انڈیا اور پاکستان کے درمیان دوستی کا سفر کئی رکاوٹوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح جاری ہے۔ پورے خطے میں امن و خوشحالی چاہنے والے، ان دونوں ایٹمی ممالک کی دوستی میں ہی امن و خوشحالی کو ممکن دیکھتے ہیں۔سیاسی اور سفارتی سطح پر آنے والے نشیب و فرازسے دونوں طرف کی مقتدر قوتیں مناسب طریقے سے نمٹ رہی ہیں تاہم آج یہاں ایک گلہ بھارتی الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔سمجھوتہ ایکسپریس کے سانحہ کے سلسلہ میں ایک سابقہ کالم میں لکھ چکا ہوں کہ اس موقعہ پر بھارتی میڈیا کا کردار تکلیف دہ حد تک پاکستان مخالف اور منفی رہا۔پاکستانی مسافر زندہ جلا دئیے گئے اور شرمناک حد تک سانحہ کا الزام بھی پاکستانی گروپوں پر عائد کرنے کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا۔اور تو اور اشتعال انگیزی کے طور پر یہ خبریں بھی دی گئیں کہ زندہ جل جانے والوں میں زیادہ تعداد ہندوستانیوں کی ہے جو بعد میں بالکل جھوٹ ثابت ہوئیں۔میں نے پہلے بھی لکھا تھااس سانحہ کے حوالے سے بھارتی حکومت ابھی تک اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر سکی۔نہ تو مسافروں کی پوری لسٹ پاکستان کو فراہم کی گئی ہے،نہ پاکستان کو تحقیق کے کسی مرحلہ میں شامل کیا گیا ہے اور نہ ہی ابھی تک کوئی ایسی قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے جو پاکستان کو بتائی جا سکے۔اس تمام صورتحال کے ساتھ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ تا حال کسی انتہا پسند ہندو تنظیم کو اس معاملہ میں معمولی سے شک کی نگاہ سے بھی نہیں دیکھا گیا۔میرے نزدیک اس سانحہ کے حوالے سے پاکستان کے انتہا پسند مذہبی گروپوں کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے لیکن اسی طرح انڈیا کے ہندو انتہا پسند گروپوں کو بھی گہرے شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں پر شک کی گنجائش ہے تو خود انڈیا کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی شک سے بالا نہیں سمجھا جانا چاہئے۔اس طرح سارے امکانات کو سامنے رکھ کر تفتیش ہونا چاہئے۔
یہ روداد دہرانے کی نوبت اس لئے آئی کہ ورلڈ کپ کرکٹ میں پاکستان کی شکست پر انڈیا کے مقبول الیکٹرانک میڈیا نے بے حد منفی رویہ اپنائے رکھا۔بے شک پاکستانی ٹیم نے بری کار کردگی کا مظاہرہ کیا۔لیکن اس کے لئے ”شرم سے ڈوب مرنے“جیسے الفاظ کہنے والوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔کیا بعد میں جب انڈیا کی ٹیم نے پاکستان سے بھی زیادہ بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پھر ”شرم سے ڈوب مرنے“ کا مشورہ دینے والوں کو خود بھی اپنے مشورے پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔کھیل کو کھیل ہی رہنے دینا چاہئے۔دونوں ممالک میں کھیل کے ارباب اختیار کی زیادہ با اختیار بننے کی خواہش نے ہمیشہ کھیل کی کارکردگی کو نقصان پہنچایا ہے۔تاہم ایک بات دونوں ممالک کے کھلاڑیوں اور عوام میں بڑی مشترک ہے۔ہاکی ہو یا کرکٹ دونوں گیمز میں جب دونوں ممالک اچھا کھیلتے تھے تب عام طور ایک دونمبر کے فرق سے آگے پیچھے ہوتے تھے۔اسی طرح جب دونوں نے برا کھیلنا شروع کیا تو آخری نمبر پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہی ہیں۔گویا اچھے اور برے کھیل میں دونوں ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں۔ یہ بیک وقت دونوں کا لاگ بھی ہے اور لگاؤ بھی۔دونوں ممالک کے عوام جیت پر اپنے کھلاڑیوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور بری ہار کے نتیجہ میں ان کا جو حشر ہوتا ہے وہ اس وقت سب کے سامنے ہے۔تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔رویوں کے اس مشترکہ تعلق سے ایک دوسرے سے مزید قریب ہوا جا سکتا ہے لیکن افسوس انڈیا کا مقبول الیکٹرانک میڈیامنفی پروپیگنڈہ میں بہت آگے جانے لگا ہے۔پاکستانی کوچ باب وولمر کی موت یا قتل کا معاملہ پاکستان کی اپ سیٹ ٹیم کے لئے مزید تکلیف دہ ثابت ہوا۔اس پر بھارتی میڈیا نے جس طرح کا پروپیگنڈہ شروع کر دیااور جس طرح قتل کے الزام کی تفتیش کا رُخ پاکستانی ٹیم پر فوکس کردیا وہ حیران کن بھی تھا اور افسوسناک بھی۔اس طرح کے نامناسب پروپیگنڈہ سے خود ایسے چینلز کی حیثیت خراب ہو گی۔
جن دوستوں نے ہند پاک تعلقات کے حوالے سے میری ساری تحریریں پڑھ رکھی ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میں دونوں ممالک کی دوستی کو صرف دوستی کی حد تک نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ سارک ممالک کو یورپی یونین کی طرح سارک یونین بنتے دیکھنا چاہتا ہوں۔لیکن بھارت کے جس میڈیا کا میں ذکر کر رہا ہوں،ان کی منفی اورنامناسب پروپیگنڈہ کی روش تبدیل نہ ہوئی تو میری یہ بات نوٹ کر لیں کہ جنوبی ایشیا کا پورا خطہ کسی بھی معمولی لغزش کے باعث بہت بڑی تباہی کی لپیٹ میں آسکتا ہے اور اس کی ذمہ داری سیاستدانوں اور ڈپلومیٹس سے زیادہ اس قسم کے میڈیا پر ہو گی جو محبت کو فروغ دینے کی بجائے وار کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا اور اس کے لئے اس حد تک جھوٹ بولنے لگا ہے کہ شرم سے سر جھک جاتا ہے۔میڈیا کی آزادی کا مطلب سفید جھوٹ بولنے کی آزادی نہیں ہے۔
ایران سے پاکستان کے راستے انڈیا تک گیس پائپ لائن منصوبے کو شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی مخالفت کا سامنا ہے۔اصولاً یہ منصوبہ ایران،پاکستان اور انڈیا تینوں کے مفاد میں ہے۔امریکہ کو اس میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن ایران پر امریکہ کے متوقع حملے کے خطرے کے باعث شاید امریکہ اس منصوبہ کی مخالفت کر رہا ہے۔اب بھارت کے وزیر خارجہ پرنب مکر جی نے بیان دیا ہے کہ امریکی اعتراضات کے باوجود ایران، پاکستان ، انڈیا گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کیا جائے گا۔یہ اعلان خوش آئند ہے۔اس پر عمل شروع ہو گیا تو یہ بجائے خود انڈو پاک کے درمیان امن کی ایک ضمانت بن جائے گا۔اس لئے خوشی ہوگی کہ اس منصوبہ کو جلد فائنل کیا جائے اور پھر اس پر عملدرآمد شروع کرکے اسے مکمل بھی کیا جائے۔ایسا ہو جائے تو سارک یونین کو ایران اور افغانستان اور بعض دوسری ملحقہ ریاستوں تک بھی توسیع دی جا سکے گی۔
ہم اچھا وقت نہیں لا سکے نئی نسلو!
مگر تمہارے لئے اچھے خواب لے آئے
پاکستان کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کے خلاف دائر صدارتی ریفرینس کا بحران جاری ہے۔اس دوران جو نئی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج رانا بھگوان داس ہندوستان یاترا کے بعد پاکستان پہنچ گئے اور انہوں نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف بھی اُٹھا لیا ہے۔بعض مولویوں نے ان کے حلف اُٹھانے پر اعتراض کیا ہے جبکہ اس سے پہلے جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں ایک مسیحی جسٹس کارنیلس بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ابھی کسی صحافتی حلقے نے اس کی نشاندہی نہیں کی کہ تب جنرل یحییٰ خان جو شریعت کا نظام بنوانا چاہ رہے تھے اس کے لئے ذمہ داری جسٹس کارنیلیس کو سونپی گئی تھی۔ جماعت اسلامی نے ان کی تقرری کو جائز قرار دیا تھا اور ان کے ذریعے شریعت کے نظام یا قوانین کو بنایاجانا،جائز بتایا تھا۔اب بھی جماعت اسلامی نے رانا بھگوان داس کے تقرر پر اعتراض نہیں کیا تاہم بعض دوسرے مولوی حضرات نے مخالفت ضرور کی ہے۔یہاں ایک اور دلچسپ بات بھی بتا دی جائے کہ جمہوری اداروں کی بربادی کے لئے ”نظریۂ ضرورت“قسم کے جتنے فیصلے بھی کئے گئے مسلمان ججوں نے کئے۔جبکہ جمہوری اداروں کی بحالی کے کم از کم دو سابقہ فیصلے دونوں غیر مسلم ججوں نے کئے تھے اور اب بھی عوام کو جسٹس رانا بھگوان داس سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔اللہ کے بندوں کی نظریں اب بھگوان کے ایک داس پر لگی ہوئی ہیں۔
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک نجومی نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
۲۶مارچ کو اے آرڈی کے زیر اہتمام ملک بھر میں عدلیہ کی حمایت میں مظاہرے کئے گئے۔ان مظاہروں کی مجموعی کارکردگی مایوس کن رہی۔دوسری اپوزیشن جماعتوں کی از خود حمایت کے باوجود بڑے پیمانے کے مظاہرے نہیں ہو سکے۔تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی عوام نے انگڑائی لی ہے اور تدریجاً بیداری ہوتی جائے گی۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے بغیر وکلا کا احتجاج زیادہ موثر اور کار گر تھا۔پوری قوم کا دل ان کے ساتھ دھڑک رہا تھا۔اس لئے اگر عدلیہ کے اشو کو متعلقہ فریقوں پر چھوڑ دیا جائے تو شاید اس سے بہتر نتائج نکل سکیں گے۔ وکلا کی جانب سے ہر روز ایک گھنٹے کے لئے احتجاج کی کاروائی جاری ہے۔اس دوران جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ مفاہمت کے لئے مختلف آپشنز پر بات کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں۔۳اپریل تک کسی نمایاں پیش رفت کی امید کی جا رہی ہے۔اے آرڈی کے مظاہرہ سے ملک کے عوام کی سیاسی بے حسی کا اندازہ ہوا۔جہاں روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں کہاں کی جمہوریت اور کہاں کا انصاف۔یہی وجہ ہے کہ وہ سارے وزراءجو چیف جسٹس کے اشو کے وقت حکومت کی حمایت میں کچھ بولنے کی بجائے کہیں کونوں کھدروں میں چھپ گئے تھے،اب وہ بھی باہر نکل آئے ہیں اور اپوزیشن کے مظاہرے کی ناکامی کا اعلان کئے جا رہے ہیں۔خود جنرل پرویز مشرف نے ۷۲مارچ کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ سے خطاب کیا اور اس میں بتایا کہ عوام نے اپوزیشن کو مسترد کر دیا ہے۔
ایسے بیانات سے اپوزیشن کی لاغری کے ساتھ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری ہر حکومت کی طرح یہ حکومت بھی احتجاج ریکارڈ کرانے والے مظاہروں سے کوئی اثر نہیں لے گی،البتہ جہاں اسے لگے گا کہ یہاں اقتدار کی کرسی کھسک سکتی ہے وہاں سرِ عام معافی مانگنے سے نہیں ہچکچائے گی۔
جنرل مشرف نے ۲۷مارچ کو لیاقت باغ راولپنڈی میں جو جلسۂ عام منعقد کرایا ہے اس کے اخراجات کے بارے میں بی بی سی نے دلچسپ اعدادوشمار دئیے ہیں۔بی بی سی کے مطابق جلسہ کی تشہیر کے لئے اخبارات میں پانچ کروڑ روپے کے اشتہارات چھپ چکے ہیں۔بہت بڑے ہورڈنگز، بینرز، اسٹیکرز، اور مسلم لیگی جھنڈوں کا خرچہ ایک کروڑ روپے رہا۔حفاظتی انتظامات کے فوجی،نیم فوجی دستوں اور پولیس کے ہزاروں جوان طلب کئے گئے،ان سب کی نقل و حمل پر ایک کروڑ کا خرچہ ہوا۔جلسے میں لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے اس دن پورے ضلع میں سرکاری چھٹی کا اعلان کیا گیا۔اس سے لاکھوں افراد جو پیداواری گھنٹے کام میں نہیں لا سکے ان کا محتاط تخمینہ دس کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔لوگوں کو جلسہ گاہ تک لانے کے لئے ایک ہزار روپے سے دو ہزار روپے یومیہ ریٹ تک تین دن پہلے سے ویگنوں اور بسوں کی پکڑ دھکڑکا سلسلہ شروع کرکے پٹرول کے خرچہ سمیت ایک کروڑ روپے لگ گئے۔یوں مجموعی طور پر اس جلسہ پر اٹھارہ کروڑ روپے کا خرچہ ہوا۔جلسہ کے شرکا کی تعداد پچاس ہزار مان لی جائے تو ایک بندے کو جلسہ گاہ تک لانے کے لئے مجموعی طور پر تین ہزار چھ سو روپے لاگت آئی۔جلسہ کے دورانیہ کو مدنظر رکھا جائے تو یہ جلسہ دس لاکھ روپے فی منٹ میں پڑا۔بی بی سی نے یہ دلچسپ تبصرہ کیا کہ ”اگر صدر مملکت کوئی پیشہ ور سیاستدان ہوتے تو شاید ان کے جلسے پر اتنا پیسہ صرف نہ ہوتا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے نئے نئے فلم پروڈیوسرجسے فلم بنانے کو شوق تو ہو لیکن ناتجربہ کاری کے سبب یہ معلوم نہ ہو کہ کتنا پیسہ کس مد میں لگے گا۔ان حالات میں یار لوگ فلم کی ریل ریوائنڈ اور فارورڈ کرنے کا خرچہ بھی اس پر ڈال دیتے ہیں۔“
چلیں اس شو سے یہ تاثر دلانے کی کوشش توکی گئی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو عوام کی بھاری حمایت حاصل ہے۔ حالانکہ حقائق اور ممکنہ خطرات وہی ہیں جو پچھلے کالم میں لکھ چکا ہوں۔
۲۸مارچ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے راولپنڈی بار سے خطاب کیا۔اور ملک میں عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کی اہمیت پرزور دیا۔بے شک چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ہونے والی بد سلوکی کے نتیجہ میں اس وقت وہ ملک میں عدلیہ کی عزت اور افتخار کی علامت بن گئے ہیں۔تاہم پاکستانی قوم کی بد قسمتی دیکھیں کہ ملک میں کرپشن،بددیانتی اور اقربا پروری اتنی زیادہ پھیل گئی ہے کہ قوم کو جو ہیرو ملتا ہے اس کا دامن بھی بیٹے کی ناجائز ترقی سے لے کر ضرورت سے زیادہ کاروں اور ہیلی کاپٹروں کی فرمائش جیسے دھبوں سے پاک نہیں ہے۔قوم کی مجبوری اور ترجیح اب ”بہت اچھا ہیرو“ نہیں بلکہ ”کم برا“ہیرو ہو گئی ہے۔ایسے میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کمزوریوں سے صرفِ نظر ہی کیا جانا چاہئے۔ اور وہی بات جو پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جنرل پرویز مشرف اپنے ارد گرد کی سیاہ بھینسوں کو نہیں دیکھ رہے اور انہوں نے ایک گائے کو کالی دُم والی ہونے کا طعنہ دے دیا ہے۔
۲۸مارچ کوریاض،سعودی عرب میں عرب لیگ کاسربراہی اجلاس شروع ہوا۔اس اجلاس میں پاکستان اور ملائیشیا جیسے غیر عرب مسلمان آبادی والے ممالک کے ساتھ ہندوستان کو بھی دعوت دی گئی ہے۔پاکستان اور ملائیشیا کے صدور نے خصوصی مہمان کے طور پر شرکت کی جبکہ ہندوستان کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور ای احمدبطور مبصر شریک ہوئے۔لیکن پاکستان میں ہوئی ہم خیال اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کی طرح اس اجلاس میں بھی ایران کو مدعو نہیں کیا گیانہ خصوصی مہمان کے طور پر ،نہ مبصر کے طور پر۔عرب لیگ کو ایران سے کیا خوف ہے؟اور وہ دانشور جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مسلمانوں میں کوئی شیعہ،سنی(اصلاً شیعہ وہابی)فساد نہیں ہے،وہ اس سارے تماشے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے اسے ایک سازش قرار دیا جو امریکی عزائم کی تکمیل کے لئے رچائی گئی ہے۔ان کے بقول اس کانفرنس کا ایجنڈہ امریکہ کا تیار کردہ ہے۔ بہر حال یہ اجلاس بھی نشستند،خوردند،برخاستند ثابت ہوا۔کچھ کچھ عرب نیشنل ازم کی خوشبو بھی پھیلتی محسوس ہوئی۔
اس ہفتہ کے دوران” حکومت پاکستان کی رٹ ہر حال میں قائم رکھنے“ کے دعووں کی دھجیاں اڑتی دکھائی دیں۔قبائلی علاقوں سے لے کر اسلام آباد تک مذہب کے نام پر غنڈہ گردی اور دہشت گردی ہوتی رہی۔ٹانک کو قبائلی علاقہ کہہ کر کسی حد تک معذوری کا بہانہ بنایا جا سکتا ہے۔حالانکہ وہاں ایک بنک لوٹنے کے ساتھ پانچ دوسرے بنکوں اور متعددسرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔سینکڑوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔پاکستانی طالبان اپنے غیر ملکی ساتھیوں سمیت چار پانچ سو کی تعداد میں دوسرے علاقوں سے آئے اور یہاں تباہی مچا کر چلے گئے۔بعد میں بھی حالات قابو میں نہیں آئے تو حکومت کو کرفیو لگانا پڑ گیا۔قبائلی علاقوں میں غیر ملکی دہشت گردوں کی موجودگی کا ثبوت پوری قوم نے دیکھ لیا۔اور کئی برسوں کی سرکاری تردیدوں کے بعد بھید کھلا کہ کرزئی حکومت اور امریکنوں کا واویلا غلط نہیں تھا۔۔قبائلی علاقے غیر ملکی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنے ہوئے تھے۔
اسلام آباد میں جامعہ حفصہ کی طالبات نے ”طالبانی“ اسلام نافذ کرنے کا عمل ایک لائبریری پر قبضہ کرنے کے ”جہاد “سے شروع کیا تھا۔اس معاملہ میں حکومت کے نمائندوں نے جس طرح اس مدرسہ والوں کی منت سماجت کی اور جس طرح سے ان کے ناز نخرے اُٹھائے ،اس کے نتیجہ میںان کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یہ ڈنڈا بردار”لیڈی طالبان“اسلام آباد کی ویڈیو شاپس پر جا کر حکم دے رہی ہیں کہ یہ گندہ کاروبار بند کرو۔ایک عورت ،اس کی بیٹی،بہو اور چھ ماہ کے بچے کو یہ کہہ کر اغوا کر لیا کہ یہ لوگ گھر پر بدکاری کا اڈہ چلارہے ہیں۔
جامعہ حفصہ کے مہتمم اس سارے ”نفاذِ اسلام“ کی نگرانی فرما رہے ہیں۔پولیس نے دو طالبات اور دو طلبہ کو گرفتار کیا تو جواباً جامعہ حفصہ کے مجاہدین نے دو پولیس والوں اور دو پولیس گاڑیوں کو یرغمال بنا لیا۔مدرسہ کے اندر سے ایک ایف ایم ریڈیو کی نشریات شروع کر دی گئیں۔حکومت نے پہلے دن سودے بازی کی ۔اپنے پولیس کے بندے چھڑا لئے اور گرفتار شدہ اسلام آبادی طالبان رہا کر دئیے۔جو عورتیں گناہ کے الزام میں پکڑی گئی تھیں ان کی کوئی پرواہ نہیں کی۔اس طرح ان ”طالبان“کو مزید تقویت پہنچائی۔۶۸گھنٹوں کی حراست کے بعد ان عورتوں کو رہائی دلائی جا سکی ہے۔
اب اطلاعات آرہی ہیں کہ حکومت جامعہ حفصہ پر کوئی بڑی کاروائی کرنے جا رہی ہے،غالباً ۳اپریل کو چیف جسٹس کی پیشی کے بعدکوئی کاروائی ہو جائے گی۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ حکومت کے اندر ان لوگوں کے کئی حمایتی بیٹھے ہوئے ہیں۔چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی نے اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف کے انتہا پسندی کے خلاف متعدد جرات مندانہ اہم اقدامات پر رکاوٹ پیدا کی اورحیلوں بہانوں سے انہیں یو ٹرن لینے پر مجبور کیا۔طالبان نواز مذہبی عناصر کے ساتھ چوہدری برادر ان کا تعلق اور ربط کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔شیخ رشید خود ”جہادی کیمپ“چلاتے رہے ہیں اور ان کی دلی ہمدردیاں اب بھی ان عناصر کے ساتھ ہیں۔جنرل ضیاع الحق کا بیٹا اعجاز الحق تو خود اپنے باپ کی نشانی ہے۔مذہبی امور کی وزارت کے ذریعے جامعہ حفصہ کی طالبات کی جو منت سماجت کی گئی تھی اور جس طرح ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے تھے،اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ اعجاز الحق پر عائد ہوتی ہے۔وہ تمام مذہبی جماعتیںجو سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران ”امریکی جہاد“کے لئے اپنے زیرِ اثر مدارس میں ”مجاہدین“ تیار کرتی رہیں،اور جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی جنرل پرویز مشرف کو ہمیشہ سیاسی تحفظ دیتی رہیں،اس لئے ظاہری مخالفت کے ڈرامہ کے باوجود یہ مذہبی جماعتیں جنرل پرویز مشرف کو بے حد عزیز ہیں۔جنرل پرویز مشرف ایسے سیاسی عناصر کے اشتراک سے اگر مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو ان کی ذہانت پر شک کرنا چاہئے۔لیکن اگر وہ واقعتاً ذہین ہیں اور جان بوجھ کر ایسا کروا رہے ہیں تاکہ امریکہ پر اور دوسرے مغربی ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لئے ایسے واقعات ہوتے رہیں تو ان کے انجام کی تو خیر ہے،خدا پاکستان کی خیر رکھے۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ضلع سوات کی دو تحصیلوں میں ایف ایم ریڈیو کے ذریعے وہاں کے ایک مولانا صاحب فتویٰ جاری کر رہے ہیں کہ پولیو کے ٹیکے لگوانا شرعاً جائز نہیں ہیں۔ان کے بقول وبائی مرض میں جو مسلمان ہلاک ہوتا ہے،وہ شہید ہوتا ہے۔اس لئے اگر پولیو وبائی شکل اختیار کرلے تو اس کا شکار ہونے والے شہید کہلائیں گے۔جبکہ فی الحال یہ مرض وبائی صورت اختیار نہیں کر سکا۔۔۔۔مولانا صاحب کے اس فرمان کے بعد وہاں کے لوگ پولیو کے حفاظتی ٹیکے لگوانے سے انکار کر رہے ہیں۔
ہمارے اس قسم کے” ذہنی معذورعلمائ“ کو اندازہ نہیں ہے کہ پولیوسے ہلاکتیں نہیں ہوتیں بلکہ قوم اپاہج بن جاتی ہے۔ایسے ذہنی اپاہج لوگوں کے ہاتھوں قوم ذہنی طور پر ہی نہیں جسمانی طور پر بھی اپاہج بن جائے تو پھر کسی کو کیا الزام دیا جائے؟باقی حکومت پاکستان بہتر جانتی ہو گی کہ یہ ایف ایم ریڈیو قانونی ہے یا غیر قانونی۔
جیو چینل سے ایک پروگرام ”نادیہ خان شو“پیش کیاجاتا ہے۔یہ پروگرام خواتین میں کافی مقبول ہے۔اس کی مقبولیت کا کچھ اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب امریکہ میں مقیم میری بہن نے مجھے بتایا کہ وہ اس پروگرام کی ریکارڈنگ کرا لیتی ہیں اور پھر اسے اطمینان سے دیکھتی ہیں۔جیو چینل کے حالاتِ حاضرہ کے دو پروگرام”آج کامران خان کے ساتھ“ اور کیپٹل ٹاک“کافی اہم پروگرام ہیں۔کامران خان اور حامد میر ان پروگراموں کو پیش کرتے ہیں۔اب معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی ARYچینل کو چھوڑ کر جیو چینل کو جائن کر لیا ہے اور یہاں سے”میرے مطابق“ پروگرام شروع کیا ہے۔یہ پروگرام ان کے پرانے چاہنے والوں کی توجہ کا مرکز ہے اور اس میں اب ان کی پہلے جیسی جذباتیت کافی کم ہو گئی ہے ۔ چند دن پہلے نادیہ خان شو پر ڈاکٹر شاہد مسعود کو مدعو کیا گیا تھا۔تب جو ٹیلی فون کالز آرہی تھیں،ان پر کچھ اچنبھا سا ہوا تھا۔مثلاً ایک خاتون بتا رہی تھیں کہ وہ ،ان کے شوہر اور ان کے بچے سب ڈاکٹر شاہد مسعود کے فین ہیں۔نادیہ خان کے استفسار پر خاتون نے بتایا کہ ان کے ایک”فین بچے“ کی عمر چار سال ہے ۔ تب مجھے ARYچینل کا ایک لائیو ٹاک شو یاد آیا۔پی جے میر اس کے کمپئر تھے۔اس میں دیگر شرکاءکے علاوہ ڈاکٹر شاہد مسعود اور موجودہ وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ بھی (جلاوطنی کی حالت میں) مدعو تھے۔اس دوران کسی فرضی نام سے ایک ٹیلی فون کال آئی جس میں آفتاب شیر پاؤ کے بارے میں غیر اخلاقی زبان میں ریمارکس دئیے گئے۔مجھے چند دن بعد ہی پتہ چل گیا کہ اس کالر کا اصل نام کیا ہے؟ اور اس کا کس سے کیا رشتہ ہے؟امید ہے آفتاب شیر پاؤ اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو بھی تب ہی بخوبی علم ہو گیا ہو گا کہ وہ کال کرنے والا کون تھا اور کس کے ایما پر ایسا کر رہا تھا۔
اب۳۰مارچ کونادیہ خان شو میں حامد میرکے ساتھ گفتگو ہوئی ۔حامد میر سے ایک بھول ہوئی ہے،وہ یہاں خود ذکر کرتے کہ وہ ممتاز دانشور وارث میر کے صاحبزادے ہیں ۔اس گفتگو میں ان کے والد کا ذکر آنا چاہئے تھا۔جو ان کی سعادتمندی کا اظہار بھی ہوتا۔ وارث میر نے جنرل ضیاع الحق کے دور میں حق گوئی کی جو روایت قائم کی تھی،ان کے چاہنے والے اسے آج بھی یاد رکھتے ہیں۔باقی پرنٹ میڈیا میں ان کا جو مقام تھا،حامد میر نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں یقینا اپنا ایک الگ اور قابلِ رشک مقام بنایا ہے۔ ان کے نام دو ٹیلی فون کالز ایسی آئیں جن میں کامران خان کے پروگرام اور کیپٹل ٹاک پروگرام کی ایک ساتھ تعریف کی گئی لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود کا بالکل ذکر نہیں کیا گیا۔حالانکہ ڈاکٹر شاہد مسعود کا پروگرام نسبتاً کمزور سہی لیکن اتنا گیا گزرا بھی نہیں کہ جیو کے حالاتِ حاضرہ کے پہلے تین پروگراموں میں اسے شمار نہ کیا جاسکے۔ اپنے تاثرات ریکارڈ پر لانے کے لئے یہ احوال لکھ دیا ہے۔باقی واللہ اعلم!
مغربی ممالک میں پیدا ہونے والے مسلمان بچوں کے ختنہ کا مسئلہ بھی کبھی کبھار مشکل صورت اختیار کر جاتا ہے۔یہاں جرمنی میں تو عام طور پر بچے کی پیدائش کے بعد ایک دو ہفتہ کے اندر ہی ختنہ کرالیا جاتا ہے۔بچے کی صحت زیادہ کمزور ہو تو ڈاکٹر تین سے چھ ماہ کے لئے ختنہ کو موخر کر دیتے ہیں۔لیکن ادھر انگلینڈ میں یہ مسئلہ کچھ مشکل ہورہا ہے۔چنانچہ وہاں کی ایک مسلم تنظیم ایم سی بی کے ایک وفد نے اسکاٹ لینڈ کے وزیر صحت سے ملاقات کی ہے۔اور انہیں بتایا کہ اسکاٹ لینڈ میں تین سو سے زائد بچے ختنوں کے منتظر ہیں۔اس لئے کم خرچ کے ساتھ جلداسے ممکن بنایا جائے۔وزیر صحت نے بتایا کہ نوزائیدہ بچوں کے لئے بے ہوشی کی دوا مضر ہوسکتی ہے،اس لئے طے ہوا ہے کہ بچوں کے ختنے چھ ماہ کی عمر کے بعد کئے جائیں ۔ اس موقعہ پر وزیر صحت کو بتایا گیاکہ یہودی بچوں کے ختنہ ایک ہفتہ کے بعد کر دئیے جاتے ہیں ۔اس کے جواب میں وزیر صحت نے بتایا کہ یہودی کمیونٹی اپنی ذمہ داری پر ایسا کرتی ہے۔اور اس کے نتیجہ میں حال ہی میں ایک یہودی مذہبی رہنما کے ہاتھوں ختنہ کرانے سے ایک یہودی بچے کی موت واقع ہو گئی ہے ۔ وزیر صحت نے وعدہ کیا کہ اس سال کے آخر تک ختنہ کے منتظر تمام بچوں کا ختنہ کرادیا جائے گا اور آئندہ سے ہر بچے کا چھتیس ہفتہ تک ختنہ لازمی کر دیاجائے گا۔
ابراہیمی سلسلہ کے دو بڑے مذاہب یہودیت اور اسلام میں ختنہ کی رسم پر پابندی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے۔ہندوستان میں فسادات کے دنوں میں ہندو مسلم کی پہچان کے لئے لوگوں کو ننگا کرکے دیکھا جاتا رہا ہے کہ اس کا ختنہ ہوا ہے یا نہیں؟اور اس کے مسلمان ہونے ،نہ ہونے کی پہچان یہی ختنہ بن گیا ہے۔اب اقوام متحدہ کی طرف سے ایڈز سے بچاؤ کے حفاظتی پروگرام کے تحت یہ بتایا گیا ہے کہ ختنہ کرانے والوں کو ایچ آئی وی وائرس سے کافی حد تک تحفظ مل سکتا ہے۔افریقہ میں تین آزمائشی اسکیموں کے نتائج سامنے آنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ جن لوگوں کا ختنہ ہوا تھا،وہ 60% کم وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔ یہودی اور اسلامی سلسلوں میں ختنہ کی روایت کی ابتدا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام سے ملتی ہے، اسی لئے اسے سنتِ ابراہیمی بھی کہتے ہیں۔ہو سکتا ہے اسلامی روایات میں بھی اس کا تفصیلی ذکر ہو لیکن میری نظر سے نہیں گزرا۔ البتہ بائبل میں لکھا ہے کہ ختنہ کا حکم ملنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ختنہ ایک ہی دن کیا گیا۔تب حضرت ابرہیم علیہ السلام کی عمر ننانوے سال تھی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر ۱۳سال تھی۔
ایران کے خلاف امریکی اور برطانوی سازشوں کا جال پھیلتا جا رہا ہے۔ابھی ایٹمی مسئلہ نازک مرحلہ میں ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران کے خلاف مزید پابندیوں کی قرارداد منظور کر لی ہے،جس پر حسبِ توقع ایران نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں پاکستان، ملائیشیا اور بھارت کو تو شرکت کا موقعہ دیا گیا لیکن اس وقت امریکی نشانے کی زد میں آئے ہوئے ایران کو مدعو نہیں کیا گیا،جس سے اس اجلاس کی حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔اس دوران ایران نے برطانیہ کے ۵۱سیلرز کو غیرقانونی طور پر ایران کی سمندری حدود میں داخل ہونے پر گرفتار کرلیا۔ان سیلرز کی گرفتاری سے تناؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ایران کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی سمندری حدود کی خلاف ورزی پر کاروائی ہے اور برطانیہ اس کا اعتراف کرکے معذرت کر لے تو سیلرز کو رہا کیا جا سکتا ہے۔یہ بہت ہی صاف اور سیدھی سی بات ہے۔لیکن جب طاقت کا نشہ سر پر سوار ہو تو اصول اور قانون وغیرہ کو کون دیکھتا ہے۔برطانیہ بجائے اپنے اقدام پر شرمندہ ہونے کے الٹا دھمکانے پر اتر آیا ہے۔برطانیہ کا کہنا ہے کہ سیلرز عراقی سمندری حدود میں تھے۔قیدی سیلرز نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایرانی حدود میں گھسے تھے۔اب ایران اپنے سیدھے سادہ سے مطالبہ پر قائم ہے لیکن برطانیہ کے ساتھ اب یورپی یونین نے بھی برطانوی موقف کی حمایت کرتے ہوئے ایران کو انتباہ جاری کیا ہے۔امریکہ کے صدر بش نے بھی دھمکی آمیز بیان جاری کئے ہیں۔اگر نیت نیک ہوتی تو اس مسئلہ کو ایک معذرت کے ساتھ حل کیاجا سکتا تھا۔مجھے لگتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایٹمی حوالے سے جو کاروائی کرنے کی تیاری کر رہے تھے ،شاید اب وہ سیلرزکی رہائی کے بہانے سے کرنے کی کوشش کی جائے۔
جب دنیا میں طاقت ہی قانون بن جائے تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔مسلمانوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ ان سے کونسی نا انصافیاں ہوئی ہیں جن کی سزا کے طور پر ان پر ایسے لوگ مسلط ہو رہے ہیں جو اپنے ملکوں اور اپنے شہریوں کے لئے ہر قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ان کی عزتِ نفس کا احترام بھی کرتے ہیں اور ان کی عزتِ نفس کی حفاظت بھی کرتے ہیں لیکن مسلمان ممالک کے معاملہ میں وہ صرف طاقت کی زبان میں بات کرتے ہیں۔یقیناً مسلمانوں سے کوئی بڑے گناہ سرزد ہوئے ہیں۔ان کا احساس کرنا اور پھر ان گناہوں کی معافی،تلافی کرنا لازم ہے ورنہ وقت خود ان گناہوں کی تلافی کرے گا اور اس صورت میں مسلمانوں کو اسی طرح کے حالات کا سامنا کرتے رہنا ہو گاجیسے افغانستان اور عراق میں پیش آچکے ہیں۔ایران میں پیش آتے دکھائی دے رہے ہیں۔اور پاکستان کی نوبت بھی شاید قریب آتی جا رہی ہے۔
ایسے تکلیف دہ حالات میں آج یکم اپریل کویہ کالم مکمل کر رہا ہوں۔آج عید میلادالنبی ﷺکا دن ہے۔میری طرف سے تمام عاشقانِ محمد(ﷺ) کو جشنِ عید میلاد النبی ﷺکی مبارکباد!اس مبارک موقعہ پر آج کے حالات کی مناسبت سے یہ چند دعائیہ اشعار پیش ہیں۔
دن چڑھا ہے دشمنانِ دیں کا ہم پہ رات ہے
اے مِرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بیقرار
یا الہٰی فضل کر اسلام پر اور خود بچا
اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن لے پکار
دیکھ سکتا ہی نہیںمیں ضعفِ دینِ مصطفی
مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار
امت کی غلط کاریاں اپنی جگہ۔۔۔۔جہاں تک آنحضرت ﷺکی ذاتِ بابرکات کا تعلق ہے آفتاب آمد دلیلِ آفتاب کی طرح ۔۔۔۔۔ محمد ہست برہانِ محمد!