اس چھوٹے اور بے حد عام سے کمرے میں دس سالہ وکی اپنے باپ کے سامنے سر جھکائے کھڑا خاموشی سے اسکی ڈانٹ سن رہا تھا ۔اور ساتھ ہی اپنی ماں کی خشمگیں نگاہوں کے بھی زیر عتاب تھا۔
“کتنی دفعہ کہا ہے کہ بڑوں کے معاملے میں نا بولا کرو۔مگر تمہیں تو کوئی بات سمجھ میں ہی نہیں آتی ہے ۔” فہد ندیم نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا ۔
“آئی ایم سوری پپّا! میں تو بس۔۔۔” وہ نگاہیں نیچی کئے دھیرے سے بولا۔
“کس نے کہا تھا کہ جویریہ کے رشتے کے لئے آئے مہمانوں کے سامنے شادی پوسٹ پون کرنے کی بات کرو۔۔حد ہوتی ہے ۔۔عمر دیکھی ہے تم نے اپنی۔۔ان لوگوں کے سامنے کتنی بے عزتی ہوئی ہے میری۔اندازہ ہے تمہیں اس بات کا؟ “فہد کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔
“سوری پپّا! “اسنے پہلے کے سے انداز میں کہا ۔
” کیا سوچ کر تم نے اس طرح کی حرکت کی ہے؟ ہوں؟ بولو؟” اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے بیٹے کے ساتھ کیا کر ڈالے۔
” بھائی! وکی کو ڈانٹنا بند کریں ۔”کھلے دروازے سے وہ اندر آتی وکی کے ساتھ کھڑی ہو گئی ۔
“تم درمیان میں مت آؤ۔”اسکی پیشانی پر پڑے بل کم ہوئے۔”تمہیں اندازہ ہے کہ یہ لڑکا کیا کر کے آیا ہے؟ مہمانوں کے سامنے اسنے سیدھے یہی کہہ دیا ہے کہ اسکی پھپو ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔ہمت دیکھو اس کی۔” فہد مشتعل ہوا جا رہا تھا ۔
“میں نے کہا تھا کہ وکی کو ان لوگوں سے بات کرنے کے لئے ۔میرے کہنے پر اسنے ایسا کیا تھا۔”اسنے مضبوطی سے کہا۔
جہاں فہد کا غصہ حیرت میں بدلا وہیں ثمرین کی آنکھیں چمکیں۔
” میں نا کہتی تھی کہ میرا بیٹا بغیر کسی حوصلہ افزائی کے ایسا نہیں کر سکتا ۔”
“یار تم ابھی چپ رہوگی۔”فہد نے اسے جھڑکا۔وہ بڑبڑا کر خاموش ہو گئی۔
” تم کیا کہہ رہی تھیں؟ “فہد اب جویریہ کی جانب متوجہ ہوا۔
“پھپو! آپ۔۔۔”وکی نے کچھ کہنا چاہا۔
اسنے وکی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر دبایا اور اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔
” بھائی آئی ایم سوری! “وہ فہد کی جانب مڑی۔
” تمہیں کیا لگتا ہے جویریہ مجھے تمہاری پروا نہیں ہے ۔میں تم سے جان چھڑانا چاہتا ہوں اسلئے تمہاری جلد شادی کرنا چاہتا ہوں؟” اسے جیسے صدمہ ہوا۔”تم پانچ سال کی تھیں جب سے تمہیں بھائی کے بجائے باپ بن کر پالا ہے ۔اور میں تمہاری ہی پروا نہیں کروں گا ۔”
“ایسا تو مت کہیں بھائی۔”اسے فہد کی باتوں سے تکلیف ہوئی ۔وہ اپنے بھائی کی اپنے لئے محبت سے اچھی طرح واقف تھی۔اسے بھی احساس تھا کہ وہ کبھی اسکا برا نہیں چاہ سکتا۔
” جویریہ! میں جس اسٹوری پر کام کر رہا ہوں ۔اس سلسلے میں مجھے کئی دفعہ تمہارے حوالے سے دھمکیاں دی گئیں ہیں ۔میں نہیں چاہتا کہ میرے کام کی وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔” اسنے نرمی سے کہا۔
“بھائی مجھے آپ کا ہر فیصلہ منظور ہے ۔” اسنے سعادت مندی سے کہا اور وکی کا ہاتھ پکڑے کمرے سے باہر نکل آئی۔
کمرے سے باہر آ کر وکی نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھڑایا۔
” پھپو! آپ نے جھوٹ کیوں بولا؟ “وہ اسکی طرف مڑتا خفگی سے بولا۔
” تم میری وجہ سے ڈانٹ کھا رہے تھے اور میں یونہی خاموشی سے بیٹھی رہتی؟ “اسنے سوالیہ انداز میں کہا ۔
“ہر بار آپ مجھے پروٹیکٹ کرنے آ جاتی ہیں ۔جب آپ چلی جائیں گی تو پھر کون میری حفاظت کریگا؟” اسنے اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
“میں جہاں بھی رہوں گی ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گی ۔”وہ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں تھاما۔” ہر مشکل وقت میں تم مجھے اپنے ساتھ پاؤگے۔”
وکی کے چہرے پر معصوم سی خوشی پھیلی۔اسنے اپنے دونوں بازو اسکی گردن کے گرد حمائل کئے اور محبت سے اسکی پیشانی چومی۔
” آئی پرامس پھپو! میں بھی ہر مشکل میں آپ کے ساتھ رہوں گا ۔”
“اوہو تب تو مجھے کسی بھی مشکل وقت سے نہیں ڈرنا چاہئے ۔ساری پریشانیوں کو سنبھالنے کے لئے میرا وکی ہوگا نا۔” اسنے شرارتی انداز میں کہتے ہوئے اسکے بال بکھیرے اور کھڑی ہو گئی ۔
– – – – – – – – – –
اسد خان ایک متوسط درجے کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا جب کوئی اسکے سامنے بالکل خاموشی سے بیٹھ گیا ۔وہ دیکھے بغیر بھی جانتا تھا کہ وہ کون ہو سکتا تھا؟
“آج چوتھا دن ہے ۔اسلئے آج تمہاری زبان سے میں سچ کے علاوہ کچھ اور نہیں سننا چاہتا۔” آنکھوں پر سیاہ سن گلاسز اور آگے کو جھکی ہوئی پی کیپ پہنے وہ لڑکا درشتی سے کہہ رہا تھا ۔
“میں نے سارا سچ اٹھارہ سال پہلے عدالت میں بیان کر دیا تھا ۔مزید کوئی سچ نہیں ہے میرے پاس۔”اسد خان نے بیزار کن لہجے میں کہتے ہوئے چائے کا دوسرا گھونٹ لیا۔
” اسد خان! “وہ سانپ کی طرح پھپکارا۔”میرا باپ قتل ہوا تھا ۔ہماری پوری زندگی زلزلے کی زد میں آ گئی تھی ۔اسلئے ایک جعلی مجرم کو سزا یافتہ دیکھ کر میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا ۔مجھے حساب لینا ہے ۔۔۔گن گن کر ۔۔۔ایک ایک کر کے ۔۔۔ہر چیز کا۔۔۔”
“تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے لڑکے کہ میں اصل مجرم نہیں ہوں؟” اسنے دایاں ابرو اٹھاتے ہوئے سوال کیا۔
” میرے پاس اسکی دو وجوہات ہیں۔پہلی یہ کہ ۔۔۔”وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پھنسائے میز پر آگے کو جھکا۔” پہلی یہ کہ تمہارے گھر والوں نے فیصلے کے بعد ہائی کورٹ میں اپیل کیوں نہیں کی؟ ”
” اور دوسری وجہ؟ “اسد خان نے مطمئن لہجے میں پوچھا ۔
“اور دوسری وجہ یہ ہے کہ تم نے میرے باپ کو قتل کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ تمہارا اس سے جھگڑا ہوا تھا ۔اسنے تمہاری بے عزتی کی جسکے بدلے تم نے اسے قتل کر دیا ۔”اسکی سن گلاسز کے پیچھے چھپی آنکھوں میں اس تکلیف دہ بات کو دہراتے ہوئے بھی اذیت ابھر رہی تھی ۔”اتنی معمولی سی بات پر جاہل لوگ تو ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں مگر تم جیسا کیمسٹ ایسا نہیں کر سکتا۔اور تمہارا تو اپنے کیریئر میں معمولی سے جھگڑے کا بھی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور میرے باپ جیسے معاملہ فہم انسان کے ساتھ جھگڑا تو بہت دور کی بات ہے ۔یہ سامنے کی بات اگر میں کہہ سکتا ہوں تو تمہارے کیس کے وکیل یا ججز کو یہ کیوں نہیں دکھائی دیتی؟” اسنے آگے کو جھکے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔
یکدم اسد خان کے چہرے پر ہراس پھیل گیا ۔وہ اسکے عقب میں موجود میز کی طرف خوفزدہ انداز میں دیکھ رہا تھا ۔
” کیا ہوا؟ پیچھے کوئی ہے؟ “وہ اسکی کیفیت غور سے دیکھتا ہوا بولا ۔
” اپنے پیچھے مت دیکھنا۔مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ میرے پیچھے ہیں ۔اگر انہیں تمہارے متعلق معلوم ہو گیا کہ تم گڑے مردے اکھاڑ رہے ہو تو تمہاری جان خطرے میں پڑ جائے گی ۔” اسکی آواز میں خوف تھا۔
“اگر تمہاری جان کو خطرہ ہے تو تم میرے ساتھ چلو۔”
“نہیں…یہ لوگ مجھے کچھ نہیں کریں گے ۔میں نے انکے کہنے پر اپنا ہر قدم اٹھایا ہے اسلئے یہ میری جان نہیں لے سکتے۔”وہ لرزتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا ۔اسکے لہجے میں اسکے جملے کہ سچائی نظر نہیں آتی تھی ۔
“اسد خان کون لوگ ہیں وہ؟ مجھے بتاؤ کیا انہوں نے میرے باپ کا قتل کیا ہے؟ “اسنے بے تابی سے کہا۔
” میں تمہارے باپ کی مدد کر رہا تھا ۔”اسکا لہجہ بہت دھیما ہوا اور ساتھ ہی اسنے آنکھوں سے نیچے اشارہ کیا ۔
اسنے گردن نیچی کر کے دیکھا۔اسد خان نے اپنی انگلی چائے کے کپ میں ڈبوئی اور انگریزی کا حرف ‘ڈی’ دو بار لکھا۔
“یہ کیا ہے؟” اسنے نا سمجھنے والے انداز میں کہا ۔
مگر وہ جواب دئیے بغیر کھڑا ہو گیا تھا ۔
“میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ ہے ۔” اسکی آواز اور دھیمی ہوئی۔”تم یہیں رکو۔میں ابھی آتا ہوں ۔”
اسد خان میز سے اٹھ کر اوپر جانے والی سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا۔اسنے لبوں کو بھینچ کر ایک بار پھر ان حروف کو دیکھا ۔انکا کیا مطلب ہو سکتا تھا؟ کسی چیز کی علامت یا کسی لفظ کا مخفف؟ اسنے الجھتے ہوئے سوچا۔ابھی اسد خان آئیگا اور شاید وہ اپنے باپ کے قتل کا معمہ حل کر لے۔
یکدم اسنے اپنا سر اٹھا کر سیڑھیوں کی جانب دیکھا۔اسد خان کے پیچھے کوئی اور بھی بہت تیزی سے سیڑھیاں چڑھا تھا۔وہ سرعت سے اٹھا۔جیکٹ کے کالر کھڑے کئے۔پی کیپ مزید آگے کو جھکائی اور اوپر جاتی سیڑھیوں کی طرف دوڑا۔پہلی منزل پر پہنچ کر اسنے سنسان راہ داری میں اپنی نظریں دوڑائیں ۔دائیں ہاتھ پر ایک کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔وہ تیزی سے کمرے کے اندر گیا۔کمرے کے وسط میں اسد خان اوندھے منہ گرا ہوا تھا اور اسکے آس پاس سرخ خون پھیلا ہوا تھا ۔اسنے جھک کر اسکی گردن پر انگلی رکھی۔نبض خاموش ہو چکی تھی ۔کھڑے ہوتے ہوئے اسنے محتاط نظروں سے چاروں طرف جائزہ لیا ۔بالکونی کا پردہ ہٹا ہوا تھا اور قاتل یقیناً اسی کھڑکی سے فرار ہوا تھا ۔اسنے اپنی کھوجتی ہوئی نگاہیں اس چیز کی تلاش میں دوڑائیں جو اسے اسد خان دینا چاہتا تھا ۔مگر غالب امکان یہی تھا کہ قاتل خالی ہاتھ نہیں گیا ہے ۔اسنے مایوسی سے دائیں ہاتھ کے مٹھی بنا کر بائیں ہاتھ پر ماری۔پھر سر ہلاتا وہ کمرے میں رکھے ٹیلی فون تک آیا اور سو نمبر ڈائل کیا تھا۔
“ہیلو! ہوٹل مون لائیٹ کے کمرے نمبر 102 میں ایک قتل ہو گیا ہے ۔”
“آپ کون؟” دوسری جانب سے پوچھا گیا ۔
“جی شکریہ ۔۔۔” اسنے رسیور کریڈل پر ڈال دیا اور کمرے سے باہر نکل آیا ۔نیچے اترنے کے لئے اس نے اس دفعہ دوسرے زینے کا استعمال کیا تھا۔
– – – – – – – – –
یزدانی مینشن پر رات کی تاریکی نے اپنا سایہ کر رکھا تھا ۔لان میں جلتی اکا دکا روشنیاں اس اندھیرے کو دور کرنے کے لئے ناکافی تھیں ۔افہام حیدر کی کار کے ہارن نے خاموش فضا میں ہلکا سا ارتعاش برپا کیا۔آہنی گیٹ سے اندر داخل ہوتی کار سیدھی پورچ میں آ کر رکی تھی۔کار کا دروازہ کھولنے سے پہلے اسنے بیک ویو مرر میں دیکھا۔پچھلی سیٹ پر وہ مغرور شہزادیوں جیسی لڑکی سیٹ سے ٹیک لگائے شاید گہری نیند میں تھی۔وہ کار کا دروازہ کھولتا ہوا نیچے اترا اور پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا۔کار کی چھت پر ہاتھ رکھے وہ زرا سا جھکا۔
“آبش!” اسنے دھیمے سے پکارا۔مگر وہ ہنوز نیند میں تھی۔
“آبش! آبی!” اس دفعہ اسنے دھیرے سے اسکا کندھا ہلایا۔
وہ آنکھیں کھولتی سیدھی ہوئی۔
“آبی ہم گھر آ گئے ہیں ۔” افہام نے جھکے جھکے نرمی سے کہا.
آبش کا چہرہ سرخ ہوا۔ نیند کے خمار میں ڈوبی غلافی آنکھوں میں برہمی اتری۔
“ڈونٹ کال می آبی ایور!”
“سوری۔۔۔”افہام حیدر کے چہرے کی نرمی سمٹی اور وہ پیچھے ہوا۔
وہ نزاکت سے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی کار سے اتر گئی ۔
” اور سنو! جب میں کسی پارٹی میں ہوں تو بار بار کال کر کے مجھے ڈسٹرب نہ کیا کرو.” مغرور شہزادی کے لہجے میں تپش تھی۔
“اگر تم وقت پر آ جاتیں تو مجھے تمہیں کال کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔” اسکے لہجے میں زمانے بھر کی اجنبیت آئی۔وہ اسے کیا سمجھتی تھی؟ کیا وہ اسکا ملازم تھا یا اسکا پرسنل اسسٹنٹ؟
” تم سے جتنا کہا جاتا ہے اتنا ہی کیا کرو۔”اسنے اپنی شہادت کی انگلی اٹھا کر تنبیہ کرنے والے انداز میں کہا ۔
افہام نے تلخی سے اپنا سر جھٹکا۔آبش اسے تیز نگاہوں سے گھورتی اپنی باریک ہیل کے بل پلٹی اور اسکا پیر مڑ گیا ۔اونچی ہیل کی وجہ سے وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی۔پیچھے کی جانب گرتے ہوئے اسنے افہام کا بازو سہارے کی غرض سے تھامنا چاہا مگر وہ بے حد اطمینان اور سکون سے پیچھے ہٹا۔نتیجتاً وہ اگلے لمحے کوہنیوں کے بل پتھریلی روش پر گر پڑی تھی ۔
“میں تمہاری مدد کروں؟” لبوں کو دبائے اپنی مسکراہٹ روکے اب وہ اسکی جانب اپنا ہاتھ بڑھائے پوچھ رہا تھا ۔
آبش نے خاموشی سے اسکا ہاتھ پکڑا اور افہام نے اسے اٹھنے میں مدد دی تھی ۔
“افہام حیدر! میں تمہیں دیکھ لونگی۔” اپنی کہنیاں سہلاتے اسنے تندی سے کہا۔
“وہ تو تم مجھے کئی سالوں سے دیکھ رہی ہو آبی۔۔” وہ کہتے کہتے رکا۔”سوری آبش کریم!”
وہ جھلاتی کچھ کہے بغیر اندر چلی گئی تھی اور وہ وہیں کار سے ٹیک لگائے کھڑا رہا۔
اس اونچے محل کے کس فرد سے اسے سب سے زیادہ نفرت تھی یہ اندازہ لگانا اسکے لئے بھی مشکل تھا۔ہاں ایک زمانے میں اسکی آبش سے دوستی تھی وہ بھی تب جب ان دونوں میں سے کوئی شعور کی عمر کو نہیں پہنچا تھا۔بس اسی لئے اس مغرور لڑکی سے بات کرتے ہوئے اسکے لہجے میں نرمی آ جاتی تھی ورنہ حقیقتاً اسے اس سے نا کوئی ہمدردی تھی اور نا ہی کوئی وابستگی ۔اِس خوبصورت محل میں رہنے والے لوگ کتنے بدصورت تھے اس بات کی حقیقت کو وہ اچھی طرح واقف تھا۔پچھلے اٹھارہ سالوں سے وہ ان لوگوں کے ساتھ رہ رہا تھا ۔انکے رویے کی ساری سچائیوں سے واقف اور انکی زیادتیوں کا شکار بھی تھا۔انکی وجہ سے اپنی زندگی کے اٹھائیس سال گزر جانے کے بعد بھی اسکی معاشرے میں نہ کوئی پہچان تھی اور نہ ہی کوئی مقام ۔وہ لوگ یہی چاہتے تھے کہ وہ ساری عمر اسی طرح گزار دے۔اسکا اپنا کوئی وجود نہ ہو۔ایک بے نام و نشان زندگی ۔۔۔کسی پیراسائٹ کی طرح اپنی بقا کے لئے صرف انکا محتاج رہے۔اسنے اپنی تکان زدہ آنکھیں اٹھا کر یزدانی مینشن کی عالیشان عمارت کو دیکھا۔اس عمارت کی کتنی اینٹ کسی کا حق چھین کر بنائی گئیں تھیں یہ صرف وہی جان سکتا تھا ۔اسے اپنی ساری چیزیں واپس چاہیے تھیں چاہے چھین کر، چاہے دھوکہ دے کر ۔اپنا حق واپس لینے کا راستہ کوئی بھی ہوتا اسے فرق نہ پڑتا۔اسے بس صحیح وقت کا انتظار تھا۔
گہری سانس لے کر وہ اندر کی طرف بڑھ گیا ۔رات کافی بھیگ چکی تھی ۔اسے بھوک بھی لگی تھی ۔اور وہ جانتا تھا کہ اس پہر اسے کھانا دینے کے لئے کوئی نہیں جگا ہوگا۔کسی کو اس بات سے فرق نہیں پڑیگا اگر وہ بھوکا ہی سو جائے ۔کچن میں آ کر اسنے اپنے لئے دو بریڈ ٹوسٹ کئے اور اسے لے کر اپنے کمرے میں چلا آیا تھا ۔
– – – – – – – – – –