ٹرانسپیرنٹ الیکشن کرائے جائیں۔وردی اتاری جائے۔اب تک جنرل پرویز مشرف بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ اتحادی ہیں۔لیکن اسی دورانیے میں امریکہ ، افغانستان اور بعض یورپی ممالک بھی وقفہ وقفہ سے ایسے الزام لگاتے رہے۔
۱۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔
۲۔پاکستان کے اہم دینی مدارس میں انتہا پسندوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے اور انہیں دہشت گردی کی تربیت دی جا رہی ہے۔
۳۔ملا عمر اور اسامہ بن لادن پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں روپوش ہیں۔
۴۔حکومت کی بعض خفیہ ایجنسیاں درپردہ مذہبی انتہا پسندوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔
حکومت پاکستان نہایت سختی کے ساتھ ان میں سے ہر الزام کی تردید کرتی رہی۔لیکن اب مسئلہ یہ ہوا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی کھل کر سامنے آگئی ہے۔دینی مدرسوں میں انتہا پسندوں اور طالبانوں کی تربیت دئیے جانے کا الزام خود اسلام آباد میں ہی کھل کر سامنے آگیا ہے،دوسرے مدارس جو پہلے بھی ”مجاہدین“تیار کرتے رہے ہیں ان کے بارے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ بھی ایسی ہی فورسز تیار کر رہے ہیں۔اسلام آباد میں اتنی بڑی تعداد میں اور اتنے بڑے لیول پر طالبان اور لیڈی طالبان تیار کئے جاتے رہے۔کیا حکومت کی خفیہ ایجنسیاں واقعی اس سارے عمل سے بے خبرتھیں؟بے خبر تھیں تو نا اہلی کی انتہا ہے۔اور با خبر تھیں اور دیدہ دانستہ چشم پوشی کر رہی تھیں تو یہ بین الاقوامی الزام سچ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کی بعض ایجنسیاں درپردہ مذہبی انتہا پسندوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔یہ ساری صورتحال خاصی گھمبیر اور پریشان کن ہو گئی ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے کھل کر کہا ہے کہ میں ان معاملات کے لئے جنرل پرویز مشرف کو گاجر اور اسٹک دونوں دے کر کام چلاتی ہوں۔کھلے عام اس بیان کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل پرویز مشرف نے صاف کہہ دیا کہ اگرانتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری کاروائیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانا ہے تو ہمیں اس جنگ سے الگ کر دیا جائے۔امریکی مفادات کے لئے اپنے ملک کو داؤ پر لگا دینے والے ہمارے جرنیل حکمرانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب ان کا وقتِ رخصت قریب آتا ہے تو وہ امریکہ کے خلاف اسی طرح بیان دینے لگتے ہیں۔خدا کرے جنرل پرویز مشرف کا وقتِ رخصت ابھی نہ آئے اور وہ اپنی حکومت کے سارے لٹیرے اور کرپٹ ارکان کو احتساب کے کٹہرے میں لا کر اپنے گناہوں کی تلافی کر لیں۔شوکت عزیز سے لے کر چوہدری برادران تک سب کی فائلیں کھولی جائیں اور سب کو قانون کے سامنے جوابدہ کیا جائے۔اپنی بچی کھچی عزت بچانے کا یہ بالکل آخری موقعہ ہے۔ڈر ہے کہ جنرل پرویز مشرف اس موقعہ کو ضائع نہ کر بیٹھیں۔بعد میں پچھتانے سے کچھ نہ ہوگا بلکہ جو کچھ رونما ہونے کا خدشہ ہے اس کے نتیجہ میں پچھتاوے کا موقعہ بھی شاید نہ ملے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے میڈیا منیجر پی جے میر نے کہا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی توجہ کھیل سے زیادہ تبلیغ پر رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ نماز پڑھنا ہر شخص کا ذاتی فعل ہے لیکن ہماری ٹیم اس عبادت کو تبلیغی انداز میں کرتی رہی۔پی جے میر کے بیان کے بعد مخصوص مذہبی حلقے ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔انہیں خاصا برا بھلا کہا جا رہا ہے۔بعض لوگ تو کسی حد تک مغلوب الغضب ہو کر برا بھلا کہہ رہے ہیں۔اس دوران نذیر ناجی نے اپنے ایک کالم میں محتاط انداز میں لکھنے کے باوجود لکھا ہے کہ اگر کسی جہاز کا پائلٹ دورانِ پرواز اپنا کام چھوڑ کر نماز پڑھنا یا پڑھانا شروع کردے۔کسی عمارت کی آگ بجھاتا ہوا فائر بریگیڈ کا عملہ اذان کی آواز سن کر آگ بجھانا چھوڑ کر نماز پڑھنا شروع کر دے تویہ سب کیا ہوگا؟اس معاملہ میں مجھے نذیر ناجی سے مکمل اتفاق ہے۔
جہاں تک عبادت کا تعلق ہے مومن کی زندگی ہمہ وقت عبادت میں بسر ہوتی ہے۔پنج وقتہ عبادت تو صرف دنیاداروں کے لئے ہوتی ہے۔مومن کا ہر قول اور فعل عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔سچ بولنا ،روزانہ معمولاتِ زندگی میں ہر عمل خداکی رضااور منشا کے مطابق کرنا۔ جو ذمہ داری سونپی گئی ہو اسے پوری طرح نبھانا ۔
ایک اور خبر یہ ہے کہ لاہور کے چڑیا گھر میں تین آوارہ کتے گھس گئے اور وہاں انہوں نے نایاب نسل کے اٹھائیس مور ہلاک کر دئیے۔ان موروں کی حفاظت پر مامور چوکیدار محمد یونس فجر کی نماز پڑھنے گیا ہوا تھا ۔اس دوران تین آوارہ کتے وہاں آگئے اور اٹھارہ نیلے مور،چار سولڈر مور،ایک سفید مور کا بچہ سمیت کل اٹھائیس مور ہلاک کر دئیے۔ چوکیدار محمد یونس کو معطل کر دیا گیا ہے اور اسے ۶۶ہزار روپے کا جرمانہ بھی کردیا گیا ہے۔اگر ڈیوٹی کے ساتھ نماز پڑھنے والے ایک غریب چوکیدار کو معطل اور جرمانہ کیا جا سکتا ہے توبقول پی جے میر تبلیغی کرکٹ ٹیم کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟ ان دونوں خبروں پر مزید کوئی تبصرہ نہیںکروں گا۔قارئین خود ہی سوچیں!
ایک طرف” مصلیٰ کرکٹ“ کا مسئلہ چل رہا ہے دوسری طرف اسلام آباد میں ”مصلیٰ جدوجہد“کرنے والے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے جو طالبان اور لیڈی طالبان ”مسلح جدوجہد“پر اتر آئے ہیں،ہر حال میں اپنی رٹ قائم رکھنے کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والی حکومت ان کے سامنے گھگھیا رہی ہے۔ایک رائے یہ ہے کہ حکومت نے خود اس مسئلہ کو بڑھنے دیا ہے تاکہ چیف جسٹس کے ریفرینس والے اشو سے توجہ ہٹ سکے۔جبکہ دوسری رائے کے مطابق یہ لوگ واقعتاً حکومت کے لئے دردِ سر بن گئے ہیں۔اور حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ اپنے عوام اور اپنی خواتین اور بچوں پر کیسے سختی کرے ؟۔۔اس حکومتی موقف پر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ بلوچستان سے لے کر قبائلی علاقوں تک بمباری کرتے ہوئے حکومت کو نہ قوم کے بچے نظر آتے ہیں اور نہ قوم کی بیٹیاں دکھائی دیتی ہیں لیکن اسلام آباد میں اسلامی شریعت کے نام پر ہونے والی دہشت گردی پر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔اس معاملہ کو گفتگو کے ذریعے سلجھانے کے لئے ان سیاسی افراد کو استعمال کیا جا رہا ہے جو حقیقتاً ان علماءکے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔اگرچہ اسی مکتب فکر کے دوسرے علماءنے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے طالبان اور لیڈی طالبان کے اقدامات کو اور از خود شریعت کورٹ لگانے کے اعلان کو رد کیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے ایسا اعلان صرف ظاہری بیان بازی ہے۔کیونکہ دوسرے سانس میں یہی علماءایسی توجیہات بھی پیش کرنے لگتے ہیں کہ شرعی عدالت کا مطلب ہے دینی مسائل کے سلسلہ میں فتویٰ دینا۔اسی طرح یہ واویلا بھی شروع کر دیا گیا ہے کہ حکومت ان مدرسوں کی آڑ میں ایک فضا بنا کر دوسرے مدارس یا دینی جماعتوں کے خلاف کوئی بڑا کریک ڈاؤن کرنا چاہتی ہے۔یہاں شرعی عدالتیں لگانے والے اسلام آبادی علماءسے کوئی نہیں پوچھ رہا کہ جامعہ حفصہ میں تین ہزار سے زائد نوجوان لڑکیاں جو داخل ہیں،وہ کس شرعی قانون کی رُو سے بغیر کسی محرم کے وہاں قیام پذیر ہیں؟اسلام تو محرم کے بغیر حج ،عمرہ پر جانے کی بھی اجازت نہیں دیتا توان نوجوان لڑکیوں کا کسی محرم کے بغیر اس طرح قیام رکھنا اور پھر ہاتھوں میں لمبے اور موٹے ڈنڈے پکڑ کر اور کندھوں پر بندوقیں لٹکا کر سڑکوں ،مارکیٹوں اور گھروں میں اسلام نافذ کرنا خود کونسی شرعی حیثیت رکھتا ہے؟
اب اصل حقیقت شاید یہ ہے کہ پاک فوج نے جنرل ضیاع الحق کے دور سے علمائے کرام کو اسی طرح پروان چڑھایا جیسے اندرا گاندھی نے انڈیا کے سنت فتح سنگھ بھنڈرانوالہ کوپروان چڑھایا تھا۔وہ ایک فرد تھا یہاں ایک خاص مکتب فکر کے علماءاور ان کے سارے طلبہ شامل تھے۔یہ لوگ امریکی مفاد کے لئے ”جہاد“ کرتے رہے۔امریکہ و اسرائیل سے اسلحہ،ڈالرز اور ”جہاد“ کی تربیت دینے والے ماہرین اور عرب ممالک سے پیسہ آتا رہا۔امریکہ،اسرائیل اور عرب ممالک کو بخوبی علم ہے کہ کون کون سے مدرسے”مجاہدین“تیار کرتے رہے ہیں۔اسی لئے حکومت کی ایسی وضاحتوں کو کبھی در خورِ اعتناءنہیں سمجھا گیا کہ کوئی دینی مدرسہ ”دہشت گردوں“کو تربیت نہیں دے رہا۔بہر حال اب ان لوگوں کے پاس اسلحہ اور دولت دونوں کے انبار ہیں اور جیسے بھنڈرانوالہ اپنی مربی اندرا گاندھی کا باغی ہو گیا تھا ، بھنڈرانوالہ کی طرح یہ لوگ بھی اپنی مربی پاک فوج سے باغی ہو گئے ہیں۔اگر تو یہ حکومت کی ملی بھگت سے طالبانائزیشن کا ڈرامہ چل رہا ہے تو چیف جسٹس کے اشوکے اختتام کے بعد ہی اسے انجام تک پہنچایا جائے گا لیکن اگر یہ واقعتا طالبانائزیشن ہے(مجھے ایسا ہی لگتا ہے)،تو پھر اس کا آخری راونڈ بھنڈرانوالہ کے انجام سے ملتا جلتا ہو نے کا امکان زیادہ ہے۔ایم کیو ایم کی بھر پور کراچی ریلی کے بعد سرکاری کاروائی شروع ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
ذکر اسلام آباد کے دینی مدرسوں کا ہورہا ہے تو اس مکتب فکر کے دینی مدارس کے علمی معیار کے بارے میں بھی کچھ جان لینا چاہئے۔یہاںجو نصاب پڑھایا جاتا ہے اسے درسِ نظامی کہا جاتا ہے۔اسے لکھنﺅ کے مولانا نظام الدین نے مرتب کیا تھا۔ان کی وفات کو ۳۱۲سال گزر چکے ہیں۔گویا تین صدیوں سے بھی پرانا نصاب اس عہد میں پڑھا کر علم کی روشنی پھیلائی جا رہی ہے۔اس نصاب میں صرف و نحو،علم الکلام،تفسیر،فقہ اور عربی نظم و نثر شامل ہیں۔
تمام علوم میں کتنی بڑی پیش رفت ہو چکی ہے لیکن ان مدارس میں صدیوں پرانی باتیں دہرا کر ایسا علم دیا جا رہا ہے جو ایک اور مولوی تیار کرنے کے علاوہ معاشرے کو اور کچھ نہیں دے سکتا۔ علم الہندسہ اور حساب کی وہ کتاب پڑھائی جا رہی ہے جو لگ بھگ آٹھ سو سال پرانی ہے۔ مغربی ترقیات کا ذکر ہو تو ہمارے اکثر سادہ دل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ مسلمان اسکالرز سے استفادہ کرکے مغرب نے اتنی ترقی کی ہے۔لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ان مسلمان اسکالرز کے ساتھ خود مسلمانوں نے کیا سلوک کیا؟ان کے فرمودات سے استفادہ تو کجا،ان کا جینا تک حرام کر دیا۔ایک ایک کی تفصیل میں گئے بغیر صرف ممتاز ہیئت دان،عالم اور فلسفی ابن رشد کی ایک مثال سے مسلمانوں کی”علم پروری“کا احوال بیان کر دیتا ہوں۔ابنِ رشد کو ان کے افکار و خیالات کی وجہ سے ذلیل و رسوا کیا گیا۔قرطبہ کی مسجد کے نمازیوں کے جوتے صاف کرنے کی ذلت آمیز سزا دی گئی۔پھر انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ان کی کتابیں جلانے کے ”ایمان پرور“مظاہرے کئے گئے۔ حقیقتاً اپنے نابغہ کو جلا وطن کرکے مسلمان خود علم کی دنیا سے جلا وطن ہو گئے ۔ مسلمانوں نے جسے راندۂ درگاہ قرار دیا اُسے یہودیوں نے سینے سے لگا لیا۔اس کے فرمودات کو سر آنکھوں پر رکھا۔اس کے تراجم مغربی دنیا تک پہنچائے۔ہم اپنے جن عظیم علمی سپوتوں کے ساتھ ایسا ذلت آمیز سلوک کر چکے ہیں،اب انہیں اپنا کہہ کر مغرب پر کونسا احسان جتاتے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ علم دشمنی کا عامتہ المسلمین کا رویہ ابھی تک زیادہ تبدیل نہیں ہو سکا۔یہ صرف ایک ابن رشد کی بات نہیں ،اپنے ہر جینوئن جینئس کے ساتھ مسلمانوں نے یہی سلوک کیا اور اہلِ مغرب نے انہیں سے سیکھ کر اس دور کی عظیم تر ترقیات تک کا سفر طے کیا اور ہم ہیں کہ ابھی تک صدیوں پرانے نصابوں میں الجھے ہوئے ہیں۔کوئی جدید علوم اور زمانے کی نئی صورتحال کی طرف توجہ دلائے تو اسے اسلام دشمن،یہودیوں کا ایجنٹ وغیرہ کہہ کرسمجھتے ہیں کہ اسلام کی خدمت کا حق ادا ہو گیا۔
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی،نہ حرارت،نہ معرفت،نہ نگاہ
علامہ اقبال نے لگ بھگ سو سال پہلے کے دینی مدارس کے حوالے سے جو کچھ کہا تھاآج ان کی پسماندگی اس دورسے بھی بڑھ چکی ہے ۔یہ تو دینی مدارس کا حال تھا،اب مسلمان ملکوں کی جدید یونیورسٹیوں کے احوال کو بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے۔
لگ بھگ ۶۰مسلمان ملکوں میں یونیورسٹیوں کی کل تعداد پانچ سو چارہے۔جبکہ صرف امریکہ میں یونیورسٹیوں کی تعدادپانچ ہزار سات سو اٹھاون سے اوپرہے۔مسلمان ملکوں کی پانچ سو چار یونیورسٹیوں میں سے ایک یونیورسٹی بھی ایسی نہیں ہے جو دنیا کی پانچ سو اعلیٰ درسگاہوںدانش گاہوں میں شمار ہو سکے ۔ صرف ایک یونیورسٹی ایسی ہے جو ان کے معیار سے کچھ قریب تر ہے اور وہ ہے آغا خان یونیورسٹی ۔ پاکستان کا ماڈریٹ مسلم کہلانے والا پریس عموماً اس یونیورسٹی کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے۔مغربی دنیا میں خواندگی کی شرح ۹۰فی صدسے زیادہ ہے۔مسلمان ملکوں میں یہ شرح چالیس فی صد سے بھی کم ہے۔ امریکہ میں ۲۶ہزار پادری پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہیں۔گویا چرچ کی مخصوص تعلیم کے ساتھ وہ جدید علوم سے بھی بہرہ ور ہیں۔مسلمان ملکوں کے علماءمیں یہ شرح پتہ نہیں اعشاریہ کے بعد بھی کتنے زیرو لگاکے پھر ایک فی صد بنتی ہے۔ یورپی ممالک اپنی قومی آمدنی کا پانچ فی صد تحقیق پر خرچ کرتے ہیں۔مسلمان ممالک میں تحقیق پر صرف اعشاریہ دو فیصدخرچ کیا جاتا ہے۔ اس سے مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کی علم دوستی کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے اور مسلمانوں میں علم کے حصول کے لئے پائی جانے والی لگن کا بھی کچھ نہ کچھ پتہ چل جاتا ہے۔اب ایک تازہ اطلاع کے مطابق لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات اور پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے بعض رویوں میں حیرت انگیز مماثلت آنے لگی ہے۔ اسے علم کے شعبہ میں جرنیلی مداخلت کا شاخسانہ کہیں یا مذہبی انتہا پسندی کا ثمر،کچھ بھی کہیں لیکن صورتحال تکلیف دہ اور افسوسناک ہے۔ اے مسلمانانِ عالم!
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا