(Last Updated On: )
چھپکلی اُتری ہے پانی میں مگر کی صورت
دشت پیمائی نے پھر دیکھ لی گھر کی صورت
اِس کھنڈر شہر میں کوندا سا لپک جاتی ہے
کسی دیوار، کسی چھت، کسی در کی صورت
جھیل سی آنکھوں میں اترے گی تو اُڑ جائے گی
چادر شب میں جھپکتی یہ سحر کی صورت
جانے کیوں پتھّروں سے جھولیاں بھر لاتے ہیں
دیکھتے رہتے تھے جو لعل و گوہر کی صورت
سوچ کی دھوپ میں سہمے ہوئے سائے پیہم
نظر آتی نہیں تا دوُر سحر کی صورت
چاند نے مُڑ کے نہ دیکھا تو بہت خوب ہوا
نقشِ خورشید میں تھی رقص شرر کی صورت
اتر آیا ہے فرشتہ کوئی آنگن میں ضیا
بدلی بدلی نذر آتی ہے بشر کی صورت
٭٭٭