۴۶۔ ’بچے کی دعا‘
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
ہر صبح لاکھوں بچے اسکول میں اپنے دن کا آغاز اِس دُعا سے کرتے ہیں۔
۴۷۔ پانچ حکمتیں
دنیا کو سمجھنے کے پانچ طریقے ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلا طریقہ یعنی پہلی حکمت یہ ہے کہ دنیا کو اُس طرح دیکھا جائے جیسی وہ ہے۔ یہ گویا آدم کی حکمت ہے جسے تمام چیزوں کے نام سکھا دئیے گئے تھے۔
دُوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو دکھائی نہیں دے سکتا اُسے معلوم کیا جائے۔ بارش دکھائی دیتی ہے مگر قدرت کے کون سے قانون ہیں جن کی وجہ سے بارش ہوتی ہے؟ اُن قوانین کو معلوم کرنا گویا فرشتوں کی حکمت ہے کیونکہ فرشتے اُن چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتیں۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ رُوح کی گہرائی میں جھانکا جائے۔ وہاں اپنی وہ صلاحیتیں بھی دِکھائی دے سکتی ہیں جن کے بارے میں شاید ہمیں خود بھی معلوم نہ ہو۔
چوتھا طریقہ محبت کی حکمت ہے۔ مسلمان کی محبت کا سرچشمہ رسولِ اکرمؐ سے عشق ہے۔ وہ تمام دنیاؤں کے لیے رحمت ہیں اور علم کا شہر ہیں۔
پانچواں طریقہ تہذیب کی حکمت ہے۔ فطرت میں ہر چیز اپنی عادت پر قائم ہے مگر انسان کے پاس اختیار ہے کہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو نہیں بلکہ دنیا کو بھی بدل سکے۔ ظاہر ہے کہ اُسے یہ بھی سوچنا ہو گا کہ دنیا کو کیسا بنائے؟
نظم ’بچے کی دعا‘ باری باری اِن تمام مرحلوں سے گزرتی ہے۔
۴۸۔ انسان کی نظر سے دیکھنا
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
۴۹۔ شمع
یہ آپ کی دُعا ہے۔ مکھی گلہری بنی، وہ بکری بنی اور اب بکری بچہ بن گئی ہے جو آپ ہیں۔ ’’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘ گویا اصل دُعا ہے۔ باقی اَشعار اِس کی تفصیل ہیں۔
شہد کی مکھی پھولوں سے رَس چوُس کر چھَتّہ تیار کرتی ہے جیسا کہ خدا نے اُسے وحی کر دی ہے۔ اُس چھَتّے سے موم حاصل کیا جاتا ہے گویا موم بھی پھولوں سے آتا ہے اور پھول مٹّی سے اُگتے ہیں۔ آپ کی طرح شمع بھی مٹّی ہی سے آئی ہے مگر یہ فرق ہے کہ شمع کی روشنی دکھائی دیتی ہے اور آپ کی روشنی چھُپ گئی ہے۔ آپ کی روشنی خدا کا نور ہے جو آپ کے دل میں ہے۔
صحیح سوچ اور اچھے برے کی سمجھ پیدا کرنا اپنے آپ میں خداکے نور کی تلاش میں پہلا قدم ہوتا ہے۔ پچھلی نظموں میں اس کے طریقے سامنے آئے تھے۔
۵۰۔ فرشتوں کی نظر سے دیکھنا
دُور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے
۵۱۔ آزادی
شمع جلتی ہے اور ساری محفل میں اُجالا کر دیتی ہے مگر اپنے اندر روشنی نہیں کر سکتی۔ آپ دنیا کو بھی روشن کر سکتے ہیں اور اپنے دل میں بھی روشنی کر سکتے ہیں اگر اپنے آپ میں خدا کا نور تلاش کر لیں۔ آپ کی دُعا کے دُوسرے شعر میں ہے، ’’ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے۔۔ ۔‘‘ یعنی صرف ایک آدھ گھر نہیں بلکہ ساری دنیا کا اندھیرا آپ کے دم سے دُور ہو جائے مگر یہ اُجالا صرف باہر نہ رہے بلکہ اندر بھی ہو!
عجیب بات ہے کہ پہلی تینوں نظموں میں دن کا سماں تھا۔ تیسری نظم میں آپ کو فطرت کے ساتھ اپنا تعلق معلوم ہوا تو اب فوراً ہی یہ ذکر ہو رہا ہے کہ دنیا میں اَندھیرا ہے۔ در اصل یہ اُس اَندھیرے کا ذکر ہے جو اپنی اَصل سے دُور ہونے کی وجہ سے رُوح پر چھایا ہوا ہے۔ فطرت سے اپنے تعلق کا احساس ہونے کے بعد ہی اِس کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ اب آپ کی دُعا یہ ہے کہ آپ روشنی بن جائیں۔
فرشتے بھی روشنی سے بنے ہیں۔ اِسی لیے دُوسری حکمت کو فرشتوں کی نظر سے دُنیا کو دیکھنے سے مثال دی گئی ہے۔
سیار گاہ میں چوتھا سیارہ مریخ آزادی کا مقام تھا۔ چوتھی نظم میں آپ نے شمع کی طرح جینے کی دعا مانگی ہے۔ اصل آزادی یہی ہے کہ آپ روشنی بن جائیں اور آپ میں چھپا ہوا خدا کا نور جسمانی زندگی کے اندھیروں میں قید ہو کر نہ رہ جائے۔
۵۲۔ رُوح کی گہرائیوں میں جھانکنا
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
۵۳۔ وطن
پھول چمن میں ہوتا ہے تو اُس کی خوشبو باہر تک پہونچتی ہے اور لوگوں کو چمن کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ وہ شاخ سے ٹوٹ کر کہیں اور پہنچ جائے تب بھی اُس کا رنگ اور خوشبو پتہ دیتے ہیں کہ جہاں سے وہ آیا ہے وہ چمن کتنا حسین ہو گا!
آپ کی دُعا ہے کہ جس طرح پھول سے چمن کی زینت ہوتی ہے اُسی طرح آپ کے دم سے آپ کے وطن کی زینت ہو۔ جسم کا وطن وہ ہوتا ہے جہاں وہ پیدا ہو مگر رُوح کا وطن کہاں ہے؟
رُوح خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ یہ خدا کے حکم سے وجود پاتی ہے۔ اِس کا وطن وہیں ہے جہاں سے یہ آتی ہے۔
۵۴۔ محبت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
۵۵۔ علم
پروانہ شمع کی روشنی پر کھنچا چلا آتا ہے اور اُس میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ آپ کی دعا ہے کہ آپ کو علم کی شمع سے ایسی ہی محبت ہو۔
علم تعلق کا نام ہے۔ دنیا سے ہمارا تعلق اِس وجہ سے ہے کیونکہ ہمیں اُس کا علم ہے۔ جتنا علم بڑھتا ہے اُتنا ہی تعلق گہرا ہوتا ہے۔ یہ تعلق صرف نظر آنے والی چیزوں تک محدود بھی رہ سکتا ہے اور پھیل کر حقیقت کی دوسری تہوں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔
۵۶۔ تہذیب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
۵۷۔ تخلیق
جب یہ اختیار ہمیں دیا گیا ہے کہ ہم دنیا کو جیسا چاہیں ویسا بنا دیں تو پھر ہمیں ایسی دنیا بنانی چاہیے جہاں گائے اور بکری سے لے کر مصیبت زدہ انسانوں تک سب کو آرام میسر آئے۔ اِسی لیے آپ کی دُعا ہے کہ آپ کا کام غریبوں کی حمایت کرنا اور درد مندوں، ضعیفوں سے محبت کرنا ہو۔
۵۸۔ نظم کا خلاصہ
مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اُس رہ پہ چلانا مجھ کو
۵۹۔ ہدایت
خدا سے یہ دُعا مانگنا کہ وہ آپ کو برائی سے بچائے اور نیک راہ پر چلائے گویا پوری دُعا کا خلاصہ ہے۔ مکھی حقیقت جانتے ہوئے بھی غلط راہ کی طرف چلی نکلی تھی، پہاڑ اتنا بڑا ہو کر بھی ایک چھوٹی سی بات نہیں سمجھ سکا تھا، گائے قسمت کو برا بھلا کہہ کر زندگی کے لُطف سے محروم ہو رہی تھی۔
انسان کے دل میں خدا کا نور ہے تو پھر کسی نہ کسی قسم کی برائی ہی دل میں وہ اندھیرا پیدا کر سکتی ہے کہ اس نور کی روشنی باہر آ کر آپ کا راستہ روشن نہ کرے۔ آخری شعر میں آپ نے اِسی بات سے پناہ مانگی ہے۔
۶۰۔ باغ کے پانچ حصے
اگر آپ غور کریں تو آپ کی دُعا کا پہلا شعر گویا پہلی تین نظموں کا حاصل ہے یعنی آپ کی زندگی شمع کی صورت ہو جس کی روشنی میں چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ آدم کی حکمت ہے۔
دُعا کا دُوسرا شعر گویا فرشتوں کی حکمت ہے جو اِس وقت آپ حاصل کر رہے ہیں۔ اب تین حکمتیں رہ گئی ہیں یعنی رُوح، محبت اور تہذیب کی حکمتیں۔ نظمیں بھی تین ہی رہ گئی ہیں۔ اِن نظموں میں آپ یہی حکمتیں حاصل کریں گے۔