القصہ جب شہر سے مادھو چلا تو سب رنڈیاں نوجوان ڈاڑھیں مار مار کر رونے لگیں۔ غرض کیا کہیے یہ اندھیر عالم میں ہوا کہ گویا آفتاب چھپ گیا۔ دن کی رات ہوئی اور اُس کو کچھ پروا نہ تھی۔ شہر شہر اور جنگل جنگل ہر روز نیا دانہ نیا پانی کھاتا پیتا اور ایک عالم کی سیر کرتا ہوا منزل بہ منزل چلا جاتا تھا۔
اتفاقاً کام وتی نگر میں جا پہنچا جس کا راجا حسن و جمال میں چودھویں رات کا سا چاند، صاحب عدالت و حق شناس، قدیم رسموں کو جاری کرنے والا، داد و دہش میں بے نظیر، عالی منش، تمکین شعار، کوہ وقار، جود و سخا میں ممتاز، رعیت پرور، غریب نواز، عالی فطرت، والا ہمت، جنگ آزمودہ، رستم وقت، شرمندہ کرنے والا کام دیو کا، عیاش مزاج، کہ و مہ کے دل کا چین تھا، نام نامی اُس کا مہاراج کام سین!
اُس کے شہر میں ایک زہرہ جبیں کام کندلا کنچنی تھی، نہایت حسین، بڑی چترا اور پر بیں، آنکھیں نرگس کی سی، چتون مرگ کی سی، زلف مثل زنجیر، پلکیں ناوک کا تیر، ابرو مانند ہلال، بینی الف کے مثال، عارض گل سے بھی نازک تر، لب رشک برگ گل تر، دانت موتیوں کی سی لڑی، تس پر مس کی دھڑی، شیریں گفتار، کبک رفتار، ماہ طلعت، مہر صورت۔ ایسی صاحب جمال جس کے دیکھے دل کا دور ہو ملال، غیرت حور و پری، سراسر عشوہ و ناز سے بھری۔ ہر ایک اُس کا شیفتہ، دل سے فریفتہ۔ بیت ؎
وہ شکل و شمائل وہ اُس کی نگاہ
جسے دیکھ کر ہو خجل مہر و ماہ
غرض ایک دن کا اتفاق ہے کہ رات کا سماں تھا۔ نہایت بناؤ سنگار سے راجا کے سامنے وہ ناچ رہی تھی۔ قضا کار مادھو بھی مردنگ کی آواز کی دھن پر جلد جلد اور خوشی خوشی راجا کی ڈیوڑھی پر پہنچ کر چاہتا تھا کہ بے محابہ اور درّانہ اندر گھس جاوے لیکن دربانوں نے روکا اور جانے نہ دیا۔ تب اُس کے دل پر قیامت ایک صدمہ ہوا اور نہایت بے کل اور بے چین ہوا۔ اسی سوچ میں بیٹھ گیا کہ کیونکر راجا کی مجلس میں جائے اور وہاں کا مزہ اٹھائے۔ ہر چند کہ سماجت کی لیکن فائدہ نہ کیا۔ تب اس نے کہا کہ “تمھارے راجا کی مجلس میں سب کوڑھ ہیں۔ حسن و قبح کو دریافت نہیں کرتے”۔
یہ سن دربانوں میں سے ایک نے راجا سے جا کر عرض کی کہ “ایک برہمن دروازے پر پکار پکار یہی کہتا ہے کہ ساری سبھا راجا کی کوڑھ ہے؟”
راجا نے تب فرمایا کہ “اس سے یہ جاکر پوچھ کس سبب سے تو راجا کی سبھا کو کوڑھ کہتا ہے؟”
اس نے راجا کے فرمانے کے بہ موجب مادھو سے کہا۔
پھر اس نے حضور میں عرض کر بھیجا کہ “چار چار مردنگی تین طرف جو ہیں، پورب رخ کے مردنگیوں سے ایک کا انگوٹھا نہیں ہے جس سے سم پر تھاپ پوری نہیں بیٹھتی، اس سبب سے میں نے مورکھ جانی۔
پھر دربان نے راجا سے یہ روداد عرض کی۔ راجا نے اس حقیقت کو سن کر ان مردنگیوں کے ہاتھ دیکھے تو سچ مچ ایک شخص کا انگوٹھا موم کا تھا۔
راجا برہمن کی چترائی سے بہت محظوظ ہوا اور اپنے پاس بلوا لیا۔ اس نے آکر راجا کو اسیس دی کہ “چرنجی رہو”۔
تب راجا نے لاکھ روپے اور خلعت مع جواہر اُسے دیا اور سنگھاسن پر بٹھا کر بہت نوازش فرمائی۔
قاعدہ ہے کہ صاحب کمال کو سب ہی پیار کیا کرتے ہیں، خصوصاً اپنے ہم فن کو یا وہ شخص کہ جس کو ایک فن میں خوب دخل ہو، اُس فن کے ماہر کو بہ دل چاہتا ہے۔ غرض دونوں میں موافقت مقرر ہوتی ہے بلکہ ایسا شخص جو پرائے شہر میں وارد ہو تو اُس کی زیادہ عزت و حرمت کرتے ہیں۔
اور صاحب علم و ہنر کی یوں پرورش کرتا ہے جیسے ماں باپ بیٹا بیٹی کی۔ اگر صاحب کمال کمینہ بھی ہو تو مجلس میں لو جاگہ دیتے ہیں۔ ذات کو اس کی کوئی نہیں پوچھتا، سب ہی عزیز کرتے ہیں۔ بے کمال ہر جگہ ذلیل و خوار ہے اور رنج و بلا میں گرفتار ہے۔ چنانچہ مثل مشہور ہے: بے ہنر جس جگہ جائے وہاں سختی اٹھائے اور بے علم گویا نابینا ہے بلکہ عبث اس کا جینا ہے۔ اگر اہل ہنر کا مال و دولت سب برباد ہو جائے تو بھی کچھ پروا نہیں۔ کس واسطے کہ جہاں جاوے گا سب کچھ اس کے ہاتھ آوے گا۔ جس طرح مادھو کو پھر اس سے بہتر خدا تعالیٰ نے میسر کر دیا۔