(Last Updated On: )
ڈاکٹر فرمان فتح پوری:
مصنف کا اندازِ تحریر رواں دواں، شستہ و شگفتہ ہے۔ کسی قسم کاابہام یا پیچیدگی نہیں ۔ بڑی سے بڑی بات اور ہر قسم کا مضمون اپنے مخصوص انداز میں پوری فن کارانہ مہارت سے بیان کردیے ہیں۔ کردار نگاری عمدہ اور معیاری ہے۔ وہ جامد اوربے جان کرداروں کے بجائے زندہ اور متحرک کرداروں کے ذریعے اپنی کہانی کے واقعات کو آگے بڑھاتے ہیں اور ان کرداروں کے ذریعے نہ صرف زندگی، ماحول اورمعاشرے کے خارجی مناظر و مظاہر بیان کرتے ہیں، بل کہ ان کے ذریعے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی داخلی و باطنی زندگی کے بہت سے گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔خاورچودھری اس اعتبار سے ایک بہت کامیاب افسانہ نگار قرار دیے جاسکتے ہیں۔یقین ہے کہ اُردو افسانے کی تاریخ میں ان کا نام تا دیر زندہ رہے گا۔
وقار بن الٰہی:
اظہار کے لیے جو پیرایہ آپ منتخب کرتے ہیں ،وہ مفہوم کو نہ صرف واضح کرتا ہے بل کہ قاری کے دل میں اُترتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور قاری اپنی کہنے سے پہلے آپ کے کہے ہوئے پر ایمان لے ہی آتا ہے۔
محمد حامد سراج:
یہ افسانوی مجموعہ افسانوں کے انبار میں محض ایک اضافہ نہیں بل کہ’’ چیخوں میں دبی آواز‘‘ اُردو افسانے کی گم ہوتی قدروں کی بازیافت ہے۔
سلطان سکون:
آپ کی افسانہ نگاری پر فنی گرفت سے بے حد متاثر ہوا۔آپ کے سارے افسانوں نے مجھے بے حد متاثر کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر سید قاسم جلال:
معاشرے کے سنگین اور تلخ حقائق کو نوکِ قلم پر لا کر آپ نے جس جرأت مندی سے اظہار کا رُوپ دیا ہے، وہ یقینا اُردو کے افسانوی ادب میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا۔ان افسانوں میں صرف زبان و بیان کی دلکشی ہی نہیں ، فکرانگیزی کے عناصر بھی بتمام و کمال موجود ہیں۔
ملک مشتاق عاجزؔ:
خاورؔ کہانی کار نہیں کہانی شناس ہے۔ وہ کہانی تراشتا نہیں بل کہ تلاشتا بھی نہیں۔ وہ کہانی کے پیچھے نہیں بھاگتا،کہانی خود اُس کا تعاقب کرتی ہے۔ وہ تو بس اُسے سنوارتا اور دوسروں کو سناتا ہے۔
پروفیسر ملک محمد اعظم خالد:
خاورؔ نے اپنی تمام کہانیوں کا تمام مواد ہمارے ارد گرد سانس لینے والے انسانوں کے دکھوں اور انسانی المیوں سے کشید کیا ہے؛ گویا یہ سب کہانیاں آج کی ہیں۔
احسان بن مجید:
مجموعہ میں شامل تمام کہانیاں ہمارے معاشرے، تہذیب اور اقدار سے مربوط ہیں اور خاور چودھری نے انھیں فنی چابک دستی سے لکھا ہے۔
ناصر شمسی:
خاورؔ کے یہاں افسانے کے ابتدائی دور، تقسیم سے پہلے اور پچاس کی دہائی کے دور کے اُردو افسانوں جیسی رومانویت نہیں۔ وہ نظاروں اور چاند ستاروں کی نہیں بل کہ کھیتوں کھلیانوں، گلی محلوں اور اپنی زمین پر بسنے والے انسانوں سے گفتگو کرتے ہیں۔
پروفیسرسیدنصرت بخاری:
’’چیخوں میں دبی آواز‘‘ ہماری معاشرتی شکست و ریخت کی سچی شہادت ہے۔
دردانہ نوشین خان:
بلاشبہ ’’ چیخوں میں دبی آواز‘‘ اکیسویں صدی کے شروعات کے پاکستان کی سچی اور بدصورت (یہی سچ ہے) تصویر ہے۔
شاہدشیدائی:
آپ اچھا افسانہ لکھتے ہیں۔ زبان پرآپ کو عبور حاصل ہے اور آپ افسانے کی تکنیک سے بھی واقف ہیں۔
پروفیسر ہارون الرشید:
آپ کے افسانے ایک تازہ ذائقہ رکھتے ہیں، آپ کا Vision وسیع اور عمیق ہے، جو آپ کے افسانوں میں چار سو نظر آتا ہے۔آپ کے افسانے زندگی اور روایت کے مابین گھومتے ہیں۔
سجادمراز:
آپ کا اندازِ تحریر دل لبھانے، سوچ اور فکر کو مہمیز دینے والا ہے۔آپ کے افسانوں میں تاریخ کو آمیخت کرنے کا عمل بڑی ہنر مندی سے دَر آیا ہے۔آپ نے متذکرہ حقیقتوں کی گہرائی میں ڈوب کر یہ افسانے لکھے۔
شاعرعلی شاعر:
’’چیخوں میں دبی آواز ‘‘میں شامل افسانوں کو پڑھ کر اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان[خاور] کا وژن عام افسانہ نگاروں سے ہٹ کر ہے۔ وہ اپنے سر کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل کی آنکھ سے بھی منظر یا مشاہدات کا بہ غور نظارہ کرتے ہیں اور اپنے داخلی محسوسات کو خارجیت پر غالب کرکے کہانی بُننے کے عمل سے گزرتے ہیں۔
O