مکافات عمل
رمیز نے شہر کے چپے چپے میں اپنے آدمی بھیجے تھے۔ رات ہونے کو آ گئی تھی نازنین کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔
اُس کا ایک دفعہ بھی دھیان شاہ ویز کی طرف نہیں گیا تھا۔ جاتا بھی کیسے ؟ وہ اُسے کل کا بچہ سمجھ رہا تھا جسے یہ تک نہیں خبر کہ اُس پہ قاتلانہ حملہ کروانے والا رمیز ہے۔ جس حویلی میں نکاح کی تیاریاں زور و شور سے کی جا رہی تھیں اُدھر اب سوگ کا ماحول چھایا ہوا تھا۔
شاہ ویز شام کے بعد حیات ولا پہنچا۔
آغا جان اب بیمار رہنے لگے تھے۔ شاہ ویز پہلے سیدھا اُن کے کمرے میں گیا۔ اُن سے کافی دیر ادھر اُدھر کی باتیں کر کے اُن کا دھیان بٹاتا رہا۔ پھر اُن کو دوا کھلا کے کچن میں بی بی جان کے پاس آ گیاجو اُس کے لیے روٹی بنا رہی تھیں۔ اُن کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے بولا۔
’بی بی جان آپ کو نہیں لگتاکہ اب آپ کو کام نہیں آرام کرنا چاہئیے۔ اس عمر میں میں آپ کو کام کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ ‘
’ہٹو پیچھے روٹی جل جائے گی۔ ویسے ہی کہو کہ اب میری شادی کر دیں۔ ‘
’روٹی کیا میں ہے ہی اتنا خوبصورت مجھے دیکھ کے ہر کوئی جل جاتا ہے۔ ویسے میں بتا دوں میرا دو دو شادیاں کرنے کا ارادہ ہے۔ ایک سے میرا کچھ نہیں بننے والا۔ ‘
بی بی جان نے مُسکراتے ہوئے کہا۔
’ دو دو شادیاں کس خوشی میں ؟ اچھا سمجھ گئی ایک تو اپنے آغا جان کے دوست کی بیٹی نوربانو سے کرو گے جس سے بچپن سے بات طے ہے۔ اور دوسری اپنی پسند سے کرو گے۔ ‘
’میرے سامنے بچپن کے کسی رشتے کا نام نہ لیجئیے گا۔ ویسے بھی میں اُنہیں انکار کر چُکا ہوں کہ میں آپ کی بیٹی کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ اس بات کو ختم ہی سمجھئیے۔ میں دونوں شادیاں اپنی پسند سے کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ‘
بی بی جان سمجھ رہی تھیں وہ مذاق کر رہا ہے لیکن اُن کو کیا پتہ وہ سچ بول رہا ہے۔
’اچھا تو کون ہیں وہ؟‘
’ایک کو بچپن میں پسند کیا تھا۔ دوسری کو مجھے دیکھتے ہی محبت ہو گئی تھی۔ ‘
’بس کرو خوش فہمیاں ہیں تمہاری اُس کی نظر کمزور ہو گی۔ ‘
’خوش فہمیاں نہیں حقیقت ہے۔۔ بی بی جان آپ کو کیا پتہ۔۔ ۔ ‘
بی بی جان روٹی اُتارتے ہوئے بولیں۔
’ہاں ہاں میں اب بڈھی ہو گئی ہوں مجھے کیا پتہ ہو گا۔۔ ‘
بی بی جان کے انداز پہ اُس کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
’کہاں بی بی جان آپ تو ابھی جوان ہیں۔ ‘
’مجھے اس عمر میں چھیڑتے تمہیں شرم نہیں آتی؟یہ روٹی کھا لو اب۔ ‘
’شرم ہو گی تو آئے گی نا۔۔ ۔ آج آپ کھلا دیں نا۔ ‘
شاہ ویز کے اس طرح لاڈ سے کہنے پہ بی بی جان کو سکندر یاد آیا تھا۔ وہ بھی اسی طرح کہا کرتا تھا کہ آج آپ کھلا دیں نا۔ یکایک اُن کی آنکھوں میں ڈھیروں نمی چلی آئی۔ جسے چھُپانے کے لیے اُنہوں نے رُخ موڑ لیا۔ لیکن شاہ ویز دیکھ چُکا تھا۔
کندھوں سے تھام کے اُن کا رُخ اپنی طرف کرتے ہوئے اُس نے کہا۔
’کیا ہوا بی بی جان؟ ‘
اُنہوں نے نظریں چُراتے ہوئے کہا۔ ’کچھ نہیں۔ ‘
اُن کا ہاتھ پکڑ کے اپنے سر پہ رکھتے ہوئے بولا۔
’ آپ کو میری قسم سچ سچ بتائیں۔ ‘
’سکندریاد آ گیا تھا۔ ‘
کہہ کے وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کے رونے لگیں۔
کھانا اُدھر ہی چھوڑ کے وہ بی بی جان کو لے کے اپنے کمرے میں آ گیا۔
’بی بی جان ! جب میں آٹھ سال کا تھا تب میں نے آغا جان سے اپنے بابا جان کے بارے میں پوچھا تھا تب آغا جان نے مجھے غصے سے یہ کہا تھا آئندہ تمہاری زُبان پہ اپنے بابا کا نام نہ آئے۔ اُس نے تمہاری ماں کو زہر دے کے مار ڈالا تھا۔ وہ اس قابل نہیں کہ حیات ولا میں اُس کا ذکر کیا جائے۔ حیات ولا والوں کے لیے وہ مر چُکا ہے۔ اُس کے بعد میرے دل میں اپنے باپ کے لیے نفرت پیدا ہوتی گئی۔ آغا جان سے بھی زیادہ۔ لیکن میں نے آپ کو بہت دفعہ چھُپ چھُپ کے روتے دیکھا ہے۔ اگر سکندر حیات خان نے ایسا کیا تھا تو پھر آپ کے دل میں اُس کے لیے نفرت کیوں نہیں ہے ؟‘
’کیوں کہ میرا دل نہیں مانتا میرا دل کہتا سکندر نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا تھا۔ میں نے اُس کی آنکھوں میں زُلیخا کے لیے بے پناہ محبت دیکھی تھی۔ ‘
’مجھے آپ بتائیں ہوا کیا تھا میں جاننا چاہتا ہوں۔ ‘
بی بی جان آنسو پونچھتے ہوئے ایک دفعہ پھر بہت سال پیچھے چلی گئیں۔
٭٭
طلوع ہو گی حقیقت شب فریب کے بعد
نہیں سدا کے لیے یہ سراب رہنے کا
دوپہر کا وقت تھا۔ سارے گاؤں میں ہولناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ جو کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہونے والی تھی۔
سکندر مزارعوں کو ہدایات دیتے دیتے رُک گیا۔
اُس کی چھٹی حس نے اُسے کسی انہونی کے احساس سے متعارف کروایا۔
پہلا دھیان ہی زُلیخا کی طرف گیا۔
سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے حیات ولا کی جانب بھاگا۔
صحن میں اماں زویا کے ساتھ مل کے ساگ کے پتر چھیل رہی تھیں۔
’امی جان زُلیخا کدھر ہے ؟‘
اس سے پہلے نازیہ کوئی جواب دیتیں زویا بول پڑی۔
’اوئے ہوئے سکندر لالہ نا سلام نہ دُعا آتے ہی بھابھی کدھر ہیں ؟‘
وہ خفگی مٹانے کے لیے بولا۔۔ ۔
’میں نے اندر داخل ہوتے ہی سلام لی تھی وہ علیحدہ بات ہے آپ لوگوں نے سُنا نہیں۔ ‘
وہ شرارت سے نازیہ کی طرف دیکھ کے بولی۔
’دیکھ لیں مامی! ہم نے سُنا نہیں۔ ‘
اُنہوں نے اُس کے سر پہ چیت لگاتے ہوئے کہا۔
’نہ اُسے تنگ کرو۔ اُسے کام ہو گا۔ زُلیخا کے سر میں درد تھا میں نے اُسے کمرے میں بھیج دیا کہ جا کے آرام کرو۔ ‘
وہ سر ہلاتے سیڑھیاں پھلانگتے اپنے کمرے میں آ گیا۔
دونوں ماں بیٹا سو رہے تھے۔ سکندر نے زُلیخا کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا۔ ایسے جیسے آگ نکل رہی تھی۔ اُس نے اُس کا چہرہ تھپتھپایا۔
’زُلیخا۔۔ ۔ ! زُلیخا۔۔ ۔ ! اُٹھو آنکھیں کھولو۔ ‘
شور سُن کے شاہ ویز اُٹھ گیا۔
زُلیخا نے ذرا کی ذرا آنکھیں کھول کے پھر بند کر لیں۔
سکندر اُسے نیم بے ہوشی کی حالت میں دیکھ کے پریشان ہو گیا۔
اُس نے روتے شاہ ویز کو اُٹھایا اور نیچے آ گیا۔
شاہ ویز کو جلدی سے اماں کو پکڑاکے کچن میں گیا۔ ٹھنڈا دودھ گلاس میں ڈال کے بر آمدے میں آیا۔
’زویایہ زُلیخا کے لیے دودھ لے کے اوپر جاؤ۔ لگتا بُخار اُس کے دماغ کوچڑھ گیا ہوا۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں ہے صبح تو ٹھیک تھی۔ امی جان آپ شاہ ویز کو سنبھالیں۔ میں ڈاکٹر کو لینے جا رہا ہوں۔ ‘
زویا کو دودھ کا گلاس پکڑاتے نازیہ کو کہہ کے باہر کی طرف بھاگا تھا۔
نازیہ زُلیخا کا سُن کے پریشان ہو گئیں ابھی دو گھنٹے پہلے تو وہ ٹھیک تھی۔ بس معمولی سا سر میں درد تھا۔ گُزرتی سردیوں میں اُن کے گھُٹنوں میں درد شروع ہوا تھا جو جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اس لیے وہ سیڑھیاں چڑھنے سے پرہیز کرتی تھیں۔ وہ اُدھر ہی بر آمدے میں بیٹھ کے شاہ ویز کو بہلانے لگیں۔
زویانے اُٹھتے وقت چارپائی پہ پڑا اپنا موبائل بھی اُٹھا لیا اور دودھ کا گلاس لے کے اوپر آ گئی۔ موقع خود چل کے اُس کے پاس آیا تھا۔ وہ کیسے ضائع جانے دیتی؟
گلاس زمین پہ رکھا۔ رمیز کے نمبر پہ میسیج بھیجا۔ پانچ منٹ بعد ہی شہباز ولا کی چھت پہ رمیز اپنا مکروہ چہرا لیے نمودار ہوا۔ دیوار کے پاس آ کے اُس نے کاغذ میں لپٹی کوئی چیز زویا کے ہاتھ میں دی۔ اُس نے جلدی سے کاغذ کھول کے دودھ کے گلاس میں انڈیل کے کاغذ خالی کر کے دوبارہ رمیز کو دیا اور وہ اُدھر سے چلا گیا۔
زویا گلاس تھامے زُلیخا کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس کو سہارا دیتے ہوئے تکیے سے ٹیک لگا کے بٹھایا۔ بُخار سے اُس کی آنکھیں بھی نہیں کھُل رہی تھیں۔ وہ اُس کا چہرہ تپھتھپاتے ہوئے بولی۔
’زُلیخا ہوش کرو یہ لودودھ پی لو۔ ‘
زُلیخا نے ہاتھ سے گلاس پڑے ہٹاتے ہوئے کہا۔
’نہیں۔۔ ! میرا دل نہیں کر رہا۔۔ ۔ مجھے پانی دو۔ ‘
’ٹھنڈا دودھ پیو گی تو سکون ملے گا۔ ویسے بھی یہ سکندر بھائی نے تمہارے لیے بھیجا۔ وہ ڈاکٹر کو لینے گئے ہیں۔ تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہو رہی ہے یہ پی لو۔ ‘
زویا نے یہ کہتے گلاس دوبارہ اُس کے ہونٹوں پہ لگا دیا۔ زُلیخا نے دو تین گھونٹ ہی بمشکل بھرے تھے۔
’تھوڑا سا بس اور پی لو۔ ‘
زویا نے اُسے آدھے سے زیادہ پلا کے ہی دم لیا۔ گلاس ٹیبل پہ رکھ دیا جس میں تھوڑا سا دودھ باقی تھا۔ اب کچھ ہی منٹ میں دوائی نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دینا تھا۔
’میں پھُپھو کو بلا کے لاتی ہوں۔ ‘
وہ زُلیخا کو کہتے اُس کے کمرے سے باہر نکل آئی۔
زُلیخا کی امی زُہراں زویا کی مامی بھی لگتی تھیں اور پھُپھو بھی۔ لیکن وہ اُن کو پھُپھو ہی کہتی اور نازیہ کو مامی۔
وہ جا کے زُہراں کو بُلا لائی۔ نازیہ بھی شاہ ویز کو زویا کو پکڑا کے زُہراں کے ساتھ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کے اوپر آ گئیں۔ اُن کے پیچھے رمیز اور زویا بھی۔ جب وہ زُلیخا کے کمرے میں داخل ہوئیں زُہراں تو چیخ مار کے بیڈ کی طرف بھاگیں۔ زُلیخا کو خون کی اُلٹیاں کرتے دیکھ کے نازیہ کا اپنا دل ہولنے لگا۔
’رمیز جاؤ اپنے تایا جان اور پھُپھا کو بلا کے لاؤ۔ زُلیخا کو ہسپتال لے کے جانا ہو گا۔ اے اللہ میری بچی کو کچھ نہ کرنا۔ ‘
زُہراں یہ کہتے ہوئے رو پڑیں۔
رمیز چلا گیا تو نازیہ زویا سے کہنے لگیں۔
’سکندر کو فون کرو کب سے ڈاکٹر کو لینے گیا ہوا ابھی تک آیا کیوں نہیں، میرا دل ہول رہا۔ صبح تو ٹھیک تھی نجانے میری بچی کو کس کی نظر لگ گئی۔ ‘
آنسو اُن کی آنکھوں سے بھی چھلکنے کو بے تاب ہو رہے تھے۔
زویا نے منافقت کا لبادھا اوڑھ کے اُن کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’مامی حوصلہ رکھیں اللہ بہتر کریں گے۔ میں کرتی ہوں سکندر بھائی کو فون۔ ‘
سکندر کو کال ملائی۔
مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے بولی۔
’سکندر بھائی آپ جلدی سے آ جائیں زُلیخا خون کی اُلٹیاں کر رہی ہے۔ اُس کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے۔ سب بہت زیادہ پریشان ہیں۔ ‘
سکندر کی بات سُن کے اُس نے ٹھیک ہے کہتے کال بند کر دی۔ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
’مامی سکندر بھائی کہہ رہے ہیں وہ ڈاکٹر کو لے کے آ رہے ہیں دس منٹ تک پہنچ جائیں گے۔ ‘
سکندر کے آنے تک حیات خان، شہباز خان، امتیازعلی، شہناز بیگم، وجیہہ اور احسن بھی حیات ولا پہنچ چُکے تھے۔ سب سکندر کا انتظار کر رہے تھے۔ جب تک سکندر ڈاکٹر کو لے کے پہنچا زہریلی دوائی زُلیخا کا اندرونی نظام تباہ کر چُکی تھی۔ سکندر زُلیخا کے سرہانے بیٹھ گیا۔
ڈاکٹر نے اُس کے نیلے ہوتے ہونٹوں کو دیکھ کے نبض اور اُس کے دل کی دھڑکن چیک کرتے ہی کہا۔
’انہوں نے کیا کھایا تھا؟‘
’صبح کا ناشتہ ہی کیا تھا اب تو کچھ نہیں کھایا صرف آدھا گلاس دودھ پیا تھا۔ ‘ نازیہ نے جواب دیا۔
’پلیز آپ لوگ دیر نہ کیجئیے انہیں ہسپتال لے جائیے۔ ان کے جسم میں زہر پھیل چُکا ہے۔ ‘
ڈاکٹر کی بات سُن کے اُدھر موجود ہر فرد ساکت ہوا تھا سوائے رمیز اور زویا کے۔
سکندر نے اُسے اُٹھانے کے لیے اپنا بازو اُس کے سر کے نیچے رکھا ہی تھا کہ زُلیخا کے لبوں نے آخری دو لفظ ’سکندر۔۔ ۔ شاہ ویز۔۔ ۔ ‘ اپنے کمرے کی فضا کے سپرد کرتے سکندر کی بانہوں میں ہی دم توڑ دیا۔
جنہیں اُس کمرے کی ہر ایک چیز نے سُنا اور ہمیشہ کے لیے حفظ کر لیا۔
سکندر کی تو گویا سانسیں ہی رُک گئیں۔
ڈاکٹر نے آگے بڑھ کے دوبارہ نبض اور دھڑکن چیک کر کے تصدیق کر دی۔
کمرہ زُہراں کی چیخوں سے گونج اُٹھا۔
ڈاکٹر جانے ہی لگا تھا کہ اُس کی نظرسائیڈ ٹیبل پہ رکھے دودھ کے گلاس پہ پڑی۔ ڈاکٹر نے وہ گلاس اُٹھا کے دیکھا تو گلاس کی تہہ میں کچھ موجود تھا۔ اب کسی شک کی گنجائش نہیں رہی تھی۔
شہباز خان نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
’ڈاکٹر کیا ہوا ہے ؟‘
’کیایہ دودھ انہوں نے پیا تھا؟‘
’جی ڈاکٹر صاحب۔ ‘ مگرمچھ کے آنسو بہاتی زویا نے جلدی سے کہا۔
’یہ دیکھیں اس میں کچھ زہریلی چیز ملا کے انہیں پلائی گئی ہے۔ ان کی نیلی ہوتی رنگت ثابت کر رہی ہے کہ انہیں زہر دیا گیا ہے۔ جس وجہ سے ان کی موت ہوئی ہے۔ ‘
ڈاکٹر کی بات سُن کے سب رونا بھول کے حیرت سے ڈاکٹر کو دیکھنے لگے۔
زویا فوراً بولی۔
’سکندر بھائی نے مجھے یہ دودھ کا گلاس زُلیخا کو پلانے کے لیے دیا تھا۔ ‘
سکندر تو اس الزام پہ ہی سُن ہو گیا۔ باقی سب اب بے یقینی سے سکندر کو دیکھنے لگے۔
’ آئیں ڈاکٹر میں آپ کو چھوڑ آؤں۔ ‘ رمیز ڈاکٹر کو لے کے چلا گیا۔
زُہراں نے آہیں بھرتے ہوئے کہا۔
’سکندر آخرمیری بیٹی کا کیا قصور تھا جو تم نے اُسے زہر دے کے مار ڈالا؟‘
زُہراں کی بات سُن کے نازیہ نے کہا۔
’سکندر کیوں زہر دے گا؟وہ میرے سامنے کچن سے جا کے دودھ ڈال کے لایا تھا۔ ‘
بھلا اُن کا خون اُن کا سکندر کسی کی جان لے سکتا تھا؟ وہ بھی زُلیخا کی؟
’رہنے دیں بھابھی آپ ماں ہیں پردہ تو ڈالیں گی ہی۔۔ ۔ ہائے میری پھولوں جیسی بچی کومار ڈالا ان ظالموں نے۔۔ ہائے میری زُلیخا۔۔ ۔ ‘
سکندر اس الزام پہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے زُہراں کو دیکھنے لگا۔
اُس کی بانہوں میں اُس کی بیوی سر رکھے ابدی نیند سو گئی تھی۔ اُس کی تو جیسے دُنیا ہی اندھیر ہو گئی تھی۔ اوپر سے یہ الزام ؟ اُس کا اپنا سر چکرانے لگا۔
شہباز خان کو بیٹی کی موت نے جیسے توڑ ڈالا تھا۔ وہ اُن کی سب سے لاڈلی بیٹی تھی اُن کے دل کا ٹکڑا تھی۔ اُنہوں نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں سکندر سے کہا۔
’سکندر مجھے اگر پتہ ہوتا تُم میری بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والے ہو تو میں گاؤں سے نکل جانا پسند کرتا لیکن تمہیں اپنی بیٹی دینا نہیں۔ ‘
سکندر نے آرام سے زُلیخا کا سر تکیے پہ رکھا۔ اُس کے ماتھے پہ اپنے پیار کی آخری مہر ثبت کی۔ شہباز خان کے سامنے جا کے کھڑا ہو گیا۔ اُن کے ہاتھ سے وہ گلاس لیا۔
’اگر آپ سب کو لگتا ہے کہ میں نے زُلیخا کو اس دودھ میں کچھ ملا کے پلایا جس سے اُس کی موت واقعی ہوئی ہے۔ تو ٹھیک ہے یہ باقی دودھ میں پی لیتا ہوں۔ ویسے بھی زُلیخا کے بغیر سکندر کی زندگی کا تصور بھی کیا۔ ‘
اُس نے یہ کہتے ہوئے گلاس کو ہونٹوں سے لگایا ہی تھا کہ وجیہہ نے ہاتھ مار کے گلاس گرا دیا۔ گلاس ٹوٹ کے چکنہ چور ہو گیا۔ اُس نے وجیہہ کی طرف دیکھا۔
’نہیں لالا۔۔ ۔ پلیز آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ ‘
اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے آنسوؤں کے درمیان کہا گیا تھا۔
’احسن اُٹھاؤ بہن کو۔۔ ۔ ! ان قاتلوں کے ہاں ہم ایک منٹ بھی اور رُکنا گوارا نہیں کریں گے۔ میری بیٹی کا جنازہ اُس کے باپ کے گھر سے اُٹھے گا۔ میرے گھر کے دروازے حیات ولا کے لوگوں کے لیے بند ہیں۔ میں آپ لوگوں سے ہر رشتہ توڑتا ہوں۔ ‘
شہباز نے غصے اور حتمی لہجے کے ساتھ کہا۔
احسن بچپن سے سکندر کو جانتا تھا اس لیے اُس کا دل اس بات پہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ سکندر کسی کو مار سکتا وہ بھی زُلیخا کو۔۔ ۔۔ ؟؟؟
زُلیخا کو تتلیاں بہت پسند تھیں۔ جب بھی باغ میں جانا اُس نے تتلیوں کو دیکھ کے رونا ڈال دینا کہ مجھے تتلی پکڑکے دو۔ احسن انکار کر دیتا۔ لیکن سکندر گھنٹوں تتلیوں کے پیچھے بھاگ کے ہانپتا کانپتا آخر پکڑ ہی لاتا۔ جسے زُلیخا بس اپنے ہاتھ میں لے کے اُڑا دیتی۔
احسن کے لیے تو پھر یہ نا قابل یقین بات ہی تھی۔ لیکن آنکھوں دیکھا جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
ایک بھائی کے لیے اپنی جوان بہن کی میت کو اُٹھانا اُس کے لیے دُنیا میں سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔
’اور اُن سب کے لیے بھی شہباز ولا کے دروازے بند ہیں جنہوں نے حیات ولا سے کوئی رابطہ رکھا۔ ‘
جاتے وقت نازیہ نے نفرت آمیز لہجے میں کہا۔
اُن کے پیچھے سب چلے گئے۔ وجیہہ کو نازیہ نے زبردستی بھجوایا کہ اب تمہارا گھر وہ ہے تمہارے لیے وہ لوگ اہم ہونے چاہئیں۔ جاتے وقت وہ سکندر کے کندھے سے سر ٹکا کے ہچکیوں کے درمیان روئی تھی۔
اب کمرے میں بس چار نفوس رہ گئے تھے۔
آنسوؤں سے تر چہرہ لیے نازیہ۔۔ اُن کی گود میں اس ٹوٹی قیامت سے بے خبر سویا ہوا ایک ماہ کا شاہ ویز۔۔ ۔ ریزہ ریزہ ہواسکندر۔۔ ۔ اور بت بنے دیوار سے ٹیک لگا کے کھڑے حیات خان!
’سکندر ! مجھے اپنے خون سے ایسی حرکت کی اُمید ہر گز نہیں تھی۔ تم نے مجھے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ میرے لیے آج سے تم مر گئے ہو۔ میں یہ سمجھوں گا میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے اس گاؤں سے نکل جاؤ۔ ‘
اُنہوں نے مضبوط لہجے سے اپنا آخری فیصلہ سُنا دیا۔
نازیہ تو ہول کے رہ گئیں۔
سکندر نے حیات خان کے مقابل کھڑے ہوتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہا۔
’بابا جان ! کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟؟؟ آپ تو میرایقین کیجئیے۔ میں اپنی جان لے سکتا ہوں لیکن زُلیخا کی نہیں۔ ‘
حیات خان نظریں چُراتے ہوئے بولے۔
’کاش تم نے زُلیخا کی جگہ اپنی جان لے لی ہوتی۔ ‘
انتہائی بے یقینی سے سکندر نے فقط اتنا کہا۔
’بابا جان۔۔ ۔ ! ‘
’میں یہ نام آئندہ کبھی تمہاری زُبان سے نہ سُنوں۔ تمہیں سُنائی نہیں دے رہا میں کیا کہہ رہا ہوں نکل جاؤ میرے گھر سے۔ ‘
سکندر شاہ ویز کو نازیہ سے لینے لگا۔
’خبر دار تم نے اسے ہاتھ بھی لگایا۔ بیوی کو مار سکتے ہو تو بیٹے کو بھی مار دو گے۔ اس گھر سے تم خالی ہاتھ جاؤ گے۔ ‘
حیات خان نے اُسے شاہ ویز سے دور کرتے ہوئے کہا۔
’وہ میرا بیٹا ہے میری زُلیخا کی نشانی ہے کم از کم اُسے تو مجھے لے جانے دیں۔۔ ۔ ‘
وہ سسکتا رہا اُن کے آگے گڑ گڑاتا رہا لیکن اُنہوں نے اُس کی ایک نہ سُنی۔ اُسے حیات ولا سے باہر دھکیل کے دروازہ بند کر دیا گیا۔
وہ سامنے شہباز ولا تک گیا۔ لیکن اُسے دروازے سے اندر داخل نہ ہونے دیا گیا۔
وہ فریاد کرتا رہا۔ مجھے زُلیخا کا آخری دیدار تو کرنے دو۔۔ ۔ بس ایک نظر دیکھنے دو۔۔ ۔ لیکن کسی نے نہ اُس کی سُنی۔ وہ دروازے کے پاس ہی بیٹھ کے سسکنے لگا۔
٭٭
مرگیا میں کھُلی رہی آنکھیں
یہ تیرے انتظار کی حد تھی
وجیہہ نے فون کر کے یوسف کو زُلیخا کے گُزر جانے کی اطلاع دی۔
اُس نے گرنے سے بچنے کے لیے دیوار کا سہارا لیا۔
زُلیخا کو غسل دے دیا گیا۔
سفید کفن پہنا دیا گیا۔
گُلاب کے پھول نچھاور کر دئیے گئے۔
لیکن زُلیخا کی آنکھیں بارہا بند کرنے پہ بھی بند نہیں ہو رہی تھیں۔
لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے۔ مرنے والی کی آنکھیں کسی کی راہ تک رہی ہیں جب تک وہ انسان نہیں پہنچے گا یہ آنکھیں بند نہیں ہوں گی۔
یوسف مریم کے ہمراہ گاؤں پہنچا۔ سکندر یوسف کو دیکھ کے اُس کے گلے لگ کے پاگلوں کی طرح رویا تھا۔
’یوسف یہ لوگ میرایقین نہیں کر رہے تم ہی بتاؤ کوئی اپنی محبت کو کیسے مار سکتا؟؟؟ یہ لوگ مجھے میری زُلیخا کا آخری دیدار بھی نہیں کرنے دے رہے۔ ‘
دُنیا جو مرضی کہتی اور دیکھتی رہے یوسف کو سکندر پہ یقین تھا۔ سکندر نہ ایسا کچھ کر سکتا نہ اُس نے کیا۔
یوسف نے بے لچک لہجے میں کہا۔
’سکندر کو زُلیخا کا آخری دیدار کرنے دیا جائے اور اُس کے جنازے میں شریک ہونے دیا جائے۔ ورنہ میں مریم کوابھی طلاق دے دوں گا۔ ‘
یوں یوسف سکندر کو لیے زُلیخا کے سرہانے پہنچا۔
سفید کفن میں لپٹا روشن چہرہ۔۔ ۔
کھُلی ہوئی آنکھیں۔۔ ۔
یوسف کو لگا جیسے وہ اُسے دیکھ کے مُسکرائی ہو۔
دھیرے سے اُس کی پلکوں کی جھالر خود بہ خود گر گئی۔
اُلٹی ہی چال چلتے ہیں دیوانگان عشق۔ آنکھوں کو بند کرتے ہیں دیدار کے لیے۔
زُلیخا کا انتظار مکمل ہوا۔۔ ۔۔
سکندر کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔
یوسف کے دل سے خون کے قطرے گر رہے تھے۔
زُلیخا کی ڈولی آ گئی۔۔ ۔
آنسوؤں۔۔ آہوں۔۔ ۔ ہچکیوں کے درمیان اُسے رُخصت کیا گیا۔
یوسف۔۔ سکندر۔۔ ۔ احسن۔۔ اور شہباز اُسے اپنے کندھوں پہ اُٹھا کے گاؤں کے قافلے کے ہمراہ اُس کی آخری آرامگاہ شہر خموشاں کی طرف چل دئیے۔
٭٭
’سکندر گاؤں چھوڑ کے چلا گیا۔ یوسف پہلے تو پھر بھی کبھی کبھار ملنے آ جایا کرتا تھالیکن اُس کے بعد اُس نے اتنے سالوں میں ایک دفعہ بھی گاؤں کی شکل نہیں دیکھی۔ شہباز ولا والے شہباز ولا چھوڑ کے حویلی جا بسے۔ جائیداد کا بٹوارا ہو گیا۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کے دُشمن بن گئے۔ میں تو اپنے بچوں کو دیکھنے کو ترس گئی ہوں۔ چلو یوسف اور سکندر تو گاؤں میں نہیں لیکن میری وجیہہ تو اسی گاؤں میں میرے پاس ہے کچھ فاصلے پہ۔ مجھے لگتا ہے میں یوں ہی آنکھوں میں اپنے بچوں کو دیکھنے کی حسرت لیے مر جاؤں گی۔ ‘
شاہ ویز نے اُن کے آنسو صاف کرتے ہوئے اُنہیں تسلی دیتے ہوئے پوچھا۔
’کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ بی بی جان۔۔ ۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا اللہ سے اچھے کی اُمید رکھیں۔ مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ رہی رمیز کی مجھ سے کیا دُشمنی ہے ؟
بی بی جان نے حیرانی سے اُس کی طرف دیکھا۔
’کیا مطلب؟‘
’مطلب یہ کہ جب سے میں گاؤں واپس آیا ہوں رمیز مجھ پہ دو قاتلانہ حملے کروا چُکا ہے۔ اللہ کا شُکر ہے آپ کی دُعاؤں سے میں دونوں دفعہ بچ چُکا ہوں۔ ‘
’تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا تمہارے آغا جان کو پتہ ہے اس بات کا؟‘
بی بی جان نے پریشانی سے پوچھا۔
’جی پتہ ہے آغا جان کو۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مجھ پہ حملے آغاشہباز خان کروا رہے ہیں۔ اور آپ کو اس لیے نہیں بتایا آپ پریشان ہوں گی۔ بابا جان نے دودھ کا گلاس آپ کے سامنے زویا کو دیا تھا؟جب زویا اوپر ماما کے پاس گئی تھیں تو تب وہ اکیلی تھیں نا؟‘
بی بی جان نے اثبات میں سر ہلایا۔
’ آپ کا ایک دفعہ بھی زویا پہ شک نہ گیا۔ آپ کے مطابق بابا جان بہت پریشانی سے نیچے آئے تھے۔ مجھے آپ کو پکڑا کے کچن سے دودھ گلاس میں ڈال کے اُسی وقت باہر آ گئے۔ پھر وہ ڈاکٹر کو لینے کے لیے چلے گئے۔ دودھ تو زویا نے ہی ماما کو پلایا تھا نا؟ مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ اس کے پیچھے زویا کا ہاتھ ہے جہاں تک مجھے لگ رہا رمیز کا بھی ہاتھ ہو گا۔ اُس کی ضرور بابا جان سے کوئی دُشمنی ہو گی اسی لیے اب مجھے بھی قتل کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ‘
بی بی جان سوچنے لگیں اس طرف اُن کا دھیان کیوں نہیں گیا۔ شاہ ویز کی بات میں زور تھا۔
’ آپ مجھے بابا جان کے کمرے کی چابی دیں میں اُن کے کمرے میں جانا چاہتا ہوں۔ ‘
بی بی جان سے چابی لے کے اُنہیں اُن کے کمرے میں چھوڑ کے وہ سکندر اور زُلیخا کی طرف آ گیا۔
کئی سالوں سے بند کمرہ آج کھُلنے جا رہا تھا۔
اب جلد ہی سچائی سامنے آنے والی تھی۔۔ ۔
تالا کھول کے دروازہ وا کیا گیا۔
موبائل کی ٹارچ آن کر کے سوئچ بورڈ ڈھونڈ کے لائٹ آن کی گئی۔
کمرہ دھول مٹی اور جالے سے اٹا ہوا تھا۔۔ ۔
لیکن کمرے میں موجود چیزیں کھلکھلا اُٹھیں۔ اُنہوں نے آنے والے کو دیکھ لیا تھا اور پہچان بھی۔
مُسکراتے ہوئے اُس کا خیر مقدم کیا گیا۔
شاہ ویز نے سب سے پہلے کمرے سے جالا صاف کیا۔
پھر اُس نے ایک ایک چیز کو چھوا۔۔ ۔
وہ اُن پہ اپنے ماں باپ کے لمس کو محسوس کر رہا تھا۔
یہ اُس کے ماں باپ کے استعمال میں رہی تھیں۔۔ ۔
اُس کی عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی۔ اُس نے الماری کھولی۔ نفاست سے ایک طرف اُس کی ماں کے کپڑے رکھے ہوئے تھے ایک طرف اُس کے باپ کے۔ وہ اُنہیں بھی چھونے لگا۔ اُس کی نظر الماری کے دراز پہ پڑی۔ ہاتھ بڑھا کے کھولا۔ اوپر ہی بلیک کور والی ایک ڈائری رکھی ہوئی تھی۔ وہ ڈائری لے کے بیڈ پہ بیٹھ گیا اور اُسے پڑھنے لگا۔
اس میں اُس کے بابا جان نے اپنی محبت کی کہانی لکھی ہوئی تھی۔۔ ۔
اس میں زُلیخا سے محبت کی کہانی لکھی ہوئی تھی۔
کس طرح سکندر حیات خان بچپن سے زُلیخا کی محبت کو دل میں بسائے جوان ہوا تھا۔
ڈائری میں لکھی آخری کچھ لائنیں اُس کی ماں کی لکھی ہوئی تھیں۔
’سکندر نے مجھے یہ ڈائری ہماری شادی کے بعد دی ہے۔ اور مجھے کہا ہے کہ میں اسے پڑھنے کے بعد اپنے خیالات لکھوں۔ میں صرف یہ لکھنا چاہوں گی کہ اسے پڑھنے کے بعد میں اس بات پہ ایمان لے آئی ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ ہمارے لیے بہترین ہوتا ہے۔ ہو سکتا جو میں اللہ سے مانگ رہی تھی وہ میرے حق میں بہتر نہ ہوتا۔ اس لیے اللہ نے مجھے بہترین سے نوازا۔۔ ۔ سکندر نے اپنی محبت کی جو شدت اس ڈائری میں لکھی ہے اُس سے زیادہ شدت میں نے اُن کی محبت میں دیکھی ہے۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گی کہ آپ کی محبت کی قدر کر سکوں۔ اور اب آپ سے آپ جتنی محبت کرنا میرا فرض ہے کیونکہ آپ کو اللہ نے میرے لیے چُنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا سایہ ہم پہ بنائے رکھیں۔۔ ۔۔ ‘
آمین !
زُلیخا سکندر حیات خان
شاہ ویز نے ڈائری بند کر دی۔ آنکھوں سے بہنے والے آنسو صاف کیے۔ اب اُسے یقین ہو گیا تھا۔ اُس کے بابا جان بے گُناہ ہیں۔ اُس نے خود سے عہد کیا۔ بابا جان میں آپ کو غلط سمجھتا رہا مجھے معاف کر دیں میں آپ کو آپ کا مقام واپس دلوا کے رہوں گا۔ وہ ڈائری لیے اپنے کمرے میں آ گیا۔ آدھی سے زیادہ رات گُزر چُکی تھی۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ بیڈ پہ ٹیک لگا کے لیٹ گیا۔ کچھ دیر ہی گُزری تھی کہ شاہ ویز کو انوشے کا خیال آیا۔
اُس نے اُسے ان بلاک کرنے کے خیال سے فیس بُک کھولی۔ ایک میسیج ریکوئیسٹ آئی ہوئی تھی۔ وہ انوشے کے نیو اکاؤنٹ سے بھیجی گئی نظم پڑھنے لگا۔ وہ اپنے انوشے کے ساتھ کیے گئے سلوک پہ شرمندہ ہونے لگا۔ اب وہ جان گیا تھا انوشے کا اُس سے رابطہ صرف ایک اتفاق تھا۔ اُس نے ’انوشے ‘ لکھ کے میسیج سینڈ کیا۔ اُسی وقت جواب آیا
’جی؟‘
’ابھی تک جاگ رہی ہو ؟‘
’مجھے اب نیند نہیں آتی۔ ‘
شاہ ویز اُس کا جواب پڑ ھ کے چُپ کا چُپ۔
’ آپ کیوں جاگ رہے ہیں ؟‘
’بس ایسے ہی۔۔ نیند نہیں آ رہی تھی۔ ‘
’ آپ ٹھیک تو ہیں ؟‘
’ہاں ٹھیک ہوں۔ الحمدُ للہ۔ ‘
دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔ چند منٹ بعد انوشے کا میسیج آیا۔
’شاہ جی؟‘
’جی؟‘
’ایک بات بتاؤں آپ ڈانٹیں گے تو نہیں ؟‘
’نہیں ڈانٹوں گا۔ ‘
’میں نے کچھ دن پہلے بابا کو آپ کے بارے میں بتادیا تھا۔ میں اُن سے پوچھنا چاہتی تھی آپ کا اُن سے کیا رشتہ ہے اور آپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟‘
’پھر۔۔ ۔۔ ؟؟؟‘
’پھر بابا نے مجھے اپنے بارے میں سب بتا دیا۔ کہ کیوں باقی سب لوگوں کے ساتھ آپ بھی بابا سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ بے گُناہ ہیں شاہ جی ! بابا آپ کو بہت یاد کرتے ہیں وہ آپ سے دُنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ زُلیخا ماما سے بھی زیادہ۔ ‘
’جانتا ہوں۔۔ ۔ ‘
’پھر آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘
’کیونکہ پہلے نہیں جانتا تھا۔ اب جان گیا ہوں۔ ‘
’تو کیا میں اُن کو بتا دوں ؟‘
’نہیں !مجھے اُن کا نمبر سینڈ کر دو۔ ایک دو ضروری مسئلے ہیں وہ حل کر لوں۔ پھرمیں خود اُن سے بات کروں گا۔ ‘
’اوکے میں کر دیتی ہوں۔ آپ بہت اچھے ہیں شاہ!‘
’یہ جاننے کے باوجود کہ میں کتنا اچھا ہوں۔ اور کتنا اچھا تمہارے ساتھ کر چُکا ہوں۔ پھر بھی اچھا کہہ رہی ہو؟‘
’کوئی بات نہیں غصہ میں ہو جاتا کبھی کبھی ایسا۔ ‘
’عقلمند کب سے ہو گئی ہو؟‘
’جب سے آپ چھوڑ کے گئے ہیں۔ ‘
’لوٹ آؤں۔۔ ۔ ؟؟؟‘
’اس میں پوچھنے کی ضرورت ہے ؟‘
’چلو اس پہ سوچیں گے۔ ‘
’ آپ سچ میں بہت اچھے ہیں۔ ‘
’جوپہلے اچھا کہا تھا کیا وہ جھوٹ والا اچھا تھا؟‘
’ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔ ۔ ! نہیں تو۔ ‘
’پھر۔۔ ۔۔ ؟‘
یوں وہ فجر تک ایک دوسرے سے بات کرتے رہے۔ فجر کی آذان ہوتے ہی شاہ ویز وضو کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ سب سے پہلے اُسے اللہ کو منانا تھا۔
٭٭
شاہ ویز نماز فجر کے بعد مسجد سے نکل کے سیر کی غرض سے کھیتوں کی طرف چلا گیا۔ سورج نکلنے کے بعد حیات ولا واپس آیا۔ اپنے کمرے سے ڈائری اُٹھا کے وہ بی بی جان کے پاس آیا۔
’بی بی جان آپ نے آغا جان کو ناشتہ کروا دیا ہے ؟‘
’ہاں میں نے ناشتہ کروا دیا ہے۔ تم دیکھ کے دوائی کھلا دو۔ تمہارے لیے ناشتہ بناؤں۔ ‘
’نہیں مجھے بھوک نہیں ابھی۔ ‘
’کیوں بھوک نہیں ؟ رات کو بھی تم نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ ‘
’بی بی جان آپ سچ کہتی تھیں آپ کا بیٹا بے گُناہ ہے۔ جب تک آغا جان بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر لیتے تب تک میں اپنے حلق سے ایک لقمہ بھی نہیں اُتاروں گا۔ اوراپنی ماں کے قاتلوں کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ‘
وہ آغا جان کے کمرے کی طرف چل دیا۔ اُس کے پیچھے بی بی جان نے بھی قدم بڑھائے لیکن شاہ ویز نے اُنہیں منع کر دیا۔
’ مجھے اکیلے بات کرنے دیں۔ ‘
بی بی جان صحن میں بچھی چارپائی پہ بیٹھ کے سب اچھا ہونے دُعا کرنے لگیں۔
شاہ ویز نے آغا جان کو دوا کھلا کے اُن کا بُخار چیک کیا۔ بُخار اُتر چُکا تھا۔
’شاہ ویز بیٹا اب تو میں اس بستر سے اُٹھ سکتا ہوں نا؟ تم نے تو مجھے نکارہ بنا کے رکھ دیا۔ ایک معمولی سا بُخار ہی تو تھا۔ ‘
وہ مُسکرا دیا۔
’ آغا جان جتنا آپ کو بُخار تھا۔ اگر آپ ایک ہفتہ اس بستر پہ آرام کرتے نہ گُزارتے تو ہفتوں نہیں اُترنے والا تھا۔ ‘
’خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ یہ ہاتھ میں کیا ہے ؟‘
’ آپ کے پڑھنے کے لیے لایا ہوں۔ ‘
’اچھا! تو پھر لاؤ دو۔ ‘
آغا جان نے سائیڈ ٹیبل سے اپنی عینک پکڑ کے آنکھوں پہ لگاتے ہوئے کہا۔
’نہیں ایسے نہیں۔ اس میں کچھ راز ہیں آپ کو وعدہ کرنا ہو گا اسے مکمل پڑھیں گے۔ ‘
’اچھایار وعدہ ! اب دے بھی دو مجھے تجسس ہو رہا۔ ‘
وہ سمجھ رہے تھے یہ شاہ ویز کی ڈائری ہو گی جس میں اُس نے بچپن کی طرح وہ باتیں لکھی ہوں گی جو وہ اُن سے کہنا نہیں چاہتا ہو گا۔ اس لیے اُن کو لکھ کے دے دیں۔
شاہ ویز نے ڈائری اُن کو دے دی۔ وہ پڑھنے لگے۔ پہلی لائن ہی پڑھ کے اُنہوں نے غصے سے اُس کی طرف دیکھا۔
’ آغا جان آپ نے وعدہ کیا ہے۔ اور جہاں تک مجھے پتہ آپ وعدہ نبھانے والوں میں سے ہیں۔ ‘
یہ بات سُن کے آغا جان نے پڑھنا جاری رکھا۔
شاہ ویز خاموشی سے پاس بیٹھا آغا جان کے چہرے کے اُتاڑ چڑھاؤ دیکھتا رہا۔ پھر اُن کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو۔ اُس نے آگے بڑھ کے آنسو صاف نہیں کیے۔ بلکہ اُنہیں بہنے دیا۔ اب ان آنسوؤں نے بہنا ہی بہنا تھا۔ اب ہی تو ان آنسوؤں کے بہنے کا وقت آیا تھا۔ اب جوانی گُزر چُکی تھی۔ بڑھاپے میں انسان اپنے جذبات پہ بالکل بھی قابو نہیں رکھ سکتا۔
وہ ڈائری بند کر چُکے۔
بہتے آنسوؤں کو لرزتے ہاتھوں سے صاف کیا۔
’ آغا جان ! آج میں اپنے بابا جان کے بارے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے منع نہیں کریں گے۔ ‘
شاہ ویز نے اُن کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔
وہ بس اُسے دیکھ کے رہ گئے۔
’ آپ مجھے بتائیں آغاجان جس وجود سے کسی انسان کی سانسیں جُڑی ہوں۔ کیا وہ اُسے مارنے کا سوچ بھی سکتا ہے ؟ آپ کہتے ہیں ناکہ آپ کی سانسیں مجھ سے جُڑی ہیں تو بتائیں کیا آپ مجھے مار سکتے ہیں؟ مجھے بھی اپنے بابا کی طرح حیات ولا سے نکال سکتے ہیں ؟ یہ کہہ سکتے ہیں میرے لیے آج سے تُم مر گئے ہو۔ ‘
آنسو پھر اُن کی بوڑھی آنکھوں سے بہنے لگے۔ اُنہوں نے نفی میں سر ہلاتے شاہ ویز کا چہرہ اپنے جھڑیوں زدہ ہاتھوں میں تھام لیا۔
’تو پھر بتائیں آغا جان ! آپ نے بابا جان کے ساتھ کیوں ایسا کیا؟ کیوں نہ اُن کی بات پہ اعتبار کیا؟ ‘
’تب جس طرح میرا اپنا بھائی مجھ پہ اُنگلی اُٹھانے لگ گیا تھا۔ اسی طرح لوگوں نے بھی مجھ پہ اُنگلیاں اُٹھانے لگ جانا تھا اگر میں ایسے نہ کرتا تو۔ ‘
شاہ ویز بس اُنہیں دیکھ کے رہ گیا۔
’ آپ اپنے بھائی سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ کو لگتا آغا جان شہباز مجھ پہ حملے کروا رہے تھے ؟ لیکن آپ یہاں بھی غلط ہیں۔ میری جان کے دُشمن وہ نہیں بلکہ رمیز امتیاز علی ہے۔ ‘
وہ ساکت زدہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگے۔
’ آپ فکر نہ کریں میں اپنی ماں کے قاتلوں کو سب کے سامنے لا کے رہوں گا۔ آپ مجھے یہ بتائیں یوسف تایا نے کیوں شادی کے بعد یہ گاؤں چھوڑ دیا تھا؟ کیوں کبھی وہ آپ سے ملنے بھی نہیں آئے ؟‘
آج اعتراف کا لمحہ تھا اُنہوں اعتراف کرنا ہی تھا اپنے سب گُناہوں کا۔
’وہ شادی سے پہلے میرے پاس آ کے گڑ گڑایا تھا۔ اُس نے کہا وہ اور زُلیخا ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ میں اپنے فیصلے بدل لوں۔ لیکن میں نے اُس کی ایک بھی نہ سُنی۔ ‘
’ آپ کے لیے یہ فضول رسم و رواج جو نسل در نسل چلتے آ رہے ہیں اور اپنا وقار اس قدر بلند تھا کہ آپ نے ہمیشہ لوگوں کی پروا کی۔ لیکن اپنی اولاد کی نہیں۔ ‘
شاہ ویز نے آنکھوں میں افسوس لیے کہا۔ اُسے اب سمجھ آ رہا تھا کہ کیوں یوسف تایا اُس سے اتنی محبت کرتے ہیں۔ کیوں وہ اُسے لمحوں اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے۔
’ آپ کو پتہ آپ مجھ سے کیوں اتنی محبت کرتے ہیں ؟‘
آغا جان نے نم آنکھوں کے ساتھ اُسے دیکھا۔
’کیوں کہ میں اپنے بابا جان کی کاپی ہوں۔ مجھ میں آپ کو اپنا بیٹا نظر آتا ہے۔ ‘
اُس کی بات سُن کے آغا جان نے اثبات میں سر ہلاتے اُسے دونوں بازوؤں میں بھینچ کے سینے سے لگا لیا۔ شاہ ویز جب کافی دیر گُزرنے کے بعد بھی باہر نہ آیا تو بی بی جان بھی کمرے میں آ گئیں۔ اُن دونوں کو ایک دوسرے کے گلے لگ کے روتے دیکھ کے وہ بھی رونے لگیں۔
شاہ ویز بی بی جان کو دیکھتے ہوئے بولا۔
’ آپ بی بی جان کو دیکھیں، کیسے اپنی اولاد کو دیکھنے کے لیے تڑپتی رہتی ہیں۔ آپ کو ایک دفعہ بھی بی بی جان پہ ترس نہیں آیا۔ ایک ماں کے لیے اُس کی اولاد ہی اُس کی کُل کائنات ہوتی ہے۔ آپ نے ایک ماں سے اُس کی کُل کائنات ہی چھین لی؟‘
آغا جان کے پاس اب آنسوؤں کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔
’ آغا جان آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے صرف ایک فیصلے سے کتنی زندگیاں برباد ہوئی ہیں ؟‘
آغا جان نے اپنے جھر یوں زدہ ہاتھ اُن کے آگے جوڑ دئیے۔
’میں۔۔ میں۔۔ آپ سب کا گُناہگار ہوں۔ مجھے۔۔ م۔۔ معاف کر دو۔ کاش! تب میں یوسف کی بات مان لیتا۔ کاش! میں یہ بات سمجھ لیتا کہ مرنے والے تو مر گئے وہ تو اب واپس نہیں آ سکتے۔ لیکن جو زندہ ہیں اُن کی خوشی کو مد نظر رکھ کے فیصلے کرتا۔۔ ۔ لیکن مدتوں سے چلتے ان رسم و رواج کو اپناتے ہوئے میں نے اپنے بچوں کو کھو دیا۔۔ ۔ کتنا بد نصیب باپ ہوں میں۔۔ ۔ ‘
شاہ ویز نے اُن کے ہاتھوں کو تھام کے چوم لیا۔ ’ آغا جان! آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اتنا ہی کافی ہے۔ آپ نے بھی تو اتنے سال اپنے بچوں کو یاد کرتے گُزارے ہیں۔ میں نے آپ کی ان آنکھوں میں ہمیشہ اُن سے ملنے کی تڑپ دیکھی ہے۔ لیکن آپ نے انا کا پرچم ہمیشہ بُلند رکھا۔ لیکن اب میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں۔ میں حیات ولا کے مکین حیات ولا میں واپس لا کے رہوں گا۔ میں اس خاندان کو جوڑ کے رہوں گا۔ ‘ ٭٭
رمیز کی حالت پاگلوں جیسی ہو گئی تھی۔ ان دو دنوں میں اُس کا سارا غرور جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ ایک باپ کے لیے اس سے زیادہ ذلت آمیز اور کیا بات ہو گی کہ اُس کی بیٹی دو دنوں سے گھر سے غائب ہو۔ رمیز کا بیٹا وقاص اُسی کا پر تُو تھا۔ وہ بھی بدنامی اور جگ ہنسائی کے ڈر سے دو دنوں سے گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ وہ تاک میں تھا کہ نازنین اُسے نظر آئے اور وہ زندہ درگور کر دے۔ نکاح کی رسم اُدھر کی اُدھر ہی دھری کی دھری رہ گئی۔
شاہ ویز نے نازنین والی بات سب سے چھُپا کے رکھی تھی۔ وہ یہ جنگ خود لڑنا چاہتا تھا۔
دو دن گاؤں میں رہنے کے بعد وہ پھر شہر چلا گیا۔ وہ ایک انسان کے کیے کا بدلہ دوسرے انسانوں سے لینے والوں میں سے ہر گز نہیں تھا۔ اُس نے الف سے یہ تک ساری بات نازنین کو بتا دی۔
’پہلے میرا شک زویا نامی خاتون پہ تھا۔ جو وہ گلاس لے کے چھت پہ میری ماما کے پاس گئی تھی۔ لیکن تمہارے بابا جان کا مجھ پہ حملہ کروانا میرے شک پہ پقین کی مہرثبت کر گیا ہے۔ تمہارے بابا کی ضرور میرے بابا سے کوئی ذاتی دُشمنی ہو گی جس وجہ سے میری ماں کی جان لے کے میرے بابا کو پہلے گاؤں سے نکلوایا۔ اور اب مجھے جان سے مارنے کی کوشش کروائی جا رہی ہے۔ کیونکہ میں سکندر حیات خان کا بیٹا ہوں۔ ‘
نازنین نے بہت صبر اور حوصلے سے اپنی ہچکیوں کا گلا گھونٹ کے شاہ ویز کی ساری بات سُنی۔ جس باپ کو وہ اپنا آئیڈیل سمجھتی رہی تھی۔ آج اُسی باپ کی بیٹی ہونے پہ اُسے شرمندگی ہونے لگی۔ وہ ظُلم کرنے والے لوگوں کا ساتھ دینے والوں میں سے ہر گز نہیں تھی۔
شاہ ویز کے ہاتھ پہ اپنا نازک ہاتھ رکھتے فیصلہ کُن انداز میں وہ بولی۔
’اگریہ میرے بابا اور زویا پھُپھو کی سازش تھی۔ تو پھر اُن کو اُن کے کیے کی سزا ملنی ہی چاہئیے۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ‘
شاہ ویز اب اپنے اگلے قدم کے بارے میں سوچنے لگا۔
’اس کا مطلب وجیہہ خالہ آپ کے بابا کی بہن ہیں مطلب آپ کی پھُپھو؟‘
شاہ ویز نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
نازنین نے اپنا نچلا لب دانتوں تلے دبابا۔
’کیا ہوا؟‘
’میں نے جب سے ہوش سنبھالا اُنہیں آغا جان (شہباز خان) اور بی بی جان (زُہراں ) کی زبانوں سے نکلتے نشتر کا نشانہ بنتے دیکھا ہے۔ مجھے کبھی اس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ وجیہہ خالہ اتنی اچھی ہیں بلا وجہ اُن کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے۔ ‘
’اللہ نے چاہا تو انشاء اللہ جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اپنے بابا جان کا نمبر دے سکتی ہو؟‘
نازنین نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اُسے نمبر لکھوایا۔
شاہ ویز نے اپنے رہائش گاہ والے ایریے سے دور جا کے ایک پی سی او سے رمیز کا نمبر ملایا۔ انتہائی سادہ لہجے میں صرف اتنا کہا۔
’میں شاہ ویز سکندر حیات خان ہوں۔ تمہاری بیٹی نازنین میرے پاس ہے۔ اگر اُسے زندہ صحیح سلامت چاہتے ہو۔ تو میرے دیے گئے ایڈریس پہ اکیلے آج شام ہونے سے پہلے پہنچ جاؤ۔ تم نے میری ماں کو بہت سیدھے طریقے سے مروایا تھا۔ لیکن تمہاری بیٹی کو میں عبرت ناک موت دوں گا کہ تمہاری آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی۔ آج شام ہونے سے پہلے ورنہ رات تک تمہاری بیٹی مردہ حالت میں تمہارے پاس پہنچ جائے گی۔ پولیس کو انوالو کر کے یا مجھے دھوکہ دینے کی غلطی بھول کے بھی مت کرنا۔ انتظار رہے گا۔ ‘
فون سُن کے رمیز کی یہ حالت تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ سمجھتا تھا یہ بات اُسی دن دفن ہو گئی تھی۔ کسی کے فرشتوں کو بھی کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔ بے وقوف! بھلا جھوٹ چھُپائے بھی چھُپتا ہے کیا؟ڈر سے اُس کا بُرا حال ہو گیا تھا۔ وہ جسے کل کا بچہ سمجھتا تھا وہ اپنی ماں کے قاتلوں کو ڈھونڈ سکتا تھا تو پھر اپنی ماں کی موت کا انتقام لینے کے لیے اُس کی بیٹی کو مار بھی سکتا تھا۔ رمیز نے دُنیا میں صرف ایک انسان سے محبت کی تھی اور بے تحاشا وہ اُس کی بیٹی تھی۔ صبح کے دس بجے کا وقت تھا وہ اکیلا ہی جیپ لے کے شہر جانے کے لیے نکل پڑا۔ دوپہر کے دو بجے وہ شاہ ویز کے دیے گئے پتے پہ موجود تھا۔ وہ لاہور کا ایک سُنسان علاقہ تھا۔ اُسے ایک جوان لڑکا اپنی طرف آتا دکھائی دیا تھا۔ اُسے پہچاننے میں ذرا دیر نہیں لگی تھی۔ وہ ہو بہو سکندر کی کاپی تھا۔ وہ اُسے جیپ میں بیٹھنے کا اشارہ کرتے خود بھی جیپ کا فرنٹ دروازہ کھولتے ہوئے بیٹھ گیا۔ رمیز ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا۔ شاہ ویز اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔
’میں جو پوچھوں اُس کا صرف ایک ہی جواب دینا وہ جو سچ ہو جدھر تم نے جھوٹ بولا اُدھر ہی سمجھو بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ ‘
اُس کی آنکھوں میں نجانے کیا تھا کہ رمیز کا سر خود بخود اثبات میں ہل گیا۔
’میری ماں کو قتل کرنے میں تمہارے ساتھ اور کس کا ہاتھ تھا؟‘
’اگر مجھے یہ یقین دلایا جائے کہ میری بیٹی ٹھیک ہے اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا تو میں بتانے کو تیار ہوں۔ ‘
’تمہاری بیٹی ابھی تک تو ٹھیک ہے اُسے کوئی نقصان نہیں پُہنچایا گیا لیکن اب اگر جواب کے علاوہ کوئی ادھر اُدھر کی بات تمہارے منہ سے نکلی تو پھر اُس کے ٹھیک رہنے کا میں یقین نہیں دلا سکتا۔ ‘
’زویا کا۔۔ ۔ !‘
’سب کے سامنے چوپال میں اپنا جُرم مان لو ! خُدا کی قسم تمہاری بیٹی کو اُسی حالت میں واپس کر دوں گا جس حالت میں اُٹھایا گیا تھا۔ ‘
ایک طرف چوپال میں اپنا جُرم ماننا گویا گاؤں بدر ہونا اور اُن کی منتخب کردہ سزا بھُگتنا۔
دوسری طرف اپنی جان سے پیاری بیٹی سے ہاتھ دھونا۔
بیٹی کی محبت کا پلڑا بھاری تھا وہ جھُک گیا۔
’مجھے منظور ہے۔ ‘
’ٹھیک ہے پھر چلتے ہیں گاؤں۔ نیک کام میں دیر کیسی ؟ملتے ہیں دوبارہ پھر آج رات چوپال میں۔ ‘
شاہ ویز نے دروازہ کھول کے نیچے چھلانگ لگائی اور اُسے جانے کا اشارہ کیا۔
اُس کے جاتے ہی شاہ ویز کچھ دور کھڑی اپنی جیپ کی طرف بڑھا۔ فلیٹ پہنچ کے اُس نے سب سے پہلا فون یوسف کو کر کے اُنہیں گاؤں جانے کے لیے تیار رہنے کا کہا۔ اور پھر آغا جان کو فون کر کے رات کو گاؤں کے سب معزز افراداور حویلی والوں کو چوپال پہ اکٹھا ہونے کاپیغام پہچانے کا کہتے خود بھی گاؤں کے لیے نکل پڑا۔ یوسف کو لے کے شام کے بعد وہ گاؤں پہنچ چُکا تھا۔ بابا جان نے یوسف کو اپنے سینے سے لگاتے اُس سے معافی مانگی۔ ایک اولاد اپنے سامنے اپنے والدین کو شرمندہ ہر گز نہیں دیکھ سکتی۔
٭٭
آسمان نے کالی چادر اوڑھ لی۔ گاؤں کی پنجائیت کی طرف سے حویلی والوں کو بھی پیغام پہنچ چُکا تھا۔ شہباز خان، احسن اور رمیز چوپال پہنچے۔ سب گاؤں کے بڑے موجود تھے سوائے حیات خان کے۔ شہباز خان پنجائیت بٹھانے کی وجہ پوچھنے ہی لگے تھے کہ حیات خان، یوسف اور شاہ ویز کے سا تھ چوپال میں داخل ہوئے۔ اپنی جگہوں پہ بیٹھنے کے بعد شاہ ویز نے بات شروع کی تھی۔ سب سے پہلے اُس نے یہ پنجائیت بٹھانے کا مقصد بیان کیا۔ اور پھر اُس نے اپنے باپ کو بے گُناہ قرار دیتے اُس کی ماں کے قاتل سے سب کو متعارف کروایا۔ رمیز نے سب کے سامنے روتے ہوئے اپنے گُناہوں کا اقرار کر لیا۔ کہ کیسے اُس نے زویا کے زریعے زہریلی دوا زُلیخا کو پلوائی تھی۔ یاد رہے امتیاز علی کی ایک سال پہلے طبعی وفات ہو چُکی تھی۔ اچھا ہوا وہ زندہ نہیں تھے۔ ورنہ اس وقت اگر وہ یہاں موجود ہوتے تو اُنہوں نے اپنے بیٹے کے کرتوتوں کی وجہ سے کسی سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہنا تھا۔ شہباز خان صدمے سے اپنی جگہ ساکت ہو گئے۔ کتنے سالوں سے وہ اپنی بیٹی کے قاتل کے ساتھ ایک ہی چھت تلے رہ رہے تھے۔ احسن نے رمیز کا گریبان پکڑ لیا۔ اُس کا ہاتھ رمیز کا گال لال کر چُکا تھا۔ چوپال میں موجود لوگ اگر چھرواتے نہ تو وہ اُسے جان سے مار کے ہی دم لیتا۔ دونوں بھائیوں شہباز خان اور حیات خان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ شہباز خان پہل کرتے ہوئے اُٹھے۔ اپنے بڑے بھا ئی حیات خان سے معافی مانگتے ہوئے اُن کے گلے لگ کے برسوں کا غُبار نکال دیا۔
شاہ ویز نے احسن کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اُسے پُکارا۔
’ماموں جان!‘
احسن اُسے غور سے دیکھنے لگا وہ دیکھنے میں سکندر کی طرح لگتا تھا لیکن اُس کی آنکھیں ہو بہو زُلیخا کی طرح تھیں۔
احسن نے اپنے بازو وا کرتے اُسے اپنے سینے سے بھینچ لیا۔ شہباز خان بھی کافی دیر اُسے اپنے سینے سے لگا کے روتے رہے۔ شاہ ویز نے سب کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف بھی کر لیا کہ کیسے اُس نے رمیز سے سچ اُگلوانے کے لیے اُس نے اُس کی بیٹی کا اغوا کیا۔ پنجایت یہ کہتے ہوئے برخاست کر دی گئی کہ سکندر کو بُلایا جائے اُسے اپنے مجرم کو اُس کے کیے کی سزا سُنانے کا پورا حق ہے۔
٭٭
اگلے دن وعدے کے مطابق شاہ ویز نے نازنین کو بخیرو عافیت حویلی پہنچا دیا۔ اُسے دیکھ کے رمیز کی جان میں جان آئی۔ وہ کتنی ہی دیر اپنی بیٹی کو سینے سے لگائے سسکتا رہا۔ بار بار اُسے چومتا۔ سب سے ملنے کے بعد جب وہ وجیہہ کے پاس گئی تو اُنہوں نے اُسے گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔
’کیسا ہے میرا شاہ ویز؟‘
وہ اُن کے کان میں بولی۔
’بچپن سے بھی زیادہ خوبصورت۔ ‘
’تم نے اُسے بچپن میں کب دیکھا تھا؟
’بس دیکھا ہی نہیں تھا پورا ایک مہینہ اُس کے سا تھ باغ میں جا کے کھیلی بھی تھی۔ ‘
’اوہ۔۔ ۔ ! اچھا تو یہ بات تھی۔ ‘
’نہیں آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ تب شاہ ویز پڑھنے کے لیے شہر چلا گیا تھا۔ لیکن مجھے نہیں اس بات کا علم تھا۔ یہ تو بس ایک اتفاق تھا۔ اُسے تو میں بھول بھی گئی ہوئی تھی۔ ‘
’اچھا تو محبت کرتے ہو ایک دوسرے سے ؟‘
’محبت نہیں خالہ ہماری سانسیں ایک دوسرے سے جُڑی ہیں۔ ‘
’یہ تم دونوں آپس میں کیا کھُسر پھُسر کر رہی ہو؟‘
زُہراں نے اُنہیں رازداری سے بات کرتے ہوئے پوچھا۔
’کچھ نہیں امی! ویسے ہی یہ مجھے تنگ کر رہی ہے۔ کہ میں احسن سے زیادہ محبت کرتی ہوں یا احسن مجھ سے؟‘
وجیہہ نے نازنین کو آنکھ مارتے زُہراں سے کہا۔
شہباز خان اور زُہراں رات کو سب پتہ چلنے کے بعد وجیہہ سے اپنے غلط رویے کی معافی مانگ چُکے تھے۔ احسن کا تو اُس سے ہمیشہ سے ہی اچھا رویہ رہا تھا۔ احسن اور وجیہہ کی دو بیٹیاں تھیں۔ یوسف اور مریم کا صرف ایک ہی بیٹا تھا۔ زویا کی شادی اُس کے چچا زاد کزن سے ہوئی تھی۔ اتنے سال گُزر جانے کے باوجود وہ بے اولاد تھی۔ اُس کا گاؤں آنا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ آغا حیات خان نے سکندر کو فون کر کے اُن سے معافی مانگی اور اُنہیں گاؤں واپس آنے کا کہا۔ شہناز بیگم بیو گی کی چادر اوڑھے اپنے بچوں کی کی گئی غلطیوں کی طرف سے دونوں بھائیوں حیات خان اور شہباز خان سے معافی مانگتی ہیں۔ دونوں بھائی کھُلے دل سے اُنہیں معاف کر کے سینے سے لگا لیتے ہیں۔ اس میں اُن کی بہن کا تو کوئی قصور نہیں تھا نا؟ فرشتہ صفت لوگوں کے ہاں کبھی کبھار شیطان پیدا ہو جایا کرتے ہیں نا۔ آج جمعے کی نماز کے بعد سب حویلی والے سوائے رمیز اور وقاص کے حیات ولا میں اکٹھے ہونے والے تھے۔ مرد حضرات سب نماز جمعہ کے لیے مسجد کی طرف روانہ ہو گئے۔ حویلی کی عورتیں اپنے اپنے کمروں میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے چلی گئیں۔
نازنین نماز ادا کرنے کے قر آن پاک کو اپنے سامنے رحل میں رکھے تلاوت کرنے لگی۔ اس وقت ایسا حُسن اُس کے چہرے پہ چھایا ہوا تھا کہ بے اختیار نظر اُتارنے کو دل کرتا۔ وہ سورہ کھف پڑھنے میں اتنا مُگن تھی اُسے دبے پاؤں سب سے چھُپ کے اپنے کمرے میں داخل ہوتے اپنے بھائی وقاص کا پتہ ہی نہ چلا۔ جس نے کمرے میں داخل ہونے کے بعد اندر سے کُنڈی لگا دی تھی۔ اُس نے ہاتھوں میں تیز دھار والا چاقو تھام رکھا تھا۔ وہ غیرت مند مرد تھا اُس کی غیرت کو یہ بات ہر گز گوارا نہیں تھی کہ اُس کی بہن تین دنوں سے گھر نہ آئی ہواور وہ اُسے زندہ چھوڑ دے۔ نازنین کو تب پتہ چلا جب اُس نے دوپٹے کے اوپر سے اُس کے بال ہاتھ میں جکڑ کے ’بے غیرت‘کہتے اُس کے پیٹ میں چاقو گھونپا۔ درد سے اُس کی چیخ بند کمرے میں گھونجی۔ چیخ کی گو نج دروازے سے باہر تک گئی۔ اُس نے چاقو اُس کے پیٹ سے باہر نکالا اور بے دردی سے وار پہ وار کرتا گیا۔ کمرہ نازنین کی چیخوں سے گونجتا گیا۔ حویلی کی خواتین دروازہ پیٹنے میں مصروف تھیں۔ وقاص نے تب تک بس نہ کیا جب تک اُس کی سانسوں نے اُس کا ساتھ نہ چھوڑ دیا۔ اُدھر اُس کی سانسوں نے ساتھ چھوڑا اُدھر مسجد سے نکلتے شاہ ویز کا ہاتھ اپنے دل پہ گیا۔ اُسے محسوس ہوا جیسے اُسے سانس نہیں آ رہا ہو۔ وہ کھانسنے لگا۔ یوسف نے مڑ کے اُسے دیکھا اور جلدی سے اُس کی کمر سہلانے لگا۔
’کیا ہوا؟‘
’کچھ نہیں تایا جان۔ ‘
وقاص اپنا کام تمام کرنے کے بعد چاقو اُدھر ہی پھینک کے دروازہ کھول کے خواتین کو پیچھے دھکیل کے حویلی سے بھاگ گیا۔
مسجد سے واپس آتے افراد میں رمیز بھی شامل تھا۔ اُس کی نظر کھیتوں سے نکل کے کچی سڑک کی طرف جاتے وقاص پہ پڑی۔ جس کی سفید قمیض پہ واضح خون کے چھینٹے وہ دیکھ چُکا تھا۔
’میری بیٹی۔۔ ۔ مار ڈالا اُس نے میری بیٹی کو۔۔ ۔ ‘
کہتے وہ حویلی کی طرف بھاگا۔
اُس کے پیچھے شہباز خان، حیات خان، احسن، یوسف اور شاہ ویز بھی بند ہوتے دل کے ساتھ۔
سامنے ہی رحل میں قر آن پاک کھُلا ہوا پڑا تھا جس پہ خون کے چھینٹے دکھائی دے رہے تھے۔ اُس کے ساتھ ہی نازنین زخمی پیٹ کے ساتھ مردہ حالت میں لیٹی تھی۔
ہر دیکھنے والی آنکھ اشکبار تھی۔ رمیز اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھ کے پاگل ہو گیا تھا۔
شاہ ویز کو اب سمجھ میں آیا کیوں اُس کی سانس اُکھڑی تھی۔
وہ لڑکھرایا۔۔ ۔۔ ۔۔
اُس نے خود کو گرنے سے بچانے کے لیے پاس کھڑے یوسف کا سہارا لیا۔
یوسف نے اُس کی طرف دیکھا۔
صرف ایک لمحے کے لیے اُن کی آنکھیں ملیں۔
یوسف نے اُس کا درد جان لیا۔ کیسے نہ جان پاتا؟؟؟ اس تکلیف دہ مرحلے سے وہ بھی گُزر چُکا تھا۔
اُسے سینے سے لگاتے ہوئے صحن میں لے آیا۔
نازنین کا قتل کرنے کے بعد وقاص کے فرار ہونے پہ اُسے گرفتار کرنے کے لیے پولیس کو فون کر دیا گیا۔
قدرت بھی کیسے کیسے بدلہ لیتی ہے۔۔ ۔
یہ مکافات عمل تھا۔ اُس نے کسی دوسرے کی بیٹی کی سانسیں ختم کی تھیں۔ اُس کے اپنے بیٹے نے اپنی بہن کی سانسیں اس بے دردی سے ختم کی تھیں کہ انسانیت چیخ اُٹھی۔۔ ۔
پاگل پن کے شدید دورے پڑنے پر رمیزکو پاگل خانے داخل کروا دیا گیا۔
سکندر نے ایک مہینے کے اندر آنے کا کہا۔ وہ وہاں سے اپنا بزنس وائینڈ اپ کر کے اپنی فیملی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے گاؤں واپس آ جانا چاہتا تھا۔
نازنین کے مرنے کے ایک ہفتے بعد زویا کے پورے جسم پہ فالج کا اٹیک ہونے کی خبر ملی۔
قدرت کا انتقام مکمل ہوا بہت ہی بھیانک طریقے سے۔۔ ۔۔ ۔
شہناز بیگم اپنے بچوں کی اس حالت پہ فقط اتنا کہتیں۔
کاش۔۔ ۔ کاش۔۔ ۔ میرے بچے میری بات مان لیتے۔۔ ۔
کاش میرے بچے یوں غلط راستے پہ نہ چلتے۔۔ ۔۔
اُنہوں نے تو اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی اُنہیں اچھا انسان بنانے کی۔۔ ۔ !
اب اُن کے پاس اُن کی اس حالت پہ آنسو بہانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
شہباز ولا والے اُن کی حویلی چھوڑ کے دوبارہ اپنے شہباز ولا جا بسے تھے۔
اب اس حویلی میں وہ اکیلی رہ گئی تھیں۔ حیات خان نے اُنہیں حیات ولا میں بُلا لیا۔
٭٭
رات جب اپنے پر پھیلاتی ہے تو درد زیادہ شدت سے جاگ جاتے ہیں۔ نازنین کے جانے کے بعد شاہ ویز کو چُپ لگ گئی تھی۔ نہ اُسے کھانے کا ہوش رہا تھا نہ پینے کا۔ کسی سے بھی اُس کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی۔ یوسف اور وجیہہ کے علاوہ سب اُس سے وجہ پوچھتے اُسے ہوا کیا۔ لیکن وہ خاموشی سے بس اُنہیں تکتا رہتا۔ آج کتنے ہی دنوں بعد اُس نے حیات ولا سے باہر قدم نکالے تھے۔ وہ چلتا ہوا باغوں کی طرف آ گیا۔
کتنی ہی یادیں اس جگہ سے جُڑی تھیں۔ اُس کی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب ہو رہی تھیں۔ اُس نے آج اُنہیں چھلکنے دیا۔ رات کے اندھیرے میں ضمد بیگ کی آواز سُناٹا چیرتی محسوس ہوئی۔
پیا بناجاگے۔۔ جاگے ساری رات
پیا بنا آنسو۔۔ جیسے ہو برسات
پیا بنا جاگے۔۔ جاگے ساری رات
پیا بنا آنسو۔۔ جیسے ہو برسات
ٰپیاسا میں خوشیاں دا۔۔ ۔۔
ویری تُو دُکھیاں دا۔۔ ۔۔
پانی ہُن اکھیاں دا پین دے ذرا۔۔ ۔
عشقا وے۔۔ ۔ عشقا وے۔۔ ۔
عشقا وے۔۔ ۔ عشقا وے۔۔ ۔
عشقا وے۔۔ ۔ عشقا وے۔۔ ۔
وہ اپنے مہرباں دوست کے پاس جا کے بیٹھ گیا۔ وہ رو رہا تھا۔ اُس کا دل کر رہا تھا کاش۔۔ ! وہ وقت لوٹ آئے چُپکے سے نازنین لوٹ آئے اپنے نازک ہاتھوں سے اُس کے آنسو پونچھ کے اُسے مُسکرانے پہ مجبور کرے۔۔ ۔
ضمد بیگ کی آواز ایک دفعہ پھر فضا میں گونجنے لگی۔
دل کی زمیں پہ ارماں جگائے کیوں ؟
سپنے دکھا کے اتنا رُلایا کیوں ؟
ٹیکا لا زہراں داپانی دے قہراں دا
ٹیکا لا زہراں داپانی دے قہراں دا
ٹیکا لا زہراں داپانی دے قہراں دا
پین دے۔۔ ۔ جین دے۔۔ ۔
عشقا وے۔۔ ۔ عشقا وے۔۔ ۔
عشقا وے۔۔ ۔ عشقا وے۔۔ ۔
عشقا وے۔۔ ۔ عشقا وے۔۔ ۔
وہ اپنے آنسو صاف کرتا۔ مزید بہنے والے آنسوؤں کو پیتا واپس آ گیا۔
واپس آنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں بیٹھا سامنے دیوار کو تکتا جا رہا تھا۔ وجیہہ اُس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس کے پاس بیٹھتے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
’جب اُس دن نازنین حویلی آئی تھی اُس نے تب مجھے بتایا تھا تمہارے بارے میں۔ میں نے پوچھا محبت کرتے ہو ایک دوسرے سے ؟ تب وہ بولی نہیں خالہ ہمارا محبت کا رشتہ نہیں ہے۔ ہماری سانسیں ایک دوسرے سے جُڑی ہیں۔ تم دونوں کی سانسیں ایک تھیں نا؟ ایک کی سانسیں ختم ہو جانے کا یہ مطلب نہیں کہ اب دوسرے کی سانسیں بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گی۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے وہ اپنی سانسیں بھی تمہارے حوالے کر گئی ہے۔ اُس کی جب سانسیں تھمی ہوں گی اُس وقت تم نے بھی کچھ محسوس کیا ہو گا؟‘
وجیہہ نے اپنی بات اُسے سمجھاتے اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
شاہ ویز نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’کیا محسوس کیا تھا؟‘
’میرا سانس بند ہوا تھا۔ ‘
’ایک دفعہ بند ہونے کے بعد فوراً سانسیں چلنے بھی تو لگ گئی تھیں نا؟‘
’ہاں !‘
’تب اُس کی سانسیں بھی تمہاری سانسوں سے آ ملی تھیں۔ اب تمہارے پاس یہ اُس کی امانت ہیں۔ تمہیں انہیں سنبھال کے رکھنا ہو گا۔ تم اُسے جب بھی محسوس کرو گے وہ تمہیں اپنے بہت قریب محسوس ہو گی۔ ‘
شاہ ویز نے اُن کی بات سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ اُس کا ما تھا چومتے ہوئے اُدھر سے اُٹھ آئیں۔ شاہ ویز اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے اپنے دل کی دھک دھک سُننے لگا۔
٭٭
یوسف بھی مریم اور اپنے بیٹے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے گاؤں لوٹ آیا۔ ایک مہینے بعد سکندر بھی اپنی بیوی زُباریہ اور بچوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گاؤں واپس آ گیا۔ حیات ولا اور شہباز ولا والوں نے اُن کا پر جوش استقبال کرتے ہوئے سکندر کی دوسری بیوی زُباریہ اور اُن کے بچوں ہالے سکندر خان، اشعر سکندر خان کے ساتھ انوشے عبدُالحنان کو بھی کھُلے دل سے قبول کیا۔ سارا خاندان پھر سے ایک ہو گیا تھا۔ شاہ ویز نے بی بی جان اور آغا جان سے کیا اپنا وعدہ نبھا دیا تھا۔ اگلے دن صبح فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد شاہ ویز، سکندر کے ساتھ اپنی ماں اور نازنین کی قبر پہ سُرخ گُلاب رکھ کے آیا۔ سکندر کتنی ہی دیر زُلیخا کی قبر کی مٹی پہ نم آنکھوں کے ساتھ ہاتھ پھیرتا رہا۔
’بابا جان!‘
سکندر نے اُن کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اُنہیں پُکارا۔
اُنہوں نے اپنی آنکھیں دونوں ہتھیلیوں سے رگڑ کے اُٹھتے ہوئے اپنا بازو شاہ ویز کے کندھے پہ پھیلا کے بولے۔
’جی بابا کی جان!‘
’کچھ نہیں !‘
شاہ ویز مُسکراتے ہوئے بولا۔
وہ اُنہیں ساتھ لیے اپنا کالج دکھانے لے آیا جو ابھی تعمیر کے مراحل میں تھا۔ سکندر نے اپنے بیٹے کی کاوش کو سراہا۔ پھر اُدھر سے ہوتے انہوں نے اپنے قدم حیات ولا کی جانب بڑھا دئیے۔
’کالج کی بنیاد میرے بیٹے نے رکھی ہے۔ اس گاؤں میں ایک بڑے سے ہسپتال کی بنیاد میں رکھوں گا۔‘
’اوہو۔۔ بابا جان یہ آئیڈیا مجھے کیوں نہیں آیا تھا۔ ہسپتال تو کالج سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ ‘
’پُتر جی! جتنے مرضی جینئیس بن جاؤلیکن باپ سے آگے نہیں نکل سکتے۔ ‘
شاہ ویز کا اُن کے انداز پہ قہقہہ بے ساختہ تھا۔
’بابا جان ایک دفعہ پھر کہیے گا۔ ‘
’کیا۔۔ ۔ ؟؟؟‘
سکندر نے ماتھے پہ تیوری چڑھا کے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’پُتر جی۔۔ ۔ !‘ شاہ ویز نے اُن کے انداز میں پُتر جی کہا۔
سکندر نے اُس کا کان پکڑ لیا۔
’باپ کی نقلیں اُتارتے شرم نہیں آتی؟‘
شاہ ویزنے اپنا کان چھڑواتے ہوئے شرارتی لہجے میں کہا۔
’بابا جان میں نقل تھوڑی اُتار رہا ہوں میں نے تو بس ایک چھوٹی سی فرمائش کی ہے۔ ‘
یوں ہی باتیں کرتے حیات ولا کا گیٹ پار کر کے دونوں باپ بیٹوں نے اندر قدم رکھا۔
صحن میں چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ انوشے کے علاوہ تقریباً ً سب ہی اُدھر موجود تھے۔ مریم کچن میں سلنڈر پہ ناشتہ بنانے کی بجائے بر آمدے میں مٹی کے چولہے پہ بنا رہی تھیں۔ زُباریہ ناشتہ بنانے میں اُن کی مدد کر رہی تھیں۔ اُن باپ بیٹے کو آتا دیکھ کے سب اُن کی طرف متوجہ ہوئے۔
بی بی جان کی گود میں سر رکھ کے بیٹھی ہالے نے جھوٹی ناراضگی سے منہ پھلاتے ہوئے کہا۔
’بابا جان آپ تو ادھر آ کے ہمیں تو بھول ہی گئے ہیں۔ ‘
اشعر بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے شاہ ویز سے مُخاطب ہوا۔
’تو اور کیا۔ یار بھائی آپ سے یہ اُمید نہیں تھی۔ آپ کو چاہئیے تھا آپ ہمیں اپنا گاؤں دکھا کے لاتے۔ لیکن آپ تو خود ہی بابا جان کو ساتھ لیے اکیلے اکیلے نکل پڑے۔ میں تو بہت خوش تھا مجھے ایک پارٹنر مل گیا۔ لیکن آپ نے تو میری ساری اُمیدوں پہ جوس پھیر دیا۔ ‘
پانی کی جگہ جوس کہنے پہ سب کے لبوں پہ مُسکراہٹ بکھر گئی۔
’ آپ لوگ ہنس کیوں رہے ہیں یار۔ پانی ہلکا ہوتا ہے نا۔ لیکن انہوں نے میری اُمیدوں پہ بھاری میرا مطلب لیکوئیڈ چیز پھیری ہے نا۔ ‘
شاہ ویز اُس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا۔
’یار میں نے سوچا آپ لوگ تھکے ہوئے آئے ہو دس بارہ بجے اُٹھو گے۔ جہاں تک گاؤں دیکھنے کی بات ہے تو شام کو چلیں گے سب۔ ‘
اشعر اُس کا گال چومتے ہوئے آغا جان کو بھی اندر گھسیٹ لایا۔
’دیکھا میرے بھائی نے میری ساری اُمیدوں پہ پڑا جوس ہٹا دیا ہے۔ شاہ ویز بھائی زندہ باد۔ آغا جان پائندہ باد۔ ‘
سب ایک دفعہ پھر کھلکھلا اُٹھے۔
آغا جان مُسکراتے ہوئے بولے۔
’بھئی میں نے تو ابھی تمہارے لیے کچھ نہیں کیامجھے کس خوشی میں پائندہ باد کر رہے ہو؟‘
’ آپ ہی نے تو سب کیا ہے۔ آپ نے اللہ سے اتنا پیارا بیٹا مانگا۔ پھر آپ کے بیٹے نے اللہ سے اتنے ہینڈسم دو بیٹے مانگے۔ دیکھیں نا اگر آپ نہ ہوتے تو یہ آپ کے بیٹے نہ ہوتے ہم ان کے بیٹے نہ ہوتے۔ اس لیے آپ کے ہونے کی خوشی میں ہم آپ کو پائندہ باد کر رہے ہیں۔ ‘
یوسف نے ہنستے ہوئے ساتھ بیٹھے سکندر کے کندھے پہ بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔
’سکندر اس کو کیا کھلاتے رہے ہو؟تم تواس کی عمر میں اچھے بھلے شریف سے تھے۔ ‘
یوسف کی بات پہ اشعرنے چارپائی سے بندروں کی طرح چھلانگ لگائی۔
’بڑے پاپا یہ آپ نے کیا غضب کر دیا۔ اتنا سوہنا ہینڈسم مُنڈا آپ کو بدمعاش نظر آ رہا ہے۔ ؟؟؟ ‘
وہ یہ کہتے فوراً آ غا جان کے پاس گیا۔
’ آغا جان دیکھیں کیا میں آپ کو بدمعاش لگتا ہوں۔ ‘
آغا جان نے نفی میں گردن ہلائی تو وہ بی بی جان کے پاس آیا۔
’بی بی جان کیا میں آپ کو بد معاش لگتا ہوں ؟‘
مُسکراہٹ دبائے بی بی جان بولیں۔
’بالکل بھی نہیں۔ ‘
شہناز کے پاس جا کے اُن کے گرد اپنے دونوں بازو لپیٹتے ہوئے بولا۔
’پھُپھُودادو میری پیاری پھُپھودادوکیا میں آپ کو بدمعاش لگتا ہوں۔ ‘
نفی میں گردن ہلا کے کہا گیا۔
’بالکل بھی نہیں۔ ‘
پھر گھوم کے بر آمدے میں مریم اور زُباریہ کے پاس گیا۔
’ماما۔۔ ۔ بڑی ماما آپ دونوں کو کیا میں بد معاش لگتا ہوں ؟‘
زُباریہ نے نفی میں گردن ہلائی۔ مریم بولیں۔
’نہیں تو میرا بیٹا تو ہیرو لگتا ہے۔ ‘
مریم کی بات سُن کے ہالے نے اپنا لقمہ دینا ضروری سمجھا۔
’ہیرو مطلب زیرو۔ ‘
’فی الحال میں ایک بہت اہم مسئلے پہ ڈسکشن کر رہا ہوں اس لیے تمہیں جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔‘
وہ عمیر (یوسف کا بیٹا)اور سکندر سے بھی یہی سوال دُہراتے شاہ ویز کے پاس گیا۔
’یار بھائی کیا میں آپ کو بدمعاش لگتا ہوں ؟‘
’نہیں یار آپ تو میرے شہزادے ہو۔ ‘
اشعر نے خوش ہوتے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
ہالے بی بی جان کی گود سے سر اُٹھاتے ہوئے شاہ ویز سے مُخاطب ہوئی۔
’ بھیا! اگر وہ آپ کا شہزادہ تو پھر میں کیا ہوئی؟‘
شاہ ویز نے دونوں بازو پھلاتے ہوئے کہا۔
’ آپ میری شہزادی۔ ‘
وہ بھاگتے ہوئے شاہ ویز سے آ کے لپٹ گئی۔
’دیکھا حاضرین یہ ثابت ہو گیا کہ میں بدمعاش نہیں۔ لیکن انتہائی افسوس ناک بات ہے بڑے پاپا نے مجھ چھوٹے سے ننھے مُنھے سپاہی، دیس کے راہی کو بدمعاش بول دیا۔ اب وہ ثابت کریں اُنہوں نے ایسا کیوں بولا۔ ‘
یوسف، سکندر کو آنکھ مارتے ہوئے اشعر سے بولا۔
’یار غلطی ہو گئی معاف کر دے۔ ‘
’دیکھا۔۔ ۔ دیکھا۔۔ آپ نے بابا جان کو آنکھ ماری ہے۔ ‘
سب ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔
وہ ایسا افلاطون تھا اپنے ہوتے کسی اور کو بولنے کا موقع نہیں دیتا تھا۔
’اشعر اب بس کرو۔ آ جائیں سب ناشتہ تیار ہے۔ ‘
زُباریہ نے بر آمدے میں بچھے دستر خواں پہ برتن رکھتے ہوئے کہا۔
مریم نے زُباریہ سے پوچھا۔
’بھابھی انوشے نہیں اُٹھی۔ ‘
’اُسے سفر کی وجہ سے تھوڑی تھکاوٹ ہو گئی ہے۔ اس لیے میں نے اُسے جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ ‘
مریم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
خوش گوار ماحول میں سب ناشتہ کرنے لگے۔
٭٭
ایک مہینے بعد۔۔ ۔ !
حیات ولا برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔
اندر قدم رکھیں تو دائیں طرف بڑا سا اسٹیج گیندے کے پیلے پھولوں سے سجا دکھائی دے گا۔
مرد حضرات سفید کلف لگے سوٹوں میں ملبوس گلے میں پیلے دوپٹے ڈالے مصروف سے انداز میں اپنے اپنے ذمہ لگے کام کرتے دکھائی دیں گے۔
خواتین کی اکثریت زیادہ تر پیلے رنگ کے کپڑوں میں دکھائی دے گی۔
اُبٹن، مہندی اور پھولوں کی سوندی سوندی خوشبو فضا میں رچ کے ماحول کو چار چاند لگا رہی تھی۔
انوشے کے کمرے میں جھانکو تو وہ پیلا لہنگا اور چولی جسے خوبصورت سُرخ اور سبز گوٹے سے سجھایا ہوا تھا پہنے۔
آنکھوں میں کاجل، ماتھے پہ بندیا، ہونٹوں پہ سُرخی، کانوں میں جھُمکے، ہاتھوں میں پیلی اور سبز چوریوں کے ساتھ پھولوں کے گجرے، بالوں میں پراندہ ڈالے، دوپٹے کو سر پہ سیٹ کر کے پیلے اور سفید تازہ پھولوں سے بنا تاج سر پہ ٹکائے، پاؤں میں نفیس سا پیلا کھُسہ پہنے مکمل تیاری میں نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔
شاہ ویز کے کمرے میں جھانکو تو وہ سفید شلوار قمیض پہنے، پاؤں میں کھُسہ، کلائی میں گھڑی ڈالے بڑی ہوئی شیو اور گھنی مونچھوں کے ساتھ آج کچھ زیادہ ہی ہینڈ سم لگ رہا تھا۔
مایوں کی رسم شروع ہونے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔
ایک طرف سے دوپٹے کی چھاؤں میں خواتین کے گھیرے میں دُلہن کو اسٹیج تک لایا گیا۔
دوسری طرف مردوں کے ساتھ اپنی تمام تر وجاہت لیے شاہ ویز اسٹیج پہ آ کے انوشے کے پہلو میں بیٹھ گیا۔
حیا کی لالی دھنک رنگ اوڑھ کے انوشے کے چہرے پہ بکھر گئی۔
یہ منظر دیکھنے والے کھلکھلا اُٹھے۔
حویلی کی عورتیں مہندی لگانے کے لیے اسٹیج پہ آئیں۔ شاہ ویز نے اُنہیں ہاتھ اُٹھا کے روک دیا۔
’دیکھیں بھئی، سب سے پہلے دُلہن اور دُلہا ایک دوسرے کو مہندی لگائیں گے پھر کوئی اور لگائے گا۔ ‘
فضا اوئے ہوئے کی آوازوں سے گونج اُٹھی۔
وجیہہ نے اُسے تنگ کرنے کے لیے کہا۔
’نہ بھئی ایسا تو بالکل بھی نہیں چلے گا۔ پہلے بڑے لگائیں گے پھر بعد میں تم دونوں لگاتے رہنا ایک دوسرے کو۔ ‘
شاہ ویز نے ہاتھ اُٹھا کے حتمی اندازمیں کہا۔
’دیکھیں پھو پھو۔۔ !!! اگر ایسا ہے تو نہ میں خود لگواؤں گا مہندی نہ انوشے کو لگوانے دوں گا۔ ‘
احسن نے فقرہ اُچھالا۔
’شاہ ویز بیٹا لگے رہو۔۔ ۔ ہمیں تو اپنے دل کے ارمان پورے کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ ‘
یوسف نے جوابی فقرہ اُچھالا۔
’تو اب کر لو نا۔۔ ۔ ہماری طرف سے اجازت ہے۔ ‘
’رہنے دو یار اب اس عمر میں کرتا اچھا لگوں گا؟‘
سکندر نے مُسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔
’تو پہلے کون سا اچھے لگتے ہو۔ ‘
ہال میں قہقہے گونج اُٹھے۔
پہلے سکندر اور انوشے نے ایک دوسرے کو مہندی لگائی۔
مہندی ہے رچنے والی
ہاتھوں میں گہری لالی
کہیں سکھیاں، اب کلیاں
ہاتھوں میں کھلنے والی ہیں
تیرے من کو جیون کو
نئی خوشیاں ملنے والی ہیں
پھر باقی سب نے مہندی لگا کے رسم پوری کی۔
مہندی کی رسم کے بعد ہال میں ایک طرف لڑکیاں ڈھولک تھام کے بیٹھ گئیں اور اُن کے سامنے لڑکے۔
مردوں کی طرف سے آواز آئی۔
’چلو بھئی ہو جاؤ شروع لیڈیز فرسٹ۔۔ ۔ ‘
فضا میں ڈھولک کی آواز گونجنے لگی۔
’کالا ڈوریا کُنڈے نال اڑیا اوئے
کہ چھوٹا دیورا پابھی نال لڑیا اوئے ‘
یہ بول سُننے کے بعد اشعر اپنی جگہ پہ کھڑا ہو کے چلایا۔
’ایک منٹ رکو رکو یہ جھوٹ ہے سفید جھوٹ۔ ‘
لڑکیاں اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔
زُہراں بولیں۔
’اشعر بیٹے کیا جھوٹ ہے ؟‘
وہ افسوس میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
’چھوٹی دادویہ کہہ رہی ہیں چھوٹا دیورا پابھی نال لڑیا اوئے۔ میں کب لڑا ہوں۔ سب کے سامنے جھوٹا الزام لگا رہی ہیں۔ ‘
ہال میں پھر قہقہے گونج اُٹھے۔
بھئی اشعر پہ جھوٹا الزام لگایا گیا تھا وہ کیسے جانے دیتا؟ بس وہ اب شروع ہو چُکا تھا اُس پہ الزام لگانے کی وجہ جاننے کے لیے۔
ذرا اسٹیج پہ نظر دوڑاؤ تو اُدھر دُلہا دُلہن اکیلے بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔
شاہ ویز نے چُپکے سے انوشے کا ہاتھ تھام کے اُس کے کان میں سرگوشی کی۔
’بہت بُرا ہوں میں۔ ابھی بھی وقت ہے سوچ لویہ نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔ ‘
انوشے نے پلکوں کی جھالر اُٹھا کے اُس کی آنکھوں میں دیکھا۔
شاہ ویز کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے مُسکرا دی۔
چہار سُو محبت کے دئیے جلنے لگے۔۔ ۔۔ ۔۔ !
دھیرے سے لرزتی پلکوں کے ساتھ اُس کے کان میں سرگوشی کی۔
’شاہ جی۔۔ ۔ ! آپ کے ساتھ پہ مجھے اگر ہزار دفعہ بھی پچھتانا پڑے توہر دفعہ یہ پچھتاوا مجھے دل وجان سے قبول ہو گا۔ ‘
جواباً شاہ ویز نے آنکھوں میں بے پناہ محبت لیے اُسے دیکھا۔ حیا سے انوشے کی پلکوں کی جھالر گرنے اُٹھنے لگی۔
عمیر نے اسٹیج پہ نظر پڑنے پہ مُسکراتے ہوئے یہ منظر ہمیشہ کے لیے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔
٭٭٭
تشکر: Ideal Ideaz،کتاب ایپ
www.idealideaz.com
www.kitaabapp.com
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید