’’بس جانب دس سے پندرہ منٹ آپ کو مزید لگیں گے، جب تک آپ ہمارے یہاں کی اسپیشل کافی سے لطف اندوز ہوں۔‘‘
’’بہت شکریہ۔۔ ۔ ویسے دیوار پر لگے ان فوٹوز کی کیا کہانی ہے۔ اور کیا آپ کے متعلق وہ افواہیں درست ہیں، جن کے مطابق آپ کا تعلق یہاں کے پر اسرار قبیلے سے ہے، جو ماضی میں اپنی آدم خوری کیلئے بدنام تھا۔‘‘
’’ جی آپ نے صحیح سنا، میرا تعلق اسی قبیلے سے ہے اور یہ فوٹوز میرے آباء و اجداد کے ہیں۔ ان میں وہ اپنی آخری انسانی خوراک کو پکا رہے ہیں۔ آخری اس لئے کہ اس کے بعد انہیں سرکار کی جانب سے بنائے گئے قوانین کا پابند کر دیا گیا تھا۔ جس کی رُو سے کسی بھی انسان کو کھانا، قتل کے زمرے میں شمار ہوتا تھا۔‘‘
’’پھر ان سخت قوانین کے نتیجے میں کیا یہ عادت چھوٹ گئی۔‘‘
’’بہت معذرت کے ساتھ، یہ کوئی عادت نہیں تھی، یہ تو ہماری جبلت میں شامل تھی۔ صدیوں سے جاری آدم خوری آپ کے ڈی این اے تک میں رچ بس جاتی ہے۔ اور اس کی چاٹ نسل در نسل چلتی رہتی ہے۔ کئی لوگوں نے حکم عدولی کی اور موت کی سزا پائی۔ یہاں تک کہ میرے دادا کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔‘‘
’’ سو سیڈ۔ تو کیا اب بھی۔۔ ۔۔‘‘
’’ارے نہیں جناب اب کہاں۔ یہ سب کچھ ماضی کا حصہ بن گیا ہے۔۔ یقین جانئے کہ میری زبان انسانی گوشت کے چٹک دارسواد سے قطعی انجان ہے۔ ویسے آپ کو ہمارے یہاں کی کافی کیسی لگی۔‘‘
’’بہت بہترین۔ اس ذائقے کی کافی میں نے پہلے کبھی نہیں پی۔ خوشبو بھی لاجواب ہے۔‘‘
’’جی، اس ریسیپی کے موجد میرے والد تھے۔ یہ لیجئے آپ کے انکل کی استھیاں بھی آ گئیں۔‘‘
’’ تھینک یو سو مچ، اس ونڈر فل فیونرل کیلئے آپ کا بہت شکریہ۔۔ ۔ ویسے اگر ایک کپ کافی اور پلا دیں تو بہت عنایت ہو گی۔‘‘
’’ارے جناب عنایت کیسی۔ ابھی لیجئے۔ اب تو آپ سے ملنا جلنا لگا ہی رہے گا۔‘‘
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...