(Last Updated On: )
رمشا گھر سے نکلنے کے بعد سیدھی رومیسہ کی طرف گئ جہاں ماہم اور رومیسہ اس کے انتظار میں تھیں۔ وہ دونوں اسے گیٹ پر ہی مل گئ تھیں۔ آج ان تینوں کا ارادہ مونال جانے کا تھا۔۔
“آج تو بہت مزہ آۓ گا مشی۔۔ ایبک بھی ادھر آ رہا ہے۔۔” رومیسہ نے اپنے کزن کا ذکر چھیڑا جس کے ساتھ پچھلے ہفتے ہی یہ تینوں لنچ کر چکی تھیں۔۔
“ارے میسی اپنے اس ڈفر کزن کو مت بلایا کرو۔۔۔ وی وانٹ سم تھنگ نیو۔۔۔ کیوں ماہم ٹھیک بولا ناں میں نے۔۔۔؟؟” رمشا نے ڈرائیو کرتے ہوۓ بیک ویو مِرر میں ماہم کو دیکھتے ہوۓ اس کی تائید چاہی۔
“میرے لیۓ تو اس کا کوئ بھی کزن چل جاۓ گا لیکن تمہارا ٹَیسٹ دیکھتے ہوۓ مجھے لگتا ہے کہ ابھی تک تمہارے دل کو فتح کرنے والا پیدا بھی نہیں ہوا۔۔۔” ماہم نے رمشا کی نفی کی۔۔ وہ تو کسی بھی لڑکے کے ساتھ آسانی سے سیٹ یو جاتی تھی۔۔
“یُو نَو میں سٹینڈرڈ پر کمپرومائز کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔۔۔” رمشا نے شانِ بے نیازی سے کہا۔۔
“ارے یار کچھ ٹائم کی تو بات ہوتی ہے۔۔ کونسا شادی کرنی ہے۔۔۔ سٹینڈرڈ کا اچار تو نہیں ڈالنا ہم نے۔۔۔” ماہم ایک دم میں بولی۔۔
“ارے ہاں تمہارا وہ رامش کیسا یے۔۔۔ کہاں تک پہنچی بات۔۔۔؟” رمشا کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی رومیسہ نے سوال کیا۔۔
“منگنی تک پہنچ چکی ہے لیکن اس سےآگے کبھی نہیں جاۓ گی۔۔۔”
تینوں نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا۔۔۔۔
*——————–
فرمان نواز جب سے آفندی ہاؤس سے لوٹے تھے دردانہ بیگم کافی اکھڑی اکھڑی سی تھیں۔ ٹھیک طرح سے بات ہی نہیں کر رہی تھیں۔ فرمان نواز نے انھیں منگنی کے حوالے سے شاپنگ کے لیۓ کچھ رقم دی تو انھوں نے وہیں بیڈ پر پھینک دی۔
“فرمان صاحب اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب کرنے کے لیۓ آپ مجھے مجبور کر سکتے ہیں تو آپ کی بھول ہے۔۔۔ میں کل بھی اس رشتے کے خلاف تھی اور آج بھی ہوں۔ جب آپ میری مرضی کے بغیر رشتہ طے کر سکتے ہیں تو پھر یہ سب بھی خود ہی سنبھال سکتے ہیں۔۔۔” دردانہ بیگم کھڑکیوں کے کرٹن آگے کرتے ہوۓ بولیں۔۔۔
“دردانہ بیگم آپ کی بے جا ضد ہمارا گھر تباہ کر کے رکھ دے گی۔۔ ہم نے بہت کچھ سوچ کر ہی پارسا کو رد کیا ہے۔۔۔”
“سب جانتی ہوں میں۔۔ آپ کو تو میرے خاندان والے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔۔۔ آپ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ میری بھانجھی اس گھر میں آۓ۔۔۔ دو ٹکے کی لڑکی کے لیۓ آپ۔۔۔۔۔” ابھی دردانہ بیگم بول ہی رہی تھی کہ ایک ذناٹےدار تھپڑ ان کے گال پر پڑا۔۔۔۔
“بہت سن لی آپ کی بکواس, اب مزید نہیں۔ اگر اس گھر میں رہنا ہے تو وہی سب کرنا ہو گا جو ہم کہتے ہیں۔۔۔” فرمان صاحب غصے سے لال پڑ گۓ۔۔۔ شادی کے ستائیس سالوں میں پہلی مرتبہ انھوں نے دردانہ بیگم پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔
“فرمان صاحب دکھا دی آپ نے اپنی مردانگی۔۔۔۔ کر لیا اپنا شوق پورا۔۔۔ اب اس گھر میں رہنے کے لیۓ میرے پاس کوئ وجہ بھی نہیں رہی۔۔۔ آپ کو اس گھر کی خوشیاں مبارک۔۔۔” وہ سیدھی الماری کی طرف بڑھیں اور اپنا بیگ نکال کر اس میں سامان ڈالنے لگیں۔۔ فرمان نواز کمرے سے باہر نکل گۓ۔
*——————–
رمشا, رومیسہ اور ماہم مونال پہنچ گئ تھیں۔ رمشا نے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور وہ تینوں راہداری سے ہوتی ہوئ نیچے اوپن ائیر میں آ گئیں۔ وہاں پہلے سے ہی کافی رش تھا اس لیۓ انھیں اپنے ٹیبل کے لیۓ پانچ منٹ انتظار کرنا پڑا۔ اب وہ تینوں اسلام آباد کے اس ویو کو انجواۓ کر رہی تھیں جسے دیکھنے کے لیۓ بہت سے لوگ اس چوٹی پر بنے مونال کا رُخ کرتے ہیں۔۔
“کتنا مبہوت کر دیتا ہے یہ ویو مجھے۔ جب بھی آتی ہوں تو یوں لگتا ہے فرسٹ ٹائم آئ ہوں۔ میں تو ان سب کو داد دیتی ہوں جنہوں نے اس جگہ پر مونال بنانے کا سوچا ورنہ ہم اس ویو سے محروم ہو جاتے۔” رمشا اس وقت اس طرح سے بیٹھی ہوئ ایک بچی لگ رہی تھی جسے اپنی پسندیدہ چیز مل گئ ہو۔۔
“ان لوگوں کا اس میں کوئ کمال نہیں۔ یہ سب تو قدرت کے کرشمے ہیں اور قدرت اپنا آپ منوانا جانتی ہے۔۔۔” ایبک اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا تو وہ چونکی۔۔۔
“یہ سب تو سائنس کا کمال ہے۔۔ مجھے اس قدرت پر بالکل ٹرسٹ نہیں۔۔۔” رمشا نے لا پرواہی سے شانے اچکاۓ۔۔
“ہو جاۓ گا ٹرسٹ بھی۔۔ پہلے اس بندے پر تو ٹرسٹ کر لو۔۔۔” ایبک وہیں رمشا کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔
“ایبک ڈئیر یہاں پر ہم بھی موجود ہیں جو اپنا آپ بچھانا جانتے ہیں۔۔۔ ایک نظرادھر بھی ڈال دو۔۔۔” رمشا کی ناپسندیدگی کو دیکھتے ہوۓ ماہم نے ایبک کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔۔۔
“کیوں نہیں ماہم۔۔۔ تم جان مانگ کر دیکھو تو وہ بھی حاضر ہے, نظر کا کیا ہے۔۔” ایبک نے بے باکی سے کہا۔۔۔
ان چاروں نے ساتھ میں ڈنر کیا اور پھر آئس کریم کھائ۔۔ ایبک چلا گیا تو تینوں لڑکیاں جیولری سیکشن کی طرف آئیں جہاں رمشا نے اپنے لیۓ کچھ جیولری پسند کی۔۔ رانیہ کے لیۓ بھی اس نے ہیوی سٹونز والا نیکلس لیا۔۔۔
*————————*
اتنی رات کو دردانہ کو اپنے دروازے پر دیکھ کر سلطانہ بیگم کو تو ہول اٹھنے لگے۔۔ وہ اسے سیدھا سٹور روم میں لے گئیں اور اس سے ساری روداد سنی۔
“ارے بیوقوف اس طرح سے گھر چھوڑ کر تو تُو نے فرمان کو پوری چھوٹ دے دی ہے۔ اتنا تو سوچ لیا ہوتا کہ میری پارسا کا کیا ہو گا۔۔” سلطانہ بیگم اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔۔ انھیں دردانہ سے اس بیوقوفی کی توقع نہیں تھی۔۔
“آپا میں کیا کرتی, میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ میں نے یہ سب پارسا کے لیۓ ہی تو کیا ہے ورنہ کس چیز کی کمی تھی مجھے اس گھر میں۔” دردانہ اپنی آپا کے سینے سے لگ کے رونے لگی۔۔۔
“میری مان تو صبح ہوتے ہی اپنے گھر واپس چلی جا۔ اس طرح تیرا گھر بھی بچ جاۓ گا اور میری پارسا کا راستہ بھی بن جاۓ گا۔۔”
“میں اب وہاں کبھی نہیں جاؤں گی آپا۔۔ اتنی ذلت کے بعد میں اس آدمی کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔ رامش کو میری پرواہ ہوئ تو مجھے مل لے گا۔۔۔”دردانہ نے دو ٹوک فیصلہ سنایا تو سلطانہ بیگم برہم ہو گئیں۔
“دیکھ دردانہ میں نے ایسے ہی بال نہیں سفید کیۓ۔ آج تک تجھے جو بھی مشورہ دیا اس میں تیری ہی بھلائ تھی۔ اب اگر تجھے اپنی آپا پر یقین ہے تو سن لے میری بات اور واپس چلی جا, ورنہ تو میں سمجھوں گی میری کوئ بہن ہی نہیں۔” آخر کار دردانہ کو سلطانہ بیگم کی بات ماننی ہی پڑی۔۔
صبح فرمان نواز آفس کے لیۓ نکل رہے تھے جب ان کی نظر دروازے سے اندر آتی دردانہ پر پڑی۔ وہ ایک حقیر نظر اس پر ڈال کر باہر نکل گۓ۔ رامش ابھی تک اپنے کمرے میں تھا اس لیۓ اسے اس سب کی خبر نہیں تھی۔۔ دردانہ نے تو شکر کیا ورنہ وہ اپنے بیٹے کو کیا بتاتی کہ ایک ہی رات میں ان کی بہن نے انھیں واپس بھیج دیا۔
*————————*
تانیہ کے کیس کا ایک اور اہم گواہ شہریار آفریدی نے ڈھونڈ نکالا تھا۔ اس کا نام مہتاب گل تھا اور وہ تانیہ کا چچاذاد بھائ تھا۔ اس نے شہریار آفریدی کو ساری تفصیل بتائی
“جب مجھے پتا چلا کہ چوہدری صاحب کے ہاتھ غلام فرید نے تانیہ کا سودا کیا تو میں اس کے پاس گیا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ میں تانیہ سے شادی کروں گا, وہ اسے فروخت نہ کرے لیکن اس نے میری ایک نہ سنی۔ اگلے دن میں پولیس اسٹیشن جانے کا سوچ رہا تھا تو مجھے چوہدری دلاور جہانگیر کے خاص بندے اٹھا کر ایک کوٹھری میں لے گۓ۔ انھوں نے مجھے بہت مارا کہ میں تانیہ کا نام نہ لوں, اب وہ چوہدری کی عزت ہے۔ مارنے کےبعد مجھے مردہ سمجھ کر انھوں نے ایک ڈھیر پر چھوڑ دیا لیکن میں زندہ تھا۔۔”
“کیا آپ میرے ساتھ چل کر گواہی دے سکتے ہیں۔۔؟” شہریار آفریدی نے مہتاب گل سے ریکیوسٹ کی۔۔
“دیکھو صاحب آپ خود بھی مرو گے اور ساتھ میں مجھے بھی مرواؤ گے۔۔ میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئ۔” مہتاب گل کی جگہ کوئ بھی ہوتا تو وہ اس گواہی کے لیۓ تیار نہ ہوتا۔ چوہدری دلاور جہانگیر کی دہشت ہی اتنی تھی۔
“اگر تانیہ آپ کی سگی بہن ہوتی تو کیا آپ اسے انصاف نہ دلاتے۔ ” شہریار آفریدی نے ایک آخری کوشش کرنے کا سوچا۔۔
“ٹھیک ہے صاحب میں آپ کے ساتھ چلوں گا۔۔ میں گواہی دے کر واپس آ جاؤں گا, پھر آپ جانے اور قانون جانے۔۔۔” کافی دیر تک سوچنے کے بعد مہتاب گل نے حامی بھری تو شہریار آفریدی نے شکر ادا کیا۔۔۔
*———————–*
“رامش تم کیوں میری لائف کو خراب کر رہے ہو۔۔۔” رامش کے فون اٹھاتے ہی رمشا اس پر برس پڑی۔
“میں تو تمہاری لائف کو سیٹ کرنا چاہتا ہوں رمشا۔۔ یاد ہے جب تم۔۔۔”
“بچپن کی باتیں یاد کروانے سے میرا فیصلہ بدل نہیں سکتا رامش۔ کیا تم میں اتنی ہمت ہے کہ میرے انکار کے باوجود مجھے اپناؤ۔۔” رمشا نے رامش کو چیلنج کرنے والے انداز میں پوچھا۔۔
“یہ فیصلہ سب نے مل کر کیا ہے۔ اس میں صرف میرا دخل تو نہیں ہے۔ بہتر یہی ہو گا تم بھی یہ سب قبول کر لو ورنہ خالی ہاتھ رہ جاؤ گی۔۔۔” رامش نے اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوۓ رمشا کو سمجھانا چاہا۔۔۔
“اوہ پلیز رامش یہ فلمی ڈائیلاگز میرے سامنے مت بولا کرو۔۔۔ میں تمہیں لاسٹ ٹائم وارن کر رہی ہوں کہ پاپا کو منع کر دو ورنہ نتائج کے ذمہ دار تم خود ہو گے۔۔۔”
“کبھی بھی نہیں مس رمشا آفندی۔۔ اب تو میں اپنے فیصلے پر تب تک قائم رہوں گا جب تک تم اس گھر میں آ نہیں جاتی۔۔۔” رامش نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔۔ اب یہ لڑکی اس کے لیۓ چیلنج بن چکی تھی جو اسے ہر حال میں جیتنا تھا۔۔
رمشا کو اپنا آپ اس مچھلی سا محسوس ہو رہا تھا جو پانی میں جانے کے لیۓ تڑپ رہی ہو مگر پانی میسر نہ ہو۔۔ وہ ہارنے والوں میں سے نہیں تھی لیکن رامش اسے ہرا رہا تھا۔۔۔۔
“میں تمہاری زندگی کو جہنم بنا دوں گی رامش نواز۔۔۔ جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔” رمشا نے موبائیل بیڈ پر پٹخا اور کار کی چابی اٹھا کر باہر نکل گئ۔۔۔
رمشا گھر سے نکلنے کے بعد کافی دیر بے وجہ سڑکوں پر گاڑی دوڑاتی رہی۔ پھر اسے رومیسہ کا خیال آیا تو وہ آُس کی طرف گئی۔۔۔ اس نے رومیسہ کو ساری بات بتائ۔
“تم ایسا کرو کہ یہ منگنی کر لو۔ اس کےبعد کیا کرنا یے میں تمہیں بعد میں بتاؤں گی۔۔” رومیسہ نے اس کو ایک دوستانہ مشورہ دیا۔
“تم کیا سوچ رہی ہو میسی۔۔ مجھے بھی کچھ بتاؤ۔۔۔”
“بس تھوڑا سا صبر رکھو میری جان۔۔۔ پھر سب پتا چل جاۓ گا۔۔۔” رومیسہ کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ سج گئ۔۔
“تم جو سوچ رہی ہو وہ بولو۔۔ میری تو جان سولی پر لٹکی ہوئ ہے۔۔” رمشا کو اس مسئلے سے نکلنا تھا, اسی لیۓ وہ جاننا چاہتی تھی کہ رومیسہ آخر کیا سوچ کر بیٹھی ہوئ ہے۔
“ایبک سے شادی کرو گی۔۔۔؟؟” رومیسہ نے رمشا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔۔۔ یہ سوال اتنا اچانک تھا کہ رمشا اپنی جگہ پر ساکت ہو گئ۔۔
“یہ تم۔۔۔ کیا ۔۔۔ کہہ رہی ہو۔۔۔ میسی۔۔ میں کیسے۔۔۔ ایک کر۔۔۔ کررر۔۔۔رسچن سے۔۔۔۔۔” وہ بہت اٹک اٹک کر بول رہی تھی۔۔۔
“تو پھر جاؤ رامش سے منگنی کرنے۔۔۔ یہاں میرے پاس کیا لینے آئ ہو۔۔۔۔” رومیسہ نے ایک دم سے آنکھیں پھیر لیں۔ رمشا کو اس سب کی توقع نہیں تھی۔۔ اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور باہر نکل گئ۔۔۔
“شادی تو تمہاری ایبک سے ہی ہو گی مشی۔۔ چاہے ایسے یا ویسے۔۔۔۔” پورے کمرے میں رومیسہ کے قہقہے گونجنے لگے۔۔۔
*———————–*
دردانہ بیگم آج شاپنگ کرنے گئ تھیں۔ انھوں نے رمشا کے لیۓ رائل بلیو فراک پسند کیا تھا جس پر کافی ہیوی کام ہوا تھا اور اپنے لیۓ بھی جارجٹ کا کامدار سوٹ لیا۔ وہ لاکھ فرمان نواز سے ناراض سہی لیکن اپنی شان و شوکت کا بھرم بھی تو رکھنا تھا۔ شام کو واپس آ کر انھوں نے سارے بل بیڈ پر پھینکے جہاں فرمان صاحب لیپ ٹاپ پر مگن تھے ۔۔
“یہ رہا آپ کے پیسوں کا حساب۔ میں نے ایک روپیا بھی اس سے باہر نہیں خرچ کیا۔۔۔”
“آپ کے بیٹے کی شادی ہے۔ آپ جتنا چاہیں خرچ کر سکتی ہیں۔۔۔” فرمان صاحب نے بلز کو دیکھے بغیر ہی کہا۔۔
“ہوں۔۔۔ میرا بیٹا۔۔۔۔ کاش کہ رامش میرا بیٹا ہوتا تو آج میں اس طرح سے۔۔۔۔۔ خیر جانے دیں فرمان صاحب۔۔۔ گِلے ان سے کیۓ جاتے ہیں جو ان کو دور کرنا جانتے ہوں۔۔۔”
“آپ کب سمجھیں گی کہ آپ کی بہن کو صرف آپ کے پیسے سے مطلب ہے۔۔۔ ہم سب آپ کے خیر خواہ ہیں۔۔۔” فرمان صاحب نے یمیشہ کی طرح دردانہ بیگم کو سمجھانا چاہا لیکن ان کی آنکھوں پر تو سلطانہ بیگم نے پٹی باندھی ہوئی تھی۔۔
“بس کریں فرمان صاحب۔۔ اگر میں اس گھر میں واپس آئی ہوں تو اپنی آپا کی ہی وجہ سے۔۔۔”
فرمان نواز نے چُپ رہنا ہی مناسب سمجھا۔ وہ ماحول کو مزید کشیدہ نہیں بنانا چاہتے تھے۔۔
*———————–*
گھر آنے کے بعد رمشا کا ذہین کافی الجھا ہوا تھا۔ ایک طرف تو وہ رامش سے منگنی نہیں کرنا چاہتی تھی تو دوسری طرف ایبک سے شادی پر بھی اس کا دل نہیں مان رہا تھا۔ وہ کیسے ایک کرسچن سے شادی کر سکتی تھی۔ اس نے خود کو پرسکون رکھنے کے لیۓ ٹیبلٹ لے لی اور نیند کی وادی میں کھو گئ۔۔۔
اگلے پورے دن وہ کمرے میں پڑی سوتی رہی۔ کسی نے اس کو جگانے کی زحمت نہیں کی۔ مشال آفندی نے سوچا کہ شاید وہ منگنی کو لے کر سب سے کٹ گئی ہے۔۔ خود ہی ٹھیک ہو جاۓ گی۔۔ شام کو پانچ بجے کے قریب اس کی آنکھ کھلی۔۔ وہ اٹھی, فریش ہوئی اور باہر لان میں آ کر بیٹھ گئ۔ رضیہ نے وہیں اسے چاۓ لا کر دی۔۔۔ ناشتے کے بعد وہ رانیہ کی طرف چلی گئ۔ رانیہ اسے بہت تپاک سے ملی۔۔
*———————–*
“کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلاۓ اُڑ رہے ہیں۔؟؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے, اود اللہ سب جانتا ہے جو کچھ یہ کرتے ہیں۔” (النور ٤١)
“اللہ ساری کائنات کا نور ہے۔ اس نور کی طرف رہنمائ کرنے والے بے شمار نشانات ہیں کہ اگر کوئ دل کی آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے ہر چیز میں اللہ کی نشانیاں نظر آئیں گی۔ زمیں اور آسمانوں کی طرف انسان دیکھے تو اسے معلوم ہو گا کہ ہر چیز اپنے اپنے طریقے سے اللہ کے ہونے کا پتا دے رہی ہے, اس کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔ ان بلند و بالا پہاڑوں کو دیکھو اور آسمان کو دیکھو کہ کس طرح سے بغیر سہارے کے موجود ہے, اس سے اہل بصیرت کو پتا چلتا ہے کہ اللہ ہر وقت اپنا کام کر رہا یے۔ ان پرندوں پر ایک انسان غور کرے کہ کس طرح اپنے پروں کے سہارے ہوا میں اڑ رہے ہیں, یہ پرندے بھی اللہ کی تسبیح کا طریقہ جانتے ہیں۔ یہ بھی اس پاک پروردِگار کے ہونے کا پتا دیتے ہیں۔۔ کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے طریقے سے اللہ کی تسبیح بیان کر رہی ہے اور اللہ سب سے باخبر رہتا ہے۔ مگر عقل کے اندھوں کو اللہ کہیں بھی نظر نہیں آتا۔”
*———————-*
وہ دونوں رانیہ کے کمرے میں تھیں جب رمشا نے بات شروع کی۔۔
“رانیہ مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔۔۔ وہ ایکچیولی میری ایک فرینڈ کو کچھ ہیلپ چاہیۓ تھی۔۔”
“مجھے اچھا لگے گا اگر میں تمہاری فرینڈ کے کچھ کام آ سکوں۔۔”
“ایک مسلمان لڑکی کے لیۓ کرسچن سے شادی کے بارے میں تمہاری کیا راۓ ہے۔۔۔” رمشا کے اس سوال پر رانیہ چونکی۔۔ اس نے رمشا کی بے چینی کو نوٹ کر لیا تھا لیکن ایک دم میں خود کو کمپوز کر کے بولی۔
“ایک مسلمان لڑکا تو اہلِ کتاب سے شادی کر سکتا یے مگر ایک لڑکی کے لیۓ یہ سب جائز نہیں۔۔۔”
“اگر وہ کسی بہت مشکل میں ہو تو پھر۔۔۔۔” رمشا نے ایک دم میں اپنی نظریں نیچے کر دیں۔۔ رانیہ کو دیکھ کر یہ سوال کرنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔
“دیکھو رمشا میں جانتی ہوں کہ تمہاری فرینڈ کسی بڑی مشکل میں ہی ہو گی تب ہی وہ اتنا بڑا قدم لینے کا سوچ رہی ہے۔ تم اسے سمجھاؤ کہ جس چیز کی ہمارا مذہہب اجازت نہیں دیتا اس سے دور ہی رہنا چاہیۓ۔۔۔” رانیہ نے رمشا کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تو اسے کچھ حوصلہ ملا۔۔
“لیکن رانیہ اگر کوئ اور راستہ نہ بچے پھر۔۔۔”
“میں نہیں سمجھتی کہ ایک کرسچن سے شادی ہی آخری راستہ ہو۔۔ وہ اللہ جو انسان کو ستر ماؤں سے ذیادہ چاہتا ہے وہ کیسے اسے اس دوراہے پر لا کر کھڑا کر سکتا ہے۔۔ تم اپنی فرینڈ کو بتاؤ کہ وہ اللہ سے اس کی محبت مانگے, اس کو حل مل جاۓ گا۔۔”
“اگر وہ اللہ سے بہت دور ہو تو پھر اللہ اس کی مدد کیوں کرے گا۔۔۔” رمشا کی آنکھوں میں آنسو آ گۓ تو اس نے ایک دم ٹشو لیا اور آنکھیں صاف کیں۔۔
“دیکھو رمشا چاہے انسان اللہ سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو جاۓ, وہ اپنے بندے کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا, ہم دو قدم اس کی طرف بڑھائیں تو وہ چار قدم ہمارے قریب ہو گا۔۔ وہ فرماتا ہے کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔۔۔”
“تھینک ہو رانیہ۔۔۔۔ تم سے بات کر کے مجھے بہت سکون ملا ہے۔۔۔” اس نے ہلکے سےمسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔۔۔
اس کے بعد رمشا اٹھ کر چلی گئ۔۔ رانیہ آواز کرتی رہی کہ آج کا کھانا وہ ان کے ساتھ کھاۓ لیکن اسے وہاں سے جانے کی بہت جلدی تھی۔۔
*———————-*
شہریار آفریدی تانیہ کا کیس جیت چکا تھا۔۔ تانیہ کے بھائ اور دلاور جہانگیر کو سزا مل گئ تھی۔۔ ہر چینل پر اسی کا تذکرہ ہو رہا تھا۔۔ اس کی قابلیت کو سراہا جا رہا تھا۔۔۔ وہ بہت خوش تھا لیکن یہ خوشی وہ کسی سے بھی شئیر نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ اتنے دنوں سے کام کی وجہ سے وہ رانیہ کو فراموش کیۓ ہوۓ تھا لیکن اب مزید نہیں۔۔۔ وہ سیدھا بس سٹاپ کی طرف گیا جہاں پر رانیہ اسے نظر آ گئ۔۔ وہ اکیلی کھڑی تھی اور اس نے وہی لاسٹ ٹائم والا سیاہ عبایا اوڑھا ہوا تھا۔۔
“رانیہ میں چاہتا ہوں کہ اگلے کیس کی سیلیبریشن میں آپ میرے ساتھ ہوں۔۔ میرے ہر قدم پر میرے ساتھ ساتھ چلنے کے لیۓ۔۔” رانیہ کے ساتھ کا سوچ کر ہی شہریار آفریدی میں ایک نئی روح سی بھر گئ۔۔
بیس منٹ شہریار آفریدی وہیں کھڑا رہا مگر ابھی تک رانیہ کی بس نہیں آئ تھی۔۔ رانیہ کے پاس ٹیکسی کا کرایہ نہیں تھا تو اس نے پیدل جانے کا سوچا۔۔ وہ تھوڑا سا آگے گئ ہو گی کہ شہریار نے اس کے پاس آ کر گاڑی روکی اور شیشہ نیچے کیا۔۔
“آئیے رانیہ میں آپ کو ڈراپ کر دوں۔۔۔ اس طرح سے پیدل چل کر آپ خود کو تھکا دیں گی۔۔”
“نہیں بہت شکریہ میں چلی جاؤں گی۔۔ آپ فکر نہ کریں مجھے عادت ہے خود کو تھکانے کی۔۔” اس نے شہریار کو بتایا اور پھر آگے چلنے لگی۔۔ شہریار کی گاڑی بھی اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔۔
“شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں ہے اسی لیۓ منع کر رہی ہیں۔۔ میں علی احمد انکل کا بھانجا ہوں۔۔۔”
“میں آپ کو پہچان چکی ہوں شہریار صاحب۔۔ رمشا نے ایک مرتبہ آپ کا بتایا تھا لیکن آپ جائیں پلیز۔۔ میں آپ کے ساتھ نہیں آ سکتی۔۔۔” رانیہ یہ کہہ کر وہاں نہیں رکی۔۔ اس نے اپنے قدم تیز کر دئیے۔۔ شہریار نے بھی اپنی گاڑی ریورس کی اور تانیہ کی طرف چلا گیا جہاں وہ نئے خواب سجاۓ اس کا انتظار کر رہی تھی۔۔
*——————–
رمشا بہت شش و پنج میں مبتلا تھی۔ رانیہ اسے جو راستہ بتا رہی تھی وہ اس پر نہیں چل سکتی تھی۔ اللہ کے سامنے جھکنا دور, اس نے کبھی اس سے کچھ مانگا بھی نہیں تھا۔ اسے لگتا تھا کہ دنیا کی ہر چیز اس کے سامنے رکھنے والے اس کے بابا ہیں۔ وہ سیدھی کیفے رُوف ٹاپ گئی۔ وہاں رنگ برنگی لائٹیں جل رہی تھیں جو ہر طرف ایک فسوں بکھیر رہی تھیں۔ رمشا نے چاکلیٹ فلیور شیشا آرڈر کیا۔ شیشے کا دھواں ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ رمشا پائپ کی مدد سے دھواں اپنے وجود میں اتارتی جا رہی تھی اور اس کے اندر ایک سکون کی لہر پھیلتی جا رہی تھی۔۔ بیگ میں اس کا فون مسلسل بج رہا تھا مگر وہ اسے اگنور کر رہی تھی۔۔
*————————
“شہریار صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔ آپ کی وجہ سے میں یہ جنگ جیتی ہوں۔۔ ورنہ مجھ بیچاری کو کون پوچھتا۔” شہریار آفریدی کو دیکھتے ہی تانیہ تشکر آمیز لہجے میں بولی۔
“شکریہ کی کوئی بات نہیں۔ یہ تو میرا فرض تھا۔۔ چلو اب گھر چلیں۔۔۔۔” شہریار یہ کہہ کر باہر نکل گیا تو تانیہ کے وجود میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئ۔۔ یہ الفاظ تھے یا کوئ جادو۔۔ شہریار اسے گھر چلنے کے لیۓ کہہ رہا تھا۔۔
“شہریار صاحب جس طرح آپ نے میری زندگی میں رنگ بھرے ہیں, اسی طرح ایک دن میں بھی آپ کے گھر کے ساتھ آپ کی زندگی میں قدم رکھوں گی۔۔۔” شہریار کے پیچھے جاتے ہوۓ وہ دل ہی دل میں اسے مخاطب کرنے لگی۔۔۔
شہریار کے گھر پہنچ کر تانیہ کو بہت ہتک کا احساس ہو رہا تھا۔ پورے راستے وہ سوچ رہی تھی کہ سب لوگ اس کے استقبال کے لیۓ کھڑے ہوں گے مگر وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔۔ ملازمہ نے اس کا سامان اٹھایا اسے اس کے کمرے تک چھوڑ آئی۔
“شہریار صاحب کا کمرہ کس طرف ہے۔۔۔” جب ملازمہ باہر نکل رہی تھی تو تانیہ بولی۔۔۔
“اس کمرے کے بالکل سامنے ہے ان کا کمرہ۔۔ آپ آرام کریں میں آپ کے لیۓ کھانا لاتی ہوں۔۔۔” وہ یہ کہہ کر باہر نکل گئ۔۔
“تو آپ نے اپنے سامنے والا کمرہ مجھے دیا ہے شہریار صاحب۔۔۔ اتنے قریب رکھنا چاہتے ہیں آپ مجھے۔۔۔ میں ہر پل خود کو آپ کے قریب رکھوں گی۔۔ تانیہ کا وعدہ ہے جی آپ سے۔۔۔” تانیہ نے بیگ سے لان کا پرنٹڈ سوٹ نکالا اور فریش ہونے چلی گئی۔۔
*————————-*
رمشا کے جانے کے بعد رانیہ بہت پریشان ہو گئی تھی۔۔ وہ جانتی تھی کہ رامش سے جان چھڑانے کے لیۓ رمشا کسی کرسچن کے ساتھ شادی کرنے کا سوچ رہی ہے۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ رمشا کو کس طرح سنبھالے۔۔ اس نے رمشا کا فون ملایا مگر وہ اٹینڈ نہیں کر رہی تھی۔۔۔ کل اس نے رمشا کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔
*—————————*