ہمارے دونوں وکیل بھی کچھ زائد محنتانہ لےکر مولانا محمد حسن صاحب، مولانا مبارک علی صاحب، برادرم محمد سعید اور عبد الرحمن پسر محمد شفیع کے ہمراہ چیف کورٹ میں پہنچے اور میجر ونکفیل وغیرہ سرکاری وکلاء اور پیروکار بھی سب سے پہلے حاضر ہوگئے تھے، اور ادھر جیل میں نقل حکم منگوا کر میں نے بھی خوب مدلّل اپیل لکھ کر سپرنٹنڈنٹ جیل کی معرفت چیف کورٹ روانہ کردی۔
چیف کورٹ کے چند اجلاسوں میں بھی یہ مقدمہ بڑی دھوم دھام سے پیش ہوا، اور وہاں بھی ہمارے وکیل مسٹر پلوڈن نے بڑے دلائل سے بار بار یہ کہا کہ یہ لوگ زیر دفعہ ۱۲۱ ہر گز قید نہیں ہو سکتے، اس دفعہ کی رو سے انھیں قید کرنا سراسر خلاف قانون ہے، ان پر کوئی دوسری دفعہ قائم کرو، اس زمانہ کے جوڈیشنل کمشنر مسٹر رابرٹ کسٹ نے بھی وکیل کی اس قانونی دلیل کو بر سر اجلاس تسلیم کر لیا، لیکن مشورہ کرنے کی غرض سے پھر چند روز تک التواء کیا گیا، اسی اثنا میں اخبارات نے یہ خبر شائع کردی کہ یہ لوگ رہا ہو چکے ہیں، صرف حکم سنانا باقی رہ گیا ہے، ہمارے گھر والوں کو تو ہماری رہائی کا اس قدر یقین ہو گیا کہ انہوں نے گھر سے کپڑوں کا ایک نیا جوڑا بھی تیار کرکے بھیج دیا؛ تاکہ رہائی کے دن اسے زیب تن کرکے گھر آؤں، لیکن چیف کورٹ کا التواء بہت لمبا ہو گیا، ہماری خلاف قانون قید پر غالبا انگلستان تک سے رائے لی گئی۔
۲مئی پھانسی کے حکم سنائے جانے کی تاریخ سے لے کر ۱۶ ستمبر تک ہم پھانسی گھروں مں رہے، اہالیان جیل ہمارے پھانسی دینے کا سامان تیار کر رہے تھے، اور ادھر ہم انگریزوں کا تماشہ بن رہے تھے، صدہا صاحب اور میم ہمیں دیکھنے کے لیے روزانہ پھانسی گھروں میں آتے تھے، دوسرے پھانسی والے عام قیدیوں کے برعکس جب یہ یورپین زائرین ہمیں نہایت شاداں و فرحاں دیکھتے تو از راہ تعجب اکثر ہم سے پوچھتے کہ تمھیں تو بہت جلد پھانسی ہو گی پھر تم اس قدر خوشی کا اظہار کیوں کرتے ہو؟ ہم اس کے جواب میں صرف یہ کہتے تھے کہ ہمارے مذہب میں خدا کی راہ میں ایسے ظلم سے مارے جانے پر شہادت کا درجہ ملتاہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اس پر مسرت کا اظہار کرتےہیں۔
خدا کی شان ملاحظہ فرمائیے کہ ہم پھانسی گھروں میں ہی تھے ہی کہ بقرعید آگئی، ہمیں خیال آیا کہ آج مسلمان قربانی کا گوشت خوب اڑاتے ہونگے، اللہ نے ہمارے لیے پھانسی گھروں میں ہی عید کا سامان مہیا فرمادیا، وہ اس طرح کہ اس خیال کے تھوڑی دیر بعد ہی رات کے وقت پلاؤ، قورمہ اور کباب وغیرہ بقرعید کے سب کھانے ہمارے لیے ان پھانسی گھروں میں غیب سے موجود ہوگئے، ہم نے خوب سیر ہو کر کھایا اور خدا تعالی کا شکر بجا لائے۔
ایک رات ہم تینوں آدمی پھانسی گھر میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ اس وقت ہمارے سب محافظ باہمی مشورہ کے بعد ہم سے کہنے لگے کہ تم تینوں اس وقت اندھیری رات میں بھاگ جاؤ، ہمیں غفلت کے جرم میں کچھ قید وغیرہ کی سزا ہوگی جسے ہم بھگت لیں گے، لیکن تمھاری جانیں تو بچ جائیں گی، ہم نے ان کی ہمت اور نیّت خیر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ خداوند کریم دونوں جہان میں تمھیں اس نیک نیّتی کا اجر دے گا، مگر ہم فرار نہیں ہونگے جب خدا چھڑا دے گا، خود بہ خود چھوٹ جائیں گے، میں نے یہ بھی کہا کہ بھاِئیو، جب اس کی مرضی نہ تھی تو میں علی گڑھ سے پکڑا گیا، اب دوبارہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔
رشتہ در گردنم افگندہ دوست
مے برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست