پاک انڈین بارڈر
’’سنو۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کل چکن بریانی بڑھیا تھی۔‘‘
’’تمہاری دارو بھی لاجواب۔‘‘
’’لیکن آج ذرا سنبھلنا۔‘‘
’’کیوں۔‘‘
’’نیا افسر آیا ہے۔‘‘
’’میرا بھی۔‘‘
’’تو آج فقط دال۔‘‘
’’اور ادھر بس پانی۔‘‘
٭٭٭
ان حسینوں نے اجاڑی ہیں بستیاں
کسی پہاڑی پر رہتے تھے چند بے فکر سجن۔ چاروں جانب ان کی آوازیں اور قہقہے سنائی دیتے۔ پھر وہاں ایک خوبصورت عورت گئی۔ اب سنا ہے وہاں فقط الو بولتے ہیں۔
٭٭٭
گرم خون، ٹھنڈا پانی
’’ناس پیٹی، خون بہت گرم ہو گیا ہے تیرا۔ سارے خاندان میں ناک کٹوا دی۔ کنوئیں میں کود کر مر جا۔‘‘ ماں چلائی۔
’’کود جاتی ماں، پر پانی بہت ٹھنڈا ہے۔‘‘
٭٭٭
سب کچھ کھا گئے ختم کہانی
’’ایک تھا راجا، ایک تھی رانی، دونوں مر گئے، ختم کہانی۔‘‘دادی بولیں۔
’’ایک تھا راجا، ایک تھی رانی، سب کچھ کھا گئے، ختم کہانی۔‘‘ پوتا ٹی وی دیکھتے ہوئے بولا۔
٭٭٭
فیس بک کا جنازہ
والد صاحب کی موت والی پوسٹ پر ہزار لائیکس اور دو سو کمنٹس آئے۔ کیا بات ہے میری۔ ہاں بس، جنازہ ذرا سُونا رہا، ملازمین لے کر دس افراد تھے۔
٭٭٭
دان
مندر میں لاکھوں کا دان چڑھا کر سیٹھ نیچے اترا تو سائیکل رکشے والا رک گیا۔
’’کیا لو گے۔‘‘
’’دس۔‘‘
’’منہ کو حرام لگا ہے، پانچ دوں گا، چلے گا۔‘‘
٭٭٭
بے زبان مخلوق
’’کون تھا۔‘‘
’’بھکاری تھا۔‘‘
’’کیا بولتا تھا۔‘‘
’’روٹی کا سوال کیا۔‘‘
’’ہڈ حرام ہیں سب۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’ٹامی کی خبر۔‘‘
’’دودھ، ملائی، گوشت دے دیا۔‘‘
’’خیال رکھا کرو۔ بیچاری، بے زبان مخلوق ہے۔‘‘
٭٭٭
انکریمنٹ
خبریں رکیں تھیں۔۔ انکریمنٹ جو رکا تھا۔۔ ۔
پھر اچانک انکریمنٹ کا اعلان ہوا۔۔ ۔
خبریں خوشی خوشی چل پڑیں۔۔ ۔
ایمرجنسی کی
نا انصافی کی
قتل کی
اغواء کی
سازشوں کی
فراڈ کی۔۔۔۔
٭٭٭
بوتل سلامت ہے
ٹکر زور کی لگی۔
گھٹنا گیا۔ اوپر سے گالیاں بھی ملیں۔
’’سالا، شرابی، اندھا۔‘‘
وہ خاموش رہا۔ بس جیب ٹٹولی، بوتل سلامت پا کر خوش ہوا اور لنگڑاتا چل دیا۔
٭٭٭
اندھیرا
روشنی مدھم ہوئی، نا انصافی کا اندھیرا بڑھا۔ اجالے اسے ڈرانے لگے۔۔ ۔۔ کب، کہاں، کیا ہو جائے۔۔ ۔۔ کچھ نہیں پتا۔۔ ۔۔ بہت سوچا۔۔ ۔ غور کیا۔۔ ۔۔ پھڑپھڑایا۔۔ ۔۔ تلملایا۔۔ مگر پھر اندھیرا راس آ گیا۔
٭٭٭
بات نہیں کرنی
’’ہیلو‘‘
’’کیا علی ہیں۔‘‘نسوانی آواز ابھری۔
’’وہ کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’آپ کون؟‘‘
’’ نائلہ، ان کی بیوی۔ آپ کا نام؟‘‘
’’نہیں، اب مجھے کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘ انداز غصیلا تھا۔
٭٭٭
روشن کوٹھی کے کالے دل
’’بڑی عالیشان کوٹھی ہے، روز روشنیوں سے چمکتی رہتی ہے۔‘‘
’’یہ تو ہے۔‘‘
’’چپا چپا روشن ہے۔‘‘
’’ سو تو ہے، لیکن مکینوں کے دلوں کے اندر گھپ اندھیرا پھیلا ہے۔‘‘
٭٭٭
خوبصورتی کی قیمت
پتے حاسد ہوئے۔۔
پھولوں نے سمجھایا، ’’ خوبصورتی کی ایک قیمت ہے۔ مثلِ طوائف دکانوں میں سج کر۔۔ چند روپیوں کے بدلے۔۔ ۔ بانہوں، گلوں میں لپٹو۔۔ پھر مسل کر۔۔ ۔ دھتکارے جاؤ۔‘‘
٭٭٭
سیٹھ کا کتا
(اردو کا پہلا ون ایکٹ تیس لفظی ڈرامہ)
منظر: ( جھونپڑے میں ماں، بچے )
بچہ: ’’اگلا جنم ہوتا ہے؟‘‘
ماں: ’’ہاں‘‘
بچہ: ’’کچھ بننے کی دعا مانگو؟‘‘
ماں: ’’ضرور‘‘
بچہ: ’’ سیٹھ کا کتا بننا چاہوں گا‘‘
(پردہ گرتا ہے )
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید