(Last Updated On: )
چپکے چپکے یوں مرے خواب میں آتے کیوں ہو
دھڑکنیں دل کی بڑھا کر چلے جاتے کیوں ہو
عمر بھر ساتھ نبھانے کا کیا تھا وعدہ
ہاتھ تھا مے ہیں تو پھر ہاتھ چھڑاتے کیوں ہو
مجھ سے نفرت ہے اگر تم کو، بتائو تو ذرا
میری تصویر کو ڈی پی میں لگاتے کیوں ہو
کہہ رہے تھے کہ بہت مجھ سے ہے باتیں کرنی
بات کچھ ہے ہی نہیں۔بات بناتے کیوں ہو
منع ہر بار تجھے میں نے کیا ہے پھر بھی
بے سبب باتوں میں یوں ٹانگ اڑاتے کیوں ہو
دل کی دیوار سے نکلے گی صدا کیا اونچی
ایسی دیوار سے تم کان لگاتے کیوں ہو
کون سنتا ہے بھلا قصۂ غم اے اخترؔ
اپنی روداد زمانے کو سناتے کیوں ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔