سُرخ ڈاڑھی والوں سے لڑائی پورے مشرقی ترکستان میں سالہا سال تک چلتی رہی، لیکن ١٩٣٨ء تک اس کے شعلے تئین شان کے علاقہ میں اتنے فرو ہو گئے تھے کہ حمزہ پھر اپنے مکتب جا سکے۔ لیکن الطائی میں جنگ کچھ تیز ہو گئی تھی۔ عثمان پہاڑوں میں تاخت کرتا پھر رہا تھا۔ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی اسے موقع ملتا وہ چینیوں پر چھاپہ مار دیتا۔ اپنے منتخب چھاپہ ماروں کے ساتھ وہ چھاپے پر چھاپہ مارتا، یہاں تک کہ وہ اپنے دشمنوں کے لیے کابوس بن گیا۔ الطائی کی بلندیوں میں ایسی بے شمار کمین گاہوں کا اسے بے مثل علم تھا جنھیں سوائے چند قازقوں اور منگولوں کے اور کسی نے دیکھا تک نہیں تھا۔ جب چینی اسے گرفتار کرنے کے لیے اپنے دستے اس کے تعاقب میں بھیجتے تو وہ اُن کی گرفت سے بچ نکلتا اور جب چینی واپس جاتے ہوئے کسی تنگ وادی یا سکڑے پہاڑی راستے میں پھنس جاتے تو ان میں سے بیشتر کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا اور کُھلے میدانوں میں ان پر اچانک حملہ کر کے ان کا قلع قمع کر دیا جاتا۔ حملے کی رہنمائی خود عثمان کرتا، اپنے ساتھیوں سے بہت آگے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا دشمنوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑتا اور اپنی زین کی سطح ہی سے مشین گن سے گولیاں برساتا رہتا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اندھا دھند گولیاں چلا رہا ہے لیکن درحقیقت وہ چار ہی گولیوں میں وہ افسروں یا سربرآوردہ لوگوں کو ڈھیر کر دیتا۔ اس کی نشانہ بازی اس قدر مہلک تھی کہ مشرقی ترکستان کے قازقوں میں اور ترکی میں بھی اس کی شہرت ویسی ہی تھی جیسی سوئٹزرلینڈ میں ولیم ٹیل کی۔ ان لڑائیوں میں وہ ہمیشہ زندہ سلامت نکل آیا۔ کوئی ہلکا سا زخم کبھی آ گیا تو آ گیا۔ عثمان کے ساتھی جیسا کہ قازقوں کا ہمیشہ سے شعار رہا ہے اپنے سردار کی فدائیانہ خدمات انجام دیتے تھے۔ وہ اسے نہ صرف بوکو بطور کا سچا جانشین سمجھتے تھے بلکہ خود چنگیز خاں کا بھی۔ حوصلہ مند، بے رحم، شجاع، محتاط، نازاں، وہ کبھی کسی سے ایسےکام کو نہیں کہتا تھا جسے وہ خود نہ کر سکتا ہو۔ اس کے ساتھی جانتے تھے کہ جس کام کو وہ ٹھیک سمجھتا ہے پھر اس سے مُنہ نہیں موڑتا، نہ تو اپنے دشمنوں پر ترس کھاتا ہے نہ اپنے آپ پر۔ کبھی کسی حریف، دوست، مقصد یا اپنے ضمیر سے سمجھوتہ نہیں کرتا تھا۔ اس کے ساتھی یہ محسوس نہیں کرتے تھے کہ تاریخ کے اسٹیج پر وہ نصف صدی تاخیر سے رونما ہوا ہے۔ گُھڑ سواروں کی رہنمائی کرنے میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتا تھا، لیکن آخر میں اسے اپنے آدمیوں کو بکتر بند گاڑیوں، ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کے مقابلے میں لے جانا پڑا، اس صورت حال میں بھی اس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس کا بیان اس کے مناسب موقع پر آئے گا۔
اس عرصے میں تئین شان میں یونس حجی، باعی ملا، علی بیگ اور دوسرے قازق سردار سیاسیات کی طرف متوجہ تھے۔ ابتدا میں اس کے باعث بڑی تباہی آئی۔ ١٩٣٩ء میں دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کا زمانہ تھا۔ صوبہ دار شنگ نے جو بدستور روسی مشوروں پر عمل کر رہا تھا ایک دم سے اپنی دہشت انگیزی کم کر دی اور پیشکش کی کہ مقامی افسر قازق خود مقرر کریں تاکہ اپنے امور کے انتظامات وہ خود کریں، مثلاً اپنے اسکول چلانا، ٹیکس لگانا اور چراگاہوں کا تقسیم کرنا۔ بہت سے قازقوں نے اس پیشکس کو جلدی سے قبول کر لیا اور یہ نہ سمجھ سکے کہ صوبہ دار شنگ ان عہدوں کو محض بطور چارہ پیش کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے قازق خود شاہین پکڑنے کے لیے جال میں چوزے لگایا کرتے تھے۔ جب نئے افسروں نے عہدے سنبھال لیے تو شنگ نے اپنی خفیہ پولیس بھیج کر ان سب کو حراست میں لے لیا اور ان پر الزام یہ لگایا کہ وہ سب “حلق آزادلک الاری مو” عوامی آزاد پارٹی کے ممبر ہیں، حالانکہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ یہ پارٹی اور خود صوبہ دار شنگ بھی سوویت کے زیر اثر تھے۔ ان گرفتاریوں کا انداز خاص اشتراکی تھا۔ رات ڈھلے خفیہ پولیس کی ایک پارٹی مطلوبہ شخص کے گھر یا خیمے پر پہنچتی اور اس میں رہنے والوں کو زور زور سے آوازیں دیتی کہ باہر نکل آئیں۔ ان میں سے اکثر اپنے شب خوابی کے کپڑے پہنے ہی باہر نکل آتے تھے۔ پھر عورتوں اور بچوں کو نہایت بدتمیزی سے واپس اندر دھکیل دیا جاتا اور مطلوبہ شخص کے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگا کر پولیس کی گاڑی میں دھکا دے دیا جاتا۔ اسے کپڑے تک نہ بدلنے دیا جاتا اور جیل پہنچا دیا جاتا۔ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ پولیس والوں نے گھر کی تلاشی لی، عورتوں کی عصمت دری کی اور گرفتار کرانے کے لیے باغیانہ کاغذات خود اس کے گھر میں رکھ کر برآمد کر لیے۔ لیکن اس زمانے میں عوامی پارٹی کا ممبر ہونا خلاف قانون نہیں تھا۔ آخر کو تو یہ پارٹی سوویت کی سرپرستی ہی میں قائم ہوئی تھی۔ اس لیے اس حقیقت کو چھپانے کی کوئی ممبر کوشش نہیں کرتا تھا لہذا بغاوتی سرگرمیوں کی شہادت صرف اس وقت مہیا کی جاتی جب مطلوبہ شخص کو واقعی خطرناک سمجھا جاتا۔
ان گرفتاریوں میں قازقوں کے علاوہ دوسری قوموں کے لوگ بھی شامل کر لیے جاتے، مثلاً ترک، منگولی، ازبکی وغیرہ۔ لیکن ایسے رہنما بھی ان میں موجود تھے جو اس جال میں پھنس جانے سے بچے رہے کیونکہ جب صوبہ دار شنگ نے عہدوں کی پیشکش کی اور غیر محتاط لوگوں نے جھٹ اُسے قبول کر لیا تو یہ لوگ نہایت دانشمندی سے دور ہی رہے۔ جو لوگ قید و بند سے بچے رہے ان میں علی بیگ اور یونس حجی دونوں تھے اور اسمٰعیل حجی ترک کسان بھی۔ جس کا گھر لال ڈاڑھی والوں کے خلاف پیکاری منصوبے بنانے کا اڈا بنا ہوا تھا۔ لیکن آخر آخر میں شنگ نے اسمٰعیل حجی کو گرفتار کر لیا۔ اُسے گرفتار کیا گیا پھر چھوڑ دیا گیا اور پھر گرفتار کر کے اس قدر تکلیفیں دیں کہ وہ مر گیا۔ اس کے دونوں ساتھیوں جی جن منگولی “زندہ بدھ” اور باعی ملا قازق کو دعوت نامہ ملا کہ صوبہ دار شنگ کے مہمان ہونے کے لیے ارمچی آئیں، دوسروں کی طرح بغیر کسی بات کا شبہ کیے انھوں نے دعوت منظور کر لی اور جب مہمانوں کے اعزاز میں بظاہر خوشیاں منائی جا رہی تھیں، جلاد ان پر جھپٹ پڑے اور ان کا کام تمام کر دیا۔
باعی ملا کا چغہ خفیہ طور پر علی بیگ کو پہنایا گیا لیکن ١٩٤٠ء میں تقریباً سقوط فرانس کے وقت وہ بھی گرفتار کر کے اُرمچی لے جایا گیا جہاں اسے اٹھارہ مہینے ایک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ اس زمانۂ نگرانی میں جہاں
کہیں وہ جاتا، چینی نگراں اس کے ساتھ رہتے۔ یہاں تک کہ رات کو بھی اسی کمرے میں رہتے جس میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ سوتا۔ کمرے میں صرف ایک پلنگ تھا اس پر نگران سوتے۔ لیکن علی بیگ چونکہ اپنے خیمے کے فرش پر سونے کا ساری عمر سے عادی تھا اس لیے یہاں بھی فرش پر سونے میں اُسے کسی قسم کی زحمت نہیں ہوتی تھی۔
علی بیگ کی گرفتاری سے کچھ ہی پہلے شنگ کی بُلائی ہوئی ایک کانفرنس میں ایک مندوب کی حیثیت سے یونس حجی ارمچی گیا تھا، وہ حمزہ کو اپنے ساتھ لیتا گیا تاکہ اُرمچی میں اس کی تربیت جاری رہے۔ یہاں وہ پورے دو سال مقیم رہے، حالانکہ چاروں طرف دہشت کا راج تھا۔ گلیوں کے نکڑ پر سفید بکس رکھے ہوئے تھے کہ لوگ کسی پر اتہامات لگا کر گم نام درخواستیں ان میں ڈال دیں۔ شنگ کی خفیہ پولیس یہ معلوم کرنے کی زحمت نہیں کرتی تھی کہ جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ صحیح ہیں یا غلط، اس لیے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کس دن بلکہ کس گھڑی خفیہ پولیس آکر اس کا دروازہ پیٹنے لگے گی اور اسے کسی ایسے جرم میں پھانس کر لے جائے گی جو اس نے نہیں کیا۔ گرفتاری کے بعد ملزم کو تکلیفیں پہنچائی جاتیں اور وہ غریب یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتا کہ کس دشمن نے اس کے خلاف درخواست دی ہو گی۔ پھر خود ہی کسی کا نام دل میں سوچ کر اس کے خلاف گمنام درخواست ڈال دیتا۔ یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ہزاروں بے گناہ اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ علی بیگ اور حمزہ کا اندازہ یہ ہے کہ صوبہ دار شنگ کے دہشت ناک راج میں نو سال تک ہر سال دس ہزار بے قصور آدمی موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔
ستمبر ١٩٣٩ء میں حمزہ کے ارمچی جانے سے کچھ ہی پہلے شنگ کے روسی مشیروں نے فیصلہ کیا کہ صوبےمیں مذہبی تعلیم ختم کر دی جائے۔ چنانچہ صدر مقام میں دو سال تک حمزہ کو صرف غیر مذہبی تعلیم ہی ملتی رہی۔ وہ اس تبدیلی کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن تبدیلی کا ذمہ دار وہ چینیوں کو ٹھہراتا تھا، روسیوں کو نہیں۔ لیکن روسیوں کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو چلے تھے۔ جو کتابیں حمزہ پڑھ رہا تھا وہ روسیوں کی نگرانی میں مرتب کی گئی تھیں۔ سوویت یونین ایک اشتراکی ریاست تھی۔ حمزہ کے بعض مکتب کے ساتھی اب اشتراکی بن چکے تھے بلکہ ان میں چند قازق بھی شامل ہو چکے تھے اور جب مکتب سے فارغ التحصیل ہو کر نکلے تو ان کو شنگ کی صوبائی حکومت میں اچھی ملازمتیں مل گئیں۔ حمزہ اشعر تیز دماغ اس تذبذب میں پڑ گیا کہ کیا اشتراکیت دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو چینی جو بُری ہوتی ہے اور دوسری روسی جو اچھی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو چینیوں کے خلاف مقامی قوموں کی پشت پناہی کر رہی تھی اور دوسری وہ جو جابر و ظالم شنگ کی پیٹھ ٹھونک رہی تھی اور محکوم قوموں کے سر اس سے کچلوا رہی تھی۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ عوام کے سامنے اشتراکی دو منہ سے بولتے ہوں اور خفیہ طور پر ان کا مقصد ایک ہی ہو، اگر وہ دو مونہوں سے بولتے ہیں تو کس مُنہ کا اعتبار کیا جائے؟
ان دنوں واقعی میں کسی کے لیے یہ جان لینا مشکل تھا کہ کس پر یقین کیا جائے۔ مثال کے طور پر جب اگست ١٩٣٩ء میں شنگ نے صوبے میں بسنے والی مختلف قوموں کو دعوت دی تھی کہ اپنے اپنے مندوب اُرمچی بھیجیں تاکہ نیا بنیادی دستور بنایا جائے جس کی رو سے ہر شخص کے ساتھ انصاف کیا جائے تو اس وقت شنگ کی نیت نیک تھی یا بد، یہ ایک ایسا دعوت نامہ ضرور تھا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا، ورنہ بعد میں شنگ کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ دیکھو میں نے تو تمھیں آزادی دینے کےلیے بلایا تھا مگر تم آئے ہی نہیں۔
لہذا مناسب وقفے میں کوئی تین ہزار مندوبین جن میں یونس حجی بھی تھا، مقررہ تاریخ پر اُرمچی پہنچ گئے اور صوبہ دار شنگ نے اعلیٰ پیمانے پر ان کی خاطر مدارات کی۔ پھر مذاکرات کی ابتدائی کارروائی بطور اور (بقول شنگ) یہ یقین کرنے کے لیے کہ تمام مذاکرات امن کے ماحول میں جاری رہیں گے، شنگ نے ہر مندوب کو حکم دیا کہ جنھوں نے اُسے چُن کر بھیجا ہے انھیں ایک خط لکھے کہ جتنے بھی ہتھیار موجود ہوں، وہ سب فوراً حکومت کے حوالے کر دیے جائیں۔
ہمیں اس کا علم نہیں کہ مندوبین میں سے کتنوں نے شنگ کے حکم کی تعمیل کی۔ ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ بہت کم نے اور قازقوں میں سے شاید کسی نے بھی یہ خط نہیں لکھا۔ اور اگر ایسے خطوط لکھے بھی جاتے تب بھی اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کوئی نہ کرتا۔ بہرحال یہ تین ہزار مندوبین اگلی اپریل تک اُرمچی ہی میں تھے اور نئے بنیادی دستور پر غور و خوض شروع نہیں ہوا تھا۔ پھر اپریل ١٩٤٠ء میں ان تین ہزار مندوبین میں سے اٹھارہ کو شنگ نے گرفتار کر لیا۔ ان میں یونس حجی بھی شامل تھا اور جب بالآخر ٤١-١٩٤٠ء میں ان مندوبین کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت ملی تو وہ اٹھارہ ان کے ساتھ نہیں گئے اور نہ اس کے بعد کسی نے انھیں زندہ دیکھا۔
اُرمچی میں صرف ایک قازق ایسا تھا جو بتا سکتا تھا کہ ان کا کیا حشر ہوا۔ شنگ کی خفیہ پولیس میں یہ شخص لاری ڈرائیور تھا۔ اس کا ایک کام یہ بھی تھا کہ جن کو مار ڈالا گیا ہو، ان کی لاشوں کو لاد کر لے جایا کرے۔ جسے مارنا ہوتا اس کی گُدی پر گولی مار دی جاتی اور اس کی لاش فصیل شہر سے باہر پھنکوا دی جاتی۔ اس شخص کی تنخواہ تو کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن جو لوگ لاپتہ ہو جاتے، ان کے ورثا کو یہ بتا کر کہ ان کی لاشیں کہاں پھینکی گئی ہیں، وہ خاصی رقمیں کما لیتا تھا۔
گرمیوں کے موسم میں ایک دن وہ بجائے مقتولین کی لاشیں لادنے کے، ان کے قاتلوں یعنی شنگ کے مقرر کردہ جلادوں کو اپنی لاری میں سوار کر کے چھوڑنے جا رہا تھا کہ ایک اُجاڑ مقام پر لاری کا انجن کچھ خراب ہو گیا۔ اس نے انجن کا ڈھکنا کھول کر ٹھونک بجا کر خرابی کا پتہ چلانا شروع کیا۔ مشرقی ترکستان میں سارے ڈرائیور بڑے شوق سے انجنوں پر جھکے رہتے ہیں کیونکہ اس طرح انھیں اپنی فوقیت جتانے کا کچھ موقع مل جاتا ہے۔ ادھر تو ڈرائیور اپنے کام میں لگا ہوا تھا، ادھر اس کے نو ٩ مسافروں نے ایک ٹھنڈی سایہ دار جگہ تلاش کی اور پڑ کر سو رہے۔ ڈرائیور نے انجن ٹھیک کر لیا اور جب ان نو جلادوں کو بے غل و غش سوتے دیکھا تو ایک ایک کر کے سب کے گلے کاٹ دیے۔ اس طرح سے فارغ ہو کر وہ اُرمچی اپنی لاری واپس لے آیا اور یہاں رپٹ درج کرائی کہ پہاڑوں میں قازق لٹیروں نے لاری کو روک لیا اور سارے مسافروں کو اپنی تلواروں سے مار ڈالا۔ مجھے اس لیے چھوڑ دیا کہ میں قازق ہوں اور جب اس کے مالکوں نے مقام واردات پر اس واقعہ کی تصدیق کرنے کے لیے کچھ اور آدمیوں کو بھیجا تو چیلوں، گدھوں اور گیدڑوں نے اس کام کی تکمیل کر دی تھی جس کا آغاز ڈرائیور نے کیا تھا۔ لہذا جو کچھ ڈرائیور نے کہا تھا اس کی تردید کسی طرح بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اور تو کسی کو یقین نہیں آیا، لیکن ڈرائیور کے مالکوں کو اس کے بیان کا یقین آ گیا۔
اس بھیانک شخص کا نام قالی تھا اور اس کے ہم قوم قازق بھی اس سے دُور رہتے تھے۔ بعض کہتے تھے کہ وہ جاسوس ہے کیونکہ شنگ کا کام کرتا ہے اور اُجرت پاتا ہے۔ اور بعض کا کہنا یہ ہے کہ:
“اگر وہ جاسوس تھا، محض اس وجہ سے کہ شنگ سے اُجرت لیتا تھا تو اس وقت کیا تھا جب ہم سے پیسے لے کر یہ بتاتا کہ شنگ کے ہاتھوں ہمارے پیاروں کا کیا حشر ہوا، اور اس وقت کس کے لیے جاسوسی کر رہا تھا جب اس نے کسی سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا اور شنگ کے جلادوں کے گلے کاٹ ڈالے۔ مقتولوں کی جیبوں میں سے ظاہر ہے کہ اس کے ہاتھ کچھ زیادہ رقم نہیں آئی ہو گی”۔
قالی کے کردار کا اندازہ کرنے کے لیے آگے چل کر ہمیں ایک مختصر سا موقع اور ملے گا جب وہ قازقوں کی کشمکش میں ایک بڑے نازک موقع پر اچانک کہیں سے اُبھر آتا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ اس واقعہ کے مشاہدے کے بعد بھی ہم اس کے سمجھنے میں کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔
جب حمزہ کا بھائی گرفتار کر لیا گیا تو حمزہ ارمچی کے مدرسہ میں پڑھ رہا تھا۔ اس نے قالی سے اپنے بھائی کے انجام کے متعلق دریافت نہیں کیا بلکہ جیسے ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ یونس حجی قتل کر دیا گیا، وہ خاموشی سے قزل ازون واپس چل دیا۔ حمزہ اس وقت انیس سال کا نوجوان تھا۔ اس لیے شنگ کی خفیہ پولیس بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ روسی پوگوڈِن کی طرف سے سخت خطرے میں تھا۔ اس کے بھائی کو شبہ میں گرفتار کر کے مار ڈالا گیا تھا تو حمزہ کو مُتہم کرنے میں اسے کیا دیر لگتی۔ خوش بختی سے حمزہ نے اپنےخیالات کا اظہار اپنے مکتب میں نہیں کیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی تو ایک واقعہ تھا کہ حمزہ ایک ایسے مکتب میں پڑھ رہا تھا جس پر اشتراکیوں کا قبضہ تھا اور اسی مدرسے کی سیاسی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ یہ باتیں بھی حمزہ کے حق میں تھیں۔ لہذا یونس حجی کا چھوٹا بھائی ہونے کے باوجود اسے گرفتار نہیں کیا گیا اور اسے اپنے گھر واپس جانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔
قزل ازون سیدھے جانے کے بدلے حمزہ مشورہ کرنے کے لیے پہلے اسمٰعیل حجی کے پاس گیا۔ اس نے پہلے دیکھ لیا، تینوں سڑکیں خالی پڑی ہیں۔ بڈھا اسمٰعیل اب بھی وہیں موجود تھا لیکن شنگ کے آدمیوں کے ہاتھوں اس نے جو تکلیفیں اٹھائی تھیں ان سے بالکل نڈھال ہو گیا تھا۔ اس نے حمزہ کو مشورہ دیا کہ مناس سے دُور رہے کیونکہ وہاں بھی اُرمچی کی طرح ہر گلی کے نکڑ پر سفید بکس رکھے ہوئے تھے۔ جب رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیل گیا تو حمزہ اس کے گھر سے نکل کر قزل ازون کے کنارے اپنے خیمے میں پہنچ گیا۔ یہاں اس کے دوستوں نے فوراً دن اور رات کا پہرہ لگا دیا تاکہ مناس سے آنے والے راستے کی نگرانی رکھیں اور اگر کسی انجانے آدمی کو آتا دیکھیں تو اسی وقت اس کی خبر کریں لیکن کوئی نہیں آیا۔
کچھ عرصہ بعد علی بیگ اچانگ مناس واپس آ گیا۔ حمزہ نے ایک قاصد بھیج کر اس سے پوچھا کہ کیا بغیر کسی خطرے میں مبتلا ہوئے ہماری ملاقات ہو سکتی ہے؟ وہ دوست جو پیغام لے کر گیا تھا، جب واپس آیا تو کچھ مذبذب تھا، اس نے حمزہ سے کہا:
“وہ مناس میں مِنگ باشی یعنی ایک ہزاری سردار بن کر آیا ہے اور قصائی شنگ کا تنخواہ دار ملازم ہے۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں خطائیوں نے اسے اپنے اصولوں پر نہ لگا لیا ہو۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ان کی تنخواہ پاتا ہے۔ مگر جب اصولوں کا تسلیم کرنا ایک طرف ہو اور شدید اذیتیں دوسری طرف ہوں تو پھر اصول مان لینے پر کسی کو دوش کیسے دیا جا سکتا ہے؟”
حمزہ نے حقارت سے کہا: یہ بازاری غپ ہے اور اس پر کسی سچے مسلمان کو یقین نہیں کرنا چإہیے۔ میں اس وقت ارمچی ہی میں تھا جب شنگ کے اذیت دینے والوں نے اسے ایک گھر میں نظر بند کر رکھا تھا اور نماز پڑھنے میں بھی وہ مداخلت اس لیے کرتے تھے کہ کہیں خدا سے ہم کلام ہونے کے پردے میں وہ کسی قریب ہی چھپے ہوئے ساتھی سے باتیں نہ کر رہا ہو۔
دوست نے مشتبہ اندزا میں پوچھا: “تو اس وقت کیا تم خود ایک خطائی مدرسے میں زیر تعلیم نہیں تھے، ہو سکتا ہے کہ انھوں نے خطائی زبان کے ساتھ ساتھ خطائی اصول بھی تمھیں سکھائے ہوں۔۔۔”
حمزہ نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا: “اور یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے میرے بھائی یونس حجی کو خرید لیا ہو اور شاید اسی قصور میں اُسے گرفتار کیا ہو”۔
دوست نے کہا: “نہیں۔ تمھارے بھائی پر کوئی بھی شبہ نہیں کر سکتا۔ رہے تم تو کیا تم اس کے بھائی نہیں ہو۔ لیکن یہ علی بیگ ہے۔ کیا اس کا باپ رحیم بیگ ہمارے لوگوں اور خطائیوں میں بیچ کا بچولی نہیں تھا۔ اس کے بعد کیا اس کے بیٹے نے اس کی جگہ نہیں سنبھال لی۔ کیا وہ اب اس قصائی شنگ کا ملازم نہیں ہے جس نے تمھارے بھائی کو گرفتار کیا اور ایسا غائب کیا کہ آج تک اس کا پتہ نہیں چلا؟”
حمزہ بولا: “تم نے میرے بھائی کے بارے میں جو کچھ کہا بالکل ٹھیک کہا، لیکن علی بیگ کو گرفتار کر کے اُرمچی لے جانے سے پہلے جب ہم لال ڈاڑھی والوں سے لڑ رہے تھے تو کیا اس زمانے میں یہی علی بیگ، اس کا نائب تمن باشی دہ ہزاری سردار نہیں تھا۔ کیا سارے علاقے میں علی بیگ ایک سچا محب وطن مشہور نہیں ہے جس پر شنگ نے دس لاکھ کا جرمانہ کیا تھا اور یہ رقم لوگوں نے خود ہی بخوشی ادا کر دی تھی کیونکہ علی بیگ اس کی ادائیگی کے قابل ہی نہیں تھا۔ لہذا تم سے نہیں بلکہ خود اس کے منہ سے میں یہ سنوں گا کہ وہ قصائی شنگ کا سفیر بن کر مناس کیوں آیا ہے”۔
حمزہ نے دوبارہ کسی کو مناس بھیجنا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں نئے منگ باشی نے خود ہی پیغام بھیجا کہ آ کر ملاقات کرے۔ اس دعوت نامے کی مزید تفصیلات قاصد کو معلوم نہیں تھیں، اس لیے حمزہ فوراً ملنے کے لیے روانہ ہو گیا۔ جب حمزہ اور علی بیگ ملے تو گرم جوشی سے گلے ملے اور قازقوں کے روایتی اخلاق کے مطابق انھوں نے دائیں رخسار ملائے اور جدا ہو کر مصافحہ کیا اور “اللہ اکبر، اللہ اکبر” کہتے رہے۔ پھر داہنے ہاتھ سے اپنی اپنی پیشانی، لب اور سینے کو چھوا۔ مسلمانوں میں عام طور سے یہی رواج ہے۔ دونوں ابھی نوجوان ہی تھے۔ حمزہ اُنیس اور علی بیگ چونتیس سال کا تھا۔ اس ملاقات کے بعد سے ان دونوں کے مقدر ایسے ایک ہوئے کہ مرتے دم تک جُدا نہیں ہوئے۔
اس طرف سے اطمینان کر کے کہ کوئی کن سنیاں تو نہیں لے رہا، چھپا ہوا مائیکروفون اس زمانے تک دنیا کے اس دور دراز حصے میں نہیں پہنچا تھا، علی بیگ نے اپنے منصوبے بیان کیے۔ اس نے صاف صاف بتایا کہ مجھے ہوشیاری سے ایک ایک قدم اٹھانا ہوگا۔ اُرمچی میں جو اٹھارہ مہینے میں نے گھر کی قید میں کاٹے ہیں، مجھے دن بھر اور رات کو بھی اشتراکیت ہی کے سبق پڑھائے جاتے تھے۔ میرے معاملے میں فرق صرف اتنا تھا کہ مجھے کسی قسم کی جسمانی اذیت نہیں دی جاتی تھی۔ آمادہ کرنے کے لیے شنگ کو جارحانہ طریقہ پسند نہیں تھا۔ یہ وہی ڈھنگ تھا جو بعد میں کوریا میں گرفتار ہونے والے فوجیوں کے ساتھ برتا گیا، یعنی لکچر دیے جاتے، ان سے مضامین لکھوائے جاتے، اشتراکی پالیسی کے طول طویل فقرے زبانی یاد کرائے جاتے۔ اشتراکی نظریہ اور عمل پر سوالات کی مسلسل بوچھار کی جاتی۔ پچھلی فروگزاشتوں کے جبری “اعترافات” کرائے جاتے۔ اس طرح کی باتیں گھنٹوں، دنوں، ہفتوں اٹھارہ مہینے تک جاری رہیں۔ عام قازقوں کی طرح علی بیگ کا حافظہ نہایت عمدہ تھا اور اس کا چہرہ جذبات سے عاری بالکل سپاٹ رہتا تھا۔ علی بیگ نے اپنے سکھانے پڑھانے والوں کو بالآخر یقین دلا دیا کہ ان کی کل تعلیم اس میں رچ گئی ہے۔
اب وہ وقت آ پہنچا جب مشرقی ترکستان سے ہزاروں میل دور بہت کچھ تبدیلیاں دنیا میں ہو رہی تھیں۔ ان سے شنگ پریشان رہنے لگا تھا۔ اکتوبر ٤١ء کا زمانہ تھا اور یورپ میں سوویت فوجیں فتح مند جرمنوں کے آگے بھاگی چلی جا رہی تھیں، ہزاروں لاکھوں روسی حیران و پریشان ہو کر جرمنوں کی اطاعت قبول کرتے چلے جا رہے تھے۔ اور متوقع تھے کہ ہٹلر انھیں اشتراکی وحشت سے چھٹکارا دلائے گا۔ شنگ نے دیکھا کہ ہٹلر کی فوجیں روز بروز ایشیا کی طرف بڑھتی چلی آ رہی ہیں اور پورا سوویت نظام ڈھا جا رہا ہے۔
ان حالات کو دیکھ کر شنگ نے بھی رُخ بدلنے میں دیر نہیں لگائی۔ اب اس نے ایک نئی پالیسی اختیار کی۔ مقامی قوموں کے لیے بھی اور قومیت پسند چین کے لیے بھی۔ سب سے پہلا کام اس نے یہ کیا کہ علی بیگ کو بلا بھیجا، وہ اس طلبی پر یہ سوچ کر روانہ ہوا کہ اب دوبارہ اپنے وطن زندہ واپس آنا نصیب نہ ہوگا، کیونکہ اسے یاد تھا کہ جب باعی ملا اور جی جن کو بڑے سرپرستانہ انداز میں شنگ نے بلایا تھا تو ان کا کیا حشر ہوا۔ ان کے بعد یونس حجی پر کیا گزری، یہ بھی اسے یاد تھا۔ لیکن بے اطلاع گدی میں گولی مار دیے جانے کی بجائے اس نے دیکھا کہ شنگ اسے منگ باشی کا عہدہ پیش کر رہا ہے جو مقامی گورنر کے برابر ہوتا ہے، اور وہ بھی صوبۂ مناس کے لیے جو اس کا جنم بھوم تھا۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آتا تھا۔ ادھر یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں یہ کوئی جال نہ ہو، پھر بھی اس نے ہمت کر کے پوچھ لیا کہ “میرے فرائض کیا ہوں گے؟” شنگ نے کہا: “تمھیں پوری آزادی ہوگی کہ جس طرح چاہو مقامی باشندوں کی شکایتیں رفع کرو اور حکومت سے انھیں بر سر پیکار نہ ہونے دو”۔ علی بیگ جانتا تھا کہ یہ ایک ناممکن کام ہے۔ لیکن زندہ رہنا بہرحال گھر میں مقید رہنے اور اُرمچی میں اشتراکیت کو اپنے اندر سما لینے سے بہتر تھا۔ پھر اُسے اس کا موقع بھی مل رہا تھا کہ شنگ کی مخالفت کی تنظیم کرے، اس لیے اس نے اس پیشکش کو قبول کر لیا۔
قوم پرست چینیوں کی سربراہی سے شنگ مسلسل سات سال سے سرتابی کرتا چلا آ رہا تھا۔ ان سے مصالحت کرنے میں بھی شنگ اب کامیاب ہو گیا اور جب اس صوبہ کو دوبارہ چین میں شامل کر دینے پر شنگ نے خوشیاں منانے کا اعلان کیا تو مادام چیانگ کائی شیک خود بہ نفس نفیس اس میں شریک ہونے کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز اُرمچی پہنچیں۔ واقعہ یہ ہے کہ صوبہ سنکیانگ میں اس وقت اشتراکیت پوری طرح پسپا ہو رہی تھی۔ سوویت اثرات بھی دور ہوتے جا رہے تھے۔ مگر کچھ زیادہ دور بھی نہیں۔
شنگ کی اس بازآمد کو قبول کرنے میں مقامی آبادی کومنٹینگ سے پیچھے ہی رہی۔ ایک دن علی بیگ نے بعجلت تمام حمزہ کو بلا بھیجا۔ اس وقت علی بیگ مناس میں مقیم تھا۔ جب حمزہ وہاں پہنچ گیا تو اس نے گلے ملنے اور روایتی آداب سے فارغ ہونے کے بعد احتیاط سے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں۔ درست اور مناسب یہی تھا کہ حمزہ خاموش رہے اور پہلے اپنے سے بڑوں کو بولنے دے۔
علی بیگ نے حمزہ سے کہا: “شنگ کا بھائی مارا گیا۔ کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کی بیوی کا بھی”۔
حمزہ نے کہا: “یہ رضائے خداوندی ہے، جل جلالہ۔ مگر شنگ خود کیسے بچ گیا۔ اس کے مظالم تو اپنے بھائی اور بھاوج سے کہیں زیادہ ہیں”۔
علی بیگ بولا: “اس میں کیا شک ہے۔ شاید وہ اپنی حفاظت زیادہ کر رہا ہوگا”۔
حمزہ نے صمیم قلب سے کہا: “خدا کرے کہ اس کا روز جزا بھی جلد آ جائے۔ وہ تو لاکھوں انسانوں کا قاتل ہے۔ ایسوں پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام سدا جاری نہیں رہتے۔”
خود چینی اشتراکی لیڈر ماؤ زی تنگ کا بھائی اس وقت شنگ کی ماتحتی میں ایک افسر تھا اور ١٩٤٢ء میں اس کی موت بھی اسی طرح واقع ہوئی۔ شنگ اور ایک سال تک صوبہ دار رہا۔ اس کے بعد اسے چُنگ کِنگ واپس بلا لیا گیا تاکہ مرکزی حکومت میں وزیر زراعت بن جائے۔ نہ تو علی بیگ ہمیں بتا سکا نہ حمزہ کہ وہ کب تک اس عہدے پر مامور رہا۔ ان کا بیان یہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد وہ “غائب” ہو گیا۔ یہ چونکہ شنگ کی کہانی نہیں ہے، اس لیے اس قصے کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔
دو سال کے عرصے میں جب علی بیگ شنگ کے متعین کیے ہوئے مناس کے منگ باشی کی حیثیت سے کام کرتا رہا، وہ خفیہ طور پر قازق قومی تحریک کو فروغ دینے میں پوری طرح ساعی رہا اور قومیت سے قطع نظر ترکوں، منگولوں وغیرہ سے بھی دوستی کرتا رہا کیونکہ وہ بھی مخالفین میں سے تھے۔ اس وقت علی بیگ اور ان سب کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ سیاسی اتحادِ باہمی کے ذریعہ مشرقی ترکستان کو آزادی دلوائی جائے۔ اگر کچھ چینی ہم خیال مل جائیں تو انھیں بھی اس تحریک میں شامل کر لیا جائے۔ اس کے برعکس الطائی میں عثمان بطور ہتھیاروں سے تیزی کے ساتھ راہ آزادی اپنے لیے کھول رہا تھا۔ اُسے اس کی مطلق پروا نہیں تھی کہ جن چینیوں سے وہ لڑ رہا ہے، وہ اشتراکی ہیں یا قومیت پسند۔ بس ان کا چینی ہونا ہی کافی تھا۔ تاہم متوازی راہیں نہ ہونے کے باوجود بھی عثمان بطور اور علی بیگ عموماً حمزہ کے ذریعہ مسلسل ایک دوسرے سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔
اور پس منظر میں ہٹلر کی تاخت کے باوجود روسیوں کو اتنا وقت اب بھی مل جاتا تھا کہ قازقوں، ترکوں اور منگولوں کو چینیوں کے خلاف اُبھارتے رہیں اور چینیوں کو مقامی باشندوں کے خلاف اُکساتے رہیں۔ لیکن دونوں سمتوں میں ان کے اثرات زائل ہوتے چلے جا رہے تھے اور جب اسٹالن گراڈ سے جنگ کا رخ پلٹا اور ایشیائی روسی حکومت سے جنگ کا چڑھا ہوا طوفان اُترنے لگا، اس کے بعد تک اشتراکی جوڑ توڑ ناکام ہی ہوتا رہا۔ ١٩٤٣ء میں ماسکو کے احکام پر سامراجی اثرات کو مٹانے کے لیے جو لیگ شنگ نے قائم کی تھی وہ ختم کر دی گئی اور تاریخ میں پہلی بار برطانوی اور امریکی قونصل خانے چینی حکومت کی درخواست پر اُرمچی میں گھل گئے۔
بہت سے قازقوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ روسی اقتدار کے زوال پر انھیں کیا کرنا چاہیے۔ چینیوں کے خلاف اپنی قومی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے وہ سالہا سال سے روسی امداد پر تکیہ کیے ہوئے تھے اور مخالفین میں وہ چینی اشتراکی بھی شامل تھے جنھیں شنگ نے ان پر مسلط کر رکھا تھا۔ انھیں روسی ایجنٹوں نے بڑی احتیاط سے سکھایا تھا کہ روسیوں کو اپنا دوست سمجھیں۔ سوویت یونین ہی سے چینی تاجروں کے ذریعہ انھیں جانوروں، اون، اور کھالوں کے بدلے ایسی چیزیں ملتی تھیں جیسے چائے، شکر، تمباکو وغیرہ۔ مقامی قوموں کی طرح قازق بھی روسی لاری چلانے والوں اور سڑکیں بنانے والے انجینیروں سے دوستانہ تعلق رکھتے تھے اور سرخ ڈاڑھی والے چینیوں کے مقابلے میں ان روسی فوجی دستوں کو ترجیح دیتے تھے جو بہت سے شہروں میں چھاؤنیاں بنائے پڑے تھے۔ جب یہ روسی فوجی دستے ١٩٤٣ء میں شہر چھوڑ کر جانے لگے تو اکثر لوگوں کو اندیشہ ہوا کہ اب پھر لال ڈاڑھی والوں کا بھیانک راج شروع ہو جائے گا۔ تین سال اور گزر گئے، تب ان کی سمجھ میں آیا کہ روسی محض ان پر اشتراکیت کا جُوا رکھنے کے لیے آئے تھے اور اشتراکیت اور سُرخ ریشیت دراصل ایک ہی چیز ہے۔
چنانچہ ١٩٤٣ء میں چُنگ کنگ سے شنگ کی جگہ پر ویو چُنگ ہن آیا تو باوجود بہتر سلوک اور اصلاح کے وافر وعدوں کے اکثر قازقوں نے سرد مہری سے اس کا استقبال کیا۔ شنگ کا خطاب “توپان” یا فوجی گورنر تھا۔ ویو چُنگ ہن صرف صوبائی صدر کہلاتا تھا۔ اس نے انگریزی تعلیم حاصل کی تھی اور اسی وجہ سے اُسے اکثر چوسر ویو کہا جاتا تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کیا کہ میں قازقوں، ترکوں، منگولوں، ازبکوں کو مقامی آزادی دینے آیا ہوں۔ وہ اپنے اپنے افسروں کا انتخاب کر لیں۔ حمزہ بھی ان لوگوں میں شریک تھا جنھوں نے اس اعلان کو قابل غور قرار دیا۔ وہ اس سے کچھ ہی پہلے اشتراکیت کے خلاف ایک سخت کتابچہ شائع کر چکا تھا۔ بڑی امیدوں اور جوش و خروش کے ساتھ اس نے فوراً عہدہ کی پیش کش قبول کر لی۔ چونکہ وہ ان کمیاب قازقوں میں سے تھا، جو چینی زبان روانی کے ساتھ بول بھی سکتے تھے اور لکھ بھی سکتے تھے۔ وہ قازقوں اور چینیوں دونوں کے لیے ناگزیر تھا یا اسے ناگزیر ہونا چاہیے تھا۔
مشرقی ترکستان کے باشندوں پر چینی اشتراکیوں نے خصوصاً لال ڈاڑھی والوں نے جو مظالم کیے تھے، ان پر حمزہ کے دل میں غم و غصہ کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ حمزہ نے انھیں نہایت شدت کے ساتھ بُرا بھلا کہا تھا۔ انھوں نے مہمان نوازی کے اَن لکھے قدیم دستور کو اس طرح غارت کیا تھا کہ ابھی جن مہمانوں کو کھلایا پلایا، انھی کو قتل کر ڈالا اور جن میزبانوں کے ہاں خود مہمان ہوئے انھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ حمزہ نے انھیں ملزم ٹھہرایا تھا کہ وہ ٹیکس وصول کرنے کے بہانے لوٹ رہے تھے۔ مسافروں کو ذرا ذرا سے فائدے کے لیے لوٹ لیتے اور قتل کر دیتے۔ روپیہ وصول کرنے یا معلومات حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو ناقابل بیان اذیتیں دیتے، بے گناہوں کے خلاف غلط الزامات قبول کرتے اور جھوٹے گواہ بناتے۔ حمزہ نے آخر میں اپنے ہم وطنوں سے زور دے کر کہا تھا کہ دنیا کے پردے پر سے چینی اشتراکیوں کا نام و نشان تک مٹا دیں۔
حمزہ کا کتابچہ دراصل مروجہ اشتراکیت کے خلاف ایک پُر زور دعوتِ عمل تھی۔ اسے نظریۂ اشتراکیت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اس کا اندازہ اس نے اس کے نتائج سے لگایا تھا اور اس نے اب بھی اس بات کو نہیں سمجھا تھا کہ صوبہ دار شنگ کی نو سال کی دہشت ناک حکومت کے باوجود اشتراکیت کے ثمر پختہ ہونے سے ابھی بہت دُور تھے۔
کچھ قازق ایسے تھے جو حمزہ کے برعکس صدر ویو کے پیچھے اس امید پر ہو لیے کہ مشرقی ترکستان کی آزادی درجہ بدرجہ امن کے ساتھ حاصل کریں۔ نتیجے کے طور پر ہماری کہانی میں نئے نئے نام آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے چونکہ بیشتر نام ایسے ہیں جنھیں وسطی ایشیا کے باہر کوئی نہیں جانتا، اس لیے ہم صرف ان ناموں کو لیں گے جو ہمارے لیے ناگزیر ہیں۔ پھر بھی یہ نئے آنے والے اتنے غیر اہم نہیں ہیں، کیونکہ ان کے ہاتھوں میں ایک ایسے ملک کی قسمت تھی جو برطانیہ عظمیٰ، فرانس اور جرمنی سب کے یکجائی رقبے کے برابر ہے۔ اگرچہ اس کے باشندوں کی تعداد صرف اسی لاکھ ہے، لیکن شاید یہ بتائی ہوئی تعداد غلط ہے۔ مشرقی ترکستان کی قسمت کا فیصلہ بالآخر ماسکو اور نان کنگ میں ہوا، لیکن اس فیصلے میں بڑی حد تک مشرقی ترکستان کے باشندوں کا بھی ہاتھ تھا۔
ادھر تو سیاست داں خصوصاً چینی، اُرمچی میں گفت و شنید کر رہے تھے، اُدھر عثمان کی لڑائیاں جاری تھیں۔ لال ڈاڑھی والوں سے اپنے آدمیوں کو بچائے رہنے کے باعث اسے لوگوں نے “بطور” کا خطاب دیا تھا اور اب اس خطاب کو عام طور سے سب نے تسلیم کر لیا تھا۔ یہ محض اسی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ الطائی چینیوں سے پاک ہو چکا تھا اور ٢٢ جون ١٩٤٣ء کو الطائی کے باشندوں نے جن میں منگول بھی شامل تھے اور قازق بھی، عثمان کو اپنا خاں یا شہزادہ بنا لیا تھا۔ اس طرح اسے چنگیز خان اعظم کا جائز جانشین قرار دیا تھا۔ یوں بوکو بطور کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہو گئی کہ اللہ نے اسے اپنی قوم کو آزادی دلانے کے لیے منتخب فرمایا ہے۔
عثمان بطور کو خاں کا خطاب بل غُن میں ایک خاص جلسے میں دیا گیا۔ الطائی کو سوویت روس، منگولیا اور اُرمچی سے جو تین سڑکیں آتی ہیں، ان تینوں کے یکجا ہونے والے مقام پر بل غُن واقع ہے۔ اس میں سے ہو کر ایک دریا بہتا ہے جو قریب کی ایک جھیل میں گرتا ہے۔ اس جھیل کے کناروں پر خانہ بدوشوں کے مویشیوں کے لیے نہایت عمدہ چراگاہیں ہیں۔ یہ مقام یقیناً اس لیے انتخاب کیا گیا تھا کہ جلسے میں شرکت کےلیے مندوبین نہ صرف مشرقی ترکستان سے آئے تھے بلکہ سوویت روس اور منگولیا سے بھی۔
منگولی مندوب مارشل چوئی بلسان تھا جو بیرونی منگولیا کی اشتراکی جمہوریت کا صدر تھا۔ سوویت روس کے دو نمائندے قازقستان کے دو قازق سردار تھے۔ ان تینوں کے ساتھ شاندار محافظ دستے تھے جن سے سوویت حکومت کی قوت اور کشادہ دلی کا مظاہرہ اور عثمان بطور کو مرعوب کرنا مقصور تھا۔
چوئی بلسان کا بیان ہم سے یوں کیا گیا کہ وہ ایک گول چہرے کا آدمی تھا بلکہ گول مٹول آدمی تھا۔ میانہ قد، ڈاڑھی مونچھ صاف، اس موقع پر اس نے مارشل کی فوجی وردی نہیں پہن رکھی تھی بلکہ ایک لمبا نارنجی رنگ کا چُغہ جو گردن سے ٹخنوں تک چلا گیا تھا۔ کمر میں ایک پٹکا بندھا ہوا تھا۔ منگولی سرداروں کے رواج کے مطابق اس نے اپنے سر پر اونچی باڑ کی ہومبرگ ٹوپی پہن رکھی تھی جو انگلستان کی بنی ہوئی تھی اور وسطی ایشیا میں کلکتہ سے آئی تھی۔ ہندوستانی سوداگر یہ ٹوپیاں اونٹوں پر لاد کر نیپال میں سے ہو کر لاسہ لے جاتے اور وہاں سے تبت اور سنکیانگ کی سرحد پر۔ یہاں مقامی سوداگر انھیں خرید لیتے۔ اس قسم کا لین دین پہلے خُتن اور دوسرے مشرقی ترکستان کے شہروں میں ہوتا تھا۔ لیکن ١٩٣٩ء میں اشتراکیوں نے اس سرحد کو بند کر دیا۔ وہ سوداگر جو ہندوستانیوں سے یہ ٹوپیاں خریدتے انھیں پھر اونٹوں پر لاد کر منگولیا لے جاتے۔
قازق نمائندوں کے نام قصین اور سلطان تھے۔ ان کے لباس عثمان بطور کے لباس سے ملتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ارغوانی بھورے رنگ کی جو مخملیں تُمک اُن کے سروں پر تھیں، ان میں پروں کے طرّے لگے ہوئے نہیں تھے۔ کیونکہ تعیمان قبیلے سے ان کا تعلق تھا اور ان کے ہاں اس کا رواج نہیں تھا۔ تُمک کے چوڑے گِردے پر لومڑی کی ملائم کھال کی گوٹ لگی ہوئی تھی۔ کانوں کو ڈھانکنے والے پاکھے ان تینوں مندوبوں نے نیچے اتار کر ٹھوڑیوں کے نیچے باندھ رکھے تھے۔ ان کے پھولدار ریشم کے چغے بھی ایک جیسے تھے۔ ان کے استر سمور کے تھے اور ان پر نفیس سوزن کاری کی ہوئی تھی۔ تینوں قازقوں کی ڈاب میں لمبی کٹاریں تھیں۔ یہ بڑے قیمتی ہتھیار تھے جو نسلاً بعد نسل ان تک پہنچے تھے، ان کا فولاد بہت عمدہ تھا اور ان پر سونے چاندی کا کام کیا ہوا تھا۔ ان کی وضع دمشق کی تلواروں جیسی تھی، مگر یہ تلواریں ان قازق آہنگروں کی کاریگری ہی کے بے مثل نمونے تھے جو پڑاؤ پڑاؤ پھر کر اپنے بھدے اوزاروں ہی سے اتنا نفیس کام کر جاتے تھے۔ قازق سردار گھٹنوں تک اونچے چمڑے کے جوتے پہنے ہوئے تھے اور ان کے اوپر ڈھیلے ڈھالے کفش پوش تھے۔ ان کی وجہ سے ان کے چلنے میں عجب بھدا پن ان کی چال میں آجاتا تھا۔ لیکن جب وہ گھوڑوں پر سوار پچاس ساٹھ محافظوں کو جلو میں لیے، جو اپنے سرداروں سے ملتے جلتے شاندار لباس پہنے اور ہتھیاروں سے لیس تھے، دندناتے ہوئے آئے تو دور دور تک کہیں بھی بھدا پن نہیں تھا۔
چاروں سرداروں کے مابین جو رسمی ادب آداب برتے گئے اور پھر ان کے خدم و حشم میں جو تکلفات بروئے کار آئے ان کی تفصیل بخوف طوالت نظر انداز کی جاتی ہے۔ ان میں مزید پیچیدگی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ چوئی بلسان مسلمان نہیں تھا وہ بدھ مذہب کا پیرو تھا، اس لیے تینوں قازق سردار اس کا خیر مقدم اس انداز سے نہیں کر سکتے تھے جیسے کہ آپس میں ایک دوسرے کا کہ السلام علیکم کہا اور جواب ملا وعلیکم السلام۔ اس کے بعد جو سولہ روایتی آداب تھے وہ صرف قازقوں ہی سے مخصوص تھے۔ لہذا انھیں چوئی بلسان سے خوش اخلاقی اور شائستگی سے کچھ ایسی باتیں کہنی پڑیں مثلاً “خوش آمدید۔ بخیر آمدید۔ مزاج شریف؟” جب وہ ان رسمیات سے فارغ ہو لیے تو عثمان بطور نے چوئی بلسان سے اس وسیع خیمے میں داخل ہونے کو کہا جس میں کانفرنس ہونے والی تھی اور اس کے بعد دعوت۔
اس نے نہایت شائستگی سے کہا: “ہمارے مہمان خصوصی کو پہلے اندر تشریف لے جانا چاہیے۔”
چوئی بلسان نے اصرار کیا: “نہیں نہیں، یہ دونوں حضرات مجھ سے زیادہ لائق تعظیم ہیں۔ میں سبقت نہیں کر سکتا۔”
قصین جو دونوں قازق مہمانوں میں معمر تھا، بولا: “جی نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں پہلے داخل ہوں۔” اس کے ساتھی سلطان نے بھی فوراً یہی الفاظ دہرائے۔
کچھ دیر یہی تکلف جاری رہا۔ آخر چوئی بلسان نے دونوں قازقوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مسکراتے ہوئے خیمے کے اندر قدم رکھا۔ خیمے کا دروازہ کافی چوڑا تھا، ورنہ ان تینوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گزرنے میں اِدھر اُدھر چھو جانے کا اندیشہ تھا اور یہ ایک بُرا شگون ہوتا۔ شاید چھو بھی گیا ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
جب چاروں سردار اندر صلاح و مشورے کر رہے تھے تو باہر مسلّح آدمی پہرہ دے رہے تھے۔ لیکن بات چیت شروع ہونے سے پہلے عثمان بطور کے ملازموں نے روایتی چائے اور نمکین نان سے تواضع کی۔ یہ چائے ایک عجیب و غریب آمیزہ تھی چائے، دودھ، نمک اور مکھن کا۔ سب نے ایک ایک شکر کی ڈلی کلّے میں رکھی اور چسکیاں لینی شروع کیں اور چائے میٹھی ہو کر گلے میں اُترتی رہی۔ اس سے فارغ ہو کر سب نے چوڑے مُنہ والے روسی سگریٹوں کو جلانے سے پہلے ان کے سروں کو مروڑی دے دی تاکہ خشک تمباکو باہر نہ نکلنے پائے۔
بل غُن میں عثمان بطور کے نمدے دار خیمے میں کیا کیا باتیں طے ہوئیں، اس کے متعلق کوئی سرکاری اطلاع نامہ جاری نہیں کیا گیا، بلکہ دراصل یہ پہلا موقع ہے کہ ہم وہاں کی کارروائی شائع کر رہے ہیں۔ چوئی بلسان نے جو عقیدت کے لحاظ سے نہیں بلکہ پیشے کے اعتبار سے اشتراکی تھا، سب سے پہلے اپنے میزبان کو گرم جوشی سے مبارکباد دی کہ اس نے الطائی قازقوں اور منگولوں کو چینیوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس نے بڑی عمدگی سے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ جن چینیوں کو عثمان بطور نے نکال باہر کیا وہ اشتراکی صوبہ دار شنگ کے ملازم تھے اور شنگ خود سوویت حکومت کا پٹھو تھا۔ چوئی بلسان نے اس کے بعد تجویز پیش کی کہ عثمان کو اس آزادی پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے جو اس نے حاصل کی ہے۔ بلکہ اُسے یوں پکّا کر لینا چاہیے کہ خود مختار جمہوریت الطائی قائم کر کے اس کا پہلا صدر خود بن جانا چاہیے۔ اس نے بڑی احتیاط سے اس بات کا بھی اشارہ کیا کہ شاید سوویت حکومت اس پر بھی رضامند ہو جائے کہ اس نئی ریاست میں سائبیریا کا صوبہ الطائی بھی شریک کر لیا جائے۔ یوں روسی حکومت عثمان کو تمام سامان حرب بھی دے گی تاکہ چینی قوم پرستوں کی تاخت سے یہ نئی جمہوریت محفوظ ہو جائے۔ اس منگول نے دبی زبان سے یہ بھی کہا کہ جب الطائی خود مختار ریاست بن جائے گا تو اس کے وسیع ذرائع صرف الطائی باشندوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جا سکیں گے جن میں قازقوں اور منگولوں کی اکثریت ہے۔ اس نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ چونکہ یہ نئی جمہوریت چاروں طرف سے گھری ہوئی ہوگی، اس لیے اس کی ساری تجارت سوویت حکومت کے رحم و کرم پر موقوف ہوگی۔ کیونکہ قدرتی طور پر چین الطائی کے حق خود مختاری کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا اور اپنی پوری کوشش کرے گا کہ کسی طرح بیرونی دنیا سے اس کی تجارت کا گلا گھونٹ دے۔
عثمان بطور نے اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ کارروائی کی اس نوبت پر اس نے کوئی حتمی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن یہ بات صاف ظاہر تھی کہ جو تجویز چوئی بلسان نے پیش کی تھی اس میں عثمان بطور کشش محسوس کر رہا تھا۔ یہ حقیقت تھی کہ اس نے چینیوں کو نکال باہر کیا تھا۔ یہ محسوس کر کے اُسے خوشی ہوتی ہوگی کہ چنگیز خاں کا وطن اب اس کا اپنا تھا۔ اس کے ساتھ جو جی چاہے سو کرے۔ خطاب چاہے صدر ہو، خاں ہو یا شہنشاہ، اس سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ کیا چنگیز خاں نے آدھی جانی پہچانی دنیا کو الطائی ممالک بن جانے کے بعد فتح نہیں کیا تھا۔ پہلے کی طرح اب بھی وہی الطائی تھا جو ایک محور تھا، جس کے گرد دنیا گھوم رہی تھی۔ سپاٹ یا لٹّو کی طرح گول، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
اگر چنگیز خاں ایسے کارنامے کر گیا تو عثمان کیوں نہیں کر سکتا؟ پھر کیا بوکو بطور نے اس کی پیشین گوئی نہیں کی تھی۔ اپنی زندگی کے اس بلند مقام پر عثمان بطور بادشاہوں جیسے چہرے مہرے کا انسان دکھائی دیتا تھا۔ تمرّد اور آسودہ حالی کے آثار اس کے چہرے پر البتہ نہیں تھے۔ قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا۔اسی نسبت سے پھیلاؤ بھی تھا۔ کوتاہ گردن، گھٹا ہوا رنگ، نیم وا آنکھوں کے درمیان گہری شکنیں، اس کا کردار اس کے چہرے سے عیاں، عزم و عمل کا پتلا، کسی کی باتوں میں نہ آنے والا، مشتبہ، خود سر، بے رحم اور نڈر، ایسا شخص جس پر دوست اور دشمن دونوں اعتماد کر سکیں۔ ایسا انسان جو کسی خاص کام کو انجام دینے آیا ہو۔ جس کا کوئی ذاتی عزم بلند نہ ہو سوائے اس کے کہ اپنی زندگی کے مقصد کو سخت کوشی سے پورا کرنے پر تُلا ہوا ہو۔
ایسا آدمی فطرتاً ہتھیاروں کی لڑائی لڑنے سے زیادہ الفاظ کی لڑائی لڑنے میں زیادہ محتاط ہوتا ہے۔ لہذا جب چوئی بلسان اس کے سامنے مستقبل کی ایک درخشاں مثال پیش کر چکا، جن میں اسٹالن کی دریا دلی پر اعتماد کرنا ضروری تھا تو عثمان بطور نے کوئی حتمی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد چوئی بلسان نے ان ضروریاتِ زندگی کی بڑی بڑی مقداروں کا تذکرہ کیا جنھیں سرحد کے اس پار سوویت حکومت نے کھالوں، اون، مویشیوں اور الطائی کی معدنی دولت سے تبادلہ کرنے کے لیے روک رکھا ہے۔ یہ تبادلہ اس وقت شروع ہو جائے گا جب اس بات کا یقین ہو جائے کہ اس کا فائدہ صرف الطائی کے باشندوں کو پہنچے گا، چینی سامراجیوں کو نہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ چینیوں کے اثرات زائل ہو جانے کے بعد الطائی کے قازق اور منگول اپنے حالات کو خود ہی بے روک ٹوک سنوار سکیں گے۔ یہ دلیل بڑی چالاکی کی تھی، دونوں خانہ بدوش قوموں میں مویشی چرانے کے حقوق پر آئے دن جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔
عثمان شاید یہ جھلکا دیتا کہ قصین اور سلطان چونکہ سوویت قازقستان کے نمائندے ہیں، اس لیے جو ضروریات زندگی ان کے ملک میں تبادلے کے لیے موجود تھیں، ان پر گفتگو کرنے کے حقدار وہ دونوں ہیں مگر وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے اور جب چوئی بلسان نے سوویت روس کے بارے میں اپنی باتوں کی تائید ان سے چاہی تو انھوں نے رضامندی سے اپنے سر ہلا دیے۔ لیکن اس رات کو جب دعوت ختم ہوئی، قصین نے اپنے میزبان سے مہمانوں کے رخصت ہونے کے وقت چپکے سے کہا کہ جب چوئی بلسان یہاں سے چلا جائے گا تو میں تم سے اکیلے میں بات کروں گا۔
نہ معلوم اس کی مذہبی وجہ تھی یا کیا کہ جن خیموں میں منگول ٹھہرائے گئے تھے، وہ مسلمان مہمانوں کے خیمے سے نسبتاً زیادہ فاصلے پر تھے۔ اس لیے رات کی تاریکی میں قصین کا خفیہ طور پر عثمان کے ہاں جانا کوئی دشوار مرحلہ نہیں تھا۔ جب یہ دونوں ملے تو قصین کچھ گھبرایا ہوا تھا۔ چوئی بلسان کی طرح سوویت علاقے سے باہر نکل کر عثمان بطور سے سرکاری ملاقات کرنے سے پہلے اسے بھی سوویت حکومت نے کچھ ہدایات دی تھیں، مگر وہ قازق تھا اور صرف یہی نہیں، وہ ایک مشہور قازق سورما ابلائی خاں کا پوتا تھا جو ابتدائی انیسویں صدی میں روسیوں سے لڑا تھا اور شکست کھانے سے پہلے سالہا سال تک ان کی مزاحمت کرتا رہا تھا۔ چنانچہ قصین خفیہ طور پر طے کر چکا تھا کہ چوئی بلسان کی میٹھی میٹھی باتوں کی تہ میں جو کچھ ہے اس سے عثمان بطور کو آگاہ کر دے۔
ان دونوں نے بیٹھ کر چپکے چپکے باتیں شروع کیں تاکہ موٹے نمدے کی دیواروں میں سے ان کی آواز باہر نہ جا سکے۔ قصین نے قازقستان کے ساڑھے تین لاکھ قازقوں سے سوویت کے وعدوں سے پھر جانے کی شرمناک کہانی سُنائی۔ جب سُرخ سفیدوں سے لڑ رہے تھے تو انقلابِ روس کے شروع زمانے میں انھوں نے قازقوں جیسی چھوٹی قوموں کی پشت پناہی کرنے کا ڈھونگ رچایا تھا۔ مگر جوں ہی زاری خطرے پر انھوں نے قابو پا لیا وہ اپنے وعدہ سے پھر گئے اور سوویت مملکت میں جتنے قازق اور ایشیائی قومیں تھیں سب کو روسی بنانے لگے۔ اس کے بعد اس نے بتایا کہ جب ۱۹۲۳ء میں لینن نے نئی اقتصادی پالیسی شروع کی تو قازقوں کی امیدیں پھر اُبھر آئیں۔ کیونکہ اس کی رو سے نہ صرف چھوٹے کسانوں کا تحفظ ہوتا تھا بلکہ ان خانہ بدوشوں کا بھی جو جانور پالنے میں لگے رہتے تھے۔ ایک بار پھر، صرف پانچ سال بعد ہی خانہ بدوشوں کو معلوم ہوا کہ روسیوں نے جھوٹ بولا تھا کیونکہ باوجود سابقہ وعدوں کے وہ ان کے جانور چھین لے گئے اور لوگوں کو مجبور کیا کہ اجتماعی فارموں اور زمین دوز کانوں میں زبردستی کام کریں۔ آزاد انسانوں کی طرح تازہ کھلی ہوا میں گھومتے نہ پھریں۔ یہی وہ وقت بھی تھا، جب سوویت حکومت نے مسلمانوں کو ان کے مذہبی حق سے محروم کرنا شروع کیا۔ وہ اپنے مذہب کو نہ تو سیکھیں اور نہ سکھائیں اور ان کے بچے خدا کو بھول کر خود اپنے والدین کی شکایتیں کریں کہ یہ اپنے باپ دادا کی طرح اب بھی نمازیں پڑھے جاتے ہیں۔ انھوں نے اس کی بھی کوشش کی کہ قازق اپنی زبان بولنی چھوڑ دیں اور اس قدیم طرز زندگی کو ترک کر دیں جسے انھوں نے اپنے پرکھوں سے پایا ہے۔ ان پرکھوں سے جن میں چنگیز خاں بھی شامل ہے۔
قصین نے عثمان کو آخر میں یہ بھی بتایا کہ سوویت حکومت میں جو قازق ہیں، انھوں نے تو کبھی ان ضروری اشیا کو دیکھا نہیں جن کے بارے میں چوئی بلسان نے کہا ہے کہ بڑی مقدار میں الطائی آنے کے لیے رُکی ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ قازقستان کے قازق امیر ہونا کیسا پہلے سے بہت غریب ہو گئے تھے۔ کیونکہ سوویت حکومت نے ان سے ان کے جانور چھین لیے تھے، ان کی روزی چھین لی تھی اور انھیں قلاق یعنی امیر کسان کہنا شروع کر دیا تھا، حالانکہ انھیں کسان بننے کی کوئی خواہش نہیں تھی بلکہ وہ اپنے خانہ بدوشانہ طریقوں پر اپنے گلے اور ریوڑ چرانے والے گدڑیے ہی رہنا چاہتے تھے۔
عثمان بطور اب بھی حسب عادت زیادہ نہ بولا اور جب قصین اپنی باتیں ختم کر چکا تو کچھ دیر خاموشی رہی پھر عثمان نے کہا:
“میں نے ایک شریف خاندان کے نو عمر رُکن کی باتیں آج سُنی ہیں۔ لیکن اگر روسیوں کو اس کا علم ہو گیا کہ تم کس کی اولاد میں ہو تو تمھارے واپس جانے پر تمھارے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ اگر تم یہاں رہنا چاہو تو اللہ کا دیا ہم دونوں کے لیے بہت ہے۔”
قصین نے جواب دیا کہ “مرنا جینا تو اللہ کے ہاتھ ہے۔ کیا میں اپنے آدمیوں کا اسی طرح ملازم نہیں ہوں جس طرح میں ان کا سردار ہوں۔ مجھے یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ خود تو محفوظ جگہ میں رہ جاؤں اور انھیں زمانۂ بد پر چھوڑ دوں؟ اللہ ان کو اجر دیتا ہے جن کے خیالات نیک ہوتے ہیں۔ اللہ تمھیں اجر نیک دے۔”
تھوڑی دیر بعد قصین چلنے کے لیے اٹھا اور عثمان نے اپنے ملاقاتی کو رخصت کیا۔ وہ خوش خوش اپنے خیمے کو سدھارا۔
اگلے دن چوئی بلسان نے عثمان بطور سے اصرار کیا کہ اس کی تجویزوں کو منظور کر لے، لیکن عثمان انھیں قبول کرنے پر رضا مند نہیں ہوا اور بات چیت بے نتیجہ ختم ہو گئی۔
مذاکرات کے ختم ہونے کے بعد کھیل تماشے ہوئے۔ دونوں قوموں کے پہلوانوں نے کشتی کے لیے ہاتھ ملائے۔ کشتی لڑنے والوں نے اوپر کے دھڑ کے کپڑے اتار دیے، کمر میں ایک ایک “بلباغ” یا پٹکا باندھا۔ ایک پہلوان دوسرے کے اس کمر پٹکے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کھینچتا یا دھکیلتا اور کوشش کرتا کہ اسے گرا دے۔ یا وہ آمنے سامنے کھڑے ہو کر اتنے جھکتے کہ کمر سے دھڑ کا نوے درجہ کا زاویہ بن جاتا اور ایک دوسرے کے کندھوں کو جکڑ لیتے۔ جیتنے والا وہ قرار دیا جاتا جو اپنے حریف سے بلباغ یا کندھے چھڑا لیتا۔ چت کرنے یا دونوں کھوے زمین سے لگانے کی کوئی شرط نہیں تھی۔ تماشائی ادھر اُدھر بھاگے پھرتے یا جوش میں اکھاڑے کے چکر کاٹے جاتے۔ چیخ چیخ کر اپنا مشورہ دیتے، خبردار کرتے، حوصلے بڑھاتے اور پہلوانوں کو بُرا بھلا تک کہتے۔ یہی تماشائی کشتی کی ہار جیت کا فیصلہ کرتے۔ لیکن کشتی لڑنے کی طرح کشتی دیکھنا بھی خاصہ محنت کا کام تھا۔ مگر کشتیوں کے فیصلے عموماً ٹھیک ہوتے تھے کیونکہ قاعدے سیدھے سادے تھے۔
بعض دفعہ کشتی گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑی جاتی لیکن اس کے قاعدے بھی وہی ہوتے۔ جو گرفت چھوڑنے پر پہلے مجبور ہو جاتا ہار جاتا۔ ایسے مقابلوں میں عمدہ گھوڑے کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ سوار کے ہاتھ زیادہ ضروری کام میں مصروف ہونے کے باعث لگام پر نہیں ہوتے۔ کیونکہ قازقوں کے گھوڑے اور منگولوں کے بھی، اپنے سوار کے اشاروں کو سمجھنے میں غیر معمولی درک رکھتے ہیں۔ اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ سوار ایک طرف کو پھسلا جا رہا ہے تو وہ فوراً کسی طرح اسے سنبھال لیتے ہیں۔
گُھڑ دوڑ نے لوگوں میں کشتیوں سے بھی زیادہ جوش و خروش پیدا کیا۔ گُھڑ دوڑ میں کوئی تیس چالیس سوار شریک ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے گھوڑے کو بہت کم کھلایا تھا یا بالکل ہی بھوکا رکھا تھا۔ دوڑ کا آغاز ایک گھاس بھری وادی سے ہوا جس میں روڑے اور پتھر نہیں تھے۔ دوڑ کی راہ وادی کی چڑھائی پر سے تھی جو کہیں کہیں ایک دم سے اونچی ہو جاتی تھی۔ پورا فاصلہ کوئی پانچ میل کا تھا۔ تماشائی خود بھی گھوڑوں پر سوار مقام آغاز پر جمع تھے۔ دوڑ شروع ہوتے ہی مقابلہ کرنے والوں کے تعاقب میں یہ بھی سرپٹ روانہ ہو گئے اور ایسا بھی ہوا کہ بعض تماشائی مقابلہ کرنے والوں سے پہلے اختتام پر پہنچ گئے۔ انعام ایک چاندی کا “یمبو” یا کفش تھا، یہ ایک سکہ تھا جس کی مانگ دوشیزاؤں میں بہت تھی۔ اسے وہ ان شالوں میں ٹانک لیتی تھیں جنھیں شادی ہو جانے کے بعد وہ سر اور کندھوں پر ڈال لیا کرتیں۔
بہادری کے کھیلوں میں ایک ہلکا کھیل انھوں نے یہ رکھا کہ ایک لڑکی اور ایک لڑکے کو چھانٹ کر ایک ایک گھوڑے پر بٹھا دیا۔ لڑکی کے ہاتھ میں ایک ہنٹر دے دیا اور لڑکے کو اس سے چند گز آگے رکھا۔ عثمان کے آواز دیتے ہی لڑکا سرپٹ روانہ ہو گیا اور لڑکی اس کے پیچھے۔ ایسے مقابلوں میں لڑکی کا گھوڑا لڑکے کے گھوڑے سے ذرا تیز ہوتا ہے، لہذا لڑکی کے چابک سے وہی لڑکا بچ سکتا ہے جو اعلیٰ درجہ کی شہسواری جانتا ہو اور چالاکیاں کر سکتا ہو۔ وہ بار بار اپنے گھوڑے کو ایک دم سے پھیر دیتا ہے۔ لڑکی کو باور کراتا ہے کہ میں اس سمت میں جا رہا ہوں اور پھر یکایک دوسری سمت میں اُڑا چلا جاتا ہے۔ یا ایک دم سے اپنے گھوڑے کو روک لیتا ہے اور زین پر سے پھسل کر گھوڑے کے پیٹ کے نیچے آ جاتا ہے۔ اس توقع پر کہ جب وہ برابر سے گھوڑا اڑا کر لے جائے گی تو اس کا چابک مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا۔
ان مقابلوں میں انعامات نہیں دیے جاتے۔ لڑکی جانتی ہے کہ اگر میں نے اپنے چابک میں لڑکے کے کندھوں کو لپیٹ لیا تو مجھے ایسی کامیابی حاصل ہو جائے گی جو شاذ ہی کسی کو حاصل ہوتی ہے۔ اور لڑکا جانتا ہے کہ اگر میں اس کی زد سے نہ بچ سکا تو تماشائی مجھ پر آوازے کسیں گے اور میرے ساتھی اس کا طعنہ مجھے مرتے دم تک دیتے رہیں گے۔ ورنہ مجھے ہمت اور شجاعت کا کوئی ایسا غیر معمولی کارنامہ کرنا پڑے گا، جس سے یہ کلنک کا ٹیکہ دور ہو سکے۔
ایک اور دلچسپ چیز رقص تھا۔ اس کی کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ چاہے مسلمان ہو چاہے غیر مسلم، جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے نزدیک عورت کا سب کے سامنے ناچنا بڑی بد اخلاقی میں داخل تھا۔ روایتی قازق رقص صرف مردوں ہی کا حصہ ہے۔ عموماً وہ کوئی کہانی سُناتے ہیں، مثلاً کسی جانور کی پیدائش اور اس کی نشو و نما کی کہانی۔ لیکن اس موقع کے لیے انھوں نے خاص طور پر ہرن کا ناچ تیار کیا تھا۔ جس رقاص کو یہ ناچ پیش کرنا تھا، اُسے سارے وقت سر کے بل ناچنا تھا اور اپنا سارا جھونک ہاتھوں ہی سے سنبھالنا تھا۔ موسیقی کی لے پر وہ اپنے جسم کو جھکاتا اور توڑتا موڑتا ہے اور لے کے ساتھ ساتھ اپنی گردن کے پٹھوں کو اور کندھوں کو سکیڑ کر زمین سے سر کو اونچا کرتا ہے۔ ترکی میں دیویلی کے مقام پر ایک قازق مہاجر نے ہرن کا ناچ ہمیں دکھایا تھا۔ کارا ملا نے ڈمبری پر اس کی سنگت کی تھی۔ یہ ناچنے والا ایک بڈھا تھا جس کی گردن کے پٹھوں کی طاقت زائل ہو چکی تھی، اس لیے اس بے چارے کا سر زمین سے بلند نہیں ہو سکا۔ لیکن شب دیز کا ناچ جو اس ناچ سے مشابہ ہے وہ بخوبی ناچ سکتا تھا۔ کھیل تماشوں کے بعد پھر دعوتیں ہوئیں اور اگلے دن چوئی بلسان، قصین اور سلطان وہاں سے رخصت ہوئے۔ قصین اور سلطان قازقستان میں اپنے گھر واپس پہنچے ہی تھے کہ بیریا کی خفیہ پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا۔ چند مہینے بعد قصین کو قتل کر دیا گیا۔ لیکن سلطان کو چھوڑ دیا گیا۔