آج حورم ارحہ کے ساتھ مال آئی ہوئی تھی اس نے حورام کو اٹھایا ہوا تھا جبکہ ارحام بھی ان کے ساتھ تھا بہرام آفس گیا ہوا تھا اس نے بزنس دوبارہ سٹارٹ کر لیا تھا
گارڈز ان کے ہمراہ تھے وہ آدھی سے زیادہ شاپنگ کر چکی تھیں جب تھرڈ فلور پر کیفے پہنچ کر انہوں نے لنچ کیا تھا اٹھتے وقت حورم نے ارحام کو کہا کہ وہ حورام کو لیے ادھر ہی بیٹھے کیونکہ بچے آگے ہی تھک چکے تھے
اب ارحام حورام کو لیے بیٹھا تھا جو بار بار اپنا ہاتھ اپنے منہ میں ڈال رہی تھی ارحام نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ٹشو کی مدد سے صاف کیا لیکن اب حورام نے اس کا ہاتھ پکڑ کر منہ میں ڈال لیا تھا
امم۔۔نہیں۔۔ایسے نہیں کرتے گندی بچی
وہ اپنی آنکھیں پٹپٹاتے ہنستے اسے دیکھ رہی تھی جب ارحام نے اپنی چئیر اس کے سامنے کی اور خفا ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھتے اس کے قریب ہو کر اس کا سفید و سرخ چہرہ صاف کرنے لگا حورام اب چپ ہو کر اسے دیکھنے لگی جو اب سنجیدہ تھا پھر حورام نے اس کے قریب ہوتے اس کے گال کو چوم لیا اور پھر کھلکھلاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ کر منہ کھولے ہنسنے لگی
ارحام حیران ہوتے اس کی معصوم حرکتوں کو دیکھنے لگا پھر مسکرانے لگا اس کی اتنی پیاری ادا پر__
حورام نے اپنی آنکھوں سے ہاتھ ہٹاتے اسے دیکھا جو اب بھی مسکرا رہا تھا پھر ہنستے ہوئے اپنی آنکھوں پر دوبارہ ہاتھ رکھ لیے__
ارحام نے اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کے گال پر کس کیا
تم تو نارض بھی نہیں ہونے دیتی لٹل گرل
پھر اس کے دوسرے گال کو چوما جب کہ حورام سمجھ نا لگنے کے باوجود بھی مسکرا رہی تھی
اس نے ٹشو اٹھائے اور سامنے رکھے ڈسٹ بن میں پھینکنے کے لیے اٹھا
ارحام کی عمر جتنا ایک لڑکا کب کا اس سرخ و سفید گول مٹول سی بچی کو دیکھ رہا تھا جب ارحام اٹھا اور وہ آگے بڑھا جبکہ حورام کسی اور کو اپنے سامنے پا کر شاید غصہ ہو رہی تھی جبھی اس کا منہ بن چکا تھا
اس سے پہلے کہ وہ اس کے گول مٹوک سے گالوں کو چھو کر دیکھتا کہ کسی نے اس کے منہ پر سائیڈ سے اتنی زور سے مکا مارا کہ وہ نیچے گر چکا تھا
Don’t touch my Girl،
ارحام غصے سے کہتا حورام کو اٹھا کر آگے بڑھ چکا تھا جبکہ وہ لڑکا ابھی بھی اسے جاتے دیکھ رہا تھا
You will have to pay it۔۔۔
وہ خود سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا
وہ چلتا تہہ خانے کے اندھیرے کمرے میں آیا جہاں سامنے اسے زنجیروں کی مدد سے باندھا گیا ہوا تھا اس کا بس اتنا دھیان رکھا جاتا تھا کہ اس کی سانسیں چل سکیں اسے دیکھتے وہ ہنسا تھا مطلب اکڑ ابھی تک نہیں گئی تھی
بہرام نے اسے دیکھتے میز پر سے باریک نوکیلے کیلے والی زنجیر اٹھا کر اپنے ہاتھ پر باندھی جس سے نوکیلے کیل نما کانٹے باہر کی طرف تھے اور اس کے سامنے جا کر اس کے منہ پر وار کیا جس سے اس کے منہ سے خون رسنے لگ گیا
بہت حساب ہے تم پر عاشر چوہدری
اس نے کہنے کے ساتھ اس پر وار کرتا گیا کہ یہاں تک کہ اس کا منہ لہو لہان ہو چکا تھا
اگر مجھے تمہارے لیے سپیشل پرمیشن بھی لینی پڑتی تو میں لے لیتا
بہرام نے زنجیر اپنے ہاتھ سے کھولی اور خاور کو اشارہ کیا
ابھی تو سپیشل ڈوز بھی رہتا ہے
اس نے اس کی طرف دیکھا جو لہو ہوتی آنکھوں سے اسے ہی تک رہا تھا
خاور نے اپنے بندوں کو اشارہ کیا جس سے وہ ایک بالٹی اندر لائے اور بہرام کے اشارے پر اس کے اوپر پھینک چکے تھے جس سے اس کی چیخیں تہہ خانے میں گونج اٹھیں
کھولتے ہوئے تیزاب نے اسے چیخنے پہ مجبور کر دیا تھا اس سے اس کا جسم جھلس چکا تھا جبکہ اس کی چیخیں مسلسل جاری تھی
یہ ہو سکتا تھا کہ اس کی حورم روئے اور وہ اس کے رونے کا سبب بننے والے کو یونہی جانے دیتا اور ویسے بھی عاشر چوہدری پر تو ویسے ہی بڑے کیس تھے لیکن اسے بہرام نے اپنے انڈر لیا تھا
وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی اور اپنے سن گلاسز اتارے تو اسے سامنے ہی لاسٹ ٹیبل پر شیرازی بیٹھا نظر آ چکا تھا وہ پر اعتماد طریقے سے چلتی میز پر پہنچی تو وہ اسے دیکھ کر کھڑے ہو چکا تھا لیکن وہ نظر انداز کیے بیٹھ چکی تھی
ویل۔۔۔میرے خیال سے سیدھا مدعے پر آتے ہیں۔۔۔کیوں بلایا ہے مجھے؟
وہ اپنے دونوں ہاتھ میز پر ٹکاتے بولی
دیکھیں میں نہیں جانتا تھا کہ آپ مسٹر شاہ کی وائف ہیں جس کی وجہ سے ان کی نظروں میں میرا امیج گر چکا ہے اور جو مس بی ہیو میں نے آپ کے ساتھ کیا میں اس کے لیے معافی چاہتا ہوں
حورم غور سے اسے دیکھ رہی تھی
فرسٹ یہ کہ انسان کو کام ہی ایسے نہیں کرنے چاہیے کہ وہ کسی کی نظروں میں گرے اور بس یہی کہنے کے لیے آپ نے مجھے یہاں بلایا ہے
وہ اچنبھے سے اسے دیکھتے بولی
نہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ کی کپمنی کے ساتھ تعلقات ٹھیک ہو جائیں۔۔۔میں کچھ پروجیکٹس کرنا چاہتا ہوں اگر آپ ہیلپ کریں تو شاید ہو جائے کیونکہ مسٹر شاہ تو شاید مجھے دیکھنا گوارا نا کریں
وہ اپنی پچھلی دھلائی کو یاد کرتے بولا
اوکے ٹھیک ہے مجھے چلنا چاہیے
وہ فون پکڑتے اٹھنے لگی جب وہ دوبارہ بولا
معاف کر دیا آپ نے؟
وہ سرعت سے بولا
جی کر دیا ہے معاف
اس نے زور دے کر بولا
آپ کا بہت بہت شکریہ
وہ کہتے اس کے میز پر رکھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھنے لگا تھا جب حورم اس سے پہلے ہی اپنا ہاتھ کھینچ چکی تھی اور کلک سے تصویر بن چکی تھی جو ایسی لی گئی تھی جس سے آدمی کا چہرہ تو نظر نہیں آ رہا تھا لیکن حورم صاف نظر آ رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا جیسے حورم نے اس کا ہاتھ پکڑا ہو
مجھے جانا چاہیے
وہ سختی سے کہتے باہر کے راستے مڑ گئی جب وہ بھی اس کے پیچھے ہو لیا اور ایک بار پھر فلیش کی روشنی نکلی تھی
گاڑی میں بیٹھے حورم نے سائیڈ مرر سے چیک کہا جہاں ایک گاڑی اس کے پیچھے تھی
ارحام حورام کو اپنے بیڈ روم میں لے آیا تھا جہاں وہ اس کے ساتھ کھیل رہا تھا آج حورام کے لیے مختلف ٹیڈی بئیرز اور بہت سے کھلونے بھی لیے گئے تھے جسے ارحام اس کے پاس رکھے اس کے ساتھ کھیل رہا تھا لیکن حورام ان کو دور پھینک رہی تھی اور ارحام کی طرف بڑھ رہی تھی
Little Girl،What are you doing?
وہ اس سات ماہ کی حورام کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر بولا لیکن وہ اس کے بالوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں پکڑ چکی تھی اور منہ سے مختلف آوازیں نکالنے لگی
یار حورام کیا ہے
وہ اس کے دونوں گالوں کو زور سے چومتا بولا جو اب اس کے بالوں کو کھینچ کر خوش ہو رہی تھی جبکہ وہ اس کے معصوم سے چہرے پر خوشی دیکھ کر خوش ہو رہا تھا پھر وہ وہی بیڈ پر لیٹ گیا جبکہ حورام اس کے اوپر ہوتے اس کے بالوں سے کھیل رہی تھی جبکہ ارحام اسے دیکھنے میں مصروف تھا جب حورام نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اس کی دونوں آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے تا کہ ارحام اسے نا دیکھے
ارحام نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے اور اپنے سینے پر رکھ کر اسے دیکھنے لگا لیکن وہ ہاتھ چھڑوا کر اس کی آنکھیں بند کرنے لگی جو وہ بار بار کھول رہا تھا
پھر حورام اسے چھوڑ کر ہونٹ ڈھیلے کیے منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گئی جیسے ناراضگی کا اظہار ہو جس پر ارحام جیسے تڑپ کر اٹھا تھا
مائی گرل دیکھو میں آئیز کلوز کرتا ہوں لیکن ناراض نا ہوا کرو
وہ اس کے سامنے آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا جس پر وہ دوبارہ سے خوش ہو چکی تھی
اس نے اپنے چھوٹے سے ہاتھوں میں اس کا چہرہ پکڑ کر اس کے دونوں گالوں کو چوما تھا جیسے وہ اسے چومتا تھا اور پھر اس کے ماتھے کو چوما جیسے بہرام اور حورم اس کے ماتھے کو چومتے تھے
ارحام آنکھیں کھولے اس چھوٹی سی نیلی آنکھوں والی اپنی سنڈریلا کو دیکھ رہا تھا جو دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پت مارتی خوش ہو رہی تھی کہ تبھی ارحہ اندر آئی اور انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ان کے پاس بیٹھ گئی
تو اپنی چھوٹی سی بہنا کے ساتھ ارحام کھیل رہا ہے
وہ حورام کے ہاتھوں کو چومتی بولی
استغفراللہ۔۔ماما یہ آپ کیا بول رہی ہیں
وہ اب اتنا بھی چھوٹا نہیں تھا سات سال کا تو ہونے والے تھا اسے اتنا پتہ تھا کہ حورام اس کی بہن نہیں ہو سکتی
کیوں میں نے کیا کہا
ارحہ نے حیرانی سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیا کہہ دیا تھا
آپ بابا کو بھائی بول لیا کریں پھر
وہ حورام کی طرف متوجہ ہوتے بولا
استغفراللہ۔۔۔ارحام یہ آپ کیا بول رہے ہیں
اب حیران ہونے کی باری ارحہ کی تھی
یہی تو میں بول رہا ہوں کہ آپ کیا بول رہی ہیں
وہ ارحہ سے کہتا حورام کو اٹھائے جا چکا تھا جبکہ ارحہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی
وہ تو اس بدلتے لڑکے کو دیکھتے حیران تھی کیونکہ اس کی نیچر ایسی تھی کہ وہ بچوں سے پیار نہیں کرتا تھا اور جب بہرام یورپ گیا تو وہ کافی بدل رہا تھا اور جب وہ کومے میں تھا تو وہ روڈ ہوتا جا رہا تھا لیکن حورام کے آنے سے وہ تو وہ ارحام رہا ہی نہیں تھا جو حورام کا اتنا خیال رکھتا تھا ارحہ کو تو لگا کہ شاید اسے ایک بہن کی خواہش ہو لیکن اسے کیا پتہ کہ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہونے والا تھا
وہ حورام کو سلا کر لوشن لیکر صوفے پر بیٹھی اور ہاتھوں اور پاؤں پر لوشن لگا کر اٹھنے ہی لگا تھی کہ جب بہرام دروازہ کھولتا اندر آیا اسے دیکھتے حورم کو سمائل پاس کر کے حورام کی طرف بڑھا جو سو رہی تھی اس کے ماتھے گالوں ہاتھوں اور نازک سے پاؤں کو چومتا وہ صوفے پر حورم کی جانب بڑھا جو اسے دیکھ کر بیٹھ چکی تھی حورم نے آگے ہو کر اس کا کوٹ اتارا جبکہ وہ یونہی اس کی گود میں سر رکھے نیم دراز ہو گیا
کیا ہوا آج کچھ لیٹ نہیں ہو گئے
وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی بولی
ہمم۔۔۔کچھ پرانے پراجیکٹس دیکھنے والے تھے اور جو ہماری شوٹنگ تھی اس نے کمپنی کا اچھا خاصہ فائدہ پہنچایا ہے
وہ ایسے ہی لیٹے اس کی گود میں سر رکھے اس کی نظروں سے نظریں ملائے بول رہا تھا جب حورم نے جھک کر اس کی صبیح پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے
وہ اوپر ہونے ہی لگی تھی جب بہرام نے اپنے ہاتھ اس کے پیچھے لے جاتے ہوئے اس کی کوشش کو ناکام کر دیا اور اس کو سر سے پکڑ کر آگے کیا اور اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں پر رکھ دیے
آدھے ادھورے کام نہیں کیا کرتے مسز
اس کی بات حورم مدھم سا ہنسی
اچھا تو اس انویٹیشن کا کیا کیا ہے
وہ یاد کرتے پوچھنے لگی
ہمم۔۔۔جانا تو پڑے گا یار تم ایسا کرنا ریڈی رہنا اور حورام کی سناؤ دن میں تنگ تو نہیں کیا میری بیٹی نے اپنی ماما کو
وہ اس کے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے اپنے ہاتھ ان پر رکھتے بولا
بالکل نہیں۔۔۔بھلا میں اپنی بیٹی یا پھر اس کے بابا سے تنگ ہو سکتی ہوں کیا
اس کے کہنے پر بہرام نے مسکراتے اس کے دونوں ہاتھوں کو چوما تھا
اور اسے لیے بیڈ کی جانب بڑھا جہاں ان کی چھوٹی سی جان مزے سے سو رہی تھی