“میرے رابطوں میں تیراذکر بس اتنا ہی رہا
تیرا چہرہ، تیری آنکھیں، اور تجھ پر ہی مر جانا”
از: میری حسین
اسلام آباد کے اس پیلس میں بھی صبح کا اجالا ہو چکا تھا۔سب اپنےکاموں پر جانے کو مصروف تھے۔ایسے میں اس پیلس کا چھوٹا شیطان بھی ناشتے کے لئے بھگا چلا آ رہا تھا۔
پورا پیلس سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ کسی کی کہی دوڑ لگوائی ہوئی تھی تو کوئی کچھ کر رہا تھا۔۔۔
ٹیبل پر بیٹھے سب لوگ اس شیطان کو دیکھ رہیں تھے جو آج پھر کوئی نیا کام سر انجام دے رہا تھا۔۔۔
یہ سب کیا لگا رکھا ہے۔ گھر ہے یا چڑیا گھر۔۔ آغا جان کی آواز گوجی تھی۔۔۔
خیر غلے۔۔۔۔(پخیر آ غلے)
کیا۔۔۔۔کیا۔۔۔کیا بول رہے ہو یہ تم۔۔۔ صبح صبح ہی آپ کا پھر سے کوئی نیا کام شروع ہو گیا ہے۔۔۔ باز آجاؤں۔۔۔۔
آغا جان کی اک بار پھر سے آواز آئی تھی۔۔۔
لو جی۔۔۔ سچی۔۔۔ میں خراب کام نہیں کر رہا۔۔۔
آپ کی قسم۔۔۔مسکرا کر کہا گیا”’
معاز ۔۔۔شاہ۔۔۔ ساتھ ایک گھوری سے نوازا گیا۔
پوری رات لگی مجھے یاد کرنے کو اور آپ کو پسند ہی نہیں آیا۔۔۔منہ بنایا گیا۔۔
معاز وہ یہ نہیں تھا۔۔۔ ایسے نہیں بولنا تھا۔۔
تو۔۔۔
پر بھائی کیا تھا آپ ہی بول دے۔ میری تو بیستی سی ہو گی ہے۔۔
۔
نہیں؟؟؟ کیا؟؟؟
اکفہ کا قہقہ حال میں سنا گیا تھا۔۔
بڑی ماما اب آپ بھی۔۔۔ معاذ نے منہ کے زاویعے بگاڑے تھے۔۔۔
اوو۔۔۔ نا میرا بچہ۔۔۔۔ آپ تو جان ہے ہماری۔۔ اس گھر کی۔۔۔
ہائے۔۔۔۔ سچ میں۔۔۔ کتنی پیاری ہےنہ آپ۔۔۔ سب سے زیادہ پیار آپ کرتی ہے میرے سے۔۔۔معاذ آگے بڑھ کے اکفہ کے لاڈ سے گلے لگا تھا۔۔۔
معا۔۔۔ز۔۔۔ معاز۔۔۔۔ یہی الفاظ رات کو میرے لئے بھی تھے۔۔۔ محمش نیلی آنکھوں سے گھور رہا تھا۔۔۔
اور کل شام میں یہی سب مجھے بھی کہا تھا میرے اس بچے نے۔۔۔اب کی بار عالمگیر شاہ کی آواز آئی تھی۔۔۔
معاذ کی نظر اب آغا جان پر تھی۔۔۔ جیسے آنکھوں سے کہ رہا ہو اب آپ کچھ نا بولنا پلزز۔۔۔۔
آغا جان کا قہقہ لگا تھا۔۔۔ سب کی نظر ان کی جانب تھی۔۔۔۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہو سب، میں بہت خوش ہو آج یہ شیطان پاس ہو گیا ہے۔۔۔ اب یہ بھی یونیورسٹی پڑھے گا۔۔
میری بیٹی کا غرور ۔۔۔اُس کا فخر۔۔
بہت سی آنکھیں اس ہی بات پر نم ہوئی تھی۔۔۔ پرایک آنکھ پوری طرح برس رہی تھی۔ دکھ سے۔۔۔ تکلیف سے۔۔۔
آج پھر ایک بار صبر آزمایا جا رہا تھا۔آزمائش تو برحق تھی۔ پر صبر پھر سے واجب کیا جا رہا تھا۔۔۔۔
صبر کب تک تھا۔۔
یہ آزمائش کب تک تھی۔۔۔
کون پورا اترتا دیکھنا اب یہ تھا۔۔۔
کس کا صبر رنگ لانا تھا۔۔۔
کس کو اللہ عطا کرنے والا تھا۔۔۔
کس کی آزمائش پوری ہونے والی تھی۔۔۔
کس کی روح میں سکون اترنے والا تھا۔۔
۔
سب جلد ہونے والا تھا۔۔۔
اوپر والے نے واجب کر دیا تھا۔۔۔ پھر ٹال تو کوئی بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔
وہ کبھی بھی خوش نہیں ہو گی۔۔ میں ان کے لئے کچھ بھی نہیں ہوں۔۔۔
کچھ بھی نہیں۔۔۔ اتنے سال گزر گے۔۔۔ ترس آیا ان کو مجھ پر۔۔۔ نہ۔۔۔ نہیں نہ۔۔۔ بلی آنکھیں پانی سے بھاری تھی۔۔۔ ایک بار پھر برسنے کو۔۔۔
وہ میرے سے۔۔۔ آپ سے کبھی بھی خوش نہیں ہوئی۔۔۔ ان کو بس وہ چاہے جو نہیں ہے۔۔ جو پتا۔۔۔ پتہ نہیں کہا ہے۔۔۔
ہم سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں۔۔۔
یہ جو اندر وجو۔۔۔ وجود ہے نہ یہ میری ما۔۔۔ ماما۔۔۔ ہے نا تو پھر ماماکیا ایسی ہوتی ہے؟؟؟
میں روز۔۔۔ روز جاتا ہوں ان کے پاس ایک بار نہیں… بار بار… کہ شاید ماما کو مجھے پر رحم آ جائے۔۔۔ یا مجھے پر ترس کھا کہ ہی جاگ جائے۔۔۔ را…توں… راتوں۔۔۔ کو اٹھ اٹھ کے ماما کے پاس آتا ہوں۔۔۔۔ پر نہیں۔۔۔ نہ ان کو میرے سے پیار ہے نہ ہی ان کو میری کوئی پروا ہے۔۔۔
معاذ کا درد الفاظوں سے جھلک رہا تھا۔۔اٹھارہ سال کا یہ لڑکا اس آزمائش میں ہار رہا تھا۔۔اپنی شرارتوں سے اس گھر میں رونق لگانے والا اب ہار چکا تھا۔۔۔۔
بولے جواب دے نہ۔۔۔ چھپ کیوں ہے۔۔ایسی ہوتی ہے۔؟؟؟
سوال کیا گیا تھا۔۔ سب چھپ چاپ تھے گھر کے اندر کے ملازم بھی کام چھوڑ کے اس دکھ بھرے بچے کو سن رہے تھے۔۔۔ بہت سی آنکھیں اس کے الفاظ کے ساتھ ساتھ برس رہی تھی۔۔۔
پر پروا کس کو تھی۔
کسی کو بھی نہیں۔۔۔!!!
پروا تو ماں،باپ کرتے ہیں۔۔۔ جان تو وہ قربان کرتےہیں بچوں پر۔۔۔ پر یہاں سب رشتے تھے بس اس کے ماں ، باپ نا تھے۔۔۔ فکر تو یہ دو رشتے کرتے ہیں پر یہ دونوں ہی اس کو سبھالنے کو۔۔۔ خوش دیکھنے کو۔۔۔ خوشیاں جینے کو ساتھ نا تھے۔۔۔
ترس گیا ہوں۔۔ ان کو سننے کو۔۔۔پ۔۔۔ پر۔۔۔ نہیں بو۔۔۔بولتی۔۔ میں کیا کرو۔؟؟
معاذ رو رہا تھا۔۔۔ ہاں وہ شیطان منٹ میں اداس ہوا اور پھر اب پھوٹ پھوٹ کے رو رہا تھا۔۔۔ سسکیوں سے رو رہا تھا۔۔۔ وہاں موجود سب کے دل پھٹ رہے تھے۔۔
و۔۔۔وہ بس ایک بار کہہ دے
میرا جگر۔۔۔
میرا معاز۔۔۔
میرا سوہنا۔۔۔
بول دے بس ایک بار۔۔۔
میں پھر کوئی گلا نہیں کرو گا۔۔
۔
کچھ نہیں کہو گا۔۔۔ اتنے سالوں کا کوئی بھی گِلا نہ۔۔۔نہیں۔۔۔ کرو۔۔۔۔ گا۔۔۔ پر۔۔۔۔ ایک۔۔۔۔۔ بار۔۔۔
الفاظ ٹوٹ گے۔۔۔
چہرہ آنسوؤں سے پورا بھیگ چکا تھا۔۔۔ رحم نا آنکھوں کو آیا کہ نہ برسیں۔۔۔ نہ رحم زبان کو آیا کے چھپ ہو جائے۔۔۔خاموشیاں ٹوٹی تھی۔۔۔ بکھری تھی۔۔۔ الفاظ نہیں تھے۔۔ زخم تھے۔۔۔۔ جو اتنے سالوں بعد بھی مند نہیں پڑے تھے۔۔۔ آج بھی ان سے ویسے ہی خون رس رہا تھا۔۔۔ الفاظ نہیں یہ تازہ زخم تھے۔۔۔۔
معاز نہیں آج پھر اس پیلس کا ایک ایک فرد رویا تھا۔۔۔ اس گھر کا بڑا۔۔۔ چھوٹا۔۔ ملازم۔۔۔۔ سب رویے تھے۔۔۔دیکھنے سے اس پیلس کے پھول بھی رو رہیں تھے۔۔۔ اس پیلس کی دارو دیوار چیخ رہیں تھی۔۔۔ اس گھر کے مکیوں کے صبر پر۔۔۔ ان کی آزماشیوں پر۔۔۔
سب رو رہے تھیں۔۔ سب نم تھا۔۔۔ اس شرارتی معاذ کے الفاظ دل چیر گے تھے۔۔۔
معاذ یار نا کر۔۔۔ بس کر دے۔۔۔ محمش کا صبر جواب دے رہا تھا۔۔۔
کیوں۔۔۔ کیوں۔۔۔ کرو بس۔۔۔۔ انہوں نے کیا ہے بس۔۔۔ بولے کیا۔؟؟؟
میرا شیر بچہ ایسا نہ بول۔۔۔ عالمگیر نے معاذ کے کندھوں پر بازو رکھ کر اپنے حصار میں لیا تھا۔۔۔ اپنے گلے لگایا۔۔۔
اُس کے بھی بس میں نہیں ہے۔ آپ نہیں جانتے میں آج بتاتا ہوں۔ آغا جان کی بھی کوئی بہن نہیں تھی بلکے ہماری چھ نسلوں میں کسی کے گھر بیٹی نہیں ہوئی تھی۔۔۔
پھر آغا جان کے بیٹی ہوئی۔۔۔
میری بہن۔۔
اس گھر کی شہزادی۔۔۔
اس گھر کی جان۔۔۔
آپ کی ماما۔۔ بہت۔۔ بہت۔۔۔ لاڈلی۔۔۔ اتنے سالوں بعد اس گھر میں کوئی رحمت آئی۔۔۔ پھر میری شادی ہوئی تو مجھے بھی بہت خواہش تھی میری بیٹی ہو۔۔۔ پر اللہ کو منظور نہیں تھی۔۔۔
ایک لمبی سانس لی گئی۔۔۔۔معاذ ساتھ لگا سن رہا تھا۔۔۔ صبح کے وقت آج گزری ہوئی کچھ یادیں تازہ کی جا رہی تھیں۔۔۔
پھر آہینور کی وجہ سے اس گھر میں ایک بار پھر بیٹی کی ولادت ہوئی۔۔۔ آپ اور مصترا نور آئی۔۔۔ آپ کو پتہ ہے نہ اس گھر کی جان آپ کی ماما تھی۔۔۔ پھر اس کی بیٹی۔۔۔ آپ بھی بہت عزیز ہو سب کو۔۔۔ پر وہ پری بھی ہماری آہینور کی طرح سب کی جان تھی۔۔۔ آپ کی ماما تو اُسے کسی کو دیتی بھی نہیں تھی سوائے محمش کے۔۔۔
بس اس لئے اس سے سب کا پیار الگ تھا۔۔۔ اپنے ساتھ ساتھ سب کو بکھرے کے رکھ گئی۔۔۔
جان (آہینور) کے دل کو چوٹ لگی ہے۔۔ تو جب دل ہی کام نہ کرے تو باقی باڈی کیسے ٹھیک رہیں۔۔۔ وہ بھی چھپ چاپ سوئی ہے۔۔۔ سن تو سب کچھ رہی ہیں۔۔۔ بس ناراض ہے لگتا۔۔۔ بولتی نہیں اس لئے۔۔۔
عالمگیر شاہ کی آنکھوں سے آنسوؤں نکلے ضرور تھے پر جلد ہی صاف کر لیں گے۔۔ اب
بس اب کوئی نہیں روئے گا۔ اسے بھی تکلیف ہو گی۔۔ سوئی ضرور ہے پر جانتی وہ بھی سب ہیں۔۔۔۔۔۔
ہمت سے زیادہ رب نہیں آزماتا۔۔۔۔ ہمیں صبر کرنا ہے۔۔۔۔ جب تک لکھا جا چکا ہے۔۔۔ جب اس کا حکم ہو گا وہ مل جائے گی اور آہینور بھی نیند پوری کر کے جاگ جائے گی۔۔۔
ہمممم۔۔۔ شاباش اب نا اُمیدوں والی باتیں نہیں کرنی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پورے دو مہینے گزر چکے تھے اس واقع کے بعد پھر نور سے کسی نے وہ سب باتیں نہیں کی، سب پہلے سے بھی زیادہ دھیان رکھ رہے تھے۔
وہ معصوم گڑیا پھر سے پورے گھر میں چہکتی پھرتی تھی۔
انٹر کے پیپر کے بعد سکون سے گھوم پھر رہی تھی۔۔۔
لان کے وسط میں لال فراک پہنے وہ بلکل پری لگ رہی تھی۔۔ کھولے گولڈن لمبے بال۔۔۔ دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی آبشار بہہ رہی ہو۔۔۔ سرخ سفید رنگ۔۔ بلی آنکھیں کاجل سے بھری۔۔۔ اس وقت کسی گہری سوچ میں ڈوبی تھی۔۔اِک کشش تھی۔۔۔ اِک طلسم تھا۔۔۔ جو دیکھنے والوں کو اس پری کی جانب خود با خود کھنچتا تھا۔۔
“کالا کاجل چوم کے ان آنکھوں میں خود سے بسايا ہے
کہ تیری ان آنکھوں کے صدقے ہم نے کچھ یوں بھی ہے اُترے”
از: میری حُسین
یہ معصوم اپنے حُسن سے اتنی ہی لاپروا تھی۔۔۔۔ دور دور تک اس لڑکی کو آج کل کے باہر کے ماحول کے بارے میں علم نہ تھا۔۔۔
اوہ۔۔۔ نوری میری جان۔۔۔ پیچھے سے آ کے لاڈ سے اپنے پیار بھرے حصار میں لیا۔۔۔
او۔۔۔ اوو۔۔ لڑکی آرام سے ذرا۔۔۔ ہماری ابھی جان نکل جاتی۔۔۔ افف۔۔۔ ڈرا دیا۔۔ نور نے خفی سے کہا۔۔۔
نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ میری جان۔۔۔۔ ایسے نہیں کہتے۔۔
اچھا جی نہیں کہتے۔۔۔
ہممم۔۔۔ باہر چلے۔۔ یار قسم لے لو بہت دل کر رہا آج پھر لاہور گھومنے کا۔۔۔
ہائےئے۔۔۔۔ تھکتی کیوں نہیں ہو، ساری عمر یہاں گزر دی اور اب بھی گھومنا ہے۔۔
نور نے عجیب سے منہ بنائے۔۔۔
سری عمر۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ ہم اٹھارہ کے ہوے ہیں اور آپ میڈم ساری عمر کا کہہ ہے۔۔۔بوڑھی کر مجھے۔۔۔۔ماہم ساری عمر کو ذرا سیریس ہی لے لیا۔۔۔
یار پلزز۔۔۔ نہ۔۔۔ جلدی آ جائے گے۔۔ ماہم نے پھر سے التجا کی تھی۔۔۔
نہ۔۔۔ بھائی نے سختی سے مانا کیا ہے۔۔۔۔ سو۔۔۔ سوری۔۔۔ نور نے ہاتھ اٹھاتے ہونے انکار کیا تھا۔۔۔
ماہم افنان کے نام سے ہی چھپ ہو گی۔۔۔ جانتی تھی اب کوئی کچھ بھی کر لے یہ لڑکی گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھے گی۔۔
بچپن کا ساتھ۔۔ اسکول۔۔۔ کالج۔۔ گھر۔۔ ہر جگہ ماہم نور کے ساتھ تھی۔۔۔ بیسٹ فرینڈ۔۔۔ یا کہا جائے ورلڈ بیسٹ فرینڈ۔۔ ماہم جان دیتی تھی اس معصوم سی گڑیا پر۔۔۔ ہر جگہ خود آگے کھڑی ہوتی تھی۔۔۔ جیسے ماں’ باپ بچے کو سرد گرم سے بچاتے ہیں ویسے ہی گھر سے باہر ماہم ساتھ ہوتی تھی۔۔۔
ماہم کے ماں باپ دونوں کا انتقال ہو چکا تھا۔۔۔ اور اس لڑکی کا ایک ہی بھائی تھا جو ملک سے باہر ہوتا تھا۔۔۔ پر بھابھی نے جینا حرام کیا ہوا تھا۔۔۔ گھر کا سارا کام ماہم کے سر تھا۔۔۔
مار کھانا۔۔ ڈانٹ۔۔۔ سب ماہم کے حصے میں ہی تھا۔۔۔ لاہور شہر کی دیوانی اپنے ہی گھر میں کھل کے سانس نہیں لے سکتی تھی۔۔ بات اتنی بڑھ چکی تھی کے ماہم کی بھابی اپنے نشی بھائی کے ساتھ اس کا نکاح تک کرنے والی تھی۔۔
پر اچھے وقت میں افنان اور نائل کو پتہ چل گیا اور پھر نکاح تو ٹوٹا ہی پر بھائی کو ساری سچائی بتا کے ماہم کی زمیداری خود پر لے لی۔۔ دو ماہ سے ماہم بھی اس گھر کا حصہ تھی۔۔۔
پورا دن نور کو خوش رکھنا۔۔۔ ہلا گلا کرنا ماہم کے ہی کارنامے تھے۔۔۔
نور کھوی ہوئی ماہم کی گزری زندگی کو یاد کرنے میں مصروف تھی۔۔۔
ماہم تم اداس ہو نہ۔۔۔ سب میری وجہ سے ہو رہا ہے اگر میں ضد نا کرتی تو ہم یہاں سے کہی نہ جاتے۔۔ تمہیں تو لاہور پسند نہیں بلکے تم تو دیوانی ہو نا اس شہر کی۔۔ تمہے بہت دکھ ہو گا نہ۔۔۔
نازک دل لڑکی کو اپنی دوست کے محبوب شہر سے جانے کا افسوس تھا۔۔۔
اوو۔۔۔ میری جان بریک بھی رکھ لو۔۔۔ کس نے کہا مجھے دکھ ہے۔۔ بلکے اب تک میرے شہر میں تھے۔۔۔ اب ہم سب آپ کے عشق والے شہر جا رہے ہے۔۔ دیکھتے ہے وہاں ایسا کیا ہے جو میڈم وہاں جانے کی ضد بچپن سے کرتی رہی ہے۔۔۔
اسلام۔۔۔۔ آباد۔۔۔۔۔۔ اسلام آباد۔۔۔ اب اس شہر پر ہم قدم جمائے گے۔۔ ماہم بول رہی تھی۔۔۔
نور ایک ایک لفظ کو سن رہی تھی۔۔۔ پر سارا مزہ تو میڈم کو لفظ اسلام آباد پر آ رہا تھا۔۔۔
پیار۔۔۔۔
محبّت۔۔۔۔
جنون۔۔۔
عزت۔۔۔
احترام۔۔
رُتبہ۔۔۔
عشق۔۔۔۔
ہاں۔۔۔ جی۔۔۔۔ اس لڑکی کو عشق تھا اپنے شہر سے۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ یہ شہر بھی اس لڑکی کا تھا۔۔۔ یہ سوچنا بھی خود نور کا تھا۔۔۔
میری ماں بس کر جاؤ اب۔۔۔۔
مجھے ماں تو نہ کہا کرو۔۔۔ ماہم کو ہمیشہ کی طرح تھوڑا سا برا لگا تھا۔۔۔
نور کی پہلی ماں۔۔۔ مھین مصطفیٰ۔۔۔
دوسری ماں۔۔۔ افنان مصطفیٰ۔۔۔
تیسری ماں۔۔۔
جی ہاں۔۔۔
تیسری ماں۔۔۔ ماہم علی۔۔۔
یہ بات بھی میره اور نائل صاحب کہتے تھے۔۔۔
اچھا۔۔۔ نہیں کہتی آج۔۔۔ لفظ آج پر زور دیا تھا۔۔۔ اب چلو اندر چلے۔۔۔
ہاں۔۔۔ چلو۔۔۔ میری جانو۔۔ ماہم نے زور سے گلے لگا کر نور کو ساتھ لگایا۔۔۔
ہستی۔۔۔ مسکراتی۔۔۔ یہ دوستے گھر کے اندر کی جانب بڑھی تھی۔۔ پھول جھومے تھے آسمان پر پرواز کرتے پرندے۔۔۔ سب نے اس دوستی کو تا عمر ساتھ ایسے ہی رہنے کی دعا کی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔،۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...