وہ لوگ گھر پہنچے تو کافی ٹائم ہو چکا تھا۔ نوال عنیزہ کو حازم کے کمرے میں چھوڑ آئی تھی۔ حازم ضروری کام کا کہ کے گھر سے نکل گیا تھا۔ عفت بیگم نے اس سے بہت دفعہ کھانے کے بارے میں پوچھا تھا پر وہ ٹال گئی تھی۔
کمرے میں گہرا سکوت چھایا ہوا تھا۔ اس میں عنیزہ کی ہچکیوں کی آواز خلل ڈال رہی تھی۔ اس نے آتے ہی کمرے کی حالت بیگاری تھی۔ ساری چیزیں تہس نحس کر دی تھیں۔اور مسلسل روئے جا رہی تھی۔ ایک نظر بھی اٹھا کر اس نے کمرے کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ مسلسل رونے سے اس کے سر میں درد شروع ہو گئی تھی۔ اس نے جیولری اتار کر ایک طرف پھینکی۔ اور دوپٹہ اتار کے سائیڈ پر رکھا۔ بیڈ سے اٹھی اور الماری کی طرف بڑھ گئی۔ الماری میں ادھر ادھر دیکھا تو اسے اپنے پہننے کے لیے کوئی کوئی کپڑے نا ملے۔
وہ حازم کی ٹراوزر شرٹ لیے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد نہا کے نکلی اور ڈریسنگ کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ برش اٹھایا اور بالوں میں چلانے لگی۔
اپنے دیہان بال کنگھی کر رہی تھی جب اس کی نظر گلے میں پہنے لاکٹ کی طرف گئی۔ وہ برش رکھتی لاکٹ کو چھو کر دیکھنے لگ گئی۔ کیوں چلے گئے آپ بابا۔
آنکھیں ایک دفعہ پھر پانی سے بڑھ گئیں تھیں۔ وہ چلتے ہوۓ بیڈ کے پاس آئی اور ٹیک لگا کر نیچے بیٹھ گئی تھی۔ ٹانگوں کے گرد بازؤں کا گھیرا بناتی وہ اس پر سر رکھے رونے میں مشغول ہو گئی۔
روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ بیٹھے بیٹھے ہی سو گئی۔
رات گئے وہ کمرے میں آیا۔
دروازہ بند کر کے مڑا تو سامنے نیچے بیڈ کے ساتھ وہ ٹیک لگائے نیند کی وادیوں میں پہنچی ہوئی تھی۔
اس نے کورٹ اتار کے صوفے پر رکھا اور فریش ہونے چلا گیا۔
ٹوول سے منہ صاف کرتا وہ باہر نکلا۔
ٹوول کو سائیڈ پر رکھ کے وہ اس کی طرف آیا۔
گھٹنوں کے بل اس کے پاس نیچے بیٹھ گیا۔ اس کے منہ پر آنسوں کے مٹے ہوۓ نشان تھے۔
اس نے آگے بڑھ کے اسے بازؤں میں اٹھایا۔
اور بیڈ پر لٹا دیا۔ کمفڑٹر ڈالتا وہ کمرے کی طرف دیکھنے لگا۔
کمرے کی حالت دیکھ کے اس نے تاسف سے سر ہلایا۔
کسی بھی اینگل سے اسے وہ اپنا کمرہ نہیں لگ رہا تھا۔
وہ کمرہ ٹھیک کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا جب اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا۔۔
اس نے کپڑے۔۔
اوہ مائے گوڈ۔
اس نے تو کپڑے بھی میرے پہن رکھیں ہیں۔
کیا یہ صبح سب کے سامنے ایسے۔۔
نو نو۔
وہ سوچتا کار کی چابی اٹھا کے باہر نکلا۔
وہ ٹراوزر اور شرٹ میں ملبوس تھی۔ شرٹ کے بازو آدھے سے بھی کم تھے۔ ان کے گھر میں کبھی کسی نے ایسے کپڑے نہیں پہنے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم کہاں جا رہے ہو صبح صبح؟
عفت بیگم نے اسے گھر سے باہر جاتے دیکھا تو پیچھے سے آواز لگا کر پوچھا۔
ماما میں جوگنگ پر جا رہا ہوں۔
اچھا۔
مجھے آپ سے بات کرنی تھی حازم۔۔
وہ حازم کی طرف دیکھتے ہوۓ بولیں۔
جی ماما کہیں۔
وہ واپس ان کی طرف آیا۔ان کا ہاتھ پکڑے صوفے تک لے آیا۔ اور دونوں بیٹھ گئے۔
کیا بات ہے ماما؟
بیٹا مجھے آپ سے عنیزہ کے مطلق بات کرنی تھی۔ کرنا تو میں رات کو ہی چاہتی تھی پر ٹائم نہیں ملا۔ اب آپ کو دیکھا تو سوچا ابھی کر لوں۔
جی کریں میں سن رہا ہوں۔
وہ ہمیشہ کی طرح لہجے میں احترام سموئے بولا۔
بیٹا آپ لوگوں کی شادی جن حالات میں ہوئی ہم سب ہی اچھے سے واقف ہیں۔ ہم نے سوچا کچھ تھا اور ہوا کچھ۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کے ہم سوچتے کچھ ہیں اور ہو کچھ جاتا۔ اور اسی چیز کو تقدیر کہتے ہیں۔ یہ ہونا ایسے ہی لکھا ہوا تھا۔ اور مقدر کے لکھے کو کون روک سکتا ہے۔ آپ کی قسمت میں عنیزہ ہی لکھی ہوئی تھے۔ اور جو ہوا شاید اس میں کوئی بھلائی ہو آپ لوگوں کی۔ یہ تو اللّه ہی بہتر جانتے ہیں۔
جی ماما ٹھیک کہ رہی ہیں آپ۔
وہ ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوۓ بولا۔
حازم وہ بچی کل سے بہت ڈسٹرب ہے۔ اصل میں لڑکیاں بہت نازک ہوتی ہیں۔ وہ اوپر سے جتنی مرضی بہادر نظر آئیں۔اندر سے اتنی ہی کمزور ہوتی ہیں۔ ایسے موقع پر بڑوں بڑوں کا ضبط جواب دے دیتا ہے۔ میں یہ چاہ رہی تھی کے آپ اسے پیار سے ٹریٹ کریں۔ جو بھی ہوا جیسے بھی ہوا اب وہ آپ کی بیوی ہے۔ اس کی عزت ہی آپ کی عزت ہے۔ ہاں ابھی وہ لا ابالی سی ہے پر جب پیار سے سمجھاؤ گے تو سمجھ جائے گی۔
امید کرتی ہوں کے آپ میری بات سمجھیں گے۔
وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کے بولیں۔
جی ماما ان شاءاللّه۔
میں پوری کوشش کروں گا کے آپ کی امید پر پورا اتروں۔
وہ مسکرا کے گویا ہوا۔
شاباش میرے بچے۔
اللّه آپ جیسی اولاد ہر کسی کو دے۔
اور آپ جاؤ آپ کا بھی اتنا ٹائم لے لیا۔ میں بھی کچن میں جاؤں۔
اوکے۔
میں چلتا ہوں۔
وہ کہتا باہر چلا گیا۔
۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
زاہدہ اچھے سے صاف کرو کمرہ۔
وہاں نیچے ویسے ہی چیزیں بکھری ہوئی ہیں۔
اچھا باجی۔
عنیزہ کی آنکھ کھلی تو اس کے کانوں سے عفت بیگم کی آواز ٹکرائی۔
وہ کمفرٹر سائیڈ پر کرتی اٹھ کے بیٹھ گئی۔
آنٹی آپ یہاں؟
اس نے سوالیہ نظروں سے عفت بیگم سے پوچھا۔
جی۔۔
وہ حازم کہ رہا تھا کمرہ بہت گندا ہوا ہوا ہے تو میں زاہدہ سے صفائی کروانے آ گئی۔
اچھا جی۔
وہ اتنا بول کے خاموش ہو گئی۔
بیٹا آپ فریش ہو آؤ۔
میں آپ کے کپڑے نکال دیتی ہوں۔
عفت بیگم اسے چپ بیٹھی کو دیکھ کر بولیں۔
آنٹی میرے کپڑے؟
اس نے حیرانی سے پوچھا۔
جی آپ کے۔
میں نے آپ کی الماری بھی سیٹ کروا دی ہے۔ آپ کی ضرورت کی ہر چیز موجود ہے۔ اور اگر کچھ نا ہو تو مجھے بتا دیجئے گا میں منگوا دوں گی۔ اور آج آپ یہ کپڑے پہنیں گیں۔وہ پیار سے بولیں۔
انہوں نے گولڈن سوٹ نکالا تھا جس پر ہلکا ہلکا کام بھی ہوا تھا۔ ساتھ دوپٹہ بھی ہم رنگ تھا۔
اچھا۔
وہ کہتی کپڑے اٹھاتی واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
باجی کمرہ صاف ہو گیا ہے۔
اب ایسا کرو نیچے جاؤ فریج میں شیک بنا کر رکھا ہوا ہے وہ جلدی سے لے آؤ۔
بچی نے رات سے کچھ نہیں کھایا۔ طبیعت نا خراب ہو جائے۔
اچھا باجی میں لاتی ہوں۔
وہ نیچے چلے گئی۔
تھوڑی دیر بعد عنیزہ نہا کر نکلی اور ڈریسنگ کے سامنے کھڑی ہو کر بال برش کرنے لگی۔
زاہدہ دروازہ کھول کے اندر آئی اور شیک ٹیبل پر رکھ دیا۔
گڈ۔
اب جا کر ڈائننگ ٹیبل سیٹ کرو اور سب کو بلا لو۔
ہم لوگ بھی آتے ہیں۔
عفت بیگم حکم سادر کرتیں عنیزہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔
عنیزہ بچے یہاں آؤ۔
ان کی آواز سن کر وہ دھیمی چال چلتی ان تک پہنچی۔
یہاں بیٹھو۔
انہوں نے اپنے پاس صوفے پر اشارہ کیا۔
وہ ساتھ بیٹھ گئی۔
یہ پیو۔۔
وہ گلاس اس کے آگے کرتی ہوئیں بولیں۔
عنیزہ نے ایک نظر گلاس کو دیکھا اور ایک نظر عفت بیگم کو۔
آنٹی میرا دل نہیں ہو رہا۔
بری بات۔
آپ نے رات سے کچھ نہیں کھایا۔ ایک منٹ سے پہلے یہ ختم کریں۔
لیکن آنٹی۔۔۔
کوئی لیکن ویکن نہیں۔ اللّه کا رزق ہے۔ اور رزق سے کون سی ناراضگی۔ ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی۔ پر اس کی قدر اس سے پوچھنا جس کے پاس یہ نہیں ہے۔
اور چپ کر کے پی لیں۔
عنیزہ مزید کوئی بحث کے بنا پی گئی۔
ویری گڈ۔
اب آپ ایسا کرو دوپٹہ لو اور آؤ نیچے چلیں۔ سب ہمارا ناشتے پر ویٹ کر رہے ہوں گے۔
آنٹی میں آوں؟
وہ اپنی طرف اشارہ کر کے بولی۔
تو اور کون۔
اب آپ اس گھر کی میمبر ہو۔ جہاں سب کھانا کھائیں گے وہیں آپ بھی کھائیں گی۔
وہ سر ہلاتے دوپٹہ اٹھا کے گلے میں ڈالنے لگی۔
اسے دوپٹہ لینے کی عادت نہیں تھی۔ اس لئے اس نے گلے میں ڈال لیا تھا۔قمیض شلوار بھی آج اس نے ایک عرصہ دراز بعد پہنی تھی۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
وہ لوگ نیچے آئیں تو سب ڈائننگ پر موجود تھے۔
عفت بیگم آ کر ایک طرف بیٹھ گئیں۔
عنیزہ کو فواد صاحب نے اپنے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ وہاں آ کر بیٹھ گئی۔
گڈ مارننگ بھابھی۔۔
ابھی وہ سہی سے بیٹھی بھی نہیں تھے جب ابراھیم کی آواز گھونجی۔۔
عنیزہ تو اس کا منہ دیکھنے لگ گئی۔ اسے سمجھ نا آیا آگے سے کیا جواب دے۔
عنیزہ نے بس سر ہلایا۔
حازم کھانے میں مصروف تھا۔
کیسی ہیں آپ بچے؟
ٹھیک انکل۔۔
وہ نیچے منہ کیے بولی۔
ایک بات کہوں۔۔
جی کہیے۔۔
عنیزہ فورا بولی۔۔
آپ مجھے بابا کہ سکتی ہیں۔
جیسے نوال کہتی ہے۔ اور آپ بھی تو اس کی طرح میری بیٹی ہو۔
وہ پوری آنکھیں کھولے فواد صاحب کی طرف دیکھنے لگی۔
اگر آپ نہیں کہنا چاہتی تو آپ کی مرضی۔ وہ اسے حیرت سے اپنی طرف دیکھتا پا کر بولے۔۔
ن نہیں تو۔
وہ اٹکی۔۔
میں کہ لوں گی۔
یہ کہتے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
وہ نظریں جھکا گئی۔
شاباش۔۔
خوش رہو ہمیشہ۔
وہ اسے سر پر پیار کرتے مسکرا کے بولے۔
۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
کھانا کھانے کے بعد سب اپنی روز والی روٹین میں مشغول ہو گئے۔ بس نوال نے یونی سے چھٹی کی تھی۔
وہ لاؤنج میں بیٹھی مارننگ شو دیکھ رہی تھی۔ عنیزہ واپس کمرے میں چلے گئی تھی۔ عفت بیگم زاہدہ سے کام کروا رہی تھیں۔
نوال۔۔۔
جی ماما۔
وہ ان کی آواز سنتے ہی بولی۔
بیٹا آپ یہاں بیٹھی ہوئی ہو جا کر دیکھو عنیزہ کہاں ہے۔ ابھی وہ یہاں نیو ہے تو اس کا دل ٹھیک سے نہیں لگے گا۔ آپ اس کے پاس بیٹھو اسے کمپنی دو اس کا دل بہلاؤ۔
اچھا ماما۔
میں جاتی ہوں ان کے روم میں۔
وہ اٹھی ایل سی ڈی بند کی اور اوپر چلے گئی۔
ابھی وہ کمرے میں جاتی اسے عنیزہ روتی دکھائی دی۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور وہ بیڈ پر بیٹھی رو رہی تھی۔ وہ اندر جانے کی بجائے ویسے ہی واپس نیچے آ گئی۔
ماما۔۔
وہ عفت بیگم کو بلند آواز پکارنے لگی۔
جی۔۔
ان کی کچن سے آواز آئی۔
ماما عنیزہ آپی رو رہی ہیں۔ ایسے مجھے ان کے روم میں جانا اچھا نہیں لگا۔ اور جب وہ روتی ہیں تب مجھے کچھ ہونے لگ جاتا۔ وہ بیچاری کل سے مسلسل رو رہیں ہیں۔ آنکھیں بھی سوجھ گئیں ہیں اب تو۔۔
وہ پریشانی سے ان کو بتانے لگی۔
اچھا۔۔
چلو تم یہاں ہی رکو میں اسے دیکھ کے آتی ہوں۔
عفت بیگم کہ کے کچن سے نکل گئیں۔
اوپر گئیں اور دروازہ نوک کیا۔
دروازہ کھلا ہوا ہی تھا پر انہوں نے نوک کرنا ضروری سمجھا۔
عنیزہ نے منہ اوپر اٹھا کر دیکھا تو دروازے میں عفت بیگم کھڑی تھیں۔
اس نے فورا ہاتھ بڑھا کر اپنے آنسو صاف کیے۔
آئیے نا آنٹی۔۔
وہ کھڑی ہوتے ہوۓ بولی۔
بیٹھو نا بیٹا۔
وہ پاس آ کر بولیں اور اسے بیڈ پر بیٹھا کر پاس ہی خود بھی بیٹھ گئیں۔
انہوں نے اس کا منہ اوپر کیا۔
کیا ہوا ہے آپ کو عنیزہ؟
کیوں رو رہی ہو بچے۔
کیا حازم نے کچھ کہا ہے۔ یا کسی اور نے ؟
انہوں نے پیار سے پوچھا۔
وہ کچھ نہیں بولی۔
دیکھو بیٹا۔
جو ہوا وہ قسمت میں لکھا ہوا تھا۔ یہ ہونا ایسے ہی لکھا تھا بچے۔ انسان کتنی بھی کوشش کر لے نہیں بچ سکتا۔ آپ کو پتہ ہے اللّه جو بھی اپنے بندے کے لیے کرتے ہیں اس میں اس کا کوئی نا کوئی فائدہ ہی ہوتا ہے۔ بلکے کوئی فائدہ کیوں سارا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ اور اللّه اپنے بندے سے بہت محبّت کرتے ہیں۔ وہ اسے دکھ تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔ ہاں لیکن وہ ازماتے ضرور ہیں ۔ دیکھنے کے لیے کے میرا بندا کیسا ہے۔ وہ میرا شکرگزار بھی ہے یا نہیں۔ وہ میری دی ہوئی آزمائش پر صبر کرتا ہے یا نہیں۔
اور بیٹا پریشانیاں ہر کسی کی زندگی میں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ یہ تو عارضی ہوتی ہیں۔ سمجھدار تو وہ ہے جو اپنے معاملات اللّه کے حوالے کر دے اور کہے۔ جیسے تو راضی ویسے میں راضی۔ پھر اللّه بہت خوش ہوتے ہیں۔ جب رحمٰن کی رضا کو اپنی رضا بنا لیں گے وہ خوش تو ہو گا ہی نا۔۔
اگر کوئی برا کرتا ہے تو چھوڑ دو ۔ آپ نا کچھ کہو۔ آپ یہ سوچو میرے ساتھ تو اللّه ہے۔وہ سب دیکھ رہا ہے۔ اور وہ ذات بہت رحیم و کریم ہے۔ وہ تو ایک آنسو پر معاف کر دیتا ہے۔
گنہگار تو ہم ہیں جنہیں سب کچھ پتہ ہونے کے باوجود بھی غلطی کر لیتے ہیں۔
آپ اپنا معاملہ اللّه کے سپرد کر کے تو دیکھو بچے۔ یہ تو وہ در ہے جہاں سے کبھی مایوسی ہو ہی نہیں سکتی۔
ایک بار کہو تو سہی میرا اللّه مالک۔۔
وہ بول کے چپ ہوئیں۔
عنیزہ دم سادھے انھیں سن رہی تھی۔
میں امید کرتی ہوں کے آپ سمجھیں گیں۔ جیسے باقی سب یہاں مل جل کر رہتے ہیں آپ بھی ویسے ہی رہیں گی۔ مجھے پتہ ہے ابھی یہ آپ کو مشکل لگے گا پر کوشش تو کر ہی سکتی ہیں نا۔ مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے بس بیٹا خوش رہو۔اور ایک اور بات آپ پرومیس کریں کے اب روئیں گی نہیں؟
انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا۔
وہ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر رکھ گئی تھی۔
اور خوش بھی رہیں گیں۔۔
عفت بیگم مسکرا کر بولیں۔
جی۔
اس نے جی کہنے پر ہی اکتفا کیا۔
اچھا چلو آؤ اب نیچے۔۔
میرے ساتھ بیٹھو۔ باتیں کرو۔ کوئی اپنا کالج یونیورسٹی کا قصہ سناؤ کوئی مجھ سے سنو۔ اب تو میں نے اور آپ نے ہی گھر ہوا کرنا۔ ہمیں ہی ایک دوسرے کو کمپنی دینا ہو گی۔ پہلے تو میں اکیلی ہوتی تھی اب آپ آ گئی ہو تو میرا بھی دل لگ جایا کرے گا۔
جی آنٹی۔
وہ مسکرا کے بولی۔
اس نے سوچ لیا تھا جو ہوا اسے بھولا تو نہیں جا سکتا۔ لیکن جو انجان ہو کر اس کی اتنی فکر کرتے ہیں ان کے لیے وہ خوش رہنے کی کوشش کرے گی۔
جب مشکل وقت آیا اس کا ساتھ تو اپنوں نے بھی چھوڑ دیا تھا۔ مصیبت سمجھ کر بس بوجھ اتارنے کی کوشش کی۔
کیا سوچنے لگی؟
کچھ نہیں۔
چلیں نیچے؟
جی۔۔
وہ اٹھی اور ان کے ساتھ نیچے چلی گئی۔
۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
وہ سارا دن عفت اور نوال کے ساتھ رہی تھی۔ اس کا دن ان کے ساتھ اچھا گزر گیا تھا۔سب ڈنر کر کے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔ وہ بھی جانا چاہ رہی تھی پر کمرے میں حازم پہلے سے موجود تھا۔
رات سے اس کا فیس ٹو فیس اس سے سامنا نہیں ہوا تھا۔ اب اس کا دل گھبرا رہا تھا۔ پتہ نہیں حازم کا ردعمل کیا ہو گا۔ اس نے تو بدتمیزی بھی اتنی کی تھی۔
وہ دل میں سوچ رہی تھی۔
اگر میں نے بد تمیزی کی تھی تو اس نے بھی تو کی ہی تھی .
اور ایک بار کچھ کہے تو سہی۔ اس کا میں آنٹی کو بتاؤں گی۔ ویسے بھی میں اس سے ڈرتی نہیں ہوں۔
وہ اپنے آپ کو سمجھا رہی تھی۔
اگر پھر بھی کچھ کہا تو۔
دماغ میں پھر سوچ آئی۔۔
آیا بڑا کہنے والا میں بھی عنیزہ اکبر ملک ہوں۔ اسے خوب سیٹ کروں گی۔
اس نے دل میں سوچا۔
پر عنیزہ تمھے اس سے بات بھی تو کرنی ہے۔۔
پھر دماغ میں خیال آیا۔
ہاں تو کرنی ہے۔
پولیس والا ہے میں نے رپورٹ درج کروانی ہے وہ نہیں کرے گا تو اور کون کرے گا۔
اس نے پھر دل میں سوچا۔
ویسے تو تم اسے رشوت خور سمجھتی تھی۔
دماغ کی طرف سے پھر دلیل آئی۔
اس نے بھی تو مجھے ماسی کہا ہی تھا تو کیا ہوا میں نے اسے رشوت خور سمجھ لیا۔ اور ویسے بھی آج پتہ چل جائے گا وہ رشوت خور ہے کے نہیں۔
اس نے دوبارہ دل میں سوچا۔
بات کر لو گی؟
دماغ میں پھر سے خیال آیا۔
جاؤ مجھے نہیں پتہ۔
وہ جھنجھلا کے بولی۔
کیا تنگ کرنا لیا ہوا ہے۔ بات تو میں کر کے رہوں گی۔
وہ اونچی آواز میں بولی اور زینے چڑھ گئی۔
۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
بغیر نوک کیے وہ کمرے میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کر دیا۔
حازم بیڈ پر بیٹھا لپ ٹاپ چلا رہا تھا۔ وہ ایک نظر دیکھ کے دوبارہ مصروف ہو گیا۔
عنیزہ چلتی ہوئی صوفے کے پاس جا رکی اور بیٹھ گئی۔
اسے سمجھ نہیں تھا آ رہا کیسے مخاطب کرے حازم کو۔
رہنے دو تم نہیں کر سکتی۔
دماغ میں خیال آیا۔
ایوی نہیں کر سکتی ابھی کرتی ہوں۔
وہ منہ میں بولی اور سیدھی ہوئی۔
اٹھی اور بیڈ کی طرف بڑھ گئی۔
مجھے تم سے بات کرنی ہے۔
وہ اس کی سائیڈ پر کھڑی ہو کر بغیر اسے دیکھے بولی۔
حازم نے لپ ٹاپ بند کر کے سائیڈ پر رکھا اور بولا۔
کرو۔۔
میں جانتی ہوں یہ شادی تم سے زبردستی کروائی گئی ہے۔ تم اس سے خوش نہیں ہو ۔انکل کے کہنے پر تمھے ماننا پڑا ۔ تم انھیں انکار نہیں کر سکے۔ واٹ ایور۔۔
میں تم سے بہت جلد ڈائیورس لے لوں گی پر میری ایک شرط ہے۔۔
وہ رکی۔
کیسی شرط؟
حازم نے پوچھا۔
مجھے عدیل سلاخوں کے پیچھے چاہیے۔ میں نہیں جانتی تم کیا کرو گے کیسے کرو گے ۔ پر جو بھی کرو مجھے وہ لاک اپ میں چاہیے ۔ اور تب تک تمھے مجھے برداشت کرنا ہو گا۔ جس دن وہ لاک اپ میں گیا میں اسی دن ڈائیورس لے لوں گی تم سے۔
اس کے لیے پیسے میں تمھے دے دیتی لیکن اس وقت میرے پاس نہیں ہے۔ میں نے سوچا تھا میں جاب کر لوں گی پر انکل مجھے جاب نہیں کرنے دیں گے۔ لیکن میں وعدہ کرتی ہوں ڈائیورس کے بعد تمہاری ایک ایک پائی اتار دوں گی۔
وہ کہ کے چپ کر گئی۔
حازم بیڈ سے اٹھ کے اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
اوکے مجھے منظور ہے۔ میں اپنی طرف سے کوشش کروں گا۔ شاید وہ کسی غلط ایکٹیویٹی میں ملوث ہو۔ لیکن میں جھوٹ کی بنیاد پر اسے کبھی بھی اریسٹ نہیں کروں گا۔ میرے لیے سب سے اہم میری ایمانداری ہے۔ ایک بے قصور کو میں لاک اپ میں بند نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر کبھی وہ کچھ غلط کرتا ہوا ملا تب ضرور۔۔
ہممم۔۔ تب تک کے لیے بیسٹ اوف لک۔ ایک ان چاہے وجود کو برداشت کرنا پڑے گا۔ جو زبردستی مسلط کر دیا گیا۔
عنیزہ کہ کے مڑی ہی تھی جب حازم نے پکارا۔
روکو۔۔
وہ وہیں کھڑی ہو گئی۔
حازم اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
تب تک کے لیے ہم دوست نہیں بن سکتے؟
اگر دوستی ہو جائے تو ہوپ سو کے ٹائم اچھا گزر جائے۔
روم میٹس بھی کہ سکتی ہو۔ جو روم شئیر کرتے ہوں۔
اس میں تمہاری کوئی سازش تو نہیں ہے؟
عنیزہ نے حیرت سے پوچھا۔
وہ میرے سے کیسے دوستی کر سکتا ہے میں نے تو اتنی بدتمیزی کی تھی۔ ضرور کوئی سازش ہو گی۔ اس نے دل میں سوچا .
نہیں تو۔۔
اور تمھے یہ سازش کہاں سے لگی؟
ایک اور بات۔۔
ہماری پہلی ملاقاتیں اچھی نہیں تھی اس کی بنا پر کوئی اندازہ نا لگانا۔۔
اوکے۔۔
میں سوچ کر بتاؤں گی۔
اوکے سوچ لو۔
وہ کہ کے بیڈ کی طرف چلا گیا اور عنیزہ صوفے پر جا بیٹھی۔
۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...