تم بہت ذہین ہو حرمین۔۔سر ظفر نے اپنی تھوڑی کہ نیچے ہاتھ رکھتے ہوے کہا۔۔۔
اْسنے سر اْٹھا کر انھیں دیکھا اور دوبارہ رجسٹر میں کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئی وہ انکی سامنے کی کرسی پر ہی بیٹھی تھی۔۔۔
ویسے آپ میری تعریف کیوں کر رہے ہیں؟؟ تیزی سے رجسٹر کہ صفہ پر قلم چلاتے ہوئے اس نے سوال کیا۔۔۔
کیونکہ میں اپنی کلاس میں جو exersice دو دن کرواتا ہوں اور پھر میرے اسٹوڈنٹ اس پر تین دن پریکٹس کرنے کہ بعد مجھے ریزلٹ دیتے ہیں، تم وہ exersice ایک دن میں سمجھ کر مجھے ریزلٹ دے دیتی ہو، بہت حیرت کی بات ہے، accounting کوئی حلوہ نہی ہے۔۔ وہ بھویں چڑھا کر حیرت سے بول رہے تھے۔۔۔
میں بچپن سے ہی ہر چیز ایک نظر میں پک کر لیتی ہوں۔۔ اسنے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
گریٹ۔۔۔۔۔ ویسے مجھے بہت فخر ہے تم پر تم یہاں انچارج کی حیثیت سے اتنے بڑے کوچنگ کو ہینڈل کر رہی ہو اور ساتھ ہی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئی ہو۔۔ وہ اسے سرہا رہے تھے۔۔۔
تھینکس۔۔۔۔۔ بٹ آئی تھِنک آئی ایم لکی۔۔۔۔ مجھے سٹڈی میں کافی پرابلم ہو رہی تھی مگر ایک کولیگ کی صورت میں مجھے آپ جیسے قابل ٹیچر مل گے۔۔۔ اسنے ریجسٹر سر ظفر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔
گْڈ۔۔ ایک نظر ریجسٹر کو دیکھ کر انھوں نے کہا۔۔۔
آج کے لئے اتنا ٹھیک ہے باقی میں کل سمجھاؤں گا۔۔ انھوں نے رجسٹر اسے دیتے ہوئے بولا۔۔
__________________________________
تمھارے ابّو کی پھر سے نوکری چھوٹ گئی ہے اور تمھیں شرم نہی ہے کہ کوئی کام دھندا کرلو سارا دن گھر میں بیٹھ کر روٹیاں ہی توڑتے رہتے ہو۔۔ ٹوکرے سے سبزی نکالتے ہوئے وہ ماجد پر غصہ نکال رہی تھیں۔۔
میں نے کام کی بات کی ہے ایک جگہ امّی کل سے جاؤں گا وہاں۔۔ منہ میں چھالیا ڈالتے ہوئے وہ صفائی پیش کر رہا تھا۔۔۔
ارے کیا ہوا امّی اتنا شور کیوں کر رہی ہیں آپ۔۔ حرمین نے کندھے سے پرس اتارتے ہوئے بولا۔۔۔
وہ سب چھوڑو پہلے جا کہ روٹی پکالو میں یہ سبزی کاٹ کہ آرہی ہوں ہنڈیا چڑھانے۔۔۔ فاطمہ نے سبزی کاٹتے ہوئے اسکو آرڈر دیا۔۔۔
بھئ ابھی تو آی ہوں میں آتے ہی کام بتا دیا۔۔ اسنے گردن کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بیزاری سے کہا۔۔۔۔
بس فوراً کام کہ نام پر دم نکل گیا تمھارا۔۔ انکے ہاتھ سبزی کاٹنے میں مصروف تھے اور زبان بیٹی کو ڈانٹنے میں۔۔۔
آپ نہ کبھی بھی میری قدر نہی کرینگی۔۔ اسنے شکایتی نظروں سے ماں کو دیکھا۔۔۔
ہاں ہاں ہم جانتے ہیں تم ہر کام میں پرفیکٹ ہو سب سے آگے رہتی ہو مگر زرا گھر پر بھی توّجہ دو ماشااللہ اتنی خوبصورت ہو ہر جگہ سے تمھارے رشتے آجاتے ہیں، کل کو تمھاری شادی کرینگے تو۔۔۔۔
اسنے بات کاٹ کر سوال کیا۔۔ تو کیا آپ لوگ میری شادی بھی کرینگے؟؟؟ اسنے حیرت سے فاطمہ کو دیکھا۔۔۔
تو کیا ساری زندگی ماں کہ ہاتھ کا کھانا کھانے کا ارادہ ہے تمھارا۔۔ انکے سبزی کاٹتے ہاتھ اب رک چکے تھے۔۔۔
سارا قصور آپکا ہے۔۔۔۔ آپ اتنا اچھا کھانا پکاتی ہی کیوں ہیں جو سب آپکے ہاتھ کا بنا کھانا کھائیں۔۔۔۔۔۔ مجھے دیکھیں ایسا کھانا پکاتی ہوں کہ دوبارا کوئی خواب میں بھی کھانے کا نہ سوچے۔۔ کچھ سیکھیں آپ مجھ سے امّی۔۔۔۔ وہ اپنی ہنسی کو دبا کر تیزی سے بول رہی تھی۔۔۔
ہاں تم تو جان بوجھ کر کرتی ہو تا کہ سارا کام ماں ہی کرے۔۔ وہ دوبارا سبزی کاٹنے میں مصروف ہو گئ۔۔
اگر آپکو یہ مصلح ہے کہ سارا کام آپکو کرنا پڑتا ہے تو آپ اپنے دونوں بیٹوں کی شادی ماسیوں سے کروا دیے گا۔۔۔ ماسی سے بہتر گھر کا کام کون کرے گا اور آپکو آرام بھی مل جاے گا مجھے بھی شادی کرنے کی ضرورت نہی پڑے گی۔۔۔
فاطمہ کا غصہ اب ہنسی میں بدل رہا تھا۔۔۔
اچھا اب میں روٹی پکانے جا رہی ہوں آپ بھی کیا یاد کریں گی کیا بیٹی ملی ہے آپکو۔۔ بالوں کو سمیٹ کر وہ کچن کی طرف جا رہی تھی۔۔
__________________________________
فئیر کومپلیکشن اور کلین شیو وہ لڑکا اپنے سامنے شیشے پر پڑے باکسس میں سفید پاؤڈر کی تھیلیاں بڑی احتیاط کے ساتھ سمارٹ فون کہ نیچے رکھ رہا تھا اور پھر باکس کو بند کر کہ مارکر سے اس پر نیشان بنا رہا تھا۔۔۔
بھائی اگر ہم پکڑے گے تو۔۔۔۔۔۔اسے مخاطب کرنے والا وہ چھوٹے قد کا لڑکا جسکا نام سلمان تھا، اسی کی دکان میں ایک ورکر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔۔۔۔
تو بلا وجہ ڈر رہا ہے۔۔۔ آج تک میں پکڑا گیا ہوں جو آج پکڑا جاؤں گا۔۔۔۔ اور تجھے کیا لگتا ہے میں یہ کام پہلی دفعہ کر رہا ہوں؟؟ دو سال ہو گے ہیں مجھے اس کام میں۔۔۔ تو فضول میں میرا دماغ نہی خراب کر۔۔۔ اس نے سلمان کو بری طرح جھڑک دیا۔۔۔۔
لیکن پھر بھی بھائی۔۔۔۔۔ سلمان کہ چہرے پر پریشانی صاف نظر آرہی تھی۔۔۔
دیکھ یہ سارے باکس بہت احتیاط کے ساتھ گودام میں رکھ دے رات کو مجھے اسکی ڈلیوری کرنے جانا ہے۔۔۔ اور ہاں یہ سارے باکس الگ رکھنا دوسرے باکسس کے ساتھ مکس نہی ہونے چاہیے۔۔۔ وہ ایک ایک الفاظ پر زور دےرہا تھا۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔ سلمان نے جواباً سر ہلا دیا۔۔
میں زرا جا رہا ہوں شاداب کے پاس کل میچ ہے نا پاکستان اور آسٹریلیا کا۔۔۔۔۔ اسی چکر میں۔۔۔ اسنے اپنا موبائل جینز کی جیب میں رکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
________________________
کیا ہوا حرمین تم اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو۔۔۔۔۔ شِفا کو کچھ تشویش ہوئی۔۔۔۔
کل دادی جان کہ گھر جانا ہے یار۔۔۔ اسنے کیبورڈ سے ہاتھ ہٹا کہ کہا۔۔۔
تم دونوں یہاں بیٹھی ہو سر کی کلاس شروع ہونے ہی والی ہے۔۔۔ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے وقار ان دونوں کہ سامنے کھڑا تھا۔۔۔
وہ دونوں کالج کہ کمپیوٹر لیب میں بیٹھی تھیں چونکہ یہ ایک پرائیوٹ ٹیکنیکل کالج تھا اس لیے گرلز اور بوائز ساتھ ہی پڑھتے تھے۔۔۔
اچھا ہم آرہے ہیں بس پانچ منٹ میں۔۔ حرمین نے کہا۔۔
ہاں تو تم کیا کہہ رہی تھی کہ دادی کہ گھر جانا ہے۔۔۔ شِفا نے اسکو یاد دلایا۔۔۔
ہاں یار دادی جان کہ گھر جانا ہے۔۔۔۔۔ سب ہونگہ وہاں پر یار دعوت ہے نہ۔۔۔۔ وہ نظریں جھکاے کہہ رہی تھی۔۔
سب سے تمھادا کیا مطلب ہے حرمین؟؟؟ شِفا نے سوالیا نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔
مبین چاچو۔۔۔۔۔۔ اسنے نظریں اٹھا کر کہا۔۔۔
اوووووہ ۔۔۔۔۔ یار تو تم نہی جاؤ نہ۔۔۔ کوئ بہانہ بنالو۔۔ شِفا نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔
نہی بنا سکتی بہانہ میں۔۔۔۔۔ سب گھر والے جاے گے یار۔۔۔۔۔ اسنے مایوسی سے کہا۔۔
۔ تو پھر تم چلی جاؤ کچھ نہی ہوتا۔۔۔ شفا اسکو تسلّی دے رہی تھی۔۔۔
کیا کچھ نہی ہوتا۔۔؟؟ اس شخص کو دیکھتی ہوں تو گھن آتی ہے۔۔۔ بچپن کی وہ خوفناک یادیں پھر سے تازہ ہوجاتی ہیں۔۔۔ اسکہ چہرے پر نفرت کی لکیریں واضح تھیں۔۔۔۔
تم اپنے پیریٹس کو کیوں نہی بتا دیتی۔۔۔۔ اگر انکے علم میں بات آگئ تو وہ خود ہی تمھیں اس انسان کہ سامنے نہی آنے دینگے، بلکہ خود بھی نہی ملیں گے اس سے۔۔۔ شفا اسکو سمجھانے لگی۔۔۔
کیا بتاؤں میں انکو کیا؟؟؟ اور یہ سب جان نے کہ بعد میرے ابّو کیا سوچیں گے کہ انکہ اپنے بھائی نے انکی اکلوتی بیٹی کو بچپن میں abuse کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔ بہتر ہے جو بات آج تک چھپی ہے وہ چھپی ہی رہے۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔
تو پھر تم انکو معاف کردو تا کہ اس ازیت سے تمھیں نجات ملے۔۔۔۔
معاف تو میں نے اسی دن کر دیا تھا جس دن مجھے خبر ملی تھی کہ انکہ گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے۔۔۔۔ جب انسان کی بد دعا قبول ہو جاے تو معاف کر ہی دینا چاہیے۔۔۔بد دعا دی تھی انکو میں نے کہ دن رات تڑپیں پچھتاوے کی آگ میں۔۔ وہ اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔
تو پھر بھول جاؤ سب یار۔۔۔ تمھیں تو شکر ادا کرنا چاہیے اللہ کا کہ اسنے تمھاری حفاظت کی۔۔۔ کسی بڑے نقصان سے تمھیں بچایا۔۔۔۔ شفا مسکراتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
ہاں۔۔۔۔ لیکن وہ جو میرا سارا بچپن ذہنی اذیت سے دوچار رہا۔۔۔ وہ کسے بھلادوں۔۔۔ وہ شکوہ کن نظروں سے شفا کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
مجھے فخر ہے تم پر حرمین اتنا اذیت ناک بچپن گزارنے کہ بعد بھی اتنی شوق مزاج ہو ہر انسان کو اپنا دیوانہ بنا لیتی ہو۔۔۔ آفرین ہے تم پر میری جان۔۔۔ شفا حرمین کو ہسانے میں کامیاب رہی۔۔۔
__________________________________
ہاہاہاہا۔۔۔ میں نے کہا تھا نا آسٹریلیا جیتے گی۔۔۔ بیٹے آج تک میں کبھی اس گیم میں ہارا نہی ہوں۔۔۔ ایک بلیک کلر کا شارٹ اور ریڈ ٹی شرٹ میں ملبوس وہ نوجوان کان سے موبائل لگاے اپنی جیت پر خوش ہو رہا تھا۔۔۔۔
چل اب یہ بتا کہ پارٹی کب دے رہا ہے ہمیں۔۔۔دوسری طرف سے مردانہ آواز آی۔۔۔۔
ہاں ہاں کل کلب میں آجاؤ تم سب مل کر پارٹی کرتے ہیں۔۔۔ کیونکہ آج مجھے ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔ وہ کافی کا سپ لیتے ہوے بولا۔۔۔۔
چل ٹھیک ہے میں سب کو بتا دیتا ہوں اوکے۔۔۔ دوسری طرف رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔۔۔
اصفر میں اور تمھاری موم زرا باہر جارہے ہیں آوٹنگ کے لیے۔۔ دروازے سے ابراہیم احمد اندر داخل ہوئے۔۔۔
تو آپ یہ بات مجھے کیوں بتا رہے ہیں؟ وہ صوفے پر بیٹھے کافی کے گھونٹ لے رہا تھا اور ریموٹ سے ٹی وی کہ چینل چینج کر رہا تھا۔۔
کیا مطلب ہے تمھیں کیوں بتا رہے ہیں؟؟ تم ہمارے بیٹے ہو تمھیں نہی بتاے گے کیا؟؟ ابراہیم احمد کو تعاجب ہوا۔۔ اوووہ تو آپکو خیال آہی گیا ک آپکا ایک بیٹا بھی ہے۔۔۔۔ میں تو آج تک خود کو لاوارث سمجھ رہا تھا۔۔۔ اسنے ایک نظر ان پر ڈالی اور پھر چینل بدلنے میں مصروف ہوگیا۔۔۔
میں نے کتنی دفعہ کہا ہے تمھیں کہ اپنی بکواس بند رکھا کرو۔۔۔ آج تک تمھیں کسی چیز کی کمی ہونے دی ہے ہم نے؟؟ اپنی لائف کو انجواے کرو گھوموں پھرو اب کیا ہم تمھیں اپنی گود میں بٹھا کہ رکھیں۔۔ وہ غصے میں تھے اور ان کا موڈ بھی خراب ہو چکا تھا۔۔۔
کاش آپنے مجھے اپنی گود میں بٹھایا ہوتا ڈیڈ۔۔۔ وہ ایک گہری سانس لے کر کہہ رہا تھا۔۔۔ ابراہیم اسکو جواب دیے بغیر ہی وہاں سے جا چکے تھے۔۔۔
__________________________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...