گھر اچھا خاصا بڑا ہونے کی وجہ سے داداجان ( ظہور صاحب ) کی خواہش تھی کہ وہ اپنی چھوٹی سی گڑیا رباب کو اپنے ھی آنگن سے رخصت کریں ۔۔۔۔جہاں انکی زوجہ یعنی دادی نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لی تھیں ۔۔۔بابا اور تایا ابو اپنی بہن نہیں بلکہ بیٹی کو رخصت کرنے جارہے تھے ۔۔۔اسی وجہ سے انہوں نے اپنے تیئے جو کرنا تھا بہن کی خوشی کے لئے کر رہے تھے ۔ لیڈیز اور جینٹس کا پورشن الگ الگ تھا جہاں لڑکوں کو جانے کی اجازت بلکل بھی نہ تھی ۔۔۔۔پورے گھر کو بہت نفاست سے سجایا گیا ۔۔۔ھر طرف پھولوں کی کیاریاں اور برقی قمقموں سے گھر کو خوبصورت بنایا گیا تھا ۔۔۔رات میں بھی دن کا گماں ہوتا تھا ھر طرف سب کی واہ واہ تھی ۔۔۔
ماننا پڑے گا ارینجمنٹ تو بہت اچھی کی گئی ہے ۔۔۔وہ آنکھوں میں ستائش لئے بولا ۔۔۔
آخر کی کس نے ہے ۔۔۔حدید نے اپنے مفلر کو جھٹکا دیتے ہوئے فخر سے جواب دیا ۔۔
ہمم ۔۔۔لیکن کچھ مزہ نہیں آیا ۔۔۔بوریت سی فیل ہو رہی ہے ۔۔۔حزیفہ نے اسے تپانے کے لئے گندی سی شکل بناتے ہوئے کہا ۔۔۔
کیا یار ۔۔۔یہ میں نے ساؤنڈ سسٹم چندا برائے شادی کے لئے تھوڑائی لگوایا ہے ہاں ۔۔وہ واقعی جلتے ہوئے بولا ۔۔۔
اچانک حدید کی نظر ولید ( بڑی پھپھو کا بیٹا ) پر پڑی جو گرتا پڑتا زنانیوں والے حصے سے مار کھا کر نکلا تھا ۔۔۔
چہ چہ چہ ۔۔۔۔۔ارے بھائی صاحب ایسے کام ھی کیوں کرتے ہو جس سے مار ملے ۔۔۔اسکی حالت دیکھ کر حدید نے اسکے بال بناتے ہوئے کہا ۔۔۔
حزیفہ اپنی ہنسی دبا گیا ۔۔۔
کیا یار ۔۔۔صرف دیکھنے ھی تو گیا تھا ۔۔مگر اس تابی کی بچی نے بڑا پٹوایا ہے ۔۔۔آخر میں وہ روہانسا ہوتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
تو تجھے کس نے کہا تو اس سے جا کر پنگا لے ۔۔۔حدید نے طنزاً کہا ۔۔۔
کیا کرتا یار ۔۔۔ اس نے مرد کو بزدل کہا جبھی میری مردانگی نے یہ کام کرنے پر مجھے مجبور کیا ۔۔۔وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ۔۔۔
اچھا ا ا ا ۔۔۔۔تو یہ بات ہے ۔۔۔حدید نے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
چلو پھر ۔۔۔۔وہ آگے بڑھا ۔۔۔
کہاں ۔۔۔وہ اسکے پیچھے چل دیا ۔۔۔
آجاؤ بتاتا ہوں ۔۔۔وہ وہیں رک گیا ۔۔کیوں کہ حزیفہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں تھا ۔۔
ترے پیچھے تیرا جن تھوڑئی کھڑا ہے جو اسے بول رہا ہوں ۔۔چلو ۔۔ان دونوں نے اسے بازؤں سے دبوچا کہ بھائی اب کی بار مار کھائیں گے تو دونوں ساتھ میں ۔۔۔
۔****************************۔
یار بہت اچھا کیا تم نے ولید کے ساتھ ۔۔۔قسم سے کوئی تو میرا بدلہ اس سے لے ورنہ گھر میں پریشان کر کے رکھ دیتا ہے ۔۔۔اناسہ نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔
ہاں اب تو چُن چُن کر ان لڑکوں سے بدلے لینے ہیں میں نے ۔۔۔تابی نے آستین فولڈ کرتے ہوئے مزے سے کہا ۔۔۔
اچھا نہ چلو ڈانس کرتے ہیں ۔۔۔وہ دیکھو نہ ۔۔۔سب کتنا مزہ کر رہے ہیں ۔۔۔اسنے سٹیج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔
ٹھیک ہے چلو ۔۔۔وہ بھی ساتھ چل دی ۔۔۔
میں تم لوگوں کے کسی بھی بے ہودہ کام میں ساتھ نہیں دینے والا یہ سن لو ۔۔۔مجھے تو ویسے بھی انٹری مل جائے گی تم اپنا سوچو ۔۔۔یہ کہہ کر حزیفہ نے اپنی جان ان شیطانوں سے چھڑا دی تھی ۔۔۔اب وہ اکیلے ھی چل پڑے تھے ۔۔۔
وہ دروازے تک پہنچے ھی تھے کہ حدید نے رکتے ہوئے اس سے پوچھا ۔۔۔
میں ٹھیک تو لگ رہا ہوں نہ ۔۔۔اوہ سوری میرا مطلب ہے لگ رہی ہوں ۔۔۔آخر میں اسنے آواز تبدیل کرتے ہوئے کمال کی اداکاری کرتے ہوئے کہا ۔ ۔
ہاہاہاہا کمال ہے ۔۔۔ولید کا مردانہ قہقہ بیچ میں ھی رک گیا کیوں کہ حدید نے اسکے منہ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اسے چپ کرا دیا ۔۔۔
آرام سے ۔۔۔مروائے گا کیا ۔۔۔؟ وہ دھیمے لہجے میں غرایا ۔۔۔
اچھا سوری ۔۔سوری ۔۔۔وہ جلدی سے بولتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔۔۔
۔**************************۔
رات کی رنگیلی دیکھو کیا رنگ لائی ہے ۔۔۔
ہاتھوں کی مہندی بھی جیسے کھلکھلائی ہے ۔۔
فل وولیم میں گانا چل رہا تھا جس پر تابین اور اناسہ ڈانس کرنے میں مصروف تھیں ۔۔۔؟ ارد گرد سب تالیوں کے ساتھ ساتھ لطف بھی اٹھا رہے تھے ۔۔
واہ کیا ڈانس ہے یوں لگتا ہے جیسے چڑیلوں نے میک اپ کے دریا میں ڈبکی لگا کر ناچنا شروع کردیا ہو ۔۔۔حدید نے سرگوشی میں کہا ۔۔۔
اپنے لہنگے کو سمبھالتی ہوئی وہ جارہی تھی جبھی اسکی نظر دو مشکوک لوگوں پر جا اٹکی ۔۔۔یہ لوگ کون ہیں ۔۔۔؟ وہ بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔۔۔
چلو ہم بھی تالیاں بجاتے ہیں ۔۔۔وہ دونوں آگے بڑھے ھی تھے کہ امل کی آواز پر انکے قدم تھم گئے ۔۔؟
مر گئے ۔۔۔ولید بڑبڑایا ۔۔۔
عجیب رنگ کے کپڑوں میں ۔۔۔سر پر بڑا سا گھونگھٹ اوڑھے ۔۔ہاتھوں میں دستانے ۔۔پیروں میں شوز ۔۔۔وہ کوئی عجیب مخلوق لگ رہی تھی ۔۔۔
کون ہیں آپ لوگ ۔۔۔؟ عمل نے سر سے پاؤں تک حدید کا جائزا لیتے ہوئے پوچھا ۔۔
اصل میں ۔۔۔وہ مردانہ آواز میں بولنے لگا تھا جبھی ولید نے اسے کہنی ماری ۔۔۔
امل کی بھنویں تن گئیں ۔۔۔
وہ باجی جی ۔۔۔ہم تو ساتھ والے ہیں آپ نے پہچانا نہیں ۔۔۔؟ حدید زنانیوں والی آواز میں کمال کی اداکاری کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
باجی جی ۔۔۔۔ وہ زیر لب بڑبڑائی ۔۔۔
جی ۔۔۔میں ہوں جمیلہ اور یہ ہے میری بہن شکیلہ ۔۔۔حدید نے ولید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
کیا ہوا امل ۔۔۔کیوں کھڑی ہو یہاں ۔۔۔اناسہ کی آواز پر وہ پشت کے بل مڑی ۔۔۔
وہ میں ۔۔۔یہ لوگ ۔۔۔اسنے آگے کی طرف اشارہ کیا ۔۔مگر یہ کیا ۔۔۔وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا ۔۔۔
یہ کہاں گئے ۔۔۔؟ وہ بڑبڑائی ۔۔
کون۔۔۔؟
کوئی نہیں ۔۔۔۔ چلو ۔۔۔وہ اگنور کرتی ہوئی آگے بڑھیں ۔۔
۔***************************۔
کون تھی وہ لڑکی ۔۔۔۔؟ اور اس نے میری مدد کیوں کی ۔۔۔؟ وہ چار پائی پر لیٹا آسمان کی جانب تکتا ہوا دونوں ہاتھ سر کے نیچے دئے سوچنے میں مصروف تھا ۔۔۔
چشمیں سے جھانکتی ہوئی اسکی موٹی موٹی آنکھیں ۔۔۔ان آنکھوں میں خوف کی وجہ سے لہراتا پانی ۔۔جُوڑے سے نکلی ہوئی لٹیں ۔۔۔اسکی آنکھوں کے سامنے کسی اور کی تشبیح لہرائی ۔۔
آہ ۔۔۔اسکی ہلکی سی چیخ پر وہ اسکی جانب لپکا ۔۔کیا ہوا تم ٹھیک ہو ۔۔۔خون آلود اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اسنے فکر مندی سے پوچھا ۔۔۔مگر وہ آنکھوں میں نمکین پانی لئے سو سو کرنے میں مصروف تھی ۔۔
دھیان سے نہیں کر سکتی تم پاگل ہو ۔۔۔اسکی آنکھوں میں پانی دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا ۔۔۔
میں ۔۔میں کیا کروں اب غلطی سے ہو گیا ھر کوئی مجھے ہی ڈانٹتا ہے ایک دن دور چلی جاؤں گی نہ پھر پتا چلے گا ۔۔وہ غصے اور بے بسی کے ملے جلے تاثرات سے کہتی ہوئی چلی گئی ۔۔وہ تھی ہی ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے والی ۔۔۔وہ بے بسی سے اسکے پیچھے چل دیا اسے منانے ۔۔۔
بھائی ۔۔۔بھائی ۔۔۔مناہل کے پکارنے پر وہ ماضی سے حال کی طرف لوٹ آیا ۔۔
کیا سوچ رہے ہیں ۔۔۔مناہل نے اسے چائے پکڑاتی ہوئے پوچھا ۔۔۔
کچھ نہیں ۔۔۔تم ابھی تک سوئی نہیں ۔۔۔؟ جواباً اس نے پوچھا ۔۔۔
نہیں امی کو دوائی دینے اور آپ کی چائے بنانے میں وقت لگ گیا ۔۔۔
امی سو گئیں ۔۔۔؟ وہ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا ۔۔
جی بھائی ۔۔۔
اچھا اب تم بھی سو جاؤ کافی رات ہو گئی ہے ۔۔۔باسط نے اس سے کہا ۔۔۔
ٹھیک ہے بھائی شب بخیر ۔۔۔
شب بخیر ۔۔۔وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے زمین کو گھورنے لگا ۔۔۔
یقین نہیں ہوتا ۔۔۔اس بے دردی ۔۔احساس مروت سے گھری دنیا میں کوئی ہمدرد بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔وہ سوچنے لگا ۔۔۔
۔*******************۔
وہ بار بار ترچھی نظر سے ان مشکوک عورتوں کی جانب دیکھنے لگی ۔۔۔۔
کیا ہوا ۔۔۔؟ تمہیں وہ پسند آگئی ہیں ۔۔۔تابی نے انکی جانب اشارہ کرتے ہوئے امل سے پوچھا ۔۔۔
یار مجھے نہ کچھ عجیب لگ رہا ہے ۔۔۔یہ بڑی والی تو عورت لگ ہی نہیں رہی ۔۔اس نے حدید کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
تابی نے انکا جائزا لیا ۔۔۔اچانک اسکی نظر اسکے ہاتھ پر اٹک گئی ۔۔۔جہاں گلوز سے باھر جھانکتے ہوئے بال نظر آرہے تھے ۔۔۔
اچھا۔۔۔۔۔۔تو یہ بات ہے ۔۔۔چلو میرے ساتھ ۔۔۔وہ آستین کو فولڈ کرتی ہوئی آگے بڑھ گئیں ۔۔۔
ابے تو نے موبائل نہیں اٹھایا ۔۔۔حدید نے ولی سے کہا ۔۔۔
نہیں میں تو سمجھا کہ تم نے اٹھایا ہوگا ۔۔۔جواب میں اس نے کہا ۔۔
لعنت ہے تم پر ۔۔۔وہ دیکھو کیسے کھا رہے ہیں ۔۔۔انکی ویڈیوز بنانی تھی میں نے وہ خواتین کے ٹولے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مایوسی سے بولا ۔۔۔
حدید ۔۔۔۔وہ اسکے پیچھے کھڑی اسے پکارنے لگی ۔۔
ہاں ۔۔۔بے خیالی میں اسنے مڑتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔
ہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔امل اور اناسہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔۔۔
حدید کی نظر جیسے ہی تابی پر گئی اسنے فوراً رخ پھیر لیا ۔۔۔
یہ کیا کر دیا ۔۔۔۔اب تو چھترول ہونی ہے ۔۔۔ولی بڑبڑایا ۔۔۔
اچھا ا ا ۔۔۔۔تو آنٹی آپ کو کس نام سے پکاروں ۔۔۔۔
وہ کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے طنزیہ بولی ۔۔۔
چل نکل یہاں سے ۔۔۔ولید نے اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
آہ آہ آہ ۔۔۔کہاں ں ۔۔۔۔۔۔۔؟وہ آگے بڑھتے جبھی تابی نے ہاتھ آگے کرتے ہوئے اسکا راستہ روک لیا ۔۔
اہم اہم ۔۔ہمیں گھر جانا ہے ۔۔ایکچولی ہمارے بچے گھر میں اکیلے ہیں نہ تو ۔۔۔ولید نے گلہ کھنگارتے ہوئے ہاتھ کے اشاروں سے آواز تبدیل کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
اوہ ۔۔۔آپ کے بچے بھی ہیں ۔۔۔؟
جی ۔۔۔میرے دو اور انکے ایک ۔۔۔وہ حدید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔
امل اور اناسہ سمیت تابی نے بھی اپنی ہنسی دبائی ۔۔۔
یہ آپ کی آواز کو کیا ہوا ہے ۔۔۔لگتا ہے گلے میں بلغم اٹک گیا ۔۔۔۔تابی کے اس جملے پر امل نے گندی سی شکل بنائی ۔۔۔
ان دونوں کے پسینے چھوٹ گئے ۔۔۔
ارے یہ اپنا گھونگھٹ تو ہٹائیں ذرا ہمیں بھی اپنے دیدار کا شرف بخشیں ۔۔۔وہ ہاتھ سے گھونگھٹ ہٹانے ہی لگی تھی جبھی وہ پیچھے ہوا ۔۔۔
کیا ہو رہا ہے یہ ۔۔۔؟ تائی اور امی نے آتے ہی پوچھا ۔۔۔
ہونا کیا ہے ۔۔۔دیکھیں آپ بھی تماشا ۔۔۔اپنے بیٹے اور اکلوتے بھتیجے کا ۔۔۔جنہیں خسرہ بننے کا بہت شوق ہے ۔۔۔تابی نے ہنسی دباتے ہوئے کہا ۔۔۔
او ہیلو ۔۔۔حدید یکدم گھونگھٹ ہٹاتے ہوئے بولا ۔۔۔جسکو دیکھ کر تائی اور امی کا منہ کھل گیا ۔۔۔
امل اور اناسہ تو پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے میں مصروف تھیں ۔۔۔
یہ کیا کیا ہے تم نے ۔۔۔؟ تائی جان نے حدید کی طرف دیکھتے ہوئے حیرانگی سے پوچھا ۔۔۔
خسرہ بنا ہے ۔۔۔تابی نے یہ کہتے ہوئے قہقہ لگایا ۔۔
وہ خونخوار نظروں سے تابی کو گھورنے لگا ۔۔۔
ارے تم کہاں جارہے ہو ۔۔۔اب ہٹا بھی دو گھونگھٹ ۔۔اناسہ نے ولید کے دوپٹے کو کھینچتے ہوئے کہا ۔۔۔اسکی شکل دیکھ کر سب کا قہقہ چھوٹ گیا ۔۔۔
آؤ نا ذرا سیلفی بناتے ہیں پیارے بھیا ۔۔۔۔وہ اسکو چڑاتے ہوئے بولی ۔۔۔اور وہ منہ چھپانے لگا ۔۔
ارے ایسا کام کیوں کرتے ہو جس سے منہ چھپانا پڑے ۔۔۔امل نے بونگی ماری ۔۔۔
تم چپ کرو نوبیتا کہیں کی ۔۔۔حدید نے کمال کی اداکاری کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
امل کا منہ بن گیا ۔۔۔
ویسے تمہارا وہ دوست نظر نہیں آراہا اسے کیا کہیں اور بھیجا ہے خسرہ بنا کر ۔۔۔تابی نے آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔
کسی نے ہمیں یاد کیا ۔۔۔۔حزیفہ ایک بازو حدید اور دوسرا بازو ولید کے کندھے پر جماتے ہوئے کہا ۔۔۔
آہ کیا سٹائل ہے ۔۔۔اناسہ نے جھکتے ہوئے تابی کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
ایکسکیوزمی ۔۔۔وہ بناتی ہوئی جانے ہی لگی تھی جبھی حدید نے گھونگھٹ ہٹاتے ہوئے دوپٹے کو گلے میں مفلر کی طرح ڈالتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔
ارے آؤ نہ میدان چھوڑ کر بھاگ کہاں رہی ہو ۔۔۔سب حدید کی طرف متوجہ ہو گئے ۔۔کوئی منہ کھول کر دیکھنے لگا تو کوئی فوٹو نکالنے میں مصروف تھا ۔۔۔
میں اپنے لیول کے لوگوں سے بات کرتی ہوں ۔۔۔ایرے غیرے کو منہ نہیں لگاتی ۔۔۔تابی کی یہ بات حزیفہ کو تپانے کے لئے کافی تھی ۔۔۔وہ غصے کو اپنے اندر اتارتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔۔
ولید کی نظر اناسہ پر گئی جو فون کا رخ انکی جانب کئے تصویر نکالنے میں مصروف تھی ۔۔۔
آؤ۔۔۔آؤ تم بھی بہت شوق ہے نہ سیلفی بنانے کا آؤ ۔۔۔اسکے بازو سے پکڑ کر وہ اسکے بال بگاڑتے ہوئے بولا ۔۔۔
۔*****************۔
کتنی انسلٹ کر گئی تھی وہ اسکی وہ بھی سر عام ۔۔۔وہ تیش میں وہاں سے اٹھ کر گھر کی جانب روانہ ہوا ۔۔کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے بے دردی کے ساتھ شوز اٹھا کر ایک طرف پھینک دیئے۔۔پرفیوم کو بیدردی کے ساتھ زمین پر روندھ ڈالا ۔۔۔بالوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر وہ غصے کو پینے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔
کیوں میں اسکو کچھ بول نہیں پاتا ۔۔۔جب وہ میری انسلٹ کرتی ہے ۔۔۔وہ لڑکی ہے ۔۔اسے اپنے لڑکی ہونے کا احساس ہونا چاہئے ۔۔ورنہ میں بھی بہت کچھ کر سکتا ہوں ۔۔۔وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھا ۔۔۔
۔*****************۔
امل خلیل احمد ۔۔۔اپنے ماں باپ کی دوسری اور لاڈلی بیٹی ۔۔۔اس سے بڑی بہن ماروی ۔۔جسکی کچھ ہی مہینے پہلے شادی ہوئی ۔۔۔ایک ہی کالونی میں رہنے کی وجہ سے تابی اور اسکی دوستی آپس میں بہت گہری تھی ۔۔۔خلیل صاحب اور تابی کے ابو کی بھی آپس میں گہری دوستی ہونے کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے کے گھر آنا معمولی بات تھی ۔۔۔
تابین ۔۔۔جلدی کرو لیٹ ہو رہی ہے ۔۔امل نے گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
ہاں بس آگئی ۔۔۔وہ بالوں کو پونی میں باندھے ۔۔۔ہاتھوں میں بکس اور کندھے پر بیگ لٹکائے ہمیشہ کی طرح تازہ دم لگ رہی تھی ۔۔۔
اچھا سنو پہلے مارکٹ چلیں گے اسکے بعد یونی مجھے کچھ سامان خریدنا ہے ۔۔۔وہ بیگ کو ٹٹولتے ہوئے بولی ۔۔
سچی یار ۔۔۔ایک تو تم نے آنے میں دیر کردی اور اوپر سے مارکٹ بھی جانا ہے ۔۔۔۔
ویسے تم نے لینا کیا ہے مارکٹ سے ۔۔۔؟ امل نے اس سے دریافت کیا ۔۔۔
تم چلو بتاتی ہوں ۔۔۔وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔
۔**************۔
اسنے بیگ سے پیسے نکال کر دیکھنا چاہے جہاں چند نوٹوں کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ۔۔۔اتنے کم پیسوں میں تو پوری کتابیں ہی نہیں آئیں گی اور آج اماں کو ہسپتال بھی لے جانا ہے ڈایالائسز کے لئے ۔۔۔وہ پیسوں کو۔ دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ کر بیگ اٹھا کر آگے بڑھ گیا ۔۔۔داخلہ لے لیا تو اب وسیلہ بھی اللّه ہی بنائے گا ۔۔۔
یہ سوچ کر وہ آگے بڑھا ۔۔۔
بھائی ۔۔۔وہ یونی کے لئے نکل ہی رہا تھا جبھی مناہل نی اسے پیچھے سے آواز لگائی ۔۔۔
اسکے قدم وہیں تھم گئے ۔۔بولو گڑیا ۔۔۔
بھائی یہ کچھ پیسے ہیں ۔۔۔جو میں نے جمع کئے تھے آپ اپنا خرچہ نکال لیں اب یہ میرے کسی کام کے نہیں ۔۔۔مناہل نی چند نوٹ اسے تھماتے ہوئے کہا ۔۔۔
لیکن یہ میں ۔۔۔اسکو بہن پر پیار بھی آیا اور خود پر افسوس بھی ۔۔ایک بہن وہ کام کر کے اسے پیسے تھمارہی تھی جو کام اسکے کرنے کے تھے ۔۔۔
پلز بھائی ۔۔۔منا مت کریں ۔۔۔وہ منت بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔
وہ اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتا ہوا اسے دروازہ بند کرنے کی تلقین کرتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔۔کہیں اسکی آنکھوں میں لہراتی نمی سے وہ واقف نہ ہو جائے ۔۔
مناہل روز شام میں بچوں کی ٹیوشن پڑھا کر گھر کے اخراجات پورے کرتی ۔۔
جسے دیکھ کر باسط میں کچھ کر کے کامیاب انسان بننے کی خواہش پیدا ہو گئی ۔۔۔
۔**************۔
کچھ ہی دیر میں وہ مارکٹ پہنچ گئی تھیں ۔۔۔گاڑی کو پارک کرتے ہوئے باقی کا راستہ وہ پیدل ہی طے کرنے چلی تھیں ۔۔
تم آخر بتا کیوں نہیں رہی تم نے لینا کیا ہے ۔۔۔؟ رش بھرا ماحول دیکھ کر اسے الجھن ہونے لگی ۔۔۔مردوں کی خاصی تعداد ہونے کے باوجود اس نے کندھے پر لٹکے دوپٹے کو سر پر ٹکادیا ۔۔۔
تم نے کب سے یہ کام شروع کر دیئے ۔۔۔؟ دوپٹہ پہنتے ہوئے دیکھ کر تابی نے اسے ٹوکا ۔۔۔
اچانک امل کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی انکا پیچھا کر رہا ہو وہ فوراً پیچھے مڑ کر دیکھنے لگی ۔۔۔آس پاس خواتین کا ٹولا ہونے کی وجہ سے وہاں اور کوئی نہ تھا ۔۔۔
تابی جلدی کرو اب چلو بھی یہاں سے مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔وہ روہانسی ہو گئی ۔۔۔
طبیعت تو ٹھیک ہے نہ تمہاری ۔۔۔؟ تابی اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے کھلی جگہ پر لے آئی جہاں رش کم تھا ۔۔۔
کیا ہوا یار ریلیکس کرو اتنا ڈر بھی صحت کے لئے اچھا نہیں دیکھو ذرا خود کو ۔,۔۔
ٹھیک ہوں میں ۔۔۔بس تم جلدی سے سامان لو اور گھر چلو ,۔۔
اچھا ٹھیک ہے چلو ۔۔۔
وہ آگے بڑھتی اس سے پہلے ایک بوڑھی عورت سیاہ چادر میں لپٹی انکے سامنے کھڑی ہو کر انکا جائزالینے لگی ۔۔۔
امل نے سر سے پاؤں تک اس عورت کا جائزالیا ۔۔۔وہ تھی تو بلکل بوڑھی پر اسکے چہرے میں عجیب قسم کی رونق چھائی تھی ۔۔۔
گھٹنوں تک آتے ملنگوں جیسے کپڑے ۔۔ناک میں بڑا سا نوز پن ۔۔۔ہاتھوں میں بے شمار چوڑیاں ۔۔
افف ۔۔۔۔۔تابی اس عورت کو مانگنے والی سمجھ کر بیگ سے بیس روپے کا کھلا نوٹ نکال کر اسکی ہتھیلی پر رکھ دیا ۔۔۔
اس عورت نے نا سمجھی سے پہلے نوٹ کو دیکھا اور پھر تابین کو ۔۔
او مائی ۔۔۔اور اسکے علاوہ میرے پاس کھلے پیسے نہیں تمہیں دینے کے لئے ۔۔۔مسلسل اس عورت کی نگاہیں خود پر محسوس کرتے ہوئے وہ فوراً کہنے لگی ۔۔۔
ہمم م م ۔۔۔۔تم ہو تو خوبصورت ۔۔۔اور امیر بھی ہو ۔۔جبھی اس امیری کا نا جائز فائدہ یوں نہ اٹھاؤ ۔۔۔وہ عورت طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔
کیا مطلب ۔۔۔؟ میں کیا نا جائز فائدہ اٹھا رہی ہوں ۔۔۔؟ وہ حیران ہوئی ۔۔۔
تم نے جنت کے پتے کبھی دیکھے ہیں ۔۔۔؟ وہ عورت جواباً اس سے پوچھنے لگی ۔۔۔
امل اسکی باتیں توجہ سے سننے لگی ,۔۔
وہ کس نے۔ دیکھے ہونگے میرے خیال سے آپ نے بھی نہیں دیکھے ۔۔وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے ٹوکنے لگی ۔۔۔
ہمم م ۔۔۔وہ دیکھو اس عورت کو ۔۔اس بوڑھی عورت نے ایک عورت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جو خود کو مکمل سیاہ عبائے میں چھپائے ہوئے تھی ۔۔۔
کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ اسکی طرف گندی نگاہ سے دیکھے ۔۔۔
اور ذرا خود کو دیکھو ۔۔۔چڑھتی جوانی میں ہو تم ۔۔۔لیکن پردے کے نام پر ایک چھوٹا س پتلا دوپٹہ وہ بھی پھانسی کا پھندا بنائے ہوئے ۔۔۔
لوگ نہ جانے کس نگاہ سے تمہیں دیکھ رہے ہیں ۔۔۔شہد سمجھ کر وہ تم پر ٹوٹ پڑیں گے لہٰذا سمبھل جاؤ بچی ۔۔۔۔اس عورت نے ایک ایک الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا ۔۔۔
امل کو اس عورت کی باتوں سے خوف محسوس ہونے لگا ۔۔۔
اور تابی کا چہرہ دیکھنے لائق تھا ۔۔۔جو غصے کی وجہ سے لال ہو رہا تھا ۔۔۔پیسے کم دیئے اس لئے کچھ بھی بول رہی ہو۔۔۔یہ لو اور پیسے ۔,۔مگر مجھ پر طنز کے تیر چلانے کی کوشش نہ کرو ۔۔وہ اسے وارن کرتی ہوئی آگے بڑھی ,۔۔جبھی وہ عورت اسکے راستے میں رکاوٹ بنی ۔۔۔
مجھے ان پیسوں کی ضرورت نہیں ۔۔۔اللّه نے پیدا کیا ٹو روٹی کا وسیلہ بھی وہی دے گا ۔۔۔لیکن میری ایک بات یاد رکھنا ۔۔۔آگر تم اسکی کلام کو تھام کر چلو گی تو وہ تمہیں بھٹکنے نہیں دے گا ۔۔۔عورت نے انگلی آسمان کی طرف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔وہ اسکے پیسے اسے تھماکر جانے لگی جبھی جاتے جاتے مڑی ۔۔۔
کبھی کسی سے دل مت لگانا یہ روگ بہت گہرا ہے ۔۔۔تمہیں مٹی میں رول دے گا ۔۔۔اور ہاں میرا ٹھکانہ یہی ہے جب کبھی تمہیں ضرورت پڑے تو آجانا ۔۔۔
وہ اسے حیران و پریشان چھوڑ کر چلی گئی ۔۔۔
وہ دونوں کچھ دیر تک گم سم کھڑی اس عورت کی باتوں پر غور کرنے لگیں ۔۔۔
امل نے اسے دور تک ڈھونڈنا چاہا ۔۔۔مگر وہ بھیڑ میں کہیں غائب ہو گئی ۔۔۔
۔******************۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...