(Last Updated On: )
چبھن نہیں ہے مگر اضطراب کافی ہے
ہماری آنکھ کو تیرا ہی خواب کافی ہے
وہ چنتا رہتا ہے کلیاں نہ جانے کیوں دن بھر
مرے چمن کو فقط اک گلاب کافی ہے
میں اس کی یادوں کو اوڑھوں کہ پھینک دوں باہر
خیال یہ ہے کہ میرا جواب کافی ہے
کبھی تو آنکھ تمھاری بھی زیر آب آئے
مجھے تو ریت کا سراب کافی ہے