الف۔
کھلا ہوا چرخ ہفتمیں ہے
نئے نئے زندہ لب فرشتے اُتر رہے ہیں
تمام بے اختیار حوریں نکل کے اس پر دۂ سیہ رنگ سے
اُجالے میں آ رہی ہیں۔
بدن بدن تازہ تازہ جیسے کہ آم کے نرم نرم پتے
عجیب خوشبو کہ جیسے پھل لگنے کے طلسمات جاگتے ہوں
بے۔
فرشتے ہاتھوں میں فائیلوں کو لئے ہوئے درمیان جنت گذار رہے ہیں
حسین اور کم لباس حوروں کے ہونٹوں پر اک معاشی لالی سی آ گئی ہے
فرشتے اعمال نامہ لمحہ لمحہ لے کر
سروں کو حدِ ادب بنائے گذر رہے ہیں
ٹیاپ ٹپ ٹپ خطوط الفاظ بن رہے ہیں
کھُلا ہوا چرخ ہفتمیں ہے۔
اُٹھاؤ، اب چائے کی پیالی، وہ سامنے جو گذر رہی ہے
خدا بچائے۔
فرشتے سینوں کے چار خانوں میں گر پڑے ہیں
چمکتی حوریں نگاہ سے جاں کے فاصلے پر
ٹھہر ٹھہر کے گذر رہی ہیں
کھلا ہوا چرخ ہفتمیں ہے۔
یہ میگزین اور یہ پاک حوریں
ہر ایک عضو بدن تقدس
ہر ایک لمس بدن طہارت
فرشتے سوکھے ہوئے لبوں پر
زبان رکھ کہ وہ شہد اور دُودھ کی مصفا عظیم نہروں کو دیکھتے ہیں
تے۔
ہمارے سارے ثواب لے کر
زمین کے بے مآل اربابِ آرزو کا نصیب کر دے
’’کھلا ہوا چرخ ہفتمیں ہے؟
وہ سامنے نہیں گذر رہی ہے
میں اپنی کھڑکی سے جھانکتا ہوں
تمام بے جان قمقمے اب پگھل رہے ہیں
جو میز پر اک گھڑی پڑی ہے۔ وہ بند ہے
یہ جو کلینڈر لگا ہوا ہے۔ پرانا ہے اور پھٹ چکا ہے
یہ سرد بستر کسی حرارت کا منتظر ہے
خدائے حکمت۔ میں کس طرح سے دعائیں مانگوں
٭٭٭