؎ چشم رہتی ہے اب پُرآب بہت.
دل کو میرے ہے اضطراب بہت.
“کہاں غائب رہتے ہو آج کل زرک جہاں؟ مینیجر بتا رہا تھا کہ کئی دنوں سے تم نے فیکٹری کا چکر بھی نہیں لگایا.” چھری کانٹے سے بوائل انڈہ کاٹتے اس کے ہاتھ تھم گئے. وہ وہاں ہو کر بھی وہاں نہیں تھا. اس نے غائب دماغی سے اسفند جہاں کو دیکھا:
“زرک..! کیا ہوا ہے تمہیں.؟” اسفند جہاں کے لہجے میں فکر مندی جھلک رہی تھی، وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا، انھیں بہت عزیز تھا. اس نے چونک کر انہیں دیکھا ایک گہری سانس خارج کی اور نفی میں سر ہلا دیا. “سب ٹھیک ہے ڈیڈی! کچھ بھی نہیں ہوا.”
“اور اپنا حلیہ دیکھا ہے تم نے زرک جہاں.؟ کچھ یاد بھی ہے کہ کتنے دن سے جِم نہیں گئے؟” بیگم اسفند جہاں کو بھی آج ہی موقع ملا تھا اسے لتاڑنے کا کتنے دنوں بعد تو آج وہ ناشتہ بھی ساتھ کر رہا تھا ورنہ جانے کہاں غائب رہتا تھا.
“کیا ہوا ہے میرے حلیے کو؟” اس نے ناگواری سے دریافت کیا. چہرہ نئی نئی شیو کی وجہ سے دمک رہا تھا لیکن آنکھوں کی وحشت چھپانا اب اس کے بس میں نہیں تھا.
“اب آپ کو میری جاسوسی کروانے کی ضرورت کیوں پیش آنے لگی ہے ممّی؟” نجانے کیا ہوا تھا کہ اس کا مزاج ایک دم سے بگڑا تھا. ورنہ ان دونوں کے سامنے وہ حد درجہ ادب سے ہی پیش آتا تھا.
“میں کہاں جاتا ہوں؟ کیا کرتا ہوں؟ اس سب سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے. مجھے سخت ناپسند ہے یہ سب.” چھری کانٹا پلیٹ میں پٹخ کر جھٹکے سے اٹھا اور وہاں سے چلا گیا. ان دونوں کے لیے ہی اس کا یہ رویّہ ناقابلِ فہم تھا. دونوں کی نظریں باہم ملیں لیکن جواب کسی کے پاس بھی نہیں تھا.
**،،،***،،،***،،،***،،
” تم بتانا پسند کروگے کہ ہوا کیا ہے تمہیں؟” اسید بھی اس کے معمول سے تنگ آچکا تھا کچھ خود بھی اکیلے اب اس کا دل نہیں لگتا تھا زرک نے دو ہفتوں سے اس کے ساتھ کہیں بھی آناجانا ترک کیا ہوا تھا لیکن آج اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا.
زرک جہاں نے بےبسی سے اسے دیکھا اور یوں گویا ہوا.
ؔ؎ تنگ آئے ہیں دو عالم تیری بیتابی سے
چین لینے دے تپِ سینۂِ سوزاں ہم کو
اسید اس کے سامنے بیٹھا اور بولا:
“کونسی آگ ہے جو تمھیں جلا رہی ہے زرک جہاں؟”
“کیا بتاؤں تمھیں اب..”
“کہیں میرا خدشہ درست تو نہیں زرک..؟ تم کہیں کسی کو دل تو نہیں دے بیٹھے؟” اسید کی بات نے اس کا جیسے دل مٹھی میں لیا تھا.
“زرک جہاں خود سے اپنا دل کسی کو دے دیتا.. ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا. یہ تو تقدیر نے چال چل دی.” اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی تھی.
کرب آمیز سی خاموشی چہارسُو پھیلی تھی. اس سکوت کو زرک جہاں ہی کی آواز نے توڑا تھا
ؔ؎ تشخیص بجا ہے مجھے عشق ہوا ہے
نسخے میں لکھو ملاقات مسلسل
“اسید میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اس کا نام کیا ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ جب سے میں نے اس کی ایک جھلک دیکھی ہے تب سے اب تک ایک لمحے کے لیے نہ دل سے اس کا خیال گیا ہے. نہ نگاہوں کے سامنے سے اس کا چہرہ ہی محو ہوا ہے. اور اب مجھے لگتا ہے کہ میرا دل اس کے فراق میں گُھل کر خاکستر ہو جائے گا. کسی پل چین ہی نہیں پڑتا… میں روز اس کے گھر کے سامنے جاتا ہوں اور مایوس پلٹ آتا ہوں کہ شاید اس کی ایک جھلک دیکھنے کو مل جائے اور دل کو سکون آ جائے پر…” آج وہ کھل ہی گیا تھا سارا اضطراب اور بےچینی کہہ سنائی تھی.
“مجھے نہیں پتا تھا کہ مذاق میں مانگی جانے والی وہ دعا قبول ہو جائے گی زرک جہاں.!” اسید کو پریشانی نے آن گھیرا تھا.
“چاہا تو میں نے ایسا ہی تھا.” ایک بار پھر سے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اس کی پریشانی زائل کرنا چاہی. “میں کیا کروں اسید.. میرا دل کسی روز اس غم سے پھٹ جائے گا. میں چاہ کر بھی اس چہرے کے اثر سے نکل نہیں پا رہا.” وہ نہ بھی بتاتا تب بھی اسید سے اس کی بےچینی اور وحشت چھپی نہیں تھی لیکن صد افسوس کہ ہمیشہ اس کے ہر معاملے میں اسے مناسب مشوروں سے نوازنے والے اس کے بہترین دوست کو بھی آج کوئی حل نہیں سوجھ رہا تھا.
ؔ؎ نارِ فراق سے ہے، جوں شمع، دل کو ہر شب
احراق و داغ و گریہ، سوز و گداز، پانچوں
**،،،***،،،***،،،***،،،**
رات کا تیسرا پہر تھا آنکھ بس ایک پل کو ہی لگی تھی کہ پھر سے کھل گئی تھی. وہ کھڑکی میں آ کھڑا ہوا. درمیانی راتوں کا چاند خاموشی سے آسمان میں محوِ سفر تھا. اس کا دل بھر بھر آرہا تھا. آج سے پہلے اس نے خود کو اتنا بےبس کبھی محسوس نہیں کیا تھا.
“زرک جہاں.! جس کی ایک جھلک نے تمہیں یوں سب سے بیگانہ کر دیا ہے اسے تو پتا بھی نہیں ہوگا کہ کوئی ہے جو اس کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد دیوانہ ہوا پھرتا ہے. کیسا وقت آیا ہے آج تم پر زرک جہاں، کہ تمہاری طلب میں کئی لڑکیاں سب وار دینے کو تیار ہیں اور تم خود جس کی طلب میں سرگرداں ہو اسے علم ہی نہیں کہ کوئی جان سے جا رہا ہے.” دل اس بےبسی پر بلک رہا تھا.
ؔ؎ شدّتِ عشق خیر ہو تیری.
کیسے عالم میں لا چھوڑا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
کچھ عجیب سا احساس تھا جس نے اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا تھا. سردی کے موسم میں بھی اس کا جسم پسینے میں شرابور تھا. بنا آہٹ کیے وہ بستر سے نکل کر باہر صحن میں آئی تھی. دل اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا جا رہا تھا اور اس بےچینی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی. تب اسے یوسف محمد کی بات یاد آئی:
“دھیے.! ہم غریبوں کے پاس اللّٰہ کے سوا کوئی سہارا ہوتا ہے نہ ہی آسرا. تو خوشی ہو یا غم، سکون ہو یا بےچینی ہر بات بس اللّٰہ سے ہی کہنے سننے کی عادت ڈال لینا. یقین جان دھیے.! تُو کبھی خود کو اکیلا نہیں پائے گی.” وہ اٹھی اور ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے لگی. بےخودی کا ایسا عالم تھا کہ سردی کی شدت اور پانی کی یخ بستگی، کچھ بھی محسوس نہیں ہوا تھا. دو نفل پڑھ کر دعا مانگنے کے لیے ہاتھ بلند کیے تو سارے لفظ ہی کہیں کھو گئے تھے. آنکھیں آپ ہی آپ برسنے لگی تھیں.
“یا اللّٰہ.! دل کہتا ہے کوئی آزمائش سی آنے کو ہے لیکن اللّٰہ مجھ پر رحم کرنا. وہ بوجھ نہ ڈالنا جسے سہار نہ پاؤں اور نافرمان ٹھہروں” دعا مانگ کر دوبارہ سے بستر میں آگئی یہ سوچ کر کہ تہجّد کے لیے اٹھتے یوسف محمد اسے جاگتا دیکھ کر پریشان نہ ہو جائیں.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
یوسف محمد فجر کی ادائیگی کے لیے گھر سے نکلے تو آج پھر اس نوجوان کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گئے. کئی دن سے وہ روزانہ اسے وہاں دیکھتے تھے. انہیں گاڑیوں کی اقسام اور کمپنیوں کا کچھ علم نہیں تھا لیکن گاڑی کی چمک دمک اور اس نوجوان کے انداز و اطوار اور چہرے کے نقوش بتاتے تھے کہ وہ کسی بڑے گھرانے کا چشم و چراغ ہے. انہیں ہر روز اس کا اپنے ہی گھر کے سامنے کھڑے رہنا عجیب لگنے لگا تھا. تبھی انہوں نے اس نوجوان کو اپنی طرف آتے دیکھا تھا. اور وہ نا چاہ کر بھی رک گئے تھے. زرک جہاں نپے تلے قدموں سے چلتا عین ان کے سامنے آ کھڑا ہوا.
“السلام علیکم.!” زرک جہاں نے کتنی دقّتوں سے یہ چند الفاظ کہے تھے، یہ وہی جانتا تھا.
“وعلیکم السلام.!” یوسف محمد نے نرمی سے اس کے سلام کا جواب دیا. اور اپنے مخصوص لہجے میں بولے.
“جی پتر.! ایسا کون سا مسئلہ یا پریشانی ہے جو آپ کو ہر روز یہاں تک لے آتی ہے. ؟” اس نے کچھ کہنے کے لیے لفظ منتخب کرنا شروع کیے. اور ایک نگاہ اس گھر کی جانب ڈالی.
“وہ گھر…”
“میرا ہی ہے پتر.؟ کیوں کیا ہوا.؟” وہ چپ ہوا بھلا کیسے بول دیتا ایکدم سے. زبان ایسی بےزبان آج سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی. وہ جو بڑے سے بڑے عہدیدار اور بزنس مین کو خاطر میں نہ لاتا تھا آج ایک عام سے مزدور کے سامنے جھجک گیا تھا. اور کتنا بےخبر تھا کہ اتنے دنوں سے وہاں آنے کے باوجود اس نے کبھی ان کے اسی گھر سے آنے جانے پر دھیان نہیں دیا تھا.
“بات یہ ہے کہ..” لفظوں نے زبان کا ساتھ چھوڑ دیا.
” بات یہ ہے پتر.! فجر کی نماز کا وقت نکل رہا ہے. چل مسجد چلتے ہیں راستے میں تجھے جو کہنا ہے کہہ دینا.” اور وہ چپ چاپ سر جھکائے ان کے ساتھ ہو لیا.
“آؤ پتر نماز ادا کرو” سارا راستہ وہ خاموشی سے چلتا رہا. مسجد کے دروازے پر رک کر انہوں نے اسے بھی نماز کی دعوت دی. تب نفی میں سر ہلاتے اس میں جانے کیسے اتنی ہمت آگئی کہ بول پڑا:
“میں اس لڑکی سے جو… اس گھر میں رہتی ہے، وہ شاید آپ کی بیٹی ہو، میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں.” ایک ہی سانس میں بات مکمل کر کے وہ ان کے جواب کا منتظر ہوا. وہ دیوار نہ تھام لیتے تو گر جاتے. انہیں سمجھ نہ آئی کہ کیا بولیں. ہوتا کوئی اور تو اس بات پر خوشی سے پھولے نہ سماتا لیکن وہ اپنی چادر میں خوش و مطمئن رہنے والے تھے. ان کے لیے یہ بات خوشی کم پریشانی کا باعث زیادہ بنی تھی. ادھر نماز کا وقت نکل رہا تھا اور لوگوں کی آمدورفت بھی جاری تھی. ہر آنے والا انہیں ایک اجنبی کے ساتھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا.
“وہ اسے لیے ایک کونے میں ہوئے.
“دیکھ پتر.! تو اونچے گھرانے کا چشم و چراغ لگتا ہے. اور ہم ٹھہرے کمی کمین مزدور لوگ. بھلا مخمل میں ٹاٹ کا پیوند بھی اچھا لگتا ہے کیا؟ میں نہیں جانتا کہ تو میری دھی رانی کو کیسے جانتا ہے؟ تو نے اسے کہاں اور کیسے دیکھا؟ لیکن پتر یہ ممکن نہیں. زمین اور آسمان کا میل نہیں ہو سکتا. تو آسمان ہے اور میری دھی زمین ہے. اور میں نہیں چاہتا کہ تجھ جیسے آسمان کی چاہ میں، میری دھی زمین ہی کی طرح پیروں میں رول دی جائے.” ناصحانہ انداز میں کہتے انہوں نے بہت سبھاؤ سے اسے منع کیا.
“میری نماز کا وقت نکل رہا ہے پتر.!” جماعت کھڑی ہونے میں بس چند ہی لمحے باقی تھے. وہ جانے لگے کہ زرک جہاں نے ان کا ہاتھ تھام لیا.
“میری بات سن جائیے بس.!” وہ رک گئے کچھ تھا اس کے لہجے میں کہ وہ بےچینی محسوس کرنے لگے تھے.
“میں نہیں جانتا تھا کہ وہ گھر آپ کا ہے اور وہ آپ کی بیٹی ہے. میں تو اس کا نام تک نہیں جانتا، مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ جس کا ذکر کر رہا ہوں کیا وہی ایک ہے اس گھر میں یا کوئی اور بھی… میں تو بس یہ جانتا ہوں سر.! کہ جس دن سے نادانستگی میں اس کی ایک جھلک دیکھی ہے تب سے آج تک میں نے ایک لمحے کا سکون نہیں پایا. میری آنکھوں سے نیند روٹھ گئی ہے. مجھے کسی طرف چین نہیں آتا…مجھے آپ کی بیٹی سے عشق ہو گیا ہے اور یہ عشق میرے اختیار میں نہیں ہے. اب لگتا ہے کہ اسی عشق میں جل کر خاکستر ہو جاؤں گا.” وہ ان کے ہاتھ تھامے ہوئے تھا کوئی اور وقت ہوتا تو ہاتھ پکڑنا دور، زرک جہاں ان کے پاس سے گزرنا بھی توہین سمجھتا.. یہ عشق بھی کیسے کیسے دن دکھاتا ہے انسان کو، کہ ایک لمحے میں سارا غرور و تکبّر خاک میں ملا دیتا ہے. یوسف محمد نے ایک نظر میں اس کے الفاظ میں چھپی وارفتگی اور سچائی کو پرکھ لیا تھا. وہ زمانہ دیکھ چکے تھے انسان شناس تھے انہوں نے زرک جہاں کے بات کرنے کے انداز سے ہی اس کی شخصیت کو جانچ لیا اور دل میں بولے:
“واہ رے میرے مولا.! تیری شان نرالی. کیسے بندے کی اکڑ مٹّی میں ملا دیتا ہے. اور کیسے شاہ کو مجھ فقیر کے در پر لے آیا.” لیکن اس سوچ کے برعکس وہ نہایت نرمی اور تحمّل سے گویا ہوئے:
“اس عشق کا اپنا ہی الگ مسلک ہوتا ہے پتر.. نہ یہ ہماری مرضی سے ہمیں اپنا مرید کرتا ہے اور نہ ہی ہماری مرضی سے ہمیں آزاد کرتا ہے. یہ تو بس اپنی مرضی سے کسی کو بھی نوازتا ہے اور جب تک اس کا جی چاہتا ہے اپنا اسیر کیے رکھتا ہے. ہم انسان اشرف المخلوقات ہو کر بھی اس عشق کے ہاتھوں بےبس رہتے ہیں.” زرک جہاں سچے دل سے ان کی ایک ایک بات پر ایمان لایا تھا خود اس کے ساتھ بھی تو یہی سب ہوا تھا. اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اس مقام پر آ پہنچے گا کہ اسے یوں گڑگڑانا پڑے گا.
“اور جہاں تک بات شادی کی ہے تو پتر.! ہم کمی لوگ ہیں ہم اتنی جسارت نہیں کر سکتے کہ تجھ ایسے لوگوں کی برابری کریں. میں مانتا ہوں کہ حسب نسب کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود مجھے نہیں لگتا کہ میری دھی رانی…”
“میں سچ کہہ رہا ہوں میں نہیں رہ سکتا اب آپ کی بیٹی کے بغیر” اس نے بیتابی سے ان کی بات کاٹی تھی. “آپ اگر کہیں! تو میں آج ہی سب چھوڑ چھاڑ کر آپ کے پاس آ جاؤں” وہ عجیب سی بےخودی کا عالم تھا جس نے زرک جہاں کی زبان سے وہ الفاظ نکلوائے تھے.
“نہ پتر نہ..!” انہوں نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا:
“میں بھلا کون ہوتا ہوں تجھ سے یہ کہنے والا کہ اپنے ماں باپ کو اور اللّٰہ نے جن نعمتوں سے تجھے نوازا ہے ان سب کو چھوڑ دے. میری کیا مجال کہ کسی کے مقدّر کا فیصلہ کروں. دیکھ پتر.! جو بھی نام ہے تیرا.” وہ اس کے قریب ہوئے اور کہا.
“یہ جو دل ہے نا اب اس عشق کے ہاتھوں بہت خوار کروائے گا تجھے” اور اس کے سینے پر دل کے مقام پر انگلی رکھ کر بولے:
“تو اب تُو تیرے میرے دَر پر جانا چھوڑ اور ایک دَر کا ہو جا.” اس نے ایک ایک لفظ دل میں اتارا تھا وہ مزید گویا ہوئے:
“یہ جو عشق کی آگ تیرے سینے میں بھڑکی ہے اسے اللّٰہ کی رحمت ہی ٹھنڈا کرے گی. کیونکہ یہ آگ لگائی بھی تو اسی ذات نے ہے. کیا پتا کوئی اونچا مقام تیرے لیے لکھ دیا گیا ہو.” نماز ہو چکی تھی. اس نے مایوسی سے انہیں دیکھا اور واپسی کے لیے گاڑی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے سوچا “جب مانگے سے انسان کا عشق نہیں ملا تو کوئی اونچا مقام کیا ملے گا؟ مجھے تو بس محبوب چاہیے، اونچا مقام لے کر کیا کرنا ہے؟” مایوسی سی مایوسی تھی جو رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی.
ؔ؎ آتش جو عشق کی سب چھائی ہے تن بدن پر.
پہلو میں رہ گیا ہے ہو کر اب کباب دل.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
یوسف محمد سے ملنے اور ان سے بات کرنے کے بعد اس کا حال پہلے سے بڑھ کر قابلِ رحم ہو گیا تھا. اسے کون بتاتا کہ کون سا دَر پکڑے. اللّٰہ سے اُس نے کبھی کچھ مانگا ہی نہیں تھا، بلکہ اسے تو مانگنا سکھایا گیا ہی نہیں تھا. خالق و مخلوق کے درمیان جو رشتہ ہوتا ہے وہ اس رشتے سے ایسےہی لاعلم تھا جیسے وہ اس پری وِش کے نام سے ناواقف تھا. وہ الجھن میں تھا کہ کس سے پوچھے کہ کیسے مانگا جاتا ہے؟
؎ ﺗﯿﺮﮮ ﻋﺸﻖ ﻧﭽﺎﯾﺎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﮭﯿّﺎ ﺗﮭﯿّﺎ
ﺗﯿﺮﮮ ﻋﺸﻖ ﻧﭽﺎﯾﺎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﮭﯿّﺎ ﺗﮭﯿّﺎ
ﺗﯿﺮﮮ ﻋﺸﻖ ﻧﮯ ﮈﯾﺮﺍ، ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯿﺘﺎ.
تبھی اسے ممّی کا خیال آیا ساتھ یہ بھی یاد آیا کہ بچپن میں وہی اس کی کبھی کبھار مدد بھی کر دیا کرتی تھیں. اس نے اُن کے کمرے کا دروازہ بجایا اور اندر آنے کی اجازت مانگی. وہ قدِآدم آئینے کے سامنے بیٹھیں اپنے میک اپ کو فائنل ٹچ دے رہی تھیں. اسے دیکھ کر حیران ہوئیں اور پھر سر کے خفیف سے اشارے سے اسے اندر بلایا.
“کیا بات ہے زرک جہاں.! آج یہاں کیسے؟” وہ ان کے کمرے میں شاذونادر ہی آتا تھا.
“مجھے آپ سے ایک بات پوچھنا تھی ممّی.” وہ دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا بےچین و مضطرب سا… وہ ہاتھ روک کر اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگیں.
“ممّی.! کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ اللّٰہ سے کچھ کیسے مانگا جاتا ہے؟”
ایک لمحے کو وہ حق دق رہ گئیں.. اس نے بات ہی کچھ ایسی کی تھی انوکھی اور ناقابلِ یقین.
“کیا مانگنا ہے تمہیں اللّٰہ سے زرک جہاں.؟ حیرت ان کے لہجے سے عیاں تھی. میک اپ کرنا ہی بھول چکی تھیں.
“ممّی جو میں نے پوچھا پلیز وہ بتائیے، سوال پر سوال مت کیجیے” وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا.
“آپ جانتی ہیں مجھے وضاحتیں دینا پسند نہیں ہے” وہ پھر اپنی پرانی جون میں آیا تھا.
“لیکن زرک جہاں آپ کو کیا ضرورت ہے مانگنے کی؟ سب کچھ تو ہے آپ کے پاس.” ان کی سوچ پر زرک جہاں کو غصّہ آنے لگا تھا.
“ممّی مجھے کچھ مانگنا ہے تبھی آپ سے پوچھ رہا ہوں. پلیز بتا دیں” غصّہ ضبط کرکے وہ بہت بےبسی سے بولا.
“تمہیں کیا چاہیے بیٹا.! مجھے بتاؤ میں لا دوں گی.” وہ اس کے قریب آئیں اور اس کا چہرہ سہلا کر بولیں.
“ممّی وہ کوئی گاڑی یا سمارٹ فون نہیں ہے جو آپ مارکیٹ سے لا دیں گی” ان کا ہاتھ جھٹک کر بولا.
“جو مجھے چاہیے، وہ آپ نہیں دے سکتیں ممّی، وہ مجھے مانگ کر ہی ملے گی.” اور سیدھا ہو کر بولا.
“خیر..! شاید میں ہی غلط جگہ پر آگیا. سوری ممّی.” اور کمرے سے نکل آیا. بیگم اسفند جہاں کے لیے وہ آئے دن عجیب تر ہوتا جا رہا تھا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
“سہیل میں نے تم سے ہاشمی صاحب کی فائل لانے کو کہا تھا کہاں ہے وہ فائل؟ دن بدن بہت لاپروا ہوتے جا رہے ہو تم.” اسفند جہاں نے بری طرح اپنے مینجر کو ڈانٹا تھا انہیں اپنی مطلوبہ فائل مل کر نہیں دے رہی تھی.
“سر وہ فائل زرک جہاں صاحب نے چیک کرنی تھی، تین دن سے ان کے آفس کی ٹیبل پر پڑی ہے لیکن تین دنوں سے وہ بھی آفس نہیں آئے.” سہیل نے ڈرتے ڈرتے اطلاع دی.
“کیا…؟” وہ خود آج ہی چار روزہ بزنس میٹنگ میں شریک ہو کر کراچی سے واپس آئے تھے انہیں نہیں پتا تھا کہ زرک جہاں نے ایک دن بھی آفس کا چکر نہیں لگایا. “ٹھیک ہے تم جاؤ اور وہ فائل مجھے لا دو” سہیل کے جانے کے بعد انہوں نے اس کا نمبر ملایا. پہلی مرتبہ نمبر دو بار رنگ کے بعد بزی کر دیا گیا جب دوبارہ کال ملائی تو نمبر آف تھا. ان کا پارہ ہائی ہو گیا فون ٹیبل پر پٹخ کر ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اور کافی کا آرڈر دیا. بزنس کے معاملے میں وہ خود کی کوئی کوتاہی معاف نہ کرتے کجا کہ کسی اور کی کریں. ناممکن. وہ گھر جا کر اس کی خبر لینے کا پکا ارادہ کیے ہوئے تھے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
وہ گاڑی میں تھا جب اسفند جہاں کا فون آیا. اس نے نمبر بزی کیا پھر فون ہی آف کردیا. اور گاڑی سائیڈ پر روک لی. آج چوتھا دن تھا کہ وہ آفس نہیں گیا تھا. اسے اندازہ تھا ڈیڈی کے غصّے کا، لیکن پروا نہیں. اس کا دل ہی نہیں کرتا تھا کچھ بھی کرنے کو تو کیا کرتا. ابھی بھی اسے پتا نہیں چلا تھا کہ کیسے مانگے.؟ کچھ ممّی کی باتیں بار بار اس کا ذہن منتشر کر رہی تھیں کہ اسے کیا ضرورت تھی کچھ مانگنے کی.. اس نے باہر کی جانب دیکھا تو چند قدموں کے فاصلے پر ایک مسجد دکھائی دی. کچھ سوچ کر وہ گاڑی سے نکلا اور مسجد کی طرف قدم بڑھائے. داخلی دروازے کے قریب اس نے جوتے اتارے اور اندر مسجد کے صحن میں ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا اور نماز اور ذکر و دعا میں مشغول لوگوں کو دیکھنے لگا. تبھی اس نے ایک بزرگ کو دیکھا جن پر دعا مانگتے ہوئے رقّت طاری ہو گئی تھی اور وہ رو رو کر اللّٰہ سے مانگ رہے تھے.
“تو کیا مجھے بھی ایسے ہی مانگنا چاہیے” اس نے خود سے سوال کیا؟ دل نے “ہاں” کہا تو وہ انہی کے سے انداز میں دو زانو ہو کر ہاتھ پھیلا کر بیٹھ گیا. لیکن صرف ظاہری انداز و اطوار اختیار کر لینے سے وہ ان جیسا گریہ تو نہیں لا سکتا تھا اپنی دعا میں. کتنی ہی دیر ہاتھ پھیلائے خالی الذہنی کی سی کیفیت میں بیٹھے گزر گئ. نہ دعا یاد تھی نہ حرفِ دعا ہی ذہن میں تھے.
“کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں بیٹا.؟ وہی بزرگ جو کافی دیر سے اس کا مشاہدہ کر رہے تھے اٹھ کر اس کے پاس آئے اور اسے مخاطب کیا. ہاتھ دعا سے گرا کر اس نے اثبات میں سر ہلا دیا. اب وہ اس مقام پر تھا کہ اسے کوئی بھی شخص راہ دکھاتا وہ اس کے پیچھے چل پڑتا. اس عشق نے آغاز ہی میں اس کی سدھ بدھ چھین لی تھی.
“یہاں سے ایک گلی چھوڑ کر ہی میرا گھر ہے. جہاں صرف میں اور میری بیوی ہی ہوتے ہیں، آؤ وہیں چل کر باتیں کرتے ہیں. غضب کی چائے بناتی ہے میری زوجہ.” انہوں نے کہا. وہ انکاری ہوا.
“نہیں نہیں سر.! ہم یہیں بات کر لیتے ہیں”
“ارے اٹھو بیٹا.! کیا لڑکیوں کی طرح نخرے کر رہے ہو” انہوں نے کمال بےتکلفی سے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اٹھایا اور اسی طرح ہاتھ پکڑے پکڑے باہر لے آئے مسجد کے احاطے سے باہر آکر وہ ملتجیانہ لہجے میں بولا.
“میں معذرت چاہتا ہوں سر..”
“معذرت کی بات نہیں ہے بیٹا.! مجھے لگ رہا ہے کہ تمہیں کوئی سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ درپیش ہے کیونکہ تمہاری عمر کے نوجوانوں میں ایسی غائب دماغی کی کیفیت نہیں ہوتی. اور نا ہی میں نے تم سے پہلے کسی میں دیکھی.” وہ نرمی سے بولے.
“اور اللّٰہ کے گھر میں دنیاوی باتیں نہیں کرنی چاہییں، بس اسی لیے تمہیں ساتھ چلنے کی دعوت دی. تمہاری رہنمائی کروں تو شاید مجھے مغفرت کا پروانہ مل جائے کہ اللّٰہ کے بندے کو راستہ دکھایا” اس نے مزید بحث مناسب نہ سمجھی اور ان کے ساتھ ہو ہو لیا. گھر پہنچ کر انہوں نے اسے بیٹھک میں بٹھایا اور بیوی کو چائے بنانے کا کہہ کر آئے.
“کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ اللّٰہ سے کیسے مانگا جاتا ہے؟” ان کے استفسار پر اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد پوچھا.
“جس طرح دعا مانگتے ہوئے آپ رو رہے تھے ایسے مجھے کب اللّٰہ سے کچھ مانگنا آئے گا؟ میں بھی چاہتا ہوں کہ اسی طرح اللّٰہ سے کچھ مانگوں، لیکن مجھے مانگنا آتا ہی نہیں. کیا آپ مجھے مانگنا سکھا سکتے ہیں؟” اس کی بےبسی لفظ لفظ سے عیاں تھی. اور وہ بھی اس کے عجیب و غریب مطالبے پر حیران تھے. مناسب الفاظ مجتمع کرکے کہنے لگے:
“بیٹا یوں اللّٰہ سے مانگنا یا دعا میں رونا یہ سب سکھانے کی چیزیں نہیں ہیں، انسان کو جب اپنے گناہ، اپنی خطائیں اور کوتاہیاں یاد آتی ہیں تو خودبخود رونا آجاتا ہے. جب بندہ یہ سوچتا ہے کہ وہ کیسی عظیم ہستی کے حضور سر جھکائے ہوئے ہے تو دعا میں رقّت آ ہی جاتی ہے، یہ سب چیزیں سکھائے سے نہیں آتیں. یہ تو دینے والے کی دین ہیں جس مرضی کو دیدے.”
“اس کا مطلب ہے کہ مجھے مانگنا آئے گا ہی نہیں.” وہ رو دینے کو تھا.
“میں نے ایسا تو نہیں کہا بیٹا.”
“سر.! کیا اللّٰہ سے مانگنے کا کام صرف غریبوں کا ہوتا ہے؟ بندہ اگر امیر ہو تو کیا اسے مانگنا نہیں چاہیے.؟” دل میں دبا سوال زبان تک آ ہی گیا تھا.
“نہیں بیٹا.! شاہ ہو یا گدا، سبھی ہمیشہ اس کے محتاج رہتے ہیں اور اسے بھی یہ بہت پسند ہے کہ اس کے بندے ہر نعمت حاصل ہونے کے باوجود بھی اس سے مانگیں. اور اس میں امیر غریب کی تو کوئی قید ہی نہیں.”
“تو کیا وہ امیروں کو بھی مانگے سے ایسے ہی دیتا ہے جیسے غریبوں کو دیتا ہے.؟”
“ہاں بیٹا.! وہ ہمارا رب ہے ساری دنیا کا خالق و مالک ہے وہ بلا شراکت اپنی تمام مخلوقات کا ہے. جتنی وہ میری سنتا ہے اتنی ہی وہ تمہاری اور دوسرے بندوں کی بھی سنے گا. اس کے بندے خلوت و جلوت، سفر و حضر میں کہیں سے بھی اسے پکاریں، جن الفاظ میں ان کا جی چاہے پکاریں وہ سب کو سنتا اور نوازتا ہے اور ایسا کرتے وقت وہ بندے کی امیری یا غریبی نہیں دیکھتا وہ بندے کا دل دیکھتا ہے اس کا اخلاص دیکھتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ بندہ جو مانگ رہا ہے وہ اس کے بندے کے لیے بہتر بھی ہے یا نہیں. اور اگر مانگی گئی چیزبندے کے حق میں بہتر نہ ہو تو اللّٰہ اس کا بہترین نعم البدل عطا کرکے بندے کے دل کو سکون دیتا ہے.”
زرک جہاں ان کی آخِری بات سے متفق نہ ہوا.
“من چاہی چیز نہ ملنے پر بندہ کیسے مطمئن ہو سکتا ہے سر.؟ مجھے آج بھی اپنا من پسند لباس یا ایک قلم بھی من چاہا نہ ملے تو میں مطمئن نہیں ہوتا تو پھر دعا میں مانگی من پسند چیز نہ ملنے پر کیسے مطمئن ہوا جا سکتا ہے.؟”
“میں تم سے متفق ہوں بیٹا، لیکن جن بندوں کے نصیب میں اللّٰہ کا شکرگذار بندہ ہونا لکھ دیا جاتا ہے، پھر وہ اپنے رب کے ہر فیصلے سے مطمئن ہونے لگتے ہیں.” اس نے سر اثبات میں ہلایا اور آخری بات پوچھی.
“اگر میں اللّٰہ سے کچھ مانگوں تو کیا وہ مجھے دے گا؟” انہوں نے اثبات میں سر ہلایا.
“بھلے جو میں مانگنا چاہتا ہوں اس کا ملنا ناممکن ہو؟”
“اس کے لیے کچھ ناممکن نہیں ہے بیٹا. وہ ایک کُن سے سب کر دیتا ہے.”
“میں کچھ بھی مانگ لوں مجھے ملے گا” وہ ایک بار پھر بےیقینی سے پوچھ رہا تھا.
“آپ کو کیا مانگنا ہے اللّٰہ سے بیٹا.؟” تبھی چائے آگئی ان کی بات ادھوری رہ گئی چائے کا ایک کپ اسے تھما کر دوسرا کپ ہاتھ میں پکڑے انہوں نے اپنا سوال دہرایا. اس نے ان کا سوال یکسر نظرانداز کیا اور بولا:
“اگر میں اللّٰہ سے اس کے کسی بندے کو ہی مانگوں تو کیا مجھے ملے گا.؟ وہ چائے پینا بھول کر اسے دیکھے گئے. سوال اتنا حیران کن نہیں تھا جتنا اس کا بیتاب لہجہ حیران کن تھا. وہ سمجھ گئے تھے کہ اس نوجوان کے سر میں کوئی عجب سودا سمایا تھا.
ؔ؎ ﺗﯿﺮﮮ ﻋﺸﻖ ﻧﭽﺎﯾﺎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﮭﯿّﺎ تھیا
ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﺯﮨﺮ ﭘﯿﺎﻟﮧ، ﻣﯿﮟ ﺗﺎﮞ ﺁﭘﮯ ﭘﯿﺘﺎ
**،،،***،،،***،،،***،،،**
“اللّٰہ ہر چیز پر قادر ہے بیٹا. جو مانگنا ہے مانگو ہاں لیکن کسی کی بربادی کی دعا مانگنا جائز نہیں.” انہوں نے اس کی الجھنوں کا تشفی جواب دیا تھا. واپسی کے سفر میں وہ ان کی گفتگو ذہن میں دہراتا رہا. یہ تشنگی ابھی بھی باقی تھی کہ کیسے مانگے.؟ گھر پہنچ کر معمول کے مطابق وہ اپنے کمرے میں بند ہوا اور اسید کا نمبر ملایا:
“آااھاااا… آج عالی جاہ زرک جہاں کو میرا خیال کیونکر آ گیا؟” اسید اس پہ طنز کرنا نہیں بھولا تھا، لیکن وہ ان دنوں جس کشمکش سے گزر رہا تھا ایسے میں وہ اسید کے طعن و تشنیع برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو پایا…
“اسید..! خدارا میرے حال پہ رحم کرو.” ملتجی لہجہ، وہ مزید کچھ کہہ نہ پایا. اسے کب گوارا تھا زرک جہاں جیسے شاہ مزاج بندے کا یوں گڑگڑانا…
“تم اللہ کے قریب ہو، بہت زیادہ نہ سہی، لیکن مجھ سے تو کہیں زیادہ قریب ہو.. مجھے بتاؤ کہ اللہ سے من چاہی مراد کیسے مانگی جاتی ہے؟” اس کا مطالبہ حیران کن تھا، اسید کو سمجھ نہ آئی کہ کیسے اسے بتائے؟ کیسے سمجھائے.. اللہ سے مانگنا تو ہر انسان کا اپنا ذاتی فعل تھا. کہ کیسے مانگتا ہے؟ کوئی ضد کرکے منواتا ہے تو کوئی پیار سے، اور کچھ ایسے صابر بھی ہوتے ہیں جو راضی برضا ہو جاتے ہیں. اب اسید کیسے تعین کرتا کہ اس نے کیسے مانگنا تھا؟ مانگنا تھا یا رب کی رضا میں راضی ہو جانا تھا.
“ایسا ہے کہ آیندہ ہفتے، میں دس دن کے لیے فارغ ہوں، تو کیوں نہ کہیں اور گھومنے کی بجائے، ہم عمرہ کا ارادہ کر لیں.؟” اس نے بہت سوچ سمجھ کر اس کے سامنے یہ تجویز رکھی. کیا خبر وہاں جا کر اس کے دل کی دنیا ہی بدل جاتی.
“عمرہ کرنے…؟!! ؟؟” وہ سوچ میں ڈوب گیا.
“بھلا میری عمر ہے یہ عمرہ کرنے کی؟؟ ” نفس نے تاویل گھڑی تھی. “سنا ہے کہ وہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں.”دل نے راہ سجھائی.
“ٹھیک ہے، تم سیٹ کنفرم کرو.” اسید کی سنے بغیر اس نے فون بند کر دیا. جبکہ دوسری طرف وہ بہت کچھ سمجھانے کا ارادہ ہی کرتا رہ گیا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
یوسف محمد جب سے اس لڑکے سے ملے تھے بہت الجھے سے ہوئے تھے. بارہا حورعین کو دیکھتے اور سوچ میں پڑجاتے. زلیخا بی کافی دیر سے ان سے کوئی بات کر رہی تھیں اور وہ صرف ہوں ہاں کیے جا رہے تھے زلیخا بی نے زور سے ان کا کندھا ہلایا:
“کدھر گم ہو یوسف؟ میں کب سے بول رہی ہوں.”
“آں ہاں..! کیا بات کر رہی تھی تم.؟” وہ چونکے اور بےخیالی میں بولے.
“طبیعت ٹھیک ہے آپ کی؟ دو دن سے الجھے الجھے سے ہیں.” انہوں نے سر ہلایا انہیں پریشان کرنے کا کوئی مقصد ہی نہیں تھا.
“میں کہہ رہی تھی کہ حورعین کی شادی کی تیاری شروع کردیں آہستہ آہستہ.. تھوڑے پیسے جمع ہوئے ہیں میرے پاس. کچھ پیسے سعد عمر کی امی بھی حورعین کے ہاتھ پر رکھ گئی تھیں. خرچ ہی نہ ہو جائیں کوئی برتن یا کپڑے لا کر رکھ دیتے ہیں. آپ کیا کہتے ہیں؟” زلیخا بی نے اپنی رائے دے کر شوہر کا خیال جاننا چاہا.
“جو جی میں آئے کرو. ہم نے مقدور بھر کوشش کرکے ہر چیز دینی ہے اپنی دھی رانی کو. ان شاءاللہ” ذرا توقف کے بعد کہنے لگے:
“گھر سُونا ہو جائے گا اس کے جانے کے بعد زلیخا. کیسے دل لگے گا ہمارا.” اس کی جدائی کا خیال ان کی آنکھ نم کر دیتا تھا.
“بیٹیاں ہوتی ہی پرایا دھن ہیں یوسف… پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی تو اپنی شہزادیوں کو رخصت کیا تھا. ہم بھی اسی سنت کو ادا کریں گے.” وہ مسکرا دیے. زلیخا بی مزید گویا ہوئیں:
“میرا ارادہ ہے کہ ہادیہ کے ساتھ بھیج دیتی ہوں حورعین کو بازار. ہادیہ جاتی رہتی ہے اور حورعین اپنی پسند سے لے لے گی کچھ. مجھے تو کچھ تجربہ ہی نہیں.”
“جو تجھے مناسب لگے کر..” وہ کہہ کر کام پر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور زلیخا بی سوچتی رہ گئیں کہ کونسی ایسی بات ہے جو انہیں پریشان کیے دے رہی ہے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
“زرک جہاں.! تم سعوی عرب کیوں جا رہے ہو.؟” وہ کھانا کھا رہا تھا اور کافی دن بعد سکون سے کچھ کھا رہا تھا جب بیگم اسفند جہاں اس کے پاس آئیں. اس نے اچنبھے سے انہیں دیکھا.
“ویزا ایجنٹ کا فون آیا تھا اس نے بتایا” ان کے تمام سوالات کو سنتا وہ خاموشی سے کھانا کھاتا رہا.
“تم عمرہ کرنے جا رہے ہو؟”
“جب جانتی ہیں تو پوچھ کیوں رہی ہیں؟” اب کی بار وہ خاموش نہ رہ پایا.
“یہ عمر ہے کیا تمہاری عمرہ یا حج کرنے کی؟ اسید بھی ساتھ جا رہا ہے، اس کی تو چلو سمجھ میں آتی ہے، اس پہ اپنے دادا کا کافی اثر ہے لیکن تم کیوں جا رہے ہو؟” ان کا انداز برہمی لیے ہوئے تھا.
“آپ کو اعتراض کس بات پر ہے؟ میرے اس عمر میں عمرہ کرنے پر یا سعودی عرب جانے پر.” کھانا چھوڑ کر وہ ان سے مخاطب ہوا.
“مجھے دونوں پر اعتراض ہے.” کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے وہ خفگی سے کہنے لگیں.
“تمہیں ہوا کیا ہے آج کل؟ کبھی تم کہتے ہو کہ اللّٰہ سے مانگنا ہے کبھی تم اچانک عمرہ کرنے پر کمربستہ ہو جاتے ہو؟ یہ سب کیا ہے زرک جہاں.؟” وہ دونوں ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھے بے تاثر چہرہ لیے ان کو دیکھ رہا تھا.
“آفس تم نہیں جا رہے، ملنا تم نے سب سے چھوڑ رکھا ہے. کس کی کمپنی میں رہنے لگے ہو؟” کتنے دنوں کا دبا ہوا غصّہ آج باہر نکل آیا تھا. اور سامنے کوئی اور نہیں ان کا اپنا بیٹا ہی تھا جسے ہرگز اپنے معاملات میں کسی کی مداخلت پسند نہیں تھی.
“میں جو مرضی کرتا پھروں آپ کو میرے معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے. میں کہاں جاتا ہوں؟ کیا کرتا ہوں؟ کس سے ملتا ہوں..؟ سب میری زندگی سے متعلق ہے اور میں نے کبھی بھی آپ کو اپنی زندگی میں دخل انداز ہونے کی اجازت نہیں دی ممّی..!” وہ غصّے سے بھڑک ہی تو اٹھا تھا. اسفند جہاں بھی اس کی بھڑکیلی آواز سن کر وہیں رک گئے.
“مجھے کچھ مانگنا ہے یا عمرہ کرنے جانا ہے. یہ میرا مسئلہ ہے. جب آپ پہلے کبھی میرے لیے پریشان نہیں ہوئیں تو اب بھی آپ کو پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے.”
“تمہاری عمر کے نوجوان ورلڈ ٹور پہ جاتے ہیں، پارٹیز میں شریک ہوتے ہیں. کیا سے کیا بنتے ہیں.اور تم… تم ملّا بننے جا رہے ہو. اور کہتے ہو مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے. ” ان کا لہجہ خفگی لیے ہوئے تھا. زرک جہاں نے تلخی سے سر جھٹکا اور اٹھ کھڑا ہوا.
“میں ملّا بنوں یا شیطان… میری مرضی.. آپ میری جاسوسی کرنا بند کر دیجیے.” اور دور کھڑے اسفند جہاں کو ایک نظر دیکھتا وہاں سے چلا گیا. وہ جو خود اسے کئی دن سے ڈانٹنے کا تہیہ کیے ہوئے تھے کچھ سوچ کر خاموش ہو رہے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
“میرا بازار آنا ضروری نہیں تھا ہادیہ.” وہ گھر سے نکلنے کی عادی تھی ہی نہیں. زلیخا بی جو لے آتیں وہ بنا شکوہ شکایت کیے استعمال کر لیتی. ہادیہ کے گھر کے علاوہ کہیں نہیں جاتی تھی. آج بھی کافی لمبے عرصے کے بعد ہادیہ کے طعنے دینے پر ہی آمادہ ہوئی تھی. بڑی سی سیاہ چادر میں خود کو مکمل طور پر چھپانے کے بعد بھی اسے لگ رہا تھا کہ در و دیوار سے جا بجا آنکھیں اسے جھانک رہی ہوں. ساری خریداری ہادیہ نے ہی کی تھی وہ بس ایک کٹھ پتلی کی مانند اس کی ہاں میں ہاں ملاتی رہی. اور جب ہادیہ نے واپسی کے لیے کہا تو اس نے سکون کی گہری سانس خارج کی. جس پر ہادیہ تپ گئی. لیکن کچھ بولی نہیں. ہادیہ کا گھر پہلے آتا تھا اسے چھوڑ کر وہ اپنے گھر کے قریب پہنچی تو میدان کے پاس ایک عالیشان چمچماتی گاڑی دیکھ کر حیران رہ گئی. دوپہر کا وقت تھا وہاں اس وقت عموماً رش بھی کم ہی ہوتا تھا. اس نے گاڑی کے قریب سے ہو کر ہی گھر تک جانا تھا. اچانک ایک آدمی اس کے سامنے اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا. اس نے بمشکل خود کو اس شخص سے ٹکرانے سے روکا. بدحواسی میں چادر کا پلّو چہرے سے ہٹ گیا. ایک پل کے لیے دونوں کی نگاہیں باہم ہوئی تھیں.
ؔ؎ تُو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ.
زندگی جن کے تصوّر میں لٹا دی ہم نے.
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحِر آنکھیں.
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے.
ایک برق سی تھی جو اس پلک جھپکنے کے عرصے میں حورعین کے دل و دماغ میں آگ لگا گئی تھی. کئی دنوں سے بےچین دل کی تپتی زمین پر گویا سکون کی بوچھاڑ کے چند چھینٹے پڑے تھے. وارداتِ عشق نے اس کے دل پر حملہ کیا تھا. اس نے سہم کر نگاہ جھکا لی تھی. اور زرک جہاں کو لگا جیسے زمین و آسمان کی گردش اس کے فقط ایک اشارۂِ ابرو کی منتظر ہو. زبان گنگ تھی اور نظر خاموش. دید کی پیاسی تڑپتی نگاہیں ابھی سیر بھی نہ ہوئی تھیں کہ اس پری وش نے چہرہ ڈھانپ لیا. گویا مہتاب زیرِ سحاب آگیا تھا.
ؔ؎ وہ سراپا سامنے ہے، استعارے مسترد.
چاند، جگنو، پھول، خوشبو اور ستارے مسترد.
تذکرہ جن میں نہ ہو ان کے لب و رخسار کا.
ضبط وہ ساری کتابیں، وہ شمارے مسترد
اس سے قبل کہ وہ حواس کی دنیا میں پلٹ آتا اور کچھ کہتا وہ کنی کترا کر اس کے پاس سے ہوتی تیز قدموں سے چلتی گھر چلی گئی. زرک جہاں کی سانس تھم گئی تھی. وہ جاتے جاتے رہا سہا سکون بھی چھین لے گئی تھی. آتشِ عشق پہلے سے بڑھ کر فزوں ہوئی تھی. دل و دماغ سے بس ایک ہی صدا آ رہی تھی
تیرے عشق نچایا کرکے تھیّا تھیّا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
وہ گھر آ تو گئی تھی لیکن جیسے گمشدہ ہو کر. اس کی خاموشی کو زلیخا بی نے تھکاوٹ پر محمول کیا تھا. رات کو صرف ابّاجی کے بہت اصرار کرنے پر اس نے چند لقمے زہر مار کیے. یوسف محمد نے بھی سوچا کہ شاید وہ بازار جانے کی وجہ سے تھک گئی ہے اس لیے نہ کچھ کہا نہ پوچھا. وہ کہنے کو تو جلدی سونے کو لیٹ گئی لیکن جیسے ہی آنکھیں بند کرتی وہ گہری سیاہ روشن آنکھیں پردۂِ چشم پر نمودار ہو کر اس کا سکون غارت کر دیتیں. ساری رات وہ اضطراب کی کیفیت میں کروٹیں بدلتی رہی. ایک لمحے کے لیے بھی سو نہیں پائی تھی. فجر کی نماز کے لیے اٹھی تو آنکھیں جل رہی تھیں. دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو لفظ ہی ادا نہ ہوئے.
“یااللّٰہ.! میرے دل کو اپنی اور میرے امّاں ابّا کی رضا میں راضی رکھنا. مجھے بھٹکنے اور بہکنے سے بچانا مولا. میں بہت کمزور اور ناتواں ہوں. راہ سے بھٹکنا سہہ نہیں پاؤں گی مولا. تُو ہر ہر لمحہ میرا حامی و مددگار رہنا. اے اللّٰہ تجھے تیرے پیارے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا واسطہ مجھے دنیا کے فتنوں اور اس کے شر سے محفوظ فرمانا.” رقّت آمیز انداز میں دعا مانگ کر وہ وہیں جائے نماز پر گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر بیٹھ گئی. اور یوسف محمد کے مسجد سے واپس آنے کا انتظار کرنے لگی.
“ایسے کیوں بیٹھی ہے دھیے؟ ٹھنڈ بڑھ رہی ہے چل اندر رضائی میں بیٹھ.” یوسف محمد اسے دیکھ کر فکرمندی سے گویا ہوئے.
” ٹھنڈ نہیں لگ رہی ابّاجی، مجھے یہیں آپ سے بات کرنی ہے” اس نے ان کا ہاتھ تھاما. انہوں نے سردی میں بھی اس کے ہاتھ کی تپش محسوس کی تھی. کوئلوں کی چھوٹی سی انگیٹھی جو وہ مسجد جانے سے پہلے صرف اسی کے لیے دہکا کر جاتے تھے لا کر اس کے قریب رکھی اور کہا:
“اب بول دھیے.! کیا پریشانی ہے میرے بچے کو.” وہ قریب ہوئی ان کی گود میں سر رکھ کر بولی.
ابّاجی.! آپ کہتے ہیں انسان کا دل ہی اس کے لیے سب سے بڑا فتنہ پرور ہوتا ہے. آپ کیوں کہتے ہیں ایسا.؟” وہ سوال سن کر حیران ہوئے لیکن حیرت ظاہر کیے بنا بولے.
“دیکھ پتر.! میری کیا مجال کہ حکمت و دانائی کی ایسی گہری بات کروں. میں ٹھہرا نرا چٹّا ان پڑھ، مجھے جو علم جہاں جہاں سے ملتا گیا میں سمیٹتا گیا. سیپارہ پڑھانے والے استاد جی اللّٰہ انہیں بخشے، ایک حدیث روزانہ سنایا کرتے تھے جس کا مفہوم ہی یاد ہے.” اس کا سر سہلاتے وہ کچھ یاد کرنے کے بعد بولے:
“وہ بتایا کرتے تھے کہ بچوں انسان کا دل ہر لمحہ ہر آن بدلتا ہے کبھی یہ جذبۂِ ایمانی سے ایسا لبریز ہو جاتا ہے کہ گویا اس سے بڑھ کر مسلمان ہی نہیں کوئی اور یہ کبھی کوئی گناہ کر ہی نہیں سکتا. اور کبھی اس پر شیطان ایسا حاوی ہوتا ہے جیسے کبھی مسلمان تھا ہی نہیں. اور یہ میرے یا تمہارے کہے کی بات نہیں اللّٰہ کے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان ہے.” ان کے الفاظ اور شفیق ہاتھوں کا لمس اس کی وحشت کو کم کر رہا تھا. نیند آنکھوں کی دہلیز پر آ پہنچی تھی.
“یہ انسان کا دل ہی تو ہے دھیے! جو اچھے یا برے رستے پر چلاتا ہے. کتنے راہ سے بھٹکے لوگوں کو ان کی عقل دلائل دے دے کر سیدھے راستے پر بلاتی ہے لیکن وہ دل کا کہا سنتے اور دل کا کہا ہی مانتے ہیں. اور ضد پر اڑے رہ کر ساری عمر اللّٰہ کی نافرمانی میں گزار دیتے ہیں.، اور تو دیکھ نا کہ کسی کی تکلیف پر دکھی اور خوشی میں خوش بھی تو یہ دل ہی ہوتا ہے. اور حسد، کینہ، بغض اور غرور و تکبّر جیسی برائیاں بھی تو دل ہی میں جنم لیتی ہیں.؟”
“اور ابّاجی عشق کا چشمہ بھی تو دل سے ہی پھوٹتا ہے.!” ان کے خاموش ہونے پر وہ بےساختگی میں کہہ گئی تھی. یوسف محمد کی خاموشی نے احساس دلایا کہ وہ کیا بول گئی تھی. لیکن انہوں نے کمال مہارت سے اپنی حیرت کو چھپایا اور نرمی سے بولے:
“ہاں دھیے.! عشقِ الٰہی کا سرچشمہ بھی ہمارا دل ہے. اور یاد رکھ پتر.! جس دل میں اللّٰہ کا عشق پیدا ہو جائے تو اس دل کے لیے پھر دنیاوی عشق و محبت سب ہیچ ہوجاتا ہے.” انہوں نے دیکھا کہ وہ ان کی بات سنتے سنتے ہی سو گئی تھی. وہ گہری سوچ میں تھے کچھ متفکر سے، لامتناہی سوچوں کا شکار ہوئے تھے.
مولا میری بچی کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا.” ان کا روم روم اس کے لیے دعا گو تھا. اس بات سے بےخبر کہ عشق کی آگ تو اس کے دل میں بھڑک چکی تھی. یہ وہ آگ تھی جو بنا سوچے سمجھے بھڑک اٹھتی تھی.
ؔ؎ عشق ہے وہ آتش غالب.
جو لگائے نہ لگے، بجھائے نہ بجھے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
“پتا نہیں کیا کر رہا ہے یہ لڑکا، کیا خنّاس بھرا ہوا ہے اس کے دماغ میں کہ عمرہ….” بیگم اسفند جہاں غصّے سے کف اڑا رہی تھیں. زرک جہاں آج ایک گھنٹہ قبل ہی پی آئی اے کی فلائٹ سے سعودی عرب روانہ ہوا تھا اور کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اسید فی الحال اس کے ساتھ نہیں جا سکا تھا، اس کا ارادہ تین دن بعد جانے کا تھا.
“تمھارے بگڑنے سے وہ واپس تو نہیں آ جائے گا. دس دن کے لیے گیا ہے تو دس دن بعد ہی آئے گا سو بی ریلیکس شیریں.” اسفند جہاں نے ان کا غصّہ فرو کرنا چاہا.
“آپ تصوّر نہیں کر سکتے اسفند کہ مجھے کتنی شرمندگی محسوس ہوئی آج جب میٹنگ کے بعد سارے اسٹاف کے سامنے بیگم عثمانی نے یہ کہا کہ سنا ہے زرک جہاں عمرہ کرنے جا رہا ہے. پھر کہنے لگیں میری ردا ورلڈ ٹور پر جا رہی ہے تم زرک سے کہو عمرہ کے لیے عمر پڑی ہے ابھی زندگی کے مزے لوٹے اور میری بیٹی کے ساتھ ہی گھومنے کا پروگرام بنا لے.” سار اسٹاف جن تمسخر بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا… اف میرے خدا میں بیان نہیں کر سکتی.” انہوں نے کنپٹی دبائی صبح سے اب تک سوچ سوچ کر دماغ ہی ماؤف ہو گیا تھا. انہوں نے زرک جہاں کے عمرہ پر جانے کو سر پر ہی سوار کر لیا تھا ان کے برعکس اسفند جہاں نے اس بات کو ایسے ہی لیا تھا جیسے وہ لندن یا اٹلی کے دورے پر ہو. ان کے خیال میں وقتی طور پر وہ ان جذباتی لمحات کی زد میں آیا ہے جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا.
“آپ کو اسید سے پوچھنا چاہیے تھا کہ وہ کس کی کمپنی میں رہا ہے ان دنوں؟”
“کمپنی تو تب ہوتی جب وہ کسی سے ملتا… ایسا تنہائی پسند پہلے نہیں ہوا تھا وہ. اور یوں بھی اسید اور وہ بچپن سے ساتھ ہیں آپ جانتے ہی ہیں کہ کب وہ دونوں ایک دوسرے کے راز اگلتے ہیں.” وہ تھکے تھکے لہجے میں گویا ہوئیں.
“ہاں لیکن یہ کالج یا یونیورسٹی کا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے شیریں.. میں خود زرک جہاں کے اس رویّے کو لے کر بہت متحیّر اور متفکر ہوں اس سے پہلے اس نے کسی معاملے میں شکایت کا موقع نہیں دیا تھا. لیکن پچھلے ایک دو ماہ میں وہ ہر کام اور ہر بات خلافِ معمول اور اپنی عادت کے برخلاف کر رہا ہے.” انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور اسید سے بات کرنے کی ہامی بھری.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
وہ ابھی ابھی ہوٹل پہنچا تھا. جہاں اسے کمرہ ملا تھا وہ ہوٹل مسجدِ حرم کی بالکل سیدھ میں تھا بس کچھ قدم کے فاصلے پر ہی وہ عظیم الشان عمارت تھی جہاں آنے کے خواب ہر سچا مسلمان دن رات سوتے اور جاگتے ہر وقت دیکھتا ہے.
“آپ کھڑکی کے پردے ہٹا کر مسجد کے پُرنور مینار اور خانۂِ کعبہ کو دیکھ سکیں گے.” ہوٹل انتظامیہ نے پُرجوش انداز میں اسے اطلاع دی تھی. اور وہ یوں گم صم تھا جیسے کچھ کھو گیا ہو یا جیسے دماغ کا باقی جسم سے تعلق ہی نہ رہا ہو. سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں سلب ہو کر رہ گئی تھیں. اسے ایک گھنٹہ ہوا تھا جب ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا تھا اور تب سے اب تک وہ ایک ہی حالت میں بیٹھا تھا کپڑے تبدیل کرنا دور اس نے پانی کا ایک گھونٹ تک حلق سے نیچے نہ اتارا تھا. تبھی مسجدِ حرم سے نمازِ عشاء کی صدا بلند ہوئی تھی. وہ ایک جھرجھری لے کر خوابیدہ حالت سے ہوش میں آیا تھا. مؤذن کی پُر ہیبت اور بارعب آواز… اس پر عجیب سی کپکپی طاری ہونے لگی تھی. اذانیں بہت سنی تھیں اُس نے، لیکن ایسی آواز نہ پہلے کبھی سنی تھی اور نہ ہی ایسی ہیبت اس پر پہلے کبھی طاری ہوئی تھی. اسے لگا تھا ایک صرف آنکھ ہی نہیں ہر بن مُو سے بھی آنسو پھوٹ پڑیں گے اور انہی آنسوؤں میں اس کا دل بھی بہہ جائے گا. دل کی عجیب کیفیت تھی.
“اب اگر میں اللہ سے اسے مانگوں گا تو کیا وہ مجھے مل جائے گی.؟ کیا یہی وہ کیفیت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس وقت ہر دعا قبول ہوتی ہے.؟” اس کے دل نے راہ سجھائی. وہ کھڑکی میں آ کھڑا ہوا تھا، پردہ ہٹایا تو سامنے سیاہ مقدس غلاف میں لپٹی وہ عمارت تھی، جو کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کا سکون تھی.
” کیا مجھے مانگنا چاہیے؟” وہ سوچ میں گم ہوا تھا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...