راجہ پورس کا میلہ شروع تھا وہی راجہ پورس جس نے سکندر کی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
انڈین آرمی نے وہاں ایک گرینڈ میوزیکل شو اور مشاعرے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو رنگوں کی برسات میں نہا گئے۔ اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن دعوتِ سخن دے رہے تھے۔
سب رنگ تیز تھے کوئی بھی پھیکا نہ تھا۔ وہ رنگ کپڑوں کے تھے یا پگوں کے جھنڈیوں کے تھے یا بتیوں کے، پھولوں کے تھے یا جھولوں کے خلوص کے تھے یا محبت کے تھے۔ استقبال کا رنگ تو سب سے جُدا تھا اور کُچھ ایسا والہانہ کے ہمارے پاؤں زمین پر نخوت سے نہیں پڑتے تھے۔
میڈیا کا لشکر اور انڈین آرمی کے افسر ہمیں سب سے پہلے اُس یادگار پر لے گئے جو اُنھوں نے 47ء میں مرنے والے شہیدوں کے لئے تعمیر کی تھی۔ سنگِ سیاہ سے بنی ایک ہاتھ کی پانچ اُنگلیاں پنجاب کے پانچ دریاؤں کا سِمبل ہیں۔ وہاں ایک شخص بار بار یہ الفاظ دہرا رہا تھا کہ تقسیم کے وقت لاکھوں پنجابی قتل ہوئے۔ سکھ یا مسلمان نہیں لاکھوں پنجابی قتل ہوئے، یہ اُن کی یاد میں ہاتھ تعمیر کیا گیا ہے۔
کُچھ دیر پہلے جو پھول ہم پہ نچھاور کیے گئے تھے وہ اب بے رحم جوتوں تلے کُچلے گئے تھے۔ تقسیم کے وقت ہزاروں معصوم لوگ بھی اسی طرح کچلے گئے ہوں گے۔ اس خیال نے مجھے دکھی کر دیا تھا اور میں سڑک کے کنارے آہستہ آہستہ چلتا ہوا اُس بھیڑ اور ہنگامے سے نکل کر دور ایک بنچ پر جا کر بیٹھ گیا۔
کچھ ہی دیر میں فضا ’’پاکستان، ہندوستان دوستی زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ سازوں کی مدّھم لے تیز ہو گئی۔ بھنگڑے ایک بار پھر شروع ہو گئے۔ میرے چہرے پر بھی خوشی پھیل گئی۔ میں نے مغرب میں غروب ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا تو اُس کا چہرہ بھی سُرخ ہو گیا تھا۔ شاید وہ بھی اب اس خطہ میں امن کا خواہاں تھا۔
جیسے جیسے سورج شام کی چادر اپنے جسم پر لپیٹتا گیا ویسے ویسے برقی قمقموں کی جگمگاہٹ میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسٹیج اور پنڈال کو بہت منفرد اور خوبصورت انداز میں سنوارا گیا تھا۔ اسٹیج پر پاکستان اور ہندوستان کا نقشہ اس سلیقے اور مہارت سے بنایا گیا تھا کہ ہر اہم شہر کے سامنے ایک چراغ پڑا تھا۔ مختلف شاعروں، گلوکاروں، فن کاروں، مقررّین اور مہمانوں نے آنا تھا اور اسٹیج پر آ کر اپنے شہر کا چراغ جلانا تھا۔
پنڈال میں کثیر تعداد میں انڈین آرمی کے جوان، آفیسر اور اُن کی فیملیز یہ شو دیکھنے آئی ہوئی تھیں۔ میوزیکل شو شروع ہو چُکا تھا۔ کمپیئر ہر سنگر کو بُلانے سے پہلے با آواز بلند یہ جملہ ضرور کہتا:
’’چُک دے پھٹے اج واج پاکستان تک جانی چاہو دی‘‘۔
میں پاکستانی مہمانوں کے لئے مخصوص آرام دہ صوفوں پر جا کر بیٹھ گیا چونکہ شعراء سے سنگرز کی تعداد زیادہ تھی اس لئے دو تین گلوکاروں کے بعد ایک شاعر کی باری آتی لیکن اس Combination سے محفل کا حُسن دو بالا ہو گیا تھا۔ اسٹیج پر جو بھی جاتا پہلے اپنے شہر کے سامنے رکھا چراغ جلاتا اس طرح ہندوستان اور پاکستان کا نقشہ دھیرے دھیرے روشن ہوتا جا رہا تھا اور بہت پیارا منظر بن رہا تھا۔
وائے حسرت مجھے بہاولپور کے سامنے چراغ جلانے کا موقع میسّر نہ آیا بقول عطاء الحق قاسمی ہر بندے کے حِصے کے کُچھ بے وقوف ہوتے ہیں مگر ہمارے تو وفد کے حِصے میں ایک بیوقوف آیا ہوا تھا اور اُس نے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ یہاں بھی وہ اپنا بے وزن کلام سُنانے کے لئے جب اسٹیج پر پہنچا تو سب شہروں کے چراغ جلا ڈالے۔
شاعر، سنگرز کے سامنے آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ یہاں صدیق ندیم، بشریٰ حزیں، عنایت اللہ عاجز، عابد گوندل، انجم سلیمی، افضل ساحر، طارق گجر اور راقم نے اپنا کلام سُنایا جبکہ سمیرا شہزاد نے گایا اس کے علاوہ انڈیا کے کُچھ ’’تک بند‘‘ شاعر بھی تھے۔ افضل ساحر نے جھولتے اور جھومتے ہوئے پنجابی کی ایک نظم سُنا ڈالی اُس کو کافی داد ملی، نظم پر یا جھول جھول کے پڑھنے پر…. پتہ نہیں
حدِّ نگاہ تک پھیلی رنگ برنگی پگوں سے تھوڑا اوپر چاند بہت انہماک سے یہ شو دیکھ رہا تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور اُسے مخاطب کرتے ہوئے اپنی نظم ’’چاند تم سے شکایتیں ہیں بہت‘‘ سُنا دی۔ اُس کے بعد میں نے اپنی غزل جس کے دو شعر کُچھ اس طرح تھے۔
چلو ہم بھی محبت کر ہی لیں گے
اگر اُس کا ارادہ ہو گیا ہے
بچھڑنے کا اُسے بھی دُکھ ہے شاید
کہ اب تو وہ بھی آدھا ہو گیا ہے
سُنا کر جب اپنی نشست پر آ کر بیٹھا تو ایک سردار جی میرے پاس آئے اور آ کر داد و تحسین کے ڈھونگرے برسانے لگے کہہ رہے تھے واہ جی واہ! آپ نے ہم ہندوستانیوں کے دِل کی بات کی ہے۔
میں نے سر کھُجاتے ہوئے پوچھا؟
وہ کیسے؟
یہی کہ اگر پاکستان کا ارادہ دوستی کا ہو گیا ہے تو ہمیں بھی جنگ کرنے کا کوئی شوق نہیں ہم بھی دوستی کر لیں گے۔ نیز علیٰحدہ مُلک بنانے کا اتنا دُکھ ہوا ہے کہ اب آپ بھی آدھے رہ گئے ہیں۔
سردار جی بڑی بے وقوفی سے میرے شعروں کی تشریح کر رہے تھے اور میں حیرت سے اُن کا مُنہ تک رہا تھا۔
یوں تو تمام سنگرز نے سماں باندھے رکھا۔ سب کا تعلق پنجاب سے تھا مگر ایک بچے نے، جس کی عمر بمشکل دس سال ہو گی، میلہ لوٹ لیا۔ اُس کا اعتماد، آواز اور انداز بے مثل تھا۔
نیتو جی نے بھی بہت خوب گایا وہ پنجاب میں بہت مقبول تھیں وہ صحیح معنوں میں پنجاب کی جٹی تھیں۔ سُرخ گلابی چہرے پر موٹی موٹی نشیلی آنکھیں لمبا قد، بھرا بھرا جسم، قمیض لاچا اور پاؤں میں تِلّے دار کھُسّہ اُس شام شمعِ محفل وہ تھیں۔ اُن کو دیکھے سے مُنہ پر رونق آ جاتی۔ نیتو جی نے جب اسٹیج پر آ کر گانا شروع کیا تو بیماروں کا حال خود بخود اچھا ہو گیا اور جو تندرست تھے اُن کی حالت دیکھنے والی تھی۔
ایک کینیڈا مقیم پنجابی بھی اس محفل میں مہمان تھا۔ وہ گورا چٹا، لمبا چوڑا گھبرو تھا۔ جب اظہارِ خیال کے لئے آیا تو اُس نے ایک گھنٹے تک پنجابیوں کے قصیدے پڑھے مثلاً:
پنجابی خوبصورت ہوتا ہے
پنجابی بہادر ہوتا ہے۔
پنجابی دُنیا میں سب سے زیادہ محنتی ہے۔
پنجابی غیرت مند ہوتا ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔
پنڈال میں بیٹھے سبھی لوگوں نے اُس کے خیالات سے سو فیصد اتفاق کیا اور اُس کے قد جیسی لمبی تقریر بڑے ذوق و شوق سے سُنی۔ ظاہر ہے اپنی تعریف کسے اچھی نہیں لگتی۔
تقریر کے اختتامی لمحات میں پاکستانی وفد کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا شعراء کو ایک یادگاری شیلڈ پیش کی گئی اور اُس کے بعد ایک پُر تکلف ڈنر۔
یہاں ایک انڈین مُسلم سے مختصر سی ملاقات بھی ہوئی جس کا اہتمام سکھوں نے پہلے سے کر رکھا تھا۔ وہ قریبی دیہات میں رہنے والا ایک مفلوک الحال کسان تھا۔ جس کی حالت اُس کے حلیے سے ظاہر تھی۔ اُس کے بچوں کی تعلیم پرورش اور شادی تک کے تمام اخراجات اُس کے گاؤں کے سکھوں نے برداشت کیے تھے۔ اُس کی آنکھیں اور باتیں مجھے آج بھی یاد ہیں۔ اُس کی آنکھیں سکھوں کے لئے تشکر کے جذبوں سے بھری ہوئی تھیں اور وہ بات بات پر اُن کو دُعائیں دے رہا تھا۔ اُس کی حالت پاکستانیوں سے مِل کر ایسی ہو رہی تھی جیسے وہ کوئی سُندر سپنا دیکھ رہا ہو۔ اس مُلاقات کا مقصد تو یہی تھا کہ ہمیں یہ تاثّر دیا جائے کہ سکھ مسلمانوں کے لئے محبت، ہمدردی اور ایثار کا جذبہ رکھتے ہیں۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
مجھے اُن کی یہ سرگرمی پسند آئی کیونکہ یہ دلوں کو قریب لانے والی تھی۔ یہ عمل ماضی کی نفرتوں کے شعلے بجھا کر حال کی محبتوں کے چراغ جلانے جیسا عمل تھا۔
بحیثیتِ پبلشر بھی میرا تعارف انڈین رائٹرز کے لئے بہت پُر کشش رہا۔ اس لئے میرے پاس اُن کی دی ہوئی کچھ کتابیں اکٹھی ہو گئیں، اور وہ بھی مختلف بھاشاؤں میں۔
جس رائٹر کو پتہ چلتا پاکستان کے ایک پبلشر بھی اس وفد میں شامل ہیں تو وہ ڈھونڈ کر بڑی گرم جوشی سے آ کر ملتا اور اپنی کتاب یا کتابیں عقیدت و محبت کے جذبات کے علاوہ اس خواہش کے ساتھ پیش کرتا کہ اگر یہ کتابیں ترجمہ ہو کر پاکستان سے شائع ہو جائیں تو ہزاروں میں فروخت ہوں، پبلشر تو لاکھوں کمائے مگر جذبۂ خیر سگالی کے طور پر رائٹر رائلٹی نہیں لے گا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ میں بیٹھے بیٹھے اُن کے منوں احسان تلے دب جاتا۔ مجھے پتہ چلا کہ اسی طرح کی کاروائی پاکستانی رائٹرز بھی انڈین پبلشرز کو ڈالتے ہیں یہ بات سُن کر کُچھ دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا کہ چلو حساب برابر ہو رہا ہے۔
اگلی صبح ہم دلی کے لئے روانہ ہو گئے۔
٭٭٭
دنیا کا تیسرا بڑا شہر دہلی جدید ہندوستان کا بھی دار الحکومت ہے۔ یہ شہر در حقیقت دو شہروں کا مجموعہ ہے۔ پُرانی دہلی جو سترہویں صدی سے مسلمان حکمرانوں کا پایہ تخت ہے۔ شہر کا یہ حصہ آج بھی اس کی بہت سی یادگاروں کا نگہبان ہے۔ اس شہر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس دوران کچھ عرصہ آگرہ مغلوں کا اور بعد ازاں کلکتہ انگریزوں کا دار الحکومت رہا لیکن اس شہر کی اہمیت بہرحال برقرار رہی۔ شہر کا دوسرا حصہ نئی دہلی کہلاتا ہے جو انگریزوں کا بسایا ہوا ہے۔ شہر کے قابل دید مقامات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چاندنی چوک، لال قلعہ، مزارِ حضرت نظام الدین اولیاء، مزارِ امیر خسرو، مزارِ مرزا غالب، دیوانِ عام، دیوانِ خاص، شاہی حمام، موتی مسجد، رنگ محل، جامع مسجد، فیروز شاہ کوٹلہ اور راج گھاٹ ان میں سے چند ہیں۔ نئی دہلی کے اہم مقامات میں کناٹ پیلس، جنتر منتر، لکشمی نارائن مندر، راج پتھ، گیٹ آف انڈیا، راشٹرپتی بھون اور سنسد بھون وغیرہ شامل ہیں۔ شہر کے بہت سے عجائب گھر بھی قابلِ دید ہیں۔
اردو بولنے والوں کے لئے دلّی کی اہمیت علمی و ادبی بھی ہے۔ دلی کی اہمیت کے لئے تو شاید ایک بات ہی کافی تھی کہ غالب کا شہر ہے۔ اُردو شعر و ادب نے اپنی بہت سی ارتقائی منازل اسی شہر میں طے کیں۔
اس شہر سے گزرنا گویا مسلمانانِ برصغیر کی تاریخ میں سفر کرنا ہے۔
٭٭٭