وہ اٹھا اور مرہا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا
خلاف توقع آج کمرے کا دروازہ کلا ہوا تھا زین کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ در آئی
وہ بنا آواز کے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا کمرے کے اندر داخل ہوا۔۔
کمرہ تاریک تھا ۔۔ وہ سو رہی تھی زیں اس کی خاموشی کو پہچانتا تھا
وہ مرہا کے قریب ہوا تو وہ سو رہی تھی ۔۔۔
جب کوئی آپ کی محبت سے واقف نہیں ہوتا تو وہ ایسے ہی بے فکری سے سوتا ہے زین نے دل میں سوچا
سوتے ہوے وہ بہت ہی معصوم لگ رہی تھی
زین ہلکا سا جھکا اور لیہاف اٹھا کر مرہا پر اوڑھ دیا وہ ہلکا سا کسمسائی! !
میرے لیے اتنا ہی کافی ہے مرہا۔۔۔ کے تم میرے پاس ہو ۔۔۔۔ہاں میرے ساتھ رہنا تمہاری مجبوری ہے، لیکن میں تمہیں خود سے الگ بھی نہیں کر سکتا مجھے معاف کار دینا !!
“”وہ میرا ہو کے بھی محروم رہا مجھ سے””
“‘کیا کوئ میری طرح جیت کے ہارا ہوگا “”
ایک بار پھر سے میں تمہارا گناہگار ہونے جا رہ ہوں زین نے گہری سانس لی اور باہر کی جانب بڑھا
تبھی کسی نے اسکی کلائی کو پکڑا زین کےبڑھتے قدم رک گئے ۔۔۔۔
وہ مرہا تھی اور وہ جاگ رہی تھی زین نے گہرا سانس لیا
مرہا نے سائیڈ لمپ آں کیا کمرے میں مدھم روشنی سے اندھیرا جھٹ گیا
یوں چوروں کی طرح کسی کے کمرے میں آکر ۔۔۔چوروں کی ہی دبے پاؤں واپس چلے جانا تو چوروں کا کام ہے !!
گنہگار تو اپنی غلطی اپنے گناہ پر نادم ہوتے ہیں معافی مانگتے ہیں یوں نظریںن نہیں چراتے
مرہا کے لہجے میں دارد تھا ایک کرب تھا جسے زین با خوبی محسوس کر سکتا تھا
وہ دھیرے سے اسکی جانب مڑا
گردن پر انگلیوں کے نشان اب مٹ چکے تھے
تم ٹھیک ہو __؟؟
زین کے لہجے میں فکر تھی
مرہا نے کرب سے آنکھیں بند کیں ۔۔۔
میرے ٹھیک ہونے سے آپ کو کیا فرق پڑیگا ؟؟
اس نے کاٹ دار لہجے میں مگر دبی آواز میں کہا
فرق پڑتا ہے مجھے
۔۔بس سمجھنے والے نہیں سمجھتے
زین نے مرہا کی طرف دیکھنے سے گریز کیا
یہی تو بات ہے کے آپ کسی کو کچھ سمجھانا ضروری نہیں سمجھتے ۔۔۔
آپ نہیں جانتے کے کسی کی چپ کتنی تکلیف دیتی ہے لیکن آپ کو تو فرق نہیں پڑتا نہ ؟؟؟
مرہا کی۔ آنکھوں میں نمی تیرنے لگی
زین نے گہرا سانس لیا اور مرہا کو کندھوں سے تھام لیا
کیا تم مجھے یہ اجازت دیتی ہو ؟؟؟۔۔۔
کے میں کچھ کہوں زین نے نرمی سے کہتے ہوے مرہا کو بیڈ پر بٹھایا
امرہا نے رخ موڑ لیا
وہ خود کارپٹ بچھے فرش پر بیٹھ گیا
کیسا شخص تھا وہ جو اپنی محبت کے برابر بھی بنا اجازت نہیں بیٹھا تھا
کیا ضروری ہے؟؟ کے اگر ہم زبان سے کچھ نہ کہیں تو اگلا ہماری خاموشی کو بھی سمجھ نہ سکے ۔۔۔
ضروری نہیں کے ہر بات زبان سے سمجہائی جاۓ خاموشی کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے بس ہر کوئی نہیں سمجھ پاتا زین نے بے بسی سے کہا
آپ نے ایسا کیوں کیا زین ؟؟؟ مرہا نے شکوے بھرے لہجے میں کہا
ان دونو کے بیچ آج بے تکلفی سی بے تکلفی تھی
کیا؟ ؟ زین نے اجنبھے سے پوچھا
آپ نے مجھسے نکاح کیوں کیا ؟؟ جب کے آپ نے نہیں یسرا نے مجھے کڈنیپ کیا تھا مرہا نے اس بار نظریں اٹھا کر زین کی طرف دیکھا
اپ یہ مجبوری کا رشتہ کیوں نبھا رھے ہیں زین ؟؟ کیوں خود کو اور مجھے ایسے بندھن میں باندھ کر رکھا ھے جس میں درد کے علاوہ کچھ نہیں ہے نہ آپ درد سے رہا ہیں نہ میں ۔۔۔۔
زین نے سرد آہ بھری !!
پتا چل گیا تمہیں ؟؟؟
جی ہاں کیوں نہیں چلنا چاہیے تھا ؟؟؟
زین اٹھ کھڑا ہوا وہ بھی اٹھ گئی
میں آپ سے سچ سننہ چاہتی ہوں زین
آپ یہ رشتہ کیوں نبھارھے ہیں ؟؟
زین دروازے کی جانب بڑھ گیا پھر چوکھٹ پر رکا اور مرہا کی طرف مڑا
ضروری نہیں کے ہر بات کو واضح کیا جاۓ
کیا تمہیں میری آنکھوں میں نظر نہیں آتا کے میں یہ رشتہ کیوں نبھا رہا ہوں ۔۔۔کیا تمہیں میری آنکھوں میں محبت نظر نہیں آتی۔۔۔
کہ کر وہ باہر نکال گیا
اور وہ وہی کھڑی رہی ساکت حیران پریشان
محبت!!! مرہا خاموش ہو گئی
سرد سرد موسم میں
زرد زرد ہونٹوں پر
چپ کا جو پہرا ہے کوئی تو زخم گہرا ہے !
صبح کی سفیدی ابھی تک نہیں پھیلی تھی مرہا نماز پڑھ کر کمرے میں چکر کاٹ رہی تھی ذہن ہنوز رات والی باتوں میں الجھا تھا اس کا سر درد کرنے لگا تھا تھک ہار کر وہ بیڈ پر لیٹ گئی اور آنکھیں موند لیں
وہ ناشتے پر نہیں گئی تھی اپنے کمرے میں ہی اسنے ملازمہ سے کہ کر کھانا منگوا لیا تھا جانتی تھی زین ناشتے کی ٹیبل پر موجود ہوگا فلحال وہ اس کے سامنے نہیں جانا چاہتی تھی
ناشتے سے فارغ ہو کر وہ فریش ہوئی اور مہروں رنگ کا سوٹ زیب تن کرلیا جس پر سنہیرے موتیوں اور دھاگوں کا کم ہوا وا تھا
اس نے اوپر سے ہی نیچے سے زین کو آفس جاتے ہوے دیکھ لیا ۔ ۔۔مرہا نے سکھ کا سانس لیا پتا نہیں وہ کیوں اس سے کتراتی تھی
اسلام و علیکم انٹی مرہا نے سامنے صوفے پر بیٹھی حمنہ بیگم کو سلام کیا
وعلیکم السلام !! بیٹا خوش رہو ۔۔آج تم ناشتے پر نیچے نہیں آئ ؟؟
خیریت ؟؟؟
حمنہ بیگم نے مسکرا کر پوچھا
جی۔ وہ بس سر درد ہو رہا تھا نہ اس لیے مرہا نے سادگی سے بتایا
اچھا بیٹا ایک بات کرنی تھی تم سے۔۔۔
حمنہ بیگم مرہا کی طرف دیکھ کر کہنے لگی
جی کہیں انٹی!!
مرہا دھیان سے سننے لگی
اصل میں آج زین کے تایا ابا اور انکی فیملی آ رہی ھے آسٹریلیا سے وہ لوگ ولیمے پر بھی نہیں آ سکے تھے اس لیے آج آ رھے ہیں ۔۔۔
تو میں بیٹا کہ رہی تھی کے ۔۔۔حمنہ بیگم رکی پھر گویا ہوئیں
کے جب تک وہ لوگ جہاں پر سٹے کریں تب تک تم اپنا سامان زین کے روم میں شفٹ کر لو کچھ دں کے لیے تم دونو کو ایک روم میں رہنا ہوگا
حمنہ بیگم نے گویا مرہا کے سر پر بم پھوڑا
مرہا نے یکدم حمنہ بیگم کی طرف دیکھا
جی ؟؟
لیکن میں کیسے؟؟؟
آ پ تو سب جانتی ہیں مرہا کو پریشانی نے آن گھیرا بھلا جس کے۔ سامنے جانے سے ہی وہ کتراٹی پھرتی تھی اس کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے وہ کیسے رہے گی ؟؟؟
بیٹا سمجھنے کی کوشش کرو میں جانتی ہوں تم اگری نہیں ہو لیکن کچھ ہی دنوں ۔ کی بات ھے نہ آپ وہاں پر ایڈجسٹ کار لو جب تک وہ لوگ چلے نہیں جاتے حمنہ بیگم کے لہجے میں منت تھی !!!
مرہا نے بےبسی سے حمنہ کی طرف دیکھا
جواب میں حمنہ بیگم نے آنکھیں بند کر کے کھولیں
وہ اٹھ کر اپنے روم میں چلی گئی
ملازمہ اس کا سامان اٹھا کر زین کے روم میں سیٹ کر رہی تھی اور وہ بس یہ سب دیکھ رہی تھی وہ کچھ نہیں کہ سکتی تھی ایک بار پھر مجبوری در آئ تھی ان دونو کے بیچ ۔۔۔
دو پھر تک اسکا سارا سامان زین کے روم۔ میں شفٹ کر دیا گیا تھا لیکن وہ ابھی تک اپنے روم میں ہی تھی
یا خدا میں کیسے اس کے ساتھ رہونگی؟؟
کیسے ہر وقت اس کا سامنا کرونگی؟؟؟ اب یہ کیا نیا شو شا ہے تایا کو بھی ابھی آنا تھا کیا تھا اگر ولیمے پر آ کر چلے جاتے ۔۔پر نہیں جہاں پر ولیمے کے چاول جو ان پر ادھار رہتے ہیں اب وہ ادھار والے چاول تو وصول کرینگے ہی نہ؟؟ بوکھے لوگ ہونہ ۔۔۔۔۔
مرہا کے منہ میں جو آیا وہ کہے جا یہی تھی اسے خود بھی پتا نہیں تھا کے کیا اول فول کہے جا رہی ہوں میں مرہا نے سر پر ہاتھ مارا
بی بی جی بڑی مالکں بلا رہی ہیں آپ کو۔ زین بابا کے کمرے میں ملازمہ نے آکر اطلاح دی
مرہا جے منہ بنایا زین بابا ہونہ۔ ۔۔۔
آ رہی ہوں وہ اٹھ کر حمنہ بیگم کی طرف چلی گئیں
آؤ بیٹا وہاں کیوں کھڑی ہو اب یہ تمہارا بھی کمرہ ہے
وہ جو دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی تھی حمنہ بیگم کی بات پر ٹھٹھک کر ان کی طرف دیکھنے لگی
پھر بنا کچھ کہے کمرے میں داخل ہوئی
تم اب سے یہیں رہو ٹھیک۔۔ کسی بات کی فکر مت کرو اور اگر کچھ چاہیے تو ملاذمہ سے کہ دینا ٹھیک وہ رسمی سا کہ کر باہر چلی گئیں
ہونہ فکر نہ کروں سامنےایسے کیسے فکر نہ کروں بولو بھلا سب اپنے روم میں آرام سے رہ رھے ہیں یہاں پر مجھے ہی اس جن کے سامنے لا کر رکھ دیا تایا جی آمد نے اب انکو کیا پتا سامنے اگر اتنا بڑا جن ہو تو بندا تو بنا افکر کے ہی مر جاۓ اویں فکر نہ کروںہونہ ۔۔۔مرہا نے منہ کے زوایے بگاڑ کر کہا
شام ڈھل نے کو تھی تو مرہا کو یاد آیا کے مہمان آنے والے ہیں
وہ اٹھی اور وارڈروب کھولا جہاں سے مردانہ پیرفوم کی خوشبو آ رہی تھی
ہینگرس میں زین کی شرٹس ٹنگی ہوئیں تھیں مرہا نے ستائش سے اس کی وارڈروب کو دیکھا پھر اس کی نظر کنگن پر پڑی تو وہ ٹھٹک کر رکی ہاتھ بڑھا کر کنگن اٹھایا
یہ ۔۔۔؟؟ یہ تو میرا کنگن ہے لیکن یہ زین کے پاس مرہا نے اجنبہے سے کنگن کو دیکھا
یہ زین نے کیوں سمبھال کر رکھا ہے مرہا نے دل میں سوچا پر سر جھٹک لیا اسے تیار بھی ہونا تھا
اس جے بے دلی سے پرپل سوٹ نکالا اور چینج کرنے واشروم میں چلی گئی
وہ چینج کر کے آئ پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو کر بال بنانے لگی
بالوں کو ہاف کیچر میں مقید کیا پھر کاجل لگا کر لیپسٹک اٹھائی
اب کیا وہ آسٹریلیا سے آکر مجھسے یہ پوچھیں گے کے تم نے لپسٹک کیوں نہیں لگی ؟؟؟
انہوں بھلے آسٹریلیا میں رہتے ہوں ہیں تو گھر کے بڑے ایسے منہ کے ساتھ جاؤنگی تو کیا کہیںگے کے ہائے کیسی بہو ہے جس کو تیار تک ہونا نہیں آتا ؟؟
انہوں مرہا نے سر جھٹکا اور نیچرل شیڈ کی لپسٹک اٹھائی اور لگانے لگی
وہ اٹھنے لگی جب دروازے پر چاپ ہوئی وہ اس آواز کو پہچانٹی تھی
یا اللہ اب میں کیا کروں ؟؟ باہر کیسے جاؤں مرہا کا سانس اٹکنے لگا
اس نے گہری سانس اندر کو کھینچی اور اٹھ کھڑی ہوئی اس کا رخ دوسری طرف تھا
آہم آہم !!! آج سورج کہاں سے نکلا ہے جو موحترما میرے کمرے میں جلوہ پذیر ہوئی ہیں زین نے بریف کیس صوفے پر رکھتے ہوے پوچھا
مرہا نے کوئی جواب نہیں دیا !!!
کیا میری یاد میں رات کو۔ نیند نہیں آئی تھی جو بے چین ہو کر آ گئیں۔
چلو ٹھیک ہے دیر اے درست اے
وہ آپ کے تایا ابو والے آ رھے ہیں انٹی نے کہا کے جب تک وہ لوگ چلے نہیں جاتے تب تک مجھے یہی رہنا ہوگا مرہا نے انگلیان مروڑتے ہوے بتایا
شکر ہے تایا ابو کی ہی وجہہ سے تمہیں یاد تو آیا کے تمہارا ایک عدد شوہر بھی زین نے مرہا کو شرمندہ کرنا چاہا
مرہا نے کھا جانے والی نظروں سے زین کو گھورا
زین نے بدلے میں ہونٹ گول کرکے فلائنگ کس پاس کی
مرہا کا منہ حیرت سے کھل گیا
بدتمیز تو آپ اول درجے کے ہیں
زین کا قهقا بلند ہوا !!!
وہ چھوٹے چھوٹے قدم چلتا مرہا کے قریب آیا مرہا قدم قدم پیچھے ہوتی دیوار سے جا لگی
زیں نے بازو دیوار پر رکھے
مرہا کا سانس اٹکنے لگا
تو تم شریف بنا دو نہ آخر کو شوہر ہوں میں تمہارا زیں نے جھک کر دھیرے سے کھا
ہٹیں !! مجھے باہر جانا ہے مرہا نے حواسوں پر قابو پاتے ہوے بہ مشکل کہا
وہ شرافت سے پیچھے ہٹ گیا
مرہا سائیڈ سے نکالنے لگی جب زین نے اسکی کلائی تھام لی
ایک منٹ چلی جانا
وہ سائیڈ ٹیبل کی طرف بڑھا اور کاجل کی ڈبی اٹھائی پھر انگلی سے تھوڑا سا کاجل اٹھایا اور مرہا کے کان کے پیچھے لگا دیا
اچھی لگتی ہو تیار ہوکر زین نے کہ کر مرہا کی کلائی چھوڑ دی
مرہا نے حیرت سے زین کو دیکھا
کیا ؟؟ زین نے ابرو اٹھا کر پوچھا
اوہ اچھا زین نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا
پھر اس نے مرہا کی طرف فلائنگ کس پاس کی مرہا کا سکتا ٹوٹا
بدتمیز !!! کہ کر وہ کمرے سے باہر نکال گئی
ایک گھنٹے بعد مہمان آ چکے تھے سبہی لوگ بہت ہی بولڈ تھے شاید باہر کی ہوا کا اثر تھا مرہا سب سے خوش اخلاقی سے ملی وہ خاصی نروس ہو رہی تھی ۔۔۔
زین اپنوں کے ساتھ کافی بے تکلف تھا ۔۔۔
رات کا کھانا سب نے ساتھ کھایا
کھانے کے بعد چائے کا دور چلا تو مرہا کچن میں چائے بنانے چلی آئ
وہ اپنے کام میں مصروف تھی جب لاریب اس کے پاس آئ
کیا کر رہی ہیں بھابی آپ ؟؟؟
چائے بنا رہی ہوں مرہا نے مسکرا کر جواب دیا
بھابی ثمن کتنی پیاری ہے نہ؟؟ لاریب نے خوش دلی سے مرہا کی طرف دیکھتے ہوے پوچھا
ہاں۔۔۔
مرہا نے مختصر سا کہا
آپ کو پتا ہے بھابی ثمن نہ بھائی سے انگیجڈ تھی لاریب نے ہنسی دباتے ہوے کہا
کام کرتی مرہا کے ہاتھ ساکت رہ گئے اس نے خالی نظروں سے لاریب کو دیکھا جو کچن سلیب سے لگی مزے سے بتا رہی ہو
تمہارے بھائی کے ساتھ ؟؟؟ کب سے مرہا نے پھر سے کام میں مصروف ہوتے ہوے سرسری سا پوچھا البتہ اسے اچھا نہیں لگا تھا
دو سال سے بھابی آپ کو پتا ہےدونو میں بہت انڈرستنڈگ تھی بھائی تو وہیں رہتے اور آپ کو پتا ہے وہ دونو تو شادی بھی کرنے والے تھے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔۔
مرہا نے یک دم لاریب کی طرف دیکھا گویا کوئی گہرا صدمہ ملا ہو اسے
تمہارا بھائی پسند کرتا تھا اسے۔۔؟؟
اسنے ساری باتوں کو نظر انداز کرتے ہوے پوچھا
پسند ؟؟
بھابی بھائی تو مجنو بنا پھرتا تھا ثمن کے پیچھے ابھی بھی آپ نے دیکھا ثمن کتنی فرنک ہے بھائی کے ساتھ لاریب نے معصومیت کے ریکارڈ توڑتے ہوے مرہا کے اوپر بم پھوڑا
اور زین کے فرشتوں کو بھی پتا نہیں تھا کے وہ کب ثمن کا مجنو بنا ؟؟
مجنو ؟؟مرہا نے زیر لب دوہرایا پھر کپوں میں چائے انڈیل نے لگی لاریب جا چکی تھی اپنا کام کر کے
وہ چائے کی ٹرالی باہر لائی تو سب ہنوز خوش گپیوں میں مصروف تھے
زین ثمن کے ساتھ بیٹھا کسی بات پر ہنس رہا تھا بار بار ثمن زین کے شانے پر بےتکلفی سے ہاتھ رکھ رہی تھی مرہا کو ذرا اچھا نہیں لگا اس کا زین سے یون فری ہونا
اس نے سب کو چائے سرو کی دھیان ہنوز زین اور ثمن کی طرف تھا
چائے !!! مرہا نے کپ زین کی طرف بڑھایا جو ثمن کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف تھا
زین نے مسکرا کر کپ تھام لیا
کمال تو تب ہوا جب مرہا بھی جواب نے مسکرائی
زین کو مانو چار سو چالیس والٹ کا جھٹکا لگا ہو
خوش گوار ماحول میں چائے پی گئی چائے پی کر سب ہی اپنے کمرے میں چلے گئے بس زین ثمن ہی باتوں میں مصروف تھے مرہا کچن میں تھی جبھی لاریب اسکو دیکھ کر ٹھٹکی
بھابی آپ گئیں نہیں اب تک ؟؟؟
اہاں بس جا رہی تھی اس کا دھیان ان دونو کی طرف تھا
لاریب کو اپنا پلان کامیاب ہوتا دکھائی دیا
ارے بھابی آپ جا کر سو جایں یہ ایسے ہی ساری رات باتیں کرتے رہینگے یو نو دل کا بوجھ اور درد جدائی شیئر کرنے کے لیے دونو کو کچھ وقت اور سپیس تو چاہیے نہ ؟؟ لاریب نے جھک کر راز دانی سے کہا
مرہا نے چوںک کر لاریب کی طرف دیکھا لاریب نے بدلے میں آنکھیں ڈبٹین !!!
اوہ میں پانی لینے آئ تھی کہ کر وہ پانی لینے چلی گئی
تبھی مرہا کچھ سوچ کر ان دونو کی طرف بڑھی
آپ کو کل آفس جانا ہے نہ؟؟؟
تو ابھی چلیں نہ روم میں
آپ کو پتا ہے نا ؟؟ مجھے آپ کے بنا نیند نہیں آتی پلیز چلیں نہ !!!!!
اور زین کو مانو سانپ سونگھ گیا ہو اسے مرہا کی حالت پر شعبہ ہو رہا تھا اجنبھے سے وہ اٹھا
مرہا ۔۔۔تم !!!
تبھی مرہا نے اس کا بازو پکڑلیا مجھے بہت نیند آ رہی ہے مرہا نے قدر محبت سے چھور لہجے میں کہا
اور وہ حیرت کا مجسما بنا منہ کھولے ہوںکون کی طرح مرہا کو دیکھنے لگا
چلیں مرہا نے زین کے بازو پر دباؤ ڈالتے ہوے کہا
جیسے ہی وہ کمرے کے قریب پوھنچی جلدی سے اپنا ہاتھ زین کے بازو سے ہٹا دیا اور اپنی پرانی جو میں آ گئی
پل میں تولا پل میں ماشا بڑی بات ہے زین نے افسوس سے کہ کر سر جھٹکا
مرہا نے سنی ان سنی کر دی
زین نے دروازہ بند کیا تو مرہا کو دیکھ کر ٹھٹکا
یہ کیا کار رہی ہو ؟؟
زین نے کمر پر ہاتھ باندھ کر پوچھا
کیا رات کو آپ کی نظر چلی جاتی ہے گھاس چرنے ؟؟؟
مرہا نے جل کر کہا تھوڑی دیر والا پیار بھرا لہجہ نہ جانے کہاں گیا
تم بیڈ پر بھی تو سو سکتی ہو نہ ؟؟؟
مرہا خاموشی سے اپنا بستر نیچے فرش پر سیٹ کرنے لگی
زین کچھ دیر خاموشی سے مرہا کو بستر سیٹ lrte دیکھتا رہا پھر ہنسی دباٹی ہوے گویا ہوا
تمہیں پتا ہے یہاں پر رات کو روز دو چوہے آتے ہیں جو نیچے سونے والے کے اوپر چڑھ جاتے ہیں اور وہ دونو چوہے آپس میں بہت پیار کرتے ہیں اگر کوئی نیچے سو جاۓ نا تو انکو ذرا اچھا نہیں لگتا دشمن بن جاتے ہیں وہ نیچے سونے والے کے زین نے سینے پر بازو لپیٹتے ہوے کہا
مرہا نے ہاتھ روک کر اس کی طرف دیکھا ڈر اسکی آنکھوں میں صف دکھائی دے رہا تھا
میں تو اس لیے کہ رہا تھا کے تمہارے اوپر اگر چوہے چڑھ گئے تو تمہارا کیا حال ہوگا چہ چہ چہ اگر کوئی چوہا کاٹ واٹ لے تو بہی مجھے نہ کہنا میں تو سو رہا ہوں مزے سے زین سکوں سے کہتا بیڈ پر لیٹنے لگا
اور مرہا کی مانو کسی نے جان مٹھی میں لے لی ہو
چ چوہے امی مرہا کو خوف ہونے لگا اسنے آس پاس نظر ڈورا کر دیکھا تبھی زین نے ذرا سا کھٹکا کیا
مرہا نے چیخ ماری
امی !!!
امی نہیں یار چوہے کہ کر زین نے سادگی سے شانے اچکائے! !
مرہا نے جلدی سے جیسے تیسے بستر سمیٹا !!
اور بلنکٹ اٹھا کر زین کی دوسری سائیڈ پر سر تک بلنکٹ اوڑھ کر لیٹ گئی
زین نے بے اختیار اپنا قهقا روکا
چلو کیسے بھی آج وہ اس کے ساتھ تو تھی مجبوری میں ہی سہی وہ اس کے پاس تو تھی زین مسکرا دیا
سبھا وہ اٹھی تو زین کمرے میں نہیں تھا مرہا کے بال سمیٹے اور نماز کے لیے وضو کرنے چلی گئی
فارغ ہو کر وہ نیچے کچن میں چلی آئ
وہاں اور جو اسنے دیکھا اس کے تو مانو تن بدن میں آگ لگ گئی
زین ثمن کے لیے کافی بنا رہا تھا
غصے سے مرہا کا برا حال ہورہا تھا وہ تل ملا کر رہ گئی
ارے مرہا تم ؟؟ آؤ نہ دیکھو زین میرے لیے کافی بنا رہا ہے ایک کپ تمہارے لیے بھی بنا دے گا ثمن نے خوش دلی سے کہا جو ٹائوزر اور ٹی شرٹ میں مبلوس تھی بال لیئرز میں کٹے تھے جو کندھوں پر پھیلے تھے آسٹریلیا کا رنگ اس پر نظر آ رہا تھا
نہیں میں اور زین ایک کپ میں سے پی لینگے یو نو شیئرنگ اینڈ کیئرنگ مرہا نے غصہ ضبط کرتے ہوے مسکراہٹ سجا کر کہا
ام ۔۔ کچھ جل رہا ہے زین کے دلچسپی سے دونو کو دیکھتے ہوے کہا
اوہ یہ کافی میکر میں سے سمیل آ رہی ہے کہ کر زین نے کافی میکر سے کافی نکال کار مگ میں ڈالی
تو بالا خیر مرہا کو فرق پڑنے لگا تھا زین نے مسکرا کر کافی کا سپ لیا
بھائی !!! آج ہمیں کہیں بھر لے چلیں نہ لاریب نے زین کے شانے سے لگتے ہوے کہا جو لیپ ٹاپ پر مسلسل انگلیان چلا رہا تھا
اچھا ایک شرت پر !!!
زین نے لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھا اور لاریب کی طرف دیکھا
اگر تمہاری بھابھی چلےگی تو ۔۔۔
لاریب نے منہ بنایا
اوکے میں لےکر چلتی ہوں بھابھی کو بھی لاریب کہ کر اٹھ کر باہر چلی گئی زین مسکرا کر رہ گیا
بھابی آپ کچن میں کیا لگی ہیں چلیں جلدی سے تیار ہو جائیں لاریب نے کچن میں کام کرتی مرہا کو شانو سے تھامتی ہوے کہا
ارے بہی کیا ہوا مجھے کیوں تیار ہوں میں؟ ؟؟
وہ اس لیے بھابی کیوں کے ہم کہیں پر جا رھے ہیں
ہم کون۔ ۔۔مرہا نے نہ سمجھی سے پوچھا ؟؟؟
ہم لاریب نے سوچتے ہوے کہا ۔۔۔ہم مطلب میں بھائی اور۔ ثمن آپ بھی چلیں نہ
ثمن۔۔۔ مرہا کی سوئی ثمن پر اٹک گئی جب کے ثمن تو کب سے باہر گئی ہوئی تھی
ہاں اور نہیں تو کیا اب جلدی سے جاکر تیار ہوجاۓ بھابھی لاریب نے مرہا کو زبردستی باہر بھیجا
ویسے تو اس جن کے ساتھ میری جوتی بھی باہر نہ جاۓ لیکن ایسے میں اس چڑیل کے ساتھ نہیں جانے دونگی اسے مرہا نے منہ ہی منہ میں بڑبڑایہ
رائل بلیو کا گھٹنو تک آتا فراک اس کے زیب تن کیا جس میں اسکی دودھیہ رنگت اور بھی نکھر رہی تھی بالوں کو جوڑے مین باندھا ایک ہلکی سی پنک لپسٹک لگائی اور کلچ اٹھا کر باہر آ گئی
ارے واہ ماشاءالله تم دونو نے ایک جیسا ڈریس پہنا ہے زین کی تائ زھرا نے بلاعین لیتے ہوے دونو کی تعریف کی
مرہا نے نظر اٹھا کر پہلو میں کھڑے زین کو دیکھ جو بلیو جینس پر رائل بلیو شرٹ پہنے ہوے تھا
چلیں زین نے کار کی چابی سمبھالتے ہوے پوچھا
لاریب اور مرہا اس کے ہم راہ ہو لیں
بھابھی آپ بھائی کے ساتھ آگے بیٹھ جائیں لاریب کہ کر پیچھے بیٹھ گئی زین کا دل باغ باغ ہو گیا !!!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...