پروفیسر ڈاکٹر سیّد معین الرحمن
حرفے چند
”قدِ آدم“ کے نام سے ان کے خاکوں کا ایک مجموعہ مقبول ہو چکا ہے، اب ”چھوٹی دُنیا بڑے لوگ“ کے زیر عنوان ان کے لکھے ہوئے خاکوں کا دوسرا مجموعہ صورت پذیر ہو رہا ہے جو اردو خاکہ نگاری کی پوری تاریخ میں اپنے مزاج کا پہلا اور منفرد مجموعہ ہے۔
”ماں جی“ قدرت اللہ شہاب کا ایک معروف خاکہ ہے۔ سلسلہ شہابیہ کے بعض ناموران قلم کے ہاں بھی گھریلو خواتین کا جہاں تہاں ایسا تذکرہ ملتا ہے جس پر خاکے کا گمان کیا جا سکتا ہے۔ آغا بابر بٹالوی نے بھی افراد خانہ کے بڑے سجیلے خاکے تحریر کیے ہیں لیکن یہ کتابی صورت میں نہیں چھپے یا چھپے ہیں تو میرے علم اور دسترس میں نہیں۔
اکبرحمیدی کے زیر نظر مجموعے کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں تمام تر اور یکسر گھریلو افراد کو مرکز نظر بنایا گیا ہے۔ میری نظر اور خبر کی حد تک اس نوع اور نہج کا یہ واحد اور اولین مجموعہ ہے۔ اس میں انہوں نے اپنی دادی، دادا جی کے سوتیلے بھائی، اپنی دوسری والدہ، تایا جی، بڑی تائی، اپنے والد اور اسی طرح خاندان یا اپنے قصبے کے دوسرے افراد کے بڑے متحرک اور یادگار خاکے تراشے ہیں۔
متعارف اور معروف شخصیات کا خاکہ لکھنے اور بالکل غیر معروف افراد کا جان دار اور قابلِ مطالعہ خاکہ پیش کرنے میں آسانی اور دشواری کا جو تناسب ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اکبر حمیدی اس مشکل راہ سے آسان اور کامران گزرے ہیں۔
خاکہ نگاری کو بجا طور پر ایک مشکل فن اور شغل کہا گیا ہے۔ دربارہ خاص رشید احمد صدیقی کا یہ قول کتنا بلیغ اور فصیل ہے کہ:
”ہمارا کسی کے لیے خوش یا ناخوش ہونا ہمارے لیے جتنا آسان ہے، اتنا ہی یہ مشکل ہے کہ ہم اس شخص کو دوسروں کی پسند یا ناپسند کا موجب بنا دیں۔“
اکبر حمیدی نے بالکل غیر معروف افراد کو پڑھنے والوں کے لیے مانوس اور محبوب بنا دینے میں غیر معمولی کامیابی پائی ہے۔ یہاں پھر رشید صاحب کی بات کا سہارا لینا پڑتا ہے کہ:۔
”جب تک مرقع نگار اپنے معمول کو دوسروں سے واضح طور پر منفرد نہ کر سکے گا، اس وقت تک نہ کوئی شخصیت نگار کا قائل ہو گا، نہ زیرمشق شخصیت کا! یعنی مرقع نگاری کو لازماً ہاتھ کا کام ہونا چاہیے ”مشین“ کا نہیں۔“
اکبر حمیدی کا کام بیک وقت تخلیقی وفور، شخصی ارتکاز اور دیدہ ریزی اور سوزن کاری سے عبارت ہے۔ نتیجتاً ان کے ہاں ”فرد“ ”فردِ فرید“ بن کر ابھرتا ہے، محض شخص نہیں رہتا، ایک شخصیت بن کر پڑھنے والوں کو اپنے حصار میں لیتا ہے۔ خاکہ نگار کی تراشیدہ ان شخصیات سے دو چار ہو کر زندگی، خوشبو، چاندنی، روشنی اور اچھی قدروں پر ہمارا یقین بڑھتا اور پختہ ہوتا ہے، اور یہ شخصیات پڑھنے والوں کے لیے بھی کم و بیش اتنی ہی عزیز، محبوب اور مضبوط ہو جاتی ہیں، جیسی وہ خود، شخصیت یا خاکہ نگار کا اثاثہ اور سہارا رہی ہیں……..یہ صورت حال بطور خاکہ نگار اکبر حمیدی کی بڑائی اور ان کے کمال فن کی مظہر ہے۔
اکبرحمیدی……..، تخلیقی اور تجزیاتی ذہن اور رویے کے آدمی ہیں۔ دھیمے، ”نکَھے اور تکھے“ …. …. زندگی کے ان کے تجربات ، خالصتاً ان کے ”اپنے“ ہیں۔ ان منفرد تجربوں کو نرم لفظی پیراہن عطا کرنے کا سلیقہ بھی ان کی متاع ہے۔ ان کی خیال افروز باتوں سے پڑھنے والوں کو روشنی ملتی ہے۔ ان کا انہماک اور اخلاص، ان کی خوش نفسی اور دردمندی ہمیں روکتی اور متوجہ کرتی ہے۔
خاکوں کا یہ مجموعہ، اردو خاکہ نگاری کے ارتقا اور تاریخ میں ایک منفرد اور ممتاز موڑ اور مقام کا حامل ہے جس سے خاکہ نگاری کا کوئی مبصّر یا مورّخ صرفِ نظر نہیں کر سکے گا لیکن اپنے مزاج و منہاج کا پہلا مجموعہ ہونا ہی اس کا واحد امتیاز نہیں، اکبرحمیدی جس تخلیقی اور فطری اسلوب میں دیہات کے سوندھے پن اور رویوں کی خوبصورتی کو کشید کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس ہنروری کے حوالے سے بھی ”چھوٹی دنیا بڑے لوگ“ اردو خاکہ نگاری کی ذیل میں ہمیشہ قابل لحاظ رہے گی اور مستقل جگہ پائے گی۔
اکبر حمیدی نے اپنے اعزہ و اقربا کے خاکوں میں زندگی کے خلوتی و عائلی خانے پر جتنی توجہ دی ہے، اہلِ قلم کے خاکوں میں اس سے اتنی ہی بے توجہی اختیار کی ہے۔ اکبر حمیدی شخصیت کا تجزیہ کرنے اور بعد ازاں اس کی مدد سے نتیجے تک پہنچنے کی صلاحیت کو بھی بروئے کار لائے ہیں، خواہ ان کے تجزیئے کو نامناسب اور نتیجے کو غلط ہی کیوں نہ سمجھا جائے۔ بات خاکوں پر ہو رہی ہے تو یہ بتاتا چلوں کہ اکبرحمیدی نے اپنے خاکوں میں حلیہ نگاری یا شخصیت کی ظاہری وضع و قطع کو زیادہ اہمیت نہیں دی مگر جن دو ایک مقامات پر دی ہے وہاں کمال کر دیا ہے۔
(اقتباس از مضمون قدِ آدم ایک مطالعہ ازرفیق سندیلوی)