سیڑھیاں اترتا وہ منہ میں کچھ بڑبڑاتا، گھڑی کلائی پر باندھے بیرونی دروازے کی جانب بڑھا تھا جب آواز پر پیر رکے۔
’’ناشہ کرکے جاؤ معتسیم!‘‘ ایک سخت مگر احساس سے بھری آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی تھی۔
مسکراتا وہ آواز کی جانب مڑا جہاں اس کی جنت، اس کی ماں عظمیٰ بیگم ٹرے ہاتھ میں لیے کھڑی تھی اور غصے سے اسے گھور رہی تھی۔
ان کی گھوری پر اس نے کان کھجایا تھا۔۔۔۔ وہ ایسا ہی کرتا تھا جتنا وہ اپنے بیٹے کو ناشتے کی تاکید کرتی اتنا ہی وہ ناشتہ کرنے میں لاپرواہ ثابت ہوا تھا۔
’’ماما لیٹ ہورہا ہوں پیپر کے لیے۔‘‘ اس نے جواب دیا
اس کا جواب سن انہوں نے ایک نظر وال کلاک کو دیکھا اور پھر اسے جو نظریں جھکا گیا تھا۔
’’پیپر شروع ہونے میں ایک گھنٹا ہے اور تم پندرہ منٹ میں بائیک پر پہنچ جاتے ہو۔۔۔۔۔۔۔ ناشتہ کرو اور جہاں تک بات رہی حسان کی تو اس کا پیپر تمہاری ذمہ داری نہیں۔۔۔۔۔ وہ خود پڑھ کر کر سکتا ہے۔‘‘ ناشتہ ٹیبل پر سیٹ کرتی وہ سادہ لہجے میں بولی تھی۔
’’ماما اسے سمجھ نہیں آتی ٹیچرز کی۔‘‘ اس نے بہانہ گڑھا جس پر ایک زبردست گھوری ملی تھی اسے۔
’’مجھے تمہارا وہ دوست بالکل پسند نہیں معتسیم۔۔۔۔۔ وہ ایک اچھا لڑکا نہیں ہے میری جان۔۔۔۔۔ اس سے بچو!‘‘ چائے کا کپ تھامے اس کے سامنے کرسی پر بیٹھتی وہ اسے سممجھانے لگی۔
’’کم آن ماما آپ اس سے صرف ایک بار ملی ہے وہ بھی محض دس، پندرہ منٹ کے لیے۔۔۔۔۔ آپ کیسے کسی کو اتنی جلدی جج کرسکتی ہے؟ میں اسے پانچ سالوں سے جانتا ہوں!‘‘ اس نے جواب دیا تھا۔
’’اور مجھے محض ان دس پندرہ منٹوں میں سمجھ آگئی تھی کہ وہ کیسا لڑکا ہے۔۔۔۔۔۔ اسی لیے تو اسے گھر لانے سے منع کیا تمہیں۔۔۔۔۔۔ میری جان وہ اچھا نہیں ہے سجھو اسے!‘‘
’’امم!! پراٹھے بہت مزے کے بنے ہیں۔۔۔۔ لوو یو مام!‘‘ اس کی بات گھمانے پر وہ محض سر ہلا کر رہ گئی تھی۔
’’اچھا میں چلتا ہوں دیر ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔۔اللہ حافظ!!‘‘ ان کا گال چومتا وہ جلدی سے ہیلمٹ اٹھائے باہر کو بھاگا تھا۔
’’افف!! کب سمجھے گا یہ لڑکا!‘‘ افسوس سے سر نفی میں ہلائے انہوں نے چائے کا گھونٹ بھرا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اوئے معتسیم کدھر؟‘‘ پیپر ختم ہوتے ہی اسے پارکنگ ایریا کی جانب جاتے دیکھ حمزہ نے پکارا تھا۔
’’گھر۔‘‘ ایک لفظی جواب دیا گیا۔
’’ابے یار تھوڑی دیر تک چلے گے۔۔۔۔ بلکہ مجھے بھی چھوڑ دینا، بائیک خراب تھی بھائی نے ڈراپ کیا تھا آتے ہوئے، فلحال آجا فٹبال کھیلتے ہیں، عرصہ ہوا ہے!‘‘ حمزہ کی بات سنے کچھ پل کو سوچتے اس نے آخرکار سر اثبات میں ہلادیا تھا۔
’’چل ٹھیک ہے۔‘‘ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے وہ دونوں گراؤنڈ کی جانب چلے گئے تھے۔
’’تم تو گھر نہیں جارہے تھے؟‘‘ اسے گراؤنڈ میں آتے دیکھ حسان نے ماتھے پر بل سجائے سوال کیا، آنکھوں میں ناگواری واضع طور پر در آئی تھی۔
’’میں نے روکا ہے، تاکہ وہ بھی کھیل لے ہمارے ساتھ! کوئی مسئلہ؟‘‘ حمزہ نے بھی اسی کی طرح ماتھے پر بل سجائے سوال کیا تھا۔
’’ارے نہیں ایسی بات نہیں، مجھے تو بہت خوشی ہوئی ہے۔۔۔۔ آخر کو معتسیم میرا بیسٹ فرینڈ ہے۔۔۔۔ کیوں ہے نا معتسیم!‘‘ اچانک سے لبوں پر مسکراہٹ سجائے۔۔۔ اپنے تاثرات بدلتا وہ یکدم میٹھا ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ اس کے سوال پوچھنے پر معتسیم نے سر اثبات میں ہلایا جبکہ حمزہ نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا۔
’’ہم چینج کرکے آئے!‘‘ حسان سے بولتا وہ اسے لیے اپنے ساتھ چینجنگ روم کی جانب چلا گیا تھا۔
’’حسان سے دور رہو معتسیم وہ ایک اچھا انسان نہیں ہے۔‘‘ ٹی۔شرٹ چینج کرتے حمزہ بولا تھا
’’کم آن یار تم بھی نہیں۔‘‘ معتسیم جھنجھلایا
’’میں بھی نہیں سے کیا مراد؟ کیا کسی اور نے بھی؟‘‘ حمزہ نے چونک کر سوال کیا
’’جی ماما نے بھی۔۔۔۔ یار پتہ نہیں تم لوگوں کو حسان سے کیا مسئلہ ہے۔۔۔۔۔۔ اتنا اچھا تو ہے۔‘‘ وہاں موجود صوفہ پر بیٹھتا شیوز لیس باندھتے وہ چڑ کر بولا تھا۔
’’دیکھ معتسیم میں یا آنٹی دونوں میں سے کوئی بھی تیرا برا نہیں چاہتے اسی لیے سمجھا رہے ہیں!‘‘ حمزہ نے اسے کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
’’لیٹ ہورہے ہیں چلے؟‘‘ معتسیم بولتا وہاں سے نکل گیا تھا جبکہ حمزہ نے بھہ افسوس بھری نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’امم!! میں کھاؤں گی ایک پیزا شوارما۔۔۔۔۔۔‘‘
’’مجھے کوک کے ساتھ لیز کھانی ہے‘‘
’’میں تو رشئین سیلڈ کھاؤں گی‘‘
’’اور مجھے بریانی کھانی ہے!‘‘
وہ چاروں اسے اپنی اپنی فیوریٹ کھانے کی چیزیں بتارہیں تھی جو سر اثبات میں ہلائے جارہی تھی۔
’’اوکے میں لیکر آئی!‘‘ اپنی جگہ سے اٹھتی وہ بولی
’’ایک منٹ یار ماورا اکیلی کیسے لاؤں گی؟ ان تینوں میں سے ایک کو لے جاؤ!‘‘ سدرہ اسے روکتے بولی تھی۔
’’میں؟ میں تو نہیں جارہی اتنا رش ہوتا ہے۔۔۔۔۔ دم گھٹتا ہے میرا‘‘ دعا جھٹ سے بولی۔
’’میں نے تو اسائنمنٹ کمپلیٹ کرنی ہے۔‘‘ عائزہ نے فورا بہانہ گڑھا
’’سوری مگر میں نہیں جارہی۔‘‘ موبائل میں مصروف صوفیہ نے کندھے اچکائے۔
’’کوئی بات نہیں میں لے آؤں گی۔‘‘ نرم سی مسکراہٹ سے زرتاشہ کو دیکھتی وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
اس کے جاتے ہی ان تینوں نے سکون کی سانس خارج کی تھی۔
’’یہ کیا حرکت تھی وہ کیسے لائے گی یہ سب؟‘‘ زرتاشہ کی گھوری پر ان تینوں نے کندھے اچکائے تھے۔
’’اوہ پلیز زرتاشہ اتنی فکر تھی تو خود چلی جاتی۔‘‘ دعا ناک سکیڑے بولی
’’ہاں اگر پاؤں ٹھیک ہوتا تو ضرور۔۔۔۔۔۔ پلیز گائز وہ ہمارے لیے اتنا کچھ کرتی ہے۔۔۔۔ اسے ایک فرینڈ کی طرح ٹریٹ کرو۔۔۔۔۔۔ وہ دوست ہے نوکرانی نہیں!‘‘ زرتاشہ کے افسوس سے بولنے پر ان تینوں نے موبائلز اٹھا لیے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اوہ!!یار یہ کیا کیا؟‘‘ بال گراؤنڈ سے باہر اڑتی دیکھ حمزہ بولا تھا۔
’’میں لاتا ہوں!‘‘ معتسیم اڑتی بال کے پیچھے بھاگا تھا
’’آہ!!‘‘ نہایت مشکل سے تمام چیزوں کو گراؤنڈ کی جانب لیجاتی ماورا بال کے ٹکڑانے پر چیخی تھی۔
سارا کھانا زمین بوس ہوگیا تھا
’’آپ ٹھیک ہے مس؟‘‘ بال اٹھائے معتسیم فکرمندی سے اس کی جانب متوجہ ہوا تھا جو افسوس سے اپنے گرے ہوئے کھانے کو دیکھ رہی تھی۔
آنکھوں میں نمی لیے اس نے نظریں اٹھائے معتسیم کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔ اور اسی لمحے وہ لائف ٹائم گول کیے اس کے دل کو فتح کرگئی تھی۔
کالے بال، گندمی رنگ، متناسب سراپہ اور مناسب نین نقش۔۔۔۔۔۔۔ وہ زیادہ خوبصورت نہ تھی مگر آنکھوں میں ایک جادو سا تھا جو معتسیم آفندی پر چل چکا تھا۔
’’آپ نے میرا سارا کھانا گرا دیا!‘‘ اس نے شکوہ کیا
’’یہ سب آپ نے کھانا تھا؟‘‘ زمین پر بکھرے اتنے سارے کھانے کو دیکھ اس کی آنکھیں پھیلی تھی۔
’’نن۔۔۔۔۔نہیں وہ سب دوستوں کے لیے تھا!‘‘ وہ گھبرا کر بولی۔
’’ہمم!! اب بھرپائی تو کرنی پڑے گی!‘‘ کچھ سوچتے اس نے سر اثبات میں ہلایا
’’ایک منٹ یہی رہیے گا!‘‘ بال واپس گراؤنڈ کی جانب لیجاتا وہ اسے رکنے کا بول گیا تھا۔
بال واپس کرتا وہ بھاگتا ہوا اس کی جانب آیا تھا۔
’’چلیے!‘‘ وہ بولا
’’کک۔۔۔کہاں؟‘‘ ماورا بھوکلائی تھی
’’آپ کے نقصان کی بھرپائی کرنے۔‘‘ سادہ سی مسکراہٹ سے اسے نوازتا ساتھ لیے کینٹین کی جانب بڑھا تھا۔
’’تو آپ کیا کرتی ہے؟‘‘ تمام آرڈر دوبارہ دیتے اس نے ماورا کی جانب دیکھتے سوال کیا تھا۔
’’میں بی۔ایس فرسٹ سمسٹر کی سٹوڈنٹ ہوں۔۔۔۔۔!‘‘ ماورا نے کب کچلتے جواب دیا تھا۔
’’فیلڈ؟‘‘ بل پے کرتے اس نے دوسرا سوال کیا۔
’’سائیکولوجی!‘‘
’’رئیلی پھر تو آپ میری جونیئر ہوئی۔۔۔۔۔‘‘ اب وہ دونوں ساتھ ساتھ باتیں کرتے گراؤنڈ کی جانب بڑھے تھے۔
’’جب بھی کسی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے یاد کرلیجیے گا!! خادم خاضر رہے گا!‘‘ وہ ایک ادا سے بولا جس پر ماورا کھلکھلا دی تھی۔
ان چاروں نے چونک کر اسے اور پھر ساتھ کھڑے اس معتسیم کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔ معنی خیز سی نگاہوں کا تبادلہ کیے وہ اب ماورا کی کلاس لینے کا پلان بناچکی تھی۔
’’یہ مجھے دے دیجیے میں لیجاؤں گی اب!‘‘ اس نے سامان پکڑنا چاہا جب دعا اور عائزہ دونوں وہاں آئی تھیں۔
’’لائے ہمیں دے دے ہم پکڑ لے گے!۔۔۔۔۔۔ بائے دا وے یہ کون ہے ماورا؟‘‘عائزہ نے کندھے سے کندھا مارے سوال کیا تھا۔
’’ماورا؟‘‘ وہ دھیمی آواز میں اس کا نام لیتا مسکرایا تھا۔
’’وہ! یہ؟ یہ سینئیر ہے ہمارے!‘‘ وہ جواب دیتی نظیں جھکا گئی تھی۔
’’اوہو سینئیر کا نام بھی تو ہوگا۔۔۔۔۔ اور وہ بھی جب تک سینئیر اتنا ہینڈسم ہو!‘‘ دعا اسے دیکھتی بولی
چھ فٹ تک کو چھوتا قد، بھورے بال، بھوری ہی آنکھیں۔۔۔۔۔۔ رنگ تو اسکا بھی گندمی تھا مگر اس کے نین نقش اسے ہینڈسم بنادیتے تھے۔
’مجھے نہیں معلوم!‘‘ وہ شرمندہ سی نظریں جھکائے بولی۔
’’واٹ؟‘‘ عائزہ اور دعا نے آنکھیں بڑی کیے اسے گھورا جو لب چبارہی تھی
’’ہاہاہا۔۔۔۔۔۔لیڈیز ٹینشن مت لے۔۔۔۔۔۔۔ ہم ابھی ابھی ملے ہیں۔۔۔۔۔ اور ان کا نام تو مجھے بھی معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔ تو مس؟‘‘ وہ ماورا کی جانب متوجہ ہوا تھا جس کی نظریں جھکی ہوئی تھی۔
’’وہ تم سے پوچھ رہا ہے ماورا!‘‘ عائزہ نے اسے ہلایا۔
’’ہاں!! ۔۔۔۔۔۔۔ ماورا۔۔۔۔۔۔ ماورا عباسی۔۔۔۔‘‘ ایک نظر اس پر ڈالے وہ دوبارہ نظریں جھکا گئی تھی۔
’’مل کر خوشی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ویسے موصوف کو معتسیم آفندی کہتے ہیں!‘‘ ایک آخری مسکراتی نگاہ اس پر ڈالتا وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔
’’اففف!! سو ہاٹ۔۔۔۔۔مجھے زرا پکڑنا عائزہ!‘‘ دعا بیہوش ہونے کی اداکاری کرتی اس کی باہوں میں گری تھی۔۔۔۔۔ ماورا نے مسکراہٹ دبائے سر نفی میں ہلایا تھا۔
’’تم کچھ نہیں لائی کھانے کو؟‘‘ سب کو کھاتے دیکھ زرتاشہ نے اس سے سوال کیا تھا جس نے جھٹ سر نفی میں ہلایا
’’نہیں وہ دل نہیں تھا!‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا
اب کیا بتاتی کے لیے اپنے لیے خریدہ گیا برگر وہ بال شہید کرگئی تھی۔۔۔ دوسرا خریدنے کے پیسے نہ تھے اور نہ اس لڑکے نے لیکر دیا تھا۔
’’اوکے!‘‘ اپنے سیلڈ کی جانب متوجہ ہوتی اس نے کندھے اچکائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ میں برگر لیے وہ اس وقت فرسٹ سمسٹر کی کلاس کے باہر کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔ کل سے وہ حواسوں پر چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
کل اس نے ماورا کے لیے برگر نہیں خریدہ تھا۔۔۔۔۔ اور آج وہی بھرپائی کرنے آیا تھا
ایک سٹوڈنٹ سے اس کے بارے میں پوچھتا وہ اس کی کلاس کی جانب بڑھا تھا جب راستے میں ہی وہ اسے اپنی ایک دوست (زرتاشہ) کے ساتھ آتی دکھائی دی تھی۔
اس کے پاس گزرتی وہ اس پر دھیان دیے بنا آگے کو نکل گئی تھی جب مسکرا کر وہ پلٹا تھا
’’ایکسکیوز می مس ماورا!‘‘ اس کی آواز پر ان دونوں کے قدم رکے تھے
’’جی؟‘‘ اس کی جانب پلٹتے اس نے آبرو اچکائی تھی۔
وہ شائد جلدی میں تھی، اس کی باڈی لینگوئیج کو سمجھتے دیکھ وہ مسکرایا تھا
’’وہ یہ برگر دینے آیا تھا۔۔۔۔۔کل آپ کا نقصان کردیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس وقت پیسے نہیں بچے تھے تو سوچا آج دے دوں!‘‘ اس نے مسکرا کر برگر اس کی جانب بڑھایا تھا۔
’’اس کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘ آنکھیں بڑی کیے وہ جھجھک کر بولتی دوبارہ مڑی تھی۔
’’ارے ایسے کیسے؟ آپ کا نقصان ہوا تھا بھرپائی ضروری تھی‘‘
’’لسن ماورا میں جارہی ہوں تم آجانا!‘‘ موبائل پر آتے میسج کو دیکھ زرتاشہ فورا وہاں سے نکلی تھی۔
’’میں نے کہاں نا ضرورت نہیں!‘‘ اب کی بار آنکھوں میں ناگواری واضع در آئی تھی۔
’’یقین کرو ایسے کام نہیں کرتا جو غیر ضروری ہو۔۔۔۔۔ تم ضروری ہو اسی لیے آیا!‘‘ آپ سے تم پر ایک پل میں آتا وہ اسکے برابر جھکتا بولا تھا۔
اس کی مسکراتی آنکھوں کو دیکھ ماورا نے اپنی نظریں جھکا لی تھی۔
’’اور یہ برگر‘‘ اس کے ہاتھ میں برگر رکھے وہ وہاں سے نکل گیا تھا جب کہ ماورا ابھی تک اپنی جگہ جمی ہوئی تھی۔
’’یہ کیا تھا؟‘‘ وہ چونکتی خود سے بڑبڑائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو یہ روز کا ڈرامہ ہوگیا تھا معتسیم کسی نا کسی بات کو وجہ بناتا روزانہ ماورا سے ملنے جاتا تھا۔۔۔۔۔۔ اس نے ماورا کے ساتھ زیادہ تر زرتاشہ کو ہی پایا تھا، جو اس کے ساتھ مخلص تھی۔۔۔۔۔ جبکہ باقی تینوں تو صرف اسے کام کی حد تک ہی بلاتی تھیں۔
’’آج کل بڑے چکر لگ رہے ہیں فرسٹ سمسٹر کے؟‘‘ چہرے پر شرارتی سی مسکراہٹ سجائے حمزہ نے اس سے سوال کیا تھا۔
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں؟‘‘ اس نے نظریں چرائی تھی۔
’’رئیلی؟‘‘ حمزہ کی مسکراہٹ مزید پھیلی تھی۔
’’بکواس نہ کر!‘‘ اس کے سینے پر بک مارے معتسیم نے آنکھیں دکھائی تھی جس پر اس کا بےساختہ قہقہ گونجا تھا۔۔۔۔۔ منہ موڑے وہ بھی مسکرایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اففف ماورا روؤں تو مت! رونے سے کیا ہوگا؟ اسائنمنٹ تو نہ ملنی!‘‘ زرتاشہ اسے سمجھا بجھا تھک گئی تھی۔
’’مگر میں نے بہت محنت کی تھی۔۔۔۔۔ پوری رات جاگی تھی میں۔۔۔‘‘ وہ آنسوؤں صاف کرتے بولی جو دوبارہ سے بہنے لگ گئے تھے۔
’’اب کیا کرسکتے ہیں ہم؟ جس نے اٹھانی تھی اٹھا لی۔۔۔۔۔۔اور جمع بھی کروادی!‘‘ ایک افسوس بھری نگاہ صوفیہ پر ڈالتی وہ ماورا سے مخاطب ہوئی جبکہ صوفیہ پر اس کی نظروں کا ذرا اثر نہیں ہوا تھا۔
’’دیکھو رونے سے اچھا ہے دوبارہ بنا لو۔۔۔۔۔۔۔ میٹیرئیل تو ہے نا تمہارے پاس اور ٹائم بھی آج شام تک کا ہے۔۔۔۔۔۔ بس سکتی ہے آرام سے۔‘‘ عائزہ کے آئیڈیا پر صوفیہ ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی تھی۔
’’آر یو میڈ عائزہ؟ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی ماورا۔۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب کے اگر تم نے سیم میٹیرئیل بنا کر دی تو سر کو لگے گا کہ تم نے کاپی کی ہے۔۔۔۔۔۔ اور تمہارے نمبر کٹے گے۔۔۔۔۔۔ جب کہ جس نے چرائی ہے اس نے تو اب تک سبمیٹ بھی کروادی ہوگی!‘‘ صوفیہ غصے سے بولتی نرم لہجہ اختیار کرگئی تھی۔
’’واؤ صوفیہ کتنی اچھی ہو تم۔۔۔۔۔۔ کتنا خیال ہے تمہیں اسکا!‘‘ زرتاشہ کا طنز وہ اچھے سے سمجھ گئی تھی مگر زبان بند ہی رکھی۔
اس سے پہلے وہ مزید کوئی دلاسہ دیتی ان چاروں کے موبائل پر ایک میسج آیا تھا۔۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کو دیکھتی وہ چاروں بہانہ کرتی وہاں سے نکل گئیں تھی۔ ماورا ابھی تک آنسو بہانے میں مصروف تھی۔
’’ماورا!!‘‘ معتسیم جو مسکراتا اس کی جانب آیا تھا اسے یوں روتے دیکھ فورا اس کے پاس جا بیٹھا تھا۔
’’ہے کیا ہوا؟ رو کیوں رہی ہو؟‘‘ اس نے پریشانی سے سوال کیا۔
اسے دیکھتی وہ پھر سے رونا شروع ہوگئی تھی۔
’’یار رونا بند کرو اور مسئلہ بتاؤ۔۔۔۔ ٹینش دے رہی ہو مجھے!‘‘ بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ جھنجھلا کر بولا۔
’’اا۔۔۔۔۔اسائنمنٹ بنا۔۔۔۔بنائی تھی۔۔۔۔۔۔۔ چچ۔۔۔۔۔۔۔چوری ہوگئی۔۔۔۔۔۔ دوبارہ بناؤں گی۔۔۔تو،۔۔۔تو کاپی لگے گا۔۔۔۔۔۔۔ اور شام تک سبمیٹ کروانا ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ بتاتی وہ پھر سے رونا شروع ہوگئی تھی۔
اس کی بات سنتے اس نے گہری سانس خارج کی تھی۔
’’کس سر کی؟‘‘
’’سر حمدانی کی‘‘ جھکے سر کے ساتھ جواب دیا گیا تھا۔
’’اوکے یہی رکو میں آیا!‘‘ اسے بولتا وہ فورا وہاں سے نکلا تھا
تقریبا دس منٹ بعد وہ اپنا لیپ ٹاپ اٹھائے اس کی جانب آیا تھا ساتھ ہی اس کے حمزہ بھی آیا تھا۔۔۔ جب اسے وہی بیٹھے دیکھا۔
’’چلو لڑکی تمہارا مسئلہ سولوو کرے۔۔۔۔‘‘ اس کے پاس بیٹھتا وہ مزے سے بولا
’’کیسے؟‘‘ اس نے چونک کر سوال کیا
’’ایسے؟‘‘ لیپ ٹاپ پر سے اپنی اسائنمنٹ نکالے اس نے جواب دیا تھا۔
’’یہ؟‘‘ اس کی آنکھیں پھیلی جب معتسیم نے اپنے نام اور رولنمبر کی جگہ اس کا ایڈیٹ کردیا تھا۔
’’اب نیٹ سے کچھ اور میٹیرئیل ڈھونڈے گے تاکہ تمہاری سیم میری والی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی حمدانی سر کی یادداشت بہت اچھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ فورا جان جائے گے۔۔۔۔۔۔اب ہم ایسا تو نہیں نہ چاہتے کہ میری ماورا پر چوری کا الزام لگے؟‘‘ اس کے بولنے پر حمزہ کھانستا ہوا مسکرایا تھا۔
’’میری ماورا؟ میری؟‘‘ اسکے کان میں پھسپھسائے اس نے مسکراہٹ سمیٹنی چاہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ معتسیم نے آنکھیں دکھائے اس کے پیٹ میں کہنی ماری تھی جبکہ ماورا ان دونوں سے انجان اسائنمنٹ پڑھنے میں مصروف تھی۔
تقریبا دو گھنٹے بعد وہ لوگ اسائنمنٹ بناکر فارغ ہوئے تھے۔
’’فائنلی!‘‘ اپنی جگہ سے اٹھتے حمزہ نے انگڑائی لی تھی۔
’’اب کیا ہوا ہے؟‘‘ اس کا لٹکا منہ دیکھ معتسیم نے سوال کیا
’’کچھ نہیں!‘‘ اپنے بیگ کو زور سے پکڑتی وہ بولی تھی۔
اس کی گھبراہٹ کو دیکھتا وہ اس کا مسئلہ بھانپ گیا تھا۔
’’اچھا یہی رہنا ابھی آیا!‘‘ اس کی بات پر ماورا نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
کچھ دیر بعد ہی وہ فائل میں اسائنمنٹ لگائے اس کے پاس آیا اور اسے تھمادی تھی۔
’’یہ؟‘‘ وہ چونکی
’’وہ مجھے کچھ نوٹس نکلوانے تھے۔۔۔۔ تو سوچا تمہاری اسائنمنٹ بھی نکلوا لاتا ہوں!‘‘ آرام سے کندھے اچکائے
’’اچھا وہ پیسے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ارے تم لیٹ ہورہی ہو۔۔۔۔۔ سر حمدانی جانے والے ہیں جلدی جاؤ اور اسائنمنٹ جمع کرواؤں!‘‘ اس کی بات کاٹتا وہ واچ دیکھتا جلدی سے بولا
ماورا بھی جلدی سے وہاں سے اٹھی تھی۔
’’کہی جائیے گا مت یہی رہیئے گا۔۔۔۔۔۔ میں ابھی آئی!‘‘ اسے سمجھاتی وہ وہاں سے نکلی تھی۔
’’پاگل!‘‘ اسے جاتے دیکھ وہ مسکرایا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...