” آپ پیشنٹ شہریار خان کے رشتہ دار ہیں؟” نرس نے رضا صاحب سے پوچھا
” جی”
” پیشنٹ کو ہوش آگیا، ہم انھیں کچھ دیر میں روم میں شفٹ کر رہے ہیں، پھر آپ ان سے مل لیجیے گا”
نرس کی بات سن کر رضا صاحب صوفے سے آٹھ کھڑے ہوئے
” تھینک یو سو مچ” رضا نے برس کو کہا
” دیکھا رضا میں نے تمھیں کہا بھی تھا کہ کچھ نہیں ہوتا، اللہ سب بہتر کرے گا، اب دیکھو شہریار کو ہوش بھی آگیا ہے” سلیم نے رضا کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا
” کیا فائدہ سلیم، میرا بچہ اپنی ٹانگیں تو کھو بیٹھا ہے ، میں اب شہریار کو کیسے سنبھالوں گا، اُسے اب نظریں کیسے ملاؤں گا، اُس کو تسلی کیسے دوں گا، اُس کی ماں الگ بستر پر پڑی ہوئی ہے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ شہریار کو سنبھالوں یا اُس کی ماں کو، اللہ نے مجھے کسی آزمائش میں ڈال دیا ہے ”
” ایسا نہیں کہتے رضا، آزمائشیں ہی تو انسان کو انسان بناتی ہے. آزمائشوں سے کبھی بھی گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ یہ تو اس فانی زندگی کا حصہ ہے، رہی بات شہریار کی، تم ماشاءاللہ سے مالی لحاظ سے مضبوط ہو، تم اُسے علاج کے لیے باہر بھی بھیجوا سکتے ہو، اس لیے اللہ کی ناشکری نہ کرو بلکہ شکر کرو کہ اُسے ہوش آگیا ہے. آسیہ، صائمہ بھابی کے پاس ہی ہیں ، وہ ان کا خیال رکھیں گی. تم پریشان نہ ہو بس اللہ سے بہتر کے لیے دعا کرو”
” ہاں صحیح کہہ رہے ہو تم، آؤ صائمہ سے مل کر آتے ہیں، پتا نہیں اب کیسی ہے وہ، پھر اکٹھے ہی شہریار کے پاس چلیں گے”
” ہاں چلو ”
**************************
” اوکے آنٹی میں اور رانیہ اب چلتے ہیں، تھوڑی دیر پہلے مام کی کال آئی ہوئی تھی، وہ ہمیں گھر بلا رہی ہیں” تابش نے سعدیہ بیگم سے کہا
“ابھی کیوں جارہے ہو بیٹا، کھانا کھا کر جانا” عالیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” نہیں آنٹی، ابھی ہمیں جانا ہوگا، کھانا پھر کبھی، چلو رانیہ”
” رانیہ یار کیا ہو گیا ہے، تم مجھے ان لوگوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ کر جارہی ہو، یار پلیز آج رات تم ادھر ہی رک جاؤ، میں اکیلے کیسے ان سب لوگوں کو سنبھالوں گی” حیا نے رانیہ کے کان میں کہا
” تابش تم جاؤ، میں حیا کے ساتھ ادھر ہی رہ رہی ہوں، تم مام ڈیڈ کو بتا دینا ” رانیہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا
” اچھا ٹھیک ہے،. پھر میں چلتا ہوں، اللہ حافظ”
” اللہ حافظ ” سب نے ایک ساتھ کہا
ابھی تابش کو گے ہوۓ بامشکل بیس منٹ ہی ہوۓ تھے کہ زوہیب شروع ہوگیا
” کیسی لڑکی ہو تم حیا، تمھارا کزن پہلی دفعہ تمھارے گھر آیا، اور تم نے اُسے صرف چاۓ پلائی ہے” زوہیب نے منہ بناتے ہوئے کہا
” میں نے سلیمہ آنٹی کو کھانا کھانے کا بولا ہے، کچھ ہی دیر بعد کھانا بھی کھلا دوں گی” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
” سلیمہ آنٹی کو کیوں، ہمیں تو آپ کے ہاتھوں کا بنایا ہوا کھانا، کھانا ہے”
زوہیب کی معصوم فرمائش پر حیا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی. اُسے تو مشکلوں سے چاۓ بنانے آتی تھی، اب وہ دس بارہ لوگوں کے لیے کھانا کیسے بناۓ. اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اب بات کو کیسے سنبھالے. ابھی وہ زوہیب کو سچ بتانے ہی والی تھی کہ اُسے کھانا بنانے نہیں آتا کہ رانیہ نے اُس کی مشکل آسان کر دی.
” ہمیشہ ہم لڑکیاں، آپ لڑکوں کے لیے کھانا بناتی ہیں، آج آپ لوگ ہمارے لیے کھانا بناؤ گے، جو جو میرے ساتھ ہیں وہ ہاتھ کھڑا کریں” رانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
رانیہ کی بات پر سب سے پہلا ہاتھ سالار، فرقان صاحب اور آفتاب صاحب نے کھڑا کیا، جس کو دیکھ کر زوہیب اُن پر افسوس ہی کرتا رہ گیا. پھر سالار کے بعد فاطمہ اور حیا نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا. جبکہ گھر کی خواتین نے چپ رہ کر رانیہ کی شرارتوں سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا.
” مانا کہ ان کام چوروں نے تو کام سے بچنے کیلئے اپنا ہاتھ کھڑا کیا، آپ لوگوں نے کیوں اپنا ہاتھ کھڑا کیا، بہت شوق ہے اگر کام کرنے کا تو آپ لوگوں کو ایک ہوٹل کھول کر دے دیتا ہوں” زوہیب نے سالار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیونکہ وہ آفتاب صاحب اور فرقان صاحب دیکھنے کی جسارت نہیں کرسکتا تھا.
” یار یہ کام چوریں ہی تو ہماری لیے پورا سال کھانا بناتی ہے، اگر آج ہم نے ان کے لیے کھانا بنا لیا تو کوئی بڑی بات نہیں ” سالار نے مسکراتے ہوئے کہا
” ہاں تم تو ان ہی کی سائیڈ لوں گے کیونکہ تم نے صرف پیاز ہی تو کاٹنا ہوگا، باقی سارا کام تو اکیلے میں نے ہی کرنا ہوگا” زوہیب نے منہ بناتے ہوئے کہا
” واؤ کتنے اچھے چہرہ شناس ہو تم، اب چلو، پہلے ہی دیر ہوگئی ہے، ویسے بھی اچھے شیف اپنے مہمانوں کو انتظار نہیں کرواتے ہوتے ” سالار نے ہنستے ہوئے کہا
” تم دیکھنا بیٹا، سارے برتن تم سے ہی دھلواؤں گا”
” ہاہاہاہا اور کوئی حکم” سالار نے ہنستے ہوئے کہا
” نہیں فی الحال یہی کافی ہے، باقی کام تم سے کچن میں کرواؤں گا” زوہیب نے منہ بناتے ہوئے کہا
ان دونوں کی باتیں سن کر سب ہنسنے لگے. رانیہ اور فاطمہ لڈو لے کر بیٹھ گئی کیونکہ عالیہ بیگم کے سامنے ٹی وی لگا کر ان کی باتیں سننے کا دونوں کو دل نہیں کر رہا تھا.
” آنٹی شام سے رات ہوگئی ہے، میرے خیال سے مجھے ماما سے بات کرنی چاہیے ” حیا نے عالیہ بیگم سے کہا
” ہاں بیٹا ضرور بات کرو”
” ٹھیک ہے پھر میں ماما سے بات کرکے آتی ہوں ”
**************************
حیا نے اپنے کمرے میں آکر گہرا سانس لیا. آج کا دن اتنا تھکا دینے والا ہوگا، ایسا اُس نے سوچا بھی نہیں تھا. آج تو اللہ نے اُس کی سب کے سامنے عزت رکھ لی ورنہ سدرہ نے اُسے شرمندہ کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی. سدرہ اتنی گر سکتی ہے ایسا اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا. یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ مجھے بےعزت کرنے کے لیے آئی تھی، خود بےعزت ہوکر گئی ہے یہ سوچتے ہوئے حیا صوفے پر بیٹھ گئی اور آسیہ بیگم کو کال کرنے لگی
” السلام علیکم ماما ”
” وعلیکم السلام بیٹا”
” ماما، شہریار کی طبیعت اب کیسی ہے؟ اور رضا انکل اور صائمہ آنٹی کیسے ہیں ”
” صائمہ، شہریار کے ایکسیڈنٹ کا سن کر بے ہوش ہوگئی تھی مگر اب ٹھیک ہے، اور رضا بھائی کا بھی بہت برا حال تھا پہلے، مگر وہ بھی اب ٹھیک ہیں. شہریار کو ہوش آگیا ہے، ابھی ہم اُسی کے ساتھ بیٹھیے ہوئے ہیں ”
” یہ تو بہت اچھی بات ہے،. اچھا آپ یہ بتائیں کہ آپ واپس کب آئیگی؟ ”
” میں تو آج رات یہی رہوں گی، البتہ تمھارے بابا گھر آجائیں گے”
” اوکے ٹھیک ہے”
” کھانا کھایا ہے آپ لوگوں نے” آسیہ بیگم نے حیا سے پوچھا
” نہیں ابھی تک نہیں، زوہیب اور سالار کھانا بنا رہیں ہیں” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
” وہ دونوں کیوں، غلط بات بیٹا وہ ہمارے مہمان ہیں، آپ سلیمہ آنٹی کو کھانا بنانے کا کہتی نہ”
” نہیں ماما، زوہیب اور سالار اپنی مرضی سے بنا رہیں ہیں ” حیا جھوٹ بولتے ہوئے بھی بالکل بھی نہیں گھبرائی کیونکہ یہ پہلا جھوٹ تھوڑی ہی تھا جو اُس نے آسیہ بیگم سے بولا تھا.
” اچھا چلو یہ تو اچھی بات ہے، میں کل گھر آجاؤں گی، اپنا خیال رکھنا حیا، اللہ حافظ ”
” اللہ حافظ ”
**************************
” واؤ یار کیا کچن ہے، ادھر تو کام کرتے ہوئے بھی مزا آئیگا” زوہیب نے ہنستے ہوئے کہا
” اتنا ہی اگر پسند آگیا تمھیں رضیہ آنٹی کا کچن تو ان سے کہہ کر سلیمہ آنٹی کو فارغ کرکے تمھیں نہ رکھ لیں اس کچن کا شیف” سالار نے ہنستے ہوئے کہا
” تمھیں تو میں بعد بتاؤں گا، ابھی چپ کرکے کام کرو اور مجھے بھی کرنے دو ”
” ہاہاہاہا شیف صاحب کے ایکشن تو کوئی دیکھیں ” سالار نے ہنستے ہوئے کہا
” تم ایک کام کرو، ان کام چوروں کے ساتھ جاکر لڈو کھیلو، کیونکہ تم نہ ہی خود کام کر رہے ہو اور نا ہی مجھے کرنے دے رہے ہو ” زوہیب نے منہ بناتے ہوئے کہا
” اچھا اب کچھ نہیں بولتا” سالار نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوئے کہا
**************************
” ماما مجھے معاف کر دیں، میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا یہ سب میری ہی لاپرواہیوں کا نتیجہ ہے آپ مجھے کہتی بھی تھی کہ گاڑی تیز نہ چلایا کرو مگر میں نے کبھی بھی آپ کی بات نہیں سنی، اور ہمیشہ گاڑی تیز ہی چلائی جس کا نتیجہ میں آج بھگت رہا ہوں ” شہریار نے روتے ہوئے صائمہ بیگم کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا
” نہیں میری جان، میرے آگے ہاتھ جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے، شاید تمھارے نصیب میں ہی ایسا لکھا تھا. تم اللہ سے دعا کرو، اللہ سب بہتر کرے گا ”
” پر ماما، میں کالج کیسے جاؤں گا، اب میرا فیوچر کیا ہوگا” شہریار نے روتے ہوئے کہا
” شہریار تم پرشان نہ ہو میری ڈاکٹر سے بات ہوگئی ہے، تمھیں میں اگلے ہی مہینے امریکہ علاج کروانے کے لیے لے کر جارہا ہوں ” رضا صاحب نے مسکراتے ہوئے شہریار کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
” سدرہ نہیں آئی ماما، کیا آپ نے اُسے میرے ایکسیڈنٹ کے بارے میں نہیں بتایا؟ ”
” بتایا تو تھا میری جان، پر تمھیں تو پتا ہے کہ سدرہ کا کوئی بھائی نہیں ہے،. ایک باپ ہی ہے وہ بھی آجکل بیمار ہیں، پھر وہ کس کے ساتھ آتی، تم فکر نہ کرو میری اُس سے کال پر بات ہوئی ہے وہ صبح تم سے ملنے آۓ گی”
” اچھا” شہریار نے اداس ہوتے ہوئے کہا
” بس بیٹا، اب آپ نے ہمت نہیں ہارنی اور حالات کا سامنا کرنا ہے. انشاءاللہ بہت جلد آپ پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکوں گے” سلیم صاحب نے شہریار کو تسلی دیتے ہوئے کہا
” تھینک یو انکل، حیا نہیں آئی کیا آپ کے ساتھ ”
” بیٹا وہ گھر میں ہے، اُس کے کزنز آۓ ہیں تو وہ ان کے ساتھ ہے” آسیہ بیگم نے جواب دیا
” اچھا شہریار تم ریسٹ کرو، ہم باہر جاتے ہیں، ڈاکٹر نے تمھیں سٹریس لینے سے منع کیا ہوا ہے، تو پلیز کچھ سوچنا نہیں بلکہ کچھ دیر کے لیے سو جاؤ ” رضا صاحب نے کہا
” ٹھیک ہے بابا”
کچھ ہی دیر میں وہ سب کمرے سے باہر نکل گے. اب کمرے میں صرف شہریار تھا. مگر چونکہ اُس نے نیند کی دوائی لی ہوئی تھی اس لیے وہ بھی ان کے جاتے ساتھ ہی سوگیا.
**************************
” تو اب آپ کے سامنے پیش ہے چکن کڑاہی ، جن کو دنیا کے مشہور ترین شیف زوہیب احمد نے اپنے ہاتھوں سے کام چوروں کے لیے بنائی ہے” زوہیب نے مسکراتے ہوئے کہا
” وہ تو کھا کر ہی پتا چلے گا کہ کیسی بنی ہے، ورنہ ہمیں کیا پتا کہ آپ کتنے اچھے شیف ہیں یہ تو آپ کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چکن کڑاہی ہی بتائے گی” رانیہ نے زوہیب کو چڑاتے ہوئے کہا
” ہاہاہاہا، تو کس نے منع کیا ہے، ضرور کھائیں گا چکن کڑاہی، آپ ہی کام چوروں کے لیے تو بنائی ہے. مگر پھر نمبر بھی دینے ہونگے آپ سب نے”
” منظور ہے” اس بار حیا نے ہنستے ہوئے کہا
چونکہ شام سے ان لوگوں نے کچھ نہیں کھایا تھا تو سب کو ہی بہت بھوک لگی ہوئی تھی. اس لیے سب ہی چکن کڑاہی پر ٹوٹ پڑے.
بیس منٹ بعد سب ہی کھانا کھا کر فارغ ہو گے تھے. زوہیب نے موقع دیکھتے ہوئے کہا
” تو پھر کیسی لگی آپ کو شیف زوہیب احمد کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چکن کڑاہی”
” زبردست” سب نے ایک ساتھ کہا
سب نے ہی زوہیب کو پورے نمبر دیے سواۓ سالار کے کیونکہ سالار کے مطابق پیاز اُس نے بھی کاٹا تھا تو وہ آدھے نمبر اپنے پاس رکھ کر باقی نمبر زوہیب کو دے رہا ہے. سالار کی بےتکی دلیل سن کرسب ہنسنے لگے.
___________
زوہیب کی تیار کردہ چکن کڑاہی سے انصاف کرنے کے بعد سب ایک بار پھر ٹی وی لاونچ میں آکر بیٹھ گے تھے. جبکہ فرقان صاحب اور آفتاب صاحب کھانا کھانے کے فوراً بعد ہی شہریار کو دیکھنے ہسپتال چلے گے. چونکہ آج کے دن حیا کا پسندیدہ ڈرامہ “فریحہ ” لگتا تھا تو وہ سب سے لاتعلق ہوکر ٹی وی لاونچ کے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر ڈرامہ دیکھنے میں مصروف تھی. حیا کی اس ڈرامے سے الفت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی تھی کہ وہ یہ ڈرامہ دو بار مکمل دیکھنے کے بعد بھی تیسری دفعہ دیکھ رہی تھی. جبکہ رانیہ اور فاطمہ اپنی ادھوری کھیلی ہوئی گیم کو مکمل کرنے میں مصروف تھیں. زوہیب اور سالار کچن میں تھے. زوہیب کا ماننا تھا کہ کھانا اُس نے بنایا ہے تو چاۓ سالار بناۓ گا تو ناچاہتے ہوۓ بھی سالار سب کے لیے چائے بنانے میں مصروف تھا. جبکہ زوہیب اُسے چھیڑتے ہوۓ اُس کی ویڈیو بنا رہا تھا. سعدیہ بیگم اور عالیہ بیگم بھی حیا کا پسندیدہ دیکھنے میں مصروف تھیں.
” حیا آؤ نہ یار تم بھی کھیلو ہمارے ساتھ” رانیہ نے اپنی باری کرتے ہوئے کہا
رانیہ کی بات سن کر سعدیہ بیگم کو رانیہ دنیا کی سب سے پیاری لڑکی لگی. بہت کوشش کرنے کے باوجود بھی انھیں ڈرامے کی کہانی سمجھ نہیں آرہی تھی. انھوں نے حیا سے دو تین بار ڈرامے کی کہانی کے متعلق سوال بھی پوچھے مگر جن کے جواب رانیہ نے دیے کیونکہ ڈرامہ دیکھنے کے دوران حیا نے نو لفٹ کا بورڈ لگایا ہوا تھا.
” نہیں میں ڈرامہ دیکھ رہی ہوں”
” یار تم پہلے بھی دیکھ چکی ہو یہ ڈرامہ، آجاؤ نہ، یار بہت مزا آئیگا”
” بس دس منٹ کا رہ گیا ہے، ڈرامہ دیکھ کر آتی ہوں” حیا نے ڈرامہ دیکھتے ہوئے کہا
حیا کی بات سن کر سعدیہ بیگم کی بےچین روح کو تسکین ملی. ورنہ ترکی ڈرامے تو دور کی بات ان کو تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ ان نے آخری دفعہ پاکستانی ڈرامہ کب دیکھا تھا.
” میں جیت گئی، فاطمہ تم ہار گئی. میں نے تمھیں کہا بھی تھا کہ مجھے ہارانا مشکل نہیں ناممکن ہے ” رانیہ نے مسکراتے ہوئے اپنے چہرے پر آۓ ہوئے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہا
” دھاندلی کرکے جیتنے کا کوئی فائدہ نہیں” فاطمہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
” ہارنے کے بعد ہر انسان جیتنے والے سے یہی کہتا ہے” رانیہ نے لڈو کو بند کرتے ہوئے کہا
” اوکے میڈم آپ جیت گئی میں ہار گئی، اب خوش”
” چلو شکر ہے تم نے ہار تو مانی” رانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا حالانکہ وہ بھی جانتی تھی کہ اُس نے “چھوٹی موٹی” دھاندلی کی ہے.
” آہ، اب کیا ہوگا، فریحہ کا بھائی تو اُسے نہیں چھوڑتا، ایک تو یہ سارے زبردست سین نیکسٹ اپیسوڈ کے پرومو میں ہی کیوں دکھاۓ جاتے ہیں ” حیا نے منہ بناتے ہوئے کہا
” تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے تمھیں پتا نہیں کہ آگے کیا ہوگا، مت بولو کہ تم یہ ڈرامہ پہلے بھی دو بار دیکھ چکی ہو ” رانیہ نے حیا کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
“یار رانیہ یہ میرا فیورٹ ڈرامہ ہے. یہ مجھے اتنا پسند ہے کہ جتنا بھی دیکھ لوں دل ہی نہیں بھرتا” حیا نے مسکراتے ہوئے چینل چینچ کرتے ہوئے کہا
” پر میرا تو فیورٹ ” پیار لفظوں میں کہاں ” ہے”
” ہاں وہ بھی مجھے پسند ہے” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
**************************
” فرقان بھائی، آپ یہاں” سلیم صاحب نے کہا جو کہ رات کے کھانے کے لیے کچھ خریدنے کینٹین پر آۓ تھے مگر فرقان صاحب کو کینٹین پر دیکھ کر حیران رہ گے.
” میں شہریار کی طبعیت دریافت کرنے ہسپتال آیا ہوں. آفتاب بھی میرے ساتھ آیا ہے. وہ گاڑی پارک کر رہا تھا تو میں نے سوچا کہ بچے کے لیے کچھ لے لوں تبھی کینٹین پر آیا تھا” فرقان صاحب نے سیلم کو شاپر پکڑاتے ہوئے کہا
” ان سب کی کیا ضرورت تھی فرقان بھائی، آپ ہسپتال ملنے آۓ یہی کافی تھا”
” نہیں کچھ نہیں ہوتا، سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا لوں بچے کے لیے، تو اس لیے پھر جوسز ہی لے لیے، آپ یہ بتائیں کہ شہریار کی اب طبعیت کیسی ہے؟ ” فرقان صاحب نے سلیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” الحمداللہ بھائی، شہریار کو اب ہوش آگیا ہے، کوئی پریشانی والی بات نہیں، اُس کے ڈاکٹر سے بھی بات ہوگئی، اگلے مہینے اُس کا آپریشن ہے، پھر وہ ٹھیک ہوجائے گا ”
” یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ شہریار کو ہوش آگیا ، اللہ اُسے صحت عطا کرے”
” آمین، آئیں اندر چلتے ہیں ”
” نہیں آفتاب آجائے تو پھر اُس کے ساتھ ہی چلتے ہیں ” فرقان صاحب نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا
” جی اچھا ” سلیم بھی کرسی پر بیٹھ گیا
ابھی بامشکل پانچ منٹ ہی ہوۓ تھے کہ آفتاب صاحب کینٹین آگے. ان کو آتا دیکھ کر سیلم صاحب اور فرقان صاحب اپنی کرسیوں سے آٹھ کھڑے ہوئے. اور آفتاب صاحب کے پاس چلے گے.
” السلام علیکم” سیلم صاحب نے مسکراتے ہوئے آفتاب صاحب کو سلام کیا
” وعلیکم السلام” آفتاب صاحب نے جواب دیا
” شہریار کیسا ہے اب” آفتاب صاحب نے سلیم سے ہوچھا
” الحمداللہ، آفتاب بھائی بہتر ہے اب”
” ماشااللہ، اللہ اُسے لمبی عمر دے ” آفتاب نے مسکراتے ہوئے کہا
” آمین ” سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
**************************
” گرما گرم چاۓ تیار ہے” سالار نے چاۓ کی پیالیوں سے بھری ٹرے ٹی وی لاونچ میں لاتے ہوئے کہا
چاۓ کا سن کر حیا، رانیہ اور فاطمہ کمرے سے باہر آگئیں. جوکہ کچھ دیر پہلے ٹی وی دیکھنے حیا کے کمرے میں چلی گئیں تھیں کیونکہ سعدیہ بیگم میں اب اتنا حوصلہ نہیں باقی تھا کہ وہ نیوز سننے کے بجاۓ دوسرا ڈرامہ دیکھیں. ان ہی کے اصرار پر حیا، رانیہ اور فاطمہ، حیا کے کمرے میں ٹی وی چلی گئیں جو کہ اب چاۓ کا سن کر باہر بھی آگئی تھیں.
” بھائی مجھے بھی دیں نہ” فاطمہ نے سالار سے کہا جو کہ فاطمہ کو تنگ کرنے کی غرض سے اُس کو چاۓ کا کپ دیے بغیر ہی پاس سے گزر گیا.
” کیا کرو گی، چاۓ پی کر، ویسے بھی اتنی کالی ہو، اور کالی ہو جاؤ گی” زوہیب نے فاطمہ کو چھیڑتے ہوۓ کہا
” مجھ پر تو آپ ایسے تنقید کر رہے ہیں جیسے آپ خود فرانس کے شہزادے ہو” فاطمہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
” فرانس کا شہزادہ نہ ہوا تو کیا ہوا پاکستان کا تو ہوں” زوہیب نے چاۓ کا کپ اوپر اٹھاتے ہوئے کہا
” بیٹا، رضیہ سے بات ہوئی آپ کی”اس سے پہلے فاطمہ کچھ بولتی عالیہ بیگم نے حیا سے پوچھا
” جی امی ہوئی تھی، ماما نے کہا ہے کہ شہریار اب ٹھیک ہے”
” ماشااللہ یہ تو بہت اچھی بات ہے، اللہ اُسے زندگی دے”
عالیہ بیگم کی بات پر جب صرف سعدیہ بیگم نے آمین کہا تو عالیہ بیگم نے سب کو نظر اٹھا کر دیکھا جس پر سب نے ایک ساتھ اونچی آواز میں آمین کہا
“میں اور فاطمہ نماز پڑھ کر آتے ہیں، آج پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے ” عالیہ یگم نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا
ان کی اٹھنے کی دیر تھی کہ فاطمہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور عالیہ بیگم کے ساتھ ڈرائنگ روم میں نماز پڑھنے چلی گئی. ان لوگوں کے جاتے ہی زوہیب اپنی بتیسی کا نظارہ کرواتے ہوئے سالار کے سامنے والے صوفے بیٹھ گیا.
” ڈیئر ججز، کیسی لگی آپ لوگوں کو میری ہاتھ کی چاۓ ” سالار نے کہا جس کا کب سے موڈ ہورہا تھا اپنی تعریف سننے کا مگر جب کسی نے نہیں کی تو اُس نے خود ہی سب سے پوچھ لیا.
” بالکل آپ کی طرح کڑوی” زوہیب نے اپنی بتیسی دکھاتے ہوئے کہا
” آپ سے کس نے پوچھا، آپ کو شاید پتا نہیں مگر میں نے صرف ججز سے پوچھا ہے” سالار نے اپنا کپ صوفے کے پاس پڑے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا
” تو کیا میں جج نہیں” زوہیب نے منہ بناتے ہوئے کہا
” جی نہیں، آپ صرف مفت کی روٹیاں توڑنے والے ہیں” سالار نے اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوۓ کہا
” ہاں اب تو آپ یہی کہے گے، میری ہاتھوں کی بنی ہوئی چکن کڑاہی جو آپ کو ہضم ہوگئی ہے” زوہیب نے سالار کو جتاتے ہوئے کہا
” ہاہاہاہا، سچ میں، زوہیب، کوئی جتانا تم سے سیکھے ” سالار نے ہنستے ہوئے کہا
” حیا اب ہمیں اجازت دو”سعدیہ بیگم نے اٹھتے ہوئے کہا
” کیا مطلب، آپ جارہی ہیں ” حیا نے سوالیہ نظروں سے سعدیہ بیگم کو دیکھا
” ہاں میرا بچہ، میں، زوہیب اور سالار گھر جارہے ہیں، فاطمہ تمھارے پاس ہی رہے گی ” سعدیہ بیگم نےصوفے سے بیگ اٹھاتے ہوئے کہا
” او اچھا ” حیا کو اس سے بہتر جواب نہیں سوجھا
” مائی ڈیئر کزن بہت شکریہ آپ کا کہ آپ نے مجھ سے اپنے گھر میں ملازموں کی طرح کام کروایا ” زوہیب نے ہنستے ہوئے کہا
” نہیں اس میں شکریہ کہنے والی کیا بات ہے، آپ تو ہمارے اپنے ہیں. بلکہ جب اگلی دفعہ آئیگے تو آپ سے برتن بھی دھلواؤں گی” حیا نے ہنستے ہوئے کہا
ابھی زوہیب حیا کو جواب دینے ہی والا تھا کہ سعدیہ بیگم کی نظروں نے اُسے سگنل دیا. جس دیکھ کر اُس نے خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی
” بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں، اپنے گھر بلایا، اچھا کھانا کھلایا، اب آپ ہمارے گھر بھی آنا” سعدیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” اس میں شکریہ کہنے والی کیا بات ہے، یہ تو آپ کا اپنا گھر ہے، جب دل چاہے آئیں” حیا نے مسکراتے ہوئے سعدیہ بیگم سے کہا
” یہ تو بیٹا آپ کا بڑاپن ہے کہ آپ نے اتنی عزت دی، اب آپ نے بھی رضیہ اور سیلم بھائی کے ساتھ ہماری طرف چکر لگانا ہے”
” جی ضرور آنٹی، اللہ حافظ ”
” اللہ حافظ” سعدیہ بیگم نے حیا سے ہاتھ ملاتے ہوۓ کہا
” اللہ حافظ حیا” سالار نے مسکراتے ہوئے حیا سے کہا جس کا جواب دینا حیا نے ضروری نہیں سمجھا.
کہاں تھے آپ سیلم، کھانا لینے گے تھے، یا بنانے گے تھے، آپ کو پتا تھا جب کہ صائمہ بھابی دن سے بھوکی ہیں تو آپ کو جلدی آنا چاہیے تھا” سیلم کے ویٹنگ روم میں داخل ہوتے ہی آسیہ شروع ہوگئی کیونکہ وہ اس بات سے انجان تھی کہ اُس کے دو بھائی بھی سیلم کے ساتھ آۓ ہیں.
” فرقان بھائی اور آفتاب بھائی آۓ ہیں” سیلم نے آسیہ کی شکایتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا
” افففف گڑیا تم کتنا تنگ کرتی ہو بےچارے کو، ہم نے سب سن لیا، دو ہی تو منٹ لیٹ ہوا تھا ” آفتاب صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” بھائی اب تو گڑیا نہ کہے ، اب تو میں خود ایک گڑیا کی ماں ہوں” آسیہ نے شرمندہ ہوتے ہی بات کو کو بدلتے ہوئے کہا
” تو کیا ہوا، تم جتنی بھی بڑی ہوجاؤ ہمارے لیے تو بچی ہی رہو گی” اب کی بار فرقان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” رضا صاحب کہاں ہیں” آفتاب صاحب نے آسیہ سے ہوچھا
” وہ شہریار کے پاس ہیں، شہریار ابھی سو کر اٹھا ہے تو اُس کو دیکھنے گے ہیں” آسیہ نے جواب دیا
” اچھا ہم بھی ان ہی کے پاس چلتے ہیں ” فرقان صاحب نے کہا
” جی چلیں ” سیلم نے کھانے کا شاپر آسیہ کو پکڑاتے ہوۓ کہا
*************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...