گھر والوں کی باتیں سن سن کر تنگ آکر اس نے اپنی ہار مان لی تھی ۔۔۔
واپس لوٹ آئی تھی وہ اپنے شہر ۔۔۔
درخواست کے ذریعے اس نے اپنا ٹرانسفر اسی آفس کی برانچ میں اپنے شہر میں کروایا ۔۔
وہ تو چھوڑنا چاہتی تھی مگر اس آفس کے اونر کو اس جیسے ایماندار کولیگز کی ضرورت تھی جبھی اسکا استعفیٰ قبول کرنے کے بجائے انہوں نے اسکا ٹرانسفر کر دیا ۔۔
رات کی تھکی وہ صبح تک سوتی رہی ۔۔۔جبھی پاس پڑا اسکا موبائل بجنے لگا ۔۔۔
نیند میں ہونے کے باعث اس نے موبائل اٹھا کر اپنے کان سے لگایا ۔۔
ہیلو ۔۔۔۔۔۔
ہیلو ۔۔۔مس امل بات کر رہی ہیں ۔۔؟
ہمم ۔۔۔۔بول رہی ہوں ۔۔۔۔دوسری جانب سے کسی عورت کی آواز سن کر اس نے لیٹے لیٹے ہی جواب دیا ۔۔۔
آج ایک بہت ہی اسپیشل گیسٹ اور اس آفس کے اونر آرہے ہیں آپ کی غیر موجودگی سے وہ خفا بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا دس منٹ میں آپ نے آفس پہنچنا ہے ۔۔۔ہیو آ نائیس ڈے ۔۔شکریہ ۔۔
گیسٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اف میرے خدایا میں کیسے بھول گئی ۔۔۔وہ سر پر ہاتھ مارتے ہوئے چھلانگ لگاتے ہوئے واشروم کی جانب بھاگی ۔۔
پانچ منٹ میں وہ تیار ہو کر نیچے بھاگی ۔۔اسے اجلت میں سیڑھیوں سے نیچے آتے دیکھ کر امی حیران ہوئیں ۔۔
یا اللہ خیر ۔۔۔!! آرام سے ۔۔۔۔۔
امی کا یہ کہنا تھا کہ ادھر امل میڈم لڑھکتے ہوئے سیڑھیوں سے گرتے ہوئے نیچے پہنچی ۔۔
ہائے میرے اللہ ۔۔!امی کی چیخ نمودار ہوئی ۔۔
امل بنا کسی کی فکر کیئے گھڑی دیکھتے ہوئے بڑبڑائی ۔۔بچت ہو گئی ۔۔۔!!
دو منٹ کی سیڑھیوں کا فاصلہ اس نے گر کر چند سیکنڈ میں طے کیا تھا ۔۔۔۔
لگی تو نہیں ۔۔۔۔!! اسے ٹھیک ٹھاک چلتا دیکھ کر امی حیران ہوتے ہوئے پوچھنے لگیں ۔۔
نہیں نہیں ۔۔کچھ نہیں ہوا میں چلتی ہوں ۔۔۔آپ پریشان نہیں ہونا واپس آکر ملتے ہیں ۔۔وہ انھیں پیار کرتی ہوئی اجلت میں چلتی بنی ۔۔
ارے ناشتہ تو کر لیتیں ۔۔۔۔پیچھے سے انہوں نے آواز لگائی ۔۔۔
۔***************۔
کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔میں خود ہی آجاؤں گی ۔۔۔۔
تم اکیلی کیسے آؤ گی ۔۔۔ویسے بھی تمہیں اکیلا آنے کی اجازت دے کر میں کوئی رسک نہیں لے سکتا ۔۔۔
کیا ہو گیا ہے بھائی ۔۔میں اکیلی تھوڑئی ہوں ۔۔۔میرے ساتھ اور بھی لڑکیاں ہیں ۔۔اس نے پیکنگ کرتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔
باقی لڑکیوں سے مختلف ہو تم ۔۔وہ بہت چالاک ہیں ۔۔اس نے گاڑی سے باھر تکتے ہوئے جواب دیا ۔۔
بس بھائی بہت ہو گیا ۔۔۔۔میں نوٹ کر رہی ہوں جب سے آپ بڑے آدمی بن گئے ہیں کچھ زیادہ ہی شو دکھا رہے ہیں ۔۔اس سے اچھا تو ہم غریب ہی ٹھیک تھے ۔۔۔مناہل کے لہجے سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ خفا ہو گئی ہے ۔۔
مناہل کی اس بات پر اسے شدید قسم کی ہنسی آئی جسکو چھپاتے ہوئے وہ گویا ہوا ۔۔
” اچھا ڈرائیور آجائے گا تمہیں لینے ۔۔اسکا انتظار کرنا اکیلے نہ چل پڑنا ” رکھتا ہوں ” خدا حافظ ”
دو مہینے پہلے ہی اس نے جان بوجھ کر مناہل کو خود سے دور لاہور بھیجا تھا تاکہ وہ وہاں کے کسی ہاسٹل میں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کر سکے ۔۔یہاں رہ کر الجھنوں میں پھنستے ہوئے وہ کبھی آگے نہ بڑھ پاتی ۔۔ ۔۔
اب کچھ دن کی چھٹیوں پر وہ اپنے شہر لوٹ رہی تھی ۔۔باسط سے ملنے ۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ ” اور ” نہ جانے کب تک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ۔۔۔
۔**************۔
اسے آفس پہنچتے پہنچتے بیس منٹ سے زیادہ وقت لگا ۔۔
بھاگتے ہوئے وہ ریسپشن پر جا پہنچی ۔۔۔۔سر آ گئے کیا ۔۔۔؟
جی وہ تو کب کا آگئے ۔۔آپ کی سیٹ خالی دیکھ کر آپکا پوچھنے لگے ۔۔اور ساتھ میں انسٹرکشن بھی دیئے کہ آپ کے ہاتھ میں ریزائن لیٹر تھما کے آپ کو انکے کیبن میں بھیجوں ۔۔۔۔۔ریسپشن پر کھڑی لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔
افف ۔۔۔۔!! مر گئی ۔۔۔! پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ بڑبڑائی ۔۔۔۔
ریزائن لیٹر ہاتھ میں لیئے وہ انکے آفس کی جانب بڑھ گئی ۔۔
سر ۔۔۔۔!! میں نے امل میڈم کو آپ کے آفس کی جانب بھیج دیا ۔۔۔۔۔
اوکے ۔۔۔۔۔۔!! یہ کہتے ساتھ ہی ریسیور رکھتے ہوئے وہ دیوار پر نصب کی گئی پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے بڑبڑانے لگا ۔۔
” آیئے امل میڈم ۔۔آپکا استقبال تو ہم کریں گے ”
گہری سانس کھینچتے ہوئے اس نے دوپٹے کو اچھی طرح سر پر جماتے ہوئے دروازہ نوک کیا ۔۔۔۔
کم ان ۔۔۔۔۔۔۔!!!!
اجازت پانے پر اس نے اندر کی جانب قدم بڑھائے ۔۔۔
مس امل خلیل احمد ۔۔۔۔۔۔۔؟ رائٹ ۔۔۔۔۔۔۔؟ پشت کے بل اس نے پوچھنے والے انداز میں کہا ۔۔۔
یس سر ۔۔۔۔۔!!اسکی پشت کو گھورتے ہوئے اس نے جواب دیا ۔۔۔۔
آپ جانتی ہیں ایک منٹ میں کتنے سیکنڈ ہوتے ہیں ۔۔۔اور وہ ایک ایک سیکنڈ کس قدر قیمتی ہے ۔۔۔۔اس نے مڑتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔
اسکا جھکا ہوا سر چہرے پر گھبراہٹ کے بجائے سنجیدگی دیکھ کر وہ ایک لمحے کو خاموش ہو گیا ۔۔
” وقت نے اسے پہلے سے بھی زیادہ حسین بنا دیا تھا ۔۔البتہ ہاں ۔۔۔اب اسکی آنکھیں چشمے سے عاری تھیں "۔۔
اسکے باوجود بھی آپ کو وقت کی قدر نہیں ۔۔وہ اسکی جانب بڑھنے لگا ۔۔
امل کو وہ آواز جانی پہچانی سی لگی ۔۔۔
دیکھوں تو ہے کون یہ نواب ۔۔۔۔۔۔۔یہ سوچتے ہوئے اس نے پلکیں اٹھائی ہی تھیں کہ خود سے دو قدم کے فاصلے پر اسے دیکھ کر وہ ایک دم پیچھے ہوتے ہوئے اسے تکنے لگی ۔۔۔
تھری پیس سوٹ میں بالوں کو اچھی طرح سے سیٹ کیئے آنکھوں پر چشمہ لگائے وہ باسط ہی تھا ۔۔۔
وہ ششدر رہ گئی ۔۔۔باسط ۔۔۔۔یہاں ۔۔۔۔۔سہی سلامت ۔۔۔۔بہت سارے سوالات نے اسکے دماغ میں جنم لینا شروع کیا ۔۔۔
لگتا ہے ۔مجھے یہاں دیکھ کر آپ کو اچھا نہیں لگا ۔۔وہ ایک قدم اسکی جانب بڑھا ۔۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔سر ۔۔۔ایسی کوئی ۔۔بات نہیں ۔۔۔۔۔پلکوں کو جھکائے زمین کو دیکھتے ہوئے وہ بامشکل ہی بول پائی ۔۔۔
یہ ریزائن لیٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔!! میں نے اس پر سائن کر دیئے ہیں ۔۔۔۔۔وہ جلدی سے اسکو ریزائن لیٹر تھماتے ہوئے بولی ۔۔۔
ہمم ۔۔۔۔۔۔!! ویل اب اسکی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔اسکے ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے باسط نے کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا ۔۔۔
لیکن مجھے اب اس جاب کی ضرورت نہیں رہی ۔۔۔۔۔شکریہ سر ۔۔۔۔۔!!وہ کہتے ہوئے جانے لگی جبھی وہ اسکے راستے میں رکاوٹ بنا ۔۔۔۔
” پہلے تم خود چھوڑ کر گئی تھی ۔۔۔تب میں بے بس تھا ۔۔لیکن اب تم میری مرضی کے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتی ”
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جتانے والے انداز میں بولا ۔۔۔
” سر آپ فضول میں میرا وقت زائع کر رہے ہیں” ۔۔۔ہٹیں ۔۔۔! بامشکل ہی خود کو سمبھالتے ہوئے راستہ بناتے ہوئے وہ جانے لگی جبھی باسط نے اسکا بازو پکڑ لیا ۔۔۔
” اور ایک سال میرا جو زائع ہوا ۔۔۔اسکا کیا ۔۔” ؟؟
ہمم ۔۔۔۔۔۔وہ طنزیہ مسکرائی ۔۔۔۔۔
” ایک سال ۔۔۔تین مہینے ۔۔آٹھ دن ” میں کس اذیت میں رہی اسکا کیا ۔۔؟
امل کی بات پر وہ حیران رہ گیا ۔۔۔
” حساب کے معملے میں آپ اب بھی کچے ہیں ” اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نہ جانے کیا جتاتے ہوئے اسے سوچوں میں گم کر کے وہ خود آگے بڑھ گئی ۔۔۔
” کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی
مزہ تو تب ہے کہ جب اس شوخ کو پتا ہی نہ ہو ”
۔**************۔
امی کچھ دے دیں کھانے کے لئے بہت بھوک لگی ہے ۔۔آفس سے سیدھا گھر آتے ہوئے وہ کچن میں داخل ہوئی ۔۔
اتنی جلدی آگئی ۔۔۔اسکو دیکھتے ہوئے ماروی نے پوچھا جو چائے کے ساتھ دوسرے لوازمات ٹرے میں سجانے لگی ۔۔۔
کون آیا ہے ۔۔۔۔۔؟ اس نے چپس کھاتے ہوئے ماروی کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا ۔۔
ماروی اور امی ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔
” خود ہی جاکر دیکھ لو ”
وہ جونہی مڑی تھی ۔۔سامنے کھڑی تابین کو دیکھ کر ششدر رہ گئی ۔۔۔
تابی ی ی ن ن ۔۔۔۔۔۔وہ چیخ لگاتے ہوئے اس سے لپٹ گئی ۔۔ایک لمحے کو تو تابین بھی سہم گئی ۔۔
"دور ہٹو ۔۔۔۔۔یہ کیا بد تمیزی ہے ” ۔۔۔۔۔وہ اسے خود سے دور کرتے ہوئے بولی ۔۔
” جب چھوڑ کر گئی تھی تب یاد نہیں آئی میں ۔۔۔اب بڑا پیار آرہا ہے ” تابین نے غصے سے کہا ۔۔
اچھا ۔۔۔۔سوری نہ ۔۔۔۔!!! وہ بھی بچوں کی طرح شکل بناتے ہوئے بولی ۔۔۔
” میرے بس میں سب کچھ تھا ۔۔یوں چٹکی میں تمہارا پتہ لگا لیتی ۔۔مگر میں چاہتی تھی تم خود آؤ ملنے ۔۔کسی کے کہنے پر زبردستی نہیں ” وہ چپ چاپ دانت نکلاتے ہوئے تابین کی ڈانٹ سننے لگی ۔۔۔
ہا۔,۔۔۔دیکھ رہی ہیں ماروی باجی کتنی بد تمیز ہو گئی ہے یہ ۔۔آگے سے دانت نکال رہی ہے ۔۔۔
اچھا نا اب چلو کچھ کھاتے ہیں اسکے بعد بہت ساری باتیں کریں گے چلو ۔۔۔وہ اسے اپنے ساتھ لے کر جاتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔
۔****************۔
” آپ کے شہر میں بھی حسن ہے مگر ”
” شہر لاہور میں کہتے ہیں شہزادی رہتی ہے ”
وہ صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے موبائل دیکھنے میں مصروف تھا جبھی ولید اسکے پاس بیٹھتے ہوئے گویا ہوا ۔۔
ایک ترچھی نظر اس پر ڈالتے ہوئے وہ دوبارہ فون میں مصروف ہو گیا ۔۔۔
ولید کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا اسے تنگ کرنے کا ۔۔۔۔
"سوہنڑا تیڈا ڈھولا رہندا لاہور ہے ”
آج کل بڑی چربی چڑھ رہی ہے تمہیں ۔۔لگتا ہے ہاضمہ خراب ہو گیا ہے ۔۔پھکی کھا لو ۔۔ایک گھنٹے میں ٹھیک ہو جاؤ گے ۔۔اسے علاج بتاتا ہوا وہ وہا سے چلا گیا ۔۔تاکہ وہ کچھ اور نہ بک دے ۔۔۔
” تھوڑی پھکی تم بھی کھالو بڑی فائدہ مند ہے ۔۔دماغ کے لئے بھی اور دل کے لئے بھی ” پیچھے سے ولید نے آواز لگائی ۔۔
جسکو نظر انداز کرتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا ۔۔۔
۔**************۔
اب بتاؤ ۔۔۔۔۔کیسا چل رہا ہے سب کچھ ۔۔چائے پینے اور کچھ کھانے کے بعد تابین کو اپنے ساتھ لان میں لے آئی ۔۔
اوہ ۔۔ہاں ۔۔۔میں تو بھول گئی ۔۔جس کام سے آئی تھی وہ تو کیا ہی نہیں ۔۔تابی اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی ۔۔۔
یہ لو ۔۔۔۔۔۔بیگ سے کچھ نکالتے ہوئے امل کے ہاتھ میں تھمادیا ۔۔۔
” شادی کا کارڈ "!!!!!!!وہ حیرانگی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے بولی ۔۔
مطلب ۔۔۔اتنے عرصے کی لڑائی اب اس رشتے میں تبدیل ہونے جارہی ہے ۔۔واہ ۔۔۔۔۔وہ کارڈ کو کھولتے ہوئے خوشی سے چہکی ۔۔۔مگر اگلے ہی لمحے تابین کے ساتھ ذیشان کا نام دیکھ کر وہ چونکی ۔۔
یہ کیا ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
وہ کچھ پوچھتی اس سے پہلے تابین اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔مطلب وہ اب ” اس ” سے جڑے کسی بھی موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔
” تمہارا انتظار رہے گا ۔۔آنا ضرور ” اسے پابند کرتی ہوئی وہ جانے لگی ۔۔
” چھوڑ دیا تم نے اسے ” ۔۔۔۔۔۔؟ امل کے الفاظ پر اسکے قدم تھم گئے ۔۔۔
میں نے نہیں ۔۔۔۔۔!!! ” اس نے چھوڑا مجھے ” ۔۔بنا مڑے اس نے جواب دیا ۔۔۔
” وہ ایسا نہیں ہے ۔۔۔اور نہ ہی کر سکتا ہے ” تم ایک بار بات تو کرتی اس سے ۔۔۔۔
ہمم ۔۔۔۔۔!!! ” تمہیں کیا لگتا ہے کوشش نہیں کی ہوگی میں نے ” وہ طنزیہ مسکاتے ہوئے بولی ۔۔اسکی مسکان میں بھی ایک درد تھا ۔۔
خیر ۔۔۔۔۔۔!! دیر ہو رہی ہے چلتی ہوں ۔۔۔۔۔
” تم خوش رہ پاؤ گی اسکے بنا "۔۔۔۔۔۔؟؟
” پتا نہیں ” ۔۔۔اس نے دوبارہ مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔۔
” تو پھر ۔۔۔۔۔!! اس مسکراہٹ میں ایک درد کیوں چھپا رکھا ہے ” ۔۔۔۔۔؟
” ہمم ۔۔۔۔ تم نہیں جانتی کہ خواب ٹوٹنے کی آواز روح میں کتنا سناٹا بھر دیتی ہے۔۔۔” اسکی بات کا جواب دیتے ہی وہ بنا دیر کیئے آگے بڑھ گئی ۔۔
” تم غلط کر رہی ہو تابین اپنے ساتھ بھی اور اسکے ساتھ بھی ” امل بس سوچتی ہی رہ گئی ۔۔۔۔
۔****************۔
ماما ۔۔۔۔۔زری ۔۔۔۔وہ آوازیں دیتا ہوا نیچے آیا ۔۔
کیا ہو گیا ہے ۔۔۔؟ ذرش کمرے سے نکلتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔
میں نے کتنی دفع کہا ہے کہ میرے کمرے کی چیزوں کو ہاتھ نہ لگایا کریں ۔۔رات ڈائری رکھی تھی میں نے اب نہیں مل رہی ۔۔۔۔وہ غصے میں بولا ۔۔
اس میں غصے والی کونسی بات ہے ۔۔۔ملازمہ نے صفائی کرتے وقت یہاں کہاں رکھ دی ہوگی ۔۔ابھی ڈھونڈتے ہیں مل جائے گی ۔۔۔وہ اسٹڈی روم کی طرف جاتے ہوئے کہنے لگی ۔۔
جبھی وہ بھی ٹی وی لاؤنج میں پڑی چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا ۔۔۔۔
یہاں بھی نہیں ۔۔۔۔وہ یہ کہتا ہوا جانے ہی لگا تھا کہ ۔۔اسکا ہٹے لگنے کی وجہ سے ٹیبل پر پڑا اخبار نیچے گر گیا ۔۔
افف ۔۔۔۔وہ نیچے جھکتے ہوئے اخبار سمیٹنے لگا جبھی اسکی نظر ہاتھ میں پکڑے کارڈ پر پڑی ۔۔
وہ اسے رکھنے ہی لگا تیا جبھی کارڈ پر چھپے ” تابین صلاح الدین ” کے الفاظ دیکھ کر ٹھٹھک گیا ۔۔
جھٹکا تو اسے تب لگا جب اسکے ساتھ ذیشان کا نام دیکھا ۔۔۔۔
وہ سن ہو کر کارڈ کو بار بار الٹ پلٹ کرتے ہوئے پڑھنے لگا ۔۔کہیں اس سے پڑھنے میں تو غلطی نہیں ہوئی ۔۔
کہیں یہ تمہاری ڈائری تو ۔,۔۔۔۔۔۔وہ اسکی جانب مڑنے ہی لگی تھی جبھی اسے سکتے کی حالت میں دیکھ کر حیران سی اسکے قریب آئی ۔۔۔
حذیفہ کے ہاتھ میں کارڈ دیکھ کر وہ جھپٹتے ہوئے پڑھنے لگی ۔۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔؟
” سب میری وجہ سے ہوا ہے ” ۔۔۔۔وہ گم سم سا کہنے لگا ۔۔۔
” اپنی غلطی کی وجہ سے آج میں نے اسکو کھو دیا ” سب کچھ ختم ہو گیا ۔۔سب کچھ ۔۔۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔۔!! بھائی کو اس طرح بکھرتے ہوئے دیکھ کر وہ جلدی سے بولی ۔۔
ابھی کچھ ختم نہیں ہوا ۔۔۔۔۔ابھی ٹو صرف شام ہوئی ہے ۔۔ابھی رات باکی ہے ۔۔۔تمہیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے ۔۔۔
چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔میں روکوں گی اس شادی کو ۔۔۔۔اور انھیں رکنا پڑے گا ۔۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔۔تم یہیں رکو ۔۔!!!! اس نے ذرش کو روک دیا ۔۔
” یہ جنگ میری ہے ۔۔میں اکیلا ہی جاؤں گا لڑنے ۔۔کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں مجھے ”
آر یو شیور ۔۔۔۔؟
ہمم ۔۔۔۔۔۔!!!
حذی۔۔۔۔!! وہ جانے لگا جبھی اس نے اسے آواز لگائی ۔۔
یہ جنگ تم نے جیت کر آنی ہے ۔۔بزدلوں کی طرح یہ اتری ہوئی شکل واپس نہ لے آنا ۔۔۔ورنہ میں قتل کر دونگی تمہارا سمجھے ۔۔۔۔۔وہ اسے باور کراتے ہوئے بولی ۔۔۔
وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر کو ہلاتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔
۔***************۔
فلائٹ میں بیٹھتے ہوئے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے وہ نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا ۔۔
اچانک اسکی پیشانی پر کوئی بھاری چیز بڑی زور سے آلگی ۔۔۔۔
وہ بوکھلاتا ہوا غصے میں اٹھ بیٹھا ۔۔
واٹ دا ہیل ۔۔۔۔۔۔!!
نظر گود کے پڑی بال پر پڑی ۔۔۔بال پر سے نظریں اپنا سائیڈ کے بیٹھے دو بچوں پر پڑی ۔۔جو اسکو دیکھتے ہوئے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوری کہنے لگے ۔۔
دل تو کیا کہ انکو پکڑ کر نیچے پھینک دے جو نہ جانے کب سے شور مچائے ہوئے تھے ۔۔مگر انکی آپس کی لڑائی ۔۔اور شرارتوں سے وہ لطف اٹھانے لگا ۔۔
غلطی ایک کی تھی اور والدین سے ڈانٹ کوئی اور کھا رہا تھا ۔۔
افف۔۔۔مسکراتے ہوئے وہ دوبارہ اسی پوزیشن میں بیٹھ گیا ۔۔۔اسے اپنی حرکتیں یاد آنے لگیں ۔۔۔
اس پل شدت سے اسے حدید کی یاد آنے لگی ۔۔۔
” آجا۔۔۔ کریں پھر وہی شرارتیں ۔۔۔
تو بھاگے میں مار کھاؤں ۔۔۔”
وہ بھی تو ایسے ہی کیا کرتے تھے ۔۔۔شرارت حدید کرتا اور بدلے میں مار اسے پڑتی ۔۔۔۔
” میٹھی سی وہ گالی تیری ۔۔
سننے کو تیار ہوں میں ۔۔
تیرا یار ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔”
۔***************۔
پھر تیرا ذکر کیا بادِ صباء نے مجھ سے
پھر میرے دِل کو ، دھڑکنے کے بہانے آۓ۔۔
گولڈن کلر کے بھاری کامدار لہنگے میں سر پر سلیقے سے ملبوث بھاری دوپٹے پر نفاست سے کئے گئے میک اپ میں وہ پرستان کی شہزادی لگ رہی تھی ۔۔آئینے کے سامنے بیٹھی اس نے خود پر ہی نظریں جمائے ہوئے تھی ۔۔
دلہن کے روپ میں بھی اسکے چہرے پر اداسی کے رنگ چھائے تھے ۔۔یہ رنگ کسی اور کے نہیں بلکہ اس انسان کی دی ہوئی نشانی ہے جو بزدلوں کی طرح پیٹھ دکھا کر بھاگ گیا ۔۔اسنے ایک نظر اپنے ہاتھوں میں سجی مہندی پر ڈالی جو اب کسی اور کے نام کی تھی ۔۔آنکھوں سے آنسوں موتیوں کی لڑی کی مانند ٹوٹ کر اسکے چہرے کو بھگوگئے ۔۔۔
اسنے ہاتھ میں پکڑی تصویر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔کتنے خوش تھے نہ ہم سب ۔۔۔ایک ساتھ ۔۔نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ۔۔۔
تم لوٹ آؤ نہ واپس ۔۔یہ آنکھیں تمہیں دیکھنے کی ضد کرتی ہیں ۔۔آجاؤ واپس ۔۔۔روتے روتے اسکی ہچکی بندھ گئی ۔۔۔
میرے دل کو سکون بخشو اپنی موجودگی کی صورت میں ۔۔۔آجاؤ واپس ۔۔۔وہ تصویر کو سینے سے لگائے بے تحاشا رونے لگی ۔۔۔
اچانک کوئی اندر داخل ہوا ۔۔۔
جلدی سے آنسو صاف کرتے ہوئے وہ نارمل ہونے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔
نکاح کا وقت ہونے والا ہے ۔۔امل نے آتے ہوئے اسے یہ خوشخبری سنائی ۔۔۔
اسکا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ گویا ہوئی ۔۔۔۔” میں تو کہتی ہوں اب بھی وقت ہے سوچ لو ”
جب ایک بار ارادہ کر لیا تو اب سوچنا کیا ۔۔۔اس نے دھیمے لہجے میں جواب دیا ۔۔۔
۔**************۔
میں تو سامنے کھڑا ہوں ۔۔ڈھونڈ کسے رہے ہو بھائی ۔۔۔۔۔کالے رنگ کی شلوار قمیض پر کالے رنگ کی واسکوٹ پہنے وہ نک سک سا تیار اسکے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے بولا ۔۔۔
کسے نہیں ۔۔۔۔تم اندر آؤ ۔۔۔گھر والوں کو ساتھ نہیں لائے ۔۔۔۔وہ جلدی سے بولا ۔۔۔
گھر میں ہے ہی کون ۔۔۔۔؟ جسے لاتا ۔۔وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔۔جہاں حدید کے دادا جان اسے دیکھ کر اپنے پاس بلارہے تھے ۔۔۔
چہ چہ ۔۔۔۔دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے ۔۔۔ولید آنکھ میں نہ دکھائی دینے والا آنسو صاف کرتے ہوئے اداکاری کرتے ہوئے بولا ۔۔۔
رک ۔۔۔تجھے تو ابھی بتاتا ہوں ۔۔۔۔۔وہ دانت پیستے ہوئے اسکے پیچھے بھاگا ۔۔۔
۔*************۔
ایئر پورٹ سے ٹیکسی پر پندرہ منٹ میں وہ اس حویلی نما گھر کے باھر پہنچا ۔۔۔۔جو اس وقت رنگ برنگی قمقموں میں سجی ۔۔بلکل کسی دلہن کی طرح لگ رہی تھی ۔۔۔
گہری سانس کھینچتے ہوئے اس نے اندر کی جانب قدم بڑھائے ۔۔۔۔
مگر اندر کا ماحول دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا ۔۔۔
سب جا چکے تھے ۔۔۔۔آس پاس سامان سمیٹتے ہوئے ملازم کو دیکھ کر وہ جلدی سے اسکی جانب بڑھا ۔۔
بھائی یہاں ۔۔یہاں تو شادی تھی نہ ۔۔۔۔۔؟
جی ۔۔۔۔وہ تو کب کا ختم ہو گئی ۔۔” دلہن کی رخصتی بھی ہوگئی ” یہ الفاظ اسکے کانوں میں کسی جلتے ہوئے انگارے کی مانند جا لگے ۔۔
مطلب ۔۔۔۔۔۔جنازے کا وقت ہوا چلا تھا ۔۔۔
تابین اب کسی اور کی ہو کر اس کی پہنچ سے دور جا چکی تھی ۔۔۔
آنکھوں میں نمکین پانی لیئے ۔۔بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے واپسی کی راہ اختیار کر لی ۔۔۔
وہ بے بس سا سنسان سڑک پر پیدل ہی چل پڑا ۔۔۔۔دل چاہا چیخیں مار مار کر وہ روئے ۔۔۔دونیا کو بتاۓ ۔۔کہ تابین اسکی ہے ۔۔۔
تو حذیفہ ۔۔۔۔۔۔!! بس یہی تک تھا تمہارا غرور ۔۔۔جو سینہ چوڑا کر کے پورے جہاں کو بتاتے تھے تابین میری ہے ۔۔ارے کہاں گئی وہ بہادری ۔۔۔۔۔
اسے ایسا لگا جسی ظفر سامنے کھڑا اسکا مذاق اڑا رہا ہو ۔۔
وہ تھک کر گھٹنوں کے بل فٹ پاتھ پر بیٹھتے ہوئے اپنی سانس بحال کرنے لگا ۔۔۔
نہ نکلنے والے آنسو اچانک ہی نکل پڑے تھے ۔۔۔
دیکھ لی بے بسی کی انتہا ۔۔۔۔۔۔؟؟
اسے تابین کی آواز بہت ہی قریب سے محسوس ہوئی ۔۔۔
اس نے ایک دم سے نظریں اٹھاتے ہوئے اپنے سامنے دیکھا ۔۔جہاں تابین دلہن بنی ہوئی اسکے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔۔
وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
تابین ۔۔۔۔۔۔وہ کچھ بولتا اس سے پہلے تابین کا ہاتھ اسکا گال لال کر گیا ۔۔۔
یہ تھپڑ اس بات کے لیئے جب تم بنا بتائے چھوڑ کر گئے تھے ۔۔۔۔وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولی ۔۔۔
وہ با مشکل ہی سمبھل پایا تھا کہ تابین نے ایک اور تھپڑ اسکے گال پر رسید کیا ۔۔
یہ تھپڑ اس بات کے لیئے ۔۔۔کہ تم اب بھی بزدلوں کی طرح وہاں سے بھاگ آئے ۔۔۔۔
وہ ہکا بکا سامنے کھڑی تابین کو دیکھ رہا تھا جو دولہن کے روپ میں ہٹلر بنی کھڑی تھی ۔۔
” جدائی حل نہیں ہے مسئلوں کا ۔۔
سمجھتے کیوں نہیں ہو گدھے کہیں کے ”
وہ اسکا کالر پکڑتے ہوئے بولی ۔۔
” تمہاری ہڈیوں کا سرمہ بنا کر جو آنکھوں میں لگاؤں گی تب مانو گے محبت ہے ”
تابین کی پاگلوں والی حرکتیں اور باتیں سن کر ایک دم اس نے اپنی ہنسی دبائی ۔۔۔
تم ہنس رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ایک دم اسکا غصہ انتہا کو پہنچا تھا ۔۔۔
تمہاری شادی تو نہیں ہوئی نہ ۔۔۔مطلب ۔۔۔۔وہ دلہن ۔۔رخصتی ۔۔۔؟
نہیں نہیں ۔۔اسکی رخصتی تو کب کا ہو گئی ۔۔اپنے شوہر سے اجازت مانگ کر آئی ہے کہ سنیں ۔۔۔کیا میں اپنے پرانے عاشق سے ملنے جاسکتی ہوں ۔۔۔ہینا ۔۔۔۔۔
پیچھے سے حدید کی آواز سن کر وہ پیچھے کی جانب مڑا ۔۔۔۔
وہ اس سے لپٹتا اس سے پہلے حدید چند قدم کے فاصلے پڑ اس سے دور ہوا ۔۔۔
” میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ۔۔تمہیں نہیں جانتا میں ”
یار ۔۔۔۔۔!! یہ کیا بات ہوئی ۔۔۔کچھ عرصے میں تم اپنے دوست کو بھول گئے ۔۔دیکھو میں سات سمندر پار کر کے آیا ہوں ۔۔وہ معصوم سی شکل بناتے ہوئے بولا ۔۔
تو نے بہت رلایا ہے میری تابین کو ۔۔۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا ۔۔وہ تابین کے ساتھ جا کھڑا ہوا ۔۔۔
وہ سنجیدہ تاثرات لیئے انکی جانب بڑھا ۔۔۔۔
تو تم ایسے نہیں مانو گے ۔۔۔۔؟ حذیفہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ۔۔
حدید نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔
جبھی اس نے یک دم تابین کی کلائی اپنے ہاتھ میں لی ۔۔۔
” اب جب اسے اپنا محرم بناؤں گا ۔۔تب بات کریں گے ” تابین کو اپنے ساتھ لے کر اس نے دوڑ لگا دی ۔۔۔
ارے میری دلہن ۔۔۔ارے کہاں بھگا کر لے جارہے ہو ۔۔کوئی پولیس کو بلاؤ ۔۔۔رکو ۔۔۔
اسکے پیچھے پیچھے بھاگتے ہوئے اس نے انھیں آواز لگانا شروع کی ۔۔۔
۔ ۔**************۔
تم بچے کی طرح کیوں یہاں بیٹھ کر رو رہے ہو ۔۔۔۔؟ امل اسکے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔
بونگی امل ۔۔۔۔یہ چیٹنگ ہے ۔۔۔۔میں اناسہ سے بڑا ہوں ۔۔پہلے میری شادی ہونی چاہئے تھی ۔۔اسکی شادی کر کے سب نے اچھا نہیں کیا ۔۔۔وہ کمال کی اداکاری کرتے ہوئے بولا ۔۔
ارے ۔۔۔۔دیکھو تو کتنا جل رہا ہے توبہ ۔۔۔۔۔۔ابھی تو صرف نکاح ہوا ہے ۔۔۔وہ ہاتھ میں پہنے گجروں کو گھماتے ہوئے ایک ادا سے بولی ۔۔۔
پتا ہے یہ نکاح کا چکر اچانک میں کیسے ہوا ۔۔اسکی شادی تو تابین سے ہونے والی تھی پھر اچانک تم سے کیسے ۔۔۔۔؟ وہ کڑتے ہوئے بولا ۔۔
ارے بیوقوف ۔۔۔وہ تو ایک پرینک تھا ۔۔۔لکھا تو وہ پولیس والا میری قسمت میں تھا ۔۔اب اس نے اگر مجھے اپنی محبت میں گرفتار کر لیا اور میں اسکو اتنی پسند آگئی کہ نکاح ہو گیا تو اس میں ۔۔میں کیا کہہ سکتی ہوں ۔۔۔ہینا امل ۔۔۔وہ ساتھ بیٹھی مسکراتی ہوئی امل کو آنکھ لگاتے ہوئے بولی ۔۔۔
ہاں بلکل ۔۔۔اس نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی ۔۔۔
سب جانتا ہوں میں پاگل نہیں ہوں میں ۔۔۔یہ جو سارے منصوبے کے تحت یہ سب کچھ ہوا ہے ۔۔
بس نہ اب زیادہ نہ بولو ۔۔۔۔۔اب میں بھی شوہر والی ہوں ۔۔۔اپنے پولیس والے کو کہہ کر ایسی مار پڑواؤں گی کہ یاد رکھو گے ۔۔۔وہ گردن اکڑا کر بولی ۔۔
امل کو شدید ہنسی کے دوڑے پڑے ۔۔۔
کیا کہا حکم چلاؤ گی ۔۔وہ اسکا کان مروڑتے ہوئے بولا ۔۔
آہ ۔۔۔۔۔وہ چیخ لگاتے ہوئے پیچھے ہوئی ۔۔۔۔
اللہ کرے تم ساری عمر شدید سنگل رہو ۔۔۔۔۔میری بد دعا ہے ۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے اس نے دوڑ لگا دی ۔۔۔
تمہیں تو میں بتاتا ہوں ۔۔۔چھپکلی کہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی اسکے پیچھے چل دیا ۔۔۔۔۔
اور یہاں امل ہنستے ہوئے اپنی آنکھیں صاف کرنے لگی ۔۔۔
اہم اہم ۔۔۔۔وہ جو کب سے کھڑا اسکو ہی تک رہا تھا ۔۔اسے اکیلا پا کر جلدی سے اسکے پاس آگیا ۔۔
کھانسنے کی آواز پر وہ جلدی سے ہوشیار ہوتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
سر ۔۔۔۔۔۔۔جلدی میں اسکے منہ سے نکل گیا ۔۔
میرا مطلب ہے آپ ۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔” تم ” وہ ہڑبڑاتے ہوئے بولی ۔۔۔
پہلے تم یہ ڈیسائیڈ کر لو کہ تم مجھے پکارو گی کس نام سے ۔۔وہ سیڑھیوں پر بیٹھتے ہوئے بولا ۔۔۔
جبھی ساتھ میں اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے بھی اپنے ساتھ بٹھالیا ۔۔۔
باسط ہی ٹھیک ہے ۔۔۔بیٹھتے ہوئے اس نے دھیمے لہجے میں جواب دیا ۔۔۔۔
باسط کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی ۔۔۔
اچانک باسط کا موبائل فون بجنے لگا ۔۔۔۔۔۔جسکو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے کاٹتے ہوئے جیب میں ڈال دیا ۔۔۔
کون تھا ۔۔۔۔۔کوئی گرل فرینڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امل نے جان بوجھ کر الفاظ ادھورے چھوڑے ۔۔۔
” میری کوئی گرل فرینڈ نہیں ” امل کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے جواب دیا ۔۔
امل جو کلائی میں بیسٹ فرینڈ کا بینڈ پہنے اسے گھما رہی تھی اچانک اسکا حرکت کرتا ہاتھ رک گیا ۔۔۔
کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تم تو بہت ہینڈسم ہو ۔۔۔جاب ہے اچھا گھر ہے ۔۔پھر کیوں نہیں ۔۔۔؟ وہ ٹھوڑی پر ہاتھ ٹکاتے ہوئے اسکی جانب دیکھتے ہوئے جواب کی منتظر تھی ۔۔۔
تمہاری وجہ سے ۔۔۔۔۔۔۔!! اس نے بھی اسکی توقع کے مطابق جواب دیا ۔۔۔
میری وجہ سے کیسے ۔۔۔۔۔؟؟ میں تو تمہاری بیسٹ فرینڈ ہوں ۔۔وہ پھر سوال کر بیٹھی ۔۔۔
اسکی معصوم ادا پر باسط کا دل چاہا اسکے گال کی چٹکی بھر لے ۔۔۔
” بس اسی لیئے تو کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے ۔۔تم جو ہو ۔۔۔”
ہائے کیا انداز تھا پروپوز کا ۔۔۔۔۔۔
امل کی نظریں بے اختیار جھک گئیں ۔۔وہ بلش کرتے ہوئے سامنے دیکھنے لگی ۔۔
اسکے چہرے پر آئے ہر رنگ کو وہ بغور دیکھتے ہوئے لطف لینے لگا ۔۔۔
۔*************۔
دادا جان ۔۔۔کتنا خوشی کا موقع ہے ۔۔۔کیوں نہ حدید کے لئے بھی کچھ سوچا جائے ۔۔۔سب ساتھ بیٹھے صبح کی چائے سے لطف لے رہے تھے جبھی تابین بولی ۔۔
ہاں ہاں ۔۔۔میں نے سنا ہے شدید قسم کے سنگل ہیں حدید صاحب ۔۔حذیفہ بھی فریش ہوتا ہوا تابین کے ساتھ بیٹھ گیا ۔۔۔
تابین مسکراتے ہوئے اسے چائے پکڑانے لگی ۔۔۔اور وہ اسکا چہرہ تکنے لگا ۔۔جسکے چہرے پر صرف اسی کے نام کے رنگ تھے ۔۔اور ہوں بھی کیوں نہ ۔۔آخر وہ اسکی منکوحہ تھی ۔۔۔
اچانک حدید کھانسنے لگا ۔۔۔
ارے ارے ۔۔۔چائے میں مرچی تھی کیا ۔۔۔؟ حذیفہ اسے چڑاتے ہوئے بولا ۔۔
وہ میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ یار پہلے لڑکی اور لڑکے کو ملاقات کا شرف بخشا جائے ۔۔۔۔وہ خود ہی سٹارٹ ہو گیا ۔۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں ۔۔۔ایسی ملاقات کے تم دیکھتے ہی رہ جاؤ گے برخوردار ۔۔۔۔۔۔دادا نے اسکا کندھا تھپتھپاتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔
مبارک ہو اپنی جیت پر ۔۔۔ساتھ بیٹھی ذرش نے حذیفہ کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ۔۔
خیر مبارک ۔۔۔۔مسکراتے ہوئے وہ آس پاس تابین کو تلاش کرنے لگا ۔۔۔جو آج پنک کلر کے سوٹ میں اسکا دل دھڑکا رہی تھی ۔۔
کچن کی طرف گئی ہے وہ ۔۔۔زرش اخبار پر نظر ڈالتے ہوئے بولی ۔۔
ابھی آیا ۔۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے چل دیا ۔۔
وہ کوکیز ۔۔پلیٹ میں سجاتے ہوئے مڑنے ہی لگی تھی جبھی اسے اپنے سامنے دیکھ کر گڑبڑاگئی ۔۔
تابین کا دوپٹہ سر سے پھسلتے دیکھ کر ۔۔جلدی سے آگے بڑھ کر دوپٹہ اس کے سر پر جمایا ۔۔
” تمہیں اس رنگ میں دیکھ کر میرا دل پھسل رہا ہے ”
سمبھال کر رکھیں ۔۔آج کل بڑا پھسل رہا ہے دل ۔۔۔وہ منہ چڑاتے ہوئے بولی ۔۔
حذیفہ کا دل چاہا اسے سب سے چھپا کر اپنے پاس رکھے ۔۔۔
وہ اسکی جانب کو جھکا ۔۔۔
اپنے لب اسکی پیشانی پر رکھتے ہوئے گویا ہوا ۔۔
” میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہو تم ”
بے اختیار تابین کی پلکیں جھک گئیں ۔۔۔۔
” ہاں میں نے دیکھا ہے۔۔ جواللہ کی چاہت پہ راضی ہو جائیں۔
اللہ انہیں وہ بھی دیتا ہے جو ان کی اپنی چاہت ہو "۔۔۔
وہ سوچتے ہوئے رب کا شکر ادا کرنے لگی ۔۔۔۔۔
۔***************۔
شام کے بڑھتے سائے میں اچانک بادل برسنے لگے ۔۔۔
گلی کے سب بچوں کو اکھٹا کر کے وہ اس بوندا باندی میں بھیگتے ہوئے لطف اٹھانے لگی ۔۔
” زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی ۔۔۔۔
بس فرق صرف اتنا ہے کہ میری ڈائری میں اللہ سے شکوے کم ہو گئے ہیں ۔۔
میں نے ان چیزوں پر راضی ہونا سیکھ لیا ہے جو وہ مجھے دیتا ہے ”
وہ آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرنے لگی ۔۔
اچانک بارش کی بوندوں کے ساتھ ساتھ گلاب کی پتیاں اس پر نچھاور ہوئیں ۔۔
وہ ڈر کر آس پاس دیکھنے لگی ۔۔جہاں کوئی بھی نظر نہ آیا ۔۔۔
یہ کیا بات ہوئی ۔۔۔وہ حیران سی اندر بڑھ گئی ۔۔۔
بھائی ۔۔۔۔۔۔۔!!! وہ خود کو جھاڑتے ہوئے خود میں گم جارہی تھی ۔۔جبھی سامنے سے کوئی آتا اسے دکھائی نہ دیا ۔۔
اللہ جی ۔۔۔وہ کرنٹ کھاتے ہوئے پیچھے ہوئی ۔۔
خود کو سمبھالتے ہوئے نظر سامنے کھڑ ے شخص پر گئی ۔۔
آ آپ ۔۔۔۔۔۔!! اچانک وہ سر پر دوپٹہ پہنتے ہوئے بولی ۔۔۔
باسط کے آجانے سے وہ بنا جواب لیئے آگے بڑھ گئی ۔۔
” یار یہ خام خا میں ہیروئن کے جو بھائی ہوتے ہیں نہ دل کرتا ہے منہ توڑ دوں ” وہ کڑتے ہوئے بولا ۔۔۔
دیکھ لو ۔۔۔۔کس سے بات کر رہے ہو ۔۔۔ باسط ہنسی دباتا ہوا اسے دھمکاتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔
وہ دل کی کیفیت کو سمبھالتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئی جبھی تابین کے ساتھ اسکے باقی گھر والوں کو دیکھ کر وہ حیران کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوئی ۔۔۔
پریشان کیوں ہو ۔۔۔۔تمہیں کھانے تھوڑئی آئے ہیں ۔۔تابین پیار سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولی ۔۔
بلکہ ۔۔۔اپنا بنانے آئے ہیں ۔۔۔۔۔تابین کی بات سمجھتے ہوئے وہ چہرہ جھکا گئی ۔۔
تو مناہل میڈم ۔۔آپ کے لئے ہم ولید کا رشتہ لائے ہیں کیا آپ کو قبول ہے ۔۔حدید کو آتے دیکھ کر تابین کو مستی سوجھی ۔۔
اوہ ۔۔۔اوہ ۔۔۔۔۔۔حدید نے وہیں سے ہانک لگائی ۔۔
ولید کا نام سن کر مناہل کے چہرے کا رنگ بھی زرد ہو گیا ۔۔۔
اوہ ۔۔۔۔سوری سوری ۔۔میرا مطلب ہے حدید ۔۔۔
ہاں ۔۔۔پتا نہیں نکاح کے بعد فوراً ہی تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔۔حدید نے کہا ۔۔
قبول ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔؟ تابین نے مناہل سے تصدیق چاہی ۔۔
بھائی ۔۔۔۔۔۔؟ وہ پریشان سی باسط کی جانب دیکھنے لگی ۔۔۔
اففف ۔۔۔۔حدید کے ساتھ ساتھ سب نے سر پر ہاتھ مارا ۔۔
یہ تمہاری زندگی کا فیصلہ ہے ۔۔تم خود کرو اسکی طرف کیا دیکھ رہی ہو ۔۔۔تابین نے ڈانٹنے والے انداز کے کہا ۔۔
مگر وہ پھر بھی باسط کے جواب کی منتظر تھی ۔۔
یار سالے بول بھی دے ۔۔۔۔۔۔حدید نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔۔دل چاہا اپنا سر پھوڑ دے یا باسط کا ۔۔۔
یار بول بھی دو نہ ستاؤ ہمارے مجنو کو ۔۔۔۔حذیفہ نے آتے ہوئے پیچھے سے آواز لگائی ۔۔۔
” اب میں جارہا ہوں خود کشی کرنے ۔۔۔خبردار ۔۔۔!! کسی نے روکا تو ” حدید کے اس طرح کہنے پر جہاں سب کی ہنسی چھوٹی تھی وہاں طائ جان کی تو جان ہی اٹک گئی تھی ۔۔
قبول ہے بھائی ۔۔۔۔۔باسط نے اسے روکتے ہوئے کہا ۔۔
پر مجھے قبول نہیں ۔۔۔
کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ حدید کے جواب پر سب ششدر رہ گئے ۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔۔۔میں پاگل ہوں جو اسے قبول کروں ۔۔۔مجھے تو انکے منہ سے سننا ہے ۔۔۔وہ باسط کی جانب دیکھتے ہوئے مناہل کی جانب دیکھتے ہوئے انکے پر زور دیتے ہوئے بولا ۔۔
کیا ہے ابے ۔۔۔۔۔!! تو کہے تو قاضی کو بلا لاؤں ۔۔۔حذیفہ اس پر چڑھ دوڑا ۔۔۔
” نیکی اور پوچھ پوچھ ” وہ دانت دکھاتے ہوئے بولا ۔۔
شرم کر ۔۔۔۔۔۔۔
تابین تم لے جاؤ بچی کو کمرے میں ۔۔ہم ذرا اسکی طبیعت ٹھیک کر کے آتے ہیں ۔۔حذیفہ تابین کو حکم دیتا ہوا حدید اور باسط کو اپنے ساتھ لیئے باھر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔
ارے ۔۔۔۔میرے کانوں کو میٹھا ” قبول ہے ” تو سنوادو ۔۔۔وہ بیچارہ تڑپتا ہوا باھر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔
۔*************۔
مہرون رنگ کے بھاری کامدار لہنگے میں پیاری سی دلہن بنی گھونگھٹ میں چہرہ چھپائے وہ سٹیج پر اسکے برابر میں بیٹھی تھی ۔۔
اب تو قبول ہے بول دو ۔۔وہ اسکی جانب جھکتے ہوئے بولا ۔۔۔
کیسی باتیں کڑ رہے ہیں آپ ۔۔۔بول تو دیا ۔۔۔۔
وہ تو قاضی صاحب کے سامنے بولا ہے مجھے بھی بول دو ۔۔
معصوم سے بندے کی معصوم سی خواہش ۔۔۔۔۔
اسکی بات پر مناہل ہنسنے لگی ۔۔
آپ ہر دن مجھے "قبول ہیں ”
آخر کار اس نے بول ہی دیا ۔۔
ہائے میں مر جاؤں ۔۔۔۔وہ دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کمال کی اداکاری کرتے ہوئے بولا ۔۔
بس مجنو ۔۔۔۔بہت ہو گیا ۔۔چلو اب تصویر نکلواتے ہیں ۔باسط کے ساتھ ساتھ تابن اور حذیفہ نے آتے ہوئے کہا ۔۔
امل کہاں ہے ۔۔۔۔؟ رکو میں بلاتی ہوں ۔۔
ایک منٹ ۔۔میں بلاتا ہوں تم بیٹھو ۔۔۔باسط تابین کو بٹھاتے ہوئے خود آگے بڑھ گیا ۔۔
اواو ناکام عاشق ۔۔۔۔۔ابھی قاضی بیٹھا ہے فکر نہ کر ۔
پیچھے سے حدید نے ہانک لگائی ۔۔
وہاں بیٹھے سب کی ہنسی چھوٹ گئی ۔۔۔
کہاں تھی تم ۔۔۔اسے کچن سے نکلتے دیکھ کر وہ جلدی سے پوچھنے لگا ۔۔
وہ کوئی جواب دیتی اس سے پہلے اسکے پیچھے نوشین بھی آنکھ کا کونہ صاف کرتے ہوئے نمودار ہوئی ۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔؟ اسکو دیکھتے ہی باسط نے پوچھا ۔۔
کچھ باتیں تھیں ۔۔جنکا کہہ دینا ہی ٹھیک تھا تمہارے لیئے ۔۔امل کے لیئے ۔۔اور سب سے بڑھ کر میرے لیئے ۔۔۔
دولت کی لالچ میں آکر میں نے نہ جانے کتنے دلوں کی آہ لی ہے ۔۔نہ جانے کتنے گناہ کیئے ہیں ۔۔اور ۔۔۔
آئندہ تم اس سے دور ہی رہنا سمجھ گئی ۔۔۔وہ اسے وارن کرتا ہوا امل کا ہاتھ تھامے اسکی بات نہ سننے آگے بڑھ گیا ۔
اب تجھے میں بھول جانے والا ہوں
یاد کرنا یاد آنا ، سب حرام ۔
وہ پیچھے سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی ۔۔
سچ کہا ہے کسی نے ۔۔۔۔
واقعی میں محبتوں کا کوئی مول نہیں ہوتا ۔۔
وہ تو بغیر سوچے سمجھے ہر کسی سے ہو جاتی ہے ۔۔
جیسے ۔۔اسے تم سے ۔۔اور تمہیں مجھ سے ۔۔۔۔۔ وہ سوچتے ہوئے اسکی جانب دیکھ کر مسکرانے لگی جبھی کیمرے نے یہ لمحہ ہمیشہ کے لئے قید کر لیا ۔۔۔
امل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ختم شد "
اشرف یعقوبی: جدید احساسات اور خوبصورت خیالات کا شاعر
اشرف یعقوبی کا کولکاتا مغربی بنگال سے ہے، آپ جدید احساسات اور خوبصورت خیالات کے شاعر ہیں ان کی غزل...