مرادوں کی راتیں، جوانی کے دن، شباب کی امنگ، سودا جوش پر۔ یہ سن ہر انسان کو جو رنگ دکھاتا ہے سارے زمانے کو معلوم ہے۔ مگر اس حکیم مزاج، فخر زمانہ، ہونہار نوجوان کو اپنے شباب کے زمانہ میں ان تمام نامعقول خواہشوں اور ارادوں کے روکنے میں کچھ بھی دقت نہ پڑی۔ جس کو بڑے محتاط اور تعلیم یافتہ نوجوان بھی نہیں روک سکتے۔
آغاز شباب کے آثار میں وہ غیر مہذب مقدمہ تھا جو ہر جوان ہونے والے لڑکے کو قدرتاً پیش آیا کرتا ہے۔ شیخ چلی ایسا ویسا گھامڑ تو تھا ہی نہیں کہ ایسے بڑے معاملہ کو سرسری چھوڑ دیتا۔ اس نے قیاس کیا کہ میرے زیر ناف اندروار کوئی پھوڑا ہوا ہے جس کا ریم خارج ہوتا ہے۔ دو ایک روز وہ خود سوچا کیا کہ اس کا کیا علاج ہونا چاہیے مگر جب اس نے کچھ زیادہ احساس پھوڑے کا نہ پایا یعنی درد وغیرہ نہ ہوا تو اس نے بے اعتنائی کی مگر دوسری بار تو اس کو بہت اہتمام کے ساتھ وہم نے گھیرا کہ پھوڑا اب تک باقی ہے۔ اس نے بالائی لیپ اور پولٹس وغیرہ کا استعمال کیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ناچار اس کو اپنے باپ سے اطلاع کرنے کی ضرورت پیش آئی اور اپنی ذہانت کو اس نے اچھی طرح ثابت کر دیا۔
باپ نے جو تدبیر اس کے دفعیہ کی فی الوقت کی ہوگی اس کا پتہ کسی تاریخ وغیرہ سے نہیں چلتا۔ ہاں اتنا تحقیق ہوا ہے کہ اس نے بیٹے کی شادی کر دینے کا مصمم قصد کر لیا اور دلہن کی تلاش ہونے لگی۔
شاید بلکہ یقیناً شیخ چلی تمام انسانوں کی طرح اپنے پھوڑے کے بےضرر ہونے کی وجہ سے پھر اس کے علاج وغیرہ کا درپے نہ ہوا ہوگا، کیونکہ عام قاعدہ ہے کہ بیماری جبکہ دوامی ہو جائے یا متاذّی نہ ہو تو عملاً اس سے قطع نظر کر لی جاتی ہے۔ شیخ چلی بھی اس پھوڑے کو سمجھ گیا کہ ناسور ہو گیا ہے جو علاج پذیر نہیں ہے اور نہ اس کو تکلیف ہے۔ اس لیے مارو بھی گولی۔
اب اس کا سن سترہ یا اٹھارہ سال کا ہو گیا ہے۔ شباب کے جادو اس پر چل رہے ہیں۔ اور وہ پنگھٹ، بازار، میلہ، محلوں کی گلیوں میں معمول سے زائد پھرنے لگا ہے۔ مگر اس کی باقابو طبیعت کا یہ حال ہے کہ کہیں دل نہیں اٹکتا۔ راہ چلتے کسی عورت کو عام اس سے کہ یقین ہو یا نہ ہو وہ دو ایک کنکریاں، ایک آدھ ٹھوکر یا دھکا رسید کرنے میں مشاق ہو چلا ہے جس کے عوض گالیاں کھا کے بھی بد مزہ نہیں ہوتا۔ بلکہ ہنستے ہنستے خود ہی لوٹ جاتا ہے۔ اس کی فرزانگی کا یہ عمدہ نمونہ ہے کہ شیرے کی مکھی بن کے نہیں چمٹتا بلکہ دو گال یہاں ہنس لیے دو گال وہاں۔ بڑی بات یہ تھی کہ وہ بے فائدہ فکروں سے بچنے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہا، اس لیے اس نے اس میں کوئی ایسا طوطا نہیں پالا جس کی وجہ سے زندگی اجیرن ہو جائے۔ وہ دن بھر میں سو ہی بار عاشق ہوتا اور سو ہی بار عشق رخصت کر دیتا۔ محبت کے مضبوط پھندے اس کو پھانستے۔ مگر آنکھ اونٹ ہوتے ہی وہ سب کو تار تار کر ڈالتا۔ چونکہ فطرتاً قلب و دماغ مادۂ فساد سے خالی نہ تھا، پھر بھی باوجود تمام احتیاطوں کے دلی جذبات کے ہاتھوں پسپا ہو جاتا۔ چنانچہ وہ ایک دن چڑی ماروں کے محلہ میں گیا۔ اسی دن بہت سے جانور ایک چڑی مار پکڑ لایا تھا اور اس نے اپنی ناکتخدا بیٹی کو ان کے بیچنے کے لیے بھیجا تھا۔ گلی کے موڑ پر ناگاہ شیخ چلی اس سے دوچار ہو گیا اور تیر محبت ساتھ سینہ میں ترازو ہوا۔ آشفتہ سروں کو کبھی ننگ و نام کی پروا ہوتی ہی نہیں۔ شیخ چلی بغیر اس کے کہ ذرا بھی پس و پیش کرے لڑکی کے سامنے خاموش کھڑا ہو گیا۔ وہ بچ کے نکلنا چاہتی تھی اور یہ آڑ ہو جاتا تھا۔ آخرش اس نے ذرا ڈانٹا تو یہ بھی گرمائے اور پوچھا کہ تو مجھ سے کیوں بات نہیں کرتی، میں تیری چڑیاں نہ لوں گا۔ بلکہ تو کہے تو ان کو بیچ کے لادوں۔ لڑکی گھبرائی یہ سڑی تو نہیں ہو گیا ہے اور پیچھے پلٹنا چاہا۔ اس عاشق جانباز نے اتنی فرصت ہی نہ دی اور چڑیوں کی پھٹکی چھین کے سب اڑا دیں۔ لڑکی کو زور سے کاٹ لیا اور اپنا راستہ لیا۔ بلکہ کچھ پہلے ہی چڑیمار کے مکان پر پہنچ کے جڑ دیا کہ تیری لڑکی نے جانور چھوڑ دیے۔ چڑیمار دوڑا تو لڑکی کا گال لہو لہان اور اس کو زار و قطار روتے پایا۔ جب تک شیخ چلی کے پاس آئے آپ دوسری تفریح کی فکر میں جاچکے تھے۔
شیخ چلی شباب کی ترنگوں میں گویا کنہیا ہو رہا ہے۔ کوئی مقام تفریح اس سے بچ نہیں رہتا۔ جہاں وہ دن میں دو ایک بار نہیں ہو آتا اور ایک نہ ایک کرشمہ نہ دکھا دیتا ہو۔ چونکہ اس کا خاندان معزز ہے اور باپ بڑا ملنسار نیک بخت لہذا اس کے ساتھ لوگ ایک حد تک مراعات بھی کر جاتے ہیں اور عادت سی ہو جانے سے اس کی دراز دستیوں یا شوخیوں کی مکافات ناقابل برداشت نہیں کرتے بلکہ اکثر ٹال جایا کرتے ہیں۔ غالباً اس کی بھی وجہ یہ تھی کہ شیخ چلی کے حرکات و افعال چونکہ معمولی ہوتے نہیں بلکہ ان کی تہ میں ایک نہ ایک بدیع نکتہ یا حکمت چھپی ہوئی ہے جس کے غوامض پر عوام الناس تو درکنار خاص لوگوں کو وقوف ہونا بہت مشکل ہے۔ اس لیے اپنے عجز کا اعتراف کر کے کوئی اس سے معترض نہیں ہوتا اور گویا سانڈ بنا کے چھوڑ دیا ہے۔ اس وجہ سے اس کو اپنی مطلق العنانی کا لطف خاصی طرح مل رہا ہے۔
جوانی میں اُس کی عقل بھی زیادہ پرزور ہو گئی ہے۔ ایک بار اُس نے جامن کھانے میں گٹھلی نگل لی۔ اے ہے غضب ہو گیا۔ اُس نے فوراً علم فلاحت کے اصول سے یقین کر لیا کہ ضرور میرے پیٹ میں درخت اُگے گا۔ وہ اس بات کی پروا کبھی نہ کرتا کہ درخت اُگنے سے کیا نتیجہ ہوگا اگر اس کو اس بات کا افسوس نہ ہوتا کہ وہ کیسے پھیلے گا اور بڑھے گا، کیونکر پھل لگیں گے۔ پیٹ کی وسعت اور بساط سے وہ ناواقف نہ تھا اس لیے اُس نے اہتمام بلیغ کیا کہ کسی طرح تخم خارج ہو جائے ورنہ درخت بیکار جائے گا۔ چنانچہ استفراغ کر کے اُس نے اپنا اطمینان کر لیا کہ اب کچھ خطرہ نہیں ہے۔
اُس کے باپ کے زراعت پیشہ ہونے سے ہر قسم کے جانور گھر میں موجود تھے۔ ایک گائے دو دھاری تھی جس کا دودھ ہمیشہ گھر کا نوکر دوہا کرتا تھا۔ ایک دن نوکر نہ تھا۔ شیخ چلی نے باپ سے اپنے وسیع تجربہ کے بھروسے پر دودھ دوہنے کی درخواست کی جو منظور ہوئی۔ اور دودھ کا ظرف لے کے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ مگر گائے کے تھن سے ایک قطرہ بھی نہیں نکلتا۔ گھنٹہ بھر تک اس نے محنت کی اور تمام تدابیر عمل میں لایا لیکن ناکامی ہوئی۔ آخر جھنجھلا کے اُٹھ کھڑا ہوا اور لوٹا پٹک دیا۔ باپ نے پوچھا یہ کیا حرکت ہے۔ غصہ میں بھرا ہوا تھا ہی، جواب دیا گائے سب دودھ چڑھا گئی۔ اِس کو بیچ ڈالنا چاہیے۔ جب باپ نے زیادہ تحقیقات کی، معلوم ہوا کہ ایک بڈھے بیل کو وہ دوہتا رہا جو بدھیا بھی تھا۔ اس غلطی کی صفائی میں شیخ چلی کا یہ جواب کہ اندھیرے میں شناخت نہ ہو سکی، بالکل مسکت اور کافی تھا۔
اللہ اللہ اس کی قابلیتوں اور دانش مندیوں کا ایک گنج شائگاں ہے جس کو اہل زمانے کی بے خبری یا ناقدردانی نے خاک میں ملا رکھا ہے اور کسی نے اُس سے نفع اُٹھانے کا ارادہ نہ کیا۔ ایسے اہل کمال ہوتے کاہے کو ہیں۔
دنیاوی کاروبار میں اُس کو اس درجہ دقت نظر حاصل تھی ممکن نہیں کہ وہ کہیں پر چوک جاتا اور اپنا نقصان کر لیتا۔ پورے حالات تو اپنے موقع پر بیان ہوں گے، یہاں صرف ایک قصہ نمونہ کے طور پر لکھا جاتا ہے۔
اُس کے باپ نے اپنی بی بی کے لیے چاندی کے کڑے سُنار کو بنانے کے لیے دیے۔ ایسے پیشے والے جھوٹے ہوتے ہی ہیں۔ کئی بار وعدے کرتا رہا اور تیار کر کے نہ دیے۔ ایک دن شیخ چلی کو اس نے تقاضے کے لیے بھیجا۔ سُنار کڑے تیار کر چکا تھا صرف جلا باقی تھی۔ اُس نے شیخ چلی کو ٹھہرا لیا کہ ذرا دیر میں کڑے لیتے جاؤ۔ شیخ کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہی کڑے جو بن رہے ہیں میری ماں کے ہیں چپکا بیٹھ گیا۔
سُنار نے کڑوں کو سُہاگے میں لتھ کر کے آگ میں ڈالا اور خوب تپانے کے بعد نکال کے اور صاف کر کے شیخ کے حوالے کیے۔ شیخ بگڑ گیا کہ واہ! جلے ہوئے کڑے میں کبھی نہ لے جاؤں گا۔ ماں پہن کے گھر کا دھندا کرے گی۔ پھر پانی لگا اور یہ پگھلے۔ سُنار نے بہت سمجھایا۔ مگر وہ ہوشیار آدمی ایسے چکموں میں کب آتا تھا۔ آخر یہ طے ہوا کہ باپ کو لے جا کے دکھاؤ۔ اگر وہ جلے ہوئے سمجھ کے پھیر دے گا، میں دوسرے کڑے بنا دوں گا۔ شیخ اس پر راضی ہوا اور کڑے لے کے گھر چلا۔ اُس کی شوخ طبعی اور تیزی گھر تک پہنچنے کی کہاں متحمل تھی، اس لیے راستہ کے تالاب میں اُس نے خود ہی امتحان کے واسطے کڑے ڈالے جو فوراً ایسے گُھلے کہ غائب ہو گئے۔ لپکا ہوا باپ کے پاس آیا اور تمام واقعہ بیان کر کے کہا کہ سُنار نے ایک تو کڑے جلا دیے، دوسرے یہ ظلم کیا کہ ایسی دوا لگا کے جلائے تھے کہ میں نے جب پانی میں ڈالے ذرا بھی چاندی کی سفیدی نہ معلوم ہوئی اور بالکل گُھل کے اس میں مل گئے۔ باپ بیچارہ نے بیٹے کی اس کارستانی کو اس وجہ سے کہ بیٹے کو نظر نہ لگ جائے کسی سے نہیں کہا اور چپکا ہو رہا۔
ایک مرتبہ اس کے گھر کے جانور تالاب میں پانی پی رہے تھے۔ ایک بیل پانی پینے میں پیشاب بھی کرنے لگا۔ اُس نے دیکھا اور اُسی وقت ذبح کر ڈالا کہ ٹوٹا ہوا بیل کس کام کا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...