رات کے کسی پہر وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا سارا بدن پسینے سے شرابور تھا اور سانس دھونکنی کی مانند چل رہی تھی۔ جیسے ابھی ابھی کسی جکڑ بندی سے آزاد ہوا ہو۔ پچھلے کچھ مہینوں سے ایسا کئی بار ہو چکا تھا مگر خواب اسے یاد نہ رہتا صبح اٹھ کر وہ معمول کے مطابق اپنے سب کام انجام دیتا۔ ایسا تو بہت لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے ہر شخص زندگی میں کئی بار خواب میں ڈرتا ہے یہ ایک عام سی بات ہے اور یہ سوچ کر وہ اس عارضی کیفیت کو ذہن سے جھٹک دیتا۔
وہ آرمرڈ کور کا ایک بہت بہادر سپاہی تھا۔ اونچا لمبا مضبوط جسم کا مالک، کھلے کھلے ہاتھ پاؤں اور چوڑے چکلے سینے کے ساتھ وہ اپنے چہرے مہرے سے ہی پہچانا جاتا کہ فوجی جوان ہے۔
اپنی سروس کے دوران اس نے کئی اہم اور خطرناک سمجھے جانے والے محاذوں پر مہم جوئی میں حصہ لیا تھا۔ جہاں دل حلق میں دھڑکتا اور کلیجے مونہہ کو آتے ہیں اس کے قدم ان محاذوں پر بھی لڑکھڑا نہ سکے تھے۔ بہترین پیشہ ورانہ عسکری خدمات پر وہ بہت جلد ترقی پاتے پاتے صوبیدار بن گیا تھا۔
ڈسپلن صرف اس کی نوکری تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کی بیوی کے خیال میں سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے ہر جگہ یہ ڈسپلن ان کی زندگی پر حاوی ہو چکا تھا۔
اس کی بیوی گاؤں کی رہنے والی تھی مگر چھاؤنی میں رہتے رہتے بہت جلد فوجی گھرانوں کے سب طور طریقے سیکھ چکی تھی۔
ایک دن وہ یونٹ سے گھر واپس آیا تو باورچی خانے میں اپنے لیے خود ہی چائے بنانے لگا۔ چینی کا ڈبہ اٹھایا تو اندر بہت سی چیونٹیاں اپنی پسندیدہ خوراک سمیٹنے میں مشغول تھیں۔ اسے ایک جھٹکا لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پتر غلام حسین تو اتنی شیکر دوپہر کو اکیلا کیوں کھیلتا رہتا ہے۔ جلدی واپس آ۔ آج بڑی لو چلی ہے مینوں لگتا ہے کہ آج ھنیری آئے گی۔
ابھی آیا بے بے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ کہہ کر اس نے برگد کے پیڑ سے چھلانگ لگائی۔ پیڑ کے نیچے چیونٹیاں اپنی کالونی کی منتقلی میں مشغول تھیں۔ لاکھوں کی تعداد میں کالی بھوری اور سرخی مائل چیونٹیاں تیزی سے گردش کر رہی تھیں۔ بہت سی اپنے ساتھ باریک ریزوں جیسے سفید انڈے اٹھائے ہوئے تھیں۔ شاید زیر زمین سلگتی گرمی کے احساس سے گھبرا کر اپنی خندقوں سے باہر آ گئی تھیں، یا آنے والے طوفان سے وقت سے پہلے ہی با خبر ہو چکی تھیں اور اب اپنے انڈوں کے لیے محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں سرگرداں تھیں۔
بے بے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے بے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ گھبرا کر چلایا
بے بے یہاں کیڑیوں کا بھوں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے بے ککی کیڑیاں میرے پاؤں پر چڑھ رہی ہیں۔
دور افق پر کالا سیاہ جھکڑ نمودار ہو رہا تھا اور تب تک بے بے پین کر کے دھوپ میں ڈالی گندم سمیٹ کر دالان سے ہوتی ہوئی اندر کمرے میں جا چکی تھی۔
اور سینکڑوں کی تعداد میں چیونٹیاں اس کے جسم پر رینگ رہی تھیں
بےے ےے بےے ےے ے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے ایک چیخ ماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ اپنے گھر کے باورچی میں ہی موجود تھا۔ غصے سے چلایا!
زینت کتنی بار کہا باورچی خانے کی صفائی کا خاص دھیان رکھا کرو۔ مگر جانے کب تم اپنے اطوار بدلو گی؟
ارے کیا ہوا اتنا صاف ستھرا تو ہے۔ آپ بھی بلاوجہ ہی بگڑنے لگتے ہو۔ اس کی بیوی نے جواب دیا۔
تو یہ چیونٹیاں کہاں سے آئیں ؟ تمہیں اچھی طرح علم ہے کہ مجھے ان کیڑے مکوڑوں سے کتنی چڑ ہے۔ وہ بدستور خفا ہو رہا تھا۔
غلام حسین یہ تو بس چیونٹیاں ہیں زینت نے جواب دیا۔
بس جو کہہ دیا وہی کیا کرو، مجھے گھر میں ایسا کچھ نظر نہ آئے۔ اس نے گویا بات ختم کی۔
کچھ دن بعد وہ اپنے یونٹ میں ٹارک رینچ ہاتھ میں تھامے ٹینک کے کل پرزوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ تیل کی پتلی لکیر کے پیچھے ایک بڑی کالی چیونٹی نمودار ہوئی۔ اسے دیکھنا تھا کہ وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور اپنے بھاری بوٹ تلے چیونٹی کو مسل کر رکھ دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اوے پتر غلامے کیا ہوا چلا کیوں اٹھا ہے ؟
ابا دیکھ اس کالے کاڈھے نے کتنی زور سے کاٹا۔
بڑی نسل کی کالی چیونٹی کا سر اس کے پاؤں پر گوشت کے اندر تک پیوست ہو چکا تھا۔ ابا نے بہت کوشش سے اسے الگ کرنا چاہا مگر وہ اپنی گرفت چھوڑنے پر تیار نہ تھی۔ زور لگا کر کھینچا تو اس کا تھورکس الگ ہو گیا مگر سر جلد میں پیوست ہی رہا۔
نامراد نہ ہو تو۔ ۔ کس برے سے کاٹا۔ ۔ ابا نے کھینچ کر چیونٹی کا سر ماس میں سے باہر نکالتے ہوئے کہا۔
اس کی جلد میں شدید جلن ہو رہی تھی۔
اسی دوران سی او اندر داخل ہوا جس کے ساتھ کچھ غیر ملکی انجینئر بھی تھے۔
صوبیدار اپنے سی او کو بریفینگ دینے لگا۔
سر جی اس ٹینک کا ایک ایک پرزہ ٹارک رینچ سے کس دیا ہے۔ ہر کام پرسین سے کیا گیا ہے نہ تو فورس کا ایک یونٹ زیادہ لگا نہ ہی کم۔
اینی ڈیفیکلٹی۔ ۔ ۔ ۔ سی او نے پوچھا
نو سر۔ اٹس پرفیکٹ سر۔
ویل ڈن۔ یہ کہہ کر سی او آگے بڑھ گیا۔
مری ہوئی چیونٹی تیل کی باریک لکیر کے پیچھے سے غائب تھی۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی تو اس کی ساتھی چیونٹیاں مری ہوئی چیونٹی کو گھسیٹتے ہوئے اپنی بل کی جانب رواں تھیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہت سی چیونٹیاں زرد پڑتی جنگلی گھاس میں رینگ رہی تھیں جہاں ایک زخمی سپاہی اپنی ٹانگ سے محروم ہو چکا تھا’ اور مٹی اس کے خون سے رنگی ہوئی تھی… کچھ چیونٹیاں خون اور جسم سے الگ ہو جانے والے حصے سے چپکی ہوئی تھیں۔ اس نے زخمی سپاہی کو طبی امداد دے کر پیچھے روانہ کیا۔ اسی وقت کمپنی کمانڈر نے پیچھے سے آ کر غلام حسین کے کندھے پر تھپکی دی جو خاموش کھڑا چیونٹیوں کو تک رہا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زینت سارا دن گھر کے کاموں میں جتی رہتی۔ وہ نا صرف اپنے گھر کی بہت اچھی طرح صفائی ستھرائی کرتی بلکہ ہر کونا چمکا کر رکھ دیتی۔ اس کے علاوہ پورے گھر میں اکثر کیڑے مار دواؤں کا سپرے بھی کرتی اس کی کوشش ہوتی کہ گھر میں کوئی کیڑا پیدا نہ ہو۔ غلام حسین ایک اچھا شوہر تھا اور ماسوائے کیڑے مکوڑوں کے اس کے ساتھ کسی بات پر کبھی بگڑا بھی نہیں تھا۔
کرنل مظفر کی پوسٹینگ بہت عرصے بعد اس کینٹ میں ہوئی تھی۔ جب وہ میجر تھے تو غلام حسین ان کے ساتھ بطور اردلی کئی سال تک رہا۔ جتنی جانفشانی سے اس نے اپنے صاحب کی خدمت کی تھی اسے کرنل مظفر کے گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ اگرچہ وہ ترقی پاتے ہوئے مختلف شہروں میں پوسٹ ہوتا رہا مگر کرنل کے خاندان سے اس کا رابطہ ہمیشہ برقرار رہا۔ کرنل کی والدہ ایک مشفق خاتون تھی۔ اور غلام حسین کو ان سے ہمیشہ بہت شفقت ملتی رہی۔
جب وہ ملاقات کے لیے کرنل مظفر کے گھر پہنچا تو بی اماں ایک درخت کے نیچے مسور کی دال اور چینی کا آمیزہ ڈال رہی تھی۔
یہ دیکھتے ہی وہ پھر ماضی میں پہنچ گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اردلی میجر صاحب کے سویپر سے جھگڑ رہا تھا۔ یہ سراسر تمہاری کوتاہی ہے جو گھر میں اتنی چیونٹیاں آ گئی ہیں۔ اگر اچھے سے صفائی کرو تو گھر میں کوئی کیڑا نظر نہ آئے۔ بی اماں بیچ بچاؤ کرانے آئیں تو سویپر اس کی شکایت کرنے لگا۔ بی بی جی پتا نہیں یہ اردلی غلام حسین چیونٹیوں سے اتنی نفرت کیوں کرتا ہے۔ جس دن کوئی چیونٹی نظر آ جائے خوامخواہ مجھ سے جھگڑتا ہے اور آج تو حد ہی ہو گئی ہے۔ اس نے جی کوٹھی کے پچھواڑے میں بانس کے اوپر مٹی کے تیل والے کپڑے کو آگ لگا کتنے ہی کاڈھے کیڑوں کو جلا دیا ہے۔
ہائے ہائے یہ تو نے کیا غضب کیا غلام حسین؟
ان بے ذبانوں نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟ بی اماں ناراضی سے بولیں۔
بی اماں یہ نقصان دہ کیڑے ہیں اور بچوں والا گھر ہے اس لیے میں نے جلا دیئے۔ اس نے جواب دیا۔
ارے یہ تو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے بس اپنا رزق تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ ان کو مارا نہیں کرتے۔
بی اماں سمجھا رہی تھیں۔
بلکہ جب بارش ہو تو ان کو صدقہ ڈالتے ہیں ان کے بلوں میں پانی آ جاتا ہے تو بے چین ہو کر باہر نکلتے ہیں۔
اور اس دن کئی برسوں بعد وہ اسی طرح بی اماں کو چیونٹیوں کو صدقہ ڈالتے دیکھ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں مجھے مظفر نے بتایا تھا کہ تو صوبیدار ہو گیا ہے۔ بڑا چنگا لگا مجھے تیرا ترقی پانا۔ اب کی بار آؤ گے تو اپنی گھر والی کو بھی ساتھ لانا۔
جان چھڑانے والے انداز میں جی اچھا کہہ کر وہ اندر کرنل صاحب سے ملنے چلا گیا۔ صوبیدار بننے کے بعد وہ خود کو بھی ایک معتبر شخص سمجھنے لگا تھا۔
اسی رات وہ پھر خواب میں ڈرا۔ اگرچہ خواب پھر اسے یاد نہیں رہا تھا مگر پسینے سے شرابور دھونکنی کی مانند چلتی سانسوں میں اس کی چھٹی حس ایک عجیب الارم بجا رہی تھی۔
گرمیوں کی آمد آمد تھی۔ اس کے آبائی گاؤں میں گندم کی کٹائیاں شروع ہو چکی تھی اور ساتھ ہی مون سون ہواؤں کی وجہ سے طوفانی آندھیوں کا آغاز بھی ہو گیا تھا۔ مگر جس علاقے میں اس کی پوسٹینگ تھی وہاں گرمی کا موسم اتنی شدت سے نہیں آتا تھا۔ ابھی تک وہ لوگ کمروں میں بغیر پنکھا چلائے ہی سوتے تھے۔
پھر کچھ دنوں بعد اس نے ایک اور خوفناک خواب دیکھا۔
وہ ایک لق و دق وادی میں بھٹک رہا تھا، اس کا حلق پیاس کی شدت سے خشک ہو چکا تھا۔ ہونٹوں پر پپڑی جمی تھی اور زبان پر کانٹے اگ آئے تھے۔ پیاس کی شدت اسے ایک کنوئیں تک لے گئی۔ اس نے کنوئیں سے پانی نکالنے کے لیے اپنا ڈول رسی سے لٹکا کر کنوئیں میں ڈالا۔
منڈیر کے ساتھ لاتعداد چیونٹیاں قطار در قطار رینگ رہی تھیں۔ منڈیر پر چڑھنے کے بعد وہ کنوئیں کی چرخی پر رینگنے لگیں۔ رینگتے رینگتے چیونٹیاں رسی تک پہنچ گئیں اور رسی کو کتر دیا۔
ڈول رسی سے آزاد ہو کر کنوئیں کی تہہ میں گرنے لگا۔ رسی چرخی پر لپٹی رہ گئی جس پر چیونٹیاں ہی چیونٹیاں تھیں۔ ڈول مسلسل نیچے جا رہا تھا اور کنوئیں کی پاتال کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا جیسے وہ بھی کنوئیں کی تہہ میں مسلسل گرتا جا رہا ہو۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اس کا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا گویا پسلیوں کو توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ خوف اور وحشت سے اس کا حلق سوکھ رہا تھا مگر اتنی ہمت نہ تھی کہ اٹھ کر پانی کا گلاس حلق میں انڈیل سکے۔
کچھ دیر بعد اس کے اوسان بحال ہوئے۔ مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اسے کمرے کے اندر شدید گھٹن کا احساس ہوا وہ یونہی بلا مقصد گھر کے پچھواڑے میں ٹہلنے لگا۔
خواب میں رینگتی چیونٹیاں اس کے حواس پر چھائی ہوئی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس رات پہلی بار اسے پورا خواب یاد رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خواب کی وحشت نے اسے پھر سے ماضی میں پہنچا دیا۔ جہاں وہ اپنے اسی خوف سے نفرت اور بیزاری سمجھ کر لڑتا رہا تھا۔
مٹی کے تیل میں تر کپڑا بانس کے اوپر بندھا تھا۔ اور گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ ادھ جلی مردہ چیونٹیاں، کچھ جلے ہوئے پر اور تیل کی بو پھیلی ہوئی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس نے اپنے ذہن سے اس خیال کو جھٹکا تو دوسرا آن موجود ہوا۔
اس کے گھر میں کمروں کے اندر فرش اور دیواروں کے ساتھ کیڑے مار سپرے کے بعد مردہ چیونٹیاں ایک لکیر کی صورت میں جم گئی تھیں۔ زینت جھاڑو لگا کر انہیں وہاں سے صاف کر رہی تھی اور وہ دور کھڑا دیکھ رہا تھا۔
اسی اثنا میں اس کے شیر خوار بچے کے بلک بلک کر رونے کی آواز اسے خیالوں سے واپس کھینچ لائی
اندر آیا، زینت پر نظر پڑی تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، زینت کا وجود ٹھنڈا اور ساکت تھا۔ اس نے جلدی سے نبض ٹٹولی، آنکھوں کی پتلیاں دیکھیں مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ زینت ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہو چکی تھی۔ اس کا بچہ بھوک سے بلک رہا تھا اور خود اس کے اپنے حلق میں کانٹے اگے ہوئے تھے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ مرد رویا نہیں کرتے مگر اس وقت اس کا دل چاہا کہ اپنے منے کو ہاتھوں میں لیے وہ بھی بچوں کی طرح بلک بلک کر روئے۔
اپنے خود ساختہ خوف سے لڑتے لڑتے وہ بہت بری طرح ہار چکا تھا۔
٭٭٭