چوہدری سرفراز کے دو بیٹے تھے بڑا عمر اس کی بیوی وفات پا چکی تھی اور اس کا ایک بیٹا تھا دوسرا عمیر اس نے بیوی کو طلاق دے دی تھی وجہ میں نے نہیں پوچھی دونوں بیٹے اپنے باپ کے ساتھ ہی مجھ سے ملنے جیل آ گئے آ پی نے انھیں سب سچ بتا دیا تھا اس کے باوجود وہ لوگ میری بہنوں کو اپنا نے کے لیے تیار تھے دونوں لڑکے پڑھے لکھے اور سمجھدار تھے میرے دل کو لگے ۔۔۔۔۔۔۔میں نے چوہدری سرفراز سے صرف اتنا کہا کہ میری بہنوں نے بہت دکھ دیکھے ہیں اب وہ اور دکھ برداشت نہیں کر سکتیں ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہمارے ماں باپ نے ہمارے لیے اتنی جائداد چھوڑی ہے کہ میری بہنیں تمام عمر اپنے گھر کی چوکھٹ پہ بیٹھ کے عزت سے روٹی کھا سکتی ہیں میں تم لوگوں سے کچھ نہیں مانگتا بس ایک وعدہ کرو مجھ سےمیری بہنوں کو ان کے ماضی کی وجہ سے یا اس کی کسی بھی قسم کی بات سامنے آ جانے کی وجہ سے کوئی طعنہ نہیں دے گا کیونکہ وہ زندگی اور اس کی یادیں ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھا اگر تم لوگوں میں اتنا برداشت کا مادہ نہیں ہے تو وہ اپنے گھر پر ہی بیٹھی رہیں تو زیادہ بہتر ہے ۔۔۔۔۔۔۔بیٹا تم فکر نہ کرو ہماری طرف سے تمھیں کبھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا اور میں عائشہ اور آ منہ سے مل چکا ہوں اس سے بہتر بیویاں میرے بیٹوں کو نہیں مل سکتی ۔۔۔۔۔۔میں نے اس رشتے کے لیے ہاں کر دی اور یوں میری بہنیں دلہن بن کر اپنے سسرال چلیں گی ۔۔۔۔۔۔۔دو سال ہو گئے ہیں ان کی شادی کو دونوں کے بچے بھی ہیں رانیہ بھی ٹھیک ہو گئی ہے صائقہ کی بھی منگنی ہو گئی ہے مگر چند دن پہلے انکل ستار نے مجھے بتایا کہ شوکی کو ہمارے بارے میں پتہ چل گیا ہے۔۔۔ ۔ میں اس کمینے کی فطرت سے واقف ہو ں وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور اس کے منحوس سایے سے اپنی بہنوں کو محفوظ رکھنے کا میرے پاس اب ایک ہی راستہ بچا ہے ۔۔. اس کی موت ۔۔۔۔ کیونکہ اگر وہ زندہ رہا تو ہمارے لیے تباہی کے علاوہ کچھ بھی اس کے پاس نہیں ہے ۔مجھے صرف ایک رات کے لیے آ زاد کر دیں تاکہ میں اس درندے کو اس کے انجام تک پہنچا سکوں اور اس کے بدلے میں جو آ پ مجھ سے مانگیں گے میں دوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔صبح کی اذان ہو رہی تھی ۔. فقیرے کی کہانی ختم ہو گئی ۔۔۔۔۔۔جیلر نے فقیرے کی طرف دیکھا فقیرے مجھے کچھ دن سوچنے کا موقع دے میں تجھے سوچ کر جواب دیتا ہوں جیلر کرسی سے اٹھا اور وضو کرنے چلا گیا۔۔۔ ۔فقیرے نے بھی نماز پڑھی اور چٹائی پہ سو گیا ساری رات اسے طرح طرح کے خیال آ تے رہے پتا نہیں جیلر مانے گا یا نہیں کہیں آس کے گھر والوں پہ کوئی نئ مصیبت نہ آ جائے ۔۔۔۔۔اس قسم کی باتیں سوچتے سوچتے ہفتہ گزر گیا اور وہ دن بھی آ گیا جس دن جیلر کی بیٹیوں کی مہندی تھی نہ جیلر نے اور نہ فقیرے نے اس دن کے بعد دوبارہ اس موضوع پہ کوئی بات نہ کی
آ ٹھ دن گزر گئے لیکن جیلر کے لیے سونے کے زیورات بنانا ایک لاحاصل تمنا ہی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ہر صبح جب جیلر اپنے گھر جاتا تو سب اس امید سے بیٹھے ہوتے کہ ابا آ ج کوئی انتظام کر کے آ ئے گا اور اب تو رات مہندی تھی اور دوسرے دن بارات جیلر نے فقیرے کو اپنے کمرے میں بلایا اور بولا چل میرے ساتھ مجھے تیرا سودا منظور ہے مجھے زیور دے اور بدلے میں تجھے ایک رات کی راہائی دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔فقیرے کو جیلر نے اپنی پرانی بائک کے پیچھے حلیہ بدل کے بٹھا لیا اور اس کے بتائے ہوئے اڈریس پہ پہنچ گیا فقیرے نے انکل ستار سے گھر کی چابیاں لی اور جیلر کو گھر لے آ یا کچھ دیر کے بعد فقیرے نے اپنی ماں کے زیورات سے بھرا کالا بیگ لا کے جیلر کے سامنے رکھ دیا صاحب جتنے چاہیے اپنی مرضی سے لے لو جیلر نے بیگ کی زپ کھولی اور دو سیٹ نکالے پھر زپ بند کر کے فقیرے کو بیگ واپس کر دیا بس اتنا ہی کافی ہے چل اب مجھے گھر اتار دے اور اپنا کام کر کے اگر زندہ بچ گیا تو واپس چلے جانا ۔۔۔۔۔۔تیرا کیس زیادہ پیچیدہ نہیں ہے میں تجھے جلد رہائی دلوا دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔فقیرے نے جیلر کو اس کے گھر کے قریب کی گلی میں اتار دیا فقیرے یہ شوکی کا اڈریس ہے اور یہ اس کے گھر کا نقشہ پوری احتیاط سے کام کرنا اس کی موت ایک حادثہ لگے آ گے میں سنبھال لوں گا ۔۔۔۔. جی صاحب فقیرے نے موٹر سائکل سٹارٹ کر لی ۔۔۔۔۔جیلر نے وہیں کھڑے ہو کے آ سمان کی طرف منہ کیا اور کہا اے میرے سوہنے رب جیسے اس نے میری مدد کی ہے تو بھی اس مظلوم کی مدد کرنا مجھ سے جتنا ہو سکا میں نے کر دیا آ گے کا کام اب تیرے حوالے ۔۔. ۔۔۔۔فقیرا شوکی کے محل نما بنگلے کے باہر پہنچ گیا نقشہ تو اس نے حفظ کر لیا تھا ٹھیک اسی جگہ سے اندر چھلانگ لگائی جہاں اس کے خیال میں چوکیدار نہیں ہے اور دبے پاؤں آ ہستہ آ ہستہ اندر کی طرف چل پڑا شوکی اوپر والی منزل پہ سویا تھا فقیرا نہایت احتیاط سے چلتا ہوا اوپر والے کمرے میں پہنچ گیا شوکی بے خبر سو رہا تھا گھر کی لائٹیں بند تھیں جس کا اس نے بھر پور فائدہ اٹھایا تھا فقیرے کو اب جلد ہی فیصلہ کرنا تھا فقیرے کو سویا دیکھ کے ایک بار فقیرے کا دل چاہا کہ وہ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے مگر وہ اس جوش کے وقت وہ غلطی نہیں دہرا سکتا تھا جو اس کے والد سے ہوئی تھی اگر انسان نہتا ہو تو موت کو خود نہیں للکارنا چاہیے اتنے سال جیل میں گزار کے فقیرا اپنے حواسوں پہ قابو رکھنے اور قتل کرنے کے سو طریقے سیکھ چکا تھا ایک طریقہ یہ بھی ذہن میں آ یا کہ گلا دبا دوں مگر ایسے تو اسے اذیت کم ہو گی اچانک فقیرے کی نظر کمرے میں لگے گیس ہیٹر پہ پڑی اور دوسرے ہی لمحے فقیرے نے اس کا پائپ اتار کے وال کھول دیا اور باہر نکل کر کمرے کی باہر سے کنڈی لگا دی اور انتظار کرنے لگا آ دھے گھنٹے بعد ہی گیس کی بو کھڑکیوں سے باہر آ نے لگی تو شوکی نے ماچس کی تیلی جلائی اور روشن دان میں سے اندر پھینک دی اس کے بعد منظر دیکھنے کے لیے فقیرا وہاں رکا نہیں بلکہ اسے نے سانس گھر سے دور تیسری گلی میں ہی آ کر بحال کی اور ایک نظر شوکی کے جلتے ہوئے مکان کے شعلوں پہ ڈالی اور وہاں سے واپس جیل کی طرف چل دیا ٹھیک چھ ماہ کے بعد فقیر محمد کو اس جھوٹے کیس سے باعزت بری کر دیا گیا جیلر اور اس کے گھر والے سپیشل فقیر کو جیل سے رخصت کرنے آ ئے فقیرے کے دل کو جیلر کی اسی بات سے ہی سکون مل گیا تھا کہ میں نے مرتے ہوئے بہت لوگ دیکھے مگر جیسے شوکی جیسی دردناک موت کبھی نہیں دیکھ ستر فیصد جلنے کے باوجود زندہ بچ گیا اور دس دن ہاسپٹل میں تڑپ تڑپ کر مرا جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے جس کی بدبو سے کوئی اس کے نزدیک نہ جاتا توبہ میری استغفراللہ جیلر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے فقیرے کو بتاتا دنیا کی نظر میں یہ حادثہ گیس لیکیج کی وجہ سے ہوا لیکن اصل وجہ صرف دو بندے ہی جانتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
ساتوں بہنیں اپنے بھائی کو گاڑیوں کے قافلے میں ایک مہمان خصوصی کی طرح جیل سے رہا کروا کے گھر لے کر آ ئیں ویر گھر کا تالا کھول مریم نے باہر مین گیٹ کی چابی فقیر محمد کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا اور کتنے عرصے کے بعد اس گھر کے درودیوار میں زندگی کی رونقیں لوٹ آ ئیں تھیں ۔ ۔۔۔۔۔ظالم کی رسی جتنی بھی دراز ہو جائے ایک دن کھینچ لی جاتی ہے اور انسان منہ کے بل زمین پہ ایسا گرتا ہے کہ نہ اس کے پاؤں کے نیچے زمین رہتی ہے نہ سر پہ آ سمان کیونکہ خدا کی لاٹھی بے آ واز ہوتی ہے
ختم شد