۷۶۔ پھر وہی اندھیرا
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
۷۷۔ یہ کیسا خواب ہے؟
دن بھر میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں اُس کا اثر ہمارے ذہن کے کسی حصے میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ رات کو جب ہم سوتے ہیں تو وہی چیزیں ایک فلم کی طرح ہمارے ذہن کے پردے پر دکھائی دیتی ہیں مگر اُن کی کہانی ہماری حقیقت سے مختلف ہوتی ہے۔
۷۸۔ تعبیر کا علم
خوابوں کو سمجھنے کے کئی طریقے ہیں مگر ان سب طریقوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ خواب میں جو نشانیاں دیکھی جائیں اُن کا مطلب اپنی زندگی میں تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اُن کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے کہ در اصل آپ کا ذہن آپ کو خواب کے ذریعے کیا بتانا چاہتا ہے۔
ماں کے خواب کی تعبیر بھی معلوم کی جا سکتی ہے مگر پہلے پورا خواب سن لیں۔
۷۹۔ لڑکوں کی قطار
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا اُن کو کہاں
۸۰۔ نامعلوم منزل
یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ سب لڑکے موت کی وادی کی طرف بڑھ رہے ہوں۔
۸۱۔ بیٹا
اِسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر
مجھے اُس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
۸۲۔ بجھا ہوا دِیا
پچھلی نظم میں آپ جگنو بن گئے تھے۔ اِس نظم میں بھی بچوں کے ہاتھوں میں دئیے ہیں۔ صرف اُس لڑکے کے ہاتھوں میں بجھا ہوا دیا ہے جس کی ماں یہ خواب دیکھ رہی ہے۔
۸۳۔ جدائی
کہا میں نے پہچان کر، میری جاں!
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں!
جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ، اچھی وفا تم نے کی
۸۴۔ پریشانی
ماں نے اپنی بے چینی میں دیے کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔ اُس نے یہ نہیں پوچھا کہ لڑکے کے ہاتھ میں دیا بجھا ہوا کیوں ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ایسے حالات میں اپنے بیٹے سے مل رہی ہے جب وہ سمجھ چکی تھی کہ اب کبھی ملاقات نہیں ہو گی۔ سب سے پہلے اُسے اپنے دُکھ کا خیال آ رہا ہے۔
اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکا مر چکا ہے۔
۸۵۔ ماں کا کردار
والدین اپنے بچوں سے پیار کرتے ہی ہیں مگر اس کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ اس ماں کے خواب سے ہم اُس کے پیار کرنے کے انداز کے بارے میں بھی کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کا بہت خیال رکھتی ہو گی اِسی لیے اُس کی جدائی میں بے حال ہے۔ مگر اِس کے ساتھ ساتھ اُس کے دُکھ میں یہ احساس بھی جھلکتا ہے کہ وہ بچے کو اپنی ملکیت سمجھتی تھی کیونکہ یہ شکایت بھی فوراً ہی اُس کی زبان پر آ گئی ہے کہ بچہ اُسے چھوڑ کر چلا گیا تو گویا بچے نے بے وفائی کی اور ماں کی محبت کی پروا نہ کی۔
ظاہر ہے کہ بچہ اپنی مرضی سے تو نہیں مرا ہو گالیکن ماں اپنے دُکھ میں اِس بات کا لحاظ نہیں کر پا رہی کہ بچے کو خدا نے زندگی دی تھی اور اُسی نے واپس لے لی۔
۸۶۔ ماں کے آنسو
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب
دیا اُس نے منہ پھیر کر یوں جواب
رُلاتی ہے تجھ کو جدائی مری
نہیں اِس میں کچھ بھی بھلائی مری
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چُپ رہا
دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تُو ہو گیا کیا اِسے؟
ترے آنسوؤں نے بجھایا اِسے!
۸۷۔ کیا بچہ مر چکا ہے؟
ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ بچہ سچ مچ فوت ہو چکا ہے کیونکہ خواب میں ہم کبھی کبھی ایسے شخص کو بھی مردہ دیکھ لیتے ہیں جو اصل زندگی میں زندہ ہوتا ہے۔ ہم نے صرف ماں کا خواب سنا ہے مگر ہم اُس کی حقیقی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
اِس خواب کی تعبیر میں بچے کی موت اہم نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بچہ اصل میں زندہ ہو۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ دِئیے سے کیا مراد ہے؟اِس کے لیے دیکھنا پڑے گا کہ روشنی، شمع اور چراغ کی نشانیاں باغ میں اب تک کن کن چیزوں کے لیے استعمال ہوئی ہیں۔
آپ کی دُعا میں روشنی کا ذکر دو معانی میں آیا تھا۔ جب آپ نے کہا تھا کہ آپ کی زندگی شمع کی صورت ہو تو وہاں روشنی کا مطلب تھا خدا کا نُور جو آپ کے دل میں ہے۔ یہ آپ کی اَنا ہے جسے خودی بھی کہتے ہیں۔ اِس کی صحیح تربیت کر کے آپ ہر جگہ اُجالا کر سکتے ہیں۔
اسی دعا کے ایک اور شعر میں آپ نے کہا تھا کہ آپ کی زندگی پروانے کی صورت ہو جسے علم کی شمع سے محبت ہو۔ یہاں روشنی سے مراد علم تھا مگر وہ علم نہیں جو زبانی چیزیں یاد کرنے کا نام ہے بلکہ وہ علم جو اپنے تجربے سے اور اپنی سمجھ بوجھ سے خود حاصل کیا جاتا ہے۔ اُسی علم کے ذریعے آپ کا حقیقت اور سچائی کے ساتھ رشتہ استوار ہوتا ہے اور آپ کی خودی اپنے اثر کا دائرہ پھیلاتی ہے۔
۸۸۔ محبت کی حکمت
جس شعر میں اِس علم کی شمع کا ذکر ہوا تھا وہ محبت کی حکمت سے متعلق تھا۔ اگر آپ حساب لگائیں تو یہ نظم بھی اسی حکمت کے بارے میں ہونی چاہیے۔ اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سب بچوں کے ہاتھوں میں جو دئیے جَل رہے ہیں وہ علم کی شمعیں ہیں۔
کسی سے گھڑی گھڑائی باتیں لے کر رَٹنے کا نام علم نہیں ہے۔ یہ امتحان کی تیاری تو ہو سکتی ہے مگر جسے علم کہتے ہیں وہ کچھ اور چیز ہے۔ جس طرح شاہین مردہ شکار نہیں کھاتا بلکہ خود شکار کرتا ہے اُسی طرح اپنی پہچان رکھنے والا انسان بھی اپنی سمجھ بوجھ اور اپنے تجربے سے خود علم حاصل کرتا ہے۔
یہی وہ علم ہے جس کے لیے سب بچوں نے دعا مانگی تھی کہ انہیں علم کی شمع سے ویسی محبت ہو جائے جیسی پروانے کو ہوتی ہے۔ اب اُس بچے کا دُکھ سمجھ میں آتا ہے جب ہم غور کرتے ہیں کہ پروانہ روشنی پر اپنی جان بھی نچھاور کر دیتا ہے۔ پھر اپنے ہاتھ میں بجھا ہوا دِیا دیکھ کر بچہ کیا محسوس کر رہا ہو گا؟
۸۹۔ علم کی حقیقت
موت زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ اِس دنیا سے دوسری دنیا کی طرف سفر کا نام ہے۔ علم بھی ایک دُنیا سے دوسری دنیا کی طرف سفر ہے کیونکہ وہ علم جو واقعی اپنی سمجھ بوجھ سے خود حاصل کیا جائے وہ ہمیں ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔
جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ اِس کا مطلب یہ کہ کسی بات کا علم حاصل ہونے کے بعد ہم وہ نہیں رہتے جو ہم پہلے تھے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کس طرح آپ کی خودی بھی اس سفر کے ہر مرحلے پر تبدیل ہوتی گئی ہے۔ آپ سچ مچ تو مکھی، گلہری، بکری اور پھر انسان نہیں بنے مگر باغ کے بارے میں آپ کی سمجھ جس طرح بڑھی ہے یہ اُس کی نشانیاں ہیں۔
اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ماں نے اپنے خواب میں جس چیز کو بچے کی موت کی صورت میں دیکھا ہے وہ در اصل سچ مچ کی موت نہیں ہے بلکہ بچے کی علم حاصل کرنے کی تمنا ہے۔ اِسی تمنا کو وہ اپنی دعا میں اگر یوں کہے کہ اُسے علم کی شمع سے ویسی محبت ہو جیسی پروانے کو ہوتی ہے تو ماں کے ذہن کے کسی حصے میں موت کا تصور اُبھرے گا کیونکہ پروانہ شمع پر اپنی جان نچھاور کر دیتا ہے۔ اِسی طرح انسان علم کے ذریعے اپنے آپ کو بدلتا چلا جاتا ہے۔
۹۰۔ خواب کی تعبیر
ماں یہ بات بھلا بیٹھی ہے کہ بچہ اُس کی اولاد ضرور ہے مگر اصل پیدا کرنے والا خدا ہے۔ دنیا میں انسان کی زندگی در اصل خدا کی طرف سفر کا نام ہے۔ ہمیں اپنی سمجھ بوجھ سے دُنیا کو پہچانتے ہوئے یہ سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ ماں کے آنسو اِس بات کی علامت ہیں کہ وہ اپنے بچے کی زندگی بھی خود ہی جینا چاہتی ہے۔ شاید یہ محبت کا انداز ہو اور وہ نہ چاہتی ہو کہ اُس کے بچے پر زندگی کے دکھوں کا سایہ پڑے۔ مگر اِس طرح بچہ دنیا کو کیسے سمجھے گا اور کیسے اُسے جنت بنا کر اُس میں ہر جگہ اُجالا کرے گا؟
کچھ جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہی اپنا خیال رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ انسان کو اپنی پیدائش کے بعد کئی سال تک ضرورت رہتی ہے کہ اُس کی دیکھ بھال کی جائے اور مناسب تربیت ملے۔ اِس خواب میں ماں کی جو مشکل سامنے آئی ہے وہ در اصل محبت کی مشکل ہے۔ محبت کا ایک انداز یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کی خاطر زندہ رہیں اور یہ سمجھیں کہ وہ بھی ہماری خاطر زندہ رہے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان صرف خدا کے لیے زندہ رہ کر ہی اپنی منزل پر پہنچ سکتا ہے اور خدا کے لیے جینے کا طریقہ اپنی سچائی کی تلاش کرنا ہے۔
انسانی زندگی میں تعلقات کا مطلب یہ ہے کہ خدا کو پہچانیں، دنیا کو بھی سمجھیں، والدین کی فرمانبرداری بھی کریں، دوسروں سے تعلقات بھی قائم کریں اور ان سب کے درمیان اپنی سچائی سے بھی وفادار رہیں۔ اپنی خودی کی ترقی کبھی رکنے نہ دیں۔ یہ سارے تقاضے پورت کرنا مشکل ہے مگر آپ کے چمکنے سے ہر جگہ اُجالا ہو جانے کا یہی مطلب ہے۔
سیار گاہ میں چھٹا سیارہ زُحل تھا۔ یہ وُسعت اور پھیلاؤ کا مقام تھا۔