اس کتاب کا مسودہ ۲۰۰۳ء میں تیار ہو گیا تھا لیکن آپ کے ہاتھوں تک پہنچتے پہنچتے ۲۰۰۹ء آ گیا۔ اس دوران اس کتاب کا ایک اہم کردار اور بہت عزیز دوست تنویر عباس نقوی ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا۔کتاب کا ایک اور کردار محمود بٹ بھی نہیں رہا۔
ایک آدھ استثناء کے ساتھ، کتاب میں موجودپنجاب یونیورسٹی کے کسی کردار سے رابطہ باقی نہیں رہا۔ اکثر کلاس فیلوز کے بارے میں ٹھیک سے معلوم نہیں کہ اب کون کہاں ہے۔ شنید البتہٰ یہی ہے کہ سبھی کامیاب زندگیاں گزار رہے تھے۔ ایم اے صحافت کے باوجود میری جماعت کی لڑکیوں کو اچھے رشتے مل گئے اور لڑکوں کو اچھی نوکریاں۔
رہا اس کتاب کا مصنف تو وہ نوکری یا پیسے کی بابت تو زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہو سکا البتہٰ اپنی سات ماہ کی بیٹی بیلّا (Bella) اور پارٹنر سحر کے ساتھ بہت خوش ہے۔ جاگتے میں وطن واپسی کے خواب دیکھتا ہے اور نیند میں آنے والے خوابوں میں اب بھی کبھی کبھی پنجاب یونیورسٹی پہنچا ہوتا ہے۔
اسٹاک ہوم۔
۱۶ جولائی ۲۰۰۹