۔۔۔۔۔۔۶دسمبرکادن ہمارے لئے اس وجہ سے بے حد اہم تھاکہ یہ ارضِ حجاز پر ہمارا پہلا یوم الجمعہ تھا۔ مبارکہ خواتین والے حصے میں چلی گئی۔ میں نے ”باب الملک“ کے سامنے والی دیوارِ کعبہ کے سائے میں نفل اداکئے۔نماز فجر اداکی۔اپنی معمول کی دعاؤں اور تسبیحات سے فارغ ہوکرسورة یاسین اور سورة صافّات پڑھیں اور پھر دعا کے لئے ہاتھ اٹھاکرایک دلی مراد مانگی۔آنحضرتﷺکایہارشادگرامیمیںنےایکبارکہیںپڑھاتھاکہجمعہکےدنیہدونوںسورتیںپڑھکرخداسےجومرادمانگیجائےوہعطاکردیجاتی ہے۔ میں تب سے مسلسل تجربہ کررہاہوں۔ایک وقت میں صرف ایک ہی مراد مانگنی ہوتی ہے سو چھوٹا موٹامسئلہ ہوتو ایک دو جمعوں میں ہی کام ہوجاتاہے۔کام بے حد مشکل ہو تو پھر مسلسل ڈیڑھ دوماہ تک یا اس سے بھی زیادہ عرصہ تک مذکورہ سورتیں پڑھ کر دلی مراد مانگنی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔میںنے اس تجربے کی برکت سے ایسے ایسے کام خدا سے کرائے ہیں جو صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن قسم کے تھے۔ہاں کبھی کبھاریوں بھی ہواکہ کوئی خواہش ہمیں اپنے حق میں اچھی لگیجب وہ مراد پوری نہیں ہوئی تو اس کا وہ پہلوواضح ہوکرسامنے آگیاکہ اس کا پوراہونا ہمارے لئے خوشی کی بجائے دکھ اور اذّیت کاموجب بن جاتا۔ یوں ایسی دعاکا قبول نہ ہونا خود ہمارے لئے بہتری کا موجب بناہے۔سو اس قسم کی چند مستثنیات کو چھوڑکران سورتوں کو پڑھنے کے بعد کوئی ایک مراد مانگنے سے مجھے ہمیشہ دلی مراد ملی ہے۔میرادعاکایہ سلسلہ آج بھی جاری
ہے۔
۔۔۔۔۔نمازاور دعاکے بعد میں اورمبارکہ ”باب الندوہ“ سے باہر آئے۔ پھر وہیں بیرونی رستے سے اوپر کی منزل پر جانے والی سیڑھیوں سے اوپر چلے گئے۔ وہاں میں نے ”باب الندوہ“ کی سیدھ میں آگے تک جاکر خانہ کعبہ کی طرف دیکھاتو ایک بالکل نیا منظرمیرے سامنے تھا۔زائرین میں شامل ہوکرطواف کرنے کے منظر، اور کسی زاویے سے کعبے کے سامنے بیٹھ کر دیدارکرنے کے منظرسے بالکل مختلف اب کعبہ بھی میرے سامنے تھااورکعبہ کے گردمستانہ وار رقص کرتے ہوئے پروانے بھی میرے سامنے تھے۔ عجیب روح پرور اور دل کش نظاراتھا۔ مختلف اطراف میں بیٹھ کر کعبہ کو اب تک سامنے سے جتنازیادہ سے زیادہ دیکھ چکاتھا، ان ابعاد میں اب ایک نئے بُعدکا اضافہ ہوگیاتھا۔جیسے خلاکے تین ابعاد میں وقت چوتھے بُعدکے طورپردریافت ہواہے۔اب کعبہ کے رکن یمانی کو چھوڑکرباقی سارے منظر بھی میرے سامنے تھے اور کعبہ کی چھت بھی میرے سامنے تھی۔میں اوپرکی منزل پر کھڑاہونے کے باعث کعبہ کی چھت سے زیادہ اونچائی پرتھا۔ ہلکاسااحساس ہواکہ کہیں یہ بے ادبی نہ ہو پھر مجھے اپنے بچپن کے وہ منظر یادآئے جب اباجی میری ننھی منی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر مجھے پیارسے اونچااٹھالیتے تھے۔ تب میں اباجی سے اتناچھوٹاہونے کے باوجود ان سے اونچاہوجاتاتھا۔پررہتاتو اُنہیں کے ہاتھوں میں تھا۔ساتھ ہی قرآن شریف کی اس آیت کو یاد کرلیاکہ خداکو اس طرح یادکرو جیسے اپنے باپ دادوں کو یادکرتے ہو سوبے ادبی کا احساس کم ہونے لگا۔پھر میں نے نیچے طواف کرنے والوں کے ساتھ اوپرکی منزل پر ہی دائیں طرف سے پورالمبا چکر کاٹناچاہا۔ مبارکہ میرے ارادے سے گھبراگئی کہ اس کے لئے اتنا لمباچکرکاٹنا دشوارتھا۔ میں نے اسے تسلی دی کہ آپ یہیں بیٹھ کر اللہ اللہ کریں، میںاکیلاہی یہ چکرلگاکرآتاہوں۔ چنانچہ میں نے اکیلے حرم شریف کی بالائی منزل سے کعبہ کے چاروں طر ف کاچکر مکمل کیا۔یہ چکر طوافِ کعبہ کے سات چکروںکے برابرمحسوس ہوا۔فاصلہ زیادہ اور عام رفتارہونے کے باعث میں نے دیکھاکہ مناظر میں تبدیلی ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتاتھا۔بس آہستہ آہستہ اوجھل ہوتے منظرمیں نیا منظرابھرتاچلاآتاتھاجب بالکل وسرے زاویے پر پہنچاتب پتہ چلتاکہ منظرمیں کوئی تبدیلی آگئی ہے نیچے کوہ صفا اور مروہ تک سعی کے لئے حصہ مخصوص ہے اسی کے اوپر سعی کے لئے دوہری منزل بنادی گئی ہے تاکہ حج کے دنوں میں رش کے باعث حجاج کرام وہاں سے بھی سعی کرسکیں۔ یہ ایک اچھی سہولت لگی۔صفاکی پہاڑی کا تھوڑاساحصہ زائرین کے لئے ہے۔باقی حصے پر شاہی محلّات بن گئے ہیں۔ یہ محلّات حرم شریف کے ساتھ ہی ہیںلیکن اس سے کافی بلند وبالاہیں۔ مجھے بعض محتاط قسم کے لوگوں سے معلوم ہواکہ سعودی حکمران اورشہزادے اپنے محلوں ہی میں نماز باجماعت اداکرتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے میں نے پاکستان میں بھی کہیں یہ خبرپڑھی تھی کہ منسلکہ شاہی محلوں کے بارے میں فتویٰ حاصل کیاگیاہے کہ یہ بھی حرم شریف کاحصہ ہیں۔یوں سعودی خاندان گھربیٹھے نماز باجماعت میں شرکت کرلیتاہے۔ اگر واقعتاً ایسا ہے تو بے حد افسوسناک ہے۔ حرم شریف کے وضوخانے اور باتھ روم بھی حدودِ حرم سے باہر ہیںلیکن اگر شاہی محلات کو حدودِ حرم میں شامل ماننے کا فتویٰ حاصل کیاگیاہے تو اس کا مطلب ہے شاہی خاندان کے بیڈروم، باتھ روم بھی حدودِ حرم میں شامل ہیں۔خدا کرے اس سلسلے میں کوئی احتیاطی تدبیر ضرر کرلی گئی ہو۔ایسا ہے یا نہیں ہے؟ اس سلسلے میں صحیح صورتحال واضح ہونی چاہئے سعودی عرب میں ہردلعزیز شاہی خاندان کو اپنے عوام سے اتنابھی نہیں گھبراناچاہیے کہ حرم شریف میں آکرنماز باجماعت بھی نہ پڑھ سکیں اور اپنی سیاسی ضرورتوں کے چکر میں حرم شریف کے تقدس کو مجروح کرنے لگیں۔فتویٰ فروشوں کاکیاہے وہ تو بلاامتیازہرفرقہ میں ہروقت دستیاب ہیں جس طرح کا چاہیں دل پسند فتویٰ مانگ لیں، من پسند استخارہ کرالیں، حسب منشا خدمات حاضر ہیں۔
۔۔۔۔۔خانہ کعبہ کے بالائی نظارہ کے بعد ہم لوگ اپنے کمرہ میں گئے۔وہاں ناشتہ کیا۔ تھوڑی سی نیند کی۔ بیدارہوکرجمعہ نماز پرجانے کی تیاری کرنے لگے۔ جیسے ہی ہم تیارہوئے پہلی اذان ہونے لگی۔ہم اطمینان سے حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ خیال تھاکہ کسی نئے زاویے سے بیٹھ کر دیدارکعبہ کروں گااور جمعہ نمازاداکروں گا لیکن یہاں تو انسانوں کا غیر معمولی سیلاب آیاہواتھا۔ نچلی منزل میں تو جگہ ملنے کاسوال ہی نہیں پیداہوتاتھا۔ مجبوراً دوسری منزل پرگئے مگر یہاں بھی نمازیوں کاہجوم دیدنی تھا۔ بس جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے اور اسی کو اپنے لئے اعزاز جانا۔نماز جمعہ کے بعد سیڑھیوں سے اترتے ہوئے بھی دیکھااور پھر باہرآکر سڑک کی طرف بنے اونچے فٹ پاتھ سے بھی نظر دوڑائی حد نگاہ تک نمازیوں کاٹھاٹھیں مارتاہوں دریاتھا۔جس طرف دیکھیں نمازی ہی نمازی یہ جمعہ کے دن کا حال تھا۔ عام جمعہ تو پھر جمعة الوداع اور عید پر کیاحال ہوتاہوگا۔ میں اندازہ نہیں کرسکتا۔ حج کے دنوں کاتوخیرمعاملہ ہی الگ ہے۔ اپنے کمرے میں آکر ہم نے دوپہرکاکھاناکھایا۔ مبارکہ نے تھوڑا ساآرام کیا۔ آج ہم نے بعد نماز عشاءعمرہ کرنا ہے اور کل ہمارا مدینہ منورّہ جانے کا پروگرام ہے۔ بیٹھے بیٹھے مجھے ایک بھولی بسری نعت کے بول یادآنے لگے اور میں غیرارادی طورپر انہیں گنگنانے لگا۔یہ نعت غالباً شمشاد بیگم کی آواز میں تھی:
پیغام صبا لائی ہے گلزارِ نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبی سے
۔۔۔۔۔نماز عصر کے لئے ہم”باب العمرہ“ سے گذرکر حرم شریف میں داخل ہوئے۔ نماز مغرب کے لئے ”باب الملک فہد“ سے گذرکراندرگئے۔ اسی سیدھ میں مطاف سے باہر کعبہ کے سامنے جاکر نماز کے لئے جگہ حاصل کی۔ نماز سے پہلے میں نے سوچاکے خانہ کعبہ کی اس سامنے کی دیوار، دائیں جانب رکن یمانی، اور بائیں جانب حطیم اور میزاب الرحمت کو پہلے صاف اور واضح طورپربھی دیکھ چکاہوں اور اسی ”باب الملک فہد“ کی سیدھ میں بالکل پیچھے، حرم شریف کے اندرکعبہ سے اوجھل ہوکر بھی بیٹھ چکاہوں۔ گویاحجاب او ربے حجابی کے دونوں مرحلے طے کرچکاہوں۔ اب کوئی اور مرحلۂ شوق ہوناچاہیے۔ سو میں نے اپنی ۳۲۵نمبرکی(دورکی نظرکی)عینک اتاردی اور سامنے دیکھنے لگا۔وہاں سارے مقامات وہی تھے لیکن اب ان میں ہلکی سی دھندلاہٹ کے باعث حجاب اور بے حجابی کے درمیان کی کوئی صورت بن گئی تھی۔ارد گرد لگی ہوئی تیز روشنیوں کی روشنی تھوڑی سی مدھم لگنے لگی تھی اور ان کے ہالے نسبتاً بڑے ہوگئے تھے۔ دیدارکعبہ کاایک اور زاویہ مجھے نصیب ہوگیاتھا۔ ذاتی طورپرمیرے لئے یہ ایک انوکھاتجربہ تھا۔میں اس وقت تک اس تجربے سے سرور حاصل کرتارہاجب تک نماز مغرب کے لئے جماعت کھڑی نہ ہوگئی۔ نماز مغرب کے بعد ہم پھر مسجدِ عائشہ کی طرف گامزن تھے۔حسبِ معمول غسل کیا، نیت عمرہ کی، اطمینان سے بس پکڑی اور لبیک الہم لبیک کاورد کرتے ہوئے حرم شریف کی جانب روانہ ہوئے۔بس اطمینان سے اس لیے پکڑی کہ مغرب اورعشاءکی نمازوںکادرمیانی وقفہ کم ہوتاجارہاہے۔
کل بھی ہم تقریباً بھاگ کر آخری رکعت حاصل کرسکے تھے۔ اطمینان سے آنے کے نتیجہ میں ہمارے حرم شریف پہنچنے تک نمازِ عشاءہوچکی تھی۔ ہم اپنے ہوٹل کے قریب والے بس اسٹاپ کی بجائے بس اڈے پر جاکر اترے۔ وہاں سے حرم شریف کے مین گیٹ سے داخل ہوئے تو ہمارے سامنے تین دروازے تھے۔ ”باب النبی“۔ ”باب العباسؓ “ اور” باب علی ؓ“ پہلے دو دروازوں سے ہم پہلے بھی داخل ہوچکے تھے اس لیے میں نے چاہاکہ اس بار ”باب علیؓ “ سے اندرجائیں لیکن ”باب علی“ بندکیاجاچکاتھا(رات کو بعض دروازے بندکردیئے جاتے ہیں)۔ اس کے ساتھ دائیں طرف ”باب العباس“ کھلاہواتھا، وہیں سے اندرداخل ہوکرمیں ”باب علی“ کی سیدھ میں آگیا۔ عین اسی سیدھ میں زم زم کے کنویں کے سامنے حرم شریف کی پہلی صف میں جگہ کا انتخاب کیالیکن یہ کیا؟دائیں طرف حطیم، میزاب الرحمت، رکن عراقی،سامنے مقام ابراہیم، ملتزم، حجراسود کا کونہ اور رکن یمانی والا کونہ اتنے سارے منظرایک ہی جگہ بیٹھنے سے دکھائی دے رہے تھے۔صرف یہی نہیں، آب زم زم کا کنواں بھی بالکل میرے سامنے تھا مجھے حدیث شریف یادآگئی: ”میں علم کاشہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے“ کثرتِ نظارااور فراوانیِ شوق حیدرِبے قرارنے پورے زور کے ساتھ حیدرِ کراّر کے نام کا نعرہ لگایا نعرۂ حیدری:یاعلی! یہ نعرۂ مستانہ میں نے من ہی من میں لگایاتھااور اس کی گونج بھی میرے دل ہی میں دیرتک ارتعاش پیداکرتی رہی۔
لطف آگیا جینے میں
نور مناظر کا
جب بھر گیا سینے میں
۔۔۔۔۔مبارکہ نے میرے ساتھ کھڑے ہوکرنماز عشاءاداکی۔دراصل نماز باجماعت کے وقت خواتین کو الگ حصے میں بھیج دیاجاتاہے۔باقی وقت میںزیادہ پابندی نہیں لگائی جاتی۔مبارکہ عشاءکی نماز پڑھ کر تسبیح و تحمید میں مشغول تھی۔ میں جب نماز سے فارغ ہواتو اس کے تسبیح کرتے ہونٹوں کے باوجود اس کے چہرے سے اکتاہٹ اور بیزاری کو صاف دیکھ رہاتھا۔ مجھے اندازہ ہوگیاکہ مجھے نماز پڑھنے میں زیادہ دیر لگ گئی ہے۔ لیکن میں اسے کیابتاتاکہ میں کس موج میں آیاہواتھا۔ بس اسے مختصراً سامنے کے سارے مناظرکی نشاندہی کردی۔پتہ نہیں اسے بات پوری طرح سمجھ میں آئی بھی یانہیں نماز پڑھنے کے بعد ہم نے طواف کعبہ کاآغاز کیا۔ یہ عمرہ مبارکہ نے اپنے پانچوں بچوں کی زندگیوں اور زندگی کی خوشیوں کی دعاؤں کے لئے مخصوص رکھاجبکہ میرا عمرہ اپنی دادی اماں” صاحب خاتوں“ کی طرف سے تھا۔میری دادی اماں تب فوت ہوگئی تھیں جب اباجی کی عمر چھ سال کے لگ بھگ تھی۔ اباجی رحیم یارخاں میں قیام کے عرصہ میں ہرسال محرّم کی دس تاریخ کو ہم سب کو قبرستان لے جاتے۔وہاں دادی جان کی قبرپر دعاکرتے۔جب ہم خانپور آگئے تب سے اباجی کاجب بھی کسی کام سے رحیم یارخاں جاناہوتاوہ دادی جان کی قبرپردعاکرنے کے لئے ضرور جاتے۔ مجھے یادہے ایک باراباجی رحیم یارخاں سے واپس آئے تو بے حد اداس لگے۔ بتانے لگے قبرستان بہت پھیل گیاہے۔تلاش کے باوجوداماں کی قبرنہیں ملی پھر قبرستان کے گیٹ پر ہی دعاکرکے آگیاہوں۔قبرکیاکھوئی تھی ایسے لگاتھاجیسے دادی جان ابھی ابھی فوت ہوگئی ہیں۔ یہ قبروں کا بھی عجیب ساجادوہوتاہے۔ مٹی کا جادو شاید دھرتی ماں کی کشش ہوتی ہے:
یہ ساری روشنی حیدر ہے ماں کے چہرے کی
کہاں ہے شمس و قمر میں جو نور خاک میں ہے
۔۔۔۔۔۔طواف کعبہ کے بعد ہم سعی کے لئے کوہ صفاسے مردہ کی طرف روانہ ہوئے۔صفا سے مروہ کی طرف جاتے ہوئے سبز ستونوں والی ایک مخصوص جگہ آتی ہے۔ اسے اخضر میلین کہتے ہیں۔اس حصے میں مردوں کو جھپٹتے ہوئے تیز تیزچلنے کاحکم ہے لیکن عورتیں صرف اپنی عام رفتارسے ہی گذرتی ہیں۔پہلے تومجھے خیال آیاکہ یہاں بے قراری سے توایک عورت (حضرت بی بی ہاجرہ) دوڑتی پھر رہی تھی جس کی یادمیں ہم سب سعی کرتے ہیں لیکن اب ہم نے عورتوں کے دوڑنے پر پابندی لگاکر خود دوڑنے کی اجازت لے لی ہے۔ لیکن پھر خیال آیاکہ حضرت بی بی ہاجرہ نے جس بے قراری سے بھاگ دوڑ کی تھی اس سے تو ساری دنیا کی عورتوںکا حصہ بھی انہوں نے پورا کردیاتھا۔شاید اسی لئے اب عورتوں کو اس معاملے میں رعائت ملی ہے۔ اخضرمیلین والے حصہ سے گذرتے ہوئے جو دعائیں کی جائیں ان کے بارے میں روایت ہے کہ خصوصی طورپرقبول کی جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۷دسمبرکو ہمیں مدینہ منوّرہ جاناتھا۔تہجدکی اذان کے ساتھ ہی میں نے بستر چھوڑدیا۔ باتھ روم سے فراغت کے بعد مبارکہ کو جگایااس نے تیاری کرلی تو ہم حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ میں نے آج حجرِاسود کے سامنے نماز پڑھنے کے لئے جگہ بنالی۔ یوں تو دن رات کسی وقفے کے بغیر خانہ کعبہ کے طواف کاسلسلہ جاری رہتاہے اور سب سے زیادہ ہجوم حجرِاسودکے سامنے ہوتاہے لیکن نماز باجماعت کے وقت طواف رُک جاتاہے۔سو اس مختصرسے وقفہ کے دوران یہاں سے حجراسود کی زیارت زیادہ صاف طورسے کرناممکن تھا۔ میں حجراسود سے نویں نمبرکی صف میں شامل تھا۔طواف رُک گیاتھالیکن اگلی صفوں میں ابھی بعض لوگ سنتیں اداکررہے تھے اور کسی نہ کسی کے قیام و رکوع کے باعث دیدار میں روک بن جاتی تھی۔آخر یہ روک بھی دورہوئی اور تھوڑی دیر کے لئے حجراسود کاجتناحصہ ظاہراور باہر تھا سب میری آنکھوں کے سامنے تھا۔باہر سے کوئی سفید اور مضبوط سی دھات اس پر منڈھ دی گئی تھی۔ دھات کے اندر بہت بڑے سائز کے کٹورے جیسا حجراسود دکھائی دے رہاتھا جیسے زنجبیل کا کٹوراہو جنتیوں کو زنجبیل کے کٹوروں میں پاک شراب عطاکی جائے گی زنجبیل کا بڑاساکٹورہ میرے سامنے تھا بیئرزم زم سے بھرے خوبصورت کولر میرے آس پاس تھے اور بیئرزم زم کاسرچشمہ میرے نیچے تہہ خانے میں تھا پل بھر کے لئے میں نے حجراسود کے منظر سے اپنی آنکھیں روشن اور دل کو مالامال کرلیاتھا اس طرف بیٹھنے سے یہ بھی دیکھاکہ امام کعبہ مقام ابراہیم سے تھوڑاپیچھے ہٹ کر نماز کی امامت کراتے ہیں۔میرے دائیں طرف ۱۵،۲۰میٹر کے فاصلے پر وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ میری صف ان کی صف سے کافی آگے تھی۔ لیکن یہاں پہنچ کر توساری سمتیں ہی بے معنی ہوجاتی ہیں۔دائیں،بائیں،آگے، پیچھے مشرق، مغرب،شمال، جنوب سب بے معنی بس جدھر دیکھتاہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے۔ جیسے ہی نماز ختم ہوئی۔ طواف کرنے والے دیوانہ وار اٹھے اور حجراسود پھر اپنے پروانوں کی اوٹ میں چلاگیا۔ بس کبھی کبھی ا سکی لَو ہلکی سی جھک دکھادیتی تھی۔ جہاں تک ممکن تھاشوقِ زیارت نے زاویے بدل بدل کر دیدارِ کعبہ کرلیاتھا۔ کل یوم ہو فی شان کا نظاراکرلیاتھا۔
٭٭٭