یہ ساحلِ سمندر کے نزدیک واقع ایک چھوٹا سا شہر مطروف تھا۔ اس کی آبادی چند ہزار نفوس پہ مشتمل تھی۔ یہ بہت خوب صورت شہر تھا۔ یہاں کی زمین خاصی زرخیز تھی، اس لیے چہار سو گُل بوٹوں کی بہاریں نظر آ رہی تھیں۔ یہ اتوار کی صبح تھی۔ شہر کے باسی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ آج ان کی بے فکری قابلِ دید تھی اور وہ سب گھوڑے بیچ کر گہری نیند میں غرق تھے۔ اچانک زمین پہ لرزہ سا طاری ہوا اور زمین ہلنے لگی اور پھر یہ لرزہ ایک خوف ناک زلزلے میں بدل گیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ زلزلہ پورے شہر میں نہ تھا بلکہ یہ صرف شہر کے ایک حصے کو لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔ ہر چیز بری طرح ہِل رہی تھی اور پھر عمارتوں میں لگے الرٹ الارم ہولناک آواز میں بج پڑے۔ اس قیامتِ صغریٰ پہ ایک منٹ سے بھی کم عرصے میں لوگ جاگ گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ باہر نکلتے اور کہیں پناہ لیتے، ایک شدید قسم کا بھونچال آیا اور اس لہر نے پورے حصۂ زمین کو تہ و بالا کر دیا اور ہزاروں چیخیں ملبے تلے دب کر رہ گئیں۔
٭…٭…٭
پروفیسر انتھونی اور اس کے ساتھی ایک بڑی سی سکرین کے سامنے بیٹھے شیطانی ہنسی ہنس رہے تھے۔ اسکرین پہ ایک منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اس منظر میں ایک بڑی سی آبدوز نما مشین نظر آ رہی تھی۔ اس آبدوز نما مشین کے آگے بڑے بڑے فولادی پر لگے ہوئے تھے۔ اچانک مشین میں زندگی کے آثار دکھائی دئیے اور وہ زمین کو چیرتی ہوئی آگے بڑھتی چلی گئی۔ اگرچہ وہ مشین کافی وزنی دکھائی دے رہی تھی لیکن اس کی رفتار حیران کن حد تک تیز تھی۔ اس کے حرکت میں آتے ہی پروفیسر انتھونی نے سامنے پڑی میز پہ لگے بٹنوں میں سے ایک بٹن دبایا تو دیوار پہ لگی سکرینیں روشن ہوتی چلی گئیں۔ ان سکرینوں پہ زمین کی سطح پر آنے والے زلزلے کے مناظر نظر آ رہے تھے۔ چاروں طرف تباہی پھیلی ہوئی تھی اور بڑی بڑی عمارتیں زمین بوس ہوتی جا رہی تھیں۔
’’ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا!!! ہم کامیاب ہو گئے!!‘‘
پروفیسر انتھونی نے مکروہ انداز میں قہقہہ لگایا اور باقی سائنس دان بھی تالیاں بجانے لگے۔
’’پروفیسر! اگر یہ آبدوز زیر زمین ایک ایٹم بم بھی لے جاتی تو کیا ہوتا؟‘‘
ایک سائنس دان نے پوچھا۔
’’تو پھر مطروف شہر کے ذرے تک فضا میں بکھر چکے ہوتے پروفیسر!!‘‘
پروفیسر انتھونی نے سرد لہجے میں جواب دیا۔
’’بالکل! اور اگر ہم اسے ساحل سمندر میں سمندر کی تہ میں لے جائیں اور وہاں پہ بلاسٹ کیا جائے تو شدید سونامی آ جائے‘‘
ایک اور سائنس دان نے انتھونی کی تائید کی۔
’’ہممم۔۔۔ اب ہم اسے کہاں استعمال کرنے والے ہیں۔‘‘
تیسرا سائنس دان بولا۔
اسی لمحے تیز سیٹی سنائی دی اور بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی۔ انھوں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو ایک پراسرار شخص تھری پیس سوٹ زیب تن کیے شان و شوکت سے چلا آ رہا تھا۔ اس کے چہرے پہ نفیس عینک سجی تھی۔ اس کے دائیں بائیں دو مسلح افراد چلے آ رہے تھے۔ اس پہ نظر پڑتے ہی سبھی سائنس دان اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ آنے والا ان سب کا باس معلوم ہوتا تھا۔ اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو مسلح باڈی گارڈ وہیں رک گئے اور وہ شیشے کے بنے کیبن کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ اس کے پیچھے تمام سائنس دان بھی اس کیبن میں گھستے چلے گئے۔ یہ ان کا میٹنگ روم تھا۔ وہاں ایک بڑی سی میز اور چند کرسیاں پڑی تھیں۔ تھری پیس دھارے ہوئے پراسرار شخص ایک بڑی کرسی پہ بیٹھ گیا، ساتھ ہی اس کی سپاٹ آواز سنائی دی:
’’رپورٹ پیش کی جائے!!‘‘
سائنس دانوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر وہ بھی کرسیاں گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔
٭…٭…٭
منصور حراث کا فون تیز آواز میں بج پڑا۔ اس نے چونک کر دیکھا تو ایک خاص میسج اس کا منتظر تھا۔
’’اسماعیل!!!‘‘
وہ بڑبڑایا اور پیغام کھول کر پڑھنے لگا۔ پیغام میں ایک کوڈ درج تھا۔ اس نے اس کوڈ کو کاپی کیا اور ایک ای میل اوپن کرنے لگا۔ ای میل میں منسلک ایک فائل کو اسی خاص کوڈ کے ذریعے کھولا جانا تھا۔ منصور نے کاپی کیا ہوا کوڈ پیسٹ کیا اور وہ فائل اوپن کی جس میں جاسوس اسماعیل کی طرف سے ایک اہم پیغام اس کا منتظر تھا۔ وہ بے تابی سے پیغام پڑھنے لگا۔ جیسے جیسے وہ پڑھتا جا رہا تھا، اس کا چہرہ سرخ ہوتا جا رہا تھا۔ لکھا تھا: ۔
’’شیطانی دماغوں نے مطروف میں کامیاب تجربہ کر لیا ہے اور اب وہ القدس شہر کی طرف جا رہے ہیں تاکہ مقدس حصے کو مصنوعی زلزلے سے تباہ کیا جا سکے۔ اسپیشل مشین روانہ کر دی گئی ہے۔ اسمعیل عرف ذبیح اللہ۔‘‘
وقت بہت کم تھا۔ منصور نے اپنی شوری کو ارجنٹ میٹنگ کے لیے کال کیا اور وہ خود بھی تیاریوں میں مگن ہو گیا۔
٭…٭…٭
یہ فلم شوٹنگ کا ایک سیٹ تھا اور اس وقت وہاں سین فلم بند کیے جا رہے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہاں ایک خفیہ ادارے کی میٹنگ بھی ہو رہی ہے۔ اس وقت منصور اور اس کے ساتھی وہاں موجود تھے اور ان کی میٹنگ جاری تھی۔
’’میں نے فورس کو ہدایات دے دی ہیں۔ دشمن اپنی اسپیشل آبدوز جس راستے سے بھی پہنچائے گا، ہم اسے دبوچ لیں گے۔‘‘
منصور نے کہا۔
’’اف خدا!! کتنا گھٹیا منصوبہ ہے ان کا، مقدس حصے کو صفحہ ہستی سے مٹانا اور وہ بھی یوں کہ سارا کچھ قدرتی آفت جیسا لگے‘‘
ایک ممبر نے تبصرہ کیا۔
’’اب ہم کیا کریں گے‘‘
تیسرا ممبر بولا۔
’’ہم اس مشین کا نیا آپریٹنگ سسٹم بنائیں گے اور پھر انتھونی کی تجربہ گاہ خود اسی کی ایجاد سے تباہ ہو جائے گی۔‘‘
منصور نے نفرت آمیز لہجے میں کہا۔
’’اوہ بہت بڑی خبر!! اس کا مطلب ہے کہ تم نے تجربہ گاہ کے گرد گھیرا تنگ کر لیا ہے؟‘‘
ایک ممبر نے پر جوش لہجے میں پوچھا۔
’’ہاں اسماعیل عرف ذبیح اللہ کی عظمت کو سلام ہے!!‘‘
منصور نے عقیدت بھرے لہجے میں مسکرا کر کہا اور سبھی سر ہلانے لگے۔
٭…٭…٭
’’سر سب کچھ اوکے ہے!!‘‘
’’ٹھیک ہے تم جاؤ!‘‘
پروفیسر انتھونی نے اپنے اسسٹنٹ کو کہا اور پھر وہ خود تیز تیز قدم اٹھاتا آپریشن روم میں داخل ہو گیا۔ اس کمرے میں کئی سکرینیں روشن تھیں۔ اس نے میز پہ لگے بٹن دبائے اور پھر اس کے سامنے زیر زمین ایک منظر روشن ہو گیا۔ یہ القدس شہر کا وہ خفیہ تہ خانہ تھا جہاں آبدوز نما مشین کو رکھا گیا تھا۔ اس وقت وہاں آبدوز موجود تھی۔ یہ دیکھ کر پروفیسر انتھونی کے لبوں پر زہریلی مسکراہٹ رینگ گئی۔ اس نے دیوار پہ لگی مقدس حصے کی تصویر کو استہزائی نگاہوں سے دیکھا جیسے اسے الوداع کہ رہا ہو، اس کے بعد اس نے مختلف بٹن دبانا شروع کر دئیے مگر اگلا ہی لمحہ اس پہ بہت بھاری پڑا، کیوں کہ مشین کے آپریشنل ہونے کا گرین سگنل نہیں آیا تھا۔ وہ بدحواسی کے عالم میں بٹن دوبارہ دباتا چلا گیا۔
’’کیا ہوا پروفیسر؟‘‘
ایک سائنس دان نے تشویش زدہ لہجے میں کہا۔
’’اوہ نو، اٹ از ویری بیڈ!!‘‘
انتھونی نے میز پہ مکا مارا۔
’’مشین فعال نہیں ہے‘‘
وہ چیخا۔
’’سر!! یہ وہ آبدوز نہیں ہے!!‘‘
ایک سائنس دان نے غور سے اسکرین کو دیکھ کر کہا۔
’’کیا!!!!‘‘
وہ سب پوری قوت سے چلائے۔
اسی وقت تجربہ گاہ کی زمین لرزنے لگی۔ اللہ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آ چکی تھی۔ یہ تجربہ گاہ ایک پہاڑی علاقے میں واقع تھی، اس لیے آبدوزنما مشین کے چلتے ہی پہاڑی تودے گرنے لگے تھے۔ تجربہ گاہ کی چیزیں الٹ پلٹ ہو رہی تھیں۔ چاروں طرف قیامت خیز الارم بج رہے تھے۔ سائنس دانوں نے ادھر ادھر بھاگنا چاہا مگر زمین کے طاقت ور زلزلے نے ان کے پاؤں اکھیڑ دئیے اور وہ گرتے چلے گئے۔ ان کی چیخیں گونج رہی تھیں اور یوں لگ رہا تھا کہ مطروف شہر کے مظلوموں کی چیخیں ان سے انتقام لے رہی ہیں۔ پروفیسر انتھونی نے جو آخری چیز دیکھی وہ دیوار پہ لگی القدس کے مقدس مقام کی تصویر تھی جو اسے پیغام عبرت دے رہی تھی مگر افسوس اس کے پاس عبرت پکڑنے کا وقت کہاں تھا۔ شر کی سوچ کا انجام کو پہنچ چکی تھی۔ وہاں سے بہت دور بیٹھا اسماعیل عرف ذبیح اللہ اپنے سائنس دانوں کو کہہ رہا تھا:
’’ہم اس ایجاد میں مثبت تبدیلیاں لا کر اسے انسانیت کے لیے فائدہ مند بنائیں گے۔‘‘
سائنس دان اثبات میں سر ہلا رہے تھے۔
٭٭٭