چرچ میں دونوں کی شادی ہوئی۔ اس کے بعد مانیک اسے اپنے اپارٹمنٹ لے آیا۔ آج پہلی بار خوشی کے بھرپور احساس کو اس نے تمام تر شدوں کے ساتھ محسوس کیا تھا۔
بیلا اس کی ہو چکی تھی۔ مگر وہ اب بھی بے یقین سا تھا۔ اسے یہ سب ایک حسین خواب جیسا لگ رہا تھا۔ بار بار پلکیں جھپکتے ہوئے اس نے خود کو باور کروایا کہ یہ حقیقت ہے۔ حسین، خوشنما، دلفریب حقیقت، جو خوابوں سے کہیں زیادہ خوب صورت ہے۔
وہ اس کے اپارٹمنٹ میں اس کے ساتھ موجود تھی وہ اسے کچھ کنفیوز اور نروس بھی لگ رہی تھی۔
’’کیا لو گی؟‘‘ اچانک اسے آداب میزبانی یاد آئے۔
’’کافی۔‘‘ اس نے بغیر کسی جھجک کے کہہ دیا۔
وہ اٹھ کر کچن میں چلا آیا کافی پھینٹنے کے ساتھ ساتھ وہ ولیم جون کی خوب صورت نظم گنگنا رہا تھا۔
بیلا ٹیرس کی ریلنگ پر جھکی اس کی آواز سن رہی تھی۔ اسے لگا، اس گیت کو مانیک سے اچھا کوئی نہیں گنگنا سکتا۔
اس کی آواز میں ساز تھا، سوز تھا اور محبت تھی۔ محبت جو ہر چیز کو حسین بنا دیتی ہے۔
’’کافی۔‘‘ اس نے مگ ریلنگ پر رکھ دیا۔
’’کافی اچھی بناتے ہو۔‘‘ وہ ایک گھونٹ بھر کر بولی۔
’’یہ تعریف ہے ؟‘‘ وہ شرارت سے مسکرایا۔
’’سمجھ سکتے ہو۔‘‘ اس نے بے نیازی سے شانے اچکائے۔
’’کیا تم اپنے فیصلے پر پچھتا رہی ہو؟‘‘ مانیک نے ریلنگ سے ٹیک لگائی۔
ٹھنڈی سرسراتی ہوائیں شور مچارہی تھیں۔
’’میں خود اپنی کیفیت نہیں سمجھ پارہی۔ خوش بھی نہیں اور کوئی پچھتاوا بھی نہیں۔ بہرحال اتنا ضرور ہے کہ تم جیسا شخص میرا آئیڈیل نہیں تھا۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے کہہ دیا۔
’’لیکن تم جیسی لڑکی ہی میرا آئیڈیل تھی … جو کبھی مجھ سے بے وفائی نہ کرے۔ مجھے بروکن فیملی سے بہت ڈر لگتا ہے بیلا … مجھے اور میرے اس گھر کو کبھی ٹوٹنے مت دینا۔‘‘ مانیک نے اسے شانوں سے تھام لیا۔
وہ اس کے لفظوں کی شدت پر ساکت رہ گئی۔ اس ایک لمحے میں وہ اسے دنیا کا سب سے سچا انسان لگا تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے شانوں پر رکھے اس کے ہاتھوں کو چھوا، جو سنگریزوں کی مانند دہک رہے تھے۔
’’تمہیں بخار ہے ؟ تم بارش میں بھیگے تھے نا …
اومائی گاڈ! تمہیں نمونیہ نہ ہو جائے۔‘‘ وہ ایک پل میں کس قدر فکر مند ہو گئی تھی۔ مانیک کو اس کا اپنے لیے فکر میں مبتلا ہونا، اپنی پروا کرنا اچھا لگا تھا۔ اس کا دل چاہا، وہ خوشی سے چھلانگیں لگائے۔
٭٭٭
وہ فیصلہ جسے کرنے میں وہ تامل کا شکار تھی اور کل تک اسے اپنے احساسات کا خود بھی اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ خوش تھی، اداس تھی یا پچھتا رہی تھی۔
لیکن آج اس نے صحیح معنوں میں خوشی کو اپنے من کے اندر کسی نوخیز کلی کی مانند چٹکتے محسوس کیا تھا۔ اس کے سب اندازے، جو وہ مانیک کے متعلق لگایا کرتی تھی، جھوٹ نکلے تھے۔
وہ اپنے سابقہ حلیے کے برعکس بہت محبت کرنے والا اور مہذب نوجوان تھا۔ کل اس نے کہا تھا، تم جیسا لڑکا میرا آئیڈیل نہیں تھا۔‘‘
مگر اب ایک ہی دن میں اس کے خیالات بدل چکے تھے۔ وہ اپنے دل میں اس کے لیے بے حد محبت محسوس کر رہی تھی۔ اس کی جانب نگاہ اٹھتی تو یوں لگتا، جیسے اس ساری کائنات میں بس ایک وہ ہی ہے، جو اس کا اپنا ہے۔ وہ اس پر حق جتا سکتی تھی۔ اس پر غصہ ہو سکتی تھی۔ اس سے لڑ سکتی تھی۔ خفا ہو سکتی تھی۔
آج مدتوں بعد جیسے کوئی رشتہ میسر آیا تھا۔
رابرٹ ماموں بھی اس کے اپنے تھے۔ آنٹی جنیفر اس کا کتنا خیال رکھتی تھیں۔ کیتھرین تو بہنوں جیسی تھی۔ مگر پھر بھی اس گھر میں اسے اجنبیت کا احساس ہوتا تھا۔ وہ اس گھر پر اس گھر میں موجود افراد پر کبھی بھی ایسا استحقاق نہیں جتا سکتی تھی۔ جیسا مانیک کے اپارٹمنٹ میں آ کر محسوس ہو رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ صدیوں سے اسی گھر میں رہ رہی ہو۔
ابھی بھی وہ کچن کے کیبنٹ سے ٹیک لگا کر کھڑی اسے کام کرتے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس وقت بلیوپینٹ اور وائٹ ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔ سلکی بال ماتھے پہ بکھرے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں نیند کا خمار تھا۔ وہ اس کی محویت پر چونکا۔
’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘
’’یہ یہی کہ تم ویسے نہیں ہو، جیسا میں سمجھتی تھی۔‘‘
’’تو پھر کیسا ہوں ؟‘‘ وہ کچن کی سلیب صاف کرتے ہوئے مسکرایا۔
’’اپنی تعریف سننا چاہتے ہو؟‘‘ وہ ہنسی۔
’’کیا میں اتنا لکی ہوں ؟‘‘ سلیب صاف کرتے اس کے ہاتھ رک گئے۔ وہ اب سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’بیلا تمہاری ہے۔ کیا یہ خوش بختی کی علامت نہیں ؟‘‘ اس نے اپنے گلے میں جھولتی چین گھماتے ہوئے شوخی سے کہا تو وہ برجستہ بولا۔
’’اور بیلا کا دل؟‘‘
’’وہ تو کب کا مجھ سے بے وفائی کر چکا ہے۔‘‘ اس نے مایوسی سے شانے اچکائے۔ مانیک کے لبوں پہ بڑی دلفریب مسکراہٹ امڈ آئی۔
’’تم نے بتایا نہیں کہ میں کیسا ہوں ؟‘‘ وہ اب ہاتھ دھو رہا تھا۔
’’بہت اچھے اور سب سے پیارے۔‘‘ اس نے آنکھیں میچتے ہوئے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہا تو وہ دل پہ ہاتھ رکھے جیسے گرنے کے قریب ہو گیا۔ وہ اسے اس طرح گرتا دیکھ کر مسلسل ہنسنے جا رہی تھی۔ جب ہی ڈور بیل بجی۔
’’کون ہے، جس نے اتنے حسین پل کو خراب کیا۔‘‘ وہ منہ بسورتے ہوئے دروازے کی سمت بڑھا۔ بیلا بھی کچن کی دہلیز پر آن کھڑی ہوئی تھی۔
’’کس قدر خود غرض مطلبی اور طوطا چشم دوست ہو تم۔‘‘ دروازہ کھلتے ہی رالف کا چہرہ نمودار ہوا۔ مانیک کو دیکھتے ہی وہ نان اسٹاپ جلی کٹی سنانے پر اتر آیا۔
’’اکیلے اکیلے شادی کر لی۔ ایسی بھی کیا آفت آن پڑی تھی تم پر۔ کم از کم ایک کال ہی کر لیتے۔‘‘ پیچھے کلارک تھا۔ اس کا منہ بھی پھولا ہوا تھا۔
’’انہوں نے تو مجھے بھی سڑک پر چھوڑ دیا تھا۔ تم دونوں کو بلانے کی زحمت کیا کرتے ؟‘‘ کیتھرین کا موڈ بھی بگڑا ہوا تھا۔ ساتھ سوزین بھی تھی۔ جس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔
بیلا اندازہ نہیں لگا پائی کہ وہ کن کیفیات کا شکار ہے۔
’’یار! سب اتنی جلدی ہوا کہ بس مت پوچھو۔‘‘ وہ وضاحتیں دینے لگا۔ وہ دونوں اسے بہت عزیز تھے۔ وہ کسی بھی صورت انہیں خفا نہیں کر سکتا تھا۔ بیلا کو پالینے کے بعد باقی رشتوں کی اہمیت اس کی نظر میں کم نہیں ہوئی تھی۔ وہ ہر رشتے کو بہت خوب صورتی کے ساتھ نبھانا جانتا تھا۔
’’یار! ہم تو تیری خوشی سے ہی خوش ہیں۔‘‘ آخر کلارک کو مصنوعی خفگی کا چولا اتارنا ہی پڑا۔ اگلے ہی پل دونوں اس سے لپٹ گئے۔
کیتھرین اس کے لیے ویڈنگ ڈریس لائی تھی۔ وائٹ نیٹ کے فراک میں وہ روایتی دلہن بنی اتنی پیاری لگ رہی تھی۔ مانیک سمیت کیتھرین، رالف کلارک اور سوزین کے لیے بھی اس پر سے نظریں ہٹانا مشکل ہو گیا۔
’’یار! ہالینڈ کی شہزادی تو تم نے چرالی۔‘‘ کلارک مانیک کے کانوں میں گھسا۔ سوزین کی نظریں مانیک کی سمت اٹھ گئیں جو محبت پاش نظروں سے بیلا کو دیکھتا کس قدر خوش اور مسرور دکھائی دے رہا تھا۔ اسے لگا، وہ اس کی دسترس سے بہت دور جا چکا ہے۔ وہ بیلا کو پسند کرتا تھا، وہ جانتی تھی۔ بلکہ سب سے پہلے اس نے یہ بات اسے ہی بتائی تھی۔ مگر اس نے سمجھا تھا، یہ وقتی جذبہ ہے۔ کچھ وقت گزرے گا اور بیلا اپنی کشش کھو دے گی۔ لیکن اس کے تو سان و گماں میں بھی نہیں تھا کہ مانیک اس کے ساتھ شادی بھی کر سکتا ہے۔
اب رالف ان دونوں کی تصویریں بنا رہا تھا۔ وہ چپکے سے اٹھ کر اپارٹمنٹ سے باہر نکل آئی۔ اس کا یوں اٹھ کر جانا مانیک کے سوا کسی نے بھی محسوس نہیں کیا تھا۔
’’ہماری پارٹی ڈیو ہے۔‘‘ رالف نے جانے سے قبل یاد دلایا۔
’’اتنا سب ٹھونسنے کے بعد بھی؟‘‘ مانیک نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں۔
’’کیتھی! انکل رابرٹ اور آنٹی کیسے ہیں ؟‘‘ تنہائی ملتے ہی بیلا نے سب سے پہلے ان دونوں کا پوچھا تھا۔ اسے فکر ہو رہی تھی کہ اس کے اقدام کے بعد ان کا کیا رد عمل سامنے آیا ہے۔
’’ڈیڈ تم سے بہت ناراض ہیں۔ انہیں ہرگز امید نہیں تھی کہ تم ان کی موجودگی اور اجازت کے بغیر یوں شادی کر لو گی۔ حالانکہ وہ تمہیں اس شادی پر خود فورس کر رہے تھے۔ لیکن اس حرکت پر انہیں نہ صرف خاصا شاک لگا ہے۔ بلکہ گہرا دکھ بھی ہوا ہے۔‘‘ کیتھرین صاف گوئی سے بولی۔
بیلا کا چہرہ اتر گیا۔ اس نے ایسا تو کبھی نہیں چاہا تھا۔
’’میں انہیں منالوں گی۔‘‘ اس خیال نے اسے مطمئن کر دیا تھا۔
٭٭٭
ایونیو روڈ پر واک کرتے ہوئے دونوں اس جھیل کے کنارے چلے آئے تھے۔ جہاں آبی نرگس کی سنہری کلیاں تھیں اور جس میں چاند کا پورا عکس دکھائی دیتا تھا۔
وہ ہوا کے رخ پہ کھڑی تھی اور مانیک اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ ہوا نے اس کے بال بکھیر کر ماتھے پر گرا دیے تھے۔ سنہری آنکھوں کا رنگ آبی نرگس کے پھولوں جیسا تھا۔ نیوی بلوپینٹ اور سرمئی شرٹ میں وہ ہمیشہ کی طرح بلا کا ہینڈ سم اور دلکش دکھائی دے رہا تھا۔
وہ اسے دیکھنے میں اتنا کھوچکی تھی کہ اب اسے مانیک کی آواز بھی سنائی نہیں دے رہے تھی۔
’’بیلا۔‘‘ اس نے ذرا سا آگے جھکتے ہوئے اس کے رخسار پر چٹکی بھری اور نرگس کے دو سنہری پھول توڑ کر اس کے بالوں میں سجا دیے۔ وہ اس وقت اسی وائٹ برائیڈل فراک میں ملبوس تھی اور ان دو نرگس کے سنہری پھولوں نے جیسے اسے سجا دیا تھا۔ فضا بھی نرگس کے پھولوں سے مہک رہی تھی۔
’’ہم ہنی مون کے لیے کہاں جائیں ؟‘‘ مانیک نے اپنے جوتے اتار دیے تھے اور اب اس کا ہاتھ تھام کر نم آلود گھاس پر چل رہا تھا۔
سردی ریڑھ کی ہڈی میں سرایت کر رہی تھی۔ مگر پروا کسے تھی۔ وہ بیلا کے ساتھ تھا۔ پورے چاند کی رات تھی۔ جھیل کا کنارا تھا۔ نرگس کے پھولوں کی مہک تھی۔ ٹھنڈی گھاس اور یخ بستہ ہوائیں۔ اسے سب بہت رومانٹک لگ رہا تھا۔
’’نیویارک۔‘‘ وہ اپنے شہر کو بہت مس کرتی تھی۔
’’کیوں ؟‘‘ مانیک نے تعجب سے سوال اٹھایا۔ وہ جانتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے سترہ سال نیویارک میں گزارے تھے۔ پھر وہاں جانے کی کیا وجہ تھی۔
’’مجھے تمہیں اپنی مما سے ملوانا ہے۔‘‘
’’لیکن ان کا تو انتقال ہو چکا ہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟ ہم ان کی قبر پر جائیں گے۔ وہ ہم سے بات نہیں کر سکتیں۔ مگر ہمیں دیکھ تو سکتی ہیں اور مجھے تمہارے ساتھ خوش دیکھ کر ان کی روح کو کتنا سکون ملے گا۔‘‘
اس کی کلاس فیلو تھی، فاطمہ۔ جب اس کی والدہ کی وفات ہوئی تھی تو وہ ہر جمعے کو ان سے ملنے جایا کرتی تھی۔ اس نے کہا تھا، جسم مر جاتے ہیں، لیکن روحیں زندہ رہتی ہیں۔ جو ہمیں دیکھتی بھی ہیں اور سنتی بھی ہیں۔
مانیک کو اگرچہ ان باتوں میں کوئی سچائی نظر نہیں آ رہی تھی۔ مگر پھر بھی وہ انکار نہیں کر سکا تھا۔ وہ اس کا دل نہیں توڑ سکا تھا۔ اس نے ساتھ چلنے کی ہامی بھرلی تھی۔
’’اس کے بعد ہم برمنگھم جائیں گے۔ ڈیڈ سے ملنے اور پھر اسپین سے ہو کر سوئٹزرلینڈ۔‘‘
’’اچھا! اور اس کے بعد ؟‘‘ وہ دلچسپی سے بولی۔
’’اس کے بعد جیب خالی ہو جائے گی تو گھر لوٹ آئیں گے۔‘‘ اس نے مصنوعی بے چارگی سے ہاتھ جھاڑے تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’تمہیں پتا ہے، تم آج بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔‘‘ اس نے آبی نرگس کے سنہری پھولوں کی ایک اور کلی اس کے بالوں میں سجادی۔
٭٭٭