آفتاب صاحب اپنے روم میں آرام کر رہے تھے جب ان کے فون پر کسی کی کال آٸی انھوں نے ریسو کی۔
”ہیلو السلام علیکم۔۔“دوسری طرف سنی تھا۔
”وعلیکم السلام بھٸ کہاں ہو کتنا پتا لگوایا کیا پتا لگا۔۔؟؟؟“آفتاب صاحب نے کٸ سوالات ایک کرڈالے۔
دوسری طرف بات سن کر وہ غصے سے اٹھ بیٹھے۔
”کیا بک رہے ہو کیوں نہیں کرپاٶ گے یہ کام بتاٶ جواب دو مجھے بالکل بے کار ہو تم سب۔۔۔“ان کا پارہ ہاٸی ہوگیا۔
”جناب ہم کچھ نہیں کرسکتے آپ جو چاہے کہہ دیں۔۔۔“یہ کہہ کر سنی نے فون رکھ دیا۔
”چھوڑوں گا نہیں پہلے کام کرنے کا وعدہ کیا پھر مکر گۓ۔“وہ بڑبڑاۓ۔
”کچھ پتا لگا ان کا۔۔۔؟“بیگم آفتاب نے بے تابی سے پوچھا۔
”وہ کہہ رہے ہیں ہم یہ کام نہیں کرسکتے۔۔“آفتاب صاحب غصے سے کہتے ہوۓ کمرے سے نکل گٸ۔
☆☆☆☆
”ارے باپ رے۔۔۔۔ جن نے ڈکار لی اف اتنی خوفناک۔۔“جمیل بولا۔
”ہاں۔۔“
”ایمون میرا خیال ہے ہمیں حویلی کے لیے نکلنا چاہیے کیوں کہ ہم فارغ بیٹھ کر کچھ نہیں کر پاٸیں گے اس سے بہتر ہے کچھ کریں۔۔۔“محب نے کہا۔
”بالکل بھاٸی میں بھی یہی کہنا چاہ رہا تھا مگر حویلی پتا نہیں کتنی دور ہوگی۔۔ایمون نے کہا۔
”جتنی بھی دور ہو ہم پہنچ جاٸیں گے۔۔“سجاد بولا۔
”تو پھر بسم اللہ کرو۔۔“
سفر شروع ہوا نہ کہیں جنگلیوں سے آمنا سامنا ہوا نا کوٸی جانور وغیرہ سے ٹکراٶ ہوا۔
مسلسل دو گھنٹے چلنے کے بعد وہ بالکل تھک گۓ مگر سفر جاری رکھا۔
آخر کار حویلی کے آثار دکھاٸی دینے لگے۔
وہ انتہاٸی کھنڈر سی لگ رہی تھی۔
دیواروں میں دراڑیں پڑی تھیں۔ایسا لگ رہا تھا اسے کسی جن نے تعمیر کیا ہو کیوں کہ ایک کھڑکی ایک کمرے جتنی بڑی تھی اب دروازہ تو انسان کی سوچ سے بھی بڑا ہوگا۔
اچانک جمیل کو ٹھوکر لگی اس نے زمین پر دیکھا تو بری طرح کانپ گیا کیوں کہ ایک سر زمین پر پڑا تھا اور پلکیں چھبکا رہا تھا۔
یہ بالکل ویسا ہی سر تھا جیسا جمیل کو پانی میں دکھاٸی دیا تھا اس سر کا بھی دھڑ نہیں تھا۔
جمیل بری طرح تک بکھلایا جب اس نے آگے بڑھنے کے لیے پاٶں بڑھاۓ تو وہ زمین پر ہی جم گۓ۔
اس کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔
اس کے باقی ساتھی اتنی دور تھے کہ وہ اب ایک چیونٹی کی مانند نظر آرہے تھے۔
”محب!!!!!!!!!!!!!!!!!!!.“اس کے منہ سے یہی لفظ نکل سکا۔
اس چہرے کی آنکھیں مسلسل جمیل پر نظریں جماۓ بیٹھی تھیں۔
وہ چاروں چلے جارہے رہے تھے محب کو لگا کسی نے اسے آواز دی ہے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا جمیل دور کھڑا ہاتھ ہلا رہا تھا۔
محب نے باقیوں کو رکنے کا کہا اور خود جمیل کے پاس آگیا۔
”تم ٹھیک تو ہو رک کیوں گۓ۔۔۔؟“محب نے فکرمند ہو کر پوچھا۔
”بھاٸی آپ کس سے بات کر رہے ہیں جمیل تو یہ رہا۔“اچانک سجاد نے کہا۔
محب نے دیکھا دو دو جمیل تھے ایک جمیل محب کے پاس کھڑا تھا اور دوسرا سجاد اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ۔
”دد۔۔۔دو دو جمیل۔۔؟“محب کو چکر سے آنے لگے۔وہ سمجھ چکا تھا ایک جن جمیل کے روپ میں ہے مگر کون سا۔۔؟؟؟
آخر ہمت کرکے سجاد نے اپنے پاس کھڑے جمیل کے کندھے پہ ہاتھ رکھا جو اس کے آر پار ہوگیا۔
”بھ۔۔۔بھاٸی یہ جمیل نہیں ہے۔۔۔“سجاد نے کہا۔
محب کے ساتھ جو اصل جمیل کھڑا تھا وہ بھی گھبرا گیا۔
”آیت الکرسی پڑھو۔۔“جمیل نے کہا۔
پھر جیسے ہی سب نے مل کر آیت الکرسی پڑھی نقلی جمیل دھویں کی شکل اختیار کی پھر مکمل ختم ہوگیا۔
”مم۔۔۔میرا خیال ہے ہمارے اردگرد جنات کھڑی ہے۔۔“وہ سب حویلی کی جانب پھر چل رہے تھے۔
☆☆☆☆
رابوٹ جن کا ساتھی کابوٹ جن بیٹھا دور سے کچھ انسانوں کو دیکھ رہا تھا جو اب حویلی کے دروازے تک پہنچنے ہی والے تھے۔
”ان انسانوں کا یہاں کیا کام رابوٹ کو خبر بجھواٶ کسیلم کہ کچھ انسان حویلی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔۔۔“کابوٹ نے اپنے ملازم کسیلم سے کہا جو کہ انسان تھا وہ کسی دور میں اس طرف بھٹک آیا تھا بعد میں رابوٹ کے اسے اپنا غلام بنا لیا اور مکمل قید کر رکھا تھا۔
”جی حضور جو حکم“کسیلم نے اپنے مخصوص الفاظ کہے۔
”جاٶ۔۔“کابوٹ نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
ادھر کسلیم جس کا اصل نام میر محمد تھا وہ دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا چلو وہ انسان اسے یہاں سے آزاد کو کروا ہی لیں گے۔
مگر ایک خطرہ بھی تھا اسے کہیں وہ اس کی طرح یہاں قید نہ کرلیے جاٸیں انھی سوچوں میں گم میر محمد رابوٹ جن کے کمرے کی طرف گیا۔
”کابوٹ نے خبر بجھواٸی ہے۔۔“
”ہاں کہو کیا بات ہے۔۔۔۔؟“رابوٹ کی دہشت ناک آواز سے وہ دہل کر رہ گیا۔
”کچھ انسان حویلی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔۔۔“
”ہاہاہاہا یعنی رات کا مینیو ہوگیا۔۔“رابوٹ نے قہقہ لگایا۔
ساتھ میں چڑیلوں کی خوفناک دل دہلا دینے والی چیخیں گونجی ان کو انسانوں کے آنے کی خبر جو مل گٸ تھی۔
میر محمد انتظار کرنے لگا۔اچانک وہ اٹھا اور دیوار کے ایک سوراخ سے دیکھنے لگ گیا۔
”ایمون ایمو۔۔۔؟“اچانک اسے ایمون کا چہرہ دکھاٸی دینے لگا۔
”مم۔۔۔مجھے یقین نہیں آرہا میرا بیٹا زندہ ہے۔۔۔“ میر محمد جذباتی ہوگیا۔
”یا اللہ تیرا شکر ہے تونے اتنے سالوں بعد ہی مگر میرے بیٹے ہو مجھ سے ملایا تو سہی۔۔“وہ بلند آواز سے آسمان کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔
ایمون اور وہ کچھ سال پہلے شکار کی نیت سے اس جنگل میں آۓ تھے حویلی پر نظر پڑی وہ تجسس سے وہاں چلے آۓ جو بالکل خالی تھی۔
مگر اچانک سے قہقے بلند ہوۓ پھر میر محمد کو زنجیروں سے جکڑ لیا گیا اور ایمون کو بچہ اور بے کار سمجھتے ہوۓ حویلی کی دیوار سے مارنے کے غرض سے نیچے پھینکا گیا جو بعد میں ڈاکٶں کے ہاتھ لگا انھوں نے اس کی پرورش کی اور اپنی طرح کا کیا۔
جبکہ میر محمد کو غلام بنالیا گیا۔
یہی کہانی طارق کو ایمون نے بتاٸی تھی۔
☆☆☆☆
بس تھوڑا ہی فاصلہ رہ گیا تھا وہ حویلی کے دروازے تک پہنچنے کی والے تھے۔
اردگرد انسانی ہڈیاں پڑی تھیں جسے دیکھ کر وہ دہل سے گۓ۔
”یہی وہ دیوار تھی جس سے ایک جن نے مجھے نیچے پھینکا تھا۔“اچانک ایمون نے کہا۔
”بہت بھیانک یادیں وابستہ ہوں گی پھر تو۔؟“جمیل نے پوچھا۔
ٰبہت بہت ہی زیادہ یہاں میرے بابا کو قید کرلیا گیا پتا نہیں وہ زندہ بھی ہوں گے کہ نہیں۔۔۔“ایمون کی ہمت جواب دے گٸ وہ زمین پر گر پڑا۔
”ایمون ایمون سنبھالو خود کو اگر آپ کے بابا یہاں ہوں گے تو بچا لیں گے ہم انھیں تمھیں وہ اس حالت میں دیکھیں گے تو کیا بیتے گی ان پر۔۔“محب نے اسے حوصلہ دیتے ہوۓ اٹھایا۔
اگلے ہی لمحے ان کے پاٶں حویلی کی پہلی سیڑھی کو چھو رہے تھے۔ان دل دھک دھک کر رہے تھے۔
حویلی کا دروازہ بہت دور تھا۔
انھیں ڈر تھا کہیں کوٸی دروازہ کھول نہ لے اگر ایسا ہوا تو وہ سب پکڑے جاٸیں گے۔
ایمون نے بتایا تھا پکڑے جانے والوں کو تہہ خانوں میں ڈالا جاتا ہے تہہ خانے اس قدر نیچے ہیں کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔پھر قید شدہ انسانوں میں سے ہر رات ایک انسان کو پکڑ کر جنات دعوتیں اڑاتے ہیں۔
وہی ہوا جو ڈر تھا اچانک حویلی کا دروازہ کھلا۔
وہ بوکھلا گۓ۔
☆☆☆☆
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...