(Last Updated On: )
سال 1958ء عرب قوم پرستی کا نقطۂ عروج تھا۔ اس نئے موڈ کی غمازی کرنے والے جمال عبدالناصر کی مقبولیت شرق العرب اور المغرب میں اپنے عروج پر تھی اور نظام کہنہ موت کے خوف سے کانپ رہا تھا۔ عرب گماشتہ حکمرانوں کو اس بات سے پریشانی لاحق تھی کہ مصری رہنما کی مقبولیت مذہبی، لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم سے بلند تر تھی۔ نہ ہی یہ مقبولیت دنیائے عرب کے گلیوں محلوں تک محدود تھی۔ ہر عرب فوج میں محب وطن افسران کے خفیہ حلقے موجود تھے۔ ان کے خیال میں مصر اندر سیاسی انقلاب عرب قوم کی فتح تھی۔ ناصر کی سہ رخی فتح کو بھی اسی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ سہ رخی فتح تھی: نہر سویز کو قومی ملکیت میں لینا، 1956ء میں حملہ آور اینگلو فرنچ اسرائیلی فوجوں کی پسپائی کے بعد مصر کی قومی خود مختاری کی بحالی، اور مغرب کے انکار بعد اسوان ڈیم کی تعمیر کے لئے سویت یونین سے معاہدہ۔ پورے خطے میں فخر کا ایک احساس پایا جاتا تھا جو الجزائر سے شام تک، سعودی عرب سے تنزانیہ تک، اردن اور مراکش میں، فلسطینی مہاجر خیموں اندر اور لبنان تک بغاوتی موڈ کو جنم دے رہا تھا۔
اور عراق؟ یہاں تذبذب کا شکار اشرافیہ کا فیصلہ تھا کہ اس کی بقا کا واحد راستہ غیر ملکی آشیرباد سے بھر پور سیاسی جبر ہے۔ اگر ملک پر مارشل لاء مسلط نہ ہوتا تو شاہی حکم کے تحت عموما ًسیاسی آزادی محدود کر دی جاتی۔ یہ صورت حال امریکہ کو بھی راس آتی اور برطانیہ کو بھی۔ یہ دونوں ہاشمی بادشاہت کے استحکام بارے اس قدر پر اعتماد تھے کہ 1959ء میں انہوں نے ایک نئے سیکورٹی معاہدے کا نام بغداد پیکٹ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس پیکٹ کا مقصد فوجی اڈوں کا ایک ایسا نیٹ ورک تیار کرنا تھا جو خطے میں موجود تیل کی دولت کا تحفظ بھی یقینی بنائے اور کمیونسٹ دشمن سے بھی بچائے۔ یہ پورٹس ماوتھ طرز کا معاہدہ تھا مگر بڑے پیمانے پر جبکہ اس کی ضامن ایک زیادہ طاقتور قوت تھی: ریا ستہائے متحدہ امریکہ۔
یہ معاہدہ گو حزبِ اختلاف کے لئے بھی ایک چتائونی تھی مگر کیمونسٹوں نے یہ کڑوا گھونٹ پینے سے انکار کر دیا۔ انہیں علم تھا کہ عوام ایک نئی عوامی تحریک کے لئے تیار نہیں جبکہ اقتصادی ابھار کے نتیجے میں معیار زندگی میں تھوڑی سی بہتری آئی تھی۔ تحریک نہ چلانے کا نتیجہ تھا کہ نوری السید کو شہ ملی اور اس نے ہر اُس شخص کو جیل میں ڈال دیا یا جلاوطن کر دیا جس بارے یہ شبہ ہوتا کہ وہ کیمونسٹوں کا حامی ہے اور 1955ء میں سویت یونین سے ہر طرح کے تعلقات منقطع کر لئے۔ گزشتہ سال نوری السید نے انتخابات کا اہتمام کیا تھا مگر انتخابات سے قبل اس نے اپنی جماعت تحلیل کر دی جبکہ غیر کمیونسٹ حریفوں پر خاصا جبر کیا۔
135رکنی ایوان کے 116ارکان بلامقابلہ منتخب ہوئے اور اس بھاری اکثریت کی مدد سے نوری السید نے موثر طریقے سے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی جبکہ منظم ہونے اور عوامی اجتماعات میں شمولیت کے حق کو بہت محدود کر دیا گیا۔ بغداد پیکٹ کے لئے تیاری مکمل تھی۔ برطانیہ، ترکی، ایران، عراق اور پاکستان اس پیکٹ کے رکن تھے۔ واشنگٹن نے انتہائی دانش مندی سے پس منظر میں رہنے کا فیصلہ کیا اور پہلے اجلاس کی کارروائی کے مطابق ’بغداد پیکٹ کونسل‘ کے پہلے اجلاس، مورخہ 22-21نومبر1955ء بغداد، میں حسب دعوت دو امریکی مبصر (سفیر والڈیمر۔ جے۔ گال مین اور ایڈمرل جان۔ ایچ۔ کسیڈی) بھی موجود تھے۔ اس نئے دفاعی معاہدے پر پان عرب قوم پرست سخت مشتعل تھے۔ قاہرہ سے جمال عبدالناصر نے معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے اسے عرب خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔ عراق میں سیاسی سرگرمیاں انتہائی محدود کر دی گئیں مگر فوج اندر مسلسل نگرانی آسان کام نہ تھا۔
عراقی فوج اندر ناصر کے حامی اور بہت سے دیگر لوگ خفیہ طور پر ’فری آفیسرز‘ کے نام سے منظم تھے اور 1956ء کی جنگ سویز بعد (اس جنگ میں بغداد پیکٹ کے رکن ممالک نے مصر پر اینگلو فرنچ اسرائیلی جارحیت کی حمایت کی) ان کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا جبکہ ان کا کھوج لگانے اور انہیں منتشر کرنے کے لئے نوری السید نے جو کوششیں کیں وہ محدود پیمانے پر ہی کامیاب ہو سکیں۔ عراقی کیمونسٹ پارٹی کے سیل بھی فوج اندر موجود تھے۔ اس سیل میں وہ کیڈر منظم تھا جو انتہائی تربیت یافتہ اور زیر زمین کارروائیوں کا ماہر تھا۔ تیسری قوت تھی نا تجربہ کار بعث پارٹی جس کی حمایت زیادہ تر جنوب میں پائی جاتی تھی‘ اس کے رہنما ناصریہ کے ایک نوجوان انجینئر فودالرکابی تھے۔ بعث نے جاگیرداروں اور ملائوں سے نالاں شیعہ نوجوانوں کو انتہائی کامیابی سے ہم خیال بنایا تھا۔ فوج اندر بعث کے بھی کچھ سیل کام کر رہے تھے۔
1934ء میں جب ملٹری کالج ہمہ گیر داخلے کے لئے کھول دیا گیا تو عراقی فوج کا افسر طبقہ عراقی معاشرے کی ہر پرت کا نمائندہ بن گیا اور یوں اسے اس نوعیت کا واحد عراقی ادارہ کہا جا سکتا تھا۔ مصر کی طرح جب افسروں کی بھرتی کے لئے بعض شرائط کا خاتمہ ہوا تو شہری پیٹی بورژوا خاندانوں سے ایک بڑی تعداد فوج میں بھرتی ہوئی۔ یہ اقدام شاہی محل کے دبائو تلے اٹھایا گیا تھا۔ یہ اقدام برطانیہ کی سامراجی سوچ سے میل نہ کھاتا تھا کہ برطانیہ نے جب ہندوستان اور افریقہ میں کلونیل فوج تشکیل دی تو خاندانی ہسب نسب کا بہت زیادہ خیال رکھا۔ نوری السید اور ان کے حامی البتہ ذاتی مقاصد کی خاطر، کسی حد تک اس اقدام کی وجہ ان کا ذاتی سماجی و طبقاتی پس منظر بھی تھا، ایک ایسی فوج تشکیل دینا چاہتے تھے جو علاقائی ، لسانی اور قبائلی تقسیم سے بلند ہو اور جو، ان کے خیال میں، بادشاہت کا قابلِ بھروسہ ہتھیار ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ عراقی شناخت تخلیق کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہو۔ شہر اور دیہات سے جو فوجی بھرتی کئے گئے وہ سنی بھی تھے شیعہ بھی، کرد اور عرب بھی، شالدی بھی سرکازی بھی۔ کیا کیجئے کہ صوبیداروں اور کامداروں کے بنائے ہوئے بہترین منصوبے بھی تاریخ کے ہاتھوں دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ پتہ لہذا یہ چلا کہ بہت سے ایسے ذہین نوجوانوں نے جو ترقی پسندانہ خیالات سے متاثر تھے، فوج میں جانے کا فیصلہ کیا، یہ ایسی بات تھی جو ان دنوں ہندوستان اندر سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی۔ فوج کے ادارے اندر شہر اور دیہات کے مابین رفتہ رفتہ دیوار گر گئی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ فوج وہ بھٹی ثابت ہوئی جس میں نئی عراقی شناخت تپ کر تیار ہوئی مگر شناخت کی تشکیل کے اس عمل سے بادشاہت کو باہر رکھا گیا جبکہ اس نئی شناخت کے مطابق عراق ایک ایسے ملک کے طور پر سامنے آیا جو عرب قوم کا جزو ہے۔ یہ تو عرب قوم پرستی کی شکست کا نتیجہ تھا کہ نئی ریاستوں سے وابستہ ذیلی قوم پرستیوں نے اپنی شناخت قائم کی۔
فوج اندر موجود تمام سیاسی دھارے بغداد پیکٹ پر چیں بہ جبیں تھے۔ فروری 1957ء میں لبرل، قوم پرست اور کیمونسٹ، نوری السید اور شاہی محل کے خلاف متحدہ محاذ میں متحد ہو گئے۔ فوج میں موجود اس محاذ کے حامیوں سے کہا گیا کہ وہ اقتدار سے ’ٹھگ باز ٹولے‘ کی مستقل رخصتی بارے سنجیدگی سے غور کریں۔ فری آفیسرز کی سپریم کمیٹی بارہ ارکان پر مشتمل تھی۔ اوپر ایک بریگیڈیئر نیچے ایک میجر اور دونوں کے درمیان دس کرنیل تھے، سب کے سب 1930ء کی دہائی کے اواخر میں عراق ملٹری اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔ ان میں یگانگت کیا تھی؟ سب کے سب جاگیرداروں سے ایک طرح کی نفرت کرتے تھے، شاہی محل نوری السید اور بدعنوان حکمران ٹولے پر مبنی مثلث سے نالاں تھے جبکہ سب کے سب سلطنت برطانیہ سے شدید متنفر تھے۔ 1957ء میں سپریم کمیٹی نے مختلف ذیلی کمیٹیاں تشکیل دیں جن کے ذمے فوجی انقلاب کی تیاری لگائی گئی۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ تمام اہم فوجی یونٹوں کے سربراہوں کو ساتھ ملایا جائے۔ یوں ان کا بریگیڈیئر عبدالکریم قاسم سے رابطہ ہو۔ ان کے والد سنی ترکھان اور والدہ شیعہ کرد تھیں گویا ان کا پس منظر عراقی یکجہتی کی علامت تھا۔ فری آفیسرز کو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ عبدالکریم قاسم نے پہلے سے نوجوان قوم پرست افسروں کا گروہ منظم کر رکھا ہے اور دونوں گروہوں کے ادغام کا مطلب تھا کہ اب تمام سینئر کمانڈنگ افسر تنظیم کا حصہ تھے۔ سنیارٹی کی بنیاد پر عبدالکریم قاسم کو سپریم کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ جب یہ خبر باہر سیاسی جماعتوں تک پہنچی تو انہوں نے اپنے حامیوں کو ہدایت دی کہ وہ فری آفیسرز سے مل جائیں‘ اس بات پر ایسے فوجی باغی نالاں تھے جو ہر قسم کے سیاستدانوں کے خلاف تھے32 ۔
فروری 1958ء میں شام کی بعث حکومت اور جمال عبدالناصر نے مصر اور شام کے ادغام سے یونائٹیڈ عرب ری پبلک (یو اے آر) قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اقدام کا مقصد عرب اتحاد کی بنیاد قائم کرتے ہوئے مغرب نواز حکومتوں کو کمزور کرنا تھا۔ ایک غیر اعلانیہ مقصد یہ بھی تھا کہ عرب کمیونسٹ جماعتوں کے اثر و رسوخ کو محدود کیا جائے۔ شام میں، مثلاً عمومی رائے یہ تھی کہ بعث پارٹی آئندہ انتخابات نہ جیت پائے گی اور ممکن تھا شامی کمیونسٹ اسے پس منظر میں دھکیل دیں۔ شام کی بعث پارٹی کے رہنما صلاح بیتار اور پارٹی کے بانی و مرکزی نظریہ دان مشعل افلاق فوراً قاہرہ پہنچے کہ یو اے آر کی بنیاد رکھی جا سکے اور انہیں خوب علم تھا کہ اس ادغام کا مطلب ہے شام اندر انتخاب کا مستقل التوا۔
بیرونی دنیا میں یو اے آر کے قیام سے مکمل عرب اتحاد کی جانب قابل قدر پیش رفت یا سٹیٹس کو کے لئے خطرہ مراد لیا گیا۔ بغداد میں نوری السید اور ان کے برطانوی آقائوں نے ایک متحارب اتحاد تشکیل دیا۔ عراق اور اردن کی ہاشمی بادشاہتوں کو متحد کر کے عرب یونین تشکیل دی گئی جس کے وزیراعظم اول نوری السید مقرر ہوئے۔ مختصر عرصہ زندہ رہنے والی اس یونین کا تیسرا مجوزہ رکن کویت تھا، اگر کویت رکن بن جاتا تو اس کے دلچسپ نتائج برآمد ہوتے، مگر اس سے قبل کہ برطانیہ امیر کویت کا انگوٹھا اس معاہدے پر لگواتا (اگر وہ بھی اس پر تیار ہو جاتے) غیر متوقع طور پر خلل واقع ہو گیا۔ عراق میں انقلاب برپا ہو چکا تھا۔
فری آفیسرز نے ہر ممکن احتیاط برتی تھی۔ اپریل میں ایک پیغامبر نے قاہرہ جا کر جمال عبدالناصرسے ملاقات کی تھی، ناصر کو منصوبے سے آگاہ کیا گیا اور بغداد پیکٹ کی آڑ میں مغربی حملے کی صورت مصر سے امداد کی درخواست کی گئی تھی۔ مصری رہنما نے بھر پور اور غیر مشروط حمایت کا وعدہ کیا۔ جوابی طور پر سپریم کمیٹی نے وعدہ کیا کہ اگر بغداد پیکٹ کے ارکان نے حملہ کیا تو عراق فوراً یو اے آر میں شامل ہو جائے گا۔ مقام حیرت ہے کہ برطانوی انٹیلی جنس کو منصوبے کی بھنک بھی نہ پڑی۔ انہیں طبقہ اشرافیہ سے میل ملاپ رکھنے والے برطانوی سفیر سے ملنے والے مکتوب مکمل شانتی کی خبر سنا رہے تھے۔
14جولائی 1958ء کو فری آفیسرز نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور عراق کو جمہوریہ قرار دے دیا۔ صبح 6:30 بجے ریڈیو بغداد پر کرنل عارف نے جو اعلان نامہ پڑھا اس میں بتایا گیا کہ
عوام اور قومی افواج کے وفادار بیٹوں کی قابلِ بھروسہ مدد سے ہم نے اپنے پیارے وطن کو سامراج کے مسلط کردہ بدعنوان ٹولے سے نجات دلا دی ہے۔ بھائیو اور بہنو! فوج آپ کی ہے، آپ کے لئے ہے اور اس نے آپ کی خواہشات کو عملی جامہ پہنا دیا ہے… آپ کا فرض ہے کہ فوج نے شاہی محل اور نوری السید کو جو ضرب کاری رسید کی ہے، آپ اس کی حمایت کریں۔ فوج کو سامراج اور اس کے گماشتوں کی سازشوں سے محفوظ بنا کر ہی مکمل فتح کو یقینی بنایا جا سکتا ہے…33 ۔
فوجی رہنمائوں کا منصوبہ تو یہ تھا کہ نوجوان شاہ فیصل دوم کو جلا وطن کر دیں گے جبکہ ان کے چچا ولی عہد عبداللہ اور نوری السید کو گرفتار کر کے عوام کے خلاف جرائم کے الزام میں مقدمہ چلائیں گے۔ منصوبہ تو یہ تھا کہ فیصلوں پر فوراً عمل درآمد ہو گا۔ ظاہر ہے دونوں پر الزام ثابت ہونا تھے اور دونوں کو پھانسی لگا دیا جاتا مگر ایک نوجوان افسر کے باعث سارے منصوبے ادھورے رہ گئے۔ اس افسر کو منصوبہ بغاوت بارے کچھ علم نہ تھا۔ ریڈیو پر کرنل عارف کا اعلان سن کر وہ بغاوت میں شامل ہو گیا۔ ادھر ایک پیغامبر محل کے محافظ دستے سے ہتھیار ڈالنے کے لئے بات چیت کر رہا تھا کہ یہ محل میں گھس گیا۔ اس نے جو دیکھا کہ شاہی خاندان صحن میں اکٹھا ہو رہا تھا تو وہ مشتعل ہو گیا اور مشین گن سے فائر کر دیا۔ باقی فوجیوں نے بھی گولی چلا دی۔ فائرنگ رکی تو شاہ، شاہ کے چچا اور کچھ افسر ہلاک ہو چکے تھے۔ نوری السید نے گرفتاری کا انتظار نہیں کیا۔ انہوں نے عورت کے بھیس میں فرار کی کوشش کی مگر برطانوی سفارت خانہ اب محفوظ نہ رہا تھا ویسے بھی وہ مشتعل ہجوم کے گھیرے میں تھا۔ اس سے پہلے کہ نوری السید شہر چھوڑتے، انہیں پہچان لیا گیا اور وہ پکڑے گئے۔ فضائیہ کے ایک سارجنٹ نے انہیں موقع پر ہلاک کر دیا۔ اگلے روز شاہ عبداللہ کی لاش قبر سے نکال کر وزارتِ دفاع کی گزر گاہ پر عین اس جگہ کھمبے سے لٹکا دی گئی جہاں شاہ عبداللہ نے 1941ء کی بغاوت کے رہنما کرنل صلاح الدین الثبق کو پھانسی دی تھی۔ قربانی کے دنبوں کی طرح لاشوں کے ٹکڑے کئے گئے اور انہیں جلا دیا گیا۔ یہ ہتک کی انتہا تھی: مرحومین کو اسلامی طریقے سے دفنایا بھی نہیں گیا۔ اختتام قریب آیا تو فوج یا آبادی کا کوئی حصہ فارغ ہونے والی حکومت کے دفاع میں سامنے نہیں آیا۔ اس حقیقت کے پیش نظر کوئی بھی غیر ملکی مداخلت نا ممکن بن کر رہ گئی۔
قوم پرست گروہوں اور کیمونسٹ پارٹی کو بغاوت کی مقررہ تاریخ بارے پیشگی مطلع کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے اسی مناسبت سے اپنے حامیوںں کو چوکنا کر دیا تھا مگر جوں ہی بغاوت کی خبر پھیلی تو خوشی سے جھومتے جو ہجوم، بغداد، بصرہ، ناصریہ، کرکوک اور موصل کی سڑکوں پر نکلے ان میں سیاسی جماعتوں کے حامی گم ہو کر رہ گئے۔ اس موقع پر جو بے ساختہ جلوس نکلے اس بارے جس نے بھی لکھا اس نے ’عوامی سیلاب‘ ’موج در موج‘ ’ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر‘ ایسی اصطلاحیں استعمال کیں۔ انقلاب کی مقبولیت شک و شبہ سے بالا تر تھی۔ بغداد میں ایک لاکھ کے ہجوم نے امیر فیصل کے مجسمے کو گرا دیا۔ ’فاتح بغداد‘ جنرل مائوڈ کے مجسمے کا بھی یہی حال ہوا یہ مجمسہ پرانی برٹش چانسلری کے مقابل تھا اور برٹش چانسلری کو آگ لگا دی گئی یوں جلتی ہوئی چانسلری کے پس منظر میں برطانوی جنرل کی علامتی پھانسی ڈرامائی تاثر پیدا کر رہی تھی۔ خوشی، غصے، نفرت اور بدلے کے اس بے ساختہ اظہار پر فوجی رہنما خاصے متفکر تھے کہ یہ صورت حال قابو سے باہر ہو سکتی تھی۔ انقلابی کونسل نے فوراً کرفیو نافذ کر دیا تاکہ سڑکوں پر نکلے لوگوں کو گھر واپس بھیجا جا سکے، حالانکہ یہ ان لوگوں کی حمایت تھی جس نے فوجی قبضے کے جائز ہونے کا جواز فراہم کیا تھا۔ بادشاہت کا خاتمہ تین ہزار فوجیوں کی مدد سے کر دیا گیا اور ان میں سے اکثر فوجی اسلحے بارود سے محروم تھے۔ یقینا دیگر فوجی یونٹ بھی متحرک کئے جا سکتے تھے لیکن اگر عوام سڑکوں پر نہ نکلتے تو بادشاہت کے حامی اور ان کے بغداد پیکٹ والے اتحادی شہ پا کر مزاحمت کر سکتے تھے۔ یہاں باطاتو عوام کے سڑکوں پر آنے بارے نقل و حمل اور سیاسی و نفسیاتی انداز سے جائزہ لیتے ہیں:
اس فیصلہ کن دن جو تاریخی نتیجہ سامنے آیا اس کی ایک یقینی وجہ یہ بھی ہو گی کہ کس بے رحمی سے کم از کم کچھ لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا گو پہلی نظر میں انسان اس کا احساس نہیں کرتا… ایک بات تو طے ہے کہ بغداد اور دیگر شہروں میں سڑکوں اور پلوں پر جمع ہوئے ہجوم نے مخالفانہ اقدامات کا راستہ روک دیا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنے جوش کے باعث اس نے زبردست نفسیاتی تاثر قائم کیا۔ اس نے بادشاہت کے حامیوں کو خوفزدہ کر دیا، ان کے مزاحمت کے ارادے مفلوج ہو گئے اور بغاوت کو وہ ناقابل مزاحمت کردار ملا جو اس کا شہر پناہ تھا34 ۔
نئی عراقی حکومت کے لئے اندرونی و بیرونی محاذ پر ایک طرف اگر چند راستے موجود تھے تو دوسری طرف کچھ مسائل بھی درپیش تھے۔ اندرونی محاذ پر، 23 خاندان… شلابی‘ پچاچی‘ علاوی وغیرہ… ملک کے 56فیصد پرائیویٹ کمرشل اور صنعتی سرمائے کے مالک تھے۔ تیل پر برطانوی ملکیت میں چلنے والی عراق پٹرولیم کمپنی35 کا قبضہ تھا۔ دیہات اندر برطانیہ نے قبائلی شیخوںں کو بڑی جاگیروں کا مالک بنا دیا تھا36 ۔ اور یوں ایک مادی بنیاد تعمیر کی گئی جس کا مقصد دیرپا تعاون حاصل کرنا تھا۔ یہ وہی طریقہ تھا جو جنوبی ایشیا میں اپنایا گیا تھا: اپنے سند ھی اور بنگالی ہم منصبوں کی طرح عراقی کسان بھی زرعی غلام بن کر رہ گئے۔ اعلیٰ تعلیم بالائی اور درمیانے طبقے کے لئے مخصوص مراعت بن کر رہ گئی۔ ان مسائل کے حل بالکل واضح تھے اور آئندہ ایک دہائی اندر یہ حل قابل اطمینان طور پر لاگو کئے گئے۔ اہم صنعتیں، بشمول تیل، قومی ملکیت میں لے لی گئیں‘ ترقی پسندانہ زرعی اصلاحات نے جاگیرداری کی کمر توڑ دی‘ غریب گھروں کے بچے (لڑکیاں لڑکے) مناسب تعلیم حاصل کرنے لگے اور جنسی تفریق کا مسئلہ پہلی بارسنجیدگی سے لیا گیا۔
منہ زور مشکل اگر پیش تھی تو وہ یہ تھی کہ میدانِ سیاست میں عراق پر کون، کیسے حکومت کرے؟ عرب دنیا اندر دوہی ماڈل تھے: مغرب نواز بادشاہتیں‘ امارتیں یا نو آبادیات (مثلاً الجزائر اور عدن) یا مغرب مخالف پاپولسٹ فوجی حکومتیں۔ لبنان واحد نیم جمہوری ملک تھا جہاں مسیحی اور مسلم اشرافیہ کے مابین حکومت میں حصے کو ادارے کی شکل دے دی گئی تھی۔ عالمی سطح پر عموماً یہ ماڈل موجود تھے: مغرب نواز سرمایہ دار جمہوریتیں، لاطینی امریکہ اور بغداد پیکٹ کے رکن ممالک پاکستان، ایران، ترکی میں امریکی پشت پناہی سے چلنے والی فوجی آمریتیں، اور آخر میں یک جماعتی غیر سرمایہ دار ریاستیں جن کی علامت سویت یونین، چین، ویت نام اور شمالی کوریا تھے۔ مغربی ماڈل (یا اس کی کوئی شکل جس میں نمائندہ اداروں کی اجازت تو ہوتی مگر سرمائے اور جائیداد کا ننگا استعمال ہوتا) بعداز انقلاب عراق میں موجود تینوں نمایاں عناصر نے رد کر دیا۔
قاسم نے ناصر کی تقلید کی مگر یو اے آر سے اجتناب کیا۔ عراقی کیمونسٹ پارٹی نے قاسم کی حمایت کی کیونکہ وہ یو اے آر کے ڈھانچے کے خلاف تھے۔ کمیونسٹ ایسی عرب فیڈریشن کے حامی تھے جس کے یونٹ آزاد اور خود مختار ہوں جبکہ فیڈریشن کی خارجہ پالیسی اور دفاعی حکمت عملی مشترکہ ہو۔ اگر ناصر اور بعث اس ماڈل کو تسلیم کر لیتے تو وہ یو اے آر کو وسعت دے کر اسے محفوظ بنا سکتے تھے۔ کوئی بھی پارٹی لیکن عرب کمیونسٹوں پر اعتبار نہیں کرتی تھی۔ اس لئے نہیں کہ وہ کیمونسٹ تھے بلکہ اس لئے کہ انہیں خطے میں ماسکو کا آلہ کار سمجھا جاتا تھا۔ کیمونسٹوں کے خلاف قوم پرستوں کو دو بڑی شکایات تھیں۔ اول، انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانوی اور فرانسیسی قبضے کے خلاف ہر طرح کی مخالفت ترک کر دی تھی۔ دوم، انہوں نے اپنی تمام تر سیاسی جبلت کے خلاف اور اپنے یہودی ارکان کے مشورے کے برعکس قیام اسرائیل کی حمایت کی تھی کہ اس وقت سرکاری ماسکو پالیسی یہی تھی۔
پہلے الزام کو تو کمیونسٹ قبول کرتے اور عذر یہ پیش کرتے کہ دنیا کو فسطائیت سے لاحق خطرے سے بچانا ضروری تھا لیکن جب یہ پوچھا جاتا کہ ایسا کرنا اگست 1941ء میں سویت روس پر ہٹلر کی جارحیت کے بعد ہی کیوں ضروری قرار پایا تو کیمونسٹوں سے کوئی جواب نہ بن پاتا37۔ اسرائیل کی بابت وہ تسلیم کرتے کہ یہ ایک فاش غلطی تھی۔ دونوں سیاسی دھاروں بیچ یہ اختلافات کبھی بھی نہ مٹائے جا سکے اور مختلف اوقات میں ناصر نے بھی کمیونسٹوں پر بے رحمی سے جبر کیا اور بعث نے بھی۔ تینوں سیاسی قوتوں کی یہ ناکامی کہ وہ نہ تو کسی نمائندہ اسمبلی کی حامی تھیں نہ ہی دیگر سیاسی جماعتوں کے وجود کی، تینوں کے لئے مہنگی ثابت ہوئی۔ ایسے اداروں کی کمی کہ جہاں یہ اختلافات عوام کے سامنے پیش کئے جا سکیں، مصر، شام اور عراق میں شخصی آمریتوں کا سبب بنی۔
قوم پرست کرنیلوں کی سیاسی بُنت فوج اندر ہوئی تھی اور فوج ایسا ادارہ ہے جس کے ڈھانچہ میں حفظ مراتب کا انتہائی خیال رکھا جاتا ہے۔ کرنیل احکامات وصول کرنے اور جاری کرنے کے عادی تھے۔ ہدایات بارے سوالات اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ یہ طریقہ کار سیاست تک دراز ہو گیا۔ ناصر بھی گذشتہ مصری مصلح (محمد علی) کی طرح نپولین کے بڑے مداح تھے کہ 1798ء میں نپولین نے جو عارضی قبضہ مصر پر کیا اسے مقامی لوگ غیر استحصالی تصور کرتے تھے38 ۔ ڈیڑھ صدی بعد بوناپارٹ ازم … جس نے سماجی طبقات اور سیاست سے بالاتر واحد رہنما کو جنم دیا… عرب دنیا اور باقی دنیا اندر بھی فوجی پاپولسٹ رہنمائوں کا مذہب بن گیا۔ اس کے باوجود کہ ناصر نہ صرف مصر بلکہ باقی مسلم دنیا میں بھی بے حد مقبول تھے، ان کے اندازِ سیاست کے بھیانک نتائج نکلے۔ ان کی وراثت زہر آلود ہو گئی۔
عراق میں فوجی حکومت جلد ہی شدید دھڑے بندی کا شکار ہو گئی۔ ایسے اداروں کی کمی کہ جہاں اختلافات پر بحث ہو سکتی اور انہیں نپٹایا جا سکتا، کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف دھڑے فوج پر گرفت کے لئے باہم دست و گریباں تھے کہ فوج کی کو نسل آف کمانڈرز واحد ادارہ تھا جس کی اہمیت تھی۔ مثالی بوناپارٹسٹ انداز میں قاسم نے کبھی کیمونسٹوں کو ناصر اور بعث کے خلاف استعمال کیا اور جب کیمونسٹوں کے مطالبے بڑھنے لگے تو ان کے خلاف ہو گے۔ناصر کی عراقی رہنما سے چپقلش کی وجہ یہ تھی کہ ان کے خیال میں قاسم عراقی کیمونسٹ پارٹی پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرتے تھے۔ قاسم کے نائب، عبدالسلام عارف خالص ناصر اسٹ تھے۔ وہ عراق کی یو اے آر میں شمولیت کے حامی اور ناصر کورہبرِ اعلیٰ ماننے پر تیار تھے۔ فوجی حکمتِ عملی اور سیاسی اعتبار سے یہ لگتا بھی درست تھا۔ یو اے آر اسی صورت بچ سکتا تھا اگر اس میں توسیع ہو۔ اس طرح مصر کی گرفت ڈھیلی پڑتی جبکہ قاہرہ کو دمشق اور بغداد کے ساتھ سمجھوتہ بازی کرنا پڑتی۔ قاسم اور ناصر مگر ہٹ دھرمی کے ساتھ سمجھوتے بازی سے منکر رہے۔ قاسم کو معلوم تھا کہ وہ قاہرہ والے شخص کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور وہ گہنا جائیں گے۔ ناصر کو معلوم تھا کہ اہلِ عراق ان کے ساتھ ہیں لہٰذا ان کے تکبر میں اضافہ ہوتا گیا۔ ناصر کو بھی معلوم تھا اور قاسم کو بھی علم تھا کہ بغداد میں ہجوم نے قاسم کے نعرے لگانے کی بجائے یہ نعرہ لگایا تھا: ’سپاہی ہیں سپاہی جمال عبدالناصر تمہارے سپاہی ہیں‘۔ بہرحال ناصر کا اصرار تھا کہ انقلاب عراق بیرونی جانب سفر سے پہلے اندرونی طور پر مستحکم ہو۔ وہ اتحاد کے حامی تھے مگر وقت کا انتخاب انتہائی احتیاط سے کرنے کی ضرورت تھی۔ بظاہر قاسم کا خیال بھی یہی تھا لیکن عراق کی سڑکوں پر مزاج انتہائی متلون تھا۔ پان عرب جذبات اپنے عروج پر تھے جبکہ بعث والوں کا مطالبہ تھا کہ جمال عبدالناصر سے اتحاد اگر آج نہیں تو کل یقینی طور پر ہو جانا چاہئے۔ وہ زیادہ دیر انتظار کرنے کے حق میں نہ تھے۔
دبائو مزید بڑھانے کے لئے بعث پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور بانی مشعل افلاق نے فیصلہ کیا کہ وقت ضائع نہ کیا جائے۔ 1957ء میں بعث پارٹی کی رکنیت سازی پانچ سو سے بھی کم تھی۔ 1958ء میں پارٹی نے ترقی کی مگر بعث پارٹی کے دعوئوں کے برعکس انقلاب کے وقت بعث پارٹی کے ارکان کی تعداد ایک ہزار سے کم تھی۔ مشعل افلاق کو اس بات پر ذرا بھی پریشانی نہ تھی۔ شام میں انہوں نے کیمونسٹوں کی خامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، فوج میں گھس بیٹھ کے راستے، جمال عبدالناصر کی مقبولیت سے فائدہ اٹھا کر اور سامراج مخالف شامی ڈپٹی اکرم ہورانی کے ذریعے اپنے فرقے کو جماعت میں بدل دیا۔ یہ خاصا کامیاب عمل تھا۔ انقلاب کے دس روز بعد مشعل افلاق بغداد آئے اور لوگوں سے کہا کہ ہمیشہ عرب اتحاد کی بات کرنے کے بعد اب اہلِ عراق اس مسئلے پر کسی کمزور دل کو آئیں بائیں شائیں کرنے کی اجازت نہ دیں۔ عرب قوم بارے مشعل افلاق کے صوفیانہ عقیدے کو اہل عراق کے بھلے کے لئے پھر سے بیان کیا گیا: جو ’مشن‘ عرب قوم کو درپیش ہے وہ نہ ختم ہونے والا ہے کیونکہ عرب قوم پرستی بذاتِ خود حیات ہے۔ بعث پارٹی کے کارکنوں سے کہا گیا کہ وہ عارف اور ناصر کے نام پر عرب اتحاد کی جدوجہد جاری رکھیں۔
مشعل افلاق کو اندازہ ہو گیا تھا کہ انقلاب عراق کی دوسری اہم ترین شخصیت ممکنہ بعث رکن ثابت ہو سکتی ہے۔ عارف چونکہ خود عرب اتحاد کے خواہاں تھے اور ان کے سیاسی نظریات اسی نقطے کے گرد گھومتے تھے لہٰذا مشعل افلاق کو قائل کرنے کے لئے زیادہ محنت نہ کرنی پڑی۔ عارف نے ملک بھر کا دورہ کیا‘ بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا اور لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا۔ اپنی تمام تقاریر میں عارف‘ ناصر کو ’ہمارا ہیرو‘ ’عظیم آزادی بخش‘ ، ’جدوجہد میں بڑا بھائی‘ قرار دیتے اور جب عوام ان کی بات پر کان دھرنے لگتے تو جذباتی انداز میں عارف یو اے آر سے اتحاد کا مطالبہ کرتے اور کہتے عراق ایسی جمہوریہ ہے ’جسے عرب قوم سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا‘۔ قاسم اور ان کے ساتھی پشیمان ہونے لگے اور اس کی وجہ محض اپنا بچائو کرنا نہ تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ یو اے آر میں توسیع ڈانواں ڈول ایرانی شہنشاہ اور اسرائیل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیا مغرب عرب اجارہ داری بارے کردوں کے حقیقی اندیشوں کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کا تختہ تو نہیں الٹ دے گا؟ عارف کا کہنا تھا کہ متحدہ جمہوریہ بعد از جنگ سویز ماحول میں ایسی کسی بھی مداخلت کو ناممکن بنا دے گی۔ بہر صورت، افلاق نے بات بڑھاتے ہوئے کہا، غیر ملکیوں کو آنے دو۔ انہیں مزید ہزیمت اٹھانی پڑے گی اور اب کی بار انہیں سویز سے بھی بڑی شکست کا سامنا ہو گا۔
قاسم اور ان کے کیمونسٹ حامی قوم پرستوں کی راہ پر چلنے کو تیار نہ تھے۔ انہوں نے الٹا یہ فیصلہ کیا کہ عارف اور ان کے حامیوں کا مقابلہ کر کے انہیں شکست دی جائے۔ کیمونسٹوں کے برعکس بعث پارٹی کے پاس ایسی حمایت موجود نہ تھی کہ وہ مسلح سرکشی کر دے۔ قاسم کو اس حقیقت کا علم تھا لیکن عارف ان بڑے بڑے ہجوموں کے نشے میں تھے جو انہیں سننے کے لئے ملکی دورے دوران جمع ہوتے رہے۔
11 ستمبر 1958ء، اقتدار پر قبضے کے لگ بھگ آٹھ ہفتے بعد، عارف کو مسلح افواج کے ڈپٹی کمانڈر انچیف کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ دو ہفتے بعد انہیں نائب وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے عہدے سے ہٹانے کے علاوہ وزیرترقیات اور بعث رہنما فود الرکابی کے ساتھ ساتھ ناصر پرست وزیرتعلیم جبیر العمر کو بھی فارغ کر دیا گیا۔ 4 نومبر کو عارف گرفتار کر لئے گئے اور ان پر ’مادر وطن کی سلامتی کے خلاف سازش‘ با الفاظ دیگر ’غداری‘ کا الزام لگایا گیا۔ عارف نے یو اے آر اور تیل کی صنعت قومی ملکیت میں لینے کی بات کی تھی39 ۔جس فرقہ وارانہ تقسیم نے آغاز ہی سے اسلام کو نقصان پہنچایا، ثقیلہ میں بے شمار شکستوں کا سبب بنی اندلس اور دنیائے عرب میں موجبِ شکست بنی، اسی تقسیم نے شرق العرب میں قوم پرست عمارت کی بنیاد بھی کھوکھلی کرنا شروع کر دی۔ اس کا الزام مغربی سامراج کے سر دھرا جا سکتا ہے نہ اسرائیل کے سر منڈھا جا سکتا ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں لگایا گیا زخم تھا۔ قوم پرستوں اور کیمونسٹوں کی اس فرقہ واریت نے سمجھوتے کا راستہ روکے رکھا اور یہ امر عراق بلکہ پورے خطے کے لئے ایک المیہ بن گیا۔ 1967ء میں اسرائیل کی فوجی فتح اس کا سب سے سنگین نتیجہ تھا۔
عراق اندر عارف اور قاسم کے جھگڑے نے نئی جمہوریہ کو شدید نقصان پہنچایا۔ فوج کے اندر دھڑے بندی ہونے لگی۔ مارچ 1959ء میں موصل اور کرکوک میں تعینات عارف کے حامی فوجی دستوں نے بغاوت کر دی، ان کی قیادت بریگیڈیئر طبق چلی اور کرنل شواف (ریڈیو قاہرہ کے مطابق یہ ’پان عرب محب وطن‘ تھے) کر رہے تھے، قاسم کے حامی دستوں نے جلد ہی بغاوت پر قابو پا لیا، ان دستوں کو عوامی مزاحمت فورس کے غیر رسمی کیمونسٹ فوجیوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس واقعہ کے نتیجے میں ایک ریڈیو جنگ کا آغاز ہوا۔ ریڈیو قاہرہ اہل عراق سے کہہ رہا تھا کہ وہ ’آمر‘ کا تختہ الٹ دیں، ریڈیو بغداد ’غیر ملکی‘ مداخلت کی مذمت کر رہا تھا۔ عوامی عدالت کے صدر مہدوی جو ازاں قبل عارف کو سزائے موت سنا چکے تھے، کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ ’عرب کاروان کتوں کے بھونکنے سے پریشان نہیں ہوتا، کتے چاہے عرب ہی کیوں نہ ہوں‘ 40 ۔
اکتوبر 1959ء میں قوم پرست ردِ عمل قاتلانہ حملے کی صورت سامنے آیا۔ یہ اقدام بعث پارٹی کے ایک سپیشل یونٹ نے اٹھایا تھا اور اس یونٹ میں تکریت کا رہنے والا بائیس سالہ نوجوان صدام حسین بھی شامل تھا۔ عبدالکریم قاسم شدید زخمی تو ہوئے مگر زندہ بچ گئے۔ قاسم کے خلاف ہونے والی اس مجوزہ بغاوت کو کیمونسٹ پارٹی نے دو دھاری حکمت عملی سے ناکام بنایا۔ ایک طرف تو کیمونسٹ پارٹی اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لے آئی، دوسری جانب پارٹی کے حامی فوجی افسروں اور جوانوں نے وزارتِ دفاع پر قبضہ جما کر اہم کمیونی کیشن نیٹ ورک اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ کیمونسٹ رہنما سوچ رہے تھے کہ اب عبدالکریم قاسم ان کے مشکور ہوں گے اور ریاستی اداروں پر کیمونسٹوں کی گرفت مضبوط ہو گی۔ ہوا البتہ اس کے بالکل برعکس۔
صحت یاب ہونے کے بعد عراقی رہنما اس بات پر حیران رہ گئے کہ جس آسانی سے کیمونسٹوں نے وزارت دفاع پر قبضہ کر لیا تھا اور فوج سے ’ناقابل بھروسہ‘ افسروں کو نکال باہر کیا۔ بعث اور ناصر جو سوچتے تھے اس کے برعکس قاسم نہ تو خفیہ کیمونسٹ تھے نہ ہی کیمونسٹ پارٹی کے حامی۔ وہ درحقیقت ایک قوم پرست تھے۔ ایک سچے اصلاح پسند جو غربت ختم کرنا چاہتے تھے۔ مگر سیاسی اصطلاح میں انہیں ریڈیکل نہیں، سوشل ریفارمر کہا جا سکتا ہے۔ قاسم کو عارف سے ایک شکایت یہ بھی تھی کہ وہ بلا ضرورت طبقاتی نفرت کو ہوا دے کر اہل ثروت لوگوں کو برگشتہ کر رہے تھے41 ۔ انہوں نے کم گو اور سیدھے سادے فوجی کا نقاب اوڑھ رکھا تھا جس کے کوئی ذاتی مفادات نہ تھے۔ 1958ء کے واقعات میں جو ساز باز دیکھنے میں آئی اس نے قاسم کے اس تاثر کو درہم برہم کر دیا۔ قاسم کا اصرار تھا کہ فری آفیسرز سپریم کمیٹی کی اکثریت کو اس بابت مطلع نہ کیاجائے کہ عارف اور انہوں نے خود کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے اور وہ کیا ضرب لگائیں گے۔ ہو سکتا ہے ایسا حفاظتی تدبیر کے طور پر کیا گیا ہو مگر لگتا یہ ہے کہ اس کا مقصد ذاتی اجارہ داری برقرار رکھنا بھی ہو گا یہ ہنر عارف کو فارغ کرنے میں بھی کام آیا۔ کمیونسٹوں کی مدد سے پان عرب پرستوں کو شکست دینے کے بعد قاسم نے عراقی کیمونسٹ پارٹی سے نپٹنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پارٹی قیادت میں دھڑے بندی کروائی اور علیحدہ ہونے والے دھڑے کو سرکاری پارٹی کے طور پر تسلیم کر لیا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی کے حامی (جو پارٹی کی قیادت سے وفادار رہے) حکومت سے برگشتہ ہو گئے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی سیاست، جسے وہ سوشلزم اور سرمایہ داری کے بیچ ’تیسرا راستہ‘ قرار دیتے، کے ذریعے کیمونسٹوں کو تنہا کر دیں گے۔ یہ حقیقت کے حکمرانوں کے برعکس وہ ذاتی طور پر بدعنوان نہیں تھے، ان کی عزت و تکریم میں زبردست اضافے کا موجب تھی۔
نیئولبرل ازم کے اس برے عہد میں کہ جب منڈی کو ریگولیٹ کرنے کی کسی بھی ریاستی کوشش کو سلطنت کے مالیاتی اداروں سے اجازت نہیں ملتی، قاسم کی سماجی و معاشی اصلاحات کا جائزہ لیں تو متاثر کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد ملے گی کہ آخر کیوں قاسم حکومت حقیقی معنوں میں مقبول تھی۔ 1959-60ء میں ہونے والی تبدیلیوں کا زور زرعی اصلاحات پر تھا جن کے مطابق، مصر کی طرح، بارانی زمین کی بھی حدِ ملکیت مقرر ہوئی اور نہری زمین کی بھی۔ اس اقدام کا مقصد امیر، بالخصوص غائب باش، جاگیردار کی کمر توڑنا (56 فیصد زمین 3000جاگیرداروں کی ملکیت تھی) اور دیہی علاقوں میں درمیانے درجے کے کسان کا نیا طبقہ تخلیق کرنا تھا۔
شہری اصلاحات بھی آیا چاہتی تھیں۔ امیر لوگوں پر ٹیکس میں اضافہ کرتے ہوئے 20,000 دینار سے زائدآمدن پر، بشمول زرعی آمدن، ٹیکس کی شرح 40 فیصد سے بڑھا کر 60 فیصد کر دی گئی۔ دیہی علاقوں میں ڈیتھ ڈیوٹیز اور وراثتی ٹیکس کا آغاز بھی کیا گیا۔ شہروں اندر کرایوں میں کمی کی گئی اور کمروں، مکانوں اور دکانوں کے کرایوں میں پندرہ تابیس فیصد کمی واقع ہوئی۔ ضروری اشیاء کی قیمتوںں پر پرائس کنٹرول کے نتیجے میں روٹی کی قیمت کم ہوئی۔ اوقاتِ کار مقرر ہوئے۔ ایسی صنعت جہاں سو سے زائد مزدور کام کرتے ، وہاں ضروری تھا کہ مزدوروں کے لئے رہائش کی سہولتیں فراہم کی جائیں جبکہ لازمی سوشل انشورنس کی سہولتیں پہلی بار متعارف کروائی گئیں۔ بغداد کی کچی آبادیوں کے رہائشی یقینا یہ خبر سن کر حیران ہوئے ہوں گے کہ ان کے لئے ایک نئی آبادی تعمیر کی جا رہی ہے: دس ہزار گھروں پر مشتمل نئی آبادی بنائی گئی، جہاں بجلی، پانی، سڑکیں، سکول، طبی مراکز اور پبلک باتھ ایسی سہولتیں بہم پہنچائی گئیں۔ اس میں حیرت کیسی اگر اس نئے شہر نے اپنے لئے انقلاب کا نام تسلیم کر لیا بعد ازاں اس کا نام بدل کر مدینتہ الصدام رکھ دیا گیا۔
ان اصلاحات کو پیش کرنے اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے یقینا عراقی کمیونسٹوں کی موجودگی اور ان کی طاقت ایک اہم عنصر تھا۔ اگر وہ ان اصلاحات کا سہرا اپنے سر باندھتے تو ایسا غلط بھی نہ تھا مگر انہیں ٹھیک سے اندازہ نہ تھا کہ قاسم ان اصلاحات کے ذریعے انہیں تنہا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عراق میں مینوفیکچرنگ شعبے کے ناخدا بھی اس بات کے قائل تھے کہ تبدیلی کی ضرورت ہے لہٰذا انہوں نے قاسم کی پشت پناہی کی۔ ان ناخدائوں کو علم تھا کہ ملک کو اشتراکی انقلاب سے بچانے کی یہی ایک صورت ہے۔ اس کے جواب میں قاسم نے سخت ٹیرف متعارف کروائے تاکہ مقامی صنعت کو ترقی مل سکے۔ ’ٹھگ بازٹولے‘ سے موازنہ کیا جائے تو فرق واضح ہے۔ یہاں یہ بات پوری طرح زور دے کر نہیں کہی جا سکتی کہ عراقی عوام کی اکثریت ان تبدیلیوں کو اپنا وہ جائز انسانی حق سمجھتی تھی عرصہ دراز تک جس سے اسے محروم رکھا گیا تھا۔ کچھ لوگ تھے جو مزید کا مطالبہ کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں میں کسان بھی تھے جنہیں احساس ہو رہا تھا کہ بہت سے جاگیردار زرعی اصلاحات کے راستے میں قانونی پیچیدگیوں اور نوکر شاہی کی مدد سے روڑے اٹکا رہے تھے اور زمین کا ایک بڑا حصہ ان لوگوں کو منتقل نہ ہو سکتا تھا جو اسے کاشت کر رہے تھے۔ مزدور تھے جنہیں یہ شکایت تھی کہ صنعت کار آٹھ گھنٹے اوقات کار پر عمل درآمد میں تاخیر کے علاوہ ریاستی مدد سے چلنے والی ٹریڈ یونینوں کو رشوت دے کر ساتھ ملا رہے تھے۔ مشکلات کا شکار یہ سماجی پرتیں عراقی کیمونسٹ پارٹی پر دبائو بڑھا رہی تھیں۔ جولائی 1958ء کے بعد سے کیمونسٹوں اور ان کی مختلف فرنٹ تنظیموں نے زبردست ترقی کی تھی۔ پارٹی پرچے کی تعداد اشاعت 30,000ہو چکی تھی (جو عراق ایسے ملک میں بڑی اشاعت تھی) اور ملک کا کوئی کونہ، کوئی ادارہ ایسا نہ تھا جہاں کیمونسٹ موجود نہ ہوں۔ قاسم اس صورت حال سے پریشان تھے لہٰذا اپنے مصری حریف جمال عبدالناصر کی طرح، انہوں نے بھی انقلابی یکجہتی کے نام پر ’تنگ نظر گروہوں اور جماعتوں‘پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ اس کوشش کا جواب کیمونسٹوں نے اگلے ہی روز (یکم مئی 1959ء) کو ایک بڑے مظاہرے کی صورت میں دیا جس میں دو نعرے نمایاں تھے: ’عبدالکریم قاسم زندہ باد، ’ہمارا بڑا مطالبہ: کیمونسٹ حکومت میں شامل کئے جائیں‘۔ یہ مطالبہ کچھ زیادہ ہی بڑا تھا اور قاسم کے لئے اسے تسلیم کرنا آسان نہ تھا کہ واشنگٹن اور لندن کی نیندیں حرام ہو جاتیں۔ثانی الذکر نے یک طرفہ طور پر قاسم کو اسلحے کی فروخت بحال کر دی تاکہ ان کے ہاتھ کیمونسٹوں کے مقابلے پر مضبوط کئے جا سکیں۔ ماسکو سے خروشیف کا نمائندہ فوری ہدایات لے کر آن پہنچا کہ قاسم حکومت کو غیر مستحکم نہ کیا جائے۔ ماسکو کو خدشہ تھا کہ بغداد میں کیمونسٹ فتح کے نتیجے میں ناصر اور عرب قوم پرستی کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔
عراقی کیمونسٹ رہنما اس قسم کے دبائو کی مدافعت سے عاری تھے۔ ان کی سیاسی نیت اور تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کوئی حیرت ناک بات بھی نہ تھی البتہ ان میں سے وہ جو زیادہ زیرک تھے، سمجھتے تھے کہ اکیلے عبدالکریم قاسم اس بحران پر قابو نہیں پا سکتے۔
سینٹ جسٹ کا قول (’آدھا انقلاب کرنے والے اپنی قبریں خود کھودتے ہیں‘) نئے سرے سے عراقی پولٹ بیورو میں حسین الردی کی ذات میں ظہور پذیر ہو رہا تھا جو پارٹی سیکرٹری تھے اور حریف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مخالف بھی ان کے کردار کے معترف تھے۔ کیمونسٹوں کی سیاسی کمزوری ایک طرف، ان کا حوصلہ بہرحال قابلِ تعریف تھا۔ اُن کے بارے میں عام لوگوں کی رائے یہ تھی کہ وہ عام سیاستدانوں سے مختلف ہیں۔ ٹھگ بازوں نے ان کے رہنما فہد کو دو ساتھیوں سمیت سرِعام پھانسی دی تھی تاکہ کیمونسٹوں کے حامیوں کو ہراساں،مایوس اور تباہ کیا جا سکے مگر کیمونسٹ تباہ نہ ہوئے بلکہ نئے سرے سے ابھرے اور ان کی عزت و تکریم میں مزید اضافہ ہوا۔ انہیں اب ایک اہم امتحان کا سامنا تھا۔ وہ قاسم کو چھوڑ کر اقتدار پر خود قبضے کی کوشش کریں؟ بظاہر تو یہ آسان سا سوال تھا مگر اس سوال کے دامن میں کئی پیچیدہ گتھیاں پنہاں تھیں جنہیں سلجھانا آسان نہ تھا۔ کیا عراق میں قبل از انقلاب صورت حال پائی جاتی ہے؟ کیا اس کے نتیجے میں لمبی اور ناقابل فتح خانہ جنگی تو نہ چھڑ جائے گی؟ کیا عالمی اثرات مرتب ہوں گے؟
مئی 1959ء میں ہونے والے پولٹ بیورو کے اہم اجلاس میں حسین الردی کا موقف تھا کہ عبدالکریم قاسم کے الٹی میٹم کو رد کرتے ہوئے پارٹی کے لئے موجود حمایت کا مظاہرہ کیا جائے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ عوامی شعور انتہائی ریڈیکل ہے اور اگر ان کے فیصلے کے نتیجے میں طاقت کے اظہار کی نوبت آئی تو جیت انہی کے حصے میں آئے گی۔ ایک مکمل انقلاب کامیاب ہو سکتا ہے۔ ماسکو سے واپس آنے والے پولٹ بیورو کے رکن نے البتہ جو پیغام پہنچایا اس نے پولٹ بیورو کا رخ سمجھوتے کی جانب موڑ دیا۔ پارٹی کو بہرحال ایک سنجیدہ مسئلے کا سامنا تھا۔ جولائی 1958ء سے پارٹی نے اقتدار پر قبضے کے لئے کوئی نظریاتی تیاری نہ کی تھی نہ ہی لوگوں کے سامنے ایسا کوئی امکان پیش کیا گیا تھا۔ ایسا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ کچھ مطالبات پیش کئے جاتے اور ان کے حق میں مسلسل ایجی ٹیشن کیا جاتا۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہوتا تو عین ممکن ہے وہ اپنے تمام حریفوں کو پیچھے چھوڑ جاتے۔ اس کے برعکس انہوں نے ناصر اور قوم پرستوں کا مقابلہ کرنے کے لئے قاسم کو ’واحد رہنما‘ بنا کر پیش کیا، ناصر کے مقابلے پر قاسم عرب دنیا حتیٰ کہ عراق اندر بھی قابل قبول نہ تھے جبکہ ان کا سب سے زیادہ ترقی پسند نعرہ اقتدار میں شراکت تھا۔ بس ماسکو کا پاس کرتے ہوئے جو عراق کو سرد جنگ دوران مہرے کے طور پر استعمال کر رہا تھا، عراقی کیمونسٹ پارٹی نے تیل کو قومی ملکیت میں لینے میں تاخیر کی۔
ان حالات میں الردی کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے بھر پور وار خطرناک ثابت ہو سکتا تھا، لیکن کیا ہے کہ انقلاب برپا کرنے کی کوشش جُوا ہوتی ہے، حالات کتنے ہی موزوں کیوں نہ ہوں کامیابی کی کوئی خود کار ضمانت موجود نہیں ہوتی۔ واحد سنجیدہ سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا ملکی حالات ایسا کوئی خطرہ مول لینے کے لئے موزوں ہیں یا نہیں۔ کیا ہجوم جس جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ عوامی شعور کا پر تو تھا؟ اگر تو ایسا تھا، اور اکثر کا خیال تھا کہ ایسا ہی تھا، تب تو پیش قدمی کے حوالے سے حسین الردی کی جبلت درست تھی۔ بغداد میں پولٹ بیورو نے لیکن ماسکو والے فرسٹ سیکرٹری کی بات مانی اور پرانی ڈگر پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ قاسم کو چتاونی نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ قاسم حکومت کے غبارے سے ہوا نکلنے لگی، ترقی پسندانہ اوصاف ماند پڑنے لگے، حکومت جمود کا شکار ہونے لگی اور نتیجتاً آئندہ چند سالوں کے دوران جابرانہ ہتھکنڈوں کا کہیں زیادہ استعمال کرنے لگی۔ اس موقع پر کیمونسٹ رہنمائوں کو اندازہ ہوا کہ قاسم کا لمبا عرصہ ساتھ دینا اور لمبے عرصے تک حمایت ان کی اپنی عوامی حمایت میں کمی کا سبب بنی ہے۔ کیمونسٹوں کو تنہا کرنے کی عبدالکریم قاسم نے جو کوشش کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جاگیرداروں کے حوصلے بلند ہو گئے، آئے روز قانون کے مطابق حق مانگنے والے کسانوں پر حملے یا ہلاکت کی خبریں معمول بن کر رہ گئیں۔
1963ء میں بعث پارٹی نے بغاوت کر دی، کیمونسٹ مخالف اور قاسم مخالف اتحاد کی حکومت بن گئی جس میں عارف ایک مرتبہ پھر اقتدار تک پہنچ گئے۔ یہ عبدالکریم قاسم اور عراقی کیمونسٹ پارٹی کا خاتمہ تھا۔ قاسم پر مقدمہ چلا اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ عراقی کیمونسٹ پارٹی کو بدنام کرنے کی مہم چلی، اس کے کئی رہنما جلاوطنی میں چلے گئے جبکہ ہزاروں کا رکن (بالخصوص فوج اور فضائیہ میں) گرفتار ہوئے،تشدد کا نشانہ بنے، مار دیئے گئے۔ بعث وادیوں کے پاس، جو کیمونسٹوں کو گرفتار کرتے اور موت کے گھاٹ اتارتے، یوں لگتا تھا نام اور پتوں پر مشتمل فہرستیں موجود تھیں۔ کہاں سے آئیں یہ فہرستیں؟ کیمونسٹ لازمی بات ہے مغربی سامراج کو موردِ الزام ٹھہراتے۔ سرد جنگ کے عہد میں ان کے الزام کو باآسانی رد کیا جا سکتا تھا۔ مگر اردن کے شاہ حسین، جو امریکی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ قریبی رابطے میں تھے، کیمونسٹوں کے شکوک کی تائید کرتے ہیں۔ پیرس میں ہوٹل کریلن کے پر آسائش ماحول میں اردنی فرمانروا نے پرسکون انداز میں ناصر کے ذاتی دوست، اور ان دنوں روزنامہ الاہرام کے مدیر، حسن ہیکل کو بتایا کہ ہوا کیا تھا:
آپ کا کہنا ہے کہ 1957ء میں اردن اندر ہونے والے واقعات کے پیچھے امریکی مخبرات کا ہاتھ تھا۔ مجھے یہ بتانے کی اجازت دیجئے کہ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں 8 فروری کو جو عراق میں ہوا وہ امریکی انٹیلی جنس کی مدد سے ہوا۔ اس وقت بغداد میں حکمران کچھ لوگ اس بات سے واقف نہیں مگر میں سچ سے آشنا ہوں۔ بعث پارٹی اور امریکی انٹیلی جنس کے مابین کئی ملاقاتیں ہوئیں، اہم ترین ملاقاتیں کویت میں ہوئیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ 8 فروری کو ایک خفیہ ریڈیو بغاوت کرنے والوں کے لئے کیمونسٹوںں کے نام اور پتے نشر کر رہا تھا تاکہ انہیں گرفتار کر کے موت کے گھاٹ اتارا جا سکے42 ۔
عراقی کیمونسٹوں کو بے رحمی اور منظم انداز میں اسی طرح جبر کا شکار بنایا گیا جس طرح دو سال بعد انڈونیشیا میں کیمونسٹوں کے ساتھ کیا گیا۔ پارٹی اگر زندہ رہی تو اس کی وجہ کرد علاقوں میں موجود اس کی زبردست حمایت تھی۔ پارٹی کے شہید رہنما فہد (جن کا پہلے ذکر آ چکا ہے، وہ خود مسیحی تھے)کی ارادۃً کوشش یہ تھی کہ ملک کے اُن حصوں میں پارٹی کی بنیادیں قائم کی جائیں جو نہ صرف اقتصادی طورپر محروم ہیں کہ اقتصادی طور پر تو سارا ملک ہی محرومیت کا شکار تھا، بلکہ جہاں لوگ قومی، نسلی اور مذہبی، بنیادوں پر بھی امتیازی سلوک کا شکار تھے۔ انہوں نے جنوب میں شیعہ آبادی، شمال میں کردوں جبکہ ملک کے ہر حصے سے یہودیوں اور مسیحیوں کو پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ کُرد مطالبات کے حق میں پارٹی کے موقف کا نتیجہ تھا کہ ہزاروں کُرد پارٹی میں شامل ہوئے۔ نہ صرف یہ کہ 1963ء میں بعث وادی قتلِ عام کُرد دجلہ کنارے یا جنوبی دلدلی علاقے میں آباد اپنے ساتھیوں کی نسبت بہتر دفاع کرنے میں کامیاب رہے بلکہ کُردوں کے باعث دیگر بہت سی قوموں کے افراد بھی اِن کی مدد سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو سکے۔ حسین اَلر دی البتہ اپنی جان نہ بچا سکے۔ وہ گرفتار ہوئے، تشدد کا نشانہ بنے اور ہلاک کر دئیے گئے۔ بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور اس کے نتیجے میں پارٹی اندر ایک زبردست بحث کا آغاز ہوا۔ چار سال بعد، 1967ء میں، پارٹی کے بچ جانے والے رہنما پراگ میں اکٹھے ہوئے اور کچھ نے زبردست خود تنقیدی کا اظہار کیا:
ہمارے دشمن اور بورژوا دوست ہمیں خانہ جنگی سے ڈرا رہے تھے۔ یہ سچ ہے کہ خانہ جنگی کیلئے معروضی حالات موجود تھے۔ اگر خانہ جنگی واقعی شروع ہو جاتی تو اس بات کے روشن امکانات موجود تھے کہ خانہ جنگی میں ہمارا پلڑا بھاری رہتا۔ یوں 8فروری 1963ء کے بعد جب سچ مچ خانہ جنگی چھڑی تو اشتراکیوں اور انقلابی جمہوریت پسندوں کا جو قتلِ عام ہوا کم سے کم وہ نہ ہوتا۔ نہ ہی ردِ انقلاب یوں کامیاب ہوتا کہ خانہ جنگی کے وقت کا تعین انہوں نے کیا۔ 1959ء میں خانہ جنگی پر گرفت مضبوط کرنے کی بجائے اس سے دامن بچانے کی حکمت عملی کانتیجہ یہ نکلا کہ تباہی ہمارا مقدر بن گئی۔ اگر ہم معاملات اپنے ہاتھ میں لیکر بلا تاخیر عوام کو مسلح کرتے ہوئے، ترقی پسندانہ زرعی اصلاحات کا نفاذ کردیتے، کُردوں کو خود مختاری دے دیتے اور انقلابی انداز میں فوج کو ایک جمہوری ادارے میں تبدیل کردیتے تو ہماری حکومت حیران کن طورپر تیزی سے مقبولیت حاصل کرلیتی اوریوں عوام کو مختلف اقدامات میں پہل کرنے کے ایسے ایسے زبردست مواقع میسر آتے کہ کروڑوں لوگ اپنی تاریخ خود تشکیل دینے کے قابل ہو جاتے۔43
کمیونسٹوں کو دوبارہ موقع نہ ملا۔ پارٹی کارکنوں میں جس مایوسی نے جنم لیا اس نے کئی نئے خود ساختہ المئے جنم دئیے۔ ایسا ہی ایک المیہ خالد احمد زکی کی صورت سامنے آیا۔ اس شخص کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے میں اگلے چند صفحات پر اصل موضوع سے ہٹنے کی اجازت چاہوں گا۔
جب میں پہلی بار خالد زکی سے عراق اندر کمیونسٹوں کے قتل عام سے چند سال بعد ملا ان دنوں وہ لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا اور عارضی طور پر لندن کے جدید علاقے پیکاڈلی میں شیورز پلیس کے مقام پر قائم برٹرینڈرسل پیس فائونڈیشن کے ہیڈکوارٹر میں بطور محقق کام کر رہا تھا۔ شیورز پلیس تیسری دنیا سے آئے ہوئے جلا وطنوں کا اڈہ بن چکا تھا۔ ہم یہاں جمع ہوتے اور اپنے اپنے ملکوں میں قائم آمریتوں بارے خیالات و معلومات کا تبادلہ کرتے جبکہ برٹرینڈرسل کے سیکرٹری رالف شون مان رجائیت کے ساتھ مسلسل عالمی انقلاب کا تجزیہ کرتے رہتے یہ بھر پور عالمیت کا ماحول تھا۔ خالد کو پہلی بار دیکھا تو وہ کانگو میں بحران اور پیٹرس لوممبا کے اندوہناک انجام پر بات چیت کر رہا تھا۔ میں پہلی بار سڑک پر احتجاج کرنے نکلا تو 1961ء میں لوممبا کے قتل کی خبر ہی تھی جس کے خلاف سینکڑوں طالب علموں کے ہمراہ میںنے جلسے جلوس پر پابندی کے باوجود لاہور کی سڑکوں پر احتجاج کیا۔ اب میرا سامنا ایک عراقی سے ہو رہا تھا جو کانگو کی تقدیر بارے اتنا ہی فکر مند تھا۔ ہم میں دوستی ہو گئی۔
یہ خالد زکی تھا جس نے مجھے عراقی کمیونزم کی تاریخ سے روشناس کرایا۔ وہ چالیس کی دہائی میں شہید ہونیوالے شہیدوں اورپارٹی رہنما فہد بارے بات کرتا، ان کے قاتل نوری السید کا ذکر کرتا جسے ٹائم میگزین کے سرورق پر اہتمام سے شائع کیا گیا۔1958ء کے واقعات کاذکر چلتا اورگھوم پھر کر گفتگو اس دائمی نقطے پر آن پہنچتی ___ انقلاب برپا کرنے میں پارٹی کی ناکامی ___ یوں ایک نہ ختم ہونیوالی بحث شروع ہو جاتی۔ وہ بے لاگ تنقید کرتا اور یہ سطریں رقم کرتے ہوئے اس کا چہرا میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ وہ بلا کا جذباتی انقلابی تھا۔ عالی ظرفی اس کے چہرے سے ٹپکتی تھی۔ عالی ظرفی کے ساتھ ساتھ کردار کی پختگی اور اس کی مستقل مزاجی تھی کہ لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے ۔ ان صفات کا مطلب ہر گز یہ نہ تھا کہ وہ زندگی سے پوری طرح لطف اندوز نہ ہوتا تھا۔ چھٹی دہائی کے وسط میں لندن اندر ہونے والی ضیافتوں میں اکثر موجود ہوتا، خوب رقص کرتا اوراس میں نوجوان عورتوں کی دلچسپی صاف عیاں ہوتی جبکہ بعض تو جذبات سے ملغوب اس کے پاس پہنچ جاتیں۔ اس محاذ پر بھی وہ خاصا متحرک تھا۔
ایک روز وہ غائب ہوگیا۔ افواہ یہ تھی کہ وہ عراق لوٹ گیا ہے اور آمریت کے خلاف مسلح جدوجہد میں حصہ لے رہا ہے مگر کوئی مصدقہ اطلاع موجود نہ تھی۔ سال بعد، 1968ء میں پتہ چلا کہ وہ زندہ نہیں رہا مگر یہ کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ کن حالات میں ہلاک ہوا۔ عراق سے باہر کسی کو اس بابت کچھ معلوم نہ تھا۔ لگتا تھا اس کے ساتھ اس کے ساتھی بھی غائب ہو چکے ہیں۔ سینتیس سال بعد، 2003ء میں، میں خالد کی شہادت اور جدوجہد کے قصے کی مختلف کڑیاں جوڑنے بیٹھا۔ 1966ء کے اواخر میں وہ عراق لوٹا اور عراقی کمیونسٹ پارٹی کے بغداد سیکشن میں شامل ہو کر شہر کی سیاسی زندگی میں متحرک ہو گیا۔ وہ نجم محمود کی قیادت میں قائم اس گروہ روشن فکران سے متاثر ہوا جو کہنہ مشق پارٹی کیڈر پر مشتمل تھا اورپارٹی قیادت کے تذبذب سے نالاں تھا۔ نجم محمود نے خالد زکی کو پارٹی قیادت میں موجود دونوں دھڑوں بارے تفصیل سے بتایا، ایک دھڑا تھا جو پوری طرح ماسکو کا وفادار تھا، دوسرا دھڑا تھا جو زیادہ ترقی پسند تھا مگر زیادہ متذبذب بھی تھا۔ نجم محمود اور خالد زکی نے مل کر پارٹی قیادت بارے تیز دھار تنقیدی دستاویز لکھی۔ اس دستاویز پر ارکان جماعت کے ایک گروہ نے دستخط کئے تھے اور دستاویز میں قیادت کے دونوں دھڑوں پر شدید تنقید کی گئی تھی، دستاویز میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ قیادت میں ہونے والی بحث سے تمام پارٹی ممبر شپ کو آگاہ کیا جائے، ممبر شپ بحث کے بعد فیصلہ کرے کہ کون سا لائحہ عمل مستقبل کے لئے اختیار کرنا سود مند ثابت ہو گا۔ ایسا نہ ہوا۔ ہوا یہ کہ پارٹی ٹوٹ گئی اور عراقی کمیونسٹ پارٹی (سنٹرل کمانڈ___ سینٹ کام) نے نجم محمود اور خالد زکی کی قیادت میں قائم کیڈر گروپ، سے ادغام کی تجویز پیش کی۔ کیڈر گروپ اس شرط پر سنٹرل کمیٹی میںشامل ہو گیا کہ وہ آمریت کے خلاف مسلح جدوجہد کی منظوری دے گی۔ تجویز منظور کر لی گئی اورفنڈز کے لئے سلمانیہ میں سرکاری خزانہ لوٹا گیا۔
پاپولر فرنٹ برائے مسلح جدوجہد خالد زکی اور گیارہ دیگر سربازوں پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ چے گویرا سے متاثر تھے، ان کی کوشش تھی کہ جنوبی عراق کے دلدلی علاقے میں اپنی بنیاد قائم کریں۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں کبھی زنج کے غلاموں نے بغاوت کی تھی اور اس علاقے میں عراقی کمیونسٹ پارٹی کی خاصی حمایت موجود تھی۔ ان کا منصوبہ تھا کہ ایسی جدوجہد شروع کی جائے جو قومی سطح پر سرکشی کو جنم دے۔ انہوں نے شائرہ کے قریب، ناصر یہ ضلع میں ایک پولیس تھانے پر قبضہ کیا جودوایہ کے علاقے میں جو موغ نامی دلدل میں واقع ہے۔ ان کی اہم کمین گاہ محبرالکبیر میں واقع تھی (یہاں جون 2003ء میں قابض فوج میں شامل چھ برطانوی فوجیوں کو ہلاک کیا گیا تھا) یہاں کے مکینوں کو ظلم کے خلاف مزاحمت کا درس دیتے ہوئے وہ اسلحے کی تازہ کھیپ کے ساتھ آگے روانہ ہوگئے۔ یہ خبر بغداد پہنچی تو فوج نے غیر ضروری ردِ عمل کا اظہار کیا اور دیوانیہ میں تعینات 19ویں بریگیڈ کو یہ کہہ کر ناصریہ روانہ کر دیا گیا کہ وہ ناصریہ پہنچ کر تازہ ہدایات کا انتظار کرے۔ ان لوگوں سے ہمدردی رکھنے والے ایک فوجی افسر نے نجم محمود کو بغداد میں اطلاع کر دی کہ بغاوت کو کچلنے کے لئے فوجی دستے روانہ کئے جارہے ہیں۔ نجم محمود اپنے گروہ سے ر ابطہ کرنے میں ناکام رہے۔ نجم کو یہ خبر نہ تھی کہ حکومت کو گوریلوں کے ٹھکانے کا علم ہے۔ سرکاری ہیلی کاپٹر سے علاقے کا جائزہ لیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گوریلوں کی طاقت کا جو اندازہ لگایا گیا وہ ان کی حقیقی قوت سے کہیں زیادہ تھا۔ گھیرا ڈال لیا گیا۔ گوریلوں نے گھیرا توڑنے کی کوشش کی۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے پانچ گوریلے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک (عامر الرکابی)زخمی ہوا اور اس نے باقی پانچ کے ہمراہ ہتھیار ڈال دئیے۔ خالد زکی مشین گن سے ہونے والی گولیوں کی بوچھاڑ کا نشانہ بن کر ہلاک ہونے والا واحد شخص تھا۔ بعض ذرائع کے مطابق دو اور جانباز ___ شلاش اور سید دران __ بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نجم محمود کو بغداد میں گرفتار کر لیا گیا۔ بغاوت کا الزام لگاکر دیوانیہ لایا گیا اور فوجی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ عراقی صدر عبدالرحمن عارف (جو اپنے پیش رو عبدالسلام عارف کے بھائی تھے) یہ بات واضح کر چکے تھے کہ وہ بغداد میں کسی بھی موت کے پروانے پر دستخط نہیں کریں گے۔ جب نجم محمود کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو عدالت کے سربراہ کرنل (جس کا تعلق موصل سے تھا) نے نجم محمود سے کہا: ’میں نے ایسی غربت کبھی نہیں دیکھی۔ ان کو بغاوت کا درس دینے میں آپ حق بجانب تھے‘۔ گرفتار ہونے والے چھ گوریلوں کو موت کی سزا سنائی گئی اور 30 جولائی 1968ء کو انہیں سرِ عام پھانسی دی جانی تھی۔ 17جولائی کو نئی بغاوت ہوئی اور بعث نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ نئے صدر، بکر، نے موت کی سزائیں منسوخ کر دیں اور تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا۔ اگر خالد زکی اس روز گولیوں کا نشانہ نہ بنتا تو شائد آج زندہ ہوتا۔
جون 2003ء میں جب میری ملاقات زندہ بچ رہنے والوں میں سے ایک شخص سے ہوئی تو اندر کے گھائو ہنوز ہرے تھے۔ موسم گرما کا کوئی خوب صورت دن ہو تو پیرس بے شمار یادروں کے تار چھیڑ دیتا ہے اور عامر الرکابی جنوبی دلدلوں کا قصہ چھیڑنے سے کترا رہا تھا گو خالد زکی بارے اس نے لب ضرور کھولے۔ مجھے ہر بات جاننے کا تجسس تھا۔ گھیرے میں آنے کے بعد انہوں نے ایک دوسرے سے کیا باتیں کیں؟ مقابلے سے پہلے کیا خالد زکی نے کوئی تقریر کی؟ عامر الرکابی گئے دنوں کو پلٹ کر دیکھنے پر آمادہ نہیں تھا۔ اس نے صرف میرے اس سوال کا جواب دیا کہ کیا مسلح جدوجہد کا فیصلہ محض خالد زکی نے کیا تھا۔ ’نہیں، سب نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا‘۔ میں نے ماضی بارے مزید سوال نہیں پوچھا۔
ہم نے موجودہ قبضے بارے بات چیت کی تو ایک دم اس کا چہرا کھل اٹھا۔ اسے پورا یقین تھا کہ مزاحمت میں اضافہ ہوگا۔ ’آلٔہ کار بن جانا ایک گھٹیا انتخاب تھا۔ یہ بات ہر عراقی کی جبلت میںشامل تھی چاہے اس نے بعث دور حکومت میں کتنا ہی دکھ کیوں نہ اٹھایا ہو یاوہ صدام سے کتنی ہی نفرت کیوں نہ کرتا ہو‘۔ میرا مخاطب بھی تو ایسا ہی ایک شخص تھا۔ غداروں کے لئے اس کے دل میں صرف حقارت تھی اور وہ ا حمد شلابی کی فوری واپسی پر بھی ہنس رہا تھا اور سامراجیوں کی واپسی سے قبل سامراجی مادر وطن سے تازہ ہدایات وصول کرنے کیلئے احمد شلابی کی دوڑ دھوپ پر بھی۔ ہاں البتہ عامرالرکابی اس بات پر نالاں تھا کہ باقی ساری دنیا نے اتنی جلدی سر تسلیم خم کر دیا، قبضے کو تسلیم کر لیا اور ہمیشہ کی طرح عراقیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ وہ اس بات پر رنجیدہ تھا کہ جنگ مخالف تحریک دم توڑ چکی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ ان کا برتائو جنوب کی جانب روایتی تعصب پر مبنی ہے۔ یقینا بہت سے لوگ اس سے مستثنیٰ بھی ہیں اور اسی حوالے سے نوم چامسکی کا نام آیا۔44
چند روز بعد میں پیرس میں ہونے والی ملاقات کا ذکر فون پر عراقی دوست فارس وہاب سے کر رہا تھا۔ فارس دورِ طالب علمی میںسوشلسٹ تھا، بعث پارٹی چھوڑ کر دیگر منحرفین کے ہمراہ ایک خود مختار مارکسی گروہ میں شامل ہو گیا۔ وہ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں لندن جلا وطن کے طور پر وارد ہوا تھا۔ وہ ’طرب انقلاب‘ نامی پرچے میں کام کرتا تھا اور انہی دنوں میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی۔ بعدازاں وہ برطانیہ چھوڑنے پر مجبور ہو گیا اور ہمارا رابطہ کٹ گیا۔ وہ الجزائر چلا گیا۔ آخر کار وہ مشرقِ بعید میں سیاسی پناہ لینے پرمجبور ہوا۔ یہ فارس ہی تھا جس نے مجھے بتایا کہ حیدر حیدر کے ناول ’دریائی گھاس کی ضیافت‘ ٭ کا ایک ہیرو عامرالرکابی ہے۔45 یہ ناول الجزائر کے شہر انابے (بونی) اور 1970ء کی دہائی کے پس میں لکھا گیا ہے جس میں عرب سیاست اور عراق میں شکست کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ناول کے دونوں مرکزی کردار ___ مہدی جواد اور مہار البیہلی ___دونوں عراقی کمیونسٹ ہیں جو جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مہار درحقیقت الرکابی کا افسانوی کردار ہے۔ دونوں جس صدمے سے گزرے ہیں اس کا دونوں پر اثر مختلف انداز میں مرتب ہوا ہے۔ مہدی جو وہاں زیادہ عرصے سے مقیم ہے، سمجھتا ہے کہ الجزائر بھی بغداد بن چکا ہے۔ جنگل اور سمندر میں گھرا یہ شہر بہت خوب صورت ہے مگر ہے یہ کسی بھی عر ب شہر کی طرح بے کیف جہاں آمریت، بھوک، بدعنوانی، رشوت، مذہب، نفرت، جہالت، ظلم اور قتل و خون کا راج ہے۔ مہار ہنوز پر امید ہے کہ الجزائری عوام پھر سے مستقبل کا سفر باندھیں گے۔ مہار کا جوش وخروش دونوں کے درمیان انقلاب کے موضوع پر مکالمے کا باعث بنتا ہے: ایک وہ انقلاب جو عراق میں کچل دیا گیا، دوسرا جو الجزائر میں کامیاب رہا۔ گو دونوں جسمانی طور پرکچل دئیے گئے ہیں مگر اختلاف رائے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی روح کو نہیں کچلا جا سکا۔ اس ناول کی بدولت میں ان بہت سی باتوں کو جان سکا جو پیرس میں جون کے ایک خوش گوار دن عامرالرکابی سے ملاقات دوران میں نہیں جان پایا تھا۔
ناول میں ایک مقام پر (صفحہ نمبر 19) دونوں جلا وطنوں کا آمنا سامنا ہوتاہے:
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو مہار البیہلی خوشی سے چلایا۔ ’ارے یہ تم ہو؟ یہاں؟ مجھے کسی نے بتایا تک نہیں۔ لگتا ہے تمہارے ستارے گردش میں تھے جو دنیا کے اس کونے میں آن پہنچے؟
دونوں نے معانقہ کیا۔ خوشی سے معمو ر اس معانقے سے دونوں کو سکون بھی ملا اور اطمینان بھی۔ پر جوش معانقے کے بعد خاموشی چھا گئی۔ پھر مہدی جواد گویا ہوا۔ ’آخر پھر آن ملے۔ اب کی بار المغرب کو مارکسزم سے روشناس کرانے کیلئے۔ تم نظرئیے اورفلسفے کی ذمہ داری لو میں زبان و بیان کا ذمہ لیتا ہوں‘۔
کیفے اندر مہار خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ اس جگہ نے گویا اس میں بجلی بھر دی تھی۔ کافی کا گھونٹ لیکر سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اس کی آنکھیں نورسے منور تھیں، کہنے لگا: ’ہم مقدس سر ز مین پرہیں، ایسی مقدس سر زمین جہاں عربوں نے انقلاب برپا کرکے خود اپنے آپ کو حیرت میں ڈال دیا۔ او خدایا! دس لاکھ شہیدوں کا انقلاب۔ میں جہاز سے اترا تو میں نے سجدہ ریز ہو کر مٹی کو چوما‘۔
’مہار! تمہارا سیاسی درجہ حرارت ہنوز نارمل نہیں ہوا‘ مہدی بولا۔ ’ایک بات تو بتائو۔ جب تم نے مٹی کو چوما تو کیا تمہیں یقین تھا کہ خون گل سڑ نہیں چکا؟‘
’چھوڑو یہ بے کار کی باتیں‘، مہار بولا۔ ’جلد ہی ہم کسی دن شہیدوں کی قبروں پر جائیں گے اور ان تمام مقامات کی سیر کریں گے جہاں لڑائیاںلڑی گئیں۔ یاد رکھو الجزائر کا انقلاب عرب دنیا کی ذلت کے اندھیروں میں روشنی کا چراغ ہے۔ میری حالت اس بچے سی ہے جو عرصے بعد بچھڑی ہوئی ماں سے ملنے پر خوش ہو رہا ہو۔ ذرا سوچو! میں اس انقلاب سے وابستہ یادوں کے مرکز میں موجود ہوں۔ اول تو یہ کہ مجھے مکتب اطفال شہیداں میں بطور مدرس ملازمت مل گئی۔ دوم، مجھے ایک ایسی بیوہ کے گھر رہنے کو جگہ مل گئی جو پہاڑوں میں انقلابیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ طہار الزبیری کے ساتھ رہ چکی ہے‘۔
مہدی الجواد نے طنز بھرے لہجے میں اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’سوم، میرے خیال میں اپنی انقلابی پاکیزگی کی تکمیل کے لئے کیا ہی اچھا ہواگر تم اس بیوہ سے شادی کر لو اور یوں اس کے ساتھ تمہاری انقلابی یگانگت کا خواب بھی پورا ہو جائے گا‘۔
مہار نے سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ یہاںعراقیوں کی صورت حال کیسی ہے، عرب مشن کس حالت میں ہیں، الجزائری معاشرہ اور ثقافت کس حالت میں ہیں؟ اس نے مہدی کے جواب کا انتظار نہ کیا۔ گاہے بگاہے وہ خود ہی جواب دینے لگا:اس نے انقلاب اندر موجود تضاد اوراقتدار کے لئے کش مکش کا جائزہ لیا جس کے نتیجے میں بن بیلا کا خاتمہ ہوا، وہ اس شکست خوردہ انقلابی، جس کے ساتھ دھوکا ہوا تھا، خوب متاثر تھا: ’بن بیلا بابائے سوشلزم ہے۔ میری نظر میں وہ عرب کاسترو تھا، میرا خیال تھا وہ مارکسزم کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بومدین پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، وہ فوجی آدمی ہے، عدم وابستگی کا قائل ہے، اس کا سر اسلامی، بال و پر افریقی مگر دل الجزائری ہے۔ کبھی کبھار وہ عرب رسوم و رواج کا قائل نظر آتا ہے۔ میری یہاں مراد اختیارات سے ہے مگر یہاں کے لوگ معجزے کرتے ہیں……‘۔
’تم پر صوفیوں کا اثر نظر آتا ہے۔ یہ جوش تمہیں لے بیٹھے گا‘۔
’اس عہد کا تقاضا ہے کہ ہم یہی طرز عمل اپنائیں‘۔
’تمام سوالوں کا بیک وقت جواب تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اپنے نظریات کی وضاحت کے لئے ہمارے پاس بہت وقت ہے۔ یہاں کا انقلاب اور لوگ تمہاری سوچ سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ دورانِ جنگ لوگوں کا طرزِ عمل جنگ کے بعد بدل جاتا ہے۔ برادرِ خورد! ذرا صبر سے کام لو‘۔
’ہمیں کسی طرح انقلابیوں سے رابطہ کرنا چاہیے۔ مجھے معلوم ہے کہ کالعدم الطالیہ پارٹی (سی پی) زیر زمین کام کر رہی ہے‘۔
مہدی جواد کسی بے چینی کا شکار نظر نہیں آرہا تھا۔
’تمہارے ارادے نیک ہیں اور دماغ یادوں سے معمور، یہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد تمہیں سمجھ آئے گی کہ کامیو نے کیوں کہاتھا: ’’میں ان لوگوں کے لئے اجنبی ہوں اور اس اجنبیت سے نجات کے لئے میں ساحل سمندر کو گھورنے ساحل پر چلا جاتا ہوں‘‘۔
’نہیں ایسا نہیں‘، مہارنے کہا، ’کامیو کی اجنبیت کا سبب یہ تھا کہ وہ فرانسیسی تھا، غیر جانبدار تھا‘۔
’مگر تم جن کے بارے میں سوچ رہے ہو وہ پتھر میں ڈھل چکے ہیں۔ یہ تشدد کا نتیجہ ہے۔ لوگ کسی پہاڑ کی طرح بے حس ہو چکے ہیں۔ تم دیکھو گے کہ خوف ان کے چہروں سے جھلکتا ہے۔ مجھے معلوم ہے۔ تم سے پہلے میں بھی یہ کوشش کر چکا ہوں کہ بے حسی کے پہاڑ کی خاموشی توڑ دوں۔ یہ نا ممکن ہے‘۔
’کیوں‘؟
’شک۔ ان پر مصیبتوں کا جو پہاڑ ٹوٹا ہے اس کے بعد وہ کسی پر اعتبار نہیں کرتے ۔ انقلاب سِن یاس کے عہدمیں داخل ہو چکا ہے۔ تمہارے خیالی کامریڈز اب یورپ اور پیرس میں پائے جاتے ہیں‘۔
’یورپ۔ وہاں وہ خاک کچھ کریں گے؟
’یوں لگتا ہے انہوں نے اپنا انقلابی منصوبہ پیرس منتقل کر دیا ہے۔ انہوں نے وہاں اسی قسم کی کوئی ’’انجمنِ جلا وطن‘‘بنا رکھی ہے جیسی انیسویں صدی میں جرمن انقلاب کی ناکامی کے بعد اور بسمارک کی کامیابی کے بعد کمیونسٹوں نے تشکیل دی تھی‘۔
’عجیب بات ہے، جنگ تو یہاں ہو رہی ہے‘۔
’جنگ تو یہاں ہو رہی ہے‘ کہتے ہوئے وہ بے چین دکھائی دیا۔ اس کاچہرا ابر آلود آسمان کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے پرانے سگریٹ سے نیا سگریٹ سلگایا، کافی کا ایک اور کپ منگوایا اورگہری آہ بھری۔ مہدی جواد کہنا چاہتا تھا کہ جلاوطنی کے عہد میں سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب، مگر وہ بات مکمل بھی نہ کرپایا تھا کہ مہار نے چیں بجبیں ہوتے ہوئے کہا، ’کیسا برا وقت ہے!‘۔
یہ وہ شخص تھا جو انقلابی جنگوں کے خبطمیں مبتلا تھا، ایک ایسا دانشور تھا جو آج بھی بلانکی، پیرس کمیون کی عظمت، سانتا کلارا پر حملے اور ہتھیاروں سے متاثر تھا،ہتھیار___جس کسی کے ہاتھ بھی یہ لگے اس نے زمین پر احکام الٰہی نافذ کر دئیے۔ بہادر لوگوں کا ایک گروہ تاریخ کو اس کے قدموں پر کھڑا کر دے گا، یہ سوچ کر محمد اورپھر محمد بن علی نے بصرہ کے مضافات میں جدوجہد شروع کی پھر ابو طہار القرماتی پھر چے گویرا اور پھر مہار البیہلی نے یہ جدوجہد کی۔ مہار کا تعلق بصرہ سے تھا، اس کا خاندان وسطیٰ فرات کا ایک مذہبی خانوادہ تھا اور اس کا شجرۂ نسب پرانے بہیلی خاندان اور امام حسین سے جا ملتا تھا___ یہ وہ خانوادہ تھا جس نے اپنا سر ہتھیلی پر رکھا ہوا تھا اور سوئے منزل رواں اس خانوادے کی واحد فتح موت تھی۔
جب وہ خالد زکی کے ساتھ مل کر دَلدَلوں میں تباہ کن گوریلا جنگ لڑنے میں مصروف تھا تو اسکا خیال تھا کہ وہ اس خونی شہادت کی رسم نبھا رہا ہے جسے دن رات اسٹیج کیا جاتا تھا۔ اس کے نزدیک یہ جدوجہد ماضی کی وہ چیخ تھی جو نئے سرے سے بیسویں، تیرھویں یا پندرہویں صدی میں گونج رہی تھی۔ آمرانہ عہد، بھوک ننگ، قتل عام کے خلاف چیخ، ان لوگوں کے حق میں ایک چیخ جو ذلتوں کے مارے ہیں، جو خلفاء، شہزادوں، جعلی سپہ سالاروں اور سمجھوتہ باز سیاسی جماعتوں کے پائوں تلے سسک رہے ہیں۔
آگے چل کر ناول میں (ص133:) خالد زکی کا کردار ملتا ہے جو دل کو چھو لیتا ہے۔ خالد زکی اصلی نام سے ناول میں شامل ہے۔ عامر الرکابی نے ناول نگار سے اُن دنوں تفصیلاً بات کی ہو گی کہ جب زخم ابھی تازہ تھا اور عامر الرکابی کی حالت اس شخص ایسی تھی جو کسی پیارے کی موت، کسی کی جدائی یا کسی گہرے جذباتی صدمے سے دو چار ہونے کے بعد بات کرنے کو بے تاب ہوتا ہے۔ ناول نگار نے اس لمحے کو قید کر لیا۔ گو ناول نگار نے اسے اپنے ڈھنگ سے قید کیا اور اس کا اپنا رنگ بھی کہانی پر نظر آتا ہے مگر میرے لئے اس شخص کو پہچاننا ہر گز مشکل نہ تھا جسے میں کئی بار شیورز پلیس پر مل چکا تھا۔
جب وہ (خالد زکی) لندن، جہاں وہ برٹرینڈ رسل فائونڈیشن کا رکن تھا، سے خفیہ طور پر عراق واپس آیا تھا، (آئی سی پی کی) رائٹ ونگ قیادت اس مہم جو کے ہاتھوں پریشان تھی جو چے گویرا سے متاثر تھا اور نئے یورپی لیفٹ، لاطینی امریکہ کی گوریلا جنگوں اور توپاما روز سے متاثر تھا۔
ایک نفیس، شیریں اور عمدہ انسان۔ پہلی نظر میں وہ قدیم ویلز یا قرون وسطیٰ کا ہسپانوی رومان پسند شہزادہ لگتا۔ ہنستا تو ہنسی میں نسوانی شرماہٹ کا پہلو نظر آتا اور ہنستے ہوئے اس کے بے عیب گورے گالوں میں گڑھا پڑ جاتا۔
اس برے وقت میں اس شخص کو کیا چیز لندن کی دھندلی گلیوں سے عراق کھینچ لائی؟ مہار البیہلی خود سے یہ سوال پوچھتا ہے مگر بچوں ایسے چہرے کو گھورتے ہوئے اسے احساس ہوتا ہے کہ کس طرح عموماً ظاہر حقیقت کو مستور کر لیتا ہے۔ خالد سے شناسائی کے دور میں اس نے نرم ملائم گوری سپید جلد کے نیچے چھپی حقیقت کو اس توجہ سے نہیں پڑھا کہ جس کا تقاضا تھا۔
وسطی فرات کے عین بیچ اور دَلدَلیں عبور کرتے ہوئے، گارے، تھکاوٹ اور خوف کا مقابلہ کرتے ہوئے مہار البیہلی کو اندازہ ہوا کہ وہ کیا چیز تھی کہ اس نفیس انقلابی نے احتیاط کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے موت کی اس تنہا وادی کا رخ کیا۔
مہار نے گولیوں سے چھلنی جسم باہنوں میں لے رکھا ہے، خون کے قطرے گارے سے اٹے ہوئے ہیں اور وہ اُسے پھر سے اٹھنے کے لئے کہ رہا ہے۔ مہار کو اندر ہی اندر وہ الفاظ گھائل کرتے ہیں جو خالد سے اختلاف کرتے ہوئے اس نے کہے تھے، اس پر پسپائی کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ وہ خود کشی کے خلاف ہے۔
خالد زکی وہ انقلابی تھا جو پر امن جمہوری لائن کے خالی تجربے سے گزر چکا تھا اور اس کا نتیجہ پارٹی کی تباہی کی شکل میں نکلا تھا، اس نے اپنی نظریاتی دستاویز پیش کی جس میں زور دیا گیا تھا کہ سیاسی سرکس بند کر کے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جائے اور اس جدوجہد کا آغاز دَلدَلی علاقے سے کیا جائے۔ اس نے سیاسی قیادت پر زور دیا کہ وہ اس جدوجہد میں ہر اول کا کردار ادا کرے۔ اس کے بعد اس نے ایک لائحہ عمل مرتب کیا جس میں دیہی علاقوں پر انحصار کیا گیا تھا البتہ شہری علاقوں سے اعتناء نہیں برتا گیا تھا اور اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ تمام ترقی پسند حلقوں کو متحد کیا جائے۔
مجھے عامر الرکابی کی شخصیت سمجھ آنے لگی۔ زندگی میں شائد بعض باتیں اتنی دردناک ہوتی ہیں کہ تاریخ بیان نہیں کرسکتی، ایسی باتیں فکشن پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے کہ بعض اوقات فکشن تاریخ سے زیادہ دیانت دار ثابت ہوتی ہے۔ جنوبی دَلدَلوں میں ہونے والا مقابلہ جس میں خالد زکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، عراق پر لکھی جانے والی بے شمار کتابوں کے حاشیے میں جگہ پانے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ جہاں اتنی جانیں گئیں وہاں ایک یہ بھی گئی۔ تاریخ دانوں کو دوش نہیں دیا جاسکتا۔ ہم ایسے لوگوں کی بات البتہ مختلف ہے کہ جو خالد زکی کو جانتے بھی تھے اور اسے عزیز بھی رکھتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ ایک خوفناک حادثہ ہوا تھا۔ یہ ناقابل تلافی نقصان تھا۔ اُس کی دانشورانہ دسترس، عملی صلاحتیں اور انسانی خوبیاں اسکی وفات کے بعد کی دہائیوں، خاص کر موجودہ حالات میں بری طرح درکار تھیں۔ یہ ایک اندوہناک المیہ تھا، ایک زندگی کا چراغ قبل از وقت گل ہو گیا تھا، ایک شخص کچھ اس ادا سے بچھڑا کہ پوری نسل کی شکست کی علامت بن گیا۔ مظفر النواب کی تازہ نظم اس پس منظر کے بغیر سمجھ نہیں آسکتی۔46
وہ ترقی پسند کرنیل اور کمیونسٹ، آزاد مسلح دھڑے اورمائوازم، گویرا ازم اور ایسے تمام آدرش وادی ___ گویا ایک جہاں تھا جو نیست و نابود ہو گیا۔ اس جہاں کے زوال پر اگر کوئی خوش تھا تو وہ بعث وادی قاتل تھے جن کے ہاتھ مخالفوں کے خون سے رنگے تھے۔ بعث وادی اس کام کی تیاری میں مصروف تھے جسے موزوں وقت کے باوجود کمیونسٹ پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے ____ اقتدار پر قبضہ اور قبضہ بھی بلا شرکت غیرے۔