شہلا خالی خالی نظروں سے وسیع و عریض رقبے پر پھیلے لان کو دیکھ رہی تھی ۔۔
سونے سے پہلے اس نے ہمیشہ کی طرح اپنے بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنا لیا تھا ۔۔
لیکن ہوا کے زور پر اس کے جوڑے سے بالوں کی موٹی موٹی لٹیں نکل کر لہرانے لگی تھیں ۔۔
وہ بہت خوبصورت تو نہیں تھی ۔۔
دبتی ہوئی گندمی رنگت ۔۔
بھرا بھرا گول چہرہ ۔۔
چھوٹی چھوٹی غلافی آنکھیں تھیں ۔۔
جن کی پتلیاں کافی بڑی تھیں ۔۔
چپٹی سی ناک کو لونگ نے سجا دیا تھا ۔۔
ہونٹوں کا کٹائو بہت دلکش نہیں تھا ۔۔
لیکن قطار سے بنے موتیوں جیسے دانتوں کی وجہ سے مسکراہٹ بہت پیاری لگتی تھی ۔۔
لیکن وہ مسکراتی کب تھی ۔۔
اسے خود بھی یاد نہیں آیا وہ آخری دفعہ کب مسکرائی تھی ۔۔
جبراً لب پھیلا لینا مسکرانا تو نہیں ہوتا نا ۔۔
اڑتے بالوں کو سمیٹ کر شہلا نے جوڑے کو تھپتھپایا تو سیاہ ریشمی بالوں کا جوڑا کھلتا چلا گیا ۔۔
اس نے بھی پروہ نہیں کی ۔۔
ہوا کے دوش پر اڑتے گدگداتے بال مزہ دے رہے تھے ۔۔
آنکھیں بند کر کے اس نے رات کی رانی کی خوشبوں اپنی سانسوں میں کھینچی تھی ۔۔
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا درختوں کی ٹہنیوں سے دو سرخ آنکھیں کب سے اسے تک رہی تھیں ۔۔
اس کے بالوں میں کسی کا دل اٹکا تھا اس بات سے انجان وہ سوچ رہی تھی۔۔
“اتنے دراز بال سنبھالنے مشکل ہوتے ہیں ۔۔
کاٹ لوں گی کل ۔۔”
تھوڑی دیر اور خوشبودار ٹھنڈی ہوا سانوں میں اتارنے کے بعد وہ کمرے کے اندر چلی گئی تھی ۔۔
جبکہ وہ سیاہ بلا چھلانگ لگا کر اس کی گیلری میں کودا تھا جس سے اچھی خاصی آواز ہوئی تھی ۔۔
بلے نے گیلری کا دروازہ اپنے مضبوط وجود سے کھولنے کی کوشش کی لیکن دروازہ اندر سے بند تھا ۔۔
وہ دروازے کو قہربار نظروں سے گھورنے لگا ۔۔
وہ اپنی انسانی شکل میں ہوتا یا بلے کا روپ دھارے ہوتا ۔۔
وہ یا اس کے قبیلے کے باقی لوگ ایسی کسی دیوار یا دروازے کے آر پار نہیں ہوسکتے تھے ۔۔
وہ بے بس سا اُدھر اُدھر چکرانے لگا ۔۔
وہ کچھ دیر اور شہلا کو دیکھنا چاہتا تھا ۔۔
یا شائد دیکھتے ہی رہنا چاہتا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ نے سگرٹ کا دھواں فزائوں کے سپرد کر کے وجدان کی طرف دیکھا جو اس سے چار سال بڑا تھا ۔۔
چہرے پر بلا کی سنجہدگی تھی جو اس حادثے کے بعد اور بھی بڑھ گئی تھی ۔۔
حمزہ نے اپنی بہن کو کھویا تھا تو وجدان نے بھی اپنی ماں کو کھو دیا تھا ۔۔
وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا تھا ۔۔
باپ تو شفقت لٹاتا ہی تھا لیکن اپنی ماں کی آنکھ کا تارا تھا وہ ۔۔
اتنا بڑا ہونے کے باوجود وہ اس کے کان کے پیچھے کالا ٹیکا لگایا کرتی تھیں ۔۔
سب کزنز اسے “ماں کا لاڈلا” کہہ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے ۔۔
وہ بھی اپنی ماں کے لیئے اتنا ہی حساس تھا جتنا حمزہ ہانیہ کے لیئے ۔۔
سر جھٹک کر حمزہ نے آنکھ کے کنارے سے آنسو صاف کیا ۔۔
ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس نے بہن کی یادوں سے پیچھا چھڑوایا تھا ۔۔
وہ دونوں شام ڈھلے آفس سے واپس لوٹ رہے تھے ۔۔
جو بھی تھا کبھی نہ کبھی صبر آنا ہی تھا ۔۔
حویلی والوں کو بھی رفتہ رفتہ آنے لگا تھا ۔۔
سب روٹین کی طرف لوٹ رہے تھے ۔۔
مرد حضرات تو چار و ناچار کام پر جاتے ہی تھے ۔۔
مگر آج تمام خواتین بھی کچن میں رات کے کھانے کی تیاریوں میں مصروف تھیں ۔۔
کچن سے اشتہاانگیز کھانے کی خوشبوئیں آ رہی تھیں ۔۔
تینوں لڑکیاں تو بس کچھ بھی ہلکا پھلکا الٹا سیدھا بنا کر جان چھڑا لیتی تھیں ۔۔
اور ذائقہ اتنا خراب ہوتا تھا کہ اگر کسی کو بھوک لگ ہی جاتی تو ایک دو نوالے کھا کر ہی بھوک مر جاتی تھی ۔۔
حمزہ کی بھوک بہت عرصے بعد چمکی تھی ۔۔
وہ فریش ہو کر آیا تو ڈائننگ ٹیبل پر سب جمع تھے ۔۔
غیر ارادی طور پر نظروں نے کسی کو تلاشہ تو وہ اسی وقت کچن سے ایک ڈونگا اٹھائے آتی نظر آئی ۔۔
حمزہ کی نظریں ساکت رہ گئی تھیں ۔۔
صرف حمزہ کی ہی نہیں ۔۔
دو کالی آنکھوں میں بھی اچانک ناگواری اتر آئی تھی ۔۔
شہلا کے اونچی پونی میں جکڑے ریشمی سیاہ بال کندھوں سے ذرا ہی نیچے آ رہے تھے ۔۔
صبح ہی اس نے اپنے بالوں کو کاٹا تھا ۔۔
اب وہ گردن بہت ہلکی پھلکی محسوس کر رہی تھی ۔۔
اپنے لیئے کھانا نکالتے ہوئے اس نے بے پروائی سے سر اٹھایا تو نظریں حمزہ کی نظروں سے ٹکرائیں ۔۔
حمزہ نے اپنی نظریں فوراً نہیں ہٹائی تھیں بلکہ ایک عدد گھوری سے نواز کر نظروں کا رخ بدلا تھا ۔۔
شہلا کچھ سمجھے بغیر ہی خجل ہوگئی ۔۔
خجالت مٹانے کو اس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اس بار نظریں شمعون کی سیاہ آنکھوں سے جا ٹکرائیں ۔۔
شمعون کوئی تاثر دیئے بغیر کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا لیکن اس کی کشادہ پیشانی پر ایک گہرا بل نمایاں تھا ۔۔
“کیا مسئلہ ہے ان چچا بھتیجا کے ساتھ ۔۔”
دل میں بڑبڑاتے ہوئے شہلا بھی کھانے کی پلیٹ پر جھک گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امتل نازیہ اور فرح کے ساتھ لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے وہ ہانیہ کی غیر موجودگی کافی محسوس کر رہی تھی ۔۔
ہانیہ اپنے تمام کزنز میں سب سے چھوٹی تھی ۔۔
لیکن سب سے بردبار بھی وہی تھی ۔۔
ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے شہلا نے جویریہ بیگم کو اس طرف آتا دیکھا ۔۔
“امتل ۔۔”
“جی امی ۔۔”
امتل ان کے قریب ہوئی ۔۔
“یہ کھانا طوبی کو دے آئو ۔۔”
“امی مجھے نہ کہا کریں ۔۔
اس نے پچھلی بار بھی میرا سر دیوار سے مار دیا تھا ۔۔”
امتل نے پیشانی پر بکھرے چھوٹے چھوٹے کٹے ہوئے بال پیچھے کر کے انہیں وہ گمشدہ نشان دکھانے کی کوشش کی ۔۔
“چل جا نا میرا بچہ ۔۔
میرے سے سیڑھیاں نہیں چڑھی جاتیں ۔۔
اور تو ڈر مت ۔۔
حمزہ جا رہا ہے ساتھ ۔۔”
انہوں نے اپنے پیچھے آتے حمزہ کی طرف اشارہ کیا ۔۔
امتل کی تیوری ہنوز چڑھی رہی ۔۔
فرح نیند کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ نازیہ کے فون پر کال آئی تو وہ سائڈ ہوگئی ۔۔
شہلا طوبی کے قصے کو جانتی تھی اور جویریہ بیگم کی تیوریاں بھی دیکھ چکی تھی سو ان سے کچھ فاصلے پر ہو کر ٹہلنے لگی ۔۔
“یہ لے شاباش لے جا ۔۔”
حمزہ جب پاس آیا تب انہوں نے زبردستی امتل کو ٹرے تھمائی اور مسکراتی نظروں سے امتل اور اس کے پہلو میں کھڑے حمزہ کو دیکھتی ہوئی وہاں سے چل دیں ۔۔
وہ اپنی لاابالی سی بیٹی کو کیسے اپنے خیالات سمجھاتیں ۔۔
براہ راست کچھ کہنے سے بھی ڈر رہی تھیں کہ کہیں امتل خواب سجانا نہ شروع کردے ۔۔
اور بعد میں اگر قسمت کو یہ منظور نہ ہو ۔۔
تو ان کی اکلوتی بیٹی کا ننھا سا دل ٹوٹ جائے ۔۔
سو وہ اپنی طرف سے ڈھکی چھپی کوشش کر رہی تھیں حمزہ اور امتل کی جوڑی بنانے کی ۔۔
کچھ دور کھڑی شہلا نے بڑی گہری نظروں سے ساری کاروائی ملاحظہ کی پھر دھیرے سے ہنس پڑی ۔۔
شائد ساری مائیں ایسی ہوتی ہیں ۔۔
“ارے واہ ۔۔”
ابھی وہ آگے بڑھ رہی تھی جب مسکراتی ہوئی مدھم آواز پر اچھل کر پلٹی ۔۔
شمعون ایک درخت کے تنے سے کمر ٹکائے نہ جانے کب سے وہاں کھڑا تھا ۔۔
شہلا اس کی موجودگی بلکل محسوس نہیں کر سکی تھی ۔۔
وہ خود پر حیران ہو رہی تھی جب شمعون آگے بڑھا اور اس کے پہلو میں آ کر کھڑا ہوگیا ۔۔
“اب سمجھ آیا آپ کم کم کیوں مسکراتی ہیں ۔۔”
شہلا نے کوئی جواب نہیں دیا اور انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔
کسی انجان مرد سے تنہائی میں بات کرنے کا یہ اس کا پہلا تجربہ تھا ۔۔
سو اس کے مساموں سے پسینہ پھوٹنے لگا ۔۔
شمعون نے گہری نظروں سے اس کی گھبراہٹ ملاحظہ کی پھر قدم آگے بڑھا دیئے ۔۔
ساتھ ہی شہلا کو بھی چلنے کا اشارہ دیا ۔۔
شہلا نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے قدم گھسیٹنے لگی ۔۔
امتل کے ساتھ آگے بڑھتے حمزہ نے حیرت سے یہ منظر دیکھا تھا ۔۔
دیکھا تو امتل نے بھی تھا ۔۔
“ہو نہ ہو ۔۔
یہ میڈم اتنی ساری مصیبتیں جھیل کر فلمی سچویشن میں ہماری حویلی میں ہماری چاچی بننے ہی آئی ہیں ۔۔
لکھوا لیں مجھ سے حمزہ بھائی ۔۔
قدرت کو یہی منظور یے ۔۔”
امتل نان اسٹاپ بول رہی تھی ۔۔
حمزہ نے ترچھی نظروں سے اسے گھورا ۔۔
“تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو کہ چاچی بننے ہی آئی ہے ۔۔”
حمزہ نے منہ ایسا بنا لیا تھا جیسے منہ میں کڑوا بادام آیا ہو ۔۔
“اوہوووووو”
امتل کی آنکھیں پہلے باہر کو ابلیں پھر شرارت سے آنکھیں مٹکائیں اور چہک کر بولی ۔۔
“ممکن ہے بھابی بننے آئی ہو ۔۔
اب ٹھیک ہے ۔۔”
حمزہ اس کی بات پر ڈانٹنے کی کوشش کی لیکن منہ سے مدھم سی ہنسی نکل گئی ۔۔
امتل نے بھی پھر چھیڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔۔
کچن سے نکلتی جویریہ بیگم کا چہرہ کھل اٹھا یہ منظر دیکھ کر ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہلا کو اب نیند آنے لگی تھی ۔۔
حویلی کی لائٹس اندر سے آف کر دی گئی تھیں لیکن شمعون اسے جانے ہی نہیں دے رہا تھا ۔۔
شہلا سوچ رہی تھی کاش وہ تھوڑی بے مروت ہوتی ۔۔
سو ٹکا سا کوئی جواب دے کر چلتی بنتی ۔۔
لیکن ہائے رے مروت نام کی یہ مصیبت ۔۔
ہاں مگر اتنا تھا کہ اب وہ جبراً ہونٹ مسکرانے کے انداز میں پھیلا کر جواب نہیں دے رہی تھی ۔۔
سنجیدہ سا چہرہ بنائے ہوں ہاں میں جواب دیتی اپنی کوفت ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
اور شمعون سب محسوس کر کے بھی انجان بن رہا تھا ۔۔
“شہلا ۔۔”
نہ جانے شمعون کی اس گمبھیر پکار میں کیا تھا کہ شہلا کا چہرہ پسینے میں نہا گیا ۔۔
جیسے باتوں کی شروعات میں ہوا تھا ۔۔
شہلا نے لرزتی پلکیں بمشکل اٹھا کر شمعون کی طرف دیکھا ۔۔
“ڈونٹ مائنڈ لیکن ایسا لگتا یے اس حویلی میں آپ کو کوئی خاص پسند نہیں کرتا ۔۔
جیسے مجھے بھی کوئی پسند نہیں کرتا ۔۔
آئیں دونوں ایک دوسرے کو پسند کر لیں ۔۔”
شمعون نے اچانک اس کے سامنے ہو کر اپنا چوڑا ہاتھ اس کے آگے پھیلا دیا ۔۔
شمعون جانتا تھا یہ سب بہت عجلت میں ہوگیا تھا لیکن اب وہ مزید دیر نہیں چاہتا تھا ۔۔
ہرگز نہیں چاہتا تھا ۔۔
شہلا نے آنکھیں پھاڑ کر پہلے اپنے سامنے پھیلی ہتھیلی کو دیکھا پھر شمعون کے چہرے کو ۔۔
جہاں سنجیدگی کے علاوہ بھی کچھ تھا جس نے شہلا کو نظریں چرانے پر مجبور کردیا تھا ۔۔
شہلا کو بہت عجیب لگ رہا تھا ۔۔
مہینہ ہی ہوا تھا ابھی اس حادثے کو گزرے اور شمعون سسے پرپوز کر رہا تھا ۔۔
جھجھکتے ہوئے شہلا دو قدم پیچھے ہوئی اور پھر بھاگتی چلی گئی ۔۔
پیچھے اپنے خالی ہاتھ کو گھورتا شمعون اپنے اندر پکتے لاوے کو محسوس کر کے پہلی بار خوفزدہ ہوگیا ۔۔
“نہیں ابھی کچھ نہیں ۔۔
ہاں نہیں کیا تو ناں بھی نہیں کیا ۔۔
مجھے صبر کرنا چاہیے ۔۔
ڈائریکٹ جواب ملنے تک ۔۔
صبر شمعون صبر ۔۔
صبر ۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...