میت کے منصوبوں کی بھنک پڑتے ہی تیجا سنگھ نے دن ڈھلے تک انکے جانے کے سارے انتطامات کروادیتے تھے ۔
انکا گاؤں لاہور سے تقریباً تیس کلو میٹر کے فاصلے پر تھا اتنا فاصلہ بیل گاڑی یا پیدل طے کرنا خطرناک تھا کیونکہ راستے میں دو تین گاؤں ایسے آتے تھے جنکی آبادی خالصتاً سکھوں پر مشتمل تھی
تازہ واقعات کے مطابق امرتسر سے لاہور جانے والے مہاجروں کو بارڈر کے قریب لوٹنے کے بعد قتل کردیا جاتا تھا
طے یہ پایا کہ عورتیں تیجا سنگھ کی گھریلو طور پر استعمال ہونے والی بگھی میں بارڈر کے آخری گاؤں تک جائیں گی جبکہ مرد الگ الگ ہو کر گھوڑوں پر جائیں گے
الگ الگ جانے کا منصوبہ اس لیے تھا کہ بلوائیوں کی نظروں سے بچا جاسکے
دوپہر ڈھلتے ہی بلوائیوں کا پورا گروہ میت کے چوپال میں آکر بیٹھ گیا تھا
رات کے پیچھلے پہر حویلی کی پیچھلی سائیڈ سے حملہ کرنے کا منصوبہ طے پایا میت نے خاص ہدایت کی تھی کہ لڑکیوں کو میرے پاس آنے سے پہلے کوئی ہاتھ بھی نہیں لگائے گا سب اپنا اپنا کرنے کا کام سمجھ کر گھروں کو چل دیے جبکہ میت کا ارادہ ایک بار شیر حیدر سے بات کرنے کا تھا کیونکہ رات سے بلونت کی ایک ہی تکرار تھی وہ اب کسی کے قابل. نہیں رہی جس نے میری زندگی برباد کی اگر اس نے مجھے نا اپنانا تو زہر کھالوں گی
جب وہ چوہدریوں کی حویلی کے چوپال میں پہنچا تو اسکے کانوں میں شیر حیدر کی اونچی ہوتی آواز پڑی
بابا مجھے سوہنے رب کی سوں
میرا کوئی قصور نہیں
میت چونک کر دروازے میں رک گیا تھا
چچا کچھ کہہ رہے تھے
شیرے میں تیرا باپ ہونے کے ساتھ ساتھ دو جوان بیٹیوں کا باپ بھی ہوں جب بیٹی جوان ہوتی لے تو عزت دار غیرت مند ماں باپ کی راتوں کی کچی پکی نیندیں اڑ جاتی ہیں
شیر حیدر نے چونکتے ہوئے معنی خیزی سے انکی طرف دیکھا تھا
او جھلیا
اس لیے نہیں کہ انہیں اپنے خون پر اعتبار نہیں ہوتا یا اپنی تربیت پر کسی قسم کا شک ہوتا ہے
پتر
اچھے ماں بات بیٹی کے جوان ہوتے ہی اسکے پاؤن میں اعتبار اور محبت کی بیڑی ڈال دیتے ہیں اور یقین کر یہ بیڑی سخت سے سخت پہروں کو بھی مات دے دیتی ہے
بیٹی کے چہرے کے بکھرے رنگ ماں باپ سے چھپے نہیں رہ سکتے
شیر حیدر نے ایک پل کو انہیں دیکھا پھر رات کا سارا واقع انکے گوش، گزار کر دیا
جسے سن کر انہوں نے ٹھنڈی سانس بھری
اللہ سوہنا سب کی بیٹیوں کو ہدایت دے
جبکہ دروازے پے کھڑے میت کو یوں لگتا تھا جیسے اسے کسی نے ننگا کرکے چوک میں کھڑا کردیا ہو
——————–
——————–
میت پر سچائی آشکار ہوئی تو اسے زندگی میں پہلی بار خود پر ترس آیا اسے اپنے آپ سے گھن آنے لگی کیسا انسان تھا وہ اپنے دامن کے چھید دیکھ ہی نہیں پایا تھا
اس احساس نے کہ انکا اپنا سکہ کھوٹا ہے اسکی روح کو جھنجھوڑ دیا تھا
اسکا دل چاہا کہ ابھی جاکر بلونت کو قتل کردے جو انکی عزت یوں گاؤں کی گلیوں میں تو کبھی برگد کی چھاؤں میں رولتی رہی ہے
یہ تو شکر ہے شیر حیدر نیک مسلمان ماں باپ کی اولاد ہونے کے ساتھ ساتھ اسکا دوست بھی تھا جو اگر ان کے اپنے دھرم کا کوئی مرد ہوتا تو؟؟
اس تو سے آگے صرف شرمندگی تھی خوف تھا جسے وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا
ویسے بھی اب اسے سب سے پہلے شیر حیدر اور اسکے خاندان کو باعزت باحفاظت پاک سرزمین پہنچانا تھا
بلوائیوں کو وہ روک نہیں سکتا تھا کیونکہ تیر کمان سے نکل چکا تھا
گھر آتے ہی اس نے تیجا سنگھ سے معافی مانگی اور بلوائیوں کے منصوبے سے متعلق ساری اطلاع دینے کے ساتھ اپنے ساتھ کی یقین دہانی بھی کروائی اس سارے عرصے میں اسکی بیوی اور ماں وہیں بیٹھی رہی تھی
——————-
بلونتے اگر کسی کو ہتا چل گیا تو؟
( بھابھی میں اسکے بغیر مر جاواں گی اب تو میں ویسے بھی دوسرے جی سے ہوں)
میت کی بیوی روائیتی بھابھی نہیں تھی اسی لیے اس نے فوراً بلونت کو انکے منصوبے سے اگاہ کیا وہ چاہتی تھی کہ بلونت بھی شیر سے دو ٹوک بات کرے
لیکن بلونت کے منہ سے سنی جانے والی حقیقت نے اسے دنگ کردیا تھا۔
ک کب سے؟
کیسے
وہ اٹک اٹک کر بولی
بلونت نے چہرے پر دکھ طاری کرتے ہوئے کہا تین مہینوں سے میں جو تم لوگوں کو مہراں سے ملنے کا کہہ کر جاتی تو مہراں کے پاس کچھ دیر رکتی پھر شیر کو ملنے کبھی ان کے ڈیرے پر تو کبھی
چتاخ
بھابھی نے ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر لگایا تھا
نی تجھے شرم نا آئی
بے شرم بے حیا
بھابھی وہ کہتا تھا مجھ سے شادی کرے گا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے کل رات بھی اس نے مجھے بلایا تھا برگد والے ڈیرے پر اور
وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر سسکنے لگی
ٹھیک ہے بلونت
جیسے تو کہتی ہے ویسا ہی کریں گے چل اٹھ اب چلتے ہیں
حقیقت سے بے خبر بھابھی کا دل پسیج گیا تھا جبھی بلونت کے کہنے پر چوہدریوں سے آخری ملاقات کرنے جانے کے یے تیار ہوگئی
—————–
شام ڈھلتے ہی وہ چوہدریوں کے گھر پہنچی تھیں
سب روتے ہوئے آپس میں گلے ملنے لگی تھیں.
بلونت کی نظریں مہراں مو تلاش رہی تھیں بے چینی حد سے بڑھی تو پوچھ بیٹھی
چاچی مہراں کہاًں ہے
وہ رات سے اپنے کمرے میں بند ہے نا کچھ کھایا نا پیا
ہاں تو اپنی دھرتی ماں سے بچھڑنے کا غم تھوڑا تو نہیں ہوتا نا؟
مہراں کی اماں کے بتانے پر بلونت کی بھابھی نے تبصرہ تھا
اچھا میں مل کر آتی ہوں بلونت کہہ کر حویلی کی پیچھلی طرف چل دی
وہ کچھ سوچتے ہوئے مہراں کے کمرے تک جاتے جاتے پلٹ آئی تھی اب اس کا رخ کچن کی طرف تھا
کچھ دیر بعد وہ ہاتھ میں حلوے کی کڑھائی لے کر نکلی اور باقی سب کے پاس اگئی
چاچی بڑی ماں صغرہ چلو کچھ کھا لو آپ لوگوں نے لمبا سفر کرنا ہے
اس کے لہجے کا دکھ اور محبت محسوس کرتے ہوئے شیر حیدر کیا معنیٰ ہے ٹھنڈی ہا بھرتے ہوئے کہا ماں صدقے جائے
لیکن بچے ہمیں بلکل بھی بھوک نہیں ہے
بے شک نا ہو لیکن تھوڑا تو کھانا پڑے گا نا؟
وہ محبت اور خفگی سے کہتے ہوئے سب کے لئے کٹوریوں میں حلوا نکالنے لگی سب سے نظر بچا کر اس نے ایک کٹوری میں ڈالے حلوے میں کوئی چیز ملائی پھر صغریٰ سے بولی نی صغری جا جاکر مہرا ں کو دے مجھ سے ناراض ہے ہے میری بات نا مانے گی
صغراں چپ کرکے چلی گئی جب واپس لوٹی تو اس نے بتایا کہ مہراں نے بہت مشکل سے دو چمچ کھائے ہیں اور وہ برقعہ پہن کر تیار بیٹھی ہے
بلونت کے چہرے پر مسکان آکر معدوم کو گئی وہ لوگ انہی باتوں میں مشغول تھے کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی تھی
تیجا سنگھ کے ساتھ گرومیت اور باقی لوگ آئے تھے انکا کہنا تھا کہ ابھی نکلنا بہتر ہوگا تاکہ رات کے پیچلھے پہر تک بارڈ کراس کرلیا جائے
سب سب ان کی بات سے متفق ہوئے ہے بلونت کی بھابھی نے مہراں کی امی سے گزارش کی کہ ان کی حالت کسی کو پتہ نہ چلے آپ لوگ جائیں ہم پیچھلے دروازے سے نکل جائیں گے
سب افرا تفری میں ادھر ادھر ہونے لگے صغراں مہراں کو بلانے کے لیے بھاگی تو بلونت نے اسے روک دیا یہ کہتے ہوئے کہ تم لوگ بگھی میں انتظار کرو میں اسے بھیجتی ہوں
بلونت اور اسکی بھابھی کے جانے کے کچھ دیر بعد مہراں برقعے میں لپٹی ہوئی آئی اور آکر بگھی میں بیٹھ گئ
اسکے بیٹھتے ہی کوچوان نے گھوڑے کی لگامیں کھینچیں تو وہ ہواؤں سے باتیں کرنے لگا تھا
——————-
اسکی آنکھ کسی احساس کے تحت کھلی تھی
آنکھ کھلتے ہی اس نے ادھر ادھر دیکھا وہ اس وقت اس حویلی کی پچھلی سائیڈ پر جانوروں کے لیے بنے کمرے میں بھوسے پر لیٹی تھی
تھوڑی حیرانی اور زیادہ پریشانی کے ساتھ وہ سوچنے لگی کے وہ ادھر کیسے آئی اسے شدید گرمی کا احساس ہو رہا تھا جیسے آس پاس کہیں آگ جل رہی ہو
اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ سوچتی شیر حیدر کی تڑپتی ہوئی آواز اسکے آس پاس گونجی تھی
مہراں
او
میری کملی مہری
اسکے ساتھ ہی رات گزرا سارا منظر اور اس سے پہلے کی ساری باتیں ذہن دھرانے لگا تھا رات آنکھیں پر فقل تھا ذہن اور دل بے اعتباری کی آندھیوں کی ذد میں تھا وہ سوچ نہیں پائی تھی
شیر جی
صدقے
شیر جی
قربان مہراں
بے اعتباری کے درد میں ڈوبی آواز نے ایک پل میں اس پر سارے در وا کیے تھے
بلونت کا بہانے بہانے سے شیر حیدر کو مخاطب کرنا اسکا ذکر کرنا پھر کل دوپہر اسکا پائل مانگنے آنا؟؟
پھر سے کوئی بولا تھا
اپنی پوری حیاتی میں تیرے سوا کسی کا خیال بھی دل میں لایا ہو
تو آگ لگے میری جوانی
ہائے ربا
مہراں کا ہاتھ مارنے کے سے انداز میں دل پر پڑا کہ وہ کل رات کیوں اتنا سخت ہوگیا تھا وہ اونچا اونچا رونے لگی تھی
تیرے بغیر کسی کو آکھ اُٹھا کر بھی دیکھا ہو تو نہر میں بہہ جاوں سڑ کے مر جاؤں
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھی تھی اسے محسوس ہوا وہ تنور میں ہے اور اسکا جسم جل رہا ہے جیسے وہ سڑ کر ر رہی ہے
یوں بے اعتباری کی موت مار کر نا جا
مہراں
سوں رب کی
میرے ساہ مک جانے ہیں
مرجانا تیرے شیر نے
بے ساختہ آمڈنے والی چیخ کو روکنے کے لیے اس نے منہ پر ہاتھ رکھا تھا چیخیں سسکیاں بن کر نکلی تھیں
اسکے ساتھ ہی کمرے کا شہتیر آگ سے بھل بھل کرتا نیچے گرا تھا اور اسکے چاروں طرف آگ ہی آگ پھیلنے لگی تپش دھوئے اور خوف سے اسکی آنکھیں دھندلانے لگی ذہن تاریک ہونے لگا تھا
رب سوہنا جانتا ہے تیرے سوا کسی کو ہاتھ لگایا ہو
کیڑے پڑ جائیں دوجا ساہ نا آئے
مجھے قبر تے کلمہ نصیب نا ہو
اسے لگا اسکے سارے جسم میں کیڑے پڑ گئے ہیں اسکی زبان کلمہ پڑھنے سے قاصر ہے اور یہ کہ وہ اسی آگ میں جل کر دفن ہوجائے گی اسے قبر نصیب نہیں ہوگی
اس آخری سوچ کے ساتھ اس نے ساری ہمتیں جمع کرتے ہوئے دھاڑیں مار کر چیخنا شروع کیا تھا
شیر جی
شیر جی
لیکن اس بار وہاں کوئی بھی شیر صدقے شیر قربان کہنے والا وہاں موجود نہیں تھا
———————
موسم ابر آلود تھا وہ لوگ آدھی رات سے کچھ پہلے وہاں پہنچے تھے بارڈر کے قریب موجود ریلوے سٹیشن جہاں سے لاہور کا فاصلہ دس کلو میٹر کا تھا پر ریل گاڑی کھڑی تھی جسکے ذریعے انہوں نے لاہور جانا تھا
تیجا سنگھ سمت سب نوکر انہیں سٹیشن تک باحفاظت پہنچا کر واپس چلے گئے تھے اب وہاں صرف گرومیت سنگھ تھا جو ٹرین کے چلے جانے تک یہیں رہنا چاہتا تھا شاید اس وجہ سے وہ اپنے ضمیر کا بوجھ کم کرنا چاہتا تھا ۔
ٹرین کی ہر بوگی کھچاکھچ بھری ہوئی تھی سب کے پاس سامان نا کونے کے برابر تھا لیکن بے ارو مدد گار لوگوں کا جم غفیر تھا جو ریل کے اندر اور باہر جمع
ہوا تھا شیر حیدر میت کے ساتھ مل کر ٹرین کے اندر تین مختلف بوگیوں میں صرف عورتوں کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ بنا پایا تھا
ٹرین اپنے ٹائم سے کافی لیٹ تھی کیونکہ اسکے بعد بٹوارے کا حتمی اعلان ہونے تک کوئی بھی ٹرین لاہور جانے والی نہیں تھی اسی لیے عملے کا مقصد تھا کہ زیادہ سے زیادہ مہاجرین کو بارڈر پار کروا لیا جائے لیکن ایک گھر اچانک سے قبل باغیوں کے حملے کا بھی تھا
جب تک ٹرین رکی رہتی تب تک کوئی بھی آنے والے لمحات قیامت برپا کر سکتا تھا کیونکہ ایک بار چلنے کے بعد اگلا اسٹیشن لاہور کوٹ لکھپت کا تھا
اسٹیشن کے لاوڈ سپیکر میں پانچ منٹ بعد روانگی کے اعلان کے ساتھ گھوڑوں کے ہنہنانے اور انکے ٹاپوں کی اواز نے ہلچل مچا دی تھی
یہ آوازیں حملے کی نشاندہی تھیں عورتوں نے ٹرین چلانے کے لیے چیخ و پکار شروع کردی تو عملے نے بھی ہراساں ہوتے ہوئے ٹرین کی وسل دی تھی
شیر حیدر پہلے ٹرین میں سوار ہوا میت اسکی اماں اور بہن کو سوار ہونے میں مدد کرنے لگا
اس کے ببعد شیر حیدر دوسری بوگی کی طرف لپکا جس میں اس کے ابّا اور بھائیوں کو سوار ہونا تھا کیونکہ مہراں اور اسکی اماں تیسری بوگی کے پاس کھڑی تھی جب وہ ابا اور بھائیوں کو ٹرین پر چڑھا کر پلٹا تو وہ سرکنا شروع ہوگئی تھی
اسٹیشن پر مہراں اسکی اماں شیر حیدر اور گرومیت لے علاوہ چند اکا دکا لوگ ہی رہ گئے تھے کہ اچانک
“جئے بولے سونیہال ست سری اکال “”
کے نعروں سے اسٹیشن گونجا تو عورتوں کی ڈر میں ڈوبی چیخوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا
ٹرین تھوڑی تیز ہوئی تو وہ دونوں پیچھلی بوگی کی طرف بھاگے تھے
میت نے اچانک رک کر شیر حیدر کو گلے لگایا تھا
شیرے میرے ویر
واہے گرو کی سوں تو میرا حق سچ کا ویر ہے
مجھ سے یا میرے گھر والوں میں سے کسی کوئی غلطی کوتاہی ہوگئی ہو تو معاف کرئیں اور فوراً سے الگ ہوکر پیچھے ہٹنے لگا
کرپان اور گنڈاسے لہراتے گھڑسوار سکھ انکے سر پر پہنچ گئے تھے
چاچی اور مہراں مو لے کر چلا جا میں انکو روکتا ہوں وہ دور ہوتے ہوئے چیخا تھا
شیر حیدر ایک پل کو ساکت ہوکر میت کی بات سمجھنے کی کوشش کرنے لگا ہھر اسکے اصرار پر چاچی کو رفتار ہکڑتی ٹرین میں سوار کیا مہراں کی طرف اس نے جھجکتے ہوئے ہاتھ بڑھایا جسے اس نے بغیر کسی تردد کے تھام لیا اچانک سے شیر حیدر کے دل کو کچھ ہوا آسمان پر بجلی چمکی تو اسٹیشن پر چھائے ملگجی اندھیرے میں اس نے مہراں کے صاف شفاف گورے ہاتھ دیکھے تھے
اگلے ہی پل اس نے کسی جان لیوا خوف کے زیر اثر وہ ہاتھ جھٹک دیا؟؟
میت ایک گھڑ سوار سے گنڈاسہ چھین کر ان پر بجلی بن کر برس رہا تھا
اسکے کچھ وفادار نوکر جنہوں نے میت ہی کی وجہ سے بلوائیوں کا ساتھ دینے کی حامی بھری تھی اب اسے اپنے مقابل پاکر فوراً اسکی طرف پلٹے تھے
وے شیر ہاتھ پکڑ مہراں کا چھوڑ کیوں دیا چاچی چیخ رہیں تھیں
یہ یہ
مہراں نہیں ہے چاچی
شیر حیدر کو اپنی آواز گہری کھائیوں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی وہ ٹرین کے ساتھ مسلسل بھاگا جارہا رہا تھا
یہ ہماری مہراں ہے شیر پتر
چل جلدی کر گڈی اسٹیشن چھوڑنے لگی ہے اسے اوپر چڑھا
نہیں چاچی یہ مہراں نہیں ہے
کیوں تجھے کس نے کہاں یہ مہراں نہیں؟
میں ماں ہوں مجھے پتا ہے یہ مہراں ہے
مہراں طلائی کی نہیں کانچ کی چوڑیاں پہنتی ہے
بادلوں نے برسنا شروع کر دیا کچھ بلوائیوں نے ٹرین کی دوسری طرف سے سوار ہوکر قتل عام شروع کردیا تھا جن کو سب اپنی اپنی کوشش سے مقابلہ کرتے ہوئے نیچے دھکے دے رہے تھے۔
شیر حیدر کے ساتھ بھاگتی مہراں کے قدم سست ہوئے تھے اپنی تمام شیطانی چالوں میں ناکام ہونے پر اسے یقین ہوگیا تھا ہم چاہے جو کچھ مرضی کرلیں ہوتا وہی ہے جو اوپر والے نے سوچ رکھا ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے تھا
بچوں کا رونا عورتوں کی چیخیں مردوں کی ہاہاکار ٹرین کے اندر اور باہر ایک کہرام سا برپا ہوگیا اسٹین کے بوسیدہ پلیٹ فارم کو سرخ رنگ نے رنگنا شروع کردیا تھا
آہ ہ ہ ہ ہ گرو جی
گرومیت کی پیٹھ پر کسی نے بھالے سے وار کیا تھا
شیر کے ساتھ ٹرین کے پیچھے سست قدموں سے بھاگتی مہراں گرومیت کی تکلیف ذدہ چیخ پر تڑپتے ہوئے رک کر مڑی برقعے کا نقاب الٹتے ہوئے چیخی تھی
“میت ویر جییییییی””
بادل زور سے گرجے تھے جیسے کسی کی ہستی کو تہہ وبالا کرنا چاہتے ہوں
اسکا دل صحیح کہتا تھا وہ مہراں نہیں بلونت تھی جو مہراں کا برقعہ پہنے وہاں تک چلی آئی تھی تو مہراں کہاں ہے
اسکے دل نے شدت سے ایک نام پکارا تھا
مہراں ؟؟؟؟؟؟؟؟
ٹھیک اسی وقت وہاں سے بیس میل دور آگ سے بھل بھل کرکے جلتی کوٹھری میں کسی نے اس سے زیادہ شدت زیادہ محبت اور زیادہ تڑپ سے پکارا تھا
شیر جی
لگتا تھا کسی کی دل سے دی گئیں شدتِ درد میں ڈوبی “”شیر” نام کی سدائیں اسکے دل تک آپہنچی تھیں کیونکہ دبادلوں گرج چمک نے اسکی ہستی کو واقع تہہ وبالا کردیا تھا
وہ انہونی کے احساس تلے دبتے دل کے ساتھ سب کچھ فراموش کیے پلیٹ فارم پر جمع خون آلود پانی میں بیٹھتا چلا گیا اسکی آنکھیں آپو آپ خون برسانے لگی پھر خون برساتی آنکھوں کے ساتھ پچیس سالوں میں پہلی بار اس نے اوپر آسمان کی طرف نظر اٹھائی تھی
پہلی بار اس لیے کہ اس بار اسکی نظروں میں نا ممنونیت تھی نا تشکر نا صبر تھا نا محبت اس بار اسکی آنکھوں میں درد تھا شکوہ تھا بغاوت تھی اور شکایتں تھی ڈھیر ساری شکایتں
————————-
میت ویر جی
واہے گرو راکھا
وہ روتے ہوئے گرومیت کی طرف بڑھی تھی
گرومیت نے اچانک حیرت میں ڈوبے پلٹ کر پیچھے دیکھا تھا
شیر حیدر کو اسٹیشن پر بیٹھتے دیکھ مہراں کی اماں ٹرین سے اتر کر اسکی طرف بھاگتی آئی تھیں
شیرے میرے بچے
انہوں نے پاس آکر روتے ہوئے اسے جنہنجوڑا تھا
ہوش کر شیرو
ہوش کر میری جان
وہ اس کے منہ پر تھپڑ مارنے لگی جو ہوش وخرد کی دنیا سے پار سکتے کے سے عالم میں آسمان کی طرف دیکھے جارہا تھا
بلونت کی چیخوں پر گرومیت نے سامنے سے توجہ ہٹا کر پیچھے دیکھا ٹھیک اسی وقت کسی دوست نما دشمن نے اسکے پیٹ میں کرپان کا بھالا پوری طاقت سے گھونپا تھا
شیرے ےےے
گرومیت کی چیخ میں درد تھا لیکن اس درد سے زیادہ حیرت تھی پریشان تھی اپنے دوست کے لیے اسکی سلامتی کے لیے
بلونت ایک دم سے رک گئی
جو کام مہراں کی اماں کا رونا اور تھپڑ مارنا نہیں کرپایا تھا وہ گرومیت سنگھ کی ایک آواز نے کردیا شیر حیدر سکتے سے نکل کر اسکی طرف متوجہ ہوا تھا
( یہاں ایک بات سامنے آئی سچی پاکیزہ دوستی کسی بھی طرح محبت سے کم نہیں ہوتی یہاں میرا مقصد دوستی اور محبت کا تقابل کرنا ہرگز نہیں کیونکہ محبت چاہے جتنی بھی سچی کیوں ہ نا ہو کبھی اس پر باپ بھائی کی پگڑیوں کے پہرے اثر انداز ہوتے تو کبھی مجبوری میں لپٹی خود غرضی کی پر چھائیاں اسکے ساتھ ساتھ ہوتیں جبکہ سچی دوستی پر ان کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں اثر کھو دیتی ہیں )
جیسے گرومیت سنگھ کی سدا پر شیر حیدر نے اپنے سارے خسارے ایک سائیڈ پر ڈال دیے تھے
جیسے موت کو سامنے پاکر تار تار ہوئے جسم کے ساتھ بھی گرومیت کو اپنے دوست اور اسکی عزتوں کی امان کی فکر تھی
جا چلا جا
شیرے
تجھے واہے گرو کی سوں
تینوں تیرے اللہ کا واسطہ چلا جا میرے ویر
ٹھیک اسی وقت ظالم نے پیٹ سے بھالا واپس کھینچا خون کی بوچھاڑ اسکے جسم سے نکلی تھی
( عورت چاہے جتنی بھی بدکردار بے حیا اور غلط ہو
آخر کو وہ بے انت چاہنے والی ماں ہوتی ہے
بے حساب محبت کرنے والی ایک بیٹی ہوتی ہے
اور
صدقے جانے والی قربان ہونے والی ایک بہن ہوتی پے)
اپنے بھائی کے جسم سے بوچھاڑ کی مانند خون کو نکلتا دیکھ بلونت کے اندر کی غلط بدکردار بے حیا عورت کہیں دور جا سوئی تھی
حال اوے ربااااااا
دھاڑ اوے ربااااا
میرا سوہنا ویر
ماں کی آنکھوں کا چانن
ساڈے سر دی چھاں
میرے باپ کی پگ
وہ پاگلوں کی طرح دو ہتھڑ اپنا سینا پیٹتے بین کرتے دیوانہ وار اسکی طرف بڑھی تھی
وہ واہے گرو کو مانتا نہیں تھا اللہ سے ابھی ابھی ناراض ہوا تھا اسی لیے کسی بھی واسطے کو نا مانتے ہوئے وہ برق رفتاری سے گرومیت کیطرف بھاگا تھا
اس سے پہلے کہ ظالم بلوائی دوبارہ سے میت کے پیٹ میں بھالا مارتا شیر حیدر کی ایک ہی ضرب سے وہ زمین بوس ہوگیا تھا
گرومیت کے گرتے وجود کو شیر حیدر نے ایک ہاتھ سے سہارا دے کر ساتھ لگے پول کے سہارے بٹھایا پھر
کھڑے ہوکر دوسرے ہاتھ میں پکڑا گنٍڈاسہ چلاتے ہوئے سکھوں کو مولی گاجر کیطرح کاٹنے لگا
کچھ ہی دیر میں وہاں بلوائیوں کی کٹی پھٹی لاشیں گرنے لگیں باقی جو بچے وہ اسکی شیروں جسی دھاڑ سے ڈر کر بھاگ گئے تھے
———————————
گاؤں سے کچھ کوس دور ہی چوہدریوں کی حویلی میں بھڑکی آگ نے انہیں متوجہ کیا تھا
ساون کا مہینہ ہونے کی وجہ سے یہاں مطلع ابرآلود ہونے کی وجہ سے سخت حبس تھا بارش کا نام نو نشان نہیں تھا
تیجا سنگھ نے افسوس اور دکھ سے گردن ہلائی اور اپنی حویلی کی طرف مڑ گئے اتفاقاً انہوں نے وہ راستہ اختیار کیا جو چوہدریوں کی حویلی کے پیچھے سے گزرتا تھا
وہ حویلی سے تھوڑا ہی دور گئے ہوںگے کہ کسی کے چیخنے کی آواز نے انہیں گھوڑوں کی لگامیں کھینچنے پر مجبور کیا تھا کوئی لڑکی تھی اور آواز چوہدریوں کی حویلی کی بیک دیوار سے آرہی تھی جہاں غالباً انکا مویشیوں کا کمرہ تھا تیجا سنگھ کا دل کانپ گیا وہ فوراً اپنے دو نوکروں کے ساتھ آگے بڑھا لیکن پوری طرح پھیل چکی آگ انہیں ایسا کرنے سے باز رکھ رہی تھی
شیر جی
کی صداؤں نے تیجا سنگھ سمیت آس پاس کی فضاء کو دھلا دیا تھا
ٹھیک اسی وقت دور کسی نے
مہراں
نام کو پکارتے شکایتوں بھری نظر آسمان کی طرف کی تھی
وہ جو رحیم و کریم ہے اسکی رحمت کیسے برداشت کرتی کہ اسکا نام لیوا پیارا بندہ دکھ اور صبر کی انتہاؤں کو پہنچتے اس سے شکوہ کرے
بھلا کیسے برداشت کرتی؟؟؟
رب کی رحمت نے جوش کھایا تھا اور کچھ دیر پہلے تک ساکت و جامد آسمان وہاں بھی اپنی پوری طاقت سے برسنے لگا تھا
آگ کم ہوتے ہی وہ لوگ آگے بڑھے اور اس لڑکک کو باہر نکال لیا جسکے جسم کا کچھ حصہ جل چکا تھا
تیجا سنگھ رازدری سے اسے اپنی حویلی لے آیا حکیم پہلے سے وہاں موجود تھا جس نے فوراً اسکا علاج شروع کردیا حکیم کو بتایا گیا کہ تیجا سنگھ کی بیٹی جھلس گئی ہے
مہراں کی حالت دیکھتے بلونت کی بھابھی نے روتے ہوئے اپنے ساس سسر کو ساری حقیقت بتا دی جسے سن کر تیجا سنگھ اکیلا ہی واپس چل دیا تھا
بارش اب بھی زور شور سے جاری تھی
——————
شیر حیدر میدان صاف کرتے بھاگ کر گرومیت کی طرف آیا اور اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا جس مے روتی بلکتی بلونت کو جھٹک دیا تھا جس پر اب موت کی نقاہت چھانے لگی تھی
شیر کی چاچی پاس کھڑی بلونت کو تسلی دے رہی تھیں
میت میرے یار
حوصلہ کر ابھی تیرا شیر زندہ ہے میں تینوں حکیم کے پاس لے جاواں گا
پھ
پھر مہراں اور صغراں کی حفاظت کون کرے گا ؟؟
میت نے اٹکتے ہوئے کہا تھا
میت
شیر حیدر کی صدمیں مین ڈوبی سرگوشی ابھری تھی
میت نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
جی میرے شیر
حالانکہ وہ پل پل موت کی گہری وادیوں میں اترتا جا رہا تھا
میں پاک سرزمین آؤں گا اپنے شیرے کے سر پر سہرہ خود سجاؤں گا
شیر حیدر جانتا تھا کہ اب وقت وچھوڑے کا ہے جبھی سسکتے ہوئے صرف اتنا کہہ پایا
نا کر یارا
گرومیت کی سانس اکھرنے لگی شیر کی چاچی اور بلونت دونوں کی چیخیں ایک ساتھ نکلیں تو باوجود ضبط کے شیر حیدر کی آنکھیں چھلکی وہ بلبلا اٹھا تھا
میت
گرومیت سیاں
بارش اب بھی پوری طرح برس رہی تھی دور سے گھوڑوں کے بھاگنے کی آواز آنے لگی
گرومیت نے تاریکی میں ڈوبتے ذہن کے ساتھ بند ہوتی آنکھوں کو بامشکل کھولا پھر چہرے پر َالوہی سی معصوم سی مسکان سجا کر بولا
زندہ ہوں اتنی جلدی ساہ مکن ( ختم ) والے نہیں ہیں
نا میتے
شیر حیدر کا دل چاہتا تھا اپنے دونوں نقصانوں پر دھاڑیں ماریں پوری دنیا کو آگ لگا دے
مہراں کو میں خدا سب سے پہلی بوگی میں چڑھایا تھا جا شیر
وہ لوگ کسی بھی وقت یہاں پہنچ جائیں گے چاچی کو لے کر چلا جا انہیں تیری ضرورت ہوگی
تجھے مہراں کی قسم چلا جا
شیرے
میں کہتا ہوں چلا جا
گھوڑوں کے ٹاپوں کی قریب ہوتی آواز پر گرومیت اپنی بچی کھچی سانسوں کو جمع کرتے ہوئے چیخا تھا
شیر حیدر نا چاہتے ہوئے اٹھا روتی بلکتی چاچی کا ہاتھ تھاما اور ایک طرف جانے لگا
گل سنی
وہ لوگ چند قدم ہی چلے تھے کہ میت کی آواز سنائی دی شیر حیدر پلٹ کر اس تک آیا تھا
میر
میرا ہی
ہک کام کرے گا
اسکی آنکھیں اُبلنے لگیں تھیں اور سارے عرصے میں یہ پہلا لمحہ تھا جب میت کی آنکھوں میں آنسوؤں سے چمکے تھے
توں حکم کر میرے یار
شیر حیدر نے پھر سے اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے
جب تمہاری پاک زمین کے لیے قربانیاں دینے والوں کی تاریخ لکھی جائے تو لکھنا صرف مسلمان ہی نہیں ایک گرومیت سنگھ بھی قربان ہوا تھا
شیرے توں پاک
تیرا دھرم پاک
تیری سرزمین پاااااا ک
اسکی گردن ڈھلک گئی تھی
میتے ےےےےےےےے
شیر حیدر دھاڑیں مار مار کر رویا تھا اس شیروں جیسے شیر علی کی دھاڑوں کو بادلوں نے اپنی گرج چمک میں سمو لیا تھا
گھوڑوں کی آواز کافہ قریب آئی تو مہراں کی اماں اسے گھیسٹتے ہوئے وہاں سے لے گئی تھیں
آنیوالے کل پانچ لوگ تھے جو کچھ دیر پہلے یہاں سے جانے والی ٹرین کو مکمل نیست و نابود کرآرہے تھے
انہیں یہاں لاشوں سے بھرے خون آلود ویران اسٹیشن پر دور پول کے نیچے اجڑے حالوں میں ایک جواں سالہ پاگل دیوانی لڑکی ایک جوان مرد کی لاش کو گود میں بھر کر بیٹھی نظر آئی
پاس جانے پر معلوم ہوا وہ انکے سکھ دھرم سے تھی اور مرنے والا بھی سکھ تھا انہوں نے اس سب کو مسلمانوں کی کارستانی انجام دیا
ان میں سے ایک بولا
نی کڑیے
ششششششش
چپ ایکدم چپ
اس لڑکی نے سر اٹھا کر غراتے ہوئے کہا تھا
گرومیت ویر جی ابھی ابھی سوئے ہیں
کم عمر ہوش سے بیگانہ نوخیز حسن دیکھ کر انکے اندر کا شیطان بیدار ہوا وہ پانچوں اسکی طرف بڑھے
افسوس
ٹرین میں لٹ چکی بہت سی ماؤں بہنوں کی طرح اسکی دردناک چیخیں سننے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ اسکی عزت کا محافظ اسکا بھائی کچھ دور ٹھنڈے ہوچکے وجود کے ساتھ پڑا تھا
کہتے ہیں اس رات امرتسر میں اتنی بارش ہوئی کہ صبح تک پورے پنجاب کی نہریں دھانوں تک بھر گئی تھیں جنکے پانی کا رنگ سرخ تھا
لال سرخ
————————-
اس واقع کو ایک ماہ ہونیوالا تھا تیجا سنگھ کی حویلی میں اب تک سوگ کا سماں تھا ہر آنکھ اشک بار تھی گرومیت سنگھ اسکا اکلوتا بیٹا تھا جسے ظالموں نے بے دردی سے مار ڈالا تھا بلونت کا تاحال کچھ پتا نہیں چل سکا تھا
تیجا سنگھ نے شروع میں اسے بہت ڈھوندنے کی کوشش کی لیکن جب انہین خبر ملی کے لاہور جانے والی ٹرین کو لوٹ کر سب مہاجروں کو. مار دیا گیا ہے تو انہوں نے بلونت کی تلاش ختم کردی کیونکہ گرومیت کی بیوی کے مطابق بلونت شیر حیدر کی ایماء اپنی خوشی سے انکے ساتھ گئی تھی
مہراں کے چہرے کا ایک حصہ جھلس گیا تھا بروقت اور مسلسل ایک ماہ کے علاج کچھ گھریلو ٹوٹکوں سے شکل بہت زیادہ بھیانک ہونے سے بچ گئی تھی
وہ دن بدن ٹھیک ہوتی جارہی تھی اسے ھقیقت بتا دی گئی تھی کہ اسکے سارے رشتے، دار مر چکے ہیں اب تیجا سنگھ ہی اسکا باپ بھی ہے اور رشتے دار بھی ایک سکتہ تھا جو اس پر طاری تھا وہ نا کوئی سوال کرتی نا جواب بس چپ چاپ جئیے چلی جارہی تھی تیجا سنگھ نے وہاں سے ساری ًزمین اور حویلی بیچی اور امرتسر بارڈر کے قریب گاؤں میں آکر بسنے لگا
اس گاؤِں میں اس نے مہراں کو اپنی بیٹی بلونت کے طور پر متعارف کروایا تھا کیونکہ حالات ابھی بہت خراب تھے کسی بھی وقت ہندوستان پاکستان کی جنگ کا خطرہ تھا
———–
سنہ 1948
ہندوستان پاکستان کی جنگ ہوئی جس میں انڈیا کو تین گنا زیادہ وسائل کے باوجود خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ بین القوامی ہلکوں کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ جنگ جیت چکا ہے
جنگ کو چار سال گزر گئے جب ایک دن اچانک گاؤں کے چوپال میں کسی بنتو کملی کا ذکر ہوا
تیجا سنگھ وہیں بیٹھا حقے کے کش لگا رہا تھا
ہاہاہا
سجنون تے بیلیو کیا چیز ہے وہ بنتو کملی
سو واہے گرو کی آفت ہے آفت
مکھن ملائی جیسا جسم اس پر تابعداری ہائے ہائے
یہ کوئی شوقین مزاج آوارہ شخص تھا جو ٹھٹھہ لگا رہا تھا
اوے جیتو بس کر دے اور گرو کے قہر سے ڈر
یہ نا ہو تو کسی دن اسکے قہر سے جل کر راکھ ہو جائے یہ گاؤن کے گردوارے کا رکھوالا تھا
تیجا سنگھ کو جو بات سمجھ آئی اسکا حاصل بیان یہ تھا کہ دو دن پہلے پکی سڑک کے کنارے ایک پاگل لڑکی دلجیت سنگھ کو ملی تھی جو اٹھارویں انیسویں سن میں تھی اور اپنا نام “”بنو “”بتاتی تھی
دلیجیت ان دنوں اکیلا تھا اس لیے اسے اپنے گھر لے گیا اور دو دن تک اسکی عزت کو تار تار کرتا رہا اب چونکے اسکے گھر والے آنے والے تھے تو وہ چاہتا تھا کہ بنتو جلد سے جلد کسی اور کے حوالے کرنا چاہتا تھا لیکن پجاری کی ڈانٹ نے سب کو دبکا دیا تھا
دلجیت کا کہنا تھا کہ وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہے اور ہر بات کے جواب میں کہتی ہے
اچھا چپ
تمہاری بات مانوں گی لیکن چپ
میرا ویر ابھی سویا ہے
شششششش.
بس ایک دم چپ
تیجا سنگھ نے دکھ سے انکھیں میچ لیں کم و بیش ایسی ہی سینکڑوں کہانیاں ان دنوں رونما ہوچکی تھیں اس نے پجاری کو بنتو کملی کی دیکھ بھال کرنے کا کہا ساتھ اسے ہر ماہ امداد کی یقین دھانی بھی کرائی تھی
اسکے ایک ہفتے بعد تیجا سنگھ کی بیوی گردوارے عبادت کرنے آئی تو ایک لڑکی پر اسے بلونت کا گماں ہوا جسے ہجاری پچکارتے ہوئے کہیں جانے کا کہہ رہا تھا جب وہ نا مانی تو زبردستی لے جانے لگا تھا
تیجا سنگھ کی بیوی کے قدم خود، ہی اس طرف بڑھ گئے پجاری کا رخ گردوارے کے پیچھے بنے کمروں کی طرف تھا
جب وہ کمروں تک پہنچی تو اسے سب کمرے بند ملے تھے اسے کسی انہونی کا احساس ہوا تو جاکر ایک ایک کمرے کا دروازہ دھکیلنے لگی جب اس نے آخری کمرے کا دروازہ دھکیلا تو اسکی چیخ نکل گئی تھی
وہ بلونت ہی تھی اسکی بیٹی اسکے دل کا قرار جسکے ساتھ پجاری برہنہ حالت میں زور زبردستی کی کوشش کررہا تھا
گاؤں کے سب سے بڑے زمیندار کی بیوی کو یوں سامنے دیکھتے پجاری بوکھلا گیا تھا
پھر اس رات کی اگلی صبح گردوارے کے دروازے پر پجاری کی جلی ہوئی مسخ شدہ لاش ملی تھی
لوگوں کا کہنا تھا اس پر واہے گرو کا قہر ٹوٹا ہے
—————
ہجرت کے پانچویں سال پرانے گاؤن کا ایک بندہ انہین دھونڈتے ہوئے وہاں تک پہنچا تھا جس نے شیر حیدر کے زندہ ہونے اور خط بھیجنے کی اطلاع دی تھی
مہراں نے اس سارے عرصے میں خود کو سنبھال لیا تھا تیجا سنگھ اور اسکی بیوی کی محبت کے صدقے وہ بلونت کو بھی معاف کر چکی تھی جو مکمل پاگل ہوچکی تھی
تیجا سنگھ نے تحقیق کروائی تو پتا چلا اسے ایک سال میں وقتاََ فوقتاََ بہت سے بھیڑیوں نے نوچا تھا آخری بار اسے ایک فوجی ٹرک سے نیچے دھکا دیا گیا تھا
جنگ کے دوران بارڈر پر جانے والے فوجیوں کی ایک یونٹ نے اسے رات کی تاریکی میں جنگلی کتوں سے بچانے کے لیے اپنے ٹرک مین سوار کیا تھا لیکن اسے اس ٹرک سے آزادی چھ ماہ بعد ملی تھی
اسکا خیال تھا کہ بلونت کو اپنے کیے سے زیادہ سزا مل چکی تھی ۔
مبارک خبر کے آتے ہی تیجا سنگھ نے اسے فوراً پاکستان بھیجنے کا انتظام کیا اور جس صبح وہ شیر حیدر کے خط میں لکھے گئے ایڈریس پر پہنچی اس سے ایک رات پہلے وہ مکمل طور پر وہاں سے جاچکا تھا
کہاں کس شہر یہ کسی کو نہین پتا تھا
مہراں نے وہیں رہ کر شیر حیدر کا انتظار کرنے کا سوچا بوا حمیدہ خدا کی طرف سے غیبی مدد ثابت ہوئی تھین جنہوں اسے گھر میں اپنی دوست متعارف کروا کر اپنے ساتھ رکھ لیا تھا
شروع کے چند سال بلکل ٹھیک گزرے حمیدہ کی دوست ہونے کی وجہ سے سب اسے اماں نسائی کہنے لگے وہ بھی احتیاطََ ہر وقت گھونگھٹ نکالے رکھتی تھی
پھر پتا نہیں کیسے بوا کے ادھیڑ عمر بیٹے کو اسکی کم عمری کا پتا چل گیا
اور اسے تنگ کرنے لگا بوا کی بہو نے سب جان کر اسے ہی قصور وار ٹہرایا پھر ایک دن خدا کرنا ہوا
بوا کا کوئی رشتے دار انکے گھر آیا اسکے جانے کے دو دن بعد بوا اسے لاہور لے آئیں
اس گھر میں قدم رکھتے اسکا دل زور دے دھڑکا تھا ایک جانی پہچانی خوشبو نے اسکے دل اور روح کو اپنے حصار میں لیا اسے الہام سا ہوا کے شیر حیدر یہیں کہیں ہے آس پاس لیکن کہاں؟؟
یہ وہ جاننے سے قاصر تھی
سعدیہ بی بی ایک بہت اچھی عورت اس نے مہراں کو دیکھتے ہی اسے چھوٹی بہن بنا لیا تھا گھر کا مالک شاید گھر نہین تھا کیونکہ وہ دو دن اس نے بغیر کسی مرد کو دیکھے اسکی آواز سنے گزارے تھے
———————-
اسے لاہور آئے تیسرا دن تھا اسکی فلحال سرونٹ کوارٹر میں تھی آج موسم میں بہت گھٹن تھی سانس بند کرتا حبس چہار سوں پھیلا تھا کچھ اسکے اندر کا موسم بھی اتھل پتھل سا تھا
آج تین دن بعد اسکی حالت پھر سے پہلے دن کی طرح تھی بلکہ آج شدت کہیں زیادہ تھی وہ بآسانی کسی کے لبادے کی خوشبو محسوس کرسکتی تھی
کسی کے ہونے کا احساس اسکا دل دھڑکائے جارہا تھا اسکا دل کہتا تھا کوئی بہت مھبت بھری وارفتگی سے اسکا زکر کیے جارہا تھا اسے یاد کیے جارہا ہے
( یہ وہی وقت تھا جب ٹیرس پر بیٹھے سعدیہ اور شیر حیدر کے درمیاں مہراں کی خوبصورتی پر بحث ہوئی تھی اور شیر حیدر نے مہراں کو چاندنی رات چائے اور سگریٹ سے تشبیہ دی تھی)
اسکے اندر کوئی چیخ چیخ کر کہتا تھا
ہے
یہں کہیں آس پاس ہے
وہ خود سے اور اپنے جذبوں سے نبرد آزما تھی جب باہر بادل گرجے اور بارش شروع ہوگئ
اسے یاد آیا کہ سردیوں کی بارش تو اسے دیوانہ بنا دیتی تھی لیکن دس سال ہوئے شیر حیدر کے بعد تو سارے ساون اس پر گراں گزرتے تھے لیکن آج نجانے کیوں اسکا دل چاہتا تھا بھیگنے کو اس بارش کو خود میں سمونے کو اسکے دل کا کہنا تھا اس بارش کے قطروں میں شیر حیدر کا لمس ہے اسکے دل کا کہنا تھا اس بارش کے قطروں میں اسکی خوشبو ہے
وہ ناچاہتے ہوئے بھی دل کی مانتے ہوئے باہر چھوٹے سے لان میں نکل آئی اس نے اسوقت راجستانی لہنگا پہن رکھا تھا
آنکھیں بند کرکے بارش میں دونوں ہاتھ کھول کر منہ آسمان کی طرف کیے بھیگتے وہ ادھر سے ادھر ہونے لگی
ایک مقام پر آکر وہ ساکت ہوئی بارش کے قطرے اسکی آنکھوں پر گرے تھے اسے لگا جیسے اسکی آنکھوں پر شیر حیدر کا لمس جگمگایا ہو دل نے دھڑکنے کی لہہ بدلی بارش کے قطرے اسکے چہرے کو بھگو رہے تھے اسے لگا جیسے شیر حیدر کا لمس پورے چہرے پر پورے وجود پر ٹہرا روح جھومنے لگی تو انجانے سے خوف کے زیر اثر اس نے آنکھیں کھولی تھیں
وہ اسوقت جہاں کھڑی تھی وہاں پر بارش کے قطرے ٹیرس سے ٹکرا کر زمین کی طرف آتے تھے اور ٹیرس پر شیر حیدر کھڑا بارش میں نہاتے ہوئے کسی پرانی یاد کو تازہ کررہا تھا
اس بات سے بلکل انجان کے اسکے جسم سے مس ہوکر نیچے گرنے والے قطرے کسی کے سالوں پہلے سے دھڑکنا بھول چکے دل کو ایک نئے سُر میں دھڑکنا سکھا رہے ہیں کسی کی سالوں سے جلتی روح کو سیراب کرتے ہوئے یہ بارش کے بے ضرر قطرتے اسکو چھوتے ہی کسی کے لیے آب حیات بن کر ساری آبلہ پائیوں کی مسیحائی کر رہے ہیں
—————++
مہراں نے جب اوپر دیکھا تو شیر حیدر اور سعدیہ کو ایک ساتھ دیکھنے اسکے نئے سُروں میں دھڑکتے دل کو دھکا سا لگا تھا آنکھیں جلنے لگیں تو وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئی
گھر کے سامنے بنے پارک پہنچ کر وہ ایک تاریک گوشے میں جا بیٹھی اچانک دس سالوں سے رکے آنسو بہنے لگے تھے اس نے دس سالوں بعد کھل کر زارو زار اپنی ماں تایا تائی چھوٹے بھائیوں اور صغراں کا دکھ منایا تھا کیونکہ شیر حیدر کا دکھ اسے اب عمر بھر منانا تھا
کچھ دیر بعد وہ اٹھی اور بارش میں آکر گول گول چکر کھانے لگی گھونگھٹ اب بھی اسکے چہرے پر تھا وہ اتنا گھومی کہ تھک کر ایک طرف کو گر گئی جہاں اسکے پاؤں پر چوٹ آئی تھی
کوئی بھاگتے قدموں اسکی طرف آیا تھا وہ گھونگھٹ تلے بھی جان گئی کہ شیر حیدر اور سعدیہ ہیں حیدر امے استفسار ہر اس نے کہا تھا
درد نہیں ہوتا جب کوئی ہمدرد نہیں ہوتا
اور اٹھ کر دوسری سمت چل دی اس رات کی صبح اسکی جگہ ا یک نئی مہراں نے لے لی جس نے شیر حیدر کی خواہش چھوڑی دی تھی جسکے دل کو اتنی ہی بات کافی تھی کہ وہ شیر حیدر مے سائباں میں ہے
اس نے سعدیہ کو بلکل مہارانی بنا کر رکھ دیا گھر کے علاوہ اسکے بچے تک وہ سنبھالتی تھی کیونکہ بچوں سے اسے شیر حیدر کی خوشبو آتی تھی
۔شیر حیدر کے سامنے وہ بہت کم جاتی اگر جانا ناگزیر ہوتا تو اسکا گھونگھٹ پہلے کی نسبت زیادہ گیرا ہوتا تھا ۔
اسے انکے گھر آئے چھ ماہ ہوگئے تھے اس دن سعدیہ کسی کام سے با ار گئی ہوئی تبی ننھی ابیہا اسکے پاس تھی جسے نہلانے مے بعد وہ پیچھلے صحن میں کھلا رہی جب وہ چلا آیا بغیر کسی وجہ کے اسکی تزلیل کی اور اپنی بیٹی کو لے کر چلا گیا
اس دن مہراں ما دل شدت سے چاہا تھا کہ اپنی حقیقت آشکار کردے
جس کے لیے اس نے اپنا گھو گھٹ بھی الٹا لیکن ہو ہرجائی بغیر رکے بغیر پلٹ وہاں سے جاچکا تھا
—————-
اوپر کا پورشن سیٹ ہوگیا تو ایک دن انکے دروازے پر نئے فرنیچر سے بھرا ٹرک آگیا مزدور سامان اتارمر اوپر لے جانے لگے تھے
شام کو شیر حیدر گھر لوٹا تو اس نے سعدیہ سے اوپر کے پورشن میں سامان سیٹ کرنے کی بات کی سعدیہ نے ہر بار کی طرح یہ کام بھی مہراں کے زمے لگایا اور خود پار چلی گئی کیونکہ پرسوں شیر حیدر کے دوست کو اوپر کے پورشن میں شفٹ ہونا تھا چونکہ اسکی نئی نئی شادی ہوئی تھی تو شیر حیدر نے نئے گھر اور دوست کے اعزاز میں ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا تھا
مہراں نے دو دنوں میں پوری جانفشانی کے ساتھ سارا پورشن سجایا تھا جب وہ واپس نیچے جانے لگی تو اس نے پلٹ کر حسرت بھری نظروں سے اس سجے سجائےگھر مو دیکھا جسکے مکین آج شام تک شفٹ ہونے والے تھے
( خوبصورت بدصورت اچھی بری گوری یا کالی ہر عورت کا خواب ہوتا کے اسکا گھر جسے وہ اپنے ہاتھوں سے سجائے سنوارے جہاں کی وہ بلاشراکت شہزادی ہو)
حسرت بھری نظروں کی وجہ یہ تھی کہ اس نے بڑے دل سے اس گھر کو سجایا تھا لیکن وہ اسکا نہیں تھا
ابھی وہ سیڑھیوں کے پاس کھڑی گھر کو طائرانہ نظروں سے دیکھ رہی تھی جب نیچے کے دروازے سے کوئی اوپر کی طرف آیا
دونوں پورشنز کی انٹرنس الگ جبکہ مین گیٹ ایک تھا
وہ اپنے خیالوں میں ڈوبی تھی جب شیر کی غصیلی آواز گونجی
اے ۔مائی؟؟
یہاں کھڑی کیا کررہی ہو
اس نے بوکھلا کر اپنا گھونگھٹ درست کیا
ساب وہ
وہ ساب
اس سے کوئی بھی جواب نہیں بن رہا تھا
کیا ساب ساب لگا رکھی ہے؟
ابھی گھر والے آئے نہیں اور تم حریص نظروں سے دیکھنے لگی ہو نظر لگانی کے کیا؟؟؟
چلو بھاگو یہاں سے
شیر حیدر نے نسائی کو اچھا خاصا جھاڑ کر نچیے بھگا دیا تھا
وہ دکھے دل کے ساتھ کچن میں کام کررہی تھی جب سعدیہ نے اسے بتایا کہ جس دوست نے شفٹ ہونا تھا وہ اپنے گاؤں سے لوٹا نہیں ہے اور یہ کہ وہ گلے ہفتے تک شفٹ ہوگا
کل کی دعوت میں سب دوست احباب کو کیا جواب دینا ہے اسی لیے وہ پریشان تھے اور تم سامنے آگئیں
نسائی نے ٰایک لاابالی سا آنسو دائیں ہاتھ کی آخری انگلی سے صاف کیا اور بولی
کوئی بات نہیں باجی
———————
دعوت والے دن اس نے سعدیہ کے ساتھ مل کر سارا کام مکمل کروایا بلکہ سارا کام اسی نے کیا سعدیہ صرف وقتاََ فوقتاَل ہدایت دیتی رہی تھی
جب تک شیر حیدر گھر پہنچا سعدیہ اور بچے تیار ہوچکے تھے ایک نظر سارے گھر کو دیکھتا انتظامات چیک کرتا وہ کھانے کے بارے پتا کرنے کچن میں آیا تھا ہر، چیز تیار تھی اسکی آنکھوں میں ستائش ابھری جو کے کونے میں سلیب صاف کرتی نسائی کو دیکھ غصے میں بدلی تھی
سعدیہ. سعدیہ
وہ وہیں پر کھڑے ہوکر چیخنے لگا
جج جی بھاگی بھاگی آئی تھی
تم اس گھر کی مالکن ہو کیا مہمانوں کو سرو کرتے اچھی لگو گی؟؟
سعدیہ حیران ہوئی
وہ کہنا چاہتی تھی کہ ہمشیہ اچھی گھر والیاں گھر آئے مہمانوں کو خود ہی سرو کرتی ہیں لیکن اسکے منہ سے جی نہیں نکلا
نسائی دیکھ لے گی انہیں؟
کیسے دیکھ لے گی اتنی دور سے بھی اس سے اٹھنے والی لہسن پیاز کی بدبو کی وجہ سے یہاں کھڑے ہونا مشکل ہے اسے کہو نہا دھو کر کوئی انسانوں والا حلیہ اپناے اسنے گھاگھرا چولی پر چوٹ کی اور چینج کرنے چلا گیا
وہ چینج کرکے بالوں میں کنگھا کررہی تھا جب سعدیہ اندر داخل ہوئی
حیدر اسکے پاس سب کپڑے اسی طرح کے ہیں میرا کوئی بھی سوٹ اسے پورا نہیں آئے گا
تو جاو جاکر بوتیک سے نیا دلوا دو
آجکل نجانے کیوں اتنے غصے ۔میں رہتے ہیں وہ بس سوچ سکی تھی ہھر بات بدلنے کو بولی
طنز بعد میں کیجئے گا ابھی مسلے کا حل سوچیں
وہ کچھ دیر اسکے چہرے کی طرف دیکھ کر سوچنے لگا پبر بولا
شاہد لوگوں سامان کے ساتھ انکے کپڑے بھی آئیں ہونگے اسے اوپر لے جاو اور کوئی مناسب سا جوڑا نکالا کردے دو
پر مگر
سعدیہ حیران رہ گئی تھی
میں تمہاری عورتانا اگر مگر میں اپنی بے عزتی نہیں کروا سکتا شاہد لوگوں کا اگلے ہفتے تک آنا ہے جب تک مارکیٹ اسے نیا سوٹ لاکر رکھ دیں گے
—————-
اوپر الماری میں سارے ہی سوٹ بھاری تھے حیرت کی بات تھی کہ سارے ہی نسائی کے سائز کے تھے لیکن سعدیہ مزید حیدر سے جھاڑ نہیں سن سکتی تھی جبھی اس نے نسائی کو نسبتاً کم بھاری کچے سیب کے رنگ کا جارجٹ کا سوٹ نکال کردیا تھا
اب وہ سب مہمانوں میں نروس سی ادھر سے ادھر کام نبٹاتی پھر رہی تھی چہرہ اب بھی چھپا ہوا تھا
کھانے سے پہلے شیر حیدر کے سب دوست اور انکی بیویاں ایک ساتھ بیٹھے خوش گپیوں میں ۔مصروف تھے
جب وہاں بیت بازی کا مقابلہ شروع ہوا چونکہ سب ہی پڑھے لکھے اور ادبی ذوق کے حامل تھے تو محفل خوب جمی وہ سب کو وقتاََ فوقتاَ چائے کافی اور دوسرے لوازمات سرو کرتی رہی لیکن اس سب کے دوران اسے محسوس ہوتا رہا کہ وہ مستقل کسی کی نظروں کے حصار میں ہے
لیکن جب انکی طرف متوجہ ہوتی تو وہ سب آپس میں مشغول ہوتے ابیہا تنگ کرنے لگی تو سعدیہ اسے سلانے کی غرض سے کمرے کی طرف چلی گئی
وہ سب کو چائے دے کر کچن کی طرف پلٹی تھی جب محفل میں ایک دم خاموشی چھا گئی وہ اچھنبے اے پلٹی تو شیر حیدر کی گمبھیر آواز نے سکوت کو توڑا تھا
اسے کہنا!
قسم لے لو
تمہارے بعد جو ہم نے
کسی کا خواب دیکھا ہو
کسی کو ہم نے چاہا ہو
کسی کو ہم نے سوچا ہو
کسی کی آرزو کی ہو
وہ یک ٹک نسائی کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے اسکی آنکھوں میں جھانک کر ہر ایک بات باور کروا رہا ہو
کسی کی جستجو کی ہو
کسی کی راہ دیکھی ہو
اسے کہنا! قسم لے لو
کسی کا قرب مانگا ہو
کوئی انہوئی ہونے کو تھی یا شاید ہوچکی تھی نسائی کا دل خوف سے بند ہونے لگا تھا
کوئی دل میں اترا ہو
کوئی تم سے پیارا ہو
اسے کہنا! قسم لے لو
کوئی دل میں بسایا ہو
کوئی اپنا بنایا ہو
شیر حیدر اٹھ کھڑا ہوا اور نسائی پر نظریں جمائے اسکی طرف بڑھنے لگا
نسائی ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے لگی تھی
کوئی روٹھا ہو تو ہم نے
اسے رو رو منایا ہو
کسی کی یاد کا موسم
میرے آنگن میں آیا ہو
برسوں پہلے کسی پیارے سے شخص کا خود کو رو رو کر منانا یاد کرتے. گھونگھٹ تلے نسائی کی آنکھیں بہنے لگی تھیں
اسے کہنا ”
قسم لے لو
کسی سے بات کرنے کو
کبھی یہ ہونٹ ترسے ہوں
کبھی راتوں کو اٹھ اٹھ کر
تیرے دکھ میں نہ روۓ ہوں
شیر حیدر بلکل نسائی کے پاس پہنچ اسکی مخالف سمت ین کندھے سے کندھا ملائے کہہ جا رہا تھا
تمہارے بعد ہم ایک پل بھی
اگر جو چین سے سوۓ ہوں
اسے کہنا! قسم لے
نسائی پلٹ کر جانے لگی تو اسکا ٹھنڈا پڑتا ہاتھ کسی نے بہت مضبوطی سے پکڑا اب دونوں کا رخ ایک ہی طرف تھا نسائی نے گردن اٹھا کر شیر حیدر کی طرف دیکھا جس نے سرخ انگارے جیسی آنکھوں کے ساتھ سر نا میں ہلایا تھا
اسے کہنا!
قسم لے لو
کبھی جگنو، کبھی تارا
کبھی ماہتاب دیکھا ہو
اسے کہنا! قسم لے لو
تمہارے بعد ہم نے
جو کسی کا خواب دیکھا ہو
اسے کہنا!
قسم لے لو
قسم لے لو
اسے کہنا
قسم لے لو
نسائی اسکا ہاتھ جھٹک کر جانے لگی تو پچھے اسکی آواز گونجی تھی
او میری کملی مہراں
اب تک اعتبار نہیں آیا
اپنے شیر جی کا
اسکی محبت کا؟؟
مہراں کا بند ہوتے دل نے پھر سے دھڑکنا شروع کردیا تھا لیکن وہ رخ موڑے کھڑی رہی
جئے میں تیرے پیراں دی خاک چا کے
سرمہ پاواں
تے تاں منیسیں کہ پیار کرداں بے حساب کرداں
( جو تمہارے پاؤن کی خاک اٹھا کر اپنی آنکھوں میں سرمہ ڈالوں
تب مانو گی کہ تم سے پیار کرتا ہوں بے حساب کرتا ہوں))
جہاں مہراں بے یقینی سے پلٹی وہیں حاضرین ہااا کرتے اٹھ کھڑے ہوئے تھے
کمرے کے دروازے میں کھڑی سعدیہ کو احساس ہوا اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ہار خریدی ہے اسی لیے اب واویلا کرنا بے مقصد ہے کیونکہ شراکت تو وہ برداشت کر ہی لیتی لیکن اس شخص سے دوری سہنا اسکے با کی بات نہیں تھی
ایک ہاری ہوئی مسکان کے ساتھ نجانے کب بہہ جانے وے آنسو اس نے صاف کیے اور واپس کمرے میں جاکر اندر سے کنڈی لگا لی
——————–
ایک سال بعد
آج انکی شادی کی سالگرہ تھی
سعدیہ دو دن پہلے بوا کی بیٹی کی شادی میں شرکت کرنے بچوں کو بھی ساتھ لے گئی تھی
شیر حیدر کیک لے کر گھر لوٹا تو مہراں کمرے میں نہین تھی اسکے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی وہ کیوں بھول گیا کہ پورے چاند کی رات مہراں بی بی گھنٹوں چاند کے ساتھ راز ونیاز کرتے گزارتی ہیں؟
مسکراتے ہوئے زیر لب کوئی سریلی سی دھن گنگناتے وہ چھت کی طرف بڑھ گیا تھا
انکی سوسائٹی سے باہر کے خانہ بدوشوں نے بستیاں بنائی تھیں اجنکی عورتیں دوپہر اور رات کو گھر گھر جاکر گڑوی بجاتیں اور گھر والے روٹی آٹا پیسے غرض جو کچھ ہوتا انہیں دیتے تھے
وہ کافی دیر چھت سے نظر آنیوالی انکی بستیوں کو دیکھتی رہی پھر تھک کر چارپائی پر آبیٹھی تھی
چہرے کی ایک سائیڈ سرخ ٹشو کے دوپٹے سے ڈھانپے آنکھیں بند کیے ابھی تک شیر کی آمد سے لاعلم بیٹھی تھی جو چپکے سے اس کے پاؤں میں آ بیٹھا تھا
پورے چاند مہ دودھیا روشنی مہراں کے ناک کی نتھلی جلا بخش رہی تھی تو دائیں کان میں پہنا جھمکا سانولی لمبی گردن پر الگ ہی لشکارے مار رہا تھا اور ساتھ ساتھ شیر حیدر کے دل کو للچا رہا تھا۔
لیکن پھر دل کو ڈپٹ کر اس نے جیب سے پائل نکالی
گھنگرو کی جھنکار پر مہراں نے گھبرا کر آنکھیں کھولی سہمی ہوئی ہرنی جیسی پر حزن لال آنکھوں سے دیکھتی وہ شیر حیدر کے دل کو بے ایمانی پر مائل کرنے لگی تھی
لیکن اس بار شیر نے خود کو یا دل کو ڈپٹنے کی بلکل بھی کوئی کوشش نہیں کی کیونکہ اب دل کوئی شرارتی ضدی بچہ بنا بیٹھا تھا
مہراں بی بی
یہ جھمکا تو اتاریں زرا؟؟
مہراں چونکی
ایں
کیوں اتاروں آپ نے پہننا ہے کہا
لاحول ولاقوة
آج تک بونگیاں مارنے میں کوئی ثانی نہیں
بیگم صاحبہ کا
کیا کیا کہہ رہے ہیں آپ؟
کچھ نہیں
نہیں تو میں آپکو بے وقوف لگتی ہوں؟
شیر جی شاید آپ بھول رہے ہیں میں پوری پنج جماعتیں پاس ہوں اور میرے جیسا عقل مند پورے امرتسر میں نہیں تھا
اتنے عرصے بعد مہراں کو اپنی جون میں واپس آتا دیکھ شیر حیدر کے دل میں سکون اترا تھا
کہاں گم ہو
بتائیں کوئی شک؟؟
ہاں جی ہاں جی اس نے سر ہلایا
ہیںں
میرا کی صدمے میں ڈوبی چیخ ہر فوراً ہاں میں ہلتے سر کو نا میں ہلایا
نا جی
نا جی
بندہ تو یہ عرض کررہا ہے کہ
ہنج جماعتیں پاس سب سے عقل مند مہراں بی بی آپ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں
لیکن کچھ تو کملا جھلہ بے وقوف شیر چوہدری
بھی کہہ رہا ہے
ہاہ ہ ہ ہ
مہراں نے پرانی عادت لے مطابق منہ پر ہاتھ رکھتے لمبی ہاہ کی تھی لیکن اسکا دورانیہ کم تھا
تو میں کنی واری پوچھ چکی ہوں بتائیں بتائیں
اور میں کتنی واری کہہ چکا ہوں
یہ جھمکا ہٹائیں ہٹائیں
اسنے ہو بہو مہراں می نقل اتاری تھی
مہراں کو پھر سے ہاہ کرتے ریکھ شیر نے ہاتھ سے اسکا کھلا منہ بند کیا
اصل میں جو بات میں کہنا چاہتا ہوں یہ جھمکا اس میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے
شیر حیدر کے لو دیتے لہجے نے مہراں کی تیزی بھک سے اڑا دی تھی
لیکن پھر فوراً سے سنبھلتے ہوئے بولی
شیر جی
شیر نے جی جان کہاں
جی مہراں جی
شیر جی میں نے کہا بولتے وقت کچھ اپنی عمر رسیدگی کا ہی لحاظ کرلیا
شیر حیدر نے اسے گھور کر دیکھا تو وہ کھلکھلا کر ہنستی چلی گئی شیر نے نظروں ہی نظروں میں اسکی نظر اتاری
اس کے پاؤں میں پائل پہنا دی پھر شیر حیدر نے اسکا دوسرا، پاؤں اٹھایا جس کے تلوے پر گزرے ماضی کی تلخ یادوں کا ایک چھوٹا سا نشان اب بھی باقی تھا
اس نے بنا سوچے سمجھے مہراں کے پاؤں کے تلوے پر ( ہل) سے لگے زخم کے نشان کو چوم لیا تھا
مہراں کو لگا دس سالوں سے بے اعتباری کی سزا کی آگ میں جھلستے دل کو ایک دم سے قرار آیا ہو
اپنی کم عقلی اور بے اعتباری کے جواب میں آج بھی اس شخص کی بے لوث بے انت محبت پر اسکی آنکھیں چھلک گئی تھیں
وہ اپنے سود وزیاں کا حساب لگانے میں مگن تھی جب شیر حیدر چوہدری نے ایک ہاتھ اے اسکا جھمکا ہٹایا اور پھر اسکی روح کے تار چھیڑتی آواز میں گویا ہوا
نتھلی کتنا جچتی ہے اُس پگلی کو
اُف کانوں میں پڑ کر جُھمکے جھومتے ہیں
پائل پہنانے کے فن سے واقف ہوں
جانتا ہوں کہ پہلے پاؤں چومتے ہیں
اس سے پہلے کے شیر علی مزید کچھ کہتا یا مہراں کوئی ری ایکشن دیتی سامنے گھر کے دروازے کے باہر کسی خانل بدوش عورت نے گڑوی بجاتے کسی سرائیکی گیت کی تان اٹھائی تھی
( لہہ پئی بارش ٹاہلی تھلے کھلو گئی آں
جدوں دا ماہی ملیاں میں تے کملی ہوگئی آں )
بارش ہوئی تو مین ٹاہلی کے درخت تلے کھڑی ہوگئی جب مجھے محبوب ملا میں تو ہاگل ہوگئی
ان دونوں کو لگا تھا یہ شعر انکے دل کی صدا ہیں کیونکہ ایک دوسرے سے ملنے کے بعد وہ واقعی کملے ہوگئے تھے
ان لفظوں کے ساتھ میں نا چاہتے ہوئے بھی محبت کی اس داستاں کو ختم کرنے پر مجبور ہوں کیونکہ کسی بھی کہانی کا حسن ہلکا سا ادھورا رہ جانا ہوتا ہے
ختم شدہ
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...