طاہر نقوی (کراچی)
آج نوری نے اس سے غیر متوقع بات پوچھی۔
اس وقت وہ اپنے کام پر جانے کے لیے تیار ہو رہاتھا ۔ اس دوران نوری کارویہ حسب معمول بے دلی کا رہا۔
’’رات کی ڈیوٹی کب تک کرو گے؟‘‘
یہ سن کر وہ چونک پڑا۔وہ نوری کے جذبات سے بخوبی واقف تھا۔ اس سے زیادہ اسے اپنے فرض اور ذمہ داری کا احساس تھا۔
’’میرا کام ہی ایسا ہے‘‘
’’دن کی ڈیوٹی لگوا لو۔‘‘
’’بے وقوف ۔ چوکیداری رات کو ہوتی ہے ۔ دن میں اس کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’رات کو میں اکیلی ڈرتی ہوں۔‘‘
’’فضلو کی بیوی ہوتے ہوئے ڈرتی ہو‘‘ اس نے قہقہہ لگایا۔
نوری نے برا سا منہ بنایا تو فضلو نے اپنائیت سے کہا۔
’’علاقے کے سارے چور اُچکے میرے نام سے کانپتے ہیں۔‘‘
اس جواب سے بھی نوری مطمئن نہیں ہوئی اور بے بسی سے بولی۔
’’کبھی غیر حاضری کر لیا کرو۔‘‘
’’میں نہیں گیا تو کسی کا گھرلُٹ سکتا ہے، کسی کی عزت۔‘‘
’’تم رات بھر جاگتے ہو، یوں کب تک چلے گا؟۔‘‘
’’میں جاگتا ہوں، تب ہی علاقے کے لوگ چین کی نیند سوتے ہیں۔‘‘
جانے سے پہلے وہ نوری کو روزانہ اسی طرح سمجھایا کرتا تھا مگر اس کی ایسی باتوں سے نوری کو کبھی تسلی نہ ہوتی اور کچھ کہتے کہتے رُک جاتی ۔فضلو اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتا تو کہتی۔
’’کوئی بات خود بھی سمجھ لیا کرو۔‘‘
فضلو کو پڑھنے لکھنے کا شوق کبھی نہیں تھا۔ چندا بتدائی جماعتیں پڑھ کر ہی تعلیم کی طرف سے اس کا جی اچاٹ ہو گیا۔ وہ کسی چھوٹی موٹی نوکری کی تلاش میں گھومتا رہا مگر کوئی بات نہیں بنی ۔ اس کی مایوسی بڑھتی رہی۔تب اس کے باپ نے اسے اپنی جگہ اسی علاقے میں چوکیدار رکھوا دیا۔ اس کا باپ طویل عرصے سے اس علاقے میں ا سی کام پر لگا ہوا تھا۔اب بوڑھاپے کی وجہ سے اس کے قویٰ جواب دے چکے تھے۔ اسی نے فضلو کو اس کام کی اہمیت اور عزت کا سبق پڑھایاتھا۔ وہ کہتا تھا کہ یہ کام جاں نثاری کا ہے ۔ اسے انجام دیتے ہوئے دل میں کبھی بدنیتی یا بے ایمانی کی کھوٹ نہیں آنی چاہیے۔ اپنے باپ کے انہی اصولوں سے متاثر ہو کر فضلو نے یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لی تھی کہ چوکیدار چوکس ہو تو مکین سکون کی نیند سوتے ہیں۔ نوری سے اس کی شادی اس کے باپ نے مرنے سے کچھ عرصہ پہلے کر دی تھی۔پھر وہ زیادہ دن زندہ نہ رہ سکا۔فضلو نے اپنی ایمانداری اور ذمہ داری کے سبب وہاں کے رہنے والوں کے دل جلد جیت لئے۔ انہیں اس پر اپنے گھر کے فرد کا سا اعتماد ہو گیا تھا۔وہ اکثر ان کے ذاتی کام کر دیتا ۔ اس لئے وہ لوگ اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آتے او ربہانے سے اسے رقم دینا چاہتے۔ وہ اسے اپنی خودداری کے خلاف سمجھتا اور لینے سے صاف انکار کر دیتا۔ رقم سے زیادہ وہ اپنے کام کی تعریف سے خوش ہوتا۔اس کے کہنے سے پہلے ہی اسے سائیکل بھی دلواد ی گئی۔البتہ عید اور بقر عید کے تہواروں پر وہ لوگ فضلو اور اس کی بیوی کو نئے جوڑے اور عیدی اصرار کر کے دیتے تھے۔ اس کے باوجود نوری، فضلو کی موجودہ نوکری سے خوش نہ ہوتی اور اٹھتے بیٹھتے دن کے وقت کی کوئی ملازمت حاصل کرنے کو کہتی رہتی۔ وہ اسے سمجھاتا کہ بھلا اتنے کم پڑھے لکھے کو نوکری کہاں ملے گی۔ اگر ملی بھی تو نہ اس سے زیادہ تنخواہ کی ،نہ عزت کی۔وہ اس کے جواب پر محض جھنجھلاتی رہتی۔
اس علاقے میں فضلو کے چوکیدار کی حیثیت سے آنے کے بعد نہ کوئی چوری چکاری ہوئی تھی اور نہ ایسی ویسی واردات۔ اس لئے اس کا ضمیر مطمئن رہتا تاہم نوری کی بڑھتی ہوئی ضد کے باعث اب وہ پریشان رہنے لگا۔ کوئی دن نہ جاتاجب وہ موجودہ نوکری کو ترک کرنے پر اصرار نہ کرتی۔ اس کے شدید رویے کے باعث فضلو مجبور ہوگیا۔ اس نے وہاں کے دو ایک با اثر افراد سے اس سلسلے میں بات کی ۔ وہ محض ہوں ہاں کر کے چپ ہو رہے۔فضلو کا خیال یہی تھا کہ وہ لوگ اس جیسے مخلص چوکیدار کو کھونا نہیں چاہتے۔ اس نے یہ بات نوری کو اپنی تعریف کے رنگ میں بتائی تو اس نے تائیدنہیں کی بلکہ اس کی ہنسی اڑانے لگی فضلو نے نوری کے اس رد عمل کو سادگی اور کم فہمی سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔
سردی کے موسم میں محلہ جلد سنسان ہو جاتا تھا۔ بجلی کے کھمبوں کی کمزور روشنی دور تک نہ پہنچتی۔ان دنوں فضلو لمحے بھر کے لئے بھی ایک جگہ نہ ٹکتا ور تیزی سے چکر لگاتارہتا۔رات کے سناٹے میں اس کی گرجدار آواز گونجتی تو علاقے کی ساری گلیاں جاگ اٹھتیں۔ ایک رات معمول کے مطابق اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے اچانک اسے نسوانی چیخ سنائی دی ۔وہ وہیں ٹھہر گیا اور آواز کی سمت متعین کرنے لگا۔ آواز سامنے والے مکان سے آرہی تھی۔وہ لپک کر قریب گیا اور سن گن لینے لگا۔اب نسوانی چیخوں کے ساتھ کسی مرد کی دھمکی آمیز کرخت آواز بھی سنائی دی ۔فضلو معاملے کی نزاکت کو بھانپ گیا۔ اس سے برداشت نہ ہو سکا۔ وہ دیوار پھاند کر اندر کو د گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص ،نوجوان لڑکی پر جھکا ہوا تھا۔ لڑکی ہاتھ جوڑے روتے ہوئے معافی مانگ رہی تھی۔ فضلو نے جاتے ہی اس درندے پر اپنی لاٹھی سے حملہ کر دیا۔ وہ حواس باختہ ہو گیا۔ اسے فضلو نے آسانی سے قابو کر لیا کیونکہ چور، اُچکے اور غنڈے میں کبھی حوصلہ نہیں ہوتا۔ لڑکی نے اپنے آپ کوسنبھالا، اپنے ماں باپ کے بندھے ہوئے ہاتھ پاؤں کھولے اور ان کے منہ میں ٹھنسا ہوا کپڑا نکالا۔ لڑکی کے باپ نے فضلو کی موجودگی میں پولیس اسٹیشن فون کر کے پولیس کو بلوالیا۔ پولیس اس غنڈے کو گرفتار کر کے لے گئی۔ لڑکی اور اس کے ماں باپ، فضلو کے احسان مند تھے۔ان تینوں کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔وہ ان کی ڈھارس بندھاتا رہا۔ لڑکی کے ماں باپ اس کی مالی مدد کر کے احسان کا بدلہ چکانا چاہتے تھے۔ فضلو کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ اسے تو بس یہ فخر تھا کہ اس نے کسی شریف لڑکی کی عصمت پر دھبہ نہیں آنے دیا۔ اس سارے معاملے میں سورج نکل آیا ۔تب ان لوگوں سے رخصت لے کر فضلو خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ اس کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ فوراً سمجھ گیا کہ آج دیر ہو جانے کی وجہ سے نوری دروازے پر کھڑی اس کی راہ تک رہی ہو گی۔ جاتے ہی وہ نوری کو سب سے پہلے اپنا آج کا کارنامہ سنانا چاہتا تھا۔یہی سوچتے ہوئے وہ اندر داخل ہوا تو بوکھلا کر رہ گیا۔
نوری بستر پر لُٹی پٹی پڑی تھی۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اسے پھر اپنی بیوی پر غصہ آنے لگا۔۔۔مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ میں نے اتنے لمبے عرصے کے بعد چھٹی کیوں کی ہے؟کمرے میں اکیلا پڑا خود سے کیوں الجھتا رہتا ہوں۔۔۔ سمجھ رہی ہو گی شہر کی حالت اچھی نہیں ہے۔۔۔بہت سی بستیوں میں کرفیو دندناتاپھر رہا ہے۔اسی خوف سے میں گھر میں بیٹھ گیا ہوں۔۔۔بس اندازے سے ہی سارا کام چل رہا ہے۔حقیقت معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کسی کو۔۔۔مگر حقیقت کیا ہے۔۔۔میں نے چھٹی کیوں کی ہے۔کیوں اپنے بے چین سوالوں کا جواب مجھے خود معلوم نہیں۔۔۔وہ بیچاری کیا جانے۔نہیں اتنا عرصہ ہو گیا ساتھ رہتے ہوئے۔۔میرے مزاج،۔۔میری طبیعت۔۔۔میری ضرورت سے واقف تو ہونا چاہئے تھا۔۔
واقف ہونے کی کوشش توکرنی چاہیے تھی۔۔۔بس اپنی سنانے آگئی۔۔۔پتہ نہیں سورج کہاں کھو گیا ہے۔۔۔؟
سورج کوئی بچہ ہے کہ کھو جائے گا۔۔۔۔‘‘
سلطان جمیل نسیم کے افسانہ اندھیرے سے آگے کا اقتباس