تاریخ اشاعت 26-10-2015
عامر خاکوانی
https://dunya.com.pk/index.php/column-detail-print/13081
معروف دانشور، شاعر اور صوفی احمد جاوید سے کئی سال پہلے میگزین کے لئے انٹرویو لیا۔ اس ایک نشست میں بہت کچھ سمجھنے، سیکھنے کو ملا۔ احمد جاوید ہمارے ملک کے چند گنے چنے صاحب علم اور صاحب دانش شخص ہیں، علم نے جن کی سادہ اور لطیف شخصیت کو مغلوب نہیں کیا۔ وہ خبط عظمت کا شکار ہوئے نہ ہی زعم پارسائی ان پر حاوی ہو پایا، ہمارے بیشتر دینی سکالرز اور اہل دانش جس جال سے بچ نہیں پائے۔ احمد جاوید صاحب کی قدیم وجدید علوم پر گہری نظر ہے، وہ مولانا ایوب دہلوی جیسے غیر معمولی سکالر کے شاگرد ہیں۔ مولانا ایوب مرحوم بھی منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے بارے میں پڑھا اور سنا کہ وہ نہایت سادہ اور درویش منش انسان تھے، جم کر کتاب نہیں لکھی، مگر بولتے تو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً علم کے موتی برستے۔ ان کی تقریروں کی مختلف کیسٹیں ریکارڈ ہوئیں، ان میں سے بعض تقاریر شائع بھی ہو چکی ہیں۔ رحیم یار خان سے محمد دین جوہر نامی ایک صاحب ’’جی‘‘ کے نام سے ایک علمی جریدہ نکال رہے ہیں۔ ادبی، علمی مراکز سے اتنا دور رہ کر انہوں نے کیسا کمال کام کیا، کم لوگ جانتے ہوں گے۔ ”جی ‘‘کے ان شماروں میں مولانا ایوب دہلوی کی تقاریر بھی شائع کی جا رہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جوہر صاحب بھی احمد جاوید جیسے ہیں، ان کی فکر پر وہی نقش نمایاں ہیں۔ احمد جاوید کا پوسٹ ماڈرن ازم پر ایک مضمون، در حقیقت وہ ایک لیکچر تھا، پڑھنے کو ملا۔ پوسٹ ماڈرن ازم پر پہلے سے کچھ چیزیں دیکھ رکھی تھیں، اس ایک لیکچر نے مگر غیر معمولی وضاحت سے اس گنجلک نظریے کو پانی کر دیا۔ ڈاکٹر محمد امین نے بھی احمد جاوید کے مغربی فلسفے پر لیکچرز کا سلسلہ شروع کرایا تھا، اس کی دو تین قسطیں ان کے جریدے برہان میں پڑھیں۔ ہم جیسے طالب علموں کے دل سے دعا ہی نکلی۔
بات احمد جاوید سے نشست کی بات ہو رہی تھی۔ اپنے مخصوص عام فہم انداز میں خوبصورت، نفیس اور قابل غور نکات بیان کیے۔ ان سے سوال کیا کہ آج کے دور میں دین کی دعوت کا کام کرنے والوں کے لئے نیا علم کلام ضروری نہیں ہو گیا۔۔ ۔۔ نیا ڈکشن، نیا اسلوب اور سائنٹفک دلائل؟ توقع تھی کہ وہ دانشورانہ جواب دیں گے۔ نہایت سادگی سے جواب دیا، یہ سب اپنی جگہ، مگر اصل کام تو خیر پھیلانے کا ہے۔ خیر پھیلانے سے بڑی دعوت کوئی نہیں، خیر کا ہر کام ایک اور خیر کو جنم دیتا ہے، یوں ایک ایسا نیک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس میں ہر کوئی اپنے حصے کا خیر ڈالتا جائے تو یہ ایک کونے سے دوسرے تک چلا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ خیر کی بات ایک دوسرے سے سیکھنی چاہیے، بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا اثر دیرپا اور دور تک چلا جاتا ہے۔ احمد جاوید بتانے لگے کہ میں نے بہت سی باتیں لوکل بس یا ٹرین میں سفر کرنے والے ساتھی مسافروں سے سیکھیں، جن کو بعد میں اپنی زندگی کا حصہ بنایا تو بڑا نفع ہوا۔
چند دن پہلے ایک دوست ملنے آئے، دوران گفتگو انہوں نے ایک ایسا واقعہ سنایا کہ دہل سا گیا۔ بتانے لگے کہ ان کے گھر گاؤں سے آئی ایک مائی کام کر رہی ہے۔ وہ اپنے چار پانچ بچوں کو پیچھے چھوڑ کر آئی تھی، ہر ماہ ان سے ملنے کے لئے چھٹی لے کر جاتی۔ ان کی اہلیہ اس پر خفا ہوتی کہ ہر ماہ یہ چار پانچ دن کے لئے غائب ہو جاتی ہے، اس کے پیسے کاٹنے چاہئیں۔ اسے سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کر دیتے۔ ایک بار وہ ملازمہ گھر جانے کے لئے تیار تھی، خاتون خانہ نے شک گزرنے پر اس کا کپڑوں والا شاپنگ بیگ چیک کیا، پھر آواز دے کر خاوند کو بلایا کہ یہ دیکھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ اس میں گھر کے استعمال کی کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی چھپائی ہوئی تھیں۔ ان کی بیٹی کی استعمال شدہ گڑیا، جس کا چہرہ بھی بگڑ چکا تھا، نرسری کی ڈرائنگ بک، پرانے استعمال شدہ بال پین، گھسی گھسائی کلر پینسلیں، ٹوٹے پھوٹے بال پین وغیرہ۔ ان کے ساتھ البتہ بالکل نیا شیمپو، دو لکس صابن، ایک ٹوتھ پیسٹ بھی شامل تھے۔ یقینی طور پر یہ سامان گھر کے لئے لائے گئے راشن میں سے چرایا گیا تھا، جسے کچن میں رکھنے کی ذمہ داری ملازمہ ہی کی تھی۔
وہ دوست بتانے لگے کہ میری اہلیہ بڑی برہم تھیں، ان کا ارادہ ہوا کہ ملازمہ کو سامنے بلا کر اس کی خوب خبر لی جائے، مگر میں نے روک دیا اور سختی سے ہدایت کی کہ یہ سامان واپس مت نکالو اور اس بات کا ذکر نہ کرنا۔ وہ کہنے لگے: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چوری تھی، جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، مگر میری ہمت نہیں ہوئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میرے سامنے اپنے معصوم بچوں کے چہرے آ گئے اور ایک لمحے کے لئے میں نے سوچا کہ ہماری نوکرانی بھی ایک ماں ہے، اس کا بھی جی چاہتا ہو گا کہ بچے شیمپو سے سر دھوئیں، ٹوتھ پیسٹ کریں اور خوشبو دار صابن استعمال کریں۔ وہ ہمارے بچوں کو کلر پینسلوں سے تصویریں بناتے دیکھتی ہو گی تو اس کے من میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ گاؤں میں رہنے والے اس کے بچوں کو بھی ان کلر پینسلوں سے رنگ بھرنے کا موقعہ ملے۔ اس دن کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ ہر ماہ کے راشن میں سے چند چیزیں اضافی لینی ہیں، بچوں کے لئے ہر ماہ سٹیشنری لینی پڑتی ہے، اب ان میں رنگا رنگ تصویروں والی کتاب اور پینسلوں کے پیکٹ کا اضافہ کر دیا ہے۔ یہ سب ایک الگ لفافے میں ڈال کر چپکے سے اپنی ملازمہ کو دے دیتا ہوں کہ گاؤں جانا تو اپنے بچوں کے لئے لے جانا۔ کچھ سوئیٹس، کینڈیز چاکلیٹس بھی اس میں ڈال دیتا ہوں۔ ایسا کرتے ہوئے مجھے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی، جس میں نمی چھپائے نہیں چھپتی۔ اس کے بعد بیگم صاحبہ نے دو تین بار چھاپے مار کر سامان چیک کیا، مگر پھر انہیں کچھ ایسا نہیں مل سکا‘‘۔ میرے دوست تو اپنی بات سنا کر چلے گئے، مگر اس کی چبھن ابھی تک محسوس ہو رہی ہے۔ بار بار یہ خیال آتا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں کام کرنے کے لئے ملازمہ تو رکھ لیتے ہیں، جز وقتی تو شاید ہر دوسرے تیسرے گھر میں کام کرتی ہیں، بہت سے لوگ کل وقتی ملازمہ بھی رکھ لیتے ہیں، یہ خیال مگر نہیں آ تا کہ تنخواہ کے علاوہ بھی کچھ دوسری خواہشات ہو سکتی ہیں۔ وہ مائی جو ہمارے بچوں کو وہ تمام شہری سہولتیں استعمال کرتے بلکہ ضائع کرتے دیکھتی ہیں، جن کا گاؤں میں تصور بھی نہیں تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟ اس کا دل کیسے نہیں مچلتا ہو گا کہ اپنے بچوں کے لئے بھی یہ سب کرے، مگر کیا وہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے؟ پہلی بار مجھے اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا نہایت خوبصورت قول پوری طرح سمجھ میں آیا، جس میں غلام کو اپنی طرح کھلانے، پہنانے کی ہدایت کی گئی۔
چند سال پہلے ایک صحافی دوست نے اپنے ایک سکالر دوست کا بتایا، وہ ان دنوں لاہور میں اکیلے رہتے تھے، ایک ملازم ان کے گھر کام کرتا تھا۔ وہ صاحب کئی سال مغرب میں رہے تھے، ان کی تربیت بھی ایک خاص نہج میں ہوئی۔ انہوں نے ملازم کی تنخواہ پاکستانی قانون کے مطابق کم سے کم اجرت کے حساب سے رکھی، حالانکہ اس سے دو تین ہزار کم پیسوں میں ملازم مل جاتا تھا، مگر ان صاحب کا کہنا تھا کہ نہیں، ہم میں سے ہر ایک کو لیبر لاز کا احترام کرنا چاہیے، کم سے کم اجرت سے نیچے کی ادائیگی ملازم کا استحصال ہو گا۔ پھر وہ ٹھیک آٹھ گھنٹے کے بعد ملازم کو رخصت دے دیتے کہ اب تمہاری ٹائمنگ ختم ہو چکی ہے، اگر کسی روز دو تین گھنٹے مزید روکنا پڑتا تو باقاعدہ حساب کر کے اسے فی گھنٹہ کے حساب سے اوور ٹائم دیتے۔ اتوار کی چھٹی لازمی ہوتی اور کوئی کام پڑنے کے باوجود ملازم کو نہ بلاتے، ایک آدھ بار ہنگامی حالات میں بلانا پڑا تو اسے ڈبل اوور ٹائم ادا کیا کہ قانون یہی کہتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جس محفل میں یہ واقعہ سنایا، وہاں بیٹھے ہم سب لوگ دم بخود ہو گئے۔ سب لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے، جنہیں دوران ملازمت ہر قسم کے استحصال سے عملی واسطہ پڑ چکا تھا، سنگ دل بھی ہم میں سے کوئی نہیں تھا، مگر سچی بات ہے کہ گھریلو ملازمین کے ساتھ اس نوعیت کی اخلاقی اور قانونی پاسداری کا خیال کسی نے کبھی نہیں کیا تھا۔ یہ کبھی خیال نہیں آیا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں، بظاہر غیر اہم نظر آنے والی احتیاطیں دوسروں کے لئے کس قدر اہم ہو سکتی ہیں؟ ان کی زندگیوں میں آسانی لا کر ہم اپنی دنیا اور آخرت کس قدر آسان بنا سکتے ہیں؟
٭٭٭
ٹائپنگ: حفیظ الرحمٰن
تشکر: حفیظ الرحمٰن جنہوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید