کہنے کو تو یہ یقیناً ہفتے کا دن تھا، اس دن گو کہ بہت سے کاروباری مراکز، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر اور تعلیمی ادارے وغیرہ بند ہی ہوتے ہیں، مگر شاہراہوں اور اس کی ذیلی سڑکوں پر چہار سُو پھیلا اور بے ترتیبی سے بہتا، بے ہنگم اور منہ زور ٹریفک، اپنے پورے زور و شور سے اپنی اپنی منزلوں کی جانب رواں دواں تھا، یا یوں کہنا شاید زیادہ مناسب ہو گا کہ خود کو رواں دواں رکھنے کی سعیء لاحاصل کر رہا تھا۔ دھواں چھوڑتی باوا آدم کے زمانے کی بسیں، جو روز رات کو اپنے مکینکوں کے آپریشن تھیٹروں میں ایک کبھی نہ ختم ہو سکنے والی مرمتوں، اوور ہالنگ اور جگاڑ کے عمل سے گذرتی ہیں۔ چلتی کا نام گاڑی کی عملی تصویر بنی، پریشر ہارنوں کا بھیانک راگ الاپتی، دھیرے دھیرے چل رہی تھیں۔ ان کی پیروی میں تھیں، چمچماتی کاریں، سوزوکی کیری ڈبے اور پک اپس۔ مگر جس قسم کی مخلوق کی سب سے زیادہ بھرمار تھی، وہ تھے چنگ چی، رکشے اور موٹر سائیکلیں۔ اور ساتھ ہی تھیں ان کی من مانیاں، منہ زوریاں اور بد معاشیاں۔ ہر دستیاب ہو سکنے والی جگہ پر اپنے آپ کو گھسیڑنے کی کوشش کرتی یہ مخلوق، ٹریفک کو جام کرنے کے لئے سونے پر سہاگے کا کام سر انجام دیتی نظر آ رہی تھی۔ ہر کوئی جلد بازی کا شکار نظر آ رہا تھا، کہ جیسے یہ اس کا آخری سفر ہو یا پھر سفرِآخرت۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ فوراً سے پیشتر اپنی منزلِ مقصود تک پہنچے۔ اسی خواہش کے نتیجے میں سبھی آپس میں گتھم گتھا سے ہو گئے تھے۔ لگتا تھا کہ کسی غیر مرئی ایڈہیسو کی بڑی ساری پھوار ڈال کر، انہیں آپس میں چپکا دیا ہو۔ چند منٹوں کے سفر کا دورانیہ بڑھ کر گھنٹوں پر محیط ہوتا نظر آ رہا تھا۔
کسی قدر دیر سے ہی سہی مگر ایک معجزانہ طریقے سے میں نمائش چورنگی تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ مگر اب جب آگے ایم اے جناح روڈ پر نظر پڑی، تو دور تک گاڑیوں کا اژدحام دیکھ کر رہے سہے توتے بھی پرواز کرتے نظر آئے، ہاں آسمان تو بہر حال خالی ہی تھا۔ ” اب تو مارا گیا۔ ” میرا صبر کا بند ٹوٹ گیا اور میرے منہ سے اچانک نکل پڑا، ” اب کیا ہو گا”۔ اگرچہ میرا آفس جو کہ صدر، ایمپریس مارکیٹ کے پاس واقع ایک پرانی بلڈنگ میں تھا، یہاں سے صرف پانچ منٹ کی دوری پر تھا۔ مگراس رش کی وجہ سے لگتا نہیں تھا کہ میں ایک گھنٹے سے بھی پہلے آفس پہنچ پاؤں۔ میرا ذہن سرپٹ دوڑنے لگا، ” سوچو۔۔ سوچو”۔ دفعتاً میرے دماغ کی پھرکی گھومی اور مجھے یاد آیا کہ اگر میں گاڑی گھما کر اور تھوڑا رونگ وے جا کر، اگر لائنز ایریا سے شارٹ کٹ لوں، تو وقت رہتے آفس پہنچ سکتا ہوں۔
لائنز ایریا، میری جنم بھومی،
میرے معصوم بچپن کو سہارا دینے والی
میری پالن ہار
مجھے اس کٹھور دنیا سے مقابلہ کرنے کی ہمت دینے والی
میرے سوچوں کو مہمیز کرنے والی
میری ماں، ایک ایسی ماں جس کو اس کے نا خلف بچے اولڈ ہوم میں رکھ کر، اسے بھول کر، سالوں سے اپنی دنیا میں مگن ہو چکے ہوں۔
یا چڑیوں کے بچوں کی طرح ہوں، جو ایک بار اڑنے کی طاقت پانے پر، پھر کبھی اس گھونسلے کی جانب مڑ کر نہیں دیکھتے، جہاں انہوں نے پرواز کرنا سیکھا تھا۔ اس آسمان کی وسعتوں کو جانا تھا۔ خود کو پہچان دی تھی۔
میں نے جلدی سے اپنی سوچ پر عمل کیا، ورنہ میرے پیچھے اور آ جانے والی گاڑیوں کے رہتے، یہ بھی نا ممکن ہو جاتا۔ اب میں لائنز ایریا والی مین سڑک پر تھا۔ اس پر ٹریفک کا فِلو کافی کم تھا۔ میں نے سکون کی ایک بھرپور سانس لی۔ پورے سینے میں ٹھنڈک سی اتر گئی، ایسا لگا جیسے ابھی تک میں سانس روکے ہی بیٹھا تھا۔ انسان بھی کتنا عجیب ہے، ذرا ذرا سی باتوں پر پریشان ہو جاتا ہے اور ذرا ذرا پر خوش۔
آج سالوں بعد میں اس سڑک پر آیا تھا، میں نے ہی اس جگہ سے تعلق توڑا تھا، میں ہی بے وفا نکلا تھا۔ اچانک میری نظر اپنی دائیں جانب کی دکانوں پر پڑی۔ ایک طریقے سے اس علاقے کی سوغات کی دکانیں۔ ریوڑی، گجک، تل کے لڈو، دیسی مٹھائیوں اور اسی طرح کی دیگر اشیاء بنانے والی دکانیں۔ اب ان کی تعداد مجھے پہلے سے کافی کم لگ رہی تھیں۔ اور کمی کیوں نا ہوتی، اب وہ پہلے والی مانگ جو نہیں رہی ہو گی۔ اب بچے کیا بڑے طرح طرح کے غیر ملکی ذائقوں اور لذتوں سے آشنا جو ہو گئے ہیں۔ اوپر سے مارکیٹنگ کا ہشت پا آکٹوپس، ہم سبھی کو کچھ ایسے جکڑے ہوئے ہے کہ اب اس سے بچنا محال ہے، جو یہ چاہئیں گے، ہمیں اسی پر چلنا پڑے گا۔ جو یہ کھلانا چاہیں گے، وہ ہی ہمارا قومی پکوان بن جائے گا۔ پرانی شرابیں اب نئی بوتلوں میں، دیدہ زیب پیکنگ میں پیش کی جا رہی تھیں۔ پرانا بن کباب اب متروک ہوتا جا رہا تھا، اس کا کوئی اسپاؤنسر جو نہیں تھا، اس کی کوئی فوڈ چین جو نہیں تھی، اس کے ٹی وی پر اشتہار جو نہیں چلتے تھے۔ ہاں اب اس کا موڈیفائیڈ ورژن برگر، ہر ایک کی اولین ترجیح ضرور بنا ہوا تھا۔ پسندیدہ کھانوں کی ٹاپ فائیو لسٹ میں براجمان، وجہ وہی ہے، جو اوپر بیان کی جا چکی ہے۔
میری پہلی چیخ اسی علاقے میں سنائی دی تھی، میری آنکھیں اسی علاقے کے ایک بوسیدہ سے کوارٹر میں کھلی تھیں۔ اسی کی پر پیچ گلیوں میں میرا بچپن گذرا تھا، یہیں میں نوجوانی کی سرحد تک پہنچا تھا۔ سسک سسک کر، تڑپ تڑپ کر۔
میں اور میرا بڑا بھائی، اپنے ماں باپ کی فقط یہی دو نشانیاں تھیں۔ ان کی پوری زندگی کے دو اہم کارنامے۔ ایک پسماندہ علاقے کے ٹوٹے پھوٹے، بوسیدہ کوارٹر کے غریب، لاچار اور مجبور بچے کن کن تکلیفوں اور احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں، میں اس سے بخوبی آشنا ہوں۔ اردگرد پھیلی بھوک پیاس، غربت، افلاس، ناداری، بے چارگی اور ذلت کے گھناؤنے، ڈراؤنے، مضبوط پنجے تلے دبے تھے سسکتے، روتے، چیختے، کراہتے ہوئے بھوکے پیاسے، غریب، نادار، لاچار، ذلیل کیڑے مکوڑے نما بے شمار انسان۔
شاید میرا حشر بھی ان تمام لوگوں سے کچھ جدا نہ ہوتا، اگر میرا بڑا بھائی احمد نہ ہوتا۔ میرے ماں باپ نے تو صرف مجھے پیدا کر دینے کوہی کا فی جانا۔ اُس مالکِ حقیقی نے فقط اتنی ذمے داری دے کر انہیں اتارا تھا کہ وہ جب دو اجسام اس کٹھور دنیا میں مزید انجیکٹ کر دیں، تو ان کا کام ختم، ان کی ذمے داری خلاص۔ اب واپسی کی راہ پکڑو۔ اور ان کے بعد یہ ذمے داری اٹھائی تھی، مجھ سے دس سال بڑے میرے بھائی احمد نے۔ کہنے کو تو میرا بھائی تھا، مگر کئی رشتوں کی الگ الگ محبتیں، اس کے ایک مہربان وجود میں موجزن تھیں۔ وہ میرا بھائی تھا،، ماں بھی اور باپ بھی۔ وہ میرا مربی بھی تھا، میرا استاد بھی۔ وہ میرا نگہبان بھی تھا اور قدردان بھی۔ مگر ان سب سے بڑھ کر رہا اس سے دوستی کا رشتہ۔
وہ سات سال کی عمر سے علاقے کی ایک ریوڑی گجک بنانے والے کارخانے میں کام پر لگ گیا تھا۔ سات سال کا بچہ کر بھی کیا سکتا ہے۔ چھوٹے گیری سے شروع ہونے والی اس نوکری میں، کام سیکھنے سے پہلے شروع شروع کے کئی سالوں تک صرف استاد کی لاتیں، گھونسے، مار کٹائی اور گالیاں ہی رنگروٹوں کا مقدر ٹھہرتے ہیں۔ کافی سارے اس آزمائشی کٹھن دور میں بھاگ جاتے ہیں، پر جو استقامت سے جمے رہتے ہیں وہ ہی مقدر کے سکندر بنتے ہیں، یعنی استاد کے سینے اور ہاتھوں میں موجود غیر کتابی علم اور ہنر کے اگلے وارث، مستقبل میں استاد بن کر اسی استادی شاگردی کے سائیکل کو گھمانے کے لئے ایک دم ٹناٹن تیار۔
مجھے اچھی یاد ہے، اس وقت شاید میری عمر کوئی لگ بھگ چھ سال کی رہی ہو، روزانہ کارخانے سے واپسی پر بھائی مجھے نہلاتا، پھر خود نہا دھو کر صاف کپڑے پہنتا، پھر ہم دونوں اکٹھے کھانا کھاتے، پھر وہ مجھے باہر گھمانے لے جاتا، پھر کسی سنسان سے تھلے پر بیٹھ کر اپنی جیب پر ہاتھ مار کر کہتا۔
“بتا منے میں آج تیرے لئے کیا لایا ہوں۔ ”
میں چھ سال کا تو تھا، مگر اتنا بھی بھولا یا اللہ میاں کی گائے ٹائپ بچہ نہیں تھا، جتنے آج کے ممی پاپا ٹائپ بچے ہوتے ہیں، میں لائینز ایریا کی گلیوں میں پرورش پاتا بچہ تھا، جہاں بقا اسی میں ہے کہ آپ جلد از جلد بچپنے کے بھولپنے کو خیر آباد کہہ دیں۔ ورنہ آپ کی خیر نہیں۔ گدھ تو چاروں جانب ہیں ہی۔
بھائی کے اس ہر روز پوچھے جانے والے سوال کا جواب مجھے ازبر تھا۔ مگر میں معصوم بن جاتا اور نہیں میں مُنڈی ہلا دیتا۔ بھائی میرے اس انداز سے نہال ہو جاتا، پھر وہ اپنی جیب سے وہ سوغاتیں، وہ من وسلوی نکالتا، جو اس کی جیب میں چھپی ہونے کے باوجود اپنی مہک سے اپنے ہونے کا، اپنے وجود کا پتہ دے رہی ہوتیں تھیں۔ ریوڑی، گجک، الائچی دانے، مصری کی ڈلیاں، رنگ برنگی سونف، سنگترے کی قاشوں والی مٹھائی، میووں بھری پاپڑیاں۔ ان کا ذائقہ، ان کی لذت آج اتنے سال گزرنے کے باوجود میرے ذہن کے کسی نہاں خانے میں چھپی بیٹھی ہے۔ آج بھی میرے منہ میں اپنی مٹھاس بھر دیتی ہیں۔ اس پر روز بھائی کا یہ پوچھنا۔ “بتا منے میں آج تیرے لئے کیا لایا ہوں۔ ”
علاقے کی مروجہ روایت سے ہٹ کر اس نے مجھے ایک انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرایا۔ گو وہ خود تو چاہتے ہوئے بھی تعلیم حاصل نہ کر سکا تھا، اور بچپن سے ہی دیہاڑی کمانے اور کام سیکھنے پر لگ گیا تھا، مگر اسے بہرحال تعلیم کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ وہ اپنی تشنہ خواہشوں کی تکمیل مجھ میں پوری ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔
میں اسکول جاتا رہا تھا اور وہ ریوڑیاں، گجک بناتا رہا۔ بچپن میں ملی میری ہر آسودگی اسی کی مرہونِ منت تھی۔ ہر خوشی کے پیچھے اسی کا ہاتھ تھا۔ ہر آرام، ہر آسائش کے عقب میں اسی کی ان تھک محنت تھی۔ میٹرک کے بعد کالج اور پھر یونیورسٹی تک وہ مجھے پڑھاتا رہا اور مجھے ایم بی اے کرا کر ہی اس نے سکون کی سانس لی۔ گویا اپنی زندگی کا مقصود پا لیا ہو۔ مجھے یاد ہے وہ دن، جب میری ایم بی اے میں دوسری پوزیشن آئی تھی اور یونیورسٹی کے کانووکیشن میں وہ میرے مرحوم والدین کی نمائندگی میں موجود تھا۔ میڈل اور ڈگری وصول کرتے ہوئے میں نے اسٹیج سے نیچے مسکراتے ہوئے دیکھا، بھائی کے خوشی دیدنی تھی اور چہرہ تمتما رہا تھا۔ بھائی کی آنکھوں میں یہ پہلی بار تھا جب جگنو چمکے۔
میرے شاندار تعلیمی پس منظر کی وجہ سے جلد ہی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مجھے اچھے عہدے کی پیش کش ہوئی اور میں نے اسے قبول کر لیا۔ ابھی نوکری کرتے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ ایک دن بھائی نے بڑے دُلار سے کہا۔
“اب تمہاری نوکری لگ گئی ہے۔ اب تمہاری شادی ہو جانی چاہئے۔ ”
“اور تم کب تک سنیاس لیتے رہو گے۔ پہلے بھائی تمہاری شادی ہو گی پھر میری۔ “میں نے جوابی وار کیا۔ ” مجھے بھی ایک عدد بھابھی چاہئے۔ ” اور پھر اس کے پینتیس سالہ جوان، مگر الاؤ کی تپش اور گرم گرم چپکتی چاشنی گزیدہ، مرجھائے ہاتھوں کو پکڑ لیا۔
“چلو دیکھتے ہیں۔ اس نا کارہ، جاہل کو کوئی اپنی بیٹی دیتا ہے یا نہیں۔ ”
“تم بس ہاں کرو۔، باقی مجھ پر چھوڑ دو۔ میں خالہ نصیبن سے بات کرتا ہوں۔ “، نصیبن خالہ علاقے کی جگت خالہ تھیں۔ اور ہم دونوں پر خاص مہربان بھی۔
“ٹھیک ہے، جو تمہاری مرضی، مگر اس کے بعد تمہیں بھی دیر نہیں کرنی۔ ” اس نے سرنڈر کرتے ہوئے کہا۔
پھر جلد ہی ایک شریف مگر غریب گھرانے میں، خالہ نصیبن نے ایک رشتہ نکال لیا۔ اتفاق سے لڑکی کا باپ بھی دیسی مٹھائیوں کے کاروبار سے ہی وابستہ تھا اور بھائی کی شرافت اور کام میں اس کی مہارت کا معترف بھی، سوسارے معاملات آسانی سے طے ہوتے چلے گئے اور حلیمہ میری بھابھی بن کر اس کوارٹر میں آ گئیں۔ بھائی کی آنکھوں میں یہ دوسری بار تھا جب جگنو چمکے۔
حلیمہ بھابھی گو واجبی صورت اور نیم خواندہ تھیں۔ مگر سگھڑاپے اور سمجھداری میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ چھڑوں کے بے ترتیب، کام چلاؤ اور جگاڑی رہن سہن کو، انہیں نے بہت جلد ایک منظم، مر تّب گرہستی میں تبدیل کر دیا۔ زندگی بہت دنوں بعد ایک ڈگر پر آ گئی۔ اور بھائی کو ان کے ایثار و قربانی کا بھرپور صلہ خدا نے انہیں، بھابھی کی شکل میں اس دنیا میں بھی دے دیا۔
بھابھی گو عمر میں مجھ سے کچھ خاص بڑی نہیں تھیں۔ مگر میں ان سے اُس بے تکلفی سے بات نہیں کرتا تھا، جیسے میں اپنے بھائی سے تم وغیرہ کہہ کر بات کرتا تھا۔ لیکن بھابھی کو میں ہمیشہ آپ جناب سے مخاطب کرتا اور انہیں ہمیشہ ایک ماں کی عزت دیتا۔
زندگی اپنے راستے رواں دواں تھی۔ اور میرا شادی کو ٹالنا بھی برقرار۔ تبھی اسی دوران مجھے کمپنی نے ایک پیکج کے تحت بنگلہ اور گاڑی آفر کی۔ بنگلے کے لئے شادی کی بھی شرط تھی۔ اور اس پیکج سے فائدہ نہ اٹھانے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بات تو کفرانِ نعمت کی مصداق ہوتی۔ میں نے بھائی بھابھی کو اس کے متعلق بتایا۔ ان کی کی باچھیں کھِل گئیں۔
” اب اونٹ آیا پہاڑ تلے “، بھائی کے پہلے الفاظ یہ ہی تھے۔
“دیکھنا میں اپنے بھائی کے لئے کیسی حور پری تلاشتی ہوں۔ “بھابھی کی مسرت دیکھنے کے قابل تھی۔
” پہلے اس سے تو پوچھ لو کیا پتا کوئی چکر چلا کر بیٹھا ہو، ویسے ایسا ہے تو نہیں۔ اپنے بھائی کی طرح ایک دم بھوندو ہے۔ ” بھائی نے یہ کہہ کر استفہامیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔
بھابھی بھی بھوندو والی بات پر مسکرا اٹھیں، اور کہا۔ “ہاں بھئی، اب کوئی تاڑ رکھی ہے تو بتاؤ، تاکہ ہمارا کام بھی آسان ہو اور پھوکٹ کی گدھا مزدوری سے بچیں۔ کیوں جی۔ ” بھابھی نے بھائی کو آنکھ ماری۔
ان باتوں کے دوران میں حمیرا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
حمیرا ایک اعلی تعلیم یافتہ، خوبصورت اور بولڈ لڑکی تھی۔ آفس میں میرے ساتھ ہی کام کرتی تھی۔ اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی حمیرا، بہادر آباد کے ایک ہزار گز کے کوٹھی نما بنگلے میں رہتی تھی۔ روپے پیسے کی اسے کوئی تمنا نہیں تھی، یہ اس کا جاب کرنا بھی، اس کے ٹائم پاس کا فقط ایک ذریعہ بھر تھا یا شاید خود انحصار ہو کر اپنی زندگی مست قلندر اسٹائل میں جینے کا حصول۔ اس سے ہوئی پہلی ملاقات میں ہی، میں نے محسوس کیا کہ یہ میرے لئے پوری طرح پرفیکٹ ہے۔ اور شاید ایسی ہی سوچ لئے وہ بھی بیٹھی تھی۔ یہاں کوئی محبت کا اظہار تو کرنا نہیں تھا، الفت کی کوئی پینگیں تو نہیں بڑھانی نہیں تھیں۔ ٹو دی پوائنٹ بات کرنے تھی۔ اور وہ میں نے کی اور اثبات میں جواب پایا۔ پھر جلد ہی ہماری شادی طے ہو گئی۔ شادی والے دن بھابھی تو مجھ پر اور حمیرا پر نہال ہوئی جا رہی تھیں۔ اور رہے بھائی، تو یہ تیسری بار تھا جب ان کی آنکھوں میں جگنو چمکے۔
شادی طے ہوتے ہی کمپنی نے اپنا وعدہ پورا کیا اور نارتھ ناظم آباد میں ایک دو سو چالیس گز کا بنگلہ اور ایک نئے ماڈل کی کار مجھے دے دی۔ چنانچہ میں حمیرا کو رخصت کرا کے یہیں لایا۔ شاندار جہیز سے یہ پہلے ہی سیٹ کیا جا چکا تھا۔ زندگی ایک دم حسین ہو گئی تھی۔ اسٹیٹس والی۔ ماڈرن اور اپر لائف اسٹائل والی بھی۔
حمیرا نے شادی کے بعد جاب چھوڑ دی۔ اب اس کا زیادہ تر وقت فیشن میگزینوں کے مطالعے یا فوڈ چینلز سے طرح طرح کے پکوانوں کی آزمودہ ترکیبوں کو نوٹ کرنے اور ان کو بنانے، اور پھر ان کو گھر میں آئے دن ہونے والی مہمان داریوں اور پارٹیوں میں پیش کرنے میں لگنے لگا تھا۔ حمیرا کو اچھے کھانے اور انہیں بنانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ مجھے امید تو نہیں تھی کہ اس نے یہ کہاوت سنی ہوئی ہو کہ شوہر کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہوتے ہوئے گذرتا ہے، مگر اس کی عملی تصویر بہرحال وہ تھی۔ نئے نئے دیسی کھانوں اور بدیسی پکوانوں کی وہ بڑی ماہر ہوتی جا رہی تھی، ایک بار جو بھی اس کی ڈشیں ٹرائی کرتا، اس کی تعریف کئے بنا نہ رہتا۔ تقریباً روز ہی کوئی نہ کوئی مہمان آتا۔ کبھی اس کے بھائی فارن سے آ رہے ہیں، کبھی اس کی بہنیں اسلام آباد یا لاہور سے آ رہی ہیں۔ کبھی اس کے ممی ڈیڈی کی شادی کی سالگرہ ہے، کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔ غرض کہ زوردار دعوت چلتی۔ روزانہ کی بنیاد پر بنائی جانے والی ڈھیر ساری اس کی ڈشوں کے لئے یہ ضروری بھی تھا۔
شادی کے بعد، شروع شروع کے چند مہینوں تک بھائی اور بھابھی بھی کبھی کبھار چکر لگا لیتے تھے۔ مگر جلد ہی انہوں نے محسوس کیا کہ حمیرا کی آنکھوں میں چھپی بیٹھی ہے، دبی دبی سی ایک شکایت کہ تم لوگ کیوں آتے ہو۔ اوپر سے سر جھاڑ منہ پہاڑ۔ نہ اپنے حلیہ کی پروا ہے نہ دوسروں کی عزت کی۔ محلے دار، عزیز رشتے داروں، گھر آئے مہمانوں کی تو بات ہی کیا، ماسیاں، نوکرانیاں تک سوالیہ اور طنزیہ نظروں سے دیکھنے لگتی ہیں۔ منہ پر تو کوئی نہیں بولتا، مگر کسی کی سوچ کا گلہ بھلا کون گھونٹ سکتا ہے۔ کیا سوچتے ہوں گے کہ میرے شوہر کے ایسے رشتے دار ہیں۔ یہ بات بھائی بھابھی نے بھی محسوس کر لی تھی، رفتہ رفتہ انہوں نے آنا کم کر دیا، پانچ سال پہلے، وہ آخری بار تھا، جب وہ دونوں مونا کی پیدائش کی تقریب میں آئے تھے۔ مجھے ان کا نہ آنا بڑا کھلتا تھا، شاید ایک بار میں خود ہی ان سے ملنے گیا بھی، مگر لگژری کار پر پڑی لکیروں نے، اس علاقے کو ہمیشہ کے لئے نو گو ایریا بنا دیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ رشتوں کی گرمی پراسٹیٹس اور کلاس ڈیفرینس کی برف کی تہہ دبیز سے دبیز تر ہوتی چلی گئی اور وقت دبی چاپ آگے بڑھتا رہا۔
مجھے اچانک بریک لگانا پڑا، کار کو بھی اور اپنی سوچوں کو بھی۔ “لعنت ہو۔ “۔ ایک سبزی والا اپنا ٹھیلا لے کر نجانے کہاں سے نمودار ہوا کر، اچانک گاڑی کے سامنے آ گیا تھا۔ اور اب الٹا مجھے ہی خشمگیں نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے میں اس کے ذاتی باغیچے میں اس کی مٹر گشتی کے دوران دخل در معقولات دے بیٹھا ہوں۔ ابھی میں اِسے کچھ سنانے کا ارادہ باندھ ہی رہا تھا کہ مجھے اس کی بغل میں کھڑا ایک شناسا چہرہ نظر آیا۔ میرے بھائی کا چہرہ۔ وہ میری ہی طرف کچھ اچنبھے بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ شاید اپنے تخیل کا دھوکا سمجھ رہے ہوں۔ پھر وہ پر یقین ہو کر، مجھے پہچان گئے تھے کیوں کہ ایک ملکوتی چمک سے ان کا چہرہ منور تھا۔
” میرے بھائی۔ ” انہوں نے بے اختیار آواز لگائی۔ میں نے بھی ان کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ مگر دو وجوہات سے رکنا میرے بس میں نہیں تھا۔ ایک تو پیچھے آتی گاڑیوں کے ہارن، جو ذرا سا رکنے پر ہی بجنا شروع ہو گئے تھے۔ دوسرے آفس میں میٹنگ، جو خاص طور پر چھٹی والے دن رکھی گئی تھی، کیوں کہ آج شام ہمارا ایک خاص کلائنٹ انگلینڈ جا رہا تھا۔ ا س لئے یہ میٹنگ کسی اور دن ٹالی نہ جا سکتی تھی۔
” بھائی میں آپ کو فون کرتا ہوں۔ ابھی آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ “میں چِلایا اور گاڑی بھگاتا، آفس کی جانب رواں دواں ہو گیا۔
آفس میں روز کا روٹین ورک تو تھا نہیں، بس ایک میٹنگ ہی نبٹانی تھی۔ میٹنگ کے دوران ہوئے بریک میں، میں نے اپنا موبائل نکالا، حمیرا کا مسیج آیا تھا۔ “ایمپریس مارکیٹ سے، گوشت اور گروسری کا دیگرسامان لانا نہ بھولنا۔ لسٹ میں نے رات ہی آپ کے وولٹ میں رکھ دی ہے اور ساتھ پیسے بھی۔ “، میں نے اپنا وولٹ نکالا۔ اس میں ایک چھوٹا سا لفافہ تھا، میں نے لفافہ کھولا۔ سامان کی لسٹ کے ساتھ بیس ہزار روپے رکھے تھے۔ گوشت اور گروسری کا سامان میں ایمپریس مارکیٹ سے ہی لیا کرتا تھا۔ ایک تو چیزیں اچھی مل جاتیں، دوسرا کچھ بچت بھی ہو جا کرتی تھی۔ پھر سارا سامان بھی ایک ہی جگہ سے مل جاتا تھا۔ میں نے ٹائم پاس کے لئے لسٹ کھولی۔ لکھا تھا۔
” علی بھائی آ رہے ہیں وِد فیملی، کچھ ان کی سالی کی شادی وغیرہ کا معاملہ ہے۔ رات آپ کے سونے کے بعد فون آیا تھا ان کا۔ ابھی ابھی کراچی پہنچے ہیں۔ سسرال میں ٹھہریں گے۔ پھر انہیں وقت ملے یا نہ ملے، اس لئے آج رات کا کھانا وہ ہمارے ہاں کریں گے۔ ہفتے کو میری جلدی آنکھ نہیں کھلتی، اسی لئے لسٹ بنا کر رکھ رہی ہوں۔ ساتھ پیسے بھی ہیں۔ اور ہاں جلد از جلد آنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ آپ جلدی آئیں گے تو میں دعوت کی صحیح طرح تیاری کر سکوں گی۔ ” علی، حمیرا کے بڑے بھائی تھے اور کینیڈا میں اپنا ایک بڑا بزنس چلا رہے تھے۔ اور دونوں ہاتھوں سے ڈالر چھاپ رہے تھے۔ اب تقریباً تین سال بعد پاکستان آئے تھے۔
میں نے آگے نظریں دوڑائیں، نیچے سامان کی تفصیل لکھی تھی۔
’’بیف کے روکھے پارچے اسٹیک کے لئے چاہئیں قصائی کو بول دیجئے گا۔ آدھا کلو سائز کے چار عدد
مٹن چاپیں۔ تین کلو
روکھا مٹن کا گوشت دو کلو
چکن کا گوشت چار کلو
پاپلیٹ مچھلی دو کلو
جھینگے۔ آپ جانتے ہیں کس سائز کے لینے ہیں ۔۔ دو کلو‘‘
ابھی میں دیگر سامان بھی دیکھنا چاہ رہا تھا کہ باس نے بریک ختم ہونے کا اشارہ کیا۔ میں نے جلدی سے لسٹ اور پیسوں کو وولٹ میں رکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
میٹنگ خلافِ توقع ایک بجے تک نپٹ گئی۔ ایک مشن تو بخیر و خوبی نبٹ گیا تھا۔ اب دوسرا مشن درپیش تھا یعنی خریداری کا۔ میں نے سامان زیادہ ہونے کی وجہ پیون کو روک لیا تھا۔ اس کو ساتھ لئے میں ایمپریس مارکیٹ کی طرف چل پڑا۔ سب سے پہلے میں نے ننھے قصائی سے بیف کے روکھے پارچے نکلوانے کا کہا، وہ ران ہی کھول رہا تھا۔ اسٹیک کے پارچے ران میں موجود گوشت سے ہی بنتے ہیں، جنہیں کسوڑوں کی زبان میں گولے کا گوشت کہا جاتا ہے۔ ننھا قصائی میرا خاص خیال کرتا ہے۔ کبھی اتفاق سے میں گوشت لینے آؤں اور گوشت اچھا نہ ہو، وہ مجھ سے کہتا ہے کہ بھائی تم گھر جاؤ میں خود لے کر آتا ہوں، یہ ایک طریقے سے اس کا کوڈ تھا کہ آج گوشت آپ کے مطلب کا نہیں ہے۔ آج بھی اس نے ران کھولتے ہوئے مجھے آنکھ ماری اور کہا۔
“آپ تو لیٹ آئے ہیں، صفائی کے بعد بچا تو آپ کو دوں گا۔ ان باجیوں کا پہلا حق ہے۔ یہ پہلے سے کھڑی ہیں۔ ” اس پر وہاں کھڑی بے شمار عورتوں نے مجھے فاتحانہ نظروں سے دیکھا۔ جب کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ ننھا قصائی کیا کوڈ ورڈ بول گیا۔ قصائیوں کی ایک الگ ہی زبان ہوتی ہے، یہ ان کے کام میں بڑی معاون بھی ہوتی ہے۔ بہرحال ابھی ننھے کا مفہوم تھا کہ ذرا میں ران کے اوپر کے نرّے، چربی، چھچھڑے اور آڑا سیدھا گوشت، ان عورتوں کو ٹکا دوں تو آپ کو اندر سے صاف گوشت کے پارچے نکال کر دیتا ہوں۔ اسی بارے میں ایک کہاوت بھی مشہور ہے کہ نانبائی کی اگاڑی اور قصائی کی پیچھاڑی اچھی ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ تنور میں اگر جلدی جاؤ گے تو اچھی، صاف، بِنا دھوئیں والی، بنا جلی روٹیاں ملیں گی۔ اور کیوں کہ قصائی اچھا گوشت آخر دم کر بچا کر رکھنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ پہلے سارا آلتو فالتو گوشت بک جائے، ہڈیاں ٹھکانے لگ جائیں، تو آخر میں اپنے انمول رتن نکالوں گا۔ ہر کوئی یہ بات نہیں سمجھتا اور جلدی مچاتا ہے۔ ورنہ اصول یہ ہے دکان پر جا کر خاموشی سے کھڑے ہو جاؤ، قصائی کے لاکھ پوچھنے پر بھی خاموش رہو اور جہاں دیکھو کہ اب اپنے مطلب کا گوشت ہے جھٹ آرڈر دے دو، اب سستی کرنا مناسب نہیں۔
“ٹھیک ہے تم ان باجیوں کو دو اور بچے تو میرے لئے پیک کر کے رکھ دینا۔ جب تک میں تمہارے بھائی کے درشن کر کے آتا ہوں۔ ”
اس کا بھائی اسی مارکیٹ میں ہوتا تھا مگر مٹن کا کام کرتا تھا۔ اس کے پاس مجھے زیادہ دیر نہیں لگی۔ اس سے فارغ ہو کر میں مچھلی اور جھینگے لینے چلا گیا۔ اب فقط چکن کا گوشت بچا تھا۔ چنانچہ میں نے اسے بھی لے لیا۔ فارمی چکن کا گوشت، دیگر گوشتوں کی فہرست میں سب سے نیچے جگہ پاتا ہے۔ سب سے سستا گوشت اور سب سے بے سواد بھی یہی گوشت ہوتا ہے۔ جہاں مجھے بیف پارچے پانچ سو روپے پر کلو، مٹن سات سو روپے، مٹن روکھا ہزار روپے، پاپلیٹ بڑے سائز کی پندرہ سو روپے، ٹائیگر جھینگے بارہ سو روپے پرکلو پڑے تھے۔ وہی چکن ڈھائی سو روپے پر کلو ملا تھا۔ گو کہ یہ دعوت سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ اور مرغوب بھی نہیں تھا۔ مگر اسے لینا بھی ضروری تھا۔ گھر میں یہ ماسیوں اور دیگر نوکروں کا کھابا تھا۔ وقت گذرنے کے خیال سے میں جلدی سے ننھے قصائی کے پاس دوبارہ پہنچا، اب تک وہ اپنی دکان بڑھا چکا تھا اور ہاتھ میں میرا شاپر ہی پکڑے بیٹھا تھا۔ اس سے فارغ ہو کر میں نے لسٹ کا دیگر سامان لیا، پھر پیون کو لئے پارکنگ تک پہنچا، جہاں ایک پارکنگ مافیا کی زیرِ نگرانی میں روز اپنی گاڑی کھڑی کرتا تھا۔ سامان گاڑی میں رکھ کر میں نے پیون کا فارغ کیا اور ساتھ ہی سو کا ایک نوٹ بھی اسے دے دیا۔ اَن آفیشل کام کرنے پر بیچارے کا اتنا حق تو بنتا ہی ہے۔ شکر ہے واپسی میں روڈ کھلا ملا اور میں سکون سے گھر پہنچ گیا۔
“شکر ہے آپ ٹھیک ٹائم پر آ گئے۔ ” حمیرا نے بیقراری سے کہا۔ “سب لسٹ کے مطابق لائے ہیں نا۔ ”
” ایسا کبھی ہوا ہے۔ آپ کا حکم ہو اور پھر اس میں کوتاہی ہو جائے۔ ”
” اوکے اوکے ابھی سوال جواب کا وقت نہیں۔ آپ فریش ہو جائیں۔ اتنی دیر میں، میں سامان نکلواتی ہوں اور پھر کھانا لگواتی ہوں۔ ”
” ایز یو وش۔ ارے ہاں مونا کہاں ہے ؟”
” آج اس کی بیسٹ فرینڈ سوہا کی برتھ ڈے ہے۔ ہمارا بھی بلاوا تھا۔ مگر علی بھائی کے آنے کی وجہ سے کینسل کر دیا۔ میں ابھی ابھی اسے چھوڑ کر آ رہی ہوں۔ شام کو پارٹی ختم ہونے سے پہلے ہی، وہ اسے اپنے ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیں گے۔ ”
” ٹھیک ہے۔ ویسے بھی اس کے ماموں آ رہے رہیں۔ آج پہلی بار ان سے ملے گی۔ پہلے جب وہ مونا سے ملے تھے، تو وہ دو سال کی تھی۔ ”
حمیرا نے جواب میں صرف سر ہلایا اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔
کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر میں نے سوچا تھوڑا سو لیا جائے۔ تاکہ تازہ دم ہو جاؤ۔
شام کو چھ بجے تک مہمان آ گئے۔ علی بھائی، بھابھی اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی نور جو لگ بھگ ہماری مونا کی عمر کی تھی۔ اتنے دنوں بعد ان لوگوں سے ملاقات ہو رہی تھی۔ خوب رنگ جما۔ ہر دو جانب نے اپنی اپنی پٹاریاں کھول دیں۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہا۔ اور پھر ان سب کے بعد طرح طرح کے لذیذ ڈشوں سے بھرپور ڈنر۔ حمیرا نے لگتا تھا کہ آج اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائی تھی۔ اس کے تجربہ کار اور ہنر مند ہاتھوں نے کھانوں کو گویا نئی جہت دی تھی۔ کیا کیا نہیں تھا ڈائیننگ ٹیبل پر۔ مٹن چوپس، المونیم فوائل بیکڈ پومفریٹ، سیزلنگ ٹرے پر رکھے فل ڈن اسٹیگ وِد ساس اینڈ ویجی، مٹن پلاؤ، مٹن کے ریشمی گلاوٹی کباب، مٹن قورمہ، پران کری، فرائیڈ پران، ساتھ میں رائتہ، رشین سلاد، چٹنیاں، لچھیدار پراٹھے اور اوون میں بنے قلچے۔ ساتھ کولڈ ڈرنک اور میٹھے میں لوکی کا حلوہ، ٹرائفل اور آئس کریم۔ غرض کہ سبھی کو لطف آ گیا۔ سبھی نے سیر ہو کر کھایا، اور ساتھ ہوتی رہیں حمیرا کی تعریفیں بھی، جو وہ مسکرا مسکرا کر قبول کرتی رہی۔
ابھی کھانے سے فارغ ہو کر ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہی تھے، مونا بھی آ گئی۔ گھر آئے اجنبیوں کو دیکھ کر پہلے تو تھوڑا ہچکچائی، پھر اپنی تربیت کے مطابق قریب آئی اور ادب سے سب کو سلام کیا اور میری گود میں چڑھ گئی۔ اور نور کی طرف دیکھنے لگی۔
“بیٹا، شرماؤ نہیں۔ ” علی بھائی نے اسے اپنے پاس بلایا۔
“یہ آپ کے ریلَیٹِو ہیں۔ آپ کے ماموں جو کنیڈا میں رہتے ہیں۔ یہ آپ کی ممانی اور یہ آپ کی کزن نور۔ ” میں نے سب کا مونا سے تعارف کروایا۔
“ہاں ہم آپ کے ریلَیٹِو ہیں یعنی رشتے دار۔ اور رشتے میں آپ کے ماموں لگتے ہیں اور نام ہے علی۔ “علی بھائی نے کسی پرانی فلم کا ایک مشہور ڈائیلاگ مزاحیہ انداز میں بولا۔ اس پر ایک مشترکہ قہقہہ بلند ہوا۔ جو دونوں بچیوں کی ہچکچاہٹ کے لئے اکسیر ثابت ہوا اور پھر تھوڑی دیر بعد، وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایسے بیٹھی تھیں۔ جیسے بہت پرانی دوست ہوں۔
ایک بجے علی بھائی نے جانے کی اجازت مانگی۔ ان کو رخصت کر کے ہم اندر آ گئے۔ اچانک مونا اپنے کمرے سے باہر نکلی اور دوڑتی ہوئی ہمارے پاس آ گئی۔
“ارے تم ابھی تک سوئی نہیں۔ بہت بری بات ہے۔ “حمیرا نے کہا۔
“ماموں لوگ گئے۔ ” مونا نے کہا۔
“ہاں بیٹا۔ مگر اتنی رات کو بھی آپ جاگ رہی ہیں۔ دیکھیں ممی کتنی ناراض ہیں۔ “میں نے مونا سے کہا۔
“ارے ممی پاپا ناراض نا ہوں۔ ہم آپ کے ریلَیٹِو ہیں یعنی رشتے دار۔ اور رشتے میں آپ کی بیٹی لگتے ہیں اور نام ہے مونا۔ “مونا نے علی بھائی اسٹائل میں کہا۔ میں مونا کی پِک کرنے کی صلاحیت سے حیران رہ گیا۔
” توبہ ہے۔ یہ آج کل کے بچے بھی۔ ” حمیرا نے تیوری چڑھائی۔ ” چلو اپنے روم میں۔ مجھے ابھی کافی سارے کام کرنے ہیں۔ ” پھر وہ اسے کھنچتی ہوئی چلی گئی۔ میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور سگریٹ پینے چھت پر چلا آیا۔ میں کوئی عادی سگریٹ نوش تو نہیں ہوں۔ مگر آج کے بھرپور کھانے کے بعد سوچا۔ چند سُٹّے مار لئے جائیں۔ چھت کا بلب خراب تھا، اسی لئے موبائل کی ٹارچ جلا لی۔ چھت پر کتنا سکون اور شانتی تھی۔ پیکٹ سے ایک سگریٹ منتخب کر کے جلائی اور ایک طویل کش اندر اتارا۔ رُوتھ مینز لائٹ کا خوشبودار دھواں جیسے ہی سینے میں اترا، طمانیت بھرا ایک احساس تمام رگ و جاں میں پھیل گیا۔ ٹھیک اسی وقت میرا موبائل بجا۔ دیکھا تو ایک میسیج تھا، احمد بھائی کا میسیج۔ میں نے اسے کھولا، لکھا تھا۔
“میں آج تمام دن تمہارے فون کا انتظار کرتا رہا۔ آج جب کئی سال بعد تم کو دیکھا، تو بڑا اچھا لگا۔ تمہاری بھابھی سے بھی تمہارا بتایا۔ وہ نیک بخت تو نہال ہی ہو گئی۔ تمہارے متعلق پوچھنے لگی۔ میں نے کہا کہ اس نے فون کرنے کا کہا ہے، اسی سے پوچھنا۔ سارا دن ہم دونوں تمہارے فون کا انتظار کرتے رہے۔ تمہیں ڈسٹرب تو نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مگر پھر یاد آیا آج اتوار کی رات ہے شاید تم جاگ رہے ہو۔ ہو سکے تو کبھی ملاقات کرنا۔ تمہاری بھابھی تمہیں بہت یاد کرتی ہے۔ ”
میسیج پڑھ کر میں شرمندہ سا ہو گیا۔ میں اپنی دنیا میں اتنا مگن ہو گیا تھا کہ اپنے باپ سمان بھائی کو بھی بھول بیٹھا۔ اس کی قربانی، اس کے ایثار، اس کی محبت، غرض اس سے جڑی ہر چیز کو اپنی زندگی سے مٹا چکا تھا۔ تف ہے مجھ پر۔ مانا حمیرا کو ان کا آنا پسند نہیں مگر وہ منہ سے تو بہرحال کچھ نہیں کہتی تھی اور رہا میں، تو میں اس علاقے میں جا نہیں سکتا تھا۔ مگر کہیں اور تو بھائی بھابھی سے ملاقات ہو سکتی تھی۔ کتنے سالوں تک میں نے ان کی کوئی خیر خبر بھی نہ لی۔ انہوں نے تو جب مجھے اپنی زندگی جیتے دیکھا تو چپکے سے اس سے نکل گئے۔ اپنے وجود کو گندا سمجھ کر، میرے چمکدار لائف اسٹائل سے دوری بنا لی کہ کہیں ان کی غربت کا کوئی داغ اس پر نہ لگ جائے۔ اپنی بے حسی، احسان فراموشی اور گھٹیا پنے پر مجھے رونا آ گیا۔ تبھی نیچے سے حمیرا کی آواز آئی، وہ مجھے بلا رہی تھی۔ میں نے جلدی جلدی ایک میسیج لکھا۔ اور انہیں بھیج دیا۔
“بھائی بھابھی میں کل دن میں آپ سے تفصیل سے بات کرتا ہوں، خدا حافظ۔ “، پھر نیچے اتر آیا۔
اتوار والے دن میں تھوڑا دیر سے اٹھتا ہوں۔ مگر آج خلافِ توقع میں نو بجے ہی اٹھ بیٹھا۔ عجیب خالی پن کا احساس نس نس میں سرائیت کئے ہوئے تھا۔ ماضی کی ایک حسین یاد، بھائی کا ایک انمول جملہ میری زبان پر آ گیا۔ “بتا منے میں آج تیرے لئے کیا لایا ہوں۔ ”
بستر سے اٹھتے ہوئے میں ایک نکتے تک پہنچ گیا تھا۔ باتھ روم سے فریش ہو کر نکلا تو دیکھا، حمیرا ابھی تک سوئی ہوئی ہے۔ میں نے موبائل اٹھایا اور کچن آ گیا۔ کافی مکسچر سے کافی نکال کر میں لان میں آ گیا۔ آرام کرسی پر بیٹھ کر، کافی پیتے ہوئے میں نے بھائی بھابھی کو فون لگایا اور ان سے دل کھول کر باتیں کیں۔ لبِ لباب یہ کہ سارے گلے شکوے دور کئے اور ساتھ ساتھ آج رات کے کھانے کی دعوت بھی، میں نے انہیں دے ڈالی۔ پہلے تو وہ دونوں آمادہ نہ ہوئے پھر میرے اصرار پر، اپنی رضا مندی ظاہر کر دی۔ میں نے سکون کا سانس لیا اور اندر چلا آیا۔ اب بارہ بج رہے تھے۔ حمیر ابھی جاگ گئی تھی اور مونا کو ناشتہ کرا رہی تھی۔
“صبح ہی صبح کوئی بڑا خاص فون آیا تھا۔ میں نے کئی بار جا کر دیکھا، پھر ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ”
“ہاں احمد بھائی اور بھابھی سے بات ہو رہی تھی۔ آج رات کے کھانے پر انہیں بلایا ہے۔ انتظام کر لینا۔ کوئی مسئلہ تو نہیں۔ ” میں نے حمیرا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
“مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ نہ پہلے تھا۔ نہ اب ہے۔ ڈونٹ وری۔ ” اس نے سادہ لہجے میں کہا۔
” تھینکس۔ ” اس کی اسی بات پر میں خوش ہو گیا۔
آج مونا نے بھی اپنی چند اسکول فرینڈز کو دعوت دی ہوئی تھی۔ وہ اور اس کی دوستیں مل کر، مونا کے کمرے میں دھما چوکڑی مچا رہی تھیں۔ چار بجے تک بھائی بھابھی بھی آ گئے۔ میں نے مین گیٹ پر ان کا استقبال کیا۔ اور آگے بڑھ کر بھائی کے گلے لگ گیا۔ پھر نم آنکھوں سے ماں جیسی بھابھی کو سلام کیا۔ پھر انہیں لئے ساتھ لئے ڈرائنگ روم میں آ گیا۔ ابھی بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ حمیرا نے بھی کمرے کے اندر جھانکا اور دور سے ہی بھائی بھابھی کو سلام کیا۔ پھر کہا۔ ” میں ذرا کچن میں مصروف ہوں۔ “اور الٹے قدم لوٹ گئی۔ میں نے تھوڑی شرمندگی سے بھائی کے چہرے کی طرف دیکھا۔ چہرے پر خوشی کا اظہار ضرور تھا مگر ان کی آنکھوں میں آج کوئی جگنو نہیں چمک رہا تھا۔ کچھ تھا تو فقط پاتال سا گھپ اندھیرا۔
“اصل میں، جب سے آپ کا سنا ہے، کچن میں ہی لگی ہوئی ہے۔ ” مجھ سے خود اپنی آواز نہیں پہچانی گئی۔
جواب میں دونوں مسکرا دیئے۔
“مونا کہاں ہے۔ اب تو ماشاء اللہ کافی بڑی ہو گئی ہو گئی۔ ”
“جی ابھی اس کو بلاتا ہوں۔ اصل میں اس کی دوستیں آئی ہوئی ہیں۔ تو ان میں لگی ہوئی ہے۔”
باتوں کا رسمی سلسلہ جاری ہو گیا تھا۔
پھر باتوں میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا، یہ سلسلہ گھر میں کام کرنے والی نے آ کر منقطع کیا۔
” صاحب، کھانا لگ گیا ہے۔ بی بی جی بلا رہی ہیں۔ ”
“آئیے آئیے۔ کھانا کھاتے ہیں۔ ” پھر وہ میری معیت میں ڈائننگ ٹیبل تک پہنچے۔ میں نے ٹیبل پر نظریں گھمائیں کہ دیکھو کیا کیا ہے۔ ٹیبل پر موجود تھا۔ چکن بریانی، چکن قورمہ، نان اور زردہ۔ میں نے زخمی نگاہوں سے کچن کے دروازے سے جھانکتی حمیرا کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر اور بے سواد تھا۔ فارمی چکن کے گوشت کی طرح۔
تبھی نہ جانے کدھر سے مونا ٹپک پڑی، مگر پھر مہمانوں کی موجودگی محسوس کر کے میری گود میں چڑھ گئی اور ٹکر ٹکر انہیں دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرنے لگی۔ پھر میری طرف منہ کر کے بولی۔ ” پاپا، کیا یہ بھی ریلَیٹِو ہیں یعنی رشتے دار، ان سے ہمارا کون سا رشتہ ہے ؟” مونا کے جملے میں، علی بھائی کے کل بولے جانے والے ڈائیلاگ کی باقیات تھیں۔
میں نے ایک زخمی نظر بھائی بھابھی پر ڈالی اور پھر ٹیبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“بیٹا ان سے ہمارا چکن کا رشتہ ہے ”
٭٭٭