وہ پرائیوٹ ہسپتا ل کا ایک کمرہ تھا،جہاں رامس اور علی کی والدہ کو رات سے ایڈمٹ کیا گیا تھا۔ رات ان کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے انہیں یہاں لایا گیا تھا۔ دونوں بھائیوں کے چہروں پر فکر اور تشویش کے سائے نمایاں تھے۔ وہ دونوں ہی ایک بھی پل کو نہیں سو پائے۔ ماما کی دن بہ دن گرتی حالت نے ان کے ہاتھ پیر پھلا رکھے تھے۔ان کا ہائی بلڈ پریشر اور شوگر دونوں ہی پچھلے ایک ہفتے سے کنٹرول میں نہیں آ رہے تھے۔
’’ماما،پلیز اب ٹھیک ہو جائیں۔۔۔‘‘ رامس نے انتہائی محبت بھرے انداز سے اپنی والدہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
’’بیٹا ،یہ تو خود میرے اختیا رمیں نہیں ۔۔۔‘‘ وہ بمشکل بولیں۔
’’علی بیٹا،تم پچھلے کچھ دن سے اتنے چپ چپ کیوں ہو۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنی رپورٹس کو غور سے پڑھتے ہوئے علی کو دیکھ کر فکرمندی سے پوچھا۔اپنا بڑا بیٹا انہیں ویسے بھی بہت عزیز تھا۔
’’کچھ نہیں ماما، بس آجکل کام کا کافی برڈن ہے۔۔۔‘‘انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’اللہ مجھے ہمت دے تو میں اپنے دونوں بچوں کے گھر اپنے ہاتھوں سے بسا جاؤں۔۔۔‘‘ انہوں نے حسر ت بھرے انداز سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
’’آپ بس ،اب رامس کے لیے سوچیں۔۔۔‘‘ ان کے تلخ لہجے پر رامس اور ماما دونوں ہی چونکے۔
’’رامس کے لیے ہی کیوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماما اپنی کہنیوں کے بل بمشکل اٹھ کر بیٹھیں۔ رامس نے فورا ہی اٹھ کر انہیں سہارادیا۔
’’اس لیے کہ یہ اپنی زندگی کے لیے ٹارگٹ سیٹ کر چکا ہے۔۔۔‘‘ انہوں نے بہت غور سے اپنے چھوٹے بھائی کا حواس باختہ چہرہ دیکھا۔رامس کے ساتھ ان کی کبھی بھی بے تکلفی نہیں ہو پائی تھی۔ایک تو ویسے بھی وہ ان سے پورے پانچ سال چھوٹا تھا اور کچھ وہ خود بھی فطرتا سنجیدہ مزاج اور کم گو تھے۔
’’وہ بیچارا تو تمہارے لیے ٹارگٹ سیٹ کرتا پھر رہا ہے۔۔۔‘‘ماما نے ہلکے پھلکے انداز میں بتایا تو وہ چونک گئے۔
’’میرے لیے۔۔۔‘‘ان کے منہ سے بے اختیار پھسلا۔اسی لمحے دروازہ ہلکا سا ناک ہوا۔ وہ تینوں ہی چونک گئے۔ رامس نے اٹھ کر بے اختیار دروازہ کھولا ،سامنے بالکل فریش انداز سے کھڑی عائشہ کو پھولوں کے گلدستے کے ساتھ کھڑا دیکھ کر خوشگوار حیرت کا شکار ہوا۔
’’ ماما، عائشہ آئیں ہیں آپ کی عیادت کرنے۔۔۔‘‘ رامس کے منہ سے نکلنے والے فقرے پر علی کو جھٹکا سا لگا جب کہ ماما کے چہرے پر ایک بے ساختہ سی مسکراہٹ پھیلی۔ وہ دانستہ طور پر کھڑکی کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ دل کی دھڑکنوں پر قابو پانا دشوار ہوا۔
’’السلام علیکم آنٹی۔۔۔!!!‘‘ وہ بہت محبت سے ماما سے مل رہی تھی۔
’’کیسی بہن ہیں آپ میری،اب خیال آیا ہے۔۔۔‘‘ رامس کے استحقاق بھرے لہجے سے زیادہ اُس کی بات پر علی کو کرنٹ سا لگا۔انہوں نے بے ساختہ مڑ کر اُسے دیکھا۔ پرپل لونگ شرٹ کے ساتھ وائٹ چوڑی دار پاجامہ پہنے ،دوپٹہ سلیقے سے پھیلا کر لیے وہ دل کو چھو لینے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔
’’آنٹی،میرے لیے ایک موحد کیا کم تھا،جو اب اٹھتے بیٹھتے اس کے بھی لیکچر شروع ہو گئے ہیں ۔۔۔‘‘ اُس نے بڑی بے تکلفی سے ماما سے گلہ کیا۔
ماما اُس کی بات پر ہنسیں۔جب کہ ان دونوں کی گفتگو علی کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی۔
’’بھئی میں کیا کہہ سکتی ہوں ،یہ تم بہن بھائیوں کا مسئلہ ہے۔۔۔‘‘ ماما کے لہجے میں محبت ،نرمی اور اپنائیت کے سبھی رنگ تھے۔
’’علی،بیٹا،تم عائشہ سے ملے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماما نے اچانک ہی اُسے مخاطب کیا۔جو بالکل ہکا بکا انداز سے اُسے دیکھ رہے تھے۔ عائشہ کے چہرے پر بڑی خوبصورت مسکراہٹ تھی اور آنکھوں کی چمک اس بات کی گواہ تھی کہ وہ اس ساری سچوئیشن سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔۔۔
’’ماما،میں عائشہ کو پہلی دفعہ تھوڑی مل رہا ہوں،بہت عرصے سے جانتا ہوں۔۔۔‘‘ علی کی بات نے اس دفعہ عائشہ کے چھکے اڑائے۔اُس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی ۔اُسے علی کی طرف سے اس بات کی توقع ہر گز نہیں تھی ۔جب کہ ماما اور رامس نے بڑی حیرت سے ان کا چہرہ دیکھا،جو اب کھل کر مسکرا رہے تھے۔
* * *
(صائمہ اکرم چوہدری کا یہ دلچسپ ناول ابھی جاری ہے، باقی واقعات اگلی قسط میں پڑھیے)
’’آپ عائشہ کو کیسے جانتے ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘رامس کے چہرے پر دنیا جہاں کی حیرانگی تھی۔ وہ علی کے چہرے پر لطف لیتی مسکراہٹ کو دیکھ کر حیران ہوا ۔جب کہ عائشہ کے چہرہ خاصا
بدحواس سا دِکھائی دے رہا تھا۔ وہ خوفزدہ نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔
’’یہ تو آپ عائشہ سے ہی پوچھیں۔۔۔‘‘اُس کی بات نے عائشہ کو بالکل ہی بوکھلا دیا۔وہ ایک دم گڑبڑا کر بولی۔’’آپ خود کیوں نہیں بتا دیتے۔۔۔‘‘
’’بھئی یہ آپ دونوں کون سی پہیلیاں بجھا رہے ہیں،سیدھے سیدھے بتا دیں۔۔۔‘‘رامس تھوڑی سی اکتاہٹ کا شکار ہوا تو علی نے مسکرا کر اُسے دیکھا۔
’’ان کو کون نہیں جانتا ،بہت اچھی سوشل ورکر اور بہت عمدہ مصوّرہ ہیں اور میں نے ان کی ایگزیبشن بھی اٹینڈ کی تھی،ویسے بھی اکثرہیلو ہائے رہتی ہے۔۔۔‘‘علی کے ہلکے پھلکے انداز پر عائشہ نے سکون کا سانس لیا جب کہ رامس کے چہرے پر ہلکی سی الجھن جھلکی۔
’’اگر آپ ان کو پہلے سے جانتے تھے تو اُس دن ،ان سے کیوں نہیں ملے۔۔۔؟‘‘ رامس کے سوال نے ان دونوں کے ہی چھکّے چھڑائے۔
’’کس دن۔۔۔؟؟؟؟‘‘علی نے مصنوعی حیرانگی کی انتہاء کر دی۔
’’بھئی کچھ دن پہلے ہی کی تو بات ہے،جب میں اور عائشہ میڈیسن دینے گھر آئے تھے اور آپ گھر سے نکل رہے تھے۔۔۔‘‘رامس نے معصومیت سے انہیں یاد دلانے کی کوشش کی۔
’’اچھا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ علی نے مصنوعی حیرت سے رامس کا الجھن بھرا چہرہ دیکھا۔ ’’مجھے یاد نہیں ،ہو سکتا ہے کہ میں جلدی میں ہوں۔۔۔‘‘
’’اچھا۔۔۔‘‘رامس نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے لیکن اُس کے انداز سے لگ رہا تھا جیسے اُسے علی کی بات کا یقین نہ آیا ہو۔
’’سچ سچ بتائیں کہ آپ واقعی علی بھائی کو جانتی تھیں۔۔۔؟؟؟وہ اگلے ہی دن اُس سے فون پر الجھن بھرے انداز سے پوچھ رہا تھا۔
’’کیوں ،تمہیں نہیں لگا کیا۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ نے الٹا اُس سے سوال کیا۔
’’اصل میں بھائی کی بزی لائف میں ان چیزوں کی گنجائش نہیں نکلتی۔اس لیے حیران ہوں۔‘‘رامس نے سادگی سے بتایا تو وہ جواباًہنس پڑی۔
’’کیوں تمہارے بھائی کہاں کے منسٹر لگے ہوئے ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ نے شرارت سے اُسے چھیڑا۔
’’میں پریشان ہو رہا ہوں اور آپ کو مذاق کی پڑی ہوئی ہے۔۔۔‘‘دوسری جانب وہ تھوڑا سا بُرا منا گیا۔
’’بھئی اپنے ننھے منے دماغ پر اتنا زور نہ ڈالو، مجھے تو ہزاروں لوگ جانتے ہیں اور جہاں تک تمہارے بھائی کی بات ہے تو انہوں نے مجھ سے کچھ پینٹنگس خریدیں تھیں۔‘‘عائشہ نے اُسے مطمئن کرنے کے لیے کچھ تفصیل سے بتایا اور دوسری جانب وہ اب ریلکس ہو چکا تھا۔
* * *
’’امّاں۔۔۔‘‘ سکینہ نے سیپارہ پڑھتی امّاں کو بڑی خوفزدہ سی آواز میں پکارا۔امّاں نے چونک کر سکینہ کی طرف دیکھا جو ہراساں نگاہوں سے کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھی۔
’’کیا ہو ا سکینہ۔۔۔؟؟؟‘‘جمیلہ مائی نے اپنا سیپارہ بڑی عقیدت اور احترام سے بند کر کے میز پر رکھا۔۔۔
’’امّاں ذرا دیکھ اس درخت کو کیا ہو گیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ کی آواز میں خوف ہی خوف تھا۔امّاں نے اس کی نظروں کے تعاقب میں باہر جھانک کر دیکھا تو ایک لمحے کو وہ بھی سنّاٹے میں آ گئی ۔کچھ لمحے تو وہ بھی کچھ نہیں بول پائی۔
’’امّاں یہ آکاس بیل کتنی زہریلی نکلی،اچھے خاصے سر سبز درخت کو کھا گئی۔دیکھ ذرا،کیسے سوکھ گیا ہے یہ دنوں میں۔۔۔‘‘ سکینہ کے شکوے پر امّاں نے چونک کر سکینہ کی نم آنکھوں کو دیکھا۔
’’پگلی ،تو کیوں پریشان ہوتی ہے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی آنکھوں میں سکینہ کے لیے ایک خاموش دلاسا تھا۔
’’امّاں یہ دوسرا درخت ہے جو میرے یہاں ہوتے ہوئے بھری بہار میں ٹنڈ منڈ سا ہو گیا ہے،اب چڑیاں کہاں بیٹھیں گی۔۔۔‘‘؟سکینہ کے بچگانہ انداز پر جمیلہ مائی زبردستی مسکرائی۔
’’پتّر،چڑیوں کی فکر نہ کر،وہ اپنا ٹھکانہ کہیں نہ کہیں کر لیں گی،بھلا کسی کے مرنے یا اجڑنے پر بھی دنیا کا کاروبار رُکا ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کے لہجے میں کوئی ان کہا سا دکھ بولا۔
’’ہاں امّاں تو ٹھیک کہتی ہے،بندوں کے مرنے پر کچھ نہیں ہوتا،یہ تو ایک درخت تھا۔۔۔‘‘ سکینہ اداس ہوئی۔
’’تو میری دھی خوش خوش رہا کر۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے اُسے فوراً نصیحت کی۔
’’امّاں خوشی انسان کے اپنے اختیار میں تو نہیں یہ جو انسان کے اندر کسی سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھا ہوا غم ہوتا ہے ناں ،یہ ہر موقعے پر اپنا پھن پھیلا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔بندہ اس کے ڈر سے کھل کر خوش بھی نہیں ہو سکتا ۔‘‘سکینہ نے کوئی گہرا فلسفہ ہی بولا تھا جو جمیلہ مائی نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’ہاں پتّر یہ غم،دکھ،فکریں اور پریشانیاں بھی آکاس بیل کی طرح ہوتی ہیں۔بندے کو چمٹ جائیں تو اُسے اندر باہر سے ایسے ہی کھوکھلا کر دیتی ہیں۔‘‘جمیلہ مائی نے کسی خیال میں ڈوب کر کہا تو سکینہ ایک لمحے کو چُپ کر گئی۔
’’کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے امّاں ،میں بھی اسی درخت کی طرح ہوں،اور میری بیماری بھی مجھے اسی آکاس بیل کی طرح کھاجائے گی۔۔۔‘‘سکینہ کی بات نے جمیلہ کو دہلا کر رکھ دیا۔
’’اللہ کو مان سکینہ،کیسی باتیں کرتی ہے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی ناراضگی میں بھی پیار ہی پیار تھا۔
’’امّاں ،بعض باتیں اور چیزیں انسان کے دل میں وحی کی طرح اترتی ہیں ۔ان کی تصدیق کے لیے انسان کو کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ان کی سچائی اور حقیقت خود بخود پانی کی طرح اپنا راستہ بنا لیتی ہے۔۔۔‘‘سکینہ ہنسی تو جمیلہ مائی کو اُس کی آواز میں دکھ کسی آبشار کی طرح شور مچاتا ہوا محسوس ہوا۔
’’دیکھ سکینہ، اللہ سے بُرا گمان نہ رکھا کر،اُسے اپنے بندے کے منہ سے ناامیدی اور مایوسی کی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی سچ مچ خفا ہوئی۔
’’پھر اللہ انسان کو ایسی آزمائش میں ڈالتا ہی کیوں ہے۔۔۔؟؟؟‘‘بہت دن کے بعد سکینہ نے سوال نہیں شکوہ کیا تھا۔
’’دیکھ بندے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے رب سے سوال جواب کرے۔جس سے محبت ہو ،اُس سے ،کیا،کیوں اور کیسے ؟والے سوال نہیں کیے جاتے۔خود کو بس اُس کی مرضی پر ڈال دیا جاتا ہے۔اُس کی رحمت بندے کی آزمائش سے بہت زیادہ ہے۔بس اللہ سے رحمت اور کرم مانگا کر۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی عصر کی نماز پڑھنے کے لیے کھڑی ہوئی۔
’’امّاں تو بہت عجیب باتیں کرتی ہے۔۔۔‘‘سکینہ نے بُرا سا منہ بنا کر اشفاق احمد کی کتا ب اٹھا لی۔امّاں مسکراتے ہوئے واش روم کی جانب بڑھ گئی۔اسی لمحے کمرے کا دروازہ ہلکا ساناک کر کے ڈاکٹر خاور اندر داخل ہوئے۔
’’ڈاکٹر صاحب ایسا لگتا ہے جیسے کوئی گم شدہ چیز آپ کو صحیح سلامت واپس مل گئی ہے۔۔۔‘‘سکینہ نے اُن کے سلام کا جواب دے کر فوراً ہی کہا۔وہ چونکے،اپنی جگہ پر ٹھٹکے اور مسکرا دیے۔
’’تمہیں کیسے لگا سکینہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘وہ اسٹول کھینچ کر سکینہ کے بیڈ کے پاس بیٹھ گئے۔ان کے ہاتھ میں سکینہ کی فائل تھی۔
’’بہت دن کے بعد میں نے آپ کے چہرے پربڑی آسودہ سی مسکراہٹ دیکھی ہے۔۔۔‘‘سکینہ کی بات پر وہ ہنسے۔
’’مجھے لگتا ہے کہ آپ نے اپنی آنکھوں میں کوئی ایکسرے مشین فٹ کروا لی ہے یا خورد بین،جو انسان کے اندر کی باتیں بھی جاننے لگی ہو۔۔۔‘‘انہوں نے ہلکے پھلکے انداز سے بات کو ٹالنے کی کوشش کی۔
’’ڈاکٹر صاحب یہ جو محبت ہوتی ہے ناں ،اس کے اندر خودر بین سے بھی زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ ہمیں جس بندے سے محبت ہو،اُس کے اندر جھانکنے کے لیے کسی ایکسرے مشین یا خوردبین کا سہارا لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ایک نظر ہی آپ کو وہ سب کچھ بتا دیتی ہے جو دنیا کی کوئی جدید مشین نہیں بتا سکتی۔‘‘ سکینہ نے اشفاق احمد کا ’’منچلے کا سودا‘‘بند کرتے ہوئے ڈاکٹر خاور کو حیران کیا۔
’’سکینہ ،فرض کرو،آپ کو کسی سے محبت ہو اور اُسے آپ سے نہ ہو تو۔۔۔؟؟؟‘‘ڈاکٹر خاور کے سوال پر ایک بڑا گہرا تاریک سایہ سکینہ کے چہرے پر پھیلا۔
’’محبت کوئی لین دین یا تجارت کا معاہدہ تو نہیں۔جو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کیا جائے۔یہ تو ایسا سودا ہے،جو نفع اور نقصان سے بے نیاز ہو کر کیا جاتا ہے۔۔۔‘‘ سکینہ تھوڑا سا افسردہ ہوئی
’’ہوں ،اور اگر دونوں طرف آگ برابر لگی ہوتو۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے بال پوائنٹ اپنے دانتوں تلے دباتے ہوئے ایک اور سوال کیا۔
’’اگر ایسا ہوتو اس سے بڑھ کر انسان کی کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے۔۔۔‘‘سکینہ زبردستی مسکرائی۔
’’بس سکینہ اب آپ ان تمام فلسفوں کی دنیا سے نکل آؤ اور اپنے آپریشن کے بارے میں سوچو،جو اگلے ہفتے ہوگا۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے بات ایک دم ہی پلٹ دی۔سکینہ تھوڑی سی مایوس ہوئی۔
’’ڈاکٹر صاحب ایک بات پوچھوں۔۔۔‘‘؟؟؟ سکینہ تھوڑا سا تذبذب کا شکار ہوئی۔
’’ہاں ہاں ضرور۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے اس کی حوصلہ افزائی کی تو وہ جھجک کر بولی۔ ’’آپ ناراض تو نہیں ہونگے۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’ہر گز نہیں۔۔۔‘‘وہ تھوڑا سا حیران ہوئے۔
’’کیا مجھ جیسی لڑکی سے کسی کو محبت ہو سکتی ہے۔۔۔؟‘‘سکینہ نے سوال نہیں کیا تھا بلکہ ڈاکٹر خاور کو ہلا کر رکھ دیا ۔وہ بھرپور انداز سے چونکے۔
’’ہاں،بالکل ہو سکتی ہے۔۔۔‘‘وہ بغیر کسی جھجک کے بولے تو اس دفعہ حیران ہونے کی باری سکینہ کی تھی۔
’’کیا میری جیسی لڑکی سے آپ جیسے مرد کو محبت ہو سکتی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ نے اس دفعہ کمرے میں بلاسٹ ہی کیا ۔
’’آف کورس۔۔۔!!!‘‘ ڈاکٹر خاور نے ایک دفعہ پھر سکینہ کو حیران کیا۔
’’میری بیماری کے باوجود۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُسے نہ جانے کیوں یقین نہیں آیا۔
’’دیکھو محبت کے پاس ظاہری بصارت نہیں ہوتی،وہ اپنے محبوب کو ہمیشہ باطن کی آنکھ سے دیکھتی ہے۔وہ اُسے ویسا ہی دیکھتی ہے،جیسا اُس کا دل اُسے دِکھاتا ہے۔چاہے ساری دنیا مل کر اُسے آنکھیں کیوں نہ دے دے،وہ اپنے محبوب کے معاملے میں اندھی رہنا ہی پسند کرتی ہے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کا سحر انگیز لہجہ سکینہ کو پاگل کر رہا تھا۔
’’کیا ،کوئی ایسا شخص میری قسمت میں بھی ہوگا۔۔۔‘‘ سکینہ کے لہجے میں گم شدہ اعتماد لوٹ آیا جو ڈاکٹر خاور کو بہت اچھا لگا۔
’’ہاں ضرور،انشاء اللہ۔۔۔‘‘ وہ جمیلہ مائی کو واش روم سے نکلتے دیکھ کر مسکرائے۔۔۔
’’امّاں جی سکینہ کے لیے دعا کریں ،اس کے آپریشن کی ڈیٹ فائنل ہو گئی ہے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی بات پر سکینہ اور جمیلہ مائی دونوں ہی زبردستی مسکرائیں۔سکینہ کی آنکھوں میں ایک ہلکا سا خوف در آیا۔
* * *
’’آئی ایم سوری عائشہ،میں اُس دن کچھ تلخ ہو گئی تھی۔۔۔‘‘ ماہم اُس دن اچانک ہی ان کی طرف آ نکلی۔عائشہ پہلے تو اُسے دیکھ کر حیران ہوئی لیکن اُسے ماہم کا تلخ لہجہ اور گفتگو یاد آئی تو اُس کا دل ایک دم ہی اکتاہٹ کا شکار ہوا۔
’’آؤ بیٹھو۔۔۔‘‘ اپنے لان میں بیٹھ کر چائے پیتی عائشہ نے سپاٹ لہجے میں کہا تو ماہم نے ایک لمحے میں اُس کا اجنبی سا انداز محسوس کیا۔
’’ایکچوئلی یار،انصر بھائی کے گھر والوں نے پورے خاندان میں یہ بات آگ کی طرح پھیلا دی تھی۔۔۔‘‘ماہم نے صفائی دینے کی کوشش کی۔
’’دیکھو ماہم ،میں اس ٹاپک پر تم سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتی۔۔۔‘‘عائشہ تھوڑا سا روکھے انداز میں بولی تو ماہم کو دھچکا سا لگا۔
’’یار ٹرائی ٹو انڈر اسٹینڈ می۔۔۔مجھے غصّہ آ گیا تھا کہ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔۔‘‘ ماہم نے ایک دفعہ پھر بولنے کی کوشش کی تو عائشہ نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے مزید بولنے سے روک دیا۔
’’غصّہ صرف تمہاری میراث نہیں ہے۔یہ ایک ایسا جن ہے جو کسی بھی لمحے کسی بھی شخص پر سوار ہو سکتا ہے۔تم میرے اس غصّے والے جن کو بوتل میں بند رہنے دو،اُس کا ڈھکن کھل گیا تو تمہیں بہت مسئلہ ہوگا۔۔۔‘‘عائشہ کے لہجے میں اس قدر رکھائی اور اجنبیت تھی کہ ماہم کچھ لمحے تک بول ہی نہیں سکی۔
’’تمہارا کلینک کیسا جا رہا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ نے دانستہ موضوع بدلا اور ماہم کو اس چیز کا فورا ہی ادراک ہوا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔‘‘وہ ابھی تک اس حملے سے سنبھل نہیں پائی۔ وہ سخت حیرت سے اپنے سامنے بیٹھی عائشہ کو دیکھ رہی تھی جس کی شخصیت کایہ عجیب سا پہلو اُس کے سامنے آیا تھا۔
’’اور ثمن آپی ٹھیک ہیں۔۔۔‘‘ عائشہ نے آج فارمل گفتگو کرنے کے سارے ریکارڈ تو ڑ دیے ۔
’’ہاں ٹھیک ہیں ،بس احیان کو مس کرتی ہیں۔۔۔‘‘ ماہم کی بات پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ نے عائشہ کے چہرے کا احاطہ کیا لیکن اُس نے دانستہ اس بات پر تبصرہ کرنے سے پرہیز کیا۔
’’تمہارے لیے چائے بنواؤں۔۔۔‘‘ عائشہ کی اس بات پر ماہم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
’’میرا خیال ہے کہ تم مجھ سے مزید بات کرنا نہیں چاہتی ہو۔۔۔‘‘وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی۔
’’یہ تمہا را ذاتی خیال ہے اور ضروری نہیں کہ ٹھیک بھی ہو۔۔۔‘‘ عائشہ نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔اسی وقت ملازمہ کارڈلیس اٹھائے لان میں نمودار ہوئی۔
’’عائشہ بی بی ،آپ کی کال ہے کوئی رامس صاحب ہیں۔۔۔‘‘ ملازمہ کی بات پر ماہم کے چہرے کی رنگت متغیر ہوئی۔وہ جو جانے کے لیے پر تول رہی تھی۔دانستہ وہیں جم کر کھڑی ہو گئی۔
’’ہاں بھئی کیسے ہو رامس،ماما کیسی ہیں۔؟سوری میں آج انہیں دیکھنے نہیں آ سکی۔۔۔‘‘ عائشہ کی بات پر ماہم کی آنکھوں میں حسد اور جلن کے سارے ہی رنگ جھلکے۔
’’زیادہ فضول باتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔اگر کوئی مسئلہ ہے تو خود آ کر لے جاؤ،میری گاڑی ورکشاپ میں ہے۔۔۔‘‘ عائشہ نے دوسری جانب اُس کی کسی بات کے جواب میں بے تکلفی سے کہا تو ماہم کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی۔
’’تمہارے پاس تو انصر بھائی سے زیادہ بہتر آپشن موجود تھا،سوری مجھے اس کا خیال ہی نہیں آیا۔۔۔‘‘ اُس نے جیسے ہی فون بند کیا تو ماہم کے طنز پر عائشہ نے خود کو بمشکل مشتعل ہونے سے روکا۔
’’میرے پاس رامس سے بھی بہتر آپشن موجود ہے۔جس کا تمہیں خیال بھی نہیں ہوگا۔۔۔‘‘عائشہ نے کھڑے ہو کر بڑے اعتماد سے ماہم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو اُس کے چھکے چھوٹ گئے۔
’’دھیان سے اڑنا، فضا میں بہت عقاب ہیں اور تم کسی معصوم فاختہ کی طرح ہو۔۔۔‘‘ ماہم اب براہ راست طنز پر اترآئی۔
’’نصیحت کا بہت شکریہ،میں اپنی ہی فضاؤ ں میں اپنی ہی حدوں کے اندر اڑتی ہوں ،اس لیے مجھے عقابوں کا کوئی خوف نہیں ،تم اپنی فکر کرو کہیں پرائے آسمانوں کی تلاش میں سورج کی تپش ہی برداشت نہ کر سکو اور سارے پروں کو جلا بیٹھو۔۔۔‘‘عائشہ کی بات نے ماہم کو سلگا کر رکھ دیا۔
’’اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرئے گا۔۔۔‘‘ماہم کا لہجہ عائشہ کو چیلنج کرتا ہوا محسوس ہوا۔
’’اور مجھے یقین ہے کہ وہ وقت دُور نہیں۔۔۔‘‘عائشہ نے ایک دفعہ پھر اُسے حیران کیا۔
* * *
’’تجھ سے ناراض نہیں،زندگی حیران ہوں میں۔۔۔‘‘ کمرے کی تاریکی اور خاموشی میں یہ غزل موحد کو بہت اچھی لگ رہی تھی۔آنکھیں بند کیے وہ اپنی وہیل چئیر پر بیٹھا کسی اور ہی دنیا میں گم تھا۔ جب عائشہ دبے پاؤں اُس کے کمرے میں داخل ہوئی۔اُس نے دروازے کے پاس ہی دیوار پر لگے سارے بٹن ایک دم ہی روشن کر دیے۔کمرے میں روشنی کا پورا طوفان سا آگیا تھا۔موحد کی آنکھیں چندھیا سی گئیں۔اُس نے بے ساختہ اپنی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لیے۔
’’بھائی آنکھوں پر ہاتھ رکھنے سے حقیقت بدل نہیں جاتی ۔زمانے کو فیس کرنا سیکھیں۔۔۔‘‘ عائشہ نے بڑ ی محبت سے اُس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’پتا نہیں کیوں ،روشنیاں میری آنکھوں کو اچھی نہیں لگتیں۔۔۔‘‘وہ شدید قسم کی قنوطیت کا شکار لگ رہا تھا۔
’’اور مجھے آپ کے چہرے پر اداسی اور رنجیدگی کی تیرگی اچھی نہیں لگتی۔۔۔‘‘عائشہ کے لہجے کی کھنک پر وہ تھوڑا سا حیران ہوا۔
’’عاشو،بہت خوش لگ رہی ہو۔۔۔‘‘موحد نے آنکھیں کھول کر اپنی پیاری بہن کا پرسکون چہرہ دیکھا اور دل ہی دل میں نظر بد سے بچنے کی دعا کی۔
’’خو شی کا تو پتا نہیں ،لیکن بہت مطمئن ہو ں میں ۔۔۔‘‘ وہ اب اُس کے سامنے آن بیٹھی۔اُس کاچہرہ اندرونی خوشی کے ا حسا س سے جگمگا رہا تھا۔
’’مطمئن ہونا،خوش ہونے سے زیادہ قیمتی جذبہ ہو تا ہے۔ سکون ایسی دولت ہے جو کسی کسی دل کو ہی نصیب ہوتی ہے۔۔۔‘‘موحد نے اُس کی چمکتی آنکھوں سے بمشکل آنکھیں چرائیں۔
’’انشاء اللہ ،آپ کو بھی اللہ اس دولت سے مالا مال کرے گا۔۔۔‘‘عائشہ نے دل کی گہرائیوں سے اپنے بھائی کو دعا دی۔
’’پتا نہیں ۔۔۔‘‘ وہ نہ جانے کیوں مایوسی میں گھرا ہوا تھا۔
’’کیا حال ہے آپ کی ہیلن آف ٹرائے کا۔۔۔‘‘عائشہ نے اُسے چھیڑنے کی کوشش کی۔
’’پتا نہیں ،ایک ہفتے سے کوئی رابطہ نہیں۔۔۔‘‘موحد کے جواب پر وہ چونکی۔ ’’لیکن کیوں۔۔۔؟؟؟‘‘
’’میں نے اُسے ماہم کے بارے میں بتا دیا تھا۔اب مجھے نہیں لگتا کہ وہ کبھی مجھ سے دوبارہ رابطہ کرئے گی۔۔۔‘‘موحد نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر ہی دیا۔
’’کیا بتایا۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ کی بے تابی پر وہ افسردگی سے مسکرایا۔ ’’یہی کہ میرے دل پر بہت عرصہ اُس نے حکمرانی کی تھی۔۔۔‘‘
’’یہ بتانا کیا ضروری تھا۔۔۔‘‘عائشہ ناراض ہوئی۔
’’اُس نے پوچھا تھا،اور میں نے جھوٹ بولنا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔‘‘اُس کی سادگی پر عائشہ نے بے ساختہ اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
’’بھائی ہر حقیقت بتانے کے لیے نہیں ہوتی۔کچھ چیزوں پر جب اللہ پردہ ڈال دیتا ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو پردہ ہٹا ہٹا کر دِکھا یا جائے۔۔۔‘‘ عائشہ نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ اپنے نچلے لب کو کچلنے لگا۔
’’پتا نہیں کیوں ،میں اُس سے جھوٹ نہیں بول سکتا۔۔۔‘‘ موحد نے کھلے دل سے اعتراف کیا۔
’’اچھا ،آپ اُس کا نام بتائیں اور مناسب سمجھیں تو مجھے اُس کا نمبر دیں۔۔۔‘‘عائشہ کی فرمائش پر اُسے جھٹکا سا لگا۔۔۔’’تم ،کیا کرو گی۔۔؟؟؟‘‘
’’اخبار میں ’’تلاش گمشدہ‘‘کا اشتہار دوں گی۔۔۔‘‘وہ ہلکا سا جھنجھلائی۔ ’’بھئی اُس سے بات کروں گی،اور کیا کروں گی۔۔۔‘‘اُس نے موحد کی سوالیہ نگاہوں سے گھبرا کر فوراً وضاحت دی۔
’’میرے لیے خوشیوں کی بھیک مانگو گی۔۔۔‘‘وہ تلخ ہوا۔
’’کیوں ،آپ کوئی لولے لنگڑے ہیں جو آپ کے لیے بھیک مانگوں گی۔۔۔‘‘عائشہ اپنی روانی میں خاصا غلط بول گئی لیکن موحد کا تاریک چہرہ دیکھتے ہی اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
’’آئی ایم سوری بھائی۔۔۔‘‘ اُس نے شرمندگی سے سر جھکایا۔
’’کوئی بات نہیں ،سچ منہ سے نکل ہی جاتا ہے،تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔‘‘موحد کا سپاٹ لہجہ عائشہ کو دکھی کر گیا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی،موحد اپنی وہیل چئیر کے پہیوں پر تیز تیز ہاتھ مارتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔عائشہ کو لگا جیسے اُس کی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہو۔
* * *
’’ہوں۔۔۔بات تو آپ نے واقعی غلط کی ،اور بہت ہی زیادہ غلط کی۔۔۔‘‘وہ رامس کو اپنا سارا دکھڑا سنا کر چپ ہوئی تو فون کی دوسری جانب سے رامس نے فوراً ہی اُسے مزید شرمندہ کیا
’’اب کیا کروں۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس کی معصومیت پر رامس کو ہنسی آ گئی اور دوسری جانب موجود عائشہ کو اُس کی ہنسی کی آواز نے تپا دیا۔
’’میری جان پر بنی ہوئی ہے اور تم ہنس رہے ہو۔۔۔‘‘ وہ باقاعدہ جل کر گویا ہوئی۔
’’آپ بات ہی ہنسنے والی کر رہی ہیں،بھئی سیدھی سی بات ہے کہ جب کوئی غلطی ہو جائے تو اُس پر ایکسکیوز کر لینا چاہیے۔۔۔‘‘رامس نے مسکراتے ہوئے اُسے مشورہ دیا جو عائشہ کو بالکل بھی پسند نہیں آیا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ میں نے سوری نہیں کیا ہوگا۔۔۔‘‘ اُس نے طنزاً پوچھا۔
’’جی ضرور کیا ہوگا۔۔۔‘‘رامس مسکرایا۔’’لیکن اس انداز سے کیا ہوگا کہ اگلا بندہ مزید دکھی ہو گیا ہو گا۔۔۔‘‘وہ رامس کے درست اندازے پر حیران ہوئی۔
’’تمہیں کس نے بتایا ۔۔۔؟؟؟‘‘اُس کی حیرت پر وہ اب قہقہہ لگا کر ہنسا۔
’’اچھا ،اب ایسا کریں کہ جس مسئلے کی وجہ سے موحد بھائی پریشان ہیں ،وہ حل کر دیں۔۔۔‘‘رامس نے اُسے ایک نئی راہ دِکھائی۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟‘‘
’’بھئی مطلب یہ کہ اُس لڑکی کو فون کریں یا اُس سے جا کر مل لیں ۔۔۔‘‘رامس نے مشورہ دیا۔
’’ماشاء اللہ،بہت عقلمند واقع ہوئے ہیں آپ۔۔۔‘‘عائشہ کے لہجے میں طنز کی آمیزش شامل ہوئی۔
’’وہ کیسے بھئی۔۔۔؟؟؟‘‘اُس نے شرارت بھرے انداز سے پوچھا۔
’’اُس لڑکی کا فون نمبر مانگنے کی وجہ سے تو ساری گڑبڑ ہوئی ہے۔۔۔‘‘ عائشہ نے اُسے یاد دلایا۔۔
’’اوہ۔۔۔‘‘وہ چونکا کچھ سکینڈ کے توقف کے بعد بولا۔ ’’فون نمبر تلاش کرنا تو کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔‘‘
’’وہ کیسے ۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ نے عجلت بھرے انداز میں پوچھا۔
’’یہ بتاؤ کہ موحد بھائی کے فون کا بل کہاں آتا ہے،گھر پر یا آفس کے ایڈریس پر۔۔۔؟؟؟‘‘ رامس کے سوال پر وہ حیران ہوئی۔
’’گھر پر۔۔۔‘‘ عائشہ نے مختصراً بتایا۔
’’بس پھر تو سارا ہی مسئلہ حل ہو گیا۔ان کے پچھلے مہینے کے بل کو چیک کرو،جس نمبر پر سب سے زیادہ اور سب سے لمبی کالز ہوئی ہونگی،وہ اُسی لڑکی کا نمبر ہوگا۔‘‘رامس نے چٹکی بجا کر اُس کا سارا ہی مسئلہ حل کردیا۔
’’اوہ مائی گاڈ،تم کتنے چالاک ہو رامس۔۔۔‘‘ عائشہ ایک دم ہلکی پھلکی ہوئی۔
’’دیکھ لو،پھر بھی آپ کی دوست کے ہاتھوں دھوکا کھا گیا۔۔۔‘‘ اُس نے استہزائیہ انداز سے اپنا مذاق اڑایا جو عائشہ کو بالکل اچھا نہیں لگا۔
’’اُس کی تو تم بات ہی نہ کرو،ہم سب مل کر بھی ماہم کے دماغ کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔۔۔‘‘عائشہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’خیر اب ایسی بھی بات نہیں ،اونٹ کبھی نہ کبھی تو پہاڑ کے نیچے آئے گا ناں۔۔۔‘‘ رامس کا لہجہ خاصا معنی خیز تھا۔عائشہ تھوڑا سا الجھی۔ ’’دفع کرو،ہمیں کیا ضرورت ہے،بس اللہ سب کو ہدایت دے۔۔۔‘‘عائشہ کی بات پر وہ مسکرایا۔
’’آپ بہت اچھی فطرت کی حامل ہیں لیکن افسوس کہ آپ جیسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔‘‘رامس نے کھلے دل سے اعتراف کیا۔
’’پتا نہیں۔۔۔‘‘عائشہ نے لاپرواہی سے کہا۔ ’’میں بس ہر چیز کے لیے اپنے اللہ کے اور اپنے ضمیر کے آگے جواب دہ ہوں۔دوسرے کیا ہیں اور کیوں ہیں؟میں ان باتوں پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتی۔‘‘
’’بہت اچھا کرتی ہیں ورنہ ہم میں سے اسّی فیصد لوگ اپنی ذات کی بجائے دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں ۔ اسی سے معاشرے میں بگاڑپیدا ہوتا ہے۔‘‘ رامس سنجیدہ ہوا تو وہ سر ہلا کر رہ گئی۔
’’تمہارے بھائی کا کیاحال ہے۔۔۔‘‘ عائشہ نے کچھ جھجک کر پوچھا۔
’’بھائی اپنی جاب میں بہت زیادہ بزی ہیں ،آجکل کم کم ہی ملاقات ہوتی ہے۔۔۔‘‘ رامس نے سادگی سے بتایا تو اُس نے فوراً پوچھا۔ ’’کیا جاب کرتے ہیں تمہارے بھائی۔۔۔؟‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟‘‘رامس ٹھٹکا۔ ’’انہوں نے آپ کو نہیں بتایا۔۔۔؟؟؟‘‘
’’نہیں،میں نے اُ ن سے کبھی نہیں پوچھا۔۔۔‘‘ عائشہ کی سادگی نے رامس کو کافی زیادہ حیران کیا۔
’’مائی گاڈ ،کیسی لڑکی ہیں آپ۔۔۔‘‘ وہ خوشگوار انداز میں ہنسا تو دوسری جانب عائشہ چڑ سی گئی۔ ’’بھئی ایسی ہی ہوں۔۔۔‘‘ وہ اُس کے جل کر بولنے پر بے اختیار ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا۔
* * *
’’سکینہ ،آخر تم مجھے غلط کیوں سمجھتی ہو۔۔۔‘‘آنکھوں میں ڈھیروں سارا سُرمہ اور تیل سے چپڑے ہوئے بالوں کے ساتھ جاجی ،پچھلے ایک گھنٹے سے سکینہ کی برداشت کا امتحان لے رہا تھا۔ اللہ دتّا کمہار، جمیلہ مائی کے ساتھ ڈاکٹرز کی ایک میٹنگ میں گیا ہوا تھا۔
’’میں تمہیں نہ درست اور نہ ہی غلط بلکہ کچھ بھی نہیں سمجھتی۔۔۔‘‘سکینہ نے چڑ کر جواب دیا۔
’’تجھے میری محبت کا اعتبار کیوں نہیں آتا۔۔۔‘‘ جاجی کے سوال نے اُسے سلگا کر رکھ دیا۔
’’میں نے تیری محبت کا کیا اچار ڈالنا ہے۔۔۔‘‘ وہ ایک دم مشتعل ہوئی۔
’’اچھا ،پھر کس کی محبت کا اچار ڈالے گی۔۔۔‘‘جاجی نے بھی آج ڈھٹائی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔اُس کے سوال پر سکینہ ایک دم ہکا بکا ہوئی۔
’’تجھے کیاتکلیف ہے،میں جو بھی کروں۔۔۔‘‘سکینہ نے امّاں کی غیر موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔جاجی کا چہرہ ایک دم تاریک سا ہو گیا۔
’’دیکھ سکینہ محبت اپنے ہان کے لوگوں میں اچھی رہتی ہے۔اپنے سے اونچا دیکھے گی تو گردن اکڑ جائے گی۔۔۔‘‘ جاجی کے ذومعنی انداز نے سکینہ کو ایک لمحے کو چپ کروا دیا ۔اُسے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ وہ اتنا بھی بے خبر نہیں جتنا بے خبر وہ اُسے سمجھتی ہے۔
’’دیکھ جاجی میری گردن اکڑے یا ٹوٹے،تجھے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔‘‘ سکینہ نے نظریں چراتے ہوئے تلخ لہجے میں کہا۔
’’مجھے ہی تو سارا مسئلہ ہوگا۔۔۔‘‘ جا جی کا لہجہ محبت اور افسردگی کے شرینی میں ڈوبا ہوا تھا۔
’’مجھے تیرے مسئلوں سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔‘‘ سکینہ نے بے رخی سے کہتے ہوئے اپنا رخ موڑ لیا وہ اب لان میں پھیلی دھوپ کو دیکھنے لگی۔چمکیلی دھوپ نے سارے پودوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
’’دیکھ سکینہ ،تو جتنی بھی میرے ساتھ بے رخی برت لے ،لیکن یاد رکھنا کہ زندگی میں جب بھی تو کوئی قدم اٹھائے گی ،مجھے اپنے پیچھے پائے گی۔۔۔‘ جاجی کا پراعتماد انداز سکینہ کو سخت بُرا لگ رہا تھا اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جاجی کو مکھی بنا کر سامنے دیوار پر چپکا دے۔
’’یہ دیکھ،جان چھوڑ میری۔۔۔‘‘سکینہ نے باقاعدہ اُس کے آگے ہاتھ جوڑے تو جاجی کا چہرہ پھیکا پڑ گیا۔اندر داخل ہوتے ڈاکٹر خاور نے یہ آخری منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔وہ استعجابیہ نگاہوں سے دونوں کو دیکھنے لگے۔جاجی تو ہڑ بڑا کر کھڑا ہوا اور کمرے سے نکل گیا جب کہ سکینہ کا چہرہ زبردستی مسکرانے کی کوشش میں عجیب سا تاثر دینے لگا۔
’’جو لوگ ہم سے محبت کرتے ہوں ،ان کی قدر کرتے ہیں سکینہ۔۔۔‘‘نہ جانے کیوں ڈاکٹر خاور کے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ سکینہ کے دل پر کسی اینٹ کی طرح لگے ۔
’’پھر آپ میری قدر کیوں نہیں کرتے۔۔۔؟؟؟‘‘اُس نے بے باکی سے ڈاکٹر خاور کی طرف دیکھا جو اپنی جگہ پر ساکت رہ گئے ۔ الجھن بھری نگاہوں سے سکینہ کو دیکھتے ہوئے انہوں نے خود کو بڑی جلدی سنبھالا۔
’’یہ بتائیں کہ میں نے کبھی،آپ سے اس لہجے میں بات کی،جس لہجے میں آپ اعجاز سے کرتی ہیں۔‘‘ڈاکٹر خاور کی بات پر سکینہ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔وہ خفت زدہ انداز سے اپنے لبوں کو کچلنے لگی۔ وہ بُرے طریقے سے لاجواب ہو چکی تھی۔
’’وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔‘‘اپنے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے اُس نے بچگانہ سے انداز میں کہا۔کسی نرس کے ساتھ ڈاکٹر زویا نے اسی لمحے کمرے میں انٹری دی۔
’’ لیکن مجھے تو آپ اچھی لگتی ہیں۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کا یہ جملہ ڈاکٹر زویا کے تن بدن میں آگ سا لگا گیا۔انہوں نے دروازے کو ہلکا سا ناک کر کے اپنی موجودگی سے باخبر کیا۔دونوں بے اختیار چونکے۔
’’میرا خیال ہے کہ میں نے خاصے غلط ٹائم پر انٹری دے دی ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر زویا کے لہجے میں ہی نہیں آنکھوں میں سے بھی شعلے نکلے۔
’’آپ اکثر ہی غلط ٹائم پر انٹری دیتی ہیں اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ آپ کو خود کافی دیر کے بعد پتا چلتا ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور اپنی بات کہہ کر رکے نہیں اور کمرے سے نکل گئے۔ڈاکٹر زویا کو یوں لگا جیسے ان کی قوت گویائی سلب ہو کر رہ گئی ہو۔
* * *
’’تھینکس گاڈ، امّی کی طبیعت ٹھیک ہوئی اور ڈاکٹرز نے ان کو گھر شفٹ کرنے کا کہہ دیا۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے اپنے بیڈ کی چادر ٹھیک کرتے ہوئے نابیہ سے کہا۔
’’ہاں یار،ان کی بیماری نے تو واقعی ہاتھ پیر پھلا کر رکھ دیے تھے۔۔۔‘‘نابیہ نے اپنے کندھوں کو دباتے ہوئے جواب دیا۔
’’تھیک یو نابیہ۔۔۔‘‘ثنائیلہ بیڈ کی چادر درست کر کے اُس پر بیٹھ گئی۔اب وہ بہت ممنون نگاہوں سے نابیہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’اگر مزید کوئی بکواس کی تو یہ بیگ گھما کر تمہارے سر پر دے ماروں گی۔۔۔‘‘نابیہ نے کھا جانے والی نگاہوں سے ثنائیلہ کو دیکھا۔
’’قسم سے تمہارا ،بہت آسرا ہے مجھے ،کاش میرا کمینہ بھائی بے وفائی نہ کرتا۔۔۔‘‘ثنائیلہ کے لہجے میں حسرتوں کا ایک جہان آباد تھا۔
’’تھینکس گاڈ،تمہارے خودغرض اور لالچی بھائی سے میری جان چھوٹ گئی،ورنہ تمہارا ہینڈسم کزن کیسے میری زندگی میں آتا۔۔۔‘‘نابیہ نے اپنے ٹانگیں بے تکلفی سے میز پر رکھتے ہوئے ثنائیلہ کو چھیڑا۔
’’ہاں ،کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو،لیکن یار تم اُس کی خود غرضی کی انتہا ء دیکھو کہ پورے ایک ہفتے میں صرف ایک کال کی اور اُس میں بھی اپنی غربت کے رونے ،رونے شروع کر دیے اُس نے۔‘‘ ثنائیلہ کو اپنا ایک اور دُکھ یاد آیا۔
’’مٹی ڈالو ،اُس پر،یہ بتاؤ کہ تمہارے ہیرو کا کوئی فون آیا۔۔۔‘‘ نابیہ نے موضوع تبدیل کرنے کی غرض سے پوچھا۔
’’نہیں یار۔۔۔‘‘ ثنائیلہ افسردہ ہوئی۔ ’’وہ سمجھ رہا ہوگا کہ میں اُس سے خفا ہوں۔۔۔‘‘ثنائیلہ کو اپنی آخری گفتگو تمام تر جزئیات کے ساتھ یاد آئی۔
’’ویسے نابیہ ،سوچنے کی بات ہے کہ ماہم منصور نے آخر اُس کے ساتھ ایسا کیا،کیا تھا جو وہ اتنا اُس سے بدظن ہو گیا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے مزید کہا۔
’’ہو سکتا ہے کہ ماہم کا قصور اتنا نہ ہو۔۔۔‘‘ نابیہ نے ایک نکتہ نکالا۔
’’جتنا ،میں اُسے جانتی ہوں ،میں مان ہی نہیں سکتی کہ وہ کسی کے ساتھ کچھ بُرا کر سکتا ہے۔‘‘ثنائیلہ کے لہجے میں موحد کے لیے اندھا اعتبار تھا۔
’’واہ جی واہ ۔صد قے جاؤں تمہارے اس اندھے اعتقاد پر۔۔۔‘‘نابیہ نے ہنستے ہوئے اُس کا مذاق اڑایا۔
’’زیادہ فضول بولنے کی ضرورت نہیں ،میرے کزن کو کچھ غیرت دلاؤ کہ اُس کی پھپھو اتنی بیمار رہی ہیں وہ اب تو انہیں دیکھنے آ جائے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کو اچانک یاد آیا۔
’’یار ،اُس کی اپنی والدہ ایک ہفتے سے ہوسپٹل میں ایڈمٹ ہیں ،میں نے تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ کہیں تم پریشان نہ ہو جاؤ۔‘‘ نابیہ کی بات پر وہ حیران ہوئی۔
’’ممانی جان بیمار ہیں ۔۔۔؟؟؟‘‘ ثنائیلہ ایک دم فکرمند ہوئی۔ ’’ماموں پاکستان واپس آ گئے۔۔۔‘‘ اُسے یاد آیا تو فوراً پوچھ لیا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ نابیہ نے آہستگی سے کہتے ہوئے نظریں چُرائیں تو ثنائیلہ چونک سی گئی۔
’’ادھر دیکھو میری طرف نابیہ،تم مجھ سے کیا چھپا رہی ہو۔۔۔‘‘ثنائیلہ کی چھٹی حس نے اُسے بر وقت چوکناّ کیا۔
’’یار میرے پاس ،تمہارے لیے اس حوالے سے کوئی اچھی خبر نہیں۔۔۔‘‘ نابیہ کی بات پر اُس کا دل بے ہنگم طریقے سے دھڑکا۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔؟؟؟‘‘
’’سکینہ اُداس کیوں ہو۔۔۔؟؟؟‘‘ ڈاکٹر خاور نے اُس کا چہرہ غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔سسٹر ماریہ اُسے چھوڑ کر اندر جا چکی تھی۔
’’آپ کو کس نے کہا کہ میں اُداس ہوں۔۔۔‘‘ اُس نے چونک کر الٹا سوال کیا۔وہ مسکرائے۔
’’چہرہ شناسی کا دعوی صرف آپ کو ہی تو نہیں ہے۔کوئی اور بھی اس ہنر میں کمال رکھ سکتا ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کی بے تکلفی سکینہ کو حیران کر گئی۔
’’افسوس کہ اس دنیا میں میری امّی اور ابّے کے علاوہ ابھی تیسرا کوئی ایسا شخص نہیں جو سکینہ کے بدصورت چہرے کو نظر جما کر دیکھ سکے۔۔۔‘‘ وہ تلخ ہوئی۔
’’چہرے بدصورت نہیں ہوتے،ان کو دیکھنے والی نگاہ خوبصورت یا بدصورت ہوتی ہے ۔جو سامنے والے منظر کو اپنے مطابق رنگ دیتی ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور سینے پر ہاتھ باندھ کراُسے غور سے دیکھ کر بولے۔ایک پھیکی سی مسکراہٹ سکینہ کے چہرے پر پھیلی۔
’’یہ بتاؤ،سکینہ،اُس دن عائشہ کو دیکھ کر آپ ٹینس کیوں ہوئیں تھیں۔۔۔؟؟؟‘‘ ڈاکٹر خاور نے کب کا رکا ہوا سوال اُس سے پوچھ ہی لیا۔جس مقصد کے لیے انہوں نے اُسے یہاں بلایا تھا۔ سکینہ نے بغور ڈاکٹر خاور کو دیکھا۔
’’یہ سوال آپ اپنے آپ سے پوچھیں۔۔۔‘‘ اُس کی بات نے ڈاکٹر خاور کو ایک لمحے کو بوکھلا کر رکھ دیا۔
’’کیا مطلب ہے آپ کا۔۔۔؟؟؟‘‘انہوں نے جانچتی نگاہوں سے اُس کا چہرہ کھوجا۔
’’میں آپ کے آنے سے پہلے تو بالکل ٹھیک تھی ،لیکن آپ نے آ کر سارا سکون درہم برہم کر دیا۔۔۔‘‘ وہ اب کھل کر بات کرنے لگی تھی۔اُس کے لہجے میں ایک محسوس کی جانے والی ناراضگی تھی۔ڈاکٹر خاور اُسے دیکھتے رہ گئے۔
’’عائشہ بہت اچھی ہیں۔۔۔‘‘ سکینہ کچھ لمحے چپ رہنے کے بعد بولی تو وہ مسکرا دیے۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اچھی لگیں۔۔۔‘‘
’’جو لوگ دل کے اچھے اور سچےّ ہوں وہ کس کو اچھے نہیں لگتے۔۔۔‘‘سکینہ نے انہیں ایک دفعہ پھر لاجواب کیا۔
’’بہت سے لوگ ہیں دنیا میں ،جن کو دل کی اچھائی اور سچائی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔وہ بس ظاہری خوبصورتی کے پیچھے بھاگتے ہیں۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے سنجیدگی سے کہا۔
’’لیکن آپ ایسے نہیں ہیں، مجھے پتا ہے۔۔۔‘‘ سکینہ کے لہجے میں یقین کا ایک سمندر قید تھا۔
’’تم بہت اچھی ہو سکینہ۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور اب سامنے والے بینچ پر بڑی فرصت سے بیٹھ گئے۔اپنی تعریف پر سکینہ کا چہرہ بالکل سپاٹ رہا یہ بات ڈاکٹر خاور کے لیے اچھنبے کا باعث بنی۔
’’کیا بات ہے سکینہ کوئی ناراضگی ہے کیا۔۔۔؟؟؟‘‘
’’مجھے ناراضگی کا کوئی حق نہیں ہے ڈاکٹر صاحب ۔۔۔‘‘ اُ س کا لہجہ بڑا عجیب سا ہوا۔
’’دیکھو سکینہ آج تو یہ بات کر دی ،لیکن آج کے بعد ایسی کوئی بات نہیں کرنی ۔اوکے۔۔۔‘‘ انہوں نے ایک دم کھڑے ہوئے ہلکی سی برہمی سے کہا۔سکینہ کے چہرے کی رنگت متغیر ہوئی۔
پارکنگ میں کھڑی ڈاکٹر زویا نے یہ منظر بہت تنفر بھرے انداز سے دیکھا۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...